سید ابوالحسن علی ندوی کی رحلت....

1999ء جسے بیسویں صدی کا آخری سال قرار دیا جا رہا ہے۔ ملت اسلامیہ کے لیے عام الحزن ثابت ہوا کہ اسے یکے بعد دیگر متعدد نابغہ ہائے عصر اور اساطین علم و ادب کے داغ ہائے مفارقت سہنے پڑے ۔ان میں تین گراں قدر ہستیاں تو ایسی ہیں کہ جن کی رحلت نے ملت اسلامیہ کو علمی اعتبار سے فی الواقع یتیم اور ویران کر کے رکھ دیا ہے ۔جون 99ء میں سعودی عری کے مفتی اعظم سماحۃالشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز کے سانحہ ارتحال سے ملت اسلامیہ ایک عظیم عالم دین اور مدبر سے محروم ہوگئی2/اکتوبر کو علمائے سلف کی یادگار فخر روزگار علامہ محمد ناصر الدین البانی کے انتقال کی صاعقہ اثر خبر نے پورے عالم اسلام کو محزون و ملول کردیا ۔بیسویں صدی کے خاتمہ میں ابھی چند ساعات ہی باقی تھیں کہ مفکر اسلام فخر عجم و عرب سید ابو الحسن علی ندوی اس جہان آب وگل اور اس کے طوق وسلاسل کی قید سے آزاد ہو کران باکمالوں سے جاملے جن کے اس جہان فانی سے سفر کا سلسلہ ابتدائے افراینش سے جاری ہے۔ گو یا اکیسویں صدی کے لمحہ اول کے لیے جب پورے عالم میں استقبالی جشن چراغاں برپاتھا ملت اسلامیہ کا چمنتان علم و ادب اپنے منور چراغوں کے بجھ جانے پر سوگواری میں ڈوبا ہواتھا !!
مذکورۃ الصدر تینوں شخصیات وہ آفتاب ہائے علم و ادب اور بحر ذخار تھیں کہ جن کی موجودگی-
میں قومیں بجا طور پر اپنی خوش بختی پر ناز کرتی ہیں۔شیخ ابن باز سعودی عرب کے ترین علمی منصب تحقیق  وافتاء کے رئیس عام وہ ممتاز عالم تھے جن کی فقہی آراء اور قرآن و سنت کی تشریحات و تعبیرات کوپورے عالم اسلام میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے دور حاضر کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا وہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس قدر سہل اور مؤثر حل پیش کیا کرتے تھے کہ علماء و فضلا انہیں امام ملت تسلیم کرتے تھے ان کی تبحر علمی اور بالغ نظری کا ایک زمانہ معترف تھا ان علمی آراء کے سامنے حکمران وقت بھی سر تسلیم خم کرتے تھے قرآن و سنت کے علوم کی ترویج واشاعت کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کی ملت اسلامیہ تادیر زیر بار احسان رہے گی۔
علامہ ناصر الدین البانی بیسویں صدی کے سب سے بڑے محدث ہیں علم حدیث کے فروغ و تحقیق کے متعلق ان کے محیرا العقول کارناموں کودیکھ کر قرون اولیٰ کے آئمہ فن حدیث (امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  و مسلم رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ ) کی علمی کاوشوں کا نقشہ ذہن میں ابھر نے لگتا ہے صحیح اور ضعیف احادیث کی تخریج اکثر مشہورکتب پر ان کی تعلیقات و حواشی اور تحقیقات نے دور جدید میں علم حدیث کی ایک نئی تحریک کو جنم دیا ہے وہ بلا شبہ محی السنۃ قامع البدعۃ اور شیخ ابن باز کے بقول بیسویں صدی کے مجدد تھے ان کے عظیم علمی کارنامو ں کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے یہ سب کچھ سر کاری سر پرستی کے بغیر سر انجام دیا بلکہ وہ بعض صورتوں میں اہل اقتدار کے عتاب کا شکار بھی رہے
سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ  زبان و ادب اور تاریخ و ثقافت کے دور حاضر میں اسلامی دنیا کے عظیم ترین شاہسوار تھے انھوں نے اسلامی تاریخ سے ملت اسلامیہ کو اس ولولہ کے ساتھ روشناس کرایا کہ مسلمانوں کا اپنی تاریخ پر کھویا ہوا اعتماد ایک دفعہ پھر بحال ہوگیا وہ ایک عجمی تھے مگر ان کی عربی زبان میں تصانیف نے عالم عرب کے صاحبان علم وانشاء سے وہ خراج عقیدت وصول کیا کہ زمانہ قریب میں کو ئی غیر عرب مصنف اس اعزاز سے شرف یاب نہیں ہوا ۔وہ اس اعتبار سے منفرد مرتبہ کے حامل ہیں کہ ادباء و فضلا ء ہی نہیں بلکہ عالم عرب کے سلاطین و شاہان ذی وقار نے بھی ان پر گلہائے عقیدت نچھا ور کئے وہ غالباً اسلامی تاریخ میں واحد غیر عرب ہیں کہ جن کے شکوہ علم ادبی جاہت اور علمی کارناموں سے متاثر ہو کر خادم حرمین شریفین نے انہیں کعبہ اللہ کے کلید بردار ہونے کا اعزاز عطا کیا ۔واقعہ یہ ہے کہ مولانا میاں کی فکر انگیز تحریروں اور ان کے خوبصورت اسلوب نگارش کو اردو اور عربی زبان بولنے والے اسلامی ممالک میں وہ قدر و منزلت اور مذیرائی ملی ہے کہ کو ئی دوسرا ہندی الاصل مصنف و مفکر ان کا مقابل و ہمسر نہیں ہے۔
سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ  المعروف مولانا علی میاں تحریک مجاہدین کے مؤسس سید احمد شہید کے نامور جہادی و علمی خانوادے کے چشم و چراغ تھے ۔1914ء میں جب انھوں نے اس جہان فانی میں آنکھ کھولی تو اس وقت ان کا خاندان پورے برصغیر پاک و ہند میں ممتاز و محترم سمجھا جاتا تھا ان کے والد گرامی حکیم سید عبد الحی صاحب اپنے وقت کے معروف عالم دین اور مؤرخ تھے مولانا عبد الحی صاحب کی آٹھ جلدوں میں مبسوط نزھۃالخواطر کو آج بھی دینی وعلمی حلقوں میں حوالے کی کتاب کے طور پر بلند مقام حاصل ہے۔ اس  میں انھوں نے ساڑھے چار ہزار سے زائد شخصیاتکے حالات قلمبند کئے ہیں اس کے علاوہ گل رعنا اور معارف الموارف فی انواع العلوم والمعارف (عربی) جیسی ان کی تصانیف برصغیر پاک وہند کے علمی ذخیر ے میں امتیازی شان کی حامل ہیں مولانا علی میاں اس اعتبار سے خوش نصیب تھے کہ بے حد کم سنی میں انہیں علمی صحبتوں اور مجلسوں سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔

اس علمی خانوادے کو عربی زبان وادب سے خاص شغف تھا خاندان کے ماحول نے کم سن علی میاں میں عربی زبان سے شیفتگی واشتغال کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔اپنے خاندان کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں ۔

"ہمارا گھرانہ علماء و مصنفین کا گھرانہ ہے والد صاحب اپنے زمانے کے عظیم مصنفوں میں تھے خاندانی و موروثی اثرات بڑے طاقتور ہوتے ہیں وہ نسل درنسل منتقل ہوتے رہتے ہیں اور بچوں اور بچیوں سب میں ان کے کم وبیش اثرات پائے جاتے ہیں کچھ یہ آبائی اثر کچھ والد صاحب کا ذوق و انہماک ۔۔۔ہمارے سارے گھر پر یہ کتابی ذوق سایہ فگن تھا۔

مولانا علی میاں کے گھرانہ کی خواتین بھی اس علمی ذوق میں پیچھے نہیں تھیں ۔ان کی ہمشیرہ محترمہ امت النسیم صاحبہ نے نامور محدث امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  کی مشہور کتاب ریاض الصالحین کو زاد سفر کےنام سے اردو زبان میں منتقل کیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے اس پر مقدمہ لکھا۔ انھوں نے اپنے اس مقدمہ میں تحریر فرمایا ہے۔(پرانے چراغ حصہ دوم 354)

"ہم  کواس اظہار میں بڑی خوشی ہے کہ امام نووی  رحمۃ اللہ علیہ  کی اس کتاب ریاض الصالحین کا ترجمہ اسی گھرانے نے کیا ہے جس نے سنت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اشاعت اور بدعت کے ازالہ کا کا م ایک صدی پہلے شروع کر رکھا ہے اور جن  کے انوار و برکات ملک بھر میں ہر جگہ نمایاں ہیں ۔

سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ  اپنے خاندان کے متعلق بیان کرتے ہیں ۔

"ہمارا گھرانہ عقائد و مسلک میں حجرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید  رحمۃ اللہ علیہ  کا سختی سے پیرو تھا اور ان کے اثرات رچ بس گئے تھے کہ بے اصل اور غیر مستند چیزیں جن سے عقائد میں خلل پڑتا ہو گھر میں بار نہیں پاتی تھیں"(حوالہ ایضاص243)

سر سید احمد خان کی تحریک علی گڑھ اور تحریک دیوبند کے ساتھ ندوۃ العلماء کی تحریک خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔مولانا محمد علی مونگیری نددۃ کے بانی تھے مگر اس کے اصل روح رواں اور ساختہ پر داختہ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ  تھے اس کا مقصد ۔۔۔"ایسے علماء کا پیدا کرنا تھا جو قدیم و جدید اور علم و عمل کے جامع ہوں اور جو اسلام کی ابدی شریعت کے اصول و مسائل اور بدلتے ہوئے زمانہ کے نئےنئے تقاضوں کے درمیان تطبیق پیدا کر سکیں اور جو دین اور دنیا کی دوری کو دور کر سکیں زندگی کے نئے نئے مسائل کا دینی حل تلاش کریں اور اسلام کی دعوت اور اس کے ابدی حقائق کو نئے ذہنوں کے لیے عام فہم و مانوس بنا سکیں۔

مولانا علی میاں کے گھرانے کو ندوۃ العلماء سے قریبی تعلق رہا ہے ان کے والد حکیم سید عبد الحی اس کے ناظم رہے ۔1923ء میں ان کے انتقال کے بعد ان کے بڑے بھائی حکیم ڈاکٹر سید عبد العلی اس کے ناظم مقررہوئے ۔مولانا علی میاں نے دارالعلوم ندوۃالعلماء میں تعلیم حاصل کی 1934ء میں اس ادارے میں تدریس کے منصب پر فائز ہوئے ۔بعد ازاں طویل عرصہ تک اس کی نطامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔مسلمانوں کے اہم تعلیمی اور تہذیبی مرکز کی طویل نظامت ان کے خاندان کے لیے اعزاز سے کم نہیں ہے ندوۃ کی فیکلٹی میں علامہ شبلی نعمانی مولاناسید سلیمان ندوی مولانا مسعود عالم ندوی مولانا حیدر حسن ٹونکوی اور زمانے کے دیگر نامور علماء و فضلاء شامل رہے ہیں سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ  کی شخصیت کو نکھا رنے میں ندوۃ کا کردار بے حداہم ہے۔

سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ  کی ایک اور خوش نصیبی یہ تھی کہ ان کے اساتذہ کا پایہ نہایت بلند ہے وہ خود بھی تحدیث نعمت کےطور پر ذکر کرتے ہیں ۔

"ناچیز راقم کو خدا کے فضل سے بڑے کامل الفن اساتذہ کی خدمت میں زانوےادب تہہکرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے میرا بال بال رواں رواں ان کے احسانات کارہین منت ہے۔

ان کے عربی زبان کے اساتذہ میں شیخ خلیل عرب نام گرامی قابل ذکر ہے۔ شیخ خلیل بن محمد عرب لکھنؤیونیورسٹی میں عربی زبان و ادب کے استاد تھے وہ نسلاً یمنی تھے ان کے دادا شیک حسین بن محسن 1869ء میں ہندوستان آئے اور ریاست بھوپال میں قیام پذیر ہوئے ۔ان کی آمد کا پس منظر مولانا علی میاں یوں بیان کرتے ہیں ۔

"یہ ہندوستان کے مشہور وعظیم عالم و مصنف امیر الملک والا جاہ نواب سید صدیق حسن خان کازمانہ تھا وہ خود بڑے صاحب نظر عالم اور جوہر شناس رئیس تھےحجاز کے سفر میں شیخ حسین ابن محسن سے ملاقات ہوئی ۔وہ ان کا تبحر علمی دیکھ کر ان کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ خود ان سے سند بھی لی اور ان کو بھوپال تشریف لانے کی دعوت بھی دی "(پرانے چراغ حصہ دوم ص210)

