جادو گروں کا قلع قمع کؤنے والی تلوار

الصارم البتار في التصدي للسحرة الأشرار

((( زیر نظر تحریر جادو کے بارے میں ایک اہم کتابچہ کااردو ترجمہ ہے۔جسے ایک تجربہ کار صاحب علم نے عربی میں تحریر کیاہے،اس کتاب میں قرآن وسنت سے واضح استدلال کے علاوہ جادو کے توڑ کے اسلامی طریقوں پر بھی کافی وشافی تفصیل موجود ہے۔جس بناء پر اس کو کافی پسند کیا گیاہے۔اور عربی میں اس کے دسیوں ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔
ادارہ محدث کے دیرینہ رکن حافظ محمد  اسحاق زاہد(کویت) نےاس کا سلیس ترجمہ کرکے واقعتاً اہم کمی پوری کی ہے کیونکہ ہمارے ہاں جادو کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بالمقابل شرعی رہنمائی کے لئے مناسب اُسلوب واستدلال میں کوئی موزوں کتاب اردو میں د ستیاب نہیں تھی،محدث میں چند اقسام میں اس کتاب کا مسلسل  ترجمہ نذر قارئین ہے۔(ح۔م)
تقدیم:۔
جادو کا موضوع ان اہم موضوعات میں سے ہے جن کا بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے ذریعے تعاقب کرنا علماء کے لئے ضروری ہے۔کیونکہ جادو عملی طور پر ہمارے معاشروں میں بھر پور انداز سے موجود ہے۔اور جادوگر چند روپوں کےبدلے دن رات فساد پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں۔جنھیں وہ کمزور ایمان والے اور ان کینہ پرور لوگوں سے وصول کرتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے بغض رکھتے اور انہیں جادو کے عذاب میں مبتلا دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔
علماء کے لