دور فتن میں مسلمانوں کے لئے قواعد و ضوابط

آج کے پرفتن دور میں اپنی حفاظت کے لیے ہمیں اللہ سے دعا گو ہو نا چاہیےاور اس اللہ کی پناہ میں آنا چا ہیےجو ان تمام فتنوں سے بالا تر ہے جو دین کے لیے مہلک ہیں جو عقل کو شل کر دیتے اور جسم و جا ن کو تباہ کر دیتے ہیں اور ہر خیر کے دشمن ہیں ایسے سب فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگنی چا ہئے کیوں کہ فتنوں  سے کسی خیر کی توقع  نہیں کی جا سکتی ۔نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول بھی یہ تھا کہ آپ فتنوں سے پناہ مانگا کرتے اور لوگوں کو ان سے خبر دار کرتے تھے۔
یہی وجہ  ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے الصحیح میں باب الفتن کا آغاز اس آیت کریمہ سے کیا ہے کہ "اس فتنہ سے ڈر جا ؤ جو صرف ظالموں پر نہیں آئےگا ۔"
اسی  طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  فتن سے بچانے کا رویہ اپناتے کیونکہ فتنے جس وقت وقوع پذیر ہو تے ہیں تو صرف ظا لموں پر نہیں بلکہ دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں ۔ان کی پکڑ سے کو ئی محفوظ نہیں رہتا ۔چنانچہ ہمیں چا ہیے کہ ہم بھی ان سے محفوظ رہنے کی تدبیر کریں ۔ہر ایسی چیز سے پرہیز کریں جو ہمیں فتنہ سے قریب  کر دے ۔حدیث میں آتا ہے کہ قرب قیامت فتنوں کی کثرت ہوجا ئے گی۔
"زمانہ قیامت قریب آ جا ئے گا ۔عمل کی روایت سست پڑ جا ئے گی  ۔اور ان میں بخیلی پھوٹ پڑے گی یا کثرت پکڑ جا ئے گی۔یا آپ نے کہا کہ فتنے ظاہر ہو جا ئیں گے"
وجہ یہ ہے کہ فتنوں کے واقع ہو نے سے فساد میں کثرت ہو جا تی ہے اور فساد میں شدت قیامت کے واقع ہو نے کی اہم وجہ ہے ۔نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رحمت کا یہ فیض تھا کہ آپ نے ہمیں فتنوں سے بچا ؤ کی تلقین کی اور اپنی دعاؤں میں اس کو شامل کیا ۔اللہ تعا لیٰ نے بھی یہی بات سکھلا ئی :
﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً﴾
اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر کہتے ہیں کہ "یہ آیت باوجود اس کے کہ اس کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  تھے عام مسلمانوں کو بھی شامل ہے کیونکہ اس آیت کے تحت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں کو فتنہ سے بچا ؤ کی تلقین کیا کرتے تھے"علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں فتنہ کی وضا حت ایسے کی ہے ۔
"فتنوں میں بہت سی چیزیں شامل ہیں جن میں امر بالمعروف و نھی عن المنکر میں مجرمانہ غفلت برتنا اور فرقہ بندی و اختلا فات میں پڑجا نا اسی طرح اسی طرح بدعت کے نمودارہو نے کے وقت اس کی تر دید نہ کرنا بھی اس میں شامل ہے"مزید فر ما یا کہ" حالات کی مناسبت سے فتنے کی ہر قسم اس میں شامل ہے"یعنی اگر ایسے حالات ہوں کہ مسلمانوں میں اختلا فات و تعصب اور گروہ بندیوں کا دور دورہ ہو تو اس وقت ہمیں ایک دوسرے کو اس آیت کے ذریعے نصیحت کرنی چا ہیے کہ "لوگو !اختلا فات اور فرقہ بندیوں کو بھول جا ؤ کیونکہ اس کا وبال اور انجا م کا ر  صرف ظا لموں کے حصے میں نہیں آئے گا بلکہ سب کو اپنے گھیرےمیں لے لے گا ۔"
اس تمہید کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ ہم یہ صلا حیت رکھتے ہیں کہ اہل علم کے ذریعے عوام میں فتنوں سے بچنے کا شعور پیدا کریں اور خود بھی ان اصولوں سے آگا ہ ہوں جو ہمیں آزمائش کا مقابلہ کرنے میں مدد دیں اس لیے کہ فتنوں کی کثرت میں عام شخص بھی ان سے محفوظ رہنے کی تدبیر سوچتا اور دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ بالخصوص نو جوان اسلامی ذہن رکھنے والا طبقہ اس میں کا فی متحرک ہو تا ہے چنانچہ میں بھی لا زمی سمجھتا ہوں کہ اپنی قدرو وسعت کے مطا بق سلف اور اہل علم حضرات سے ان مسائل کا حل آپ کے سامنے رکھوں اور دین میں اس بارے میں ہمیں جو راہنما ئی دستیاب ہے اس سے آپ کو آگا ہ کروں ۔
کیونکہ جب فتنوں کی ظاہری صورت پر نظر نہ رکھی جا ئے اور مستقبل میں ان کے نتا ئج پرنہ سوچا جا ئے تو بہت ممکن ہے کہ ہماری حالت آج سے بھی بدترہو جا ئے ۔بالخصوص  اس حا لت میں جبکہ اہل علم بھی اس سلسلے میں دینی بصیرت اور ہدایت سے قدرے غافل ہوں اور اللہ اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رضا  کے مطا بق نت نئے پیدا ہو نے والے حالات اور نمودارہو نے والے فتنوں کا مقابلہ نہ کرسکتے ہوں ۔
چنانچہ ضروری ہے کہ ان قواعد کو سیکھ  کر ان پر عمل پیرا ہوا جا ئے ۔ہمارا ایمان ہے کہ دینی رشد و ہدایت پر عمل پیرا ہو نے سے جہاں غلط شے میں مبتلا ہو نے سے ہم بچ جا ئیں گے۔ وہاں اس کا نتیجہ بھلا ئیوں کی کثرت میں نکلے گا جس پر ان شاء اللہ ہمیں ندا مت نہ ہو گی۔

الغرض: کسی معاملے میں اصول و ضوبط کی معرفت رکھنا فوائد سے خالی نہیں ہو سکتا ۔اب ہم ان قواعد سے ابتدا کرتے ہیں جنہیں ادوار گذشتہ میں علماء اہل السنۃ والجماعۃ نے قرآن و حدیث سے وضع کیا اور خود ان پر عمل کر کے دکھا یا ۔

اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہمیں معلوم ہو قاعدہ اور ضابطہ کسے کہتے ہیں ؟کسی مسئلہ میں ضابطہ اسے کہا جا تا ہے۔۔۔جس کے ذریعہ ہم ایک قسم کے مسائل میں حکم لگا نے کی معرفت حاصل کرسکیں اور ایک ہی قبیل کے مسائل کو اس ضابطے پر پیش کر کے حل کر سکیں ۔۔۔جبکہ قاعد ہ وہ امر کلی ہے جس کی طرف مختلف قسم کے مسائل کو لوٹا کر فیصلہ کیا جا سکے۔

نبی اکرم صلوات اللہ و سلامہ علیہ کا ارشاد گرا می ہے۔

"بلا شبہ تم میں جو شخص میرےبعد زند رہے گا وہ عنقریب بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا ان اختلا فات کے دور میں تمہیں چا ہیے کہ میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین  (جو ہدا یت یافتہ تھے)کی سنت اور طریقے پر عمل پیرا رہو ۔اس کو مضبوطی سے پکڑ ے رکھو۔"

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد ایسے ہی ہوا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   نے بہت زیادہ اختلا فات اور جھگڑے دیکھے اور صحا بہ کرام میں وہی زیادہ کا میاب رہے جنہوں نے ان قواعد کو ملحوظ رکھا جن کی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تعلیم دی تھی اور خلفاء راشدین  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی سنت تھی ۔

ان قواعد پر عمل پیرا ہو نے میں جن فوائد کی توقع ہے وہ حسب ذیل ہیں ۔

پہلا فائدہ جس کے حاصل ہو نے کا امکان ہے وہ یہ کہ مسلمان کا نظر یہ ایسے غلط تصورات سے محفوظ رہ سکتا ہے جس سے شرع نے منع کیا ہے دوسرے الفاظ میں انسان  غلط نظریات میں مبتلا ہونے سے بچ سکتا ہے اور واضح رہے کہ یہ تصورات و نظریات انسان کے رویوں پر بہت شدت سے اثر انداز ہو تے ہیں اور اس کے معاشرتی اجتماعی اور خاندانی حالات پر فیصلہ کن انداز میں اثرا ت واقع ہو تے ہیں ۔چنانچہ  ان قواعد پر عمل پیرا ہو نے سے انسان کی ذہن سازی صحیح اسلامی نظریات پر استوار ہو تی ہے۔

دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمان غلطی سے محفوظ رہے گا اور صراط مستقیم  سے نہ بھٹکے گا کیونکہ اگر وہ ہدایت الٰہی سے ان فتنوں کے بارے میں فائدہ نہیں اٹھا تا تو ان گمراہیوں میں اس کے مبتلا ہو نے کا خدشہ ہے اور یہ ممکن نہیں کہ وہ ان سے متا ثر نہ ہو جس کے نتیجے میں قدم بقدم وہ راہ ہدایت سے دور ہو سکتاہے۔

ان قواعد کی اس قدر اہمیت کیوں ہے؟ اس لیے کہ علماء اہل سنت والجماعت یعنی ہمارے اسلاف نے دلائل کی روشنی میں اپنے وسیع دینی فہم و تجربے کی بنا پر ان کو اخذ کیا ہے اور ہمارا یہ حسن ظن ہے کہ جو شخص دلیل اور علماء اسلاف کے نقش قدم پر چلے گا ۔امید ہے کہ وہ اپنے طرز عمل پر ندامت سے بچا رہے گا ۔

ان قواعد وضوابط کی پابندی کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے مسلمان گناہ میں واقع ہو نے سے بچ جا تے ہیں کیونکہ ان قواعد کا لحاظ کئے بغیراگر کو ئی شخص اپنی صوابدید کے مطابق رستہ بنا نے کی کو شش کرے گا وہ غلطی اور گناہ میں واقع ہو نے سے محفوظ رہ سکتا کیونکہ اپنی صوابدید کے مطا بق اختیار کئے ہو ئے قول و فعل میں انجا م کار علم نہیں ہو سکتا ۔لیکن جب آپ قواعد وضوابط کی  روشنی میں دلیل کا رستہ اختیا ر کریں گے تو غلطی سے محفوظ رہیں گے۔اس کے بعد بھی اگر خطا کا امکا ن ہے تو اللہ سے امید رکھنا چا ہیے کہ ہمیں اجر سے محروم نہ  کرے گا ۔

قبل اس کے کہ ان قواعد کا ذکر شروع کیا جا ئے یہ وضا حت ضروری ہے کہ ان اصولوں اور قواعد کا ماخذ کیا ہے ۔کہاں سے ہم نے ان کو حاصل کیا ہے۔چنانچہ واضح رہے کہ ان ماخذ اور دلیل دو چیزوں میں سے کو ئی ایک ضرور ہے۔یاتواولہ شرعیہ یعنی قرآن و حدیث سے یہ ضابطے واضح طورپر ثابت ہیں اور علماء اہل سنت والجماعت نے ان کو شرعی ماخذ سے حاصل کیا ہے۔دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ان ماخذ وہ عملی سنت (جس کی مسلمانوں نے رعا یت کی ہے)ہو جس پر نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین   نے عمل کیا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   تابعین اور آئمہ اسلام اہل سنت والجماعت کے امام اور سلف کے لیے فتنوں کے نمودارہونے کے وقت عملی سیرت ہوا کرتی تھی جس پروہ عمل پیرا ہوا کرتے تھے۔اور اس بارہ میں ان کا رویہ امت کے لیے چرا غ را ہ ہے۔اور مختلف حالات میں مختلف آئمہ نے ان اصولوں پر عمل کیا ۔

لہٰذا ہمیں یقین ہے کہ اس وقت تک ہماری نگا ہ دھوکہ نہ کھا ئے گی اور عقل فریب کا شکار نہ ہو گی جب تک ہم ان کے رستے پر عمل پیرا رہیں اور ان کی عملی سیرت کو حرزجان بنا ئیں گے۔ اور یہ اللہ بزرگ و برتر کی وسیع اور جلیل رحمت ہے کہ اس نے ہمیں کسی ہدایت کے بغیر  نہیں چھوڑا ۔علماء ۔۔۔اہل السنت والجماعت ۔۔۔۔ہی وہ شخصیتیں ہیں جن کی طرف اس معا ملے میں رجوع کیا جا سکتا ان کی را ئے کا عتبار کیا جاسکتا اور ان کے فہم اور اقوال کو مشعل راہ بنا یا جا سکتا ہے کیونکہ وہی شریعت کا علم حق رکھتے ہیں اور اس کے کلی و بنیا دی قواعد اور اصولوں کی ایسی معرفت رکھتے ہیں ۔جس سے غلطی اور تفرقہ کا امکا ن باقی نہیں رہتا ۔

جو شخص کسی صاحب بصیرت ذی علم کے پیچھے چلتا ہے اور دلا ئل شرعیہ کی روشنی میں قدم اٹھاتا ہے اس کے لیے خوش بختی ہے اور اس اتباع میں اس کے لیے ہدایت کی بشارت ہے۔۔اور بعد میں ندامت سے محفوظ رہنے کی واثق امید ہے۔

فتنوں کے زمانے میں شرعی قواعد و ضوابط :۔

ایسے دور میں کہ جب فتنے چہارسو پھیل جا ئیں اور حالات ہر دم غیر یقینی ہوں تو ہمیں نرمی تدبر اور تحمل کے دامن میں پناہ لینی چا ہیے ۔

یہ قاعدہ بڑا اہم ہے یعنی تین امور کی طرف توجہ دی جا ئے۔

پہلی الرفق ۔۔۔یعنی نرم رویہ !کیونکہ صحیح حدیث میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی ہے۔

"نہیں ہو تی نرمی کسی چیز میں مگر وہ نرمی اس کو خوب تر کر دیتی ہے اور کسی چیز میں سے اگر نرمی ختم کر دی جا ئے تو اس کی ہیئت بگڑ جا تی ہے"

اہل علم کہتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کیا یہ قول ما كان في شيئ الا زانهہے اور اور نفی کے سیاق میں آیا ہے اصول کا تقاضا یہ ہے کہ یہ الفاظ تمام قسم کے امور کو شامل ہو ۔ یعنی نرمی ہر چیزمیں پسندیدہ ہے جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  فر ما تے ہیں "اللہ تعا لیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتے ہیں ۔" نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے فر ما ئی اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  "باب الرفق فی الامرکله " کے تحت لائے ہیں ۔

چنانچہ ہر کام میں نرمی کا رویہ ہو نا چا ہیے اور غیض و غضب کے بالمقابل نرمی والفت کو اپنانا ضروری ہے کیونکہ نرم رویہ کا خو گر کبھی نادم نہیں ہو تا ۔نرمی ہر چیزمیں حسن پیدا کرتی ہے۔

افکار میں طرز عمل میں اور ہراس چیز میں جو آپ کو پیش آسکتی ہے ۔

چنانچہ کسی فتنے کے پیش آنے پر نرم روی سے اس کا جائزہ لیں اور جلدی کرتے ہو ئے فوری فیصلہ نہ دے دیں ۔ہر کام میں خوبصورتی کو نظر انداز نہ کریں ۔یہ بھی یاد رکھیں کہ خوبصورتی اور حسن نرم رویہ سے پیدا ہوتا ہے۔

دوسری چیز ہے "التانی"جس کا مطلب ہے کسی کام کو آہستہ آہستہ انجا م دینا عجلت کا مظاہرہ نہ کرنا اشج عبد قیس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا کہ۔

"تجھ میں دو خصلتیں اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہیں : تحمل اور آہستگی سے کسی کام کو انجا م دینا"

یہ بھی ایک اچھی خصلت ہے کہ انسان عجلت کے بالمقابل تدبر سے کو ئی کا م  کرے ۔اسی لیے قرآن میں ارشاد ہے۔

"انسان (عجلت کی بدولت ) خیر کی دعا کرنے کی طرح شر کو دعوت دے دیتا ہے۔در حقیقت  انسان جلد باز ہے"

اہل علم کے مطا بق اس آیت میں جلد باز انسان کی مذمت کی گئی ہے ۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں کبھی بھی بازی کا مظاہرہ نہ کیا ۔

تیسری چیز ہے تحمل ! متغیر حالات اور فتن ابیہ کے طریق سے لیث بن سعد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ مستورد قرشی کے پاس عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیٹھے ہو ئے تھے۔تو مستورد کہنے لگا :میں نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سنا آپ کہتے تھے قیامت کے وقوع کے وقت اکثرلو گ روی ہوں گے۔ عمرو بن العاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا : اپنی بات پر نظر ثانی کریں ۔مستورد نے جواب دیا: مجھے کیا پڑی ہے کہ میں وہ بات نہ کہوں جو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہی ہو؟ عمرو کہتے ہیں "اگر یہی بات ہے تو رومیوں میں چار عادتیں خاص طور پرپا ئی جا تی ہیں ۔پہلی یہ کہ فتنہ پیش آنے کے وقت سب سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں دوسری یہ کہ مصیبت کے وقت کے بعد سب سے پہلے وہ اس پر قابو پا کر اس کا تدارک کرتے ہیں ۔پھر مزید خصلتیں بتا ئیں بلکہ پانچویں کا بھی ذکر کیا ۔

واضح ہے کہ اس بات سے عمرو بن عاص روم  کے عیسائیوں اور کفار کی مدح سرا ئی نہیں کرنا چا ہتے تھے بلکہ وہ تو اس سے ثا بت کرنا چا ہتے تھے کہ ان کی بقاء اور آخر زمانے تک کثرت میں ہو نے کی وجہ یہ ہو گی۔ کہ وہ فتنوں پر بڑے تحمل سے غور و فکر کر کے ان کا فوری تدارک اور علاج کرتے ہیں چنانچہ  قیامت کے واقع ہو نے پر سب سے زیادہ تعداد میں ہوں گے۔صحیح مسلم کی شرح میں سنو سی اور اُبی کے کلا م کا خلا صہ یہی ہے ۔

اس بات  سے کہ قیامت سب سے زیادہ رومی لوگوں پر قائم ہو گی۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا مقصود ایک تنبیہ ہے کہ اس وقت روم کے لوگ سب سے زیادہ ہو ں گے۔ کیوں ؟اس لیے کہ عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کہتے ہیں کہ ان میں چا ر خصلتیں ہو ں گی اور پہلی وہ ہے جو سب سے اہم ہے اور جسے ہم نے بھی ذکر کیا ہے کہ جب فتنے نظر آنے لگیں تو تحمل سے کام لیتے ہیں غصہ نہیں کھا تے نہ ہی جلدی کرتے ہیں بلکہ اس کے تدارک پر غور کرتے ہیں اس درست رویہ کی وجہ سے تا قیامت تک ان کی کثرت رہے گی چنانچہ ہمیں اس عادت کو اپنانا چا ہیے جس کی وجہ سے حضرت عمرو نے اہل روم کی تعریف کی توجہ فرمائیں مسلمان دوسروں کے بجا ئے سب سے زیادہ خیر کے حقدار ہیں۔تحمل و بردباری ہر معاملہ میں پسندیدہ ہے آدمی کی ذہانت اور سمجھ داری کی دلیل ہے اور معاملے کو بہتر طریقے سے کنٹروں کرنے میں انسان کا مدد گا ر ہے۔

مذکورہ قاعدہ میں بعض امور کا تعلق ضوابط سے ہے اور بعض قاعدے ہیں ۔میں نے سب کو اکٹھے اس لیے بیان کیا کہ ان کا استعمال ایک دوسرے سے مشروط اور یکجا ہے۔

دوسرا قاعدہ :۔

کسی فتنے کے ظہور اور حالات کی تبدیلی پر کو ئی فوری فیصلہ نہ سنا دیا جا ئے بلکہ اس کو اپنی مکمل ہیئت قائم کرنے کی مہلت دی جا ئے پھر اس پر اتنا تبصرہ اور جا ئزہ پیش کیا جائے۔یہ قاعدہ اس اصول سے ماخوذہے کہ۔۔۔"کسی شےپر حکم لگا نا اس کی اصل ہیئت سے بعد کی چیز ہے"

باشعور حضرات نے اس قاعدہ کا اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی بڑی کثرت سے استعمال کیا ہے کتاب اللہ میں اس کی شرعی دلیل یہ آیت ہے کہ" اور تو اس چیز کا فیصلہ نہ دے جس کا تجھے علم نہیں " مطلب یہ ہے کہ ایسا امر جس کو آپ جا نتے نہیں  اور اس سے اچھی طرح واقف نہیں اس کے پس منظر و پیش منظر سے آگا ہ نہیں تو اس میں فیصلہ دینے سے آپ کو بچنا چا ہیے ممکن ہے ۔

کہ آپ کا فیصلہ لوگوں کے روپے پر اثر انداز ہو یا آپ خود اس فیصلے میں کسی اور عنصر سے متا ثر ہوں اور صحیح فیصلہ دینے کی پو زیشن میں نہ ہوں ۔

اس قاعدے کو ہم اپنی عمومی زندگی میں جا بجا استعمال کرتے ہیں مختلف حالات میں اس فیصلے کو اپناتے ہیں ۔عقلی طور پر بھی اس کو اپنانا ضروری معلوم ہو تا ہے ۔چنانچہ شریعت نے بھی اس کا لحاظ رکھا ہے اور اس کی ممکنہ وضاحت کی ہے۔

اس کی چند مثالیں بیان کیا جا تی ہیں تا کہ قاعدہ مزید نکھر جا ئے ۔

مثا ل کے طور پر کو ئی آپ سے سوال کرتا ہے کہ "بیع مرابحہ " میں اسلام کا حکم کیا ہے ؟"تو مخاطب جو اب دیتا ہے کہ نفع تو اصل مقصود ہے اور شریعت نے نفع لینے پر کو ئی پابندی عائد نہیں کی چنانچہ مرابحہ کی بیع میں کو ئی مضائقہ نہیں لیکن اس شخص کا یہ جواب صرف غلطی پر مبنی ہے کیونکہ  اس نے کہنے والے کی مراد کو نہیں سمجھا اور مرابحہ کا معنی" خریدو فروخت میں منا فع " سمجھ لیا۔اس غلط تصور کی وجہ سے حکم شرعی کے بتانے میں غلطی کھا ئی جبکہ کسی حکم شرعی کے بارے میں ہر ممکنہ کو شش کرنا ضروری ہے تا کہ وہ صحیح بنیا د اور تصور پر قائم ہو چنانچہ مرا بحہ بیع کی ایسی قسم ہے جو غیر اسلامی ہے بینکوں کے مو جودہ سود کاری نظام میں بطور حیلہ کے استعمال ہو تی ہے اور اس کی اجازت نہیں۔

اس قاعدے کی دوسری مثا ل یہ ہے کہ کو ئی شخص آپ سے پوچھے کہ "شہود یہوہ"نامی جماعت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو اس جماعت کو جاننے والا تو یوں جواب دے گا کہ یہ جماعت اس  اس  طرح کے عقائد رکھتی ہے اور اس  میں فلا ں تحریک پا ئی جا تی ہے اس کے بارے میں اسلام کا فیصلہ  یہ اور یہ ہے ۔

جب کہ کو ئی آدمی یہ بھی کہہ سکتا ہے میں اس نام کی کسی جماعت کو نہیں جا نتا ۔میں نے اس سے پہلے اس کا نام بھی نہیں سنا ۔چنانچہ ایسا شخص اس جماعت کے بارے میں فیصلہ سنانے کا حقدار نہیں اس کے بارے میں شرعی را ئے بتا نے کا بھی ذمہ دار نہیں کیونکہ وہ خود اس کی حقیقت سے آگا ہ نہیں

اس وضا حت سے ثابت ہو تا ہے کہ حاکم مفتی یا شرعی امور کے بارے میں رائے زنی کرنے والے شخص پر اس کی اپنی جا ن کا اور مسلمانوں کی جان کا یہ حق ہے اور اپنے آپ کو گناہ  سے بچا نے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی چیز کے بارے میں اس کا علم مکمل ہو نے تک اپنا فیصلہ نہ سنائے مگر جب درج ذیل دو امور یقینی ہو جا ئیں تب اس میں ہچکچاہٹ نہیں ہو نی چاہیے ۔

1۔امر اول :اس پر پیش آمدہ مسئلہ پوری طور واضح ہو جا ئے اس طرح کہ دوسرے امکا ن کی گنجائش باقی نہ رہے اور اس کے فہم و عقل اور تصور میں اس کے مقابل کو ئی خیال جاگزیں نہ ہو۔ کیونکہ بسااوقات بعض مسائل مشترک نوعیت اور حکم کے ہو تے ہیں اور ان کی ہیئت ایک مسئلہ سے دوسرے مسئلہ کی طرف بآسانی منتقل ہو سکتی ہے اور فیصلہ دینے والے کے لیے غلطی میں واقع ہونے کا امکا ن قوی ہو تا ہے اس وقت خطا کا امکا ن زیادہ ہے ایسی حالت میں فیصلہ سے اجتناب ہو نا چا ہیے اور اپنے سے افضل کی طرف رجوع کرنا چا ہیے ۔

2۔امر ثانی :اس وقت حکم سنا یا جا ئے جبکہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم بعینہ اس مسئلہ میں اس کے لیے واضح ہو جا ئے نہ کہ اس سے ملتے جلتے مسئلہ میں ۔یہاں ایک اہم سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ تصور کیسے واضح ہو گا ؟اور یقین کیسے حاصل ہو گا ؟کیونکہ بعض اوقات مسائل ملتے جلتے ہو تے ہیں اور ایسے عوامل نہیں پائے جا تے جن کے ذریعے اس کی اصل ہیئت پہچا نی جا سکے اور ان کی صحیح تصویر سے آگا ہ ہو جا ئے۔

۔۔۔پہلا تو وہ شخص ہے جس سے اس مسئلے میں شرعی را ئے طلب کی جا رہی ہے کیونکہ اسے خود مسئلہ در پیش ہو تا ہے جب وہ اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتا ہے اور اس کے اطراف و جوانب کا جا ئزہ لیتا ہے تو اس کے لیے تصور واضح ہو جا تا ہے ۔چنانچہ وہ اپنے فتویٰ کے مطا بق اس مسئلے کو بڑی وضا حت سے بیان کرتا ہے۔

۔۔۔مسلمان عادل اور ثقہ لوگوں کے اس تصور کو آگے نقل کرنے سے جن کے نقل کرنے میں اس امر کی گنجائش نہ ہو کہ وہ اس میں غلطی کریں گے۔ چنانچہ ہر دم بدلتے حالات اورفتنوں کے زمانے میں کسی کا فر آدمی کی بات پر اعتماد کرنا جا ئز نہ ہو گا ۔باوجود اس کے کہ وہ اپنا یہ تصور یا جا ئزہ کسی ریڈیوں یا  مجلے یا کسی رپورٹ میں بیان کرے یا اپنے سامنے ہو نے والے واقعہ سے بیان کرے شرعی طور پر اس کا فر کی بات قبول کرنا ممنوع ہے کیونکہ شرعی حکم کسی مسلمان عادل اور ثقہ راوی کے بیان پر مبنی ہو سکتا ہے اس کے برعکس نہیں ۔جس طرح کہ احا دیث نبویہ میں اس احتیاط کو بڑی شدت سے ملحوظ رکھا جا تا ہے۔

الغرض : دوسرے قاعدے یعنی "کسی شے پر حکم اس کے اصل تصور پر مبنی ہو تا ہے "میں اصل چیز تصور ہے ۔اس تصور کی صحت کی بنیا دی یہی ہے کہ کسی معتبر مسلمان سے اس کو سنا جا ئے یا پھر جس نے فتوی پو چھا ہے وہ اس تصورکو پیش کر ے اگر چہ وہ فاسق  ہی کیوں نہ ہو ۔

 تیسرا قاعدہ :۔

ہر معاملے میں انصاف اور عدل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیا جا ئے قرآن مجید میں ہے "جب بھی تم کہوتو عدل کے ساتھ فیصلہ کر وچا ہے اس سے تمھارا قریبی ہی متاثر ہو"

اللہ جل شانہ فرماتے ہیں : کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پرآمادنہ کردے ۔کہ تم عدل سے کا م نہ لو۔ بلکہ عدل سے ہی فیصلہ کرو کیونکہ یہی تقویٰ کے قریب ترہے ۔

اس مسئلہ کی وضا حت احا دیث نبویہ میں کا فی موجود ہے یعنی اپنی بات میں بھی عدل سے کا م لو اور کسی کے بارے میں فیصلہ دینےمیں بھی عدل کرو کیونکہ جو شخص اپنی بات اور فیصلہ میں عدل نہیں کرتا گو یا اس نے شریعت کی اتباع نہیں کی جس سے اس کی نجات یقینی ہو سکے ۔