شیخ حسین فن حدیث کے امام اور قدیم محدثین کی زندہ یادگار اور بولتی چالتی تصویر تھے سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ  کے والد سید عبدالحی ان کے شاگرد تھے مولانا علی میاں نے اپنے استاذشیخ خلیل عرب پر مفصل مضمون تحریر کیا ہے جسے پڑھ کر انداز ہ ہوتا ہے کہ شیخ خلیل عرب سے انھوں نے عربی زبان و ادب کی کلاسیکل کتابیں پڑھیں ۔عربی زبان کی پہلی کتاب المطالعۃ العربیۃ سے لیکر مدارج القراۃ کلیلہ دمنۃ کتاب المغازی ابو العلا معری کا دیوان سقط الزند مقامات حریری نہج البلاغہ امام عبد القاہر جرجانی کی دلائل اعجاز قصائد بحتری متنبی اور حماسۃ وغیرہ کتب انھوں نےابتدائی چند برسوں میں پڑھیں ۔اس زمانے کے مسلمانوں کے علمی گھرانوں میں تعلیم کے معیار کا اندازہ مذکورہ بالا فہرست کتب سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے مولانا علی میاں نے یہ ساری کتابیں اس وقت پڑھ لی تھیں  جب وہ ابھی صرف پندرہ سال کے تھے ۔1929ء میں مولانا علی میاں نے دارالعلوم ندوۃ کے شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن کے پاس جانا شروع کیا نا سے انھوں نے صحیح بخاری صحیح مسلم ابو داود اور ترمذی اور تفسیر بیضادی پڑھیں ۔اپنے استاد مولانا حیدر حسن کے متعلق لکھتے ہیں ۔

"مولانا کو وہی طالب علم زیادہ عزیز تھا جو آزادی سے بحث کرے اور مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کرے اسی لیے بعض اوقات متعصب حنفی ہونے کے باوجود ان اہل حدیث طلباء پر زیادہ شفقت اور التفات ہوتا جو تیاری کر کے آتے اور بات سمجھنے کی کو شش کرتے۔

ان کے علاوہ شیخ تقی الدین الہلالی مراکشی بھی ان کے اساتذہ میں سے تھے۔شیخ موصوف دارلعلوم ندوۃ میں ادب عربی کے استاذ اعلیٰ تھےبعد میں اپنے وطن مراکش چلے گئے۔ایک اور استاذ جن کا ذکر مولانا علی میاں نے بے حد تفصیل سے کیا ہے وہ ان کے ماموں مولانا سید طلحہ حسنی تھے بقول ان کے ۔

"وہ صرف و نحو کے امام تھے عربی کے ایسے ادیب و عالم تھے کہ عہد جاہلی و اسلامی کے مسلم الثبوت شعراء کے کئی ہزار اشعار ان کو حفظ اور نوک زبان تھے عربی کے علوم بلاغت (معانی دبیان ) پر ان کی وسیع اور گہری نظر تھی اصول فقہ و علم قدیم کتابوں پرجو آئمہ فن کے قلم سے نکلی ہیں ان کی مدر سانہ واستادانہ نگاہ تھی۔

مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی کی علمی دلچسپیوں کا دائرہ وسیع اور متنوع تھا عقیدہ و مسلک سے لیکر تاریخ اسلام نظام تعلیم و تربیت اسلام میں دین و دنیا کی جامعیت سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  قدیم و جدید کے صالح و نافع اجزا ء کے خوشگوار امتزاج کی ضرورت پر مستحکم عقیدہ دین وسیاست کی تفریق کو زوال امت کا اصل سبب قرار دینے پورا و ثوق اصلاح نصاب علوم اسلامیہ اور علوم عصریہ کے عمیق و تحقیقی مطالعہ کے ذریعہ علماء کو ان کا کھویا ہوا مقام دلانے کی کو شش اتحاد ملت اسلامیہ مسلمانوں کے عظیم ماضی کے اوراق گم گشتہ کی نشاندہی اسلاف کے اثر انگیز تذکرے اور تاریخ علم و ادب وغیرہ جیسی شاہرات پر ان کا اشہب قلم ہمیشہ رواں دواں رہا۔ مگر اپنے تناسب طبع اور مخصوص خاندانی و تعلیمی پس منظر کی بنا پر تاریخ تہذیب و کلچران کا پسندیدہ اور خاص موضوع رہا ۔مغربی تہذیب کی ہولناکیوں کے مناظر دکھا کر اسلامی ثقافت کی برتری کے نقوش کو واضح کر دکھانا بھی ان کی تصنیفات کا مرکز ی موضوع ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مختلف عناصر کے امتزاج سے اسلامی ثقافت کس طرح پروان چڑھی اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔

"ہندوستان کے خمیر کی آشنا پرستی اور وفا شعاری رنگ وآہنگ سے اثر پذیری،ترکوں کی مہم جوئی وسپہ گری ،افغانوں کی شجاعت وشرافت ،مغلوں کے ذوق جمالی وقوت ارادی،عجم کے حسن طبیعت اور عرب کے سوز دروں سب سے مل کر ایک خاص تہذیب اور ایک خاص ثقافت وجود میں آئی۔اس تہذیب وثقافت میں شکوہ بھی ہے اور  تواضح بھی حلاوت بھی ہے اور مروت بھی ،گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی صلابت بھی ہے اور رقت بھی ،استقامت بھی ہے اور رواداری بھی۔اس کےقلمرو میں علوم شریعت وحکمت بھی ہیں اور ادب وشاعری بھی ،فقرودرویشی بھی ہے اور نفاست وذوق بھی۔اس کی  دلچسپی کے میدان قلعے بھی ہیں اور کتب خانے بھی ،مدرسے بھی ہیں اور خانقاہیں بھی ،تحقیق وتصنیف کے حلقے بھی ہیں اور مشاعرے بھی۔اس میں ثقاہت بھی ہے اور ظرافت بھی۔سخت جانی بھی ہے اور سبک روحی بھی۔اس کے اظہار خیال واظہار کمال کاذریعہ عربی بھی ہے۔اور فارسی بھی ،اردو بھی ہے اور ہندی بھی،یہ وہ تہذیب وثقافت ہے جس نے فاتحین اسلام کے داخلہ ہند کے بعد سے اپنا کام کرنا شروع کیا،پھر شاہ جہاں وعالمگیر کے عہد میں اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔یہ وہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت ہے جو نہ خالص ہندوستانی ہے ،نہ خالص ایرانی ،نہ عربی ہے نہ عجمی بلکہ ان سب کے محاسن کے مجموعہ اور تہذیب وتمدن کے میدان میں ایک نیا تجربہ یہی تہذیب وثقافت تھی"(پرانے چراغ،حصہ دوم ص32)

شاید ہی کسی اور مصنف نے چند سطور میں ہندوستان میں اسلامی ثقافت کے اجزائے ترکیبی اور اس کے ارتقاء کی تفصیلات کو اس قدر جامعیت سے اتنے مختصر الفاظ میں بیان کیا ہو۔

مولانا میاں وسیع المطالعہ اور کثیر التصانیف عالم تھے۔ان کی اردو عربی زبان میں تصانیف کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن کے تعارف کے لئے مستقل مقالہ درکار ہے۔ان کی مایہ ناز اور شاہکار تصنیفات حسب ذیل ہیں:

عربی تصانیف:۔

1۔ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين

2۔ربانية لا رهبانية

3۔المسلمون وقضية المسلمون

4۔رجال فكر ودعوة في الاسلام

5۔مختارات من ادب العرب

6۔رسالة التوحيد(مولانا اسماعیل شہید کی تقویۃ الایمان کا ترجمہ)

7۔الصراع بين الفكرة الاسلامية والفكرة الغربية في الاقطار الاسلامية

8۔روائع اقبال

اردو  تصانیف:۔

1۔تاریخ دعوت وعزیمت(چھ جلدیں)

2۔انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر(چار جلدیں) ماذا خسر العالم کا اردو ایڈیشن

3۔منصب نبوت اور اس کے عالی مقام حاملین

4۔حجاز مقدس اور جزیرۃ العرب

5۔عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح

6۔جب ایمان کی بہارآئی!

7۔مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش

8۔تزکیہ واحسان

9۔نبی رحمت(دو جلدیں)

10۔نقوش اقبال

11۔تعمیر انسانیت

12۔کاروان مدینہ

13۔مارکہ ایمان ومادیت

14۔عالم عربی کا المیہ

15۔اصلاحیات

16۔ذکر خیر

17۔دریائے کابل سے دریائے یرموک تک

18۔پاجا سراغ زندگی

19۔نئی دنیا(امریکہ) میں صاف صاف باتیں

20۔قادیانیت

21۔دستور حیات

22۔سیرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ (1939ء پہلی  تصنیف)

