قرآن اور ماحولیاتی آلودگی

قرآن حکیم ہدایت کا ایک لازوال اور ابدی سرچشمہ ہے جو زندگی کے ہر میدان  میں انسان کی راہنمائی کرتا ہے۔موجودہ دور میں ماحولیاتی آلودگی سے انسانیت پریشان ہے اور اس سے نجات پانے کی متلاشی ہے۔پیش نظر مضمون میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ آلودگی انسانی زندگی کے لیے کس حد تک مضرت رساں ہے؟تاکہ اس سے دامن بچایا جاسکے۔۔۔
رجس یارجز کی لغوی بحث:۔
قرآن حکیم میں آلودگی کی تعبیر رجز اور رجس سے کی گئی ہے۔یہ دونوں اصل میں ایک ہی لفظ کی دو شکلیں ہیں۔اصل کے اعتبار سے ان میں اضطراب اور ارتعاش کا مفہوم پایاجاتاہے۔گندگی اور نجاست کو دیکھ کر طبیعت اور مزاج میں چونکہ سنسنی اور اضطراب کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اس لیے گندگی اور نجاست پر ان کا اطلاق ہونے لگا۔اس سے بڑھ کر عذاب کے معنی میں بھی ان دو کلمات کو استعمال کیا گیاہے،کیونکہ عذاب سے بھی دلوں میں کپکی  اور اضطراب پیدا ہوتا ہے۔(1) فرمان الٰہی ہے:
"وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ﴿٤﴾ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ" (2)
"اور اپنے کپڑےکو پاک رکھو اور گندگی سے دور رہو"(3)
(انگریزی ترجمہ)Thy  raiment rurily.and Pollution shun.(4)
رجز اور رُجز دو ہم معنی لغت ہیں۔ ابو العالیہ اور ربیع نے کہا:رجز سے نجاست اور معصیت مراد ہے جب کہ رجز صنم کے مفہوم میں ہے۔کلبی نے رُجز سے عذاب مراد لیاہے۔(5) اس آیت کریمہ میں رجز سے ہرقسم کی گندگی مراد ہے۔ خواہ وہ ظاہری ہو یا باطنی،لباس ومعاشرت کی ہو یااخلاق واعمال کی ہو،افکار وعقائد کی ہو یا اجسام وابدان کی(6)۔گندگی اور آلودگی کو رجس یارجز کہاجاتاہے۔اسی طرح گندے آدمی کو رَجل رجس کا نام دیاجاتا ہے۔
رجس(نجاست) کی اقسام:۔
آلودگی چار قسم کی ہوتی ہے طبعی اور فطری آلودگی جیسی کہ مردار میں پائی جاتی ہے۔اسی لئے قرآن حکیم میں مردار،بہتے ہوئے خون اور خنزیر کے گوشت کو رجس سے تعبیر کیاگیا ہے۔(7)۔۔۔
دوسری قسم کی آلودگی وہ ہے جس سے عقل وذہن کوگھن آتی ہے ۔مثلاً شرک وبت پرستی وغیرہ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
" اجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ"(8)
"پس تم بتو کی گندگی سے بچو"۔۔۔
گندگی کی تیسری قسم وہ ہے جو ازروئے شریعت ثابت ہے مثلاً شراب اورجوا وغیرہ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ"(9)
"بے شک شراب ،جوا،استھان اور جوئے کے تیر گندے شیطانی کام ہیں،پس ان سے پرہیزکرو"۔۔۔
چوتھی قسم کی آلودگی وہ ہے جو مذکورہ بالا تینوں قسم کی آلودگیوں کا مجموعہ ہو۔(10)
قرآن مسلمانوں کو ہر قسم کی آلودگی سے دامن بچانے کی دعوت وترغیب دیتاہے تاکہ وہ اس کے مضر ا ثرت سے محفوظ رہیں۔قرآن کریم میں اہل شرک کو نجس کہا گیا ہے(11) گویا کہ وہ عین نجاست ہیں۔یہ نجاست ان کی باطنی خباثت اور فاسد اعتقادی کا نتیجہ ہے۔یا اس لئے کہ شرک ان کے ساتھ وابستہ ہے جو بمنزلہ نجاست ہے۔ یا اس لئے کہ وہ ظاہری طہارت سے الگ  رہتے ہیں،نہ غسل کرتے ہیں اور نہ نجاست سے اپنا دامن بچاتے ہیں(12)۔۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّـهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (13)
"یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ناپاکی مسلط کردیتاہے ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے"
اس آیت کریمہ میں ایمان سے محرومی کا نتیجہ یہ بتلایا گیا ہے کہ ایسے لوگوں پر رجس کا تسلط ہوجاتاہے۔رجس سے مراد یہاں عذاب ہے یا شیطان ہے۔(14)
