محرمات سے زنا ، حلالہ کی شرعی حثیت
سسرالی محرم عورت سے زنا پر کیا بیوی سے نکاح ٹوٹ جائے گا؟
حلالہ کی شرعی حیثیت
غیر شرعی عدالتوں کے فیصلوں کی حیثیت
شادی شدہ عورت کا خاوند کے گھر کے باہر قیام
سوال:ایک آدمی نے اپنی حقیقی بہو کے ساتھ زبردستی زنا کیا اور اس کے بعداقرار جرم بھی کرلیا؟ سوال یہ ہے کہ کیا وہ عورت اپنے خاوند کی ابھی تک بیوی ہے یا کہ نہیں،اگر نہیں تو کیوں؟(محمد اختر،ریاض)
جواب:مسئلہ ہذا میں اہل علم کا سخت اختلاف ہے۔لیکن راجح بات یہ ہے کہ زنا کے ذریعے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے۔سنن ابن ماجہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے "لايحرم الحرام الحلال" یعنی حرام کے ارتکاب سے حلال شے حرام نہیں ہوتی۔اس کی سند کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔"واسناده اصح من الاول"(فتح الباری 156/9) کہ پہلی سند سے اس کی سند زیادہ صحیح ہے۔
اورصحیح بخاری کے باب کے عنوان میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
إِذَا زَنَى بِأُخْتِ امْرَأَتِهِ ، لَمْ تَحْرُمْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ
یعنی جب کوئی سالی سےزنا کرلے تو زانی پر اس کی بیوی حرام نہیں ہوگی۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"
فمذهب الجمهور لا تحرم إلا بالجماع مع العقد،(157/9)
"جمہور کا مسلک یہ ہے کہ عورتیں اسی و قت حرام ہوتی ہیں جب جماع ،عقد کے بعد ہو"
نیز یہ بھی فرمایا:
وأبى ذلك الجمهور وحجتهم أن النكاح في الشرع إنما يطلق على المعقود عليها لا على مجرد الوطي وايضا فالزنا لا صداق فيه ولاعدة ولا ميراث
"جمہور نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ زنا کے ذریعے حرمت ثابت ہو۔دلیل ان کی یہ ہے کہ شرع میں نکاح کا اطلاق اس عورت پر ہوتاہے۔جس سے عقد کیاگیا ہو۔خالی وطی کانام نکاح نہیں۔اسی طرح زنا میں صداق،عدت اور نہ میراث ہے"(ص157حوالہ مذکور)
ان دلائل سے معلوم ہواکہ زنا کےذریعے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
سوال :حلالہ کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالیں۔بعض لوگ سورہ بقرہ کی آیت سے حلالہ کا جواز ثابت کرتے ہیں۔قرآن وسنت کی روشنی میں حلالہ کے بارے میں بتائیے؟(محمد اصغر،لاہور)
جواب:حلالہ کے حرام ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے۔یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے۔جس طرح بیک وقت تین طلاقیں دینا حرام ہے۔اس کی حرمت میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے۔تاہم اس کے وقوع اورعدم وقوع کے بارے میں بعض اختلافات موجود ہیں،جس کی تفصیل سے اہل علم واقف ہیں۔
حلالہ کے حرام ہونے کے باوجود اس کا جواز قرآن کریم سے پیش کرنا،نہایت تعجب خیز امر ہے۔قرآن کریم سے:
﴿فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْبَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ﴾...البقرة
یعنی تین طلاقوں کے بعد مطلقہ عورت طلاق دینے والے لے لیے حلال نہیں،تاآنکہ وہ اس کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرے۔پھر اگر وہ طلاق دے دے تو یہ ایک دوسرے سے رجوع کرلیں تو گناہ نہیں۔(البقرۃ:230)
یہاں قرآن مجید شرعی طلاق کے آداب وحدود بیان کررہاہے۔اور جب شرعی طریقے پر وہ تین ہوجائیں تو پھر شرعی آداب سے عورت کسی مرد سے نکاح کرلے اور کسی ناچاقی کی وجہ سے شرعی طریقہ پر طلاق ہوجائے یا وہ عورت بیوہ ہوجائے تو وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائےگی۔حلال ہوجانے کے لفظ کو "حلالہ" کی اصطلاح قرار دینا انتہائی زیادتی ہے۔یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص قرآن مجید میں اشتراک کے لفظ سے اشتراکیت ثابت کرنے لگے۔حلالہ ایک مخصوص اصطلاح ہے۔یعنی حلالہ مروجہ کامطلب یہ کہ ایک رات کے لیے کسی قابل اعتمادشخص کو جنسی فعل(بدکاری) پر تیار کیاجاتاہے۔اور اسے نکاح کا نام دیا جاتا ہے۔اور پھر اسے طلاق دینے پر مجبور کرتے ہیں۔تاکہ وہ دوباور پہلے خاوند سے نکاح کرلے۔یہ حلالہ مروجہ قرآن میں کہاں ہے؟جس کی بابت دیدہ دلیری سے د عویٰ کیا جارہاہے کہ وہ تو قرآن سے ثابت ہے۔
اگر یہ حلالہ قرآن سے ثابت ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلالہ کرنے اور کرانے والے دونوں پر لعنت کیوں فرماتے؟جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےدونوں پر لعنت فرمائی ہے۔اور حلالہ نکالنے والے شخص کو مانگا ہوا سانڈ بتلایا ہے۔اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت میں اعلان فرمایا تھا کہ جو شخص حلالہ کرے گا اس کو رجم کی سزادوں گا۔کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے شخص کو رجم دینے کا اعلان کیاتھا جو قرآن سے ثابت فعل کا ارتکاب کرنے والا تھا؟
فقہی جمود میں مبتلا ان علماءحضرات سے پوچھا جاسکتاہے کہ مذکورہ آیت قرآنی کا علم کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں تھا کہ انہوں نے حلالہ کولعنتی فعل اور قابل رجم جرم گردانا؟