اس قاعدے میں عدل اور انصاف سے کیا مراد ہے ؟

مطلب یہ ہے کہ آپ کے پسندیدہ معاملوں  میں اگر آپ کو فیصلہ درکا ر ہے ایک معاملہ آپ کی ذاتی پسند ہو اور دوسرے کو آپ ناپسند کرتے ہوں تو اس وقت آپ کا رویہ دونوں کے لیے یکساں ہو نا چا ہیے اس کے بعد حکم لگا نا چا ہیے ۔کیونکہ یقینی سی بات ہے کہ انسان دونوں جا نب کو بیک وقت ایک نظر سے دیکھنے کے بعد ہی اس قابل ہو سکتا ہے کہ شریعت کے خلا ف کو ئی بات یا دین کے مزاج سے مخا لف کو ئی معاملہ دین کے ان لگا نے سے بچ سکے۔

چنانچہ اس فیصلے میں روشن اور تاریک پہلوؤں کا جا ئزہ بھی ضروری ہے اور بعد میں اس کے بغور جا ئزہ لینے کے نتیجے میں اللہ سے توقع کی جا سکتی ہے کہ آپ کو را حق سے فائزہ فرما دے ۔

یہ مسئلہ کا فی اہمیت رکھتا ہے اور اس قاعدے کی رعایت رکھنا لا زمی ہے کیونکہ جو شخص عدل وانصاف  کی طرف متوجہ نہیں ہو تا تو اس کی خواہشات اور پسند و ناپسند اس کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتی ہیں اور اگر وہ خدا نخواستہ غلط فیصلے یا حکم میں مددگار ثابت ہو تا ہے تو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرما ن اس پرو عید ہے۔

"جو شخص بری روایت جا ری کرتا ہے تو اس پر اس روایت کا وبال ہے اور ان لوگوں کا بھی وبال ہے جو بعد میں اس روایت پر عمل پیرا ہو ئے ۔بہت بڑی مصیبت کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے جب ایسا (مبنی برھویٰ)فعل یا فیصلہ ایسے شخص سے صادر ہو جو صاحب علم رشد و ہدا یت سمجھا جا تا ہے ہو کیونکہ جا ہل اور کم علم رکھنے والے عوام بھی اس فیصلہ کرنے والے کی اہمیت کے پیش نظر اس کے غلط فیصلے پر عمل پیرا ہو تے ہیں ۔

غرض کسی بھی معاملے میں ہمیں فیصلہ کرنے سے قبل ذاتی را ئے خواہش و رویہ کو بے دخل کر کے دونوں جا نب کے نکا ت ذہن میں رکھ کر فیصلہ کرنا چا ہیے ۔

چوتھا قاعدہ :۔

جس پر اللہ کا یہ فر ما ن دلا لت کرتا ہے:

"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"

اس آیت کی وضا حت میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کہتے ہیں :

" عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ"

"جماعت سے منسلک رہو اور فرقہ بندی سے باز رہو"

 ایک اور حدیث جسے عبد اللہ بن احمد نے "زوائد مسندابیہ" میں روایت کیا ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :

"اجتما عیت رحمت ہے اور فرقہ بندی عذاب ہے"

اس سے فرقہ  بندی کی تمام اقسا م مراد ہیں یعنی آراء میں اور اقوال میں ایک دوسرے سے مخالفت رکھنا یا اعمال میں اختلا ف کرنا اس کی سب صورتیں  ہی عذاب الٰہی ہیں جو امر الٰہی سے رو گردانی کا نتیجہ ہیں ۔

چنانچہ جو شخص جماعت اہل السنت والجماعت سے منسلک رہے ان کے آئمہ اور علماء کا تا بع فر ما ں رہے تو گو یا اس نےجماعت کو پکڑ ے رکھا ۔اس کے بالمقابل جو شخص کسی دوسرے فرقہ کی طرف جا تا ہے تو گو یا دنیا کی زندگی میں اللہ تعا لیٰ کی طرف سے اس پر عذاب مسلط کیا جا چکا ہے اور آخرت میں اس کا بڑا انجام ہے۔

جماعت اپنی تمام صفات اور حالات میں جب تک ہدایت حق پر گا مزن رہے تو اللہ کی رحمت کا اس پر نزول ہو تا رہے گا ۔جبکہ تفرقہ بندی عذاب ہے اور اس میں کسی طور پر خیر کی گنجا ئش نہیں ۔

لہٰذا اللہ تعا لیٰ نے اس آیت  " وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوااس "کے بعد والی آیت میں فر ما یا کہ "تم میں ایک جماعت ایسی ضرورہو نی چاہیے جو خیر کی طرف بلا ئے اور نیکی کا حکم دے برائی سے منع کرے ،یہی لو گ ہی ہدا یت یا فتہ ہیں " بعد میں فر ما یا :

"تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا ؤ جنہوں نے فر قہ بندی اختیار کی دلائل و حقائق کے بعد آپس میں اختلا ف کیا ان لو گوں کے لیے درد ناک عذاب ہے"

وہ لو گ جنہوں نے اقوال و اعمال میں حقائق اور ہدایت واضح ہو نے کے بعد مختلف راہ اختیار کی تو یہ لو گ گمرا ہی سے محفوظ نہ رہ سکیں گے ۔باہمی اختلا ف سے بچ نہ سکیں گے۔ اور ہدا یت کی را ہ سے ہٹے ہوں گے ۔

لہٰذا ازبس ضروری ہے کہ جماعت اہل السنۃ والجما عتہ کی پیروی کی جا ئے ۔ان کے اقوال کو مشعل راہ بنا یاجا ئے ان کے قواعد و اصولوں سے آگے نہ بڑھا جا ئے علماء جماعت نے جن اصولوں کو منضبط  کیا ہے ان سے باہر نہ نکلا جائے کیونکہ وہ بہر حال دلائل شرعیہ اہل السنت والجماعت کے اصول دیگر بہت سے اہل علم کی بہ نسبت زیادہ جا نتے تھے کیونکہ اللہ نے انہیں رسخ علم صائب نظر اور علم میں ثا بت قدمی سے مالامال فر ما یا تھا :

غور کریں کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس وقت کیا رویہ اختیار کیا جب وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حج میں مو جو د تھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نما ز میں قصر کے بجا ئے پوری نماز پڑھا کرتے کہ منیٰ میں چار رکعات پڑھتے جبکہ مسنون یہ ہے کہ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھی جا ئیں ہر چار رکعت  والی  نماز کے قصر کے طور پرحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے شرعی تاویل کی بنا پر منا سب یہ سمجھا کہ انہیں وہاں چا ر رکعات پڑھنا چا ہئیں جبکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہا کرتے کہ ہر چار رکعت نماز کے بارے میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی واضح سنت یہی ہے کہ دو رکعتیں منیٰ میں پڑھی جا ئیں انہیں کہا گیا : اے عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ !ادھر تو آپ یہ بات کہتے ہیں دوسری طرف حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ساتھ چار رکعات بھی پڑھتے ہیں ایسا کیوں ہے ؟جواب دیا: " اے فلا ں !اختلا ف کرنا شر محض ہے اختلا ف شر محض ہے اختلا ف شر محض ہے اختلا ف شر محض ہے"ابو داؤد نے اسناد قوی سے اس کو روایت کیا ہے ثابت ہوا کہ ان فہم کی رو شنی میں جو شخص اختلا ف کا رستہ اپناتا ہے تو جہاں اپنے لیے فتنے کھڑے کرتا ہے وہاں دوسرے بھی اس فتنے کی لپیٹ میں آتے ہیں ۔

پانچواں قاعدہ:۔

فتنہ کے انتشار کے وقت اس امرکی پروا کئے بغیر کہ وہ مملکت کی را ئے ہے یا اس کی طرف بلا نے والوں کی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اسے شرعی میزان پر پرکھے جو اہل سنت و الجماعت کا میزان ہے جو بھی اس میزان پر پرکھ کرے گا تو اس کا فیصلہ حق پر مبنی اور قائم برا انصاف ہو گا ۔جس طرح اللہ تعا لیٰ نے اپنے میزان کے بارے میں فرما یا ہے کہ "تم قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کریں گے ۔اس دن کسی جان پر ظلم نہ کیا جا ئے گا ۔"

اسی طرح اہل سنت و الجماعت کے لیے  انصاف پر قائم میزان ہیں ۔

جن پر وہ اپنے امور افکا ر اور حالات کی پرکھ کرتے ہیں یہ میزان آئمہ کی تعلیم کے مطابق دوقسموں میں منقسم ہیں ۔

1۔فتنے کے جا ئزہ لینے میں پہلا میزان یہ ہے کہ جس کے ذریعے اسلام اور کفر کا فیصلہ ہو۔یعنی دعواے اسلام کی صحت اور عدم صحت کو پر کھا جا سکے بے شمارنعرے ایسے ہیں کہ انہیں اسلام سے  منسوب کیا جا تا ہے لیکن ان کا اسلام سے تعلق اور عدم تعلق بھی محل نظر ہو تا ہے ۔چنانچہ دیکھا جا ئے کہ آیا یہ اسلامی را ئے ہے تب اس پر احکام  شرعی وارد ہوں گے۔اور اس کی رعایت لا زمی تصور ہو گی۔

2۔میزان اور ترازو کی دوسر ی قسم وہ ہے جس سے اسلام کے کمال اور عدم کمال اور اسلام پر حقیقی استقامت کے ہونے یا نہ ہو نے کو پرکھا جا تا ہے۔

میزان کی پہلی قسم میں کفر و اسلام کا فیصلہ کیا جانا مقصود ہے کہ آیا را ئے مبنی بر ایمان ہے یا نہیں ؟ اور دوسری قسم اس امر سے بحث کرتی ہے کہ یہ را ئے آیا عین ہدا یت پر مبنی ہے جس اللہ و رسول نے پسند فر ما یا ہے یا اس سے دین میں نقص لا زم آتا ہے جب یہ تقسیم واضح ہو جا ئے تو تب شرعی احکام کا اجر اء ممکن ہو گا ۔

1۔قسم اول جس کا تعلق اسلام اور کفر سے متعلق را ئے سے ہے اس کی پہچان  کے لیے مندرجہ  ذیل تین امور کا ہو نا ضروری ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ کیاا س میں اس کی صراحت پا ئی جا تی ہے کہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جا ئے یا نہیں ۔کیونکہ تمام انبیاء علیہ السلام  کے دین کا اصل نکتہ تو حید الوہیت ہے اور دین کا مبتداورمنتہیٰ یہی ہے چنانچہ جو شخص تو حید پر مبنی نعرہ بلند کرے اور اللہ وحد ہ لا شریک کی عبادت کا ثبات کرے غیر کو شریک نہ ٹھہرا ئے تو ثابت ہو گا کہ یہ نعرہ اسلامی ہے جبکہ اس میں باقی آئندہ دو شروط بھی پائی جا ئیں ۔

پہلا میزان یہ ہوا کہ ہم اس بات کا جا ئزہ لیں کہ آیا یہ را ئے تو حید اور غیرکی عبادت نہ کرنے کے مفہوم پر مبنی ہے۔دوسرے درجے میں یہ دیکھا جائے اس میں نبی کرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نبوت کی شہادت متضاد کو ئی بات نہ پا ئی جائے اور شہادت رسالت کا تقاضا ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی لا ئی ہو ئی شریعت کی مکمل حکمرا نی ہو اللہ سبحانہ وتعا لیٰ کا ارشاد ہے کہ:

"یہ لو گ کبھی ایمان والے نہیں ہو سکتے  جب تک اپنے جھگڑوں میں آپ سے فیصلہ نہ کروائیں ۔اس کے بعد ان کے دلوں میں اس فیصلے پر کو ئی تنگی یا دشواری کا رویہ پیدا نہ ہو اور وہ اس را ئے کو کھلے دل سے تسلیم کر لیں "

چنانچہ آپ کو دیکھنا چا ہیے کہ یہ را ئے لو گوں کے بارے میں اللہ تعا لیٰ کے اس فیصلہ کو تسلیم کرتی ہے اور اس رویے پر مبنی ہے کہ جب لو گوں میں اپنے فیصلوں کے بارے میں جھگڑا ہو جا ئے ۔تو ان میں شرعی قاضی اس کا فیصلہ کرے گا ۔اگر ایسے ہو تب اس را ئے کو شرعی سمجھا جا ئے گا کیونکہ یہ شریعت الٰہی کے بلند تر اور حا کم ہو نے پر مبنی ہے۔

تیسرا میزان یہ ہے کہ دیکھا جا ئے کہ اس میں محرمات کوحلال  کیا گیا ہے یا محرمات کے ارتکاب پر ناپسندیدہ گی گراہت اور انکا ر کا رویہ اپنا یا گیا ہے۔

ایسا حکم جس کی حرمت پر امت متفق ہے اس کےبارے میں دو باتیں ہو سکتی ہیں ۔

یا تو اس را ئے میں اس حکم کو حلال کیا گیا ہو گا تو یہ کفر ہے اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پیش آمدہ معاملہ حرا م ہے لیکن اس کا ارتکا ب مو جو د ہے۔

اور رائے کے حاملین اس چیز کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ حرام ہے اور اس سے احتراز ضروری ہے اس وقت فیصلہ ہو سکتا ہے کہ یہ را ئے اسلامی ہے۔

قسم اول کر تحت یہ تین میزان ہیں جس کے بعد ہم را ئے کی پرکھ کرسکتے ہیں ۔قسم ثا نی ان موازین سے بحث کرتی ہے جو اسلام کے کمال اور عدم کمال سے تعلق رکھتے ہیں ۔نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام دین پر عمل کیا جس طرح وہ اللہ کے پاس سے ان تک پہنچا ۔آپ ہی وہ متقدیٰ ہیں جن کی تابعداری فرض ہے آپ سے اس دین کو خلفا ء راشدین  رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے آگے منتقل کیا اس کے بعد آج تک اسلام میں نسبتاًکمی کی طرف رجحان رہا حتیٰ کہ آج دین اس مقام تک پہنچا جس میں ہم زندگی گزارتے ہیں ۔ارشاد نبوی ہے۔

"اور کو ئی زمانہ ایسا نہیں مگر اس کے بعد شر میں اضا فہ ہو تا رہے گا حتیٰ کہ تم اپنے رب سے ملا قات کر لوگے"

اس قسم کے تحت دیکھا جا ئے گا کہ امور شرعیہ کی پاسداری کے بارے میں اس را ئے کا رویہ کیا ہے نماز کے حکم کے سلسلہ میں منکرات سے روکنے کے سلسلے میں امر بالمعروف  و نہی عن المنکر کے بارے میں اس را ئے کا رجحان کیا ہے ان امور کے سلسلے میں فرا ئض سے اور(الفاظ مٹے ہو ئے ہیں ) ہیں اس را ئے کا طرز عمل کیا ہے اگر را ئے ان امور پر مثبت طور سے پو ری اترے تو یہ را ئے مبنی بر کمال ہے بصورت دیگر اس کے بر عکس !مذکورہ بالا میزان بہت اہم ہیں اور ہر وقت دل و دماغ میں حا ضر رہنے چا ہئیں تاکہ  کسی گمراہ  کن نظریے کی تشہیر کے وقت اور کسی حق (لفظ مٹا ہوا ہے) کے مخلوط نظریے سے واسطہ پیش آنے پر آپ سراہی ۔

جب ان سب امور کا جائزہ واضح در یقینی ہو جا ئے اور رائے کے اسلامی یا غیر اسلامی ہو نے کا فیصلہ ہو جا ئے تو دینی لحا ظ سے یہ بات آپ پر واجب ہے کہ آپ اسلامی را ئے کو نشر کریں اور اس سے محبت کریں کیونکہ دین ہمیں مسلمانوں سے محبت اور دوستی کا حکم دیتا ہے ۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ را ئے کے بارے میں آپ کی پرکھ واضح اور یقینی ہواور اس میں تردو اور کفر واسلام کے التباس یاکسی شے کے غیر اسلامی ہو نے کا شائبہ تک نہ ہو۔ جب اسلام ہو نا یقینی ہو جا ئے تب اس پر شرعی احکام جاری ہوں گے۔

ثانیاً: یہ ہے کہ اب اس را ئےکو آپ دوسرے افراد کی خیر خواہی کے لیے نشر کریں اہل اہل سنت و الجماعت کا اہل بدعت کے بر عکس یہ طریقہ ہے کہ وہ دوسروں کی خیرخواہی میں کوشاں رہتے  ہیں اور اس خیر خواہی کے بدلے میں دوسرے سے کسی معاوضے کی امید نہیں کرتے ۔جب یہ خیر خواہانہ طرز عمل آپ کے دل میں جا گزیں ہو جا ئے ۔تب آپ اہل سنت کے حقیقی منہج پر ہیں ۔

لیکن مذکورہ بالا موازین کا صحیح استعمال اور ان کے بارے میں اطمنان قلبی اگر آپ کو میسر نہ آسکے تو علماء کی طرف رجوع کریں کیونکہ وہی صحیح شرعی را ئے قائم کر سکنے کے اہل ہیں اسلام اور عدم اسلام اور ان موازین کا بر محل استعمال تو وہی بہتر سمجھتے ہیں مثال کے طور پر آئمہ اہل سنت و الجماعت یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ جہاد ہر امام اور حاکم کے ساتھ کیا جا ئے ۔باوجود اس کے وہ فاجرو فاسق حاکم ہو لیکن اس کے ساتھ مل کرجہاد جاری رکھا جا ئے گا ۔کسی شخص کے غلط حاکم ہو نے سے دلیل لیتے ہو ئے  جا ئز نہ ہو گا کہ وہ اس سے کنارہ کش رہے۔

یہ ضابطہ ہر وقت آپ کے سامنے رہنا چا ہیے ممکن ہے کہ مستقبل میں ایسے حالات کا آپ کو سامنا ہو جو ہم سے مخفی ہیں تب اپنے معا ملا ت  حالات اور افکار کی صحیح پر کھ کے لیے ضابطوں کا آپ کو لحاظ رکھنا پڑے گا ۔۔۔انہی میں سے ایک بات یہ ہے کہ جس کو اللہ تعا لیٰ آپ کا حکم بنا ئے اس کے بارے میں آپ کو دعا کرنی چا ہیے اور اس کی خیر خواہی کرنا چا ہیے ۔

امام البرالبہاری جو اہل سنت  کے مشہور امام ہیں اپنی کتاب " سنت " میں فرماتے ہیں "جب آپ کسی ایسے شخص کو دیکھیں جو حاکم کے حق میں بات کرے تو اس کو سنت پر عمل کرنے والا سمجھیں اور اگر کسی ایسے آدمی کو دیکھیں جو حا کم کے خلاف لوگوں کو ابھارتا ہو تو سمجھ لیں کہ یہ آدمی بدعت  پر عمل پیرا ہے"

فضیل بن عیاض اپنے وقت کے سلطان کی حما یت اکثر فرما تے رہتے ۔ہم جا نتے ہیں کہ ان کے وقت کے سلاطین بنو عباس کس درجہ کے احکام تھے اس کے باوجود آپ ان کی حمایت کیا کرتے انہیں کہا گیا کہ آپ اپنی حمایت سے زیادہ ان کی حمایت  میں بولتے ہیں جواب دیا کہ یہ بالکل ایسے ہی ہے جس طرح اگر میں خود درست ہو گیا تو یہ لفظ میری ذاتی نیک بختی ہو گی اور اگر  حاکم وقت کی اصلاح ہو گئی تو یہ تمام مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے۔

غرض جو آدمی عا مۃ المسلمین کی فلا ح کا خواہاں ہے اسے چا ہیے کہ اپنے حکام وقت کی خیر خواہی کرے اور ان کے  بارے میں متفکر رہے کہ اس کے تفکرکا پھل امت کے لیے عظیم تر ہے۔