آلودگی اور نجاست وسیع تر مفہوم میں دو طرح کی ہوسکتی ہے ایک وہ جسے ظاہری یا حسی لحاظ سے دیکھا اور محسوس کیاجاسکتاہے۔دوسری آلودگی وہ ہے جو انسان کے باطن سے تعلق رکھتی ہے۔اور جس کے نتیجے میں انسان کفر،شرک،نفاق،اور معصیت میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ہردو قسم کی آلودگی بالآخر عذاب پر منتج ہوتی ہے ۔اس عذاب میں وہی لوگ مبتلا ہوتے ہیں جو عقل سے خالی ہوں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ(15)
"وہ(اللہ تعالیٰ) رجس کو ان لوگوں پر مسلط کرتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے۔"
اس آیت کریمہ میں کفر اور عذاب کی تعبیر کے لیے رجس کا لفظ استعمال  کیا گیا ہے۔اپنی اصل کے اعتبار سے یہ لفظ کسی ناکارہ،فاسد اور آلودہ چیز کے مفہوم کو ادا کرتاہے۔جس سے اضطراب اور جنجلاھٹ پیدا ہوتی ہے۔جیساکہ پیچھے ذکر ہوا،اس آیت میں رجس سے کفر مراد لینا اس ا عتبار سے ہے کہ کفر عذاب کا سبب بنتا ہے۔قرآن کریم میں عذاب کی تعبیر رجس سے کی گئی ہے۔آلودہ چیز اور عذاب کے لیے رجس کا استعمال ان کےاس مشترکہ مفہوم کی وجہ سے ہے۔رجس کا لفظ جس کا حامل ہے۔یعنی ارتعاش اور اضطراب(16)۔اہل ایمان کو ہر دو طرح کی نجاست اور آلودگی سے دامن بچانے اور ان سے طہارت حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (17)
"بے شک اللہ تعالیٰ(گناہوں سے) توبہ کرنے والوں کو پسند کرتاہے اور  پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کر تاہے۔"
اس آیت کریمہ میں توبہ اور تطہیر کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔توبہ گناہوں سے اپنے باطن کو پاک کرنے کا نام ہے۔جب کہ تطہیر ظاہری نجاستوں اور گندگیوں سے اپنے ظاہر کو پاک کرنے سے عبارت ہے۔(18)
(2)۔آلائش اور گندگی کو قرآن  میں اذی سے بھی  تعبیرکیا گیا ہے کیونکہ اس سے انسان کو اذیت اور تکلیف پہنچتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"اور لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کہہ دیجئے کہ وہ "اذی"(الائش اور گندگی) ہے۔پس تم عورتوں سے زمانہ حیض میں الگ رہو"(19) اس آیت کریمہ میں اذی کنایہ ہے آلائش سے اور اس لفظ کا اطلاق ناپسندیدہ قول پر بھی ہوتاہے۔(20) گندگی اور آلائش سے پاکیزگی اور طہارت اختیار کرناقرآنی تعلیمات کی روح ہے۔اور اسے صرف حیض سے مخوص کرنا درست نہیں۔حیض طب قدیم اور جدید ہر دو کے نزدیک ایک آلودگی ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے زمانہ حیض میں عورت سے الگ رہنے(ہم بستری نہ کرنے) کا حکم دیا ہے۔اسلام طہارت ،صفائی اور نظافت کا مذہب ہے اس لئے وہ ہر قسم کی آلودگی اور نجاست سے اپنے ماننے والوں کوالگ رہنے کی تلقین کرتاہے۔(21) آلودگی کواذی سے تعبیر کرنا اس کی مضرت رسانی کو واضح کرنے کے لیے ہے۔کیونکہ لغت میں اذی سے مراد وہ ضرر ہوتا ہے جو کسی جاندار کی روح یاجسم کو پہنچے۔خواہ وہ ضرر دنیاوی نوعیت کا ہو یا اخروی نوعیت کاہو۔(22)
