بدعَت اور مصَالح مُرسلہ
(زیر نظر مقالہ مدیر"محدث" حافظ عبدالرحمٰن مدنی کی کلیۃ الشریعۃ (جامعہ لاہور اسلامیہ) کے ہفتہ وار اجتماع میں کی گئی ایک تقریر ہے۔جس میں گزشتہ دنوں "محدث" میں شائع شدہ "دین میں بدعات" کے موضوع پر مسئلہ کے بعض پہلوؤں کی وضاحت کی گئی تھی ۔موجودہ شکل میں اسے ٹیپ سے منتقل کرکے ھدیہ قارئین کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
بدعت عربی زبان کا لفظ ہے اور ب ۔د۔ع اس کے حروف اصلی ہیں۔بدعت کے معنی "نئی چیز" کے ہیں۔کوئی ایسی چیز جس سے پہلے اسی قسم کی کوئی چیز نہ ہو لغوی اعتبار سے اسے "بدعت" کہتے ہیں یا یوں کہیے کہ کوی ایسی چیز جس کی مثل یا اس کی کوئی نظیر پہلے سے موجود نہ ہو کو"بدعت" کہتے ہیں۔قرآن مجید میں ہے:
﴿قُل ما كُنتُ بِدعًا مِنَ الرُّسُلِ ....﴿٩﴾... سورة الاحقاف
(اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم)آپ فرمادیجیے،رسولوں میں سے کوئی پہلا رسول نہیں ہوں(کہ مجھ سے پہلے کوئی رسول نہ ہوگزرا ہو)!"
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت "بدیع" ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
﴿بَديعُ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ وَإِذا قَضىٰ أَمرًا فَإِنَّما يَقولُ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿١١٧﴾... سورة البقرة
"آسمانوں اورزمینوں کو (ایسا) پیدا کرنے والا (کہ ا س سے پہلے ان کی کوئی مثال یا نظیر موجود نہ تھی) اور (اللہ تعالیٰ) جب کسی کام کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔تو اسے کہتے ہیں:ہوجا!پس وہ ہوجاتا ہے۔"
یہ بدعت کے لغوی معنی ہیں:
شرعی اصطلاح میں بدعت اس چیز کو کہتے ہیں کہ دینی امور میں اس کی کوئی مثال پہلے سے موجود نہ ہو جانچنے کےلئے مثال موجود نہ ہونے کا یہ معنی نہیں کہ بالکل اسی قسم کا ہو بہو کوئی واقعہ موجود نہ ہو۔کیونکہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں جو واقعات پیش آئے۔بعد کے زمانے میں بھی بالکل اسی طرح کے واقعات پیش آئیں اور کوئی واقعہ اس سے مختلف شکل میں پیش نہ آئے۔یہ ناممکن ہے ۔لہذا "بدعت' کی صرف اسی قدر تعریف ناکافی ہے۔بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اگر کوئی ایساشرعی اثر موجود نہ ہو۔جس سے بعد میں آنے والے کسی واقعہ کا حکم مستنبط ہوسکتا ہو تو بھی(بعد کام) یہ(کام) بدعت ہے۔ورنہ اس پر بدعت کا اطلاق نہیں ہوگا۔جیسا کہ جمعہ کی دوسری اذان ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد میں جمعہ کی صرف ایک اذان تھی۔اذان ثانی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقرر کی۔لیکن یہ بدعت نہیں ہے۔اس لئے کہ اس کی دلیل شریعت میں موجود ہے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی اذان سے قبل بھی ایک اذان رکھی تھی۔پہلی اذان حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیا کرتے تھے۔اور دوسری اذان حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر دو اذانوں میں صرف اسی قدر وقفہ ہوتا تھا جس قادر کہ صبح کاذب۔اور صبح صادق میں ہوتا ہے۔صبح کاذب صبح صادق سے پہلے ہوتی ہے اور اس کی نشانی یہ ہے کہ اس میں سفیدی بھیڑیے کی دم کی طرح اوپر کو اٹھی ہوتی ہے۔اور یوں معلوم ہورہا ہوتا ہے کہ جیسے صبح ہورہی ہو۔یہ صبح کاذب ہے۔اس کے کوئی آدھ گھنٹہ بیس منٹ بعد صبح صادق ہوتی ہے۔جس میں اوپر سفیدی ہوتی ہے ۔نیچے سیاہی اور درمیان میں ایک خط یوں معلوم ہوتاہے۔جیسے سفید دھاری اور سیاہ دھاری آپس میں مل رہی ہوں۔قرآن مجید میں ہے:
﴿حَتّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ... ﴿١٨٧﴾... سورة البقرة
یعنی جب صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوجائے!رمضان شریف آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ:
«لا يمنعنكم اذان بلال فانه يؤذن بليل»
"بلال (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی اذان تمھیں سحری کھانے سے نہ روکے ا س لئے کہ وہ رات کو (صبح صادق سے پہلے) اذان دیتے ہیں!"
اور اس کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ:
«ليؤقظ نآئمكم وليرجع قآئمكم»
"تاکہ یہ (اذان) تمہارے سونے والے کو جگا دے۔اور تہجد پڑھنے والے کو واپس کردے۔"
گویا اس اذان کا فائدہ یہ تھا کہ ایک تو نماز تہجد اور صبح کی نماز کے درمیان تھوڑا سا وقفہ ہوجائے اور تہجد پڑھنے والوں کے پے در پے نماز کا تسلسل تھکا نہ دے۔دوسرے لمبی نیند کے بعد جاگنے والے قضائے حاجت اور صفائی وغیرہ کے امور سے فارغ ہوجائیں۔
اب ایسی ہی ایک ضرورت جمعہ کی نماز کے سلسلہ میں پیش آئی۔اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نماز جمعہ کے لئے سب سے پہلے آنے والے کو اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے۔دوسرے نمبر پر آنے والے کو گائے کی قربانی کا تیسرے نمبر پر بکرے چھترے کی قربانی کی۔الخ"
(اسی طرح یہ ثواب مسلسل کم ہوتا چلاجاتا ہے) حتیٰ کہ خطیب جب خطبہ دینے کے لئے منبر پر کھڑا ہوجاتا ہے۔تو ثواب لکھنے والے فرشتے ثواب لکھنا بند کردیتے ہیں اب جو شخص خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد میں آتا ہے۔اس کے لئے یہ ثواب نہیں لکھا جاتا۔لہذا ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگ یہ نہ کریں کہ خطبہ کے درمیان آیا کریں۔بلکہ اس سے قبل ہی ایک(پہلی) اذان سن کر تمام لوگ مسجد میں جمع ہوجایاکریں۔اور یوں جہاں وہ ثواب سے محروم نہ رہیں وہاں اطمینان سے پورے کا پورا خطبہ بھی سن سکیں۔چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے جمعہ کی دوسری اذان کا یہ اضافہ بدعت نہیں۔اس لئے کہ اس میں بھی کہ صُبح کی پہلی اذان کی طرح ایک حکمت پائی جاتی ہے۔گویا صبح کی اذان کی صورت میں اس کی دلیل موجود ہے۔اور صبح کی یہ اذان سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
حاصل یہ کہ بدعت کی تعریف میں صرف یہ بات کافی نہیں کہ وہ نئی چیز ہو یا اس کی کوئی دلیل یا نظیر پہلے سے موجود نہ ہو بلکہ اگر کوئی ایسی چیز جو ایسے طور پرنئی ہو کہ اس کی دلیل کتاب وسنت میں موجود نہ ہو تب وہ بدعت ہوگی۔
پھر بدعت کی تعریف میں یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ کسی دینی امر میں کوئی احداث (نیا پن)اضافہ یا تبدیلی کی جائے یعنی ایسا کرنے والے کی نیت حصول ثواب کی ہو تو یہ بدعت ہے۔دنیا وی امور پر اس کااطلاق نہیں ہوگا۔مثلاً صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کھجوروں کی پیوند کاری(اس کو "تابیر"کہتے ہیں کھجور میں ایک نر ہوتا ہے۔ایک مادہ زکا بورہ اورزیرہ لے کر مادہ کھجور پر ایک خاص انداز سے ڈلاجاتا ہے۔تو پھل اچھی قسم کا اور زیادہ پیدا ہوتاہے۔عربی میں اسے"تابیرنخل"کہتے ہیں۔)کرتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کرتے ہوئے اس سے منع فرمایاتو پھل تھوڑا آیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے شکایت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«انما انا بشر اذا امرتكم بشئ من دينكم فخذوا به واذا امرتكم بشئ من رأى فانما انا بشر»