چھٹا قاعدہ :۔

آزمائشوں  کے دور میں قول وعمل کے لیے بھی ضوابط ہیں ایسا نہیں کہ ہر وہ بات جسے آپ صحیح سمجھتے ہیں اس کو زبان سے کہہ دیں ۔اور ہر کام جو آپ اچھا سمجھتے ہیں اس کو کر دکھائیں ۔کیونکہ فتنہ کے دوران آپ کا قو ل و عمل کیسے بھی اثرات چھوڑ سکتاہے۔

مثال کے طور پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فر ما تے ہیں :"میں نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے دو چیزیں محفوظ کیں۔ ان میں ایک کومیں نے عوام میں پھیلا دیا اگر دوسری کو میں لوگوں میں پھیلا تا تو  میری گردن کاٹ دی جا تی "امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔

اہل علم کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہنا کہ" اگر میں دوسری کو ظاہر کرتا تو میری گردن کا ٹ دی جا تی "سے مراد یہ ہے کہ فتنوں کے بارے میں  نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فر ما ن کو انھوں نے مخفی رکھا اور ان احادیث کو بھی جو بنی امیہ کے بارےمیں تھیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے یہ بات امیر معاویہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور میں ارشاد فر ما ئی جبکہ لو گ افتراق وانتشار  کے بعد حضرت معاویہ پر اکٹھے  ہو چکے تھے ان حالات اور واقعات کو جانتے ہو ئے جن حالات میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ان احادیث کو پردہ اخفاء میں رکھا تو کیوں چھپایا؟ کیا وہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث نہ تھیں  ۔یہ درست ہے کہ وہ احکام شرعیہ سے متعلق نہ تھیں لیکن فتنوں کے بارے میں ان میں کا فی رہنما ئی موجود تھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کیوں نہ کہا کہ حدیث بالکل سچی ہے اور ان حالات میں علم کو چھپانا کسی طور جائز نہیں اس کی وجہ یہ ہےکہ باوجود مفید ہونے کے ان احادیث کو پھیلا نے سے یہ نقصان ہو سکتاتھا ۔کہ لو گ کو کہ ایک بار معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی امارت پر متحد ہیں دوبارہ افتراق کا شکار ہو جا ئیں گے۔اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا فر ما ن (بروایت صحیح مسلم ) ہے کہ :"بعض اوقات آپ لو گوں کے سامنے ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس تک ان کی عقل کی رسائی نہیں یہ بات ان میں بعض کے لیے فتنہ بن جا تی ہے۔"

لو گ فتنوں کے زمانے میں کسی کہنے والے کی بات جو کسی اہم بات سے تعلق رکھتی ہو کو بعض اوقات صحیح سمجھنے میں غلطی کر جا تے ہیں ۔کچھ ایسی باتیں سن لیتے ہیں جن تک ان کی عقل کی رسائی نہیں ۔اپنے تیئں کچھ اعتقادات تصور کر کے معاملہ خراب کر دیتے ہیں اپنی سوجھ بوجھ پیش آمدہ مسائل اور سنی سنائی باتیں بعض ایسی باتیں بھی جو ان کی سطح ذہن سے بالا  ہو تی ہیں سن کر اپنے حالات اعمال اقوال کی غلط تعبیر کر بیٹھتےہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سلف اس معاملے میں کا فی احتیاط برتتے اور موقع محل دیکھ کر بات کرتے۔دیکھئے حضرت حسن بصری کا وہ واقعہ جب انھوں نے انس  بن مالک  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو حجاج بن یوسف کے سامنے یہ حدیث بیان کرنے سے روکا کہ"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ عرینہ کے لوگوں کو قتل کیا جو اونٹوں کا پیشاب پینے کے بعد ان کے چرواہوں کو قتل کرکے اونٹوں کو بھگا لے گئے تھے" آپ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو کہنے لگے کہ تم حجاج کو یہ حدیث کیوں بیان کرنا چا ہتے ہو؟ اور کہا کہ حجاج اس وقت انسانوں کے خون میں ڈوباہواہے اور وہ اس وقت اس حدیث کو ایسے معنی میں محمول کرے گا جو اس کی حمایت میں جا تا ہو ۔چنانچہ ضروری ہے کہ حدیث اور یہ بات حجاج سے مخفی رکھی جائے۔کیونکہ اس کی عقل و فہم سیدھی اور درست نہیں اور وہ سمجھ نہ پا ئے گا کہ یہ حدیث اس کی تا ئید میں ہے یا اس کے خلا ف ہے اور وہ اس کو اپنی حمایت میں ہی تصور کرے گا ۔

غرض حضرت حسن بصری نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو جو صحابی رسول ہیں اس حدیث کو بیان کرنے سے منع کیا ۔بعد میں ان کی بات سچ ثابت ہو ئی اور حضرت انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حدیث عرینین کو حجاج کے سامنے بیان کرنے پر نادم ہو ئے اور افسوس کا اظہار کیا۔

اس طرح حذیفہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے احادیث فتن کو لوگوں سے مخفی رکھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ لو گ اس کے ضرورت مند نہیں ۔

اسی طرح امام احمد بن حنبل نے بھی ان احادیث کا ذکر کرنا ناپسند کیا جن میں سلطان کے مقابلے میں نکلنا مشروع ٹھہرا یا گیا ہے اور حکم دیا کہ ان کی مسند سے ان کو حذف کر دیا جا ئے اور کہا کہ" فتنہ پھیلا نے میں کو ئی بھلا ئی نہیں سلطان کے مقابلے میں نکلنے میں بھی کو ئی خیر نہیں " ابو یو سف نے بھی اس طرح اجنبی  احادیث کے ذکر سے اجتناب برتا ۔امام مالک نے بھی ایسی احادیث کا ذکرمنا سب نہ سمجھا جن میں سلطان کی کچھ خصوصی ناپسندیدہ صفات کا تذکرہ ہے مختصراً یہ ہے کہ "فتنوں کے دور میں ہر بات جس کا علم ہو وہ کہی نہیں جا تی اسی طرح وہ باتیں جو کہی جا تی ہیں ۔انہیں بھی ہر حال میں دہرا یا نہیں جا سکتا "

اپنی باتوں اور آراء پر ضبط کرنا اور صبر سے کام لینا بہت ضروری ہے کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کی بات را ئے اور آپ کی سمجھ مخاطب پر کیا اثرات ڈا ل سکتی ہے سلف رحمہم اللہ نے بھی فتنوں سے عافیت میں رہنے کی کو شش کی اور کافی باتوں سے سکوت اختیار کیا اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھنے کی خاطر!

سعد بن ابی وقاص سے یہ بات مروی ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے سے اس وقت فرما یا جب وہ فتنہ کے دور میں بعض امور کو انجام دینے کے بارے میں باتیں کر رہاتھا کہ" اے بیٹے !کیا تو چا ہتا ہے کہ میں فتنہ کی پرواخت میں سب کاراہنما بنوں۔نہیں اللہ کی قسم !"انھوں نے اپنے بیٹے کو منع کیا کہ وہ خودیا ان کا بیٹا فتنہ کو پھیلا نے میں معاون ہوں اگرچہ کسی بات سے یاکسی کام کے ذریعے باوجود اس کے وہ اس کو اچھا بھی سمجھتے ہوں کیونکہ اس طرح اپنی عافیت اور انجام کو غیر پسندیدہ بننے سے بچا نہ سکیں گے۔ غرض لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح شرعی میزان پر امور کی پرکھ کریں تا کہ وہ خود بھی محفوظ رہ سکیں اور غلطی سے بچ سکیں ۔مزید یہ کہ اعمال افعا ل اور دوسرے رویوں کے لیے بھی کچھ ضوابط ہیں جن کی رعایت لا زمی ہے۔ ایسے نہیں کہ کو ئی پسندیدہ کام فتنہ کے دوران بھی پسندیدہ رہے جب کہ اس کام سے ان حالات میں وہ مفہوم لیاجا نا بھی ممکن ہو جو قائل کی مرادنہیں۔

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے (جیسا کہ بخاری نے صحیح میں روایت کیا ہے)حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے فر ما یا :

"اگر تیری قوم کفر سے قریب زمانہ نہ ہو تی تو میں کعبہ کو گرا دیتا اور حضرت ابرا ہیم کی تعمیر پر اس کو بنواتا اور اس میں دو دروازے رکھتا"

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اس بات سے ڈرے کہ وہ کفار جنہوں نے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا ہے وہ آپ کے کعبے کو گرا نے سے بدظن نہ ہوں اور برا ہیم  علیہ السلام  کی تعمیر کے مطا بق تعمیر کرنے سے دو دروازے (ایک آنے کے لیے دوسرا جا نے کے لیے)بنا نے سے ان میں غلط خیال نہ پیداہو یا وہ کو ئی اور بات ذہن میں لا ئیں ۔مثلاً کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اس سے ان کے دین کا تمسخر اڑانا چاہتے ہیں یا اس سے فخر کا اظہار کرنا چاہتے ہیں  ۔وغیرہ وغیرہ لہٰذاساس حدیث پر امام بخاری نے بھی جوتبویب بندی کی ہے وہ قابل غور اور بہت عظیم ہے باب کا  نام ہے" باب ہے بعض پسندیدہ کاموں کو ترک کرنے کے بارے میں اس ڈر سے کہ لو گ اپنے قصور فہم کی بنا پر اس سے بڑے گناہ میں واقع ہو جا ئیں گے۔

ان باتوں کے بعد واضح ہو تا ہے کہ عقل و فہم کو استعمال میں لا ئے بغیر کوئی قدم اٹھا نا پسندیدہ نہیں ۔جلدی اور جلد  بازی  اچھے رویے نہیں ۔

