امام یحییٰ بن شرف نووی ؒ اور انکی خدمت حدیث

631ہجری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔676ہجری


امام یحییٰ بن شرف نووی ؒ کا شمار بلند پایہ محدثین کرام میں ہوتا ہے۔ائمہ فن اور تذکرہ نگاروں نے ان کے حنظ وضبط اور عدالت وثقاہت کا اعتراف کیا ہے۔علم حدیث اور اس کے متعلقات سے انہیں غیر معمولی شغف تھا۔اوران کاشمار ممتاز (لفظ مٹا ہوا ہے) حدیث میں ہوتا ہے۔امام نووی ؒ حدیث وفنون حدیث کے حافظ ،متبحر عالم،تھے۔ امام نووی ؒ حدیث کی طرح فقہ وافتاء میں بھی ممتاز تھے۔اور اس میں ان کی معلومات وسیع اور گہری نظر تھی۔اور ان کا شمار اکابر فقہاء شوافع میں ہوتا تھا۔ اور درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔ اور بعض مسائل میں ان کے اقوال اپنے مذہب کے علماء سے مختلف ہوتے تھے۔ ۔امام نووی ؒ جملہ علوم اسلامیہ یعنی تفسیر ،حدیث،فقہ ،اصول فقہ،لغت،عربیت،نحو وصرف،منطق اور فلسفہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔اور تمام علوم میں جامع کمالات تھے۔

امام نووی ؒ جہاں تمام علوم پر دسترس رکھتے تھے۔وہاں بڑے متدین عابد اور زاہد شخص تھے۔ورع و تقویٰ میں بے مثال تھے۔انھوں نے اپنی زندگی اسلامی علوم خصوصاً حدیث وسنت کی خدمت واشاعت میں گزاری اور ان کی اصل دلچسپی کا مرکز فقہ وحدیث تھا۔ صبرو استقلال میں بھی بے مثال تھے اورسیرت وکردار کے لحاظ سے بھی بڑے ممتاز تھے۔بہترین اوصاف وفضائل اور پاکیزہ سیرت واخلاق سے متصف اور محاسن وکمالات میں عدیم النظیر تھے۔ علمائے کرام ۔ارباب سیر اور تزکرہ نگاروں نے امام نووی ؒ کے فضل وکمال کا اعتراف کیا ہے ۔اور اس پر سب نے اتفاق کیا ہے۔کہ امام نوویؒ علم وزہد اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں ممتاز تھے۔اور یہ تینوں خصوصیات ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔

محی السنۃ مولانا سید نواب صدیق حسن خاںؒ قنوجی رئیس بھوپال (م1317ھ) نے لکھا ہے:

"امام نوویؒ گوناگوں فضائل ومحاسن کے جامع علوم میں متبحر حدیث فقہ اور لغت میں واسع المعرفت عالم وفاضل یگانہ ولی کبیر سید شہیر تمام معاصرین سے فائق وبرتر۔ہر سو ان کے محاسن کاچرچا اور فضائل کی شہر ت تھی۔

امام یحییٰ بن شرف نووی ؒ نے گو کم عمر پائی۔تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کے سلمی کا موں میں برکت عطا کی اور وہ زندگی بھر علم وفن کی خدمت میں مصروف رہے اور آپ نے مفید وعلمی کتابیں یادگار چھوڑیں۔

علامہ ابن سبکیؒ (م771ھ) فرماتے ہیں:

"اہل بصیرت سے یہ مخفی نہیں کہ امام نوویؒ اوراُن کی تصنیفات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور توجہ شامل حال رہی ہے۔" ارباب سیر نے امام نوویؒ کی 28 کتابوں کاتذکرہ کیا ہے۔

