اشتراکیت کی درآمد،قرآن کے جعلی پرمٹ پر کارل مارکس اور لینن کی اشتراکیت اور پرویز صاحب کا نظام ربوبیت
کمیونزم کا جوتجربہ روس میں ہورہا ہے نوع انسانی کے لئے بدترین تجربہ ہے۔جس میں اول تو انسانی زندگی اور حیوانی زندگی میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔دونوں کی زندگی محض طبعی زندگی سمجھی جاتی ہے۔جس کاخاتمہ موت کردیتی ہے۔لہذا اس میں انسانیت کے تقاضے طبعی تقاضوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھے جاتے۔۔۔میں نے ایک مدت تک اس تحریک کا دقت نظر سے مطالعہ کیا۔۔۔اس مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ تحریک انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔اس تصورسے میری روح کانپ اٹھتی ہے۔کہ یہ نظام اگر ساری دنیا پر مسلط ہوگیا تو اس سے وہ کس عذاب الیم میں مبتلا ہوجائے گی۔(نظام ربوبیت۔ص22)
سوشلزم کا نظام نظام سرمایہ داری سے بھی زیادہ بدترین نتائج پیدا کرتا ہے۔وہ اس طرح کہ جب مختلف کارخانے(محنت گاہیں) مختلف مالکوں کے ہوں تو کم از کم مزدور کو یہ ذہنی اطمینان ضرور حاصل رہتا ہے۔کہ اگر اس کارخانے میں حسب پسند کام اوراجرت نہ ملے گی تو میں کسی اورجگہ کام تلاش کرلوں گا۔لیکن سوشلزم میں چونکہ تمام محنت گاہوں کا مالک ایک ہی ہوتا ہے یعنی حکومت اس لئے مذدورسے یہ ذہنی اطمینان بھی چھن جاتا ہے۔اور وہ اپنے آپ کو بے بس قیدی سمجھنے لگ جاتا ہے۔(نظام ربوبیت ص376)
۔۔۔اگر محنت کش نظام سرمایہ داری میں اپنے آپ کو مجبور پاتا تھا تو سوشلزم میں مجبور ترسمجھتا ہے۔اور یہی چیز اس نظام کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔محنت کش سے یہ کہنا کہ۔۔۔جو کچھ ہم تمھیں دیتے ہیں تمھیں اس پر کام کرنا ہوگا۔طوعاً نہ کرو گے تو کرہاً کرایا جائے گا۔اور تم اُسے چھوڑ کر کہیں اور جا بھی نہیں سکتے کیونکہ رزق کے تمام دروازوں پر ہمارا ہی کنٹرول ہے۔"یہ ایسا جہنم ہے جس کی مثال کہیں نہیں مل سکتی۔(نظام ربوبیت ص437)
۔۔۔روس کا تجربہ شاہد ہے کہ انھوں نے عوام کو (محتاجوں اور غریبوں کو) یہ کہہ کرکہ۔۔۔اٹھو اور امیروں کو لوٹ لو۔ان کی دولت وحشمت کے مالک تم بن جا ؤ گے۔ انھیں بے پناہ قربانیوں کے لئے آمادہ کردیا۔اورانہوں نے اس نشے سے مدہوش ہوکر ہنگامی طور پر وہ کچھ کردیا۔جسے دیکھ کر دنیا انگیشت بدنداں رہ گئی۔ لیکن جب ان کا نشہ اتر گیا۔ تو ایثار وقربانی کا وہ جذبہ بھی ختم ہوگیا۔اس کے بعد جب ان محنت کشوں سے کہا گیا کہ۔۔۔"تم زیادہ سے زیادہ محنت کرو اور اس میں سے بقدر اپنی ضرورت کے لے لو"۔۔۔تو انہوں نے کہا۔۔۔سرکار!پھر اس میں اور قدیم نظام سرمایہ داری میں کیا فرق ہے؟اس میں کارخانہ دار ہم سے زیادہ سے زیادہ محنت کرواتا تھا۔اور ہمیں بقدر ضروریات کے دیتا تھا۔ یہی کچھ اب آپ کرنا چاہتے ہیں۔ہم ایسا کیوں کریں؟۔۔۔اس کا کوئی اطمینان بخش جواب انکے پاس نہ تھا۔انھوں نے اپنا نظام قائم رکھنے کے لئے ڈنڈے سے کام لینا چاہا۔یہ کچھ وقت کے لئے تو چلا لیکن پھر ناکام رہ گیا۔کوئی نظام قوت کے بل پر مسلسل نہیں چل سکتا اس لئے مجبور ہوکر روس والوں کو ا پنے نظام میں تبدیلی کرنا پڑی۔ (نظام ربوبیت صفحہ 494)
