ترجمان القرآن
«بِسمِ اللَّهِ الرَّحمـٰنِ الرَّحيمِ.الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العـٰلَمينَ.الرَّحمـٰنِ الرَّحيمِ.مـٰلِكِ يَومِ الدّينِ.إِيّاكَ نَعبُدُ وَإِيّاكَ نَستَعينُ. والصلوة والسلام على عبده ورسوله محمد سيد المرسلين وخاتم النبيين وعلى اله واصحابه ومن تبعهم بالاحان اجمعين اكتعين ابصعين»
ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے پروردیگار اور اپنے معبود کو پہچانے اس کی صفتوں کو جانے اس کے احکام معلوم کرے۔اس کی رضا مندی اور ناراضگی کو سمجھے کیونکہ اس کے بغیر بندگی نہیں ہوتی۔جو بندگی بجا نہ لائے وہ بندہ نہیں گندہ ہے۔اللہ پہچان بتانے سے آتی ہے۔آدمی محض نادان پیدا ہوتا ہے۔سب چیزیں سکھانے سے سیکھ لیتا ہے۔بتانے سے جان لیتا ہے۔لیکن بتانے والے کتنی ہی تقریریں کریں وعظ ونصیحت سے کام لیں مگر ان کے وعظ ونصائح اللہ تعالیٰ کے اُن مواعظ حسنہ کے برابر نہیں ہوسکتے۔جو اللہ تعالیٰ نے خود بتائے ہیں۔جو ہدایت اللہ کے کلام میں ہے ہرگز کسی دوسرے کے کلام میں نہیں ہوسکتی۔قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا۔اس لئے اہل ہند کو اس کا سمجھنا محال تھا۔اس لئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے"فتح الرحمٰن' کے نام سے سب سے پہلے فارسی زبان میں اس کا ترجمہ کیا۔اس کے بعد اُن کے فرزند ارجمند شاہ عبدالقادر ؒ نے اردو زبان میں"موضح القرآن" سے اس کا ترجمہ کیا۔اس اردو ترجمے سے مسلم اہل ہند کو اسی طرح فائدہ ہوا۔جس طرح فارسی ترجمے سے اہل علم نے فائدہ اٹھایا۔
دنیا میں قرآن مجید کی ان گنت تفاسیر ہیں۔"کتاب اکسیر"میں تیرہ سو تفاسیر کا ذکر کیا گیا ہے۔ان تفاسیر میں سے عربی زبان میں بہت زیادہ ہیں فارسی میں دوچار اور اردو زبان میں ایک دو ہیں۔اس لئے مدت سے اہل علم کی ایک جماعت مجھ سے اردو زبان میں ایسی تفسیر لکھنے کا مطالبہ کررہی تھی۔جو بہ بہت لمبی ہو نہ بہت مختصر بلکہ بین بین ہو۔قرآن مجید کا مطلب واضح کرے۔کم علموں کو ر اہ ہدایت کی طرف راہنمائی کرے۔مجھے ا س کام کی فرصت نہ تھی۔لیکن احباب کا جب تقاضا اصرار کی صورت اختیار کرگیا تو چاروناچار 1302ہجر ی میں رمضان کےچاند کے طلوع ہوتے ہی سوموار کے روزاسی تفسیر کا آغاذ کردیا گیا۔"موضع القرآن"1205ھ میں لکھی گئی تھی۔اس پر 97 سال کی مدت بیت گئی ہے۔"موضع القرآن" ترجمہ تھا۔اور"بيان القرآن بلطائف البيان" تفسیر ہے۔رمضان المبارک میں اس کام کا آغاذ اس لئے کیا کہ سب سے پہلے قرآن مجید کا آسمان دنیا سے بیت العزت پر نزول اسی مبارک مہینے میں ہوا تھا۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿شَهرُ رَمَضانَ الَّذى أُنزِلَ فيهِ القُرءانُ ... ﴿١٨٥﴾... سورة البقرة
"ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا"
اس تفسیر میں آیات کا ترجمہ اور فوائد'موضح القرآن" سے لئے گئے ہیں۔تفسیر کے باقی مطالب تفسیر ابن کثیر ؒ(علامہ ابن کثیرؒ) تفسیر فتح البیان(قاضی محمد بن علی شوکانی ؒ)سے اخذ کیے ہیں۔موضح القرآن کی عبارت کو روز مرہ کے استعمال کی زبان میں ڈھال لیا ہے۔اس لئے کہ ستانوے سال کی طویل مدت میں اردو زبان وبیان کے بعض محاورے بھی بدل گئے ہیں۔
مقصد تفسیر:
تفسیر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ برصغیر پاک وہند کے مسلمان اپنی زبان (اردو) میں قرآن مجید کے مطالب ومفاہیم کو جانیں اور اس کا علم حاصل کریں۔علمی باتیں جنھیں عام لوگ نہیں سمجھ سکتے۔جیسے مسائل کا ادراک علم صرف ونحو معانی وبیان قراءت وغیرہ اس تفسیر میں نہیں لکھے گئے۔قرآن مجید کی جو تفسیر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے تابعین ؒ اور تبع تابعین ؒ یا لغت عرب سے ثابت ہے۔صرف وہی اس تفسیر میں لکھی گئی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کلام پاک کو جومطلب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرون ثلاثہ کے سلف صالحین سمجھتے اور بیان کرتے تھے۔ویسا مطلب ہر عالم بیان نہیں کرسکتا۔قرآن مجید کے معنی اپنی رائے سے بیان کرنا یا غیر رائے کو دخل دینا یا علم معقول کا استعمال کرنا بڑا گناہ ہے۔تفسیروہی مستند اور قابل اعتمادہوسکتی ہے۔جوسلف سے منقول ہو تمام امت مسلمہ پر لازم ہے کہ جس طرح اپنے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھاتے ہیں۔اسی طرح اس بات کابھی اہتمام کریں۔ کہ جو بچہ اردو زبان پڑھنے بولنے لگے۔اسے سب سے پہلے موضع القرآن کا مطالعہ کرائیں تاکہ وہ قرآن مجید کے لفظی معانی سمجھ لے پھر اسے یہ تفسیر پڑھائیں۔(بیان القرآن بلطائف البیان) اس میں یہ فائدہ ہوگا کہ سب سے پہلے اللہ کی کتاب کامطلب اس کے دل میں بیٹھ جائے گا۔جب قرآن مجید پڑھ لے گا۔اس کے مطلب سے واقف ہوجائے گا۔تو(بچےکو) صحاح ستہ(حدیث کی صحیح چھ کتابیں) پڑھائیں۔ ان کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔جسے صرف احکام دین کو سمجھنا مقصودہو تو اس کے لئے عمل کے واسطے صرف اتنا ہی علم کافی ہے۔مگر جس کو اللہ تعالیٰ بلند ہمت عطا کرے اُسے چاہیے کہ وہ سارے علوم پڑھ کر عالم وفاضل بنے۔ایسے لوگوں کے لئے عربی تفسیروں کا مطالعہ لازمی ہے۔صحاح وسنن کی کتابیں پڑھے۔اور عالی مقام حاصل کرے قرآن مجید میں ہے:
﴿قُل هَل يَستَوِى الَّذينَ يَعلَمونَ وَالَّذينَ لا يَعلَمونَ...﴿٩﴾... سورة الزمر
"کہو بھلا جولوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔"
یعنی ہرگز نہیں اہل علم کے مراتب بڑے بلند ہیں۔اللہ سے ڈرنے والے اہل علم ہی ہیں۔جنت بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں(متقین) کا مقدر ہے۔اللہ کو علم کے بغیر کوئی نہیں پہچان سکتا۔علم انہیں تین چیزوں کا نام ہے۔
1۔اللہ کا کلام
2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت
3۔فرائض کا علم
اس کے علاوہ جوکچھ ہے وہ سب فضول ہے۔دین ودنیا کی درستی کےلئے علوم قرآن وحدیث اورفرائض ہی کافی ہیں۔جب ان پر عمل ہوا تو سمجھو آخرت درست ہوگئی۔اب کچھ بھی باقی نہیں رہا۔جس کے لئے آدمی بے فائدہ محنت کرے۔ایسا آدمی جس نے قرآن مجید معہ ترجمہ پڑھ لیا ہے۔حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم حاصل کرلیا ہے۔اور اس آیت کا مصداق ہوجائے گا۔(ان شاء اللہ)
﴿وَءاتَينـٰهُ فِى الدُّنيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِى الءاخِرَةِ لَمِنَ الصّـٰلِحينَ ﴿١٢٢﴾... سورة النحل
ترجمہ۔اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی خوبی دی تھی۔اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے۔"
دین اسلام کا سارا دارومدار دو امور پر ہے۔اخلاص اورصواب۔اخلاص کے یہ معنی ہیں کہ خالص اللہ کی عبادت کرےکسی چیز کو اس کی عبادت میں کسی حال میں شریک نہ کرے۔اسی کو اپنا معبود سمجھے۔اسی کو اپنا رب جانے یہی توحید الوہیت ہے اور یہی توحید ربوبیت۔