آپ کی تصانیف میں ایک کتاب "منہاج الطالبین وعمدۃ المفتین" ہے۔یہ کتاب مذہب شافعی میں بہت مشہور ومتد اول ہے۔یہ کتاب علامہ ابو القاسم عبدالکریم بن محمد رافعی قزوینی (م623ھ) کی تصنیف ہے۔امام نووی ؒ نے اس کو مختصر کیا ہے۔اور اس میں بعض مفید اور عمدہ مسائل ومباحث کا اضافہ بھی کیا ہے۔امام نووی ؒ کی ایک اور تصنیف تہذیب الاسماء والثقات ہے۔اس کا شمار امام صاحب کی مشہو ر تصانیف میں ہوتاہے۔اس میں آپ ؒ نے اسماء اعلام کے الفاظ ولغات کی تشریح وتوضیح کی ہے۔اس کے علاوہ آپ کی ایک اور تصنیف کتاب الاذکار ہے۔یہ کتاب بھی امام صاحب کی مشہور تصانیف میں سے ہے۔اس میں حدیث کی کتابوں سے شب وروز کے اشغال واذکار اوردعائیں جمع کی گئی ہیں۔اور اس کتاب میں صرف احادیث سے ادعیہ واذکار نقل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیاگیا بلکہ ان سے متعلق آیات قرآنی اور متقدمین کے اقوال بھی نقل کئے ہیں۔امام نووی ؒ کی ایک اور مختصر سی کتاب مقاصد النوویؒ ہے۔یہ کتاب توحید عبادت اور تصوف سے متعلق ہے۔اور1322ء میں بیروت سے شائع ہوئی۔

حدیث اور متعلقات حدیث سے متعلق امام نووی ؒ کی تصنیفات:

1۔الارشاد فی علوم الحدیث:یہ اصول حدیث میں ہے اور علامہ ابن صلاح کی مشہور ومعتبر کتاب مختصر علوم الحدیث کا خلاصہ ہے۔

2۔التقریب والتفسیر فی مصطلح الحدیث :یہ کتاب الارشاد کی مختصر ہے اور اس کا نام تقریب الارشاد بھی ہے۔علامہ عبدالرحمٰن سخاوی( م902ھ) نے اس کی شرح لکھی ہے۔اورامام سیوطی (م611ھ) کی مشہور کتاب تدریب الراوی جو گناگوں فوائد اورعلمی نکات پرمشتمل ہے اس کی شرح ہے۔

2۔شرح البخاری ۔امام نوویؒ اس کو صرف کتاب الایمان تک لکھ سکے اس کے بارے میں فرماتے ہیں:

"میں نے شرح بخاری میں گوناگوں معلومات صبح کی ہیں۔یہ مختصر ہونے کے باوجود مفید اور متنوع علوم وفوائد پر مشتمل ہے۔

4۔ریاض الصالحین ۔ترغیب و ترہیب اور زہد وریاضت نفس سے متعلق صحیح حدثیوں کا مجموعہ ہے۔معتبر اور مفید ہونے کی وجہ سے اس کو بڑی شہرت نصیب ہوئی۔اور یہ مدارس السلامیہ کے نصاب میں داخل ہے۔اس کتاب کےاردو میں تراجم ہوچکے ہیں۔مولانا سید عبداللہ غزنوی (م1313ھ) نے سب سے پہلے اس کا اُردو میں ترجمہ کرکے امرتسر سے شائع کیا۔ مولانا محمد صادق خلیل نے بھی اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔جو نعمانی کتب خانہ لاہور نے شائع کیا ہے۔

5۔اربعین نوویؒ۔اربعین بھی حدیث کی ایک قسم ہے۔اوراکثر محدثین کرام نے چالیس حدیثوں کے مجموعے مرتب کئے ہیں۔اور علمائے کرام نے مختلف اغراض ومقاصد کے تحت اربعینات مرتب کئے۔بعض نے توحید الٰہی کی چالیس حدیثوں کو جمع کیا۔بعض نے اصول ومہمات دین کی روایتیں اکھٹی کیں۔بعض نے جہاد کی اور بعض نے زہد ومواعظ اور بعض نے آداب واخلاق اور فضائل واعمال وغیرہ کے متعلق چالیس حدیثیں جمع کیں۔امام نووی ؒ نے اپنی اربعین میں ان سب امور کا لہحاظ رکھا ہے۔اس لئے ان کا یہ مجموعہ بہت جامع اور گوناگوں اغراض ومقاصد کا حامل ہے۔امام صاحب کا خود بیان ہے:

"وهى اربعون حديثا مشتملة على  جميع ذلك وكل حديث منها قاعدة عظيمة من قواعد الدين"

یہ چالیس حدیثیں ان سب امور کو شامل ہیں اور ان میں ہرہر حدیث دین کے کسی عظیم الشان قائدہ پر مبنی ہے۔

امام صاحب ؒ نے اپنی اس اربعین میں اکثر احادیث صحیح بخاری ومسلم سے لی ہیں۔اربعین نوویؒ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔کہ اس کی بیشمار شرحیں لکھی گئی ہیں۔سب سے طویل شرح اس کی ابن رجب بغدادی حنبلی (م795ھ) نے لکھی۔اور اس میں ابن رجب نے اپنی طرف سے اٹھ احادیث کا اضافہ کیا اور اس کا نام جامع العلوم والحکم شرح خمسین حدیثاً من جوامع الکلم " رکھا۔یہ شرح 1346ھ میں مصطفیٰ البابی الجلسی کے مطبع سے شائع ہوئی ہے۔ابن رجب ؒ کے علاوہ احمد بن حجر ہثیمی (م973ھ)

نے بھی فتح المبین کے نام اس کی شرح لکھی جو(1307ھ) میں قاہرہ شائع ہوئی۔ملا علی قاری حنفی (م1044ھ) نے اس کی دو شرحیں لکھیں ان میں سے ایک شرح نہایت مضبوط جامع اور گوناگوں علمی فوائد ونکات پر مشتمل ہے۔اور صاحب کشف الظنون حاجی خلیفہ بن مصطفیٰ نے اس کو سب سے بہتر اور عمدہ شرح بتایا ہے۔

علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ (م852) نے اربعین نووی کی حدیثوں کی تخریج کی ہے۔

مولانا ضیاء الدین اصلاحی ایڈیٹر ماہنامہ معارف اعظم گڑھ نے تذکرہ المحدثین میں اربعین نووی کی 21 شرح کا ذکر کیا ہے۔

اربعین نووی کی فارسی شرح مولوی فرید الدین کا کور وی مرحوم نے کی اور اردو میں اس کی شرح مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی (م1379ھ) نے لکھی اور پنجابی نظم میں اس کی شرح مولانا محی الدین عبدالرحمان لکھوی (م1312ھ) نے لکھی اور پنجابی نظم میں اس کی شرح مولانا محی الدین عبدالرحمان لکھوی(م1312ھ) نے لکھی۔

6۔شرح صحیح مسلم۔اس کا اصل نام المنہاج فی شرح مسلم بن الحجاز" ہے ۔یہ امام نووی ؒ کی سب سے مشہور تصنیف ہے اور ان کے علمی تبحر وسعت مطالعہ اور ذوق تحقیق کی شاہکار ہے صحیح مسلم کی متعدد شرحیں لکھی گئی ہیں۔مگر ان میں سے کوئی بھی شرف ۔شہرت اورمقبولیت کے اعتبار سے اس کے ہم پایہ نہیں۔یہ شرح نہ تو مطول اور مفصل ہے نہ بہت مختصر بلکہ متوسط ہے۔اس کے بارے میں امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ:

"اگر لوگوں کی ہمتیں پست نہ ہوتیں تو میں اس شرح کو ایک سو جلدوں میں مکمل کرتا۔لیکن تین جلدوں میں ختم کردیا۔

امام نووی ؒ نے شروح میں اس کا ایک علمی مقدمہ بھی تحریر فرمایا ہے۔جن میں آپ کے صحیحین خصوصاً صحیح مسلم کی خصوصیت واہمیت امام مسلم (م261ھ) کی حدیث میں عظمت ۔برتری۔یا غیر معمولی احتیاط وکاوش۔وقت نظر کے علاوہ اصول روایت اور فن حدیث کے مباحث ومصطلحات تحریر کیے ہیں۔

امام نووی ؒ کی یہ شرح جامع اور بے شمار مفید مسائل اورمباحث پر مشتمل ہے۔ایک حدیث کی شرح دوسری حدیث سے کی گئی ہے۔اور ساتھ ہی یہ تصریح کردی ہے کہ یہ حدیث فلاں آیت قرآنی کے موافق ہے اور اس کے ساتھ مشکل الفاظ کی توضیح وتشریح بھی کی ہے:

امام صاحبؒ نے اس شرح میں فن حدیث کے علاوہ اصول شرح حدیث فقہ واحکام تفسیر تاریخ کلام عقائد سیروتراجم رجال وانساب نعت وادب صرف ونحو اعراب وامالی اور قرائت ہوتجوید کے مسائل ومباحث پر بھی تفصیلی اور عمدہ علمی بحث فرمائی ہے۔ اور اس میں ہر فن کی کتابوں کے حوالے بھی دیئے ہیں۔بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ چونکہ امام نووی ؒ شافعی تھے۔اس لئے آپ نے اس شرح میں مذہب شافعی کی طرف خاص توجہ کی ہے اور اسی کو راحج اور قوی قرار دیا ہے۔مگر محی السنۃ والا جاہ امیر املک حضرت مولانا سید نواب صدیق حسن خاںؒ قنوجی رئیس بھوپال (م1317ھ) نے اس خیال کی تردید کی ہے۔آپ فرماتے ہیں:

"وہ منزہ بوداز تعصب شافعیت ومتصف بانصاف ونقل می کرد در کتب خود از اقوال ابو حنیفہ۔"

شافعی ؒ مذہب کے عصبیت سے پاک اور انصاف پسند تھے۔اور اپنی کتابوں میں امام ابو حنیفہ ؒ کے اقوال ومسالک بھی بیان کرتے تھے۔"

یہ شرح تحریر وتصنیف کی خوبی ودلکشی سے بھی معمور ہے عبارت میں سلاست اور روانی پیرایہ بیان میں دلاویزی ہے۔

امام نوویؒ سن 631ھ میں قصبہ نوامن مضافات ملک شام میں پیدا ہوئے۔اسی نسبت سے نووی ؒ مشہور ہوئے۔امام نووی ؒ نے جن ارباب کمال سے تعلیم حاصل کی۔علامہ ذہبی (م748ھ) نے ان کی تفصیل تزکرۃ الحفاظ میں بیان کی ہے۔

آپ نے درس وتدریس کے فرائض مختلف مدارس میں سر انجام دیئے۔ اس لئے آپ کے تلامذہ کی فہرست بھی طویل ہے۔اورذہبی ؒ نے آپ کے تلامذہ کا بھی ذکر کیا ہے۔

امام نووی ؒ نے 45 سال کی عمر میں 24 رجب 676ھ کو اپنے وطن نواء میں انتقال کیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون


حوالہ جات

1۔ذھبی تذکرۃ الحفاظ ج4 ص 262۔

2۔ابن کثیر ؒ البدایۃ والنہایۃ ج3 ص278۔

3۔ابن سبکی طبقات للشافعیۃ ج5 ص257۔

4۔ ابن کثیر ؒ البدایۃ والنہایۃ ج3 ص271۔

5۔ذھبی تذکرۃ الحفاظ ج4 ص261۔

6۔یافعی مراۃ الجنان ج4 ص185۔

7۔ابن العماد نشذرات المذہب ج5 ص356۔

8۔نواب صدیق حسن خاں" اتحاف النبلاء ص430۔

9۔ابن سبکی طبقات الشافعیہ ج5 ص166۔

10۔ضیاء الدین اسلامی تذکرۃ المحدثین ج2 ص427۔

11۔ضیاء الدین اصلاحی۔تذکرۃ المحدثین ج2 ص437۔

12۔حاجی خلیفہ بن مصطفیٰ کشف الظنون ج1 ص318۔

13۔ابو یحیٰ امام خاں نوشہروی ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ص46۔

14۔حاجی خلیفہ بن مصطفیٰ کشف الظنون ج1ص 80۔

15۔ایضاً ص81۔

16۔ضیاء الدین اصلاحی تذکرہ المحدثین ج2ص 429 ۔431۔

17۔ابو یحیٰ امام خاں نوشیر وی ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ص47۔

18۔عبدالسلام مبارک پوری سیرت البخاری ص415۔

19۔ابو الحسن علی ندوی تاریخ دعوت وعزیمت ج1 ص41۔

20۔شمس الدین ذھبی تذکرۃ الحفاظ ج3 ص260۔

21۔ایضاً ص261۔

22۔یافعی مراۃ الجنان ج4 ص186۔