آپ پر کس نے ضروری ٹھہرایا ہے کہ فتنوں کے ضمن میں جو را ئے آپ حق سمجھتے ہیں اس کو ہر جگہ ہر مقام پر بیان کرتے پھریں ۔حق وہی ہے جو علماء اہل السنۃ والجماعت نے کھول کر واضح فرما دیا ۔اگر آپ کے پاس کو ئی رائے ہے یا کو ئی سوچ ہے تو اس کو علماء پر پیش کریں اگر وہ اس کو درست سمجھیں تو درست! ورنہ آپ کی ذمہ داری مسلمانوں پر اپنی رائے پہچا نے کی پوری ہو گئی۔

ساتواں قاعدہ :۔

اللہ تعا لیٰ نے مسلمانوں سے محبت و اخوت کا (بالخصوص علماء سے)بڑی سختی سے حکم دیا ہے مو من مرد عورتیں آپس میں محبت و مسؤدت کا رویہ اپنا ئیں :

"بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ "ہر مسلمان کے لیے فرض ہے کہ دوسرے مومن بھائیوں سے محبت رکھے ان کی مدد کرے ان کے تمسخر سے پرہیز کرے۔اور ایسے کیوں نہ ہو جب کہ مسلمان اللہ کی شریعت کے حامل اور عمل پیرا ہیں اور علماء دوسروں کے لیے حلال و حرام حق و باطل کھول کر بیان کرتے ہیں ۔

چنانچہ حرام ہے کہ علماء کا ذکر کسی درجے میں بھی برے طریقے سے کیا جا ئے ۔جن مجالس میں علماء کے بارے میں بدظنی کا رویہ رکھا جا ئے وہ برا ئی کی مجلس ہیں کیوں ؟اس لیے کہ علماء  انبیاء علیہ السلام  کے وارث ہیں انبیاء علیہ السلام  نے دینار و درہم کے وارث نہیں بنا ئے انھوں نے علم کی وارثت چھوڑی ہے جس نے علم کو اپنایا اس نے گو یا وافرحصہ اور اچھی  قسمت پالی ۔

جس آدمی  نے علماء کا حترا م کیا قدر کی اور علماء اہل سنت والجماعت اہل تو حید علماء کی عزت افزائی کی، اس نے گو یا انبیاء علیہ السلام کی میراث کو محترم سمجھا اور جان لیں کہ نبیوں کی وراثت علم کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔

ایسے علماء  کی صفات درج ذیل ہیں جن سے محبت ان کے اقوال کی طرف رجوع اور ان کی قدر افزائی ایمان کا حصہ ہے۔

1۔جو اپنے وقت کے اہل سنت والجماعت کے متقدی ہوں تو حید کی طرف داعی ہوں اور رتوحید و رسالت میں ان کی باتوں کو مستحق التفات سمجھا جا تا ہے۔

2۔ایسے علماء جو شرعی احکام کی کا فی معرفت رکھتے ہوں اور فقہی امور کو بخوبی سمجھتے ہیں شرعی قواعد کی حکمتیں ان کے دائرہ علم میں ہوں اور مسئلہ کا تعین کرتے ہو ئے جن اصول قواعد کی رعایت رکھی جا تی ہے ان سے ان کو آگاہی ہو اور اللہ کی خصوصی تو فیق کے بعد مختلف فیصلوں آراء اور احکام میں ان کا نظریہ واضح ہو۔

اس کے ساتھ ایک بات کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں جس میں آج کل کا فی لو گ مبتلا ہو چکے ہیں ۔مثال کے طور پر ایک آدمی یوں کہتا ہے۔

"آج کل کے علماء واقعہ کی صحیح نزاکت کو نہیں سمجھتے ۔حتیٰ کہ بعض اوقات وہ کسی محفل میں یوں مخاطب ہو تا ہے ۔ حالات و واقعات سے ہمیں یہ سمجھ میں آیا ہے کہ علماء کے برعکس عام لو گ واقعہ کی باریکی تک پہنچ جا تے ہیں اور وہ صحیح شرعی حکم لگا سکتے ہیں ۔

جبکہ علماء کی اکثریت آج کل کے دورمیں اس صلاحیت سے عاری ہے "

بخدا یہ بات ایک دھوکہ اور گمراہ اور کن قول کے سوا کچھ نہیں یہ اس کے شریعت کے احکام کو صحیح طور سے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے کہ علماء کن معاملات کی رعا یت رکھتے ہوئے مسئلے پر حکم مختلف لگا تے ہیں اور کن امور کی پروا نہیں کرتے اہل علم کے نزدیک کسی واقعہ کو سمجھنے کی دو صورتیں ہیں ۔

1۔واقعہ کی صحیح صورت حال کا ادراک کرنا کیونکہ شرعی حکم اصل صورت  حال سمجھ میں آنے پر ہی لگا یا جا سکتا ہے۔اس قسم کے معاملے میں واقعہ کی اصل حالت کو سمجھنا ضروری ہے جو ایسا نہ کرے وہ غلطی پر ہے غرض اگر ایسا معاملہ درپیش ہو جس کی صورتحال کا مختلف ہو نا حکم کے مختلف ہو نے کا مو جب ہو تو اس واقعہ کا صحیح ادراک ازبس ضروری ہے۔

2۔ایسے واقعات جن کی وجہ سے شرعی را ئے میں کو ئی واقعہ نہیں ہو تا واقعہ ایسے ہے تفصیل یوں ہے اور لمبے لمبے واقعات لیکن دراصل ان کا واقعہ کے حکم سے کو ئی تعلق نہیں اس وقت علماء ایسی تفصیلا ت میں نہیں جا تے اگرچہ

وہ حقیقت واقعہ کو سمجھ بھی جا ئیں سو تمام واقعات ایسے نہیں ہو تے کہ وہ شرعی حکم میں تبدیلی کی بنیاد بن سکیں ۔

1۔پہلے معا ملے کی مثال یہ ہے جس میں شرعی حکم میں واقعہ کی کیفیت ملحوظ رکھی جا تی ہے ۔مثال کے طور پر کب کسی انسان پر موت کا حکم لگا یا جا ئے کیا اس کے دل کی دھڑکن بند ہو جا نے پر یااس کے دماغ کے ساکن ہو جا نے پر۔

ایک پیش آمدہ مسئلہ ہے اگرکبھی آپ کو اس پر بات کرنا پڑے اور آپ واقعہ کو سمجھے بغیر یا حالات کے ادراک کے بغیر اپنی را ئے بتا ئیں تو بہت امکا ن ہے کہ غلطی کر لیں کیونکہ اس مسئلے کی ٹھیک ٹھیک سمجھ اور اس واقعہ کا صحیح ادراک شرعی حکم  پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

ایک اور مثال لیں :کسی حکومت کے بارے میں شرعی را ئے دینا مقصود ہواور اس کی کار کردگی کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر مطلوب ہو کہ آیا فلاں حکومت مسلمان ہے یا غیر مسلم شرعی را ئے دینے والے کے لیے کیسے ممکن ہے کہ کسی حکومت کے بارے میں جا نے بو جھے بغیر اپنی را ئے کا اظہار کرے اس معاملے میں را ئے دینے سے پیشتر عالم کے لیے صحیح حالات کو سمجھنا از بس ضروری ہے جب وہ واقعہ سمجھ جا ئے تب اپنے فہم پر مبنی شرعی را ئے ظاہر کر دے۔اس کی مثال یہ بھی ہو سکتی ہے ۔کہ جس طرح عالم اسلام میں آج کل بہت سی اسلامی جماعتیں  اورتنظیمیں بن چکی ہیں بعض کے مقاصد دوسرے سے قدر ے مختلف بھی ہیں ۔کیا کسی عالم دین کے لیے ممکن ہے کہ ان کے متقدات اور نظر یا ت و حالات کو جا نے بغیر کسی کے بارے میں دینی فیصلہ سنا سکے۔لا زمی ہے کہ وہ مطلوبہ جماعت کے عقائد اصول منہج افکارو آراء اور اس کی دعوت کا طریقہ کار بخوبی سمجھ کر ہی اس پر اپنی را ئے ظاہر کرے۔

یہ وہ صورتیں ہیں جن میں واقعے کی سمجھ حاصل کرنا لا زمی ہے کیونکہ ان صورتوں میں شرعی حکم پر واقعات اثر انداز ہو سکتے ہیں جو یہ کا م نہ کرے گا اس کے لیے غلطی اور ٹھوکر کاواضح احتمال ہے۔

دوسری قسم ان احکام کی ہے جن میں واقعات اثر انداز نہیں ہو تے ۔

اس کی مثال ایسے ہے کہ قاضی کے پاس دوافراد جب اپنا جھگڑا لے کر آتے ہیں ایک شخص اپنی بات ذکر کرتا ہے اور دوسرااپنے مطا بق واقعہ کی تفصیل بتاتا ہے۔اور لمبی لمبی باتیں اور حالات سے قاضی کو آگا ہ کرتا ہے ۔لیکن اس کی یہ تمام باتیں قاضی اپنے فیصلے میں شامل  نہیں کرتا ۔اس لیے کہ اگر چہ واقعہ یوں ہوا ہے لیکن اس واقعہ کا شرعی حکم کی تبدیلی میں کو ئی اثر نہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ ایسی صورتوں میں قاضی اور مفتی عموماً یوں کہتے ہیں :کہ اگر ایسے نہ بھی ہو تا ویسے نہ بھی ہو تا تب بھی حکم یوں ہی ہوتا ۔اس سے ان کی مرادیہ ہوتی ہے کہ ان واقعات کی تبدیلی سے حکم میں کو ئی تبدیلی لا زم نہیں آرہی ۔

اس کی دوسری مثال یوں ہے جو آج کل ہم عموماً دیکھتے ہیں اور یہ مثال مسئلہ کی وضا حت میں زیادہ آسان ہے کہ بعض اوقات بڑی عمر والے داعی حضرات چھوٹی عمر کے نوجوان لڑکوں وغیرہ سے میل جول کرتے ہیں تا کہ انہیں دعوت دے سکیں انہیں راہ حق دکھا سکیں ۔اور یہ ان کے لیے ہدا یت واصلاح کے خواہاں ہو تے ہیں ۔ایسا عموماً تنظیموں میں لائبریریوں اور دیگر پبلک مقامات پر ہو تا ہے۔