صواب کے معنی یہ ہیں کہ صریح حدیث اور ظاہر سنت کے مطابق عمل کرے بدعت اور ذاتی رائے کی اسے ہوا بھی نہ لگنے دے جب یہ دونوں باتیں کسی مسلمان میں جمع ہوجاتی ہیں۔تو وہ شخص کامل مومن ہوجاتا ہے۔ورنہ اس کے ایمان میں نقص ہے۔کیونکہ اخلاص نہ ہوا تو ضرور کوئی نہ کوئی کھلاچھپا شرک اس سے صادر ہوگا۔یا اس کے عقیدے میں موجود ہوگا۔صواب نہ ہوا تو عمل میں بدعت شامل ہوجائے گی۔ہر بدعت گمراہی ہے۔اور شرک وبدعت میں پھنس کر انسان بالکل برباد ہوجاتا ہے۔پہلے وہ انسان تھا اب جانور اور چوپایا تسلیم ہوگا۔"لا حول ولا قوة الا بالله" بہرحال ا س تفسیر کو سلیس اردو زبان میں لکھا گیا ہے۔اور اس کا تاریخی نام"ترجمان القرآن بلطائف البيان" رکھا ہے۔دعا ہے اللہ تعالیٰ اس خدمت کو اپنے فضل وکرم سے اسی طرح خالصتاً لوجہ اللہ قبول فرمائے۔جس طرح "شاہ ولی اللہ" کے ترجمان فارسی کو اور ان کے فرزند شاہ عبدالقادر ؒ کے اردو ترجمہ موضح القرآن کو قبول کرکے ایک عالم کو ان سے فیض یاب رشد وہدایت کیا ہے۔جس طرح ہمارا سلسلہ مسند کتاب وسنت ان بزرگوں تک پہنچتا ہے۔اسی طرح اس خدمت کا سلسلہ قبولیت بھی ان دونوں ترجموں سے جاملے۔اور اللہ کے احسان وانعام سے یہ بات کچھ دور نہیں ہے۔ اللہ پاک مجھے اور میرے اہل وعیال اور سارے مومن مردوں اور عورتوں کو کتاب وسنت کی اتباع نصیب فرمائے۔آمین
علوم قرآن:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَنَزَّلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ تِبيـٰنًا لِكُلِّ شَىءٍ...﴿٨٩﴾... سورة النحل
اور ہم نے تم پر(ایسی)کتاب نازل کی ہے کہ(اس میں) ہر چیز کا بیان(مفصل) ہے۔
یعنی ہم نے آپ ہرکتاب نازل کی جو ہر چیز کو بیان کرتی ہے۔اورفرمایا:
﴿ما فَرَّطنا فِى الكِتـٰبِ مِن شَىءٍ...﴿٣٨﴾... سورة الانعام
ہم نے کتاب(یعنی لوح محفوظ) میں کسی چیز( کے لکھنے) میں کوتاہی نہیں کی۔
یعنی ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔حدیث میں ہے:
«ستكون فتن قيل وما المخرج منها؟ قال: كتاب الله فيه نباء ما قبلكم وخبر مابعدكم وحكم مابينكم»
(ترمذی(باب فضائل القران)ص343۔344(یہ حدیث غریب ہے حمزہ زیارت کی روایت سے اور اسناد اس کی مجہول ہیں)
یعنی عنقریب کچھ فتنے نمودار ہوں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا ان سے کیونکر نجات ہوگی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کی کتاب موجود ہے۔اس میں ماضی اورمستقبل کی خبر اور حال کے بارے میں حکم موجود ہے۔ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔جو علم سیکھنا چاہے۔وہ قرآن کا علم حاصل کرے ۔اس میں اولین آخرین کی خبر ہے۔( سعید بن منصور) امام بیہقی ؒ نے کہا کہ علم سے مراد اس جگہ اصول علم ہیں حسن بصری ؒ نے کہا:اللہ نے ایک سو چار کتابیں اتاری ہیں۔ان سب کتابوں کا علم ان چار کتابوں (تورات۔زبور۔انجیل۔فرقان) میں موجود ہے۔پھر پہلی تین کتابوں کاسارا علم فرقان میں ہے۔فرقان کاسارا علم مفصل سورتوں میں ہے۔مفصل سورتوں کا سارا علم"فاتحة الكتاب" میں جمع کر دیا گیا۔جس نے سورت فاتحہ کی تفسیر جان لی۔اس نے گویا سب آسمانی کتابوں کا علم حاصل کرلیا۔( بیہقی)
امام شافعیؒ فرماتے ہیں۔جو کچھ ائمہ دین کہتے ہیں وہ سب سنت کی شرح ہے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی شرح ہے بعض سلف نے کہا ہے ۔" میں نے کوئی حدیث نہیں سنی مگر اس کے لئے کتاب اللہ کی کوئی آیت تلاش کرلی۔"سعید بن جبیر ؒ نے کہا:مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بھی حدیث ملی میں نے اس کا مصداق کتاب اللہ میں صحیح صحیح پایا۔( ابن ابی حاتم)ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ بھی فرمان ہے:"اس قرآن میں ہر علم اتارا گیا ہمیں ہر چیز کی تمیز بخشی گئی۔لیکن ہمارا علم قرآن کے حقائق معلوم کرنے سے قاصر رہا۔( ابن جریر۔ابن ابی حاتم) ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاًکہتے ہیں:اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز کے ذکر کوچھوڑ دیتا تو ذرہ"خردلة" (رائی) اور "بعوضة" (مچھر) کو چھوڑ دیتا۔( ابو شیخ نے اخراج کیا ہے)