چند سال قبل سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس محمد شفیع محمدی نے حلالہ کی حرمت کا فیصلہ دیاتھا اور اس کا ارتکاب کرنے والے کے لئے سخت سزا کی سفارش بھی کی تھی۔جسٹس صاحب کا مذکورہ فیصلہ قرآن وحدیث اور اجماع امت کے عین مطابق ہے۔علماء کو اس میں مین میکھ نکال کر اسے سبوتاژ کرنے کی مذموم سعی نہیں کرنی چاہیے۔محض گھر آباد کرنے کی نیت سے زناکاری اور بے غیرتی کا جواز تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔نہ اسے ثواب ہی گردانا جاسکتاہے۔علماء کو اس جہالت کا جس کی وجہ سے گھراجڑتے ہیں۔کوئی معقول حل سوچنا چاہیے اور لوگوں کو سختی سے سمجھاناچاہیے کہ بیک و قت تین طلاقیں دینا حرام اور سخت ممنوع ہے۔
طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حالت طہر میں صرف ایک طلاق دی جائے۔غصے میں بھی ایک ہی طلاق دی جائے۔کاغذات اور تحریر میں بھی ایک ہی طلاق لکھی جائے تاکہ صلح اور رجوع کی گنجائش موجود رہے۔نہ کہ لوگوں کی جہالت اور غلط رویے کی وجہ سے حرام فعل کو جائز بلکہ ثواب کا باعث قرار دے لیا جائے۔یہ تو شریعت سازی ہے جس کا کوئی حق علماء کو حاصل نہیں ہے!!(جواب ازحافظ صلاح الدین یوسف)
سوال:جولوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہی کرتے ،اللہ تعالیٰ نے ان کو قرآن پاک میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
1۔﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴿44﴾...المائدة
2۔﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿45﴾...المائدة
3۔﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴿47﴾...المائدة
ان آیات کی روشنی میں اس بات کی وضاحت کریں کہ ہمارے ملک پاکستان کےجج صاحبان:
1۔کے فیصلوں کا کیا حکم ہے؟
2۔ان کو فاضل جج کے لقب سے نوازنے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
3۔علماء کرام کا ان لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنا کیساہے؟
الجواب بعون الوہاب:(1) ہمارے ملک پاکستان میں جج صاحبان کے جو فیصلے شریعت کے مطابق ہیں وہ قابل تحسین ہیں اور جو اس کے برخلاف ہیں وہ قابل رد ہیں،شرعاً ان کی کوئی حیثیت نہیں۔
(2)۔اگر کوئی جج شریعت کے خلاف فیصلہ حلال سمجھ کر کرتاہے بلاشبہ وہ کافر اور ملت اسلامیہ سے خارج ہے۔اور جو جج یہ اعتقاد رکھتاہے کہ میں حرام کامرتکب ہوں اور قبیح فعل کررہا ہوں ایسےجج کاکفر،ظلم اور فسق اس کو ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا۔کیونکہ کفر اور ظلم وغیرہ کے درجات ہیں ہر ایک سے خروج عن الملۃ لازم نہیں آتا۔جملہ تفاصیل صحیح البخاری کی کتاب الایمان میں دیکھ جاسکتی ہے۔اس بنا پر گناہ گار جج پر فاضل جج کے اطلاق کا جواز ہے بخلاف پہلی قسم کے۔
(3)۔علماء کامقصد اگر اصلاح ہے تو بایں صورت جج حضرات سے میل ملاقات کاکوئی حرج نہیں!
سوال:کیاشادی کے بعدعورت اپنے خاوند کے ہاں رہنے کی زیادہ حق دار ہے یا اپنے والدین کے ہاں۔کیا عورت کے رشتہ دار عورت کے خاوند کی اجازت کے بغیر عورت کو خاوند کے گھر سے لے جاسکتے ہیں یا نہیں اور اگر عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے چلی جائے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب:شادی کے بعد بیوی کو شوہر کی اطاعت کرنی چاہیے۔ہر ایک سے میل ملاقات کے لئے اس کی رضا مندی حاصل کرنی چاہیے۔حدیث میں ہے"عورت جب پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہے اور رمضان کے روزے رکھتی ہے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہے اور اپنے شوہر کی اطاعت گزار ہے۔تو اسے اختیار ہوگا جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے"(ابو نعیم فی الحلیۃ)
دوسری روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ"اگر میں کسی کو امر دیتا کہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے"(جامع ترمذی)
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:آداب الزفاف،ص180 از علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ (طبع ثالث) نافرمانی کی صورت میں شوہر مناسب تادیبی کاروائی کرسکتا ہے۔(ملاحظہ ہوسورۃ النساء:34) جملہ تحفظات کے ساتھ حسب ضرورت عورت گھر سے باہر وقت گزار سکتی ہے۔
سوال:ایک حافظ قرآن امامت کروتاہے لیکن اس کی بیوی ،ماں اور ہمشیرگان وغیرہ پردہ نہیں کرتیں۔ آیا ایسے حافظ واعظ کو امام بنانا اور پھر اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب۔امام کو چاہیے کہ بے پردہ عورتوں کو تلقین کرتا رہےاس طرح وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے گا بایں صورت اس کی امامت درست ہوگی لیکن اگر وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتاہے تو گناہ میں وہ بھی شریک سمجھاجائے گا۔ایسے امام سے واقعتاً نفرت کا ا ظہار ہونا چاہیے حالات کے پیش نظر اس کو معزول بھی کیا جاسکتاہے۔