۔۔۔پردہ اٹھا کر دیکھئے تو اس (سوشلزم۔قاسمی) کے پیکر میں سرمایہ داری ہی کی روح کارفرما نظرآئے گی۔فرق صرف اصطلاحات کا ہوگا۔نظام سرمایہ داری میں وسائل پیدا وار افراد کی ملکیت میں رہتے ہیں۔سوشلزم میں یہ وسائل افراد کے اس گروہ کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔جو مملکت کے اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔غریب محنت کش ویسے کا ویسا ہی محتاج ومحکوم رہتا ہے۔اسی حقیقت کے پیش نظر اقبال نے بھی کہا تھا کہ:
۔۔۔اسی نظام سوشلزم میں محنت کش کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوگئی ہے ۔پہلے اگر اس کی ایک مالک سے نہیں بنتی تھی تو وہ اسے چھوڑ کر کسی اور کی ملازمت اختیار کرلیتا تھا۔اب چونکہ وسائل رزق پر کلی اجارہ داری سٹیٹ کی ہوتی ہے۔اس لئے وہ اس کا دروازہ چھوڑ کرکہیں جا نہیں سکتا۔ یہ ملوکیت کی بدترین شکل ہے۔ یہی وہ جہنم ہے کہ جس کے متعلق قرآن نے کہا ہے کہ:
﴿كُلَّما أَرادوا أَن يَخرُجوا مِنها مِن غَمٍّ أُعيدوا فيها...﴿٢٢﴾... سورة الحج
"جب وہ غم اندوز کے اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اس سے نکلنے کاارادہ کریں گے تو انہیں پھر اس میں دھکل دیاجائے گا۔"(تفسیر مطالب الفرقان ج1ص117)
اشتراکیت کے اس نظام کو "غم واندوہ کا عذاب""جہنم کا نمونہ"ملوکیت کی بدترین شکل"اور نہ جانے کیا کچھ قرار دینے کے بعد یہ بھی فرماتے ہیں کہ:
۔۔۔"جہاں تک کمیونزم کے معاشی نظام کا تعلق ہے۔وہ قرآن کے تجویز کردہ معاشی نظام کے مماثل ہے۔"(نظام ربوبیت ص358)
۔۔۔اس وقت کمیونزم کی طرف سے دنیا کے سامنے اس کا معاشی نظام پیش کیا جارہا ہے۔اس کا فلسفہ نہیں اس نظام کے متعلق بدلائل وشواہد بتایا جارہاہے۔کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلہ میں انسانیت کے لئے آیہ رحمت ہے۔اور یہ واقعہ بھی ہے ۔(نظام ربوبیت ص398)
۔۔۔دوسری طرف کمیونزم ہے جس کا نظام تو قرآنی نظام کے مماثل ہے لیکن اس کا فسلفہء حیات قرآنی فلسفہء زندگی کی نقیض ہے۔"(نظام ربوبیت۔ص406)
مودودی پرویز:
یہاں ایک بات قابل غور ہے۔پرویز صاحب کا باصرار یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کا معاشی نظام اوراشتراکیت (خواہ اس کا نام ماکرزم ہو۔سوشلزم ہو۔یا کمیونزم ہو) کا نظام باہم مماثل ہیں۔لیکن دوسری طرف جمہور علماء کی ہمنوائی میں مولانا مودودی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ1۔اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کافسلفہ ہائے حیات میں بھی مکمل منافات پائی جاتی ہے۔اور 2۔فلفسہء حیات کے علاوہ دونوں کے اصول وارکان میں بھی بون بعید ہے۔صرف ایک چیز دونوں میں مشترک ہے۔اور وہ ہے ذاتی ملکیت کا حق۔بقول مولانا مودودی یہ حق اسلام میں بھی مسلم ہے۔اور نظام سرمایہ داری میں بھی لیکن صرف اتنی بات پر جناب پرویز صاحب کے نزدیک علماء کرام اور مودودی صاحب کارتصوراسلام سرمایہ دارانہ ہوجاتا ہے۔لیکن خود پرویز صاحب مارکزم کے پورے معاشی نظام کو برملا اسلام کے معاشی نظام کےمماثل قرار دینے کے باوجود نہ تو مارکسٹ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔اور نہ ہی سوشلسٹ یا کمیونسٹ اور نہ ہی اپنے پیش کردہ نظام کواشتراکی نظام کہنے کے لئے تیار ہیں ۔بلکہ وہ خود اسے اپنی طرف سے ایک نام دیتے ہیں۔نظام ربوبیت لیکن اس لیبل کے نیچے جو کچھ ہے۔وہ اشتراکیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یہ ستم ظریفی بھی قابل داد ہے۔