امام شافعی ؒ نے فرمایا:جو حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔وہ سب قرآن ہی ہے اخذ شدہ ہے۔حدیث عائشہ میں مرفوعاً آیا ہے۔میں کسی چیز کو حلال نہیں کرتا مگر جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال کیا ہے۔"امام شافعی ؒ کا یہ بھی فرمان ہے کہ دین میں انسان پر کوئی حادثہ ایسا نہیں گزرتا۔ مگر کتاب اللہ میں ہدایت کا ایک راستہ اس حادثے کے بارے میں موجود ہوتا ہے۔"بعض احکام جن کا ثبوت سنت سے ابتداء معلوم ہوتا ہے۔درحقیقت وہ بھی کتاب اللہ ہی ہے ماخوذ ہیں۔اس لئے کہ کتاب اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہم پر لازم کی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات پر چلنا ہم پر فرض ٹھہرایا ہے۔ایک بار امام شافعی ؒ نے مکہ مکرمہ میں یہ بات کہی تھی کہ اے لوگو!تو جو چاہو مجھ سے پوچھو میں ہر بات کا قرآن سے جواب دوں گا۔کسی نے کہا:بھلا بتاؤ محرم کے لئے بھڑ کا مارنا جائز ہے یا نہیں؟امام شافعی ؒ نے فرمایا:
«بسم الله الرحمن الرحيم: قال الله تعالى: وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا...﴿٧﴾... سورة الحشر
پھر حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث اپنی سند سے روایت کی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔«اقتدوا باللذين من بعدى ابى ابكر وعمر» پھر ایک دوسری حدیث بھی اپنی سند سے بیان کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محرم کو بھڑ کے مارنے کا حکم دیا۔امام بخاری ؒ نے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے یہ حدیث پڑھی۔
«لعن الله الواشمات والمستوشمات»
ایک عورت نے اس پراعتراض کیا۔انھوں نے کہا:"بھلا جس پر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہو اور وہ بات قرآن میں بھی موجود ہو میں اس پر کیے لعنت نہ کروں۔اس عورت نے کہا" میں نے سارا قرآن مجید پڑھا ہے۔مگر جو آ پ کہہ رہے ہیں وہ اس میں کہیں نہیں پایا۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:اگر تو قرآن پڑھتی تو اسے ضرور اس میں پالیتی کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی۔
﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا...﴿٧﴾... سورة الحشر
"سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔"
اس نے کہا ہاں پڑھی ہے۔تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاموں سے منع کیا ہے۔
ابن جرجان کہتے ہیں !جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔وہ یاتو خود قرآن میں موجود ہے۔یا اس کی اصل قریب ہو یا بعید قرآن میں موجود ہے۔جس نے سمجھا اس نے سمجھا۔جواندھا رہا وہ اندھا رہا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم اور ہر فیصلہ قرآن مجید میں موجود ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔«كان خلقه القرآن»(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق سارا قرآن مجید تھا)غضب ہے کہ پیغمبر ؐ تو قرآن پر چلے اور امت نہ چلے۔(جاری ہے)