ہم یہ بات بھی جا نتے ہیں کہ بڑی عمر کے لوگوں کے چھوٹی عمر کے لڑکوں سے میل ملاقات میں کا فی مفاسد ہیں ۔بلکہ ان سے میل جول حرا م ہے۔اس سلسلے میں شریعت میں ہمیں تفصیل سے آگاہی ہو تی ہے لیکن اس شرعی آگاہی کے باوجود ہم یہ فیصلہ نہیں دے سکتے کہ بڑوں کو چھوٹوں کو دعوت نہیں دینا چا ہیے اور یہ ناجا ئز ہے۔برے امکا نات کے وقوع سے بچتے ہو ئے یہ حکم لگا نا اور یہ فیصلہ سنانا مناسب نہ ہوگا کہ بڑے بچوں کودعوت دین نہ دیں ۔

لیکن اس واقعہ کے واقع  ہو نے سے ہم یہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں کہ بد قسمتی سے کو ئی آدمی کسی برا ئی میں گرفتار ہو جا ئے تو اس کو نصیحت کریں سیدھی بات کی ترغیب دیں اور توبہ کی طرف توجہ دلا ئیں ۔

چنانچہ واقعہ کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے سے یہاں حکم شرعی کے جواز اور عدم جواز کا مسئلہ پیدا نہیں ہو تا بلکہ یہاں اس سے مراد اس آدمی  کے لیے نصیحت ہے جو غلط معاملے میں داخل ہونے کا امکا ن رکھتا ہے تا کہ وہ منکر کے ارتکاب سے پہلے ہی حق کی طرف راغب ہو جا ئے ۔یاکم از کم اس معاملے کے ارتکاب سے بچ جا ئے جس کو اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ناپسند کرتے ہیں ۔

مذکورہ بالا مثا لیں صرف آپ کے ذہن میں مسئلہ کی وضا حت کے لیے پیش کی گئی ہیں ۔ایک اور بات جس سے لو گوں کو خبردار رہنا چا ہیے کہ بعض شرعی احکا م ایسے ہیں جس میں عامۃ الناس غلط اعتقاد رکھتے ہیں ۔مثال کے طور پر اس مسئلے میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔مسئلہ یہ ہے کہ بیماری جسم پر بول اور نجا ست لگنے کے خوف یا کپڑوں کے ناپاک ہو نے کے خوف سے کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جا ئز ہے کیونکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔

لیکن عامۃ النا س اور جا ہل لوگوں کا خیال یہ ہے کہ جو آدمی یوں کرے وہ غلطی کا ارتکاب کرتا اور یہ کا م اخلاق و مروت کے منا فی ہے اور فلاں فلا ں ہے۔

جاہل لوگوں کا یہ عقیدہ رکھنا  اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ حکم صحیح ہے۔ اس کو قابل التفات نہیں ما نا جا ئے گا ۔کیونکہ مسئلہ یہی ہے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ثابت اور صحیح ہے اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ۔چنانچہ جا ہل شخص کا اپنے اعتقاد میں غلطی  کھا نا اور اس شرعی حکم سے متعلقہ معا ملے میں غلط تصور رکھنا یا کسی بھی معا ملے میں اپنی جہالت کی بدولت غلط اعتقاد رکھنے کا علاج یہی ہے کہ اس کی بات کو غلطی پر محمول کیا جائے اور اس کی تعلیم کی طرف تو جہ دی جا ئے نہ کہ عالم شخص اس کی وجہ سے شرعی رائے میں تبدیلی کر لے۔

آٹھواں ضابطہ :۔

یہ بھی بڑا اہم قاعدہ ہے اس کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ کا فروں سے دوستی اور ان سے موالاۃ کا تعلق رکھنا شرعا ًکیسا ہے؟

شرح میں آئمہ تو حید کے ہاں ان دونوں لفظوں کے معافی مختلف ہیں اکثر لوگ ان میں سے ایک کو دوسرے سے خلط ملط کر دیتے ہیں ۔

پہلا لفظ ہے :التولی،دوسرا لفظ موالاۃ ۔۔۔غیر مسلموں سے "تولی"رکھنا انسان کو حلقہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے جبکہ ان سے موالاۃ حرا م ہے اور گناہ کبیرہ ہے اس میں ایک تیسرا امر بھی ہے وہ یہ کہ مسلمان کا فر سے مدد لے اور اس سے اجرت پر کام کروائے تو یہ صورت کچھ شروط کے ساتھ جا ئز ہے بہر حال یہ تین صورتیں ہیں ۔

تو لی کے سلسلے میں اللہ عزو جل کا فر ما ن ہے" اے ایمان والو!یہود ونصاریٰ کو اپنے دوست نہ بنا ؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جوان سے "تولی"کرے گا تو وہ ان میں سے ہی شمار ہوگا اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیا کرتے "

تو لی کی تعریف یہ ہے کہ کد"آپس میں جنگ کے وقت مسلمان کی بجائے کا فر کی مدد کرنا تا کہ کفار مسلمانوں پر غلبہ پا سکیں "تولی" کی بنیا د مخالف کی شدید محبت ہے اور مسلمانوں کے بجا ئے کفار کی مدد ہے جو شخص کفار سے ان کے عقائد کی بدولت محبت کرے تو ایسا آدمی کا فر ہے۔

موالا ۃ الکفا ر کا مطلب ہے ان سے الفت رکھنا ان کے امور دنیاوی کی بدولت ان سے قرب کی خواہش رکھنا اور انہیں مسلمان بھا ئیوں سے قدم اور اعلیٰ وارفع رکھنا یہ رویہ گناہ کا باعث ہے لیکن کفر نہیں ۔

اللہ تعا لیٰ فر ما تے ہیں "اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنا ؤ تم ان سے محبت کے ساتھ میل جو ل کرتے ہو۔۔۔ اور جو ایسے ایسے کرے گا تو وہ سیدھے راستے سے گمراہ ہے"

اہل علم کہتے ہیں کہ اس فر ما ن میں ایسے مسلمانوں کو مومن کہا گیا ہے اور اس ندا میں ساتھ ہی ان کے  فعل "کفار کے لیے محبت "تذکرہ بھی مو جو د ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ فعل کفر نہیں بلکہ راہ حق سے گمرا ہی ہے وجہ یہ ہے کہ وہ ان سے محبت کرتا ہے دنیا کی خاطر نہ کہ دین کی وجہ سے اسی لیے ایسا کرنے والے ایک آدمی کو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا !کہ تو نے یہ کام کس وجہ سے کیا؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم میں اپنے اسلام پر اسی طرح قائم ہوں لیکن میرا مقصد یہ تھا کہ میں ان پر کچھ احسان دھروں تا کہ وہ بحکم الٰہی میرے اہل و مال سے دور رہیں۔(بخاری ومسلم )

اس سے ظا ہر ہو تا ہے کہ کا فر سے محبت اور میل جول رکھنا دنیاوی غرض کے لیے کفر نہیں جبکہ ایمان اور اور دلی اطمینان مو جو د ہو۔ بلکہ وہ فسق و  فجورکے ضمن میں آتا ہے۔

تیسری صورت جو کا فر سے تعاون لینے اور اسے اجرت پر کسی کام کو کروانے کی ہے ۔اس کے بارے میں مختلف حالات میں اہل علم جواز کا فتویٰ دیتے ہیں ۔جس صورت کو وہ مناسب حال تجویز کرتے ہیں اس کے مطا بق فتویٰ صادر کر دیتے ہیں ۔

جہاں تک کفار کو صدقہ کے طور پر تالیف قلبی یا نقصان سے بچنے کے لیے مال دینے کا تعلق ہے تو اس کا حکم مذکورہ بالا تین اقسام سے علیحدہ ہے اور اس کی مستقل حیثیت ہے۔

آخری ضابطہ :۔

مسلمان کو چا ہیے کہ وہ احا دیث جن میں فتن کی نشاندہی اور علامات کا تذکر ہے کو اپنے حالات پر لا گو کرنے سے اجتناب کرے لو گوں کے لیے مستحب ہے کہ فتنوں کے ظہور پر فتن سے متعلقہ احا دیث کا کثرت سے مطالعہ اور تذکرہ کریں اور اپنی مجا لس میں آپ کے اقوال و علامتوں کی نشاندہی  کرتے رہیں ۔

لیکن علماءسلف کی تعلیم یہی ہے کہ احادیث فتن کو اپنی واقعات کے مصداق نہ ٹھہرایا جائے۔بلکہ ان سے در حقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی سچا ئی اور ان سے اجتناب کرنے کا فا ئدہ اٹھا نا چا ہیے ۔

مثال کے طور پر کچھ لو گو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس فر مان کہ زمانہ آخر میں گھروں میں عورتیں مردوں سے برتری رکھیں گی کو تشبیہ دینا شروع کریں کہ جس طرح فلاں گھر میں ایسے اور فلاں مقام پر ویسے ہے یا آپ کی کسی پیشین گو ئی کا مصداق کسی شخص کو ٹھہرایا جا ئے ۔

احا دیث فتن سے یہ کا م لینا اور اس طور لوگوں میں نشرواشاعت کرنا ۔۔۔اہل سنت والجماعت کے طریقہ کے خلا ف ہے بلکہ علماء سنت ان احادیث سے ایسی علامتوں سے بچنے اور برے طورطریقوں  سے اجتناب کا فائدہ اٹھا تے ہیں اور اس کے قرب سے بھی دور ہو نے کا فائدہ لیتے ہیں تا کہ مسلمان فتنے سے محفوظ رہ سکیں اور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے صحیح ہو نے پر اعتقاد بھی پختہ ہو۔نہ کہ ان کے مصداق کچھ امور کو متعین کر کے مطعون کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