مولانا علی میاں نے معاصر شخصیتوں ،بزرگوں ،استادوں اور دوستوں سے متعلق تعارفی مضامین،تاثرات،مشاہدات،واقعات ومعلومات ،نقوش واثرات کو بے حد دلچسپ پیرائے میں اپنی کتاب پرانے چراغ میں یکجا کردیاہے۔ اس کے مطالعے سے نہ صرف عصر حاضر کی عظیم شخصیات کے احوال وظروف سے آگاہی ہوتی ہے،بلکہ اس سے خود علی میاں کے تعلقات کے وسیع دائرہ کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔"پرانے چراغ" کے حصہ اول اور حصہ دوم میں بیالیس نامور شخصیات کے سوانحی خاکے دیے گئے ہیں۔مثلا مولانا سید سلیمان ندوی،مولاناسیدمناظر احسن گیلانی،مولانا سید حسین احمد مدنی،مولانا اشرف علی تھانوی،مولانا احمد علی لاہوری،شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن ٹونکی،مولانا خلیل عرب،مولانا مسعود عالم ندوی،مولانا ابو الکلام آزاد،مولانا مسعود علی ندوی،مولانا عبدالماجد دریا آبادی ،الحاج مفتی امین الحسینی،مولانا محمد علی جوہر،ڈاکٹر ذاکر حسین اور مولانا عبدالماجد دریا بادی جیسی نادرہ  روزگار علمی ومذہبی سیاسی شخصیات کے متعلق مضامین معلومات کا بیش بہا ذخیرہ ہیں۔

سید  ابو الحسن علی ندوی ہندوستان اور مشرق وسطی کے اسلامی ممالک کی درجنوں تنظیموں اور عالمی شہرت یافتہ اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔انہیں اس سلسلے میں دنیا کے اہم ممالک بالخصوص اسلامی ملکوں کے دوروں کے متواتر مواقع ملے۔ان کی زندگی کا اچھا خاصہ وقت عرب ممالک میں گزرا ہے۔درج ذیل اہم اداروں سے ان کی وابستگی سے ان کی سرگرمیوں کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے:

1۔ناظم ندوۃ العلماء لکھنو

2۔رکن مجلس تاسیسی رابطہ عالم اسلامی ،مکہ معظمہ

3۔رکن مجلس عاملہ موتمر عالم اسلامی ،بیروت

4۔رکن مجلس انتظامی ،اسلامک سنٹر،جنیوا

5۔سابق وزیٹنگ(Visiting) پروفسیر مدینہ یونیورسٹی ودمشق یونیورسٹی

6۔رکن عربی اکادمی،دمشق

7۔صدر مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنؤ

8۔رکن مجلس انتظامی ومجلس عاملہ دارالمصنفین اعظم گڑھ

9۔رکن مجلس شوریٰ جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورہ

10۔رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیو بند

عالم عرب کی نامور شخصیات سے مولانا علی میاں کے قریبی مراسم تھے۔ان میں مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی(یاسر عرفات کے دادا) اخوان المسلمون کے ڈاکٹر  رمضان سعید اور سید قطب شہید(مصر) علامہ بھجۃالبطیار(شام) ،حجاز کے مشہور رئیس ،عالم اور فخر جدہ شیخ محمد نصیف ،ڈاکٹر تقی الدین الہلالی مراکشی،مشہور عالم اکیڈمی  المجمع العلمی(دمشق) کے صدر صاحب طرز ادیب علامہ کرد علی،مشہور عرب شاعر اُستاذ خلیل مردم بک(شام) مشہور محقق وادیب علا مہ عبدالقادر ڈاکٹر طہٰ حسین(مصر) ڈاکٹراحمد امین)(شام)ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی اور سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز وغیرہ ہم سے ان کے تعلقات اور ملاقاتوں کاذکر ان کی تحریروں میں ملتا ہے۔

مولانا ابو الحسن علی ندوی کی رحلت بلاشبہ ملت اسلامیہ کے لئے نقصان عظیم ہے۔جس کی تلافی کابظاہر زمانہ قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔مندرجہ بالا سطور میں ان کی شخصیت کے محض چند گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ان کی علمی وادبی خدمات اور ملت اسلامیہ کے لئے ان کے فکری کارناموں کا جامع تذکرہ ابھی تشنہ تحریر ہے۔ان کے 70 سال پر محیط علمی سفر کے بیان کے لئے باقاعدہ ایک کتاب کی ضرورت ہے۔