"بے شک میں تو آدمی ہوں جب میں کوئی دین کی بات تمھیں بتلاؤں تو اسے اپناؤ اور جب کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو آخر میں آدمی ہوں۔(صحیح مسلم ۔کتاب الفضائل)
اور مسلم ہی کی ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«انتم اعلم بامردنياكم»
"کہ تم اپنے دنیاوی معاملات کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔"
نتیجہ یہ کہ کسی دنیاوی امر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کوچھوڑ کر اگر اپنے تجربہ پر عمل کیا جائے۔تو چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے۔لہذا اس سے بدعت و غیرہ کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوگا۔ہاں اگر یہی صور ت حال کسی دینی امر میں ہو تو بلاشبہ یہ بدعت ہے۔بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم کی نذر ہوگی۔
مذکورہ بالا نکات کی مزید وضاحت کےلئے ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں:
1۔آج ہم جتنے لوگ موجود ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود نہ تھے تو ہمارا صرف یہ وجود دینی امر نہیں ۔لہذا یہ بدعت نہیں ہے۔
2۔آج کسی ایسے واقعہ کا پیش آنا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش نہ آیا تھا بدعت نہیں ہے۔
3۔جدید مشینیں اور ایجادات جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود نہ تھیں مثلا جدید اسلحہ جدید ذرایع نقل وحمل اور آمدو رفت اوراس قبیل کی دیگر چیزیں یہ بھی بدعت نہیں ہیں۔
4۔بدعت کا تعقل دینی امور سے ہے۔امور میں بعض تو وہ ہیں کہ جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور یہ کبھی حتمی ہوتے ہیں۔انہیں واجب کہتے ہیں۔بعض ایسے امو ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے منع فرمایا ہے انہیں حرام کہتے ہیں۔پھر بعض امور ایسے ہیں کہ جن کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ شرائط کچھ علامتیں اور کچھ طریقے مقررفرمائے ہیں۔۔۔مثلاً نماز کے لئے طہارت شرط ہے۔عورت مخصوص ایام میں نماز نہیں پڑھ سکتی فلاں نماز فلاں وقت پر پڑھی جائے۔نماز اس طریقہ سے پڑھی جائے ۔۔۔یہ سب احکام الٰہی ہیں۔ان احکام میں سے کسی حکم کے اندر تبدیلی کرنا واضافہ کرنا۔واجب کوغیر واجب اور غیر واجب کو واجب قراردینا۔کسی حکم کو اس کے مقررہ طریقے سے ہٹ کر ادا کرنا یہ سب بدعات ہیں۔اسی طرح عبادات میں کوئی ایسی عبادت کہ شریعت میں اس کی کوئی مخصوص صورت مقرر نہ ہو۔اگر اس کی صورت مقرر کردی جائے تو یہ بدعت ہے۔ مثلا ًیہ کہا جائے کہ فلاں وقت میں فلاں نماز پڑھنے سے اس قدر ثواب ملتا ہے۔اور شریعت میں اس کے لئے کوئی دلیل موجود نہ ہو تو یہ نماز بدعت ہوگی۔
پھر عبادات کی ایک خاص شکل بھی شریعت میں متعین ہے۔اگر اس شکل سے ہٹ کر کوئی ایسی شکل پیدا کردیاجائے جو پہلے سے موجود نہ ہوتو یہ بھی بدعت ہوگی اس کی مثال یہ ہے کہ نماز تکبیر تحریمہ سے شروع ہوتی ہے۔اورتسلیم (السلام علیکم ورحمۃ اللہ ) پر ختم ہوجاتی ہے۔اب اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد اجتماعی دعا نہ کی جائے گی و نماز ناقص رہے گی۔۔۔یہ عقیدہ رکھ کر اس پر عمل بدعت ہے۔ہاں اگر اس عقیدے کے بغیر اجتماعی دعا کی جائے۔مثلاً نماز کے بعد کوئی شخص درخواست کرتا ہے امام صاحب سے کہ فلاں بیمار کے لئے دعا کیجئے یا اپنی کسی دیگر حاجت کے لئے وہ دعا کی درخواست کرتا ہے۔ اور سب نمازی مل کر دعا کریں گے تو یہ بدعت نہ ہوگی اس لئے کہ نماز باجماعت ختم ہونے کے بعد کے لئے یہ ایک دیگر اجتماعی شکل ہے۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ اگر کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بغیر بھی اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کی ہے۔پس نماز کے بعد اجتماعی دعا اس عقیدے کے بغیر کہ اس سے نماز ناقص رہے گی بدعت نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ عبادات میں اصل حرمت اور ممانعت ہے نیز تمام عبادات کی شکلیں متعین ہیں۔اس لئے عبادات میں یہ بدعت کا مسئلہ بڑی آسانی سے واضح ہوجاتا ہے۔کہ اگر دلیل موجود نہ ہوتو یہ بدعت ہوگی۔ورنہ یہ بدعت نہیں ہوگی جیسے کہ پہلے ہم نے جمعہ کی دوسری اذان کا ذکر کیا ہے۔
لیکن جہاں تک ان معاملات کا تعلق ہے۔ تو ان کی شکلیں متعین نہیں ہیں۔البتہ ان کے لئے مقاصد متعین کرکے اجمالی ہدایات دے دی گئی ہیں۔یعنی کچھ بنیادی اصول دے دیئے گئے ہیں۔کچھ حدود معین کردی گئی ہیں۔اوراس کے کچھ اندازے مقرر کردیئے گئے ہیں۔جن کو "اقداردینی" کہہ سکتے ہیں۔اور ان اقدار۔اصول وضوابط۔اورحدود کے اندر رہتے ہوئے ہمیں تدبیر کی کھلی اجازت ہے۔یہ تدبیر ہم اپنی عقل وبصیرت سے کریں تو یہ بدعت نہیں ہوگی۔مثلاً صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں قرآن مجید کو کتابی صورت میں جمع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔کیونکہ مسیلمہ کذاب سے جنگ میں قرآ ن مجید کے حفاظ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی تھی۔لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس سلسلہ میں یہ خیال مانع تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام نہیں کیا تھا۔ظاہر ہے قرآن مجید کو جمع کردینا دینی امر تھا۔تاہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ اصرارتھا کہ یہ کام بدعت نہیں ہے۔اور وہ اس سلسلے میں دلائل سے قائل کرنے کی کوشش بھی کرتے رہے۔بالآخر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس نتیجہ پر پہنچے کہ قرآن مجید جو خود دین ہے اس کی حفاظت بھی دینی امر ہے۔اور یہ مطلوب ومقصود بھی ہے۔۔۔تاہم یہ حفاظت کس طرح کی جائے؟اس کا تعلق تدبیر کے میدان سے ہے۔گویا قرآن مجید کو جمع کرنا دین کی حفاظت کا ایک ذریعہ اور تقاضا ہے۔لہذا یہ دین میں کمی بیشی نہیں اور نہ ہی یہ بدعت ہے چنانچہ یہ کام کردیا گیا۔
اس کی دوسری مثال نماز کے لئے پاک پانی کا حصول ہے۔۔۔نماز کے لئے طہارت شرط ہے۔اور طہارت ظاہر ہے پاک پانی سے ہوگی اب پاک پانی کا حصول بذات خوددین نہیں ہے لیکن یہ دین کے لئے ایک ذریعہ بن کر دینی امر ہوگیا پس ایسا امر جو بالواسطہ دینی امر بن جائے شریعت میں اس پر بدعت کا اطلاق نہیں ہوگا۔(جاری ہے)