کہ جب وہ اشتراکیت کی ایک ایک شق کو مطابق قرآن ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں۔تو خودانھیں بھی احساس ہے کہ لوگ یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے۔یہ تو بالکل کمیونزم ہی ہے۔جسے قرآن کا نام لے کر پیش کیا جارہا ہے۔"نہیں بلکہ۔۔۔"در اصل یہ تو عین اشتراکیت ہی ہے جسے اسلام کا لیبل لگا کر پیش کیا جا رہا ہے۔تو وہ پہلے تو انھیں سطح بین لوگ"قرار دیتے ہیں۔اور پھر انھیں جہالت اور بے علمی کا طعنہ دیتے ہیں کہ۔"تم نہ تو قرآن ہی کو جانتے ہو اور نہ ہی اشتراکیت کو توم جاہل مطلق ہو بھلا علم کی ان باتوں سے تمھیں کیاسروکار؟"
"جو کچھ قرآن مجید سے میں سمجھا ہوں وہ یہی ہے کہ قرآن کسی کے پاس فاضلہ دولت نہیں رہنے دیتا۔اور وسائل پیدا وار پر خواہ وہ فطری ہوں یا مصنوعی کسی کی ذاتی ملکیت کے اصول کو تسلیم نہیں کرتا خواہ ملکیت افراد کی ہو یا اسٹیٹ کی ۔اس مقام پر اکثر سطح بین حضرات فوراً کہہ اٹھیں گے کہ۔۔۔یہ عجیب بات ہے کہ میں ایک طرف کمیونزم کو انسانیت کا بدترین دشمن قرار دیتا ہوں اور دوسری طرف اسلام جو وہی کچھ کرتا ہے جسے اشتراکیت پیش کرتی ہے۔نوع انسانی کے حق میں آب حیات تصور کرتا ہوں۔بعض لوگ شاید اس سے بھی آگے بڑھیں اور کہیں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے یہ اشتراکیت ہی ہے۔جسے اسلام کا لیبل لگا کر پیش کیا جارہا ہے۔جیسا کہ آپ متن کتاب میں دیکھیں گے۔اسی قسم کی باتیں ان لوگوں کی طرف سے پیش کیجاتی رہی ہیں۔جو نہ یہ جانتے ہیں کہ کیمونزم کیا ہے۔اور نہ یہ کہ اسلام کیا ہے؟"(نظام ربوبیت ۔23)
اعتذار:
گزشتہ ماہ( مئی) کے شمارہ "محدث" میں شائع کیے جانے والے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کے مضمون بعنوان "تقابل ادیان"کے صفحہ 587 پر تحریر شدہ قول"الاسناد سلاح المؤمن" کہ :سند مومن کا ہتھیار ہے عبداللہ ابن المبارک ؒ کی طرف غلط منسوب کردیاگیا ہے۔جس پر ادارہ معذرت خواہ ہے۔
در اصل یہ قول سفیان ثوری ؒ کا ہے ۔جو جامع الاصول" کے مقدمہ میں مندرج ہے۔جبکہ عبداللہ ابن مبارک ؒ کاصحیح قول مقدمہ صحیح مسلم میں بایں الفاظ منقول ہے۔"الاسناد من الدين لو لا الاسناد لقال من شاء ماشاء" یعن سند دین کاجز ہے۔اگر سند نہ ہوتی تو جو چاہتا جیسے چاہتا بات ہانک دیتا۔قارئین محدث "ادارہ کے اس تساہل کو نظر انداز کرتے ہوئے تصیح فرمالیں۔شکریہ!
حاشيہ
1۔یہ تبدیلی کیاتھی پرویز صاحب اسے بیان نہیں کریں گےکیونکہ یہ ان کے خود ساختہ نظام ربوبیت کے خلاف ہے۔یہ تبدیلی یہ تھی کہ "مفاد خویش" کے جزبے کو تحریک دینے کے لئے چھوٹے پیمانے پر ذاتی ملکیت کے اصول کو رواج دیا گیا۔اسے واشگاف الفاظ میں بیان کرنا تو درکنار اشارے کنائے سے بھی اسے ذکر کرنے سے پرویز صاحب نے جس وجہ سے گریز کیا ہے وہ ناقابل فہم نہیں ہے۔
2۔اسی آیہ رحمت"نظام کے متعلق پرویز صاحب اسی کتاب کے شروع میں فرماچکے ہیں کہ۔کیمونزم کا جو تجربہ روس میں ہورہا ہے۔نوع انسان کے لئے یہ بدترین تجربہ ہے۔۔۔میں نے ایک مدت تک دقت نظر سے مطالعہ کیا۔۔۔اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ تحریک انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔اس تصور سے میری روح کانپ اٹھتی ہے۔کہ اگر یہ نظام کہیں ساری دنیا پر مسلط ہوگیا۔ تو اس سے وہ کسی عذاب الیم میں مبتلا ہوجائےگی۔(نظام ر بوبیت ص32)