(3)۔عربی لغت میں نجاست اور گندگی کے لیے قذر کالفظ بھی استعمال کیاجاتا ہے۔قرآن حکیم میں اسکی تعبیر رجس اذی اور نجس کی اصطلاحات سے کی گئی ہے۔قذر کامتضاد طہارت اور نظافت ہے۔نظافت کا حصول صرف اسی صورت میں ممکن ہوتاہے۔جب حالت قذر کو زائل کردیاجائے۔طہارت اصل میں دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک حقیقی طہارت جو ظاہری گندگی اور آلودگی کو دور کرنے سے میسر آتی ہے۔دوسری حکمی طہارت جو حدث سے پاکیزگی کا مطالبہ کرتی ہے۔حدث وہ پلیدی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی ۔مگر شریعت کے حکم سے ثابت ہوتی ہے۔مثلا بے وضو ہونا یا حالت جنابت میں ہونے کے باعث غسل کا محتاج ہوتا۔حدث سے طہارت حاصل کرنے کے لیے وضوء غسل یاتمیم کی ضرورت ہوتی ہے۔(23) اسلام کی طہارت  پسندی اس بات کاتقاضا کرتی ہے ۔کہ نماز جیسی عبادت کے لیے وضو کو شرط قرار دیا جائے جو طہارت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے اگر غسل کی ضرورت ہوتو اس کا  اہتمام کیا جائے۔پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کی رعایت دی جائے۔ اسلام کی اس تعلیم کو قرآن حکیم میں خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔(24) پانی کو اللہ تعالیٰ نے نجاست اور آلودگی سے طہارت حاصل کرنے کا خاص وسیلہ بنایا ہے۔اس لیے قرآن حکیم میں پانی کی اس صفت کابطور خاص ذکر کیا گیا۔فرمان الٰہی ہے:
وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا(25)
"اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا جو خود طہارت والاہے"
اس آیت کریمہ میں پانی کے جس خاص وصف طھور کا ذکر کیا گیا ہے ،فقہاء نے اس سے یہ استنباط کیاہے کہ حکمی نجاستوں سے ازالہ صرف آب خالص ہی سے ممکن ہے(26)
ماحولیاتی آلودگی:۔
آلودہ پانی اور ہوا:کسی جاندار یا انسان کے اردگرد کی مادی چیزیں یا لوازمات جو اس جاندار یا انسان کی زندگی اورنشو نما پر اثر انداز ہوں ،وہ اس کا ماحول(Environment) بناتی ہیں۔(27) انسانی ماحول میں پانی اور ہوا کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ انسانی زندگی ان کے بغیرناممکن ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی آلودگی انسان کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔قرآن حکیم میں ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں سرکش اور نافرمان قوموں کی گوشمالی اور سزا کے لیے آلودہ پانی اور ہوا کا ذکر موجود ہے۔فرمان الٰہی ہے:
فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ ﴿١٣٣﴾ وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوا يَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ ۖ لَئِن كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴿١٣٤﴾ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَىٰ أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ (28)
"پس ہم نے ان  پر طوفان ،ٹڈیاں،جوئیں،مینڈک اور خون،تفصیلی نشانیوں کے طور پر بھیجے تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے اور جب ان پر کوئی آفت آتی تو کہتے کہ اے موسی علیہ السلام  ! اس عہد کے حوالے سے جواس نے تم سے کررکھاہے تم ا پنے رب سے ہمارے حق میں دعا کرو۔اگر تو نے ہم سے یہ آفت دور کردی تو ہم تمہاری بات ضرور مان لیں گے اور بنی اسرائیل کوتیرے ہمراہ بھیج دیں گے۔پھر جب ہم آفت کو کچھ مدت کے لیے،جن تک وہ پہنچنے والے ہوتے دور  کردیتے تو دفعتاً وہ عہد توڑ دیتے"
ان آیات میں قوم فرعون کو جھنجھوڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جن پانچ آفتوں کا ذکر کیا ہے ان میں طوفان،ٹڈیاں،جوئیں،مینڈک اور خون شامل ہیں۔عربی زبان میں طوفان ہر شدید اور ملک گیر حادثہ(ابتلاء) کو کہا جاتاہے۔یہاں اس سے مراد آتشیں ژالہ باری ہے۔جس کاذکر تورات میں آیا ہے۔(29) ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بقول طوفان سے مراد کھیتی اور  پھلوں کو ڈبو دینے والی بارشیں ہیں۔مجاہد رحمۃ اللہ علیہ  نے اس سے پانی اور طاعون کاطوفان مراد لیاہے۔(30) پانی ان کے  گھروں میں داخل ہوگیا اور بیٹھے ہوئے لوگوں کے حلق تک پہنچ گیا یہ کیفیت سات دنوں تک رہی۔۔۔جراد سے ٹڈیاں مراد ہیں۔جو ان کی کھیتیوں اور  پھلوں کو چٹ کرگئیں۔۔قمل جوئیں ،چیچڑ،سسری حشرات اور کیڑے مکوڑوں کی تعبیر ہے جو ٹڈیوں سے بچی ہوئی غذائی اجناس کوتباہ کرنے پر مامور تھے۔۔۔ضفادع سے مینڈک مراد ہیں جن سے ان کے گھروں اور کھانے پینے کی چیزں بھرگئیں۔دم اس خون کی تعبیرہے جو ان کے پانیوں میں شامل ہوگیا۔(31)
قوم ثمود اور قوم عاد کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ ﴿٥﴾ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ (32)
"پس جہاں تک ثمود کا تعلق ہے تو وہطَّاغِيَةِ (حد سےبڑھی ہوئی آفت) کے ذریعے ہلاک کردیے گئے اور جہاں تک عاد کاتعلق ہے تو وہ ایک بے قابو طوفانی ہوا سے تباہ کردیئے گئے"
ان آیات سے طَّاغِيَةِ سے مراد حد سے بڑھی ہوئی چنگھاڑ اور ریح صَرْصَرٍ بے حد ٹھنڈی اور شدید الصوت ہوا کی تعبیر ہے۔ صَرْصَرٍ کے ساتھ عَاتِيَةٍ کی صفت اس ہوا کی بڑی ہوئی ٹھنڈک اور آواز کو ظاہر کررہی ہے۔(33) قوم عاد کی ہلاکت کےلیے اللہ تعالیٰ نے جو ہوا چلائی،اس کے بارے میں کہ وہ الریح العقیم تھی جس چیز پر سے اس کا گزر ہوتا تھا،اسے گلی ہوئی اور بوسیدہ ہڈیوں کی طرح بنا دیتی تھی۔(34)۔۔۔آواز کی شدت فضائی آلودگی کا باعث بن کر زندگی کو نقصان پہنچاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ خدا کی نافرمان کئی قومیں خداکے اس عذاب کی زد میں آکر ہلاک ہوئیں۔حبیب نجار کی قوم کے بارے میں فرمایا کہ ان کہ ہلاکت ایک زور دار چنگاڑ کے ذریعے ہوئے۔اس چنگھاڑ سے وہ بجھ کررہ گئے۔(35) قیامت برپا  کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسرافیل علیہ السلام کو صور  پھونکنے پر مامور فرمایا ہے۔فرمان الٰہی ہے:(36)
"وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّـهُ "
"اورصور میں پھونکاجائے گا تو ہر وہ ذی روح چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے،بےہوش ہوکرموت کی آغوش میں چلی جائے گی،سوائے اسکے جسے اللہ چاہے۔"
اس آیت کریمہ میں قیامت کے دن صور میں پھونکے جانے کا ذکرآیا ہے ۔صُور ایک قسم کا سینگ ہے۔جس میں حضرت اسرافیل علیہ السلام  پھونکیں گے۔
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ"حضرت اسرافیل علیہ السلام صور کو منہ میں لے کراپنی گردن کو جھکائے ہوتے انتظار کررہے ہیں کہ کب انہیں اس میں پھونکنے کاحکم ملتا ہے ۔(37)
دھواں:دھواں بھی فضائی آلودگی کاباعث بنتاہے اور اس کی شدت عذاب الٰہی بن جاتی ہے۔
منکرین حق کو اللہ تعالیٰ نے اس عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا:" پس تم لوگ اس دن کا انتظار کرو۔جس دن آسمان ایک کھلے دھوئیں() کے ساتھ نمودار ہوگا۔ وہ دھواں لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔یہ ایک دردناک عذاب ہے(38) قرآن حکیم میں ان آیات میں  دھوئیں کے لیے دخان کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اور مبین کو اس کی صفت کے طور پر لایا گیاہے ۔جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ دھواں ہر ایک کو نظرآئے گا اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہ ہوگی۔مفسرین کا ایک گروہ اس سے وہ دھوں مراد لیتا ہے جو قیامت کے قریب نمودار ہوگا۔ایک دوسرا  گروہ اس سے قحط سالی مراد لیتاہے۔مگر کلام عرب میں اس کلمہ کا استعمال یہ ظاہر کر تا ہے کہ یہ عذاب الٰہی بن کر اٹھنے والے غبار کی تعبیر ہے۔جس سے کئی سرکش قومیں ہلاک کی گئیں۔(39)
قرآنی تعلیمات سے ظاہر ہوتاہے کہ فضائی آلودگی اللہ کاعذاب بن کر زندگی کے لیے ہلاکت اور تباہی کا سبب بن جاتی ہے ۔یہ عذاب سرکش اور نافرمان قوموں کو سزا دینے کے لئے حرکت میں آتا ہے۔انسان کے اخلاق واعمال جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر مبنی ہوں وہ اس عذاب کو دعوت دیتے ہیں۔انسان احکام الٰہی پر عمل کرکے اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرسکتاہے۔انسان کو یہ استطاعت بخشی گئی ہے کہ وہ علم وعقل کی بدولت اپنے ماذی ماحول کو مسخر کرکے ا پنے لیے سازگار بنا سکے۔فرمان الٰہی ہے:
"أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّـهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً" (40)
اور کیا تم لوگوں کی اس پر نظر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اس چیز کو جوآسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے تمہاری خدمت کے لئے لگا رکھاہے  اور تم پر ا پنی ظاہری اور باطنی نعمتیں  پوری کررکھی ہیں"
اللہ تعا لیٰ نے اس آیت میں انسانوں کی توجہ اپنی نعمتوں کی طرف دلائی ہے جن سے انہیں نوازا گیا ہے تاکہ وہ اس کا شکر ادا کریں اور نعمتوں کو اس کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے  تو اس سے انسانی زندگی بگڑ  جاتی ہے  جب یہ بگاڑ ایک خاص حد تک پہنچ جائے تو عذاب الٰہی حرکت میں آتاہے۔انسانی خدمت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور قوتیں عذاب کی شکل اختیار کرکے انسانوں کا احاطہ کرلیتی ہیں،اس طرح ان کی جڑ کاٹ دی جا تی ہے۔
حوالہ جات:۔
1۔اصلاحی ،امین احسن،تدبر قرآن ،لاہور،مرکزی انجمن خدام القرآن1973،ج1 ص166
2۔القرآن ،5/74
3۔مودودی،سید ابوالاعلیٰ،تفہیم القرآن ،لاہور ادارہ ترجمان القرآن ،1975،ج6 ص142۔
4۔پکتھال ،مار ڈیوک،دی گلوریس قرآن،لاہور ،تاج کمپنی ،سورۃ المدثر،5
5۔ پانی پتی،قاضی ثناءاللہ ،تفسیر مظہری کوئٹہ مکتبہ رشیدیہ ،ج10ص 125۔
6۔مودودی ،تفہیم القرآن،ج6 ص145
7۔القرآن ،6،146
8۔القرآن ،22،30
9۔القرآن ،5:90
10۔اصفہانی امام ،راغب المفردات فی غریب القرآن ،کراچی،میرمحمد کتب خانہ،ص188۔
11۔القرآن ،9/28
12۔آلوسی،شہاب الدین سید محمود،روح المعانی،ملتان ،مکتبہ امدادیہ ،ج10ص76۔
13۔القرآن 6،126۔
14۔محلی وسیوطی ،جلال الدین  تفسیر جلالین،کراچی تاج کمپنی ،ص 145۔
15۔القرآن ،10،100۔
16۔آلوسی،روح المعانی ج11 ص194
17۔القرآن ،2/222
18۔اصلاحی تدبرالقرآن ج1 ص194۔
19۔القرآن 2/225
20۔شوکانی محمد بن علی  فتح القدیر ،لبنان(بیروت) واحیاالتراث العربی ج1 ص225۔
21۔عبدالماجد دریا آبادی تفسیر ماجدی کراچی تاج کمپنی ،ص 89۔
22۔اصفہانی المفردات ،ص15۔
23۔الکاسانی علاؤالدین ابو بکر بن مسعود ،بدائع الصنائع،1400ھ،کراچی ایچ ایم سعید کمپنی ج1 ص3۔
24۔القرآن،5،6۔
25۔القرآن ،25،48،
26۔دریا آبادی ،تفسیر ماجدی ص 737۔
27۔ہاکنز جائس ایم ورابرٹ ایلن:آکسفورڈ انسائیکلو پیڈک ڈکثنری 1991ء لندن آکسفورڈ ص478۔
28۔القرآن 7،133،135۔
29۔دریا آبادی تفسیر ماجدی ص353۔
30۔ابن کثیر حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل دمشقی:تفسیر القرآن العظیم ،1994ء ریاض دارالسلام ج2 ص320۔
31۔جلال الدین تفسیر جلالین ص167۔
32۔القرآن ،69،5،6۔
33۔پانی پتی  تفسیر مظہری ج10 ص48،49۔
34۔القرآن51،41،42۔
35۔القرآن 36،29
36۔القرآن 39:68
37۔ابن کثیر :تفسیر القرآن العظیم ج2 ص197
38۔القرآن ،44،10،11۔
39۔اصلاحی :تدبر قرآن ،ج6،ص 272،275۔
40۔القرآن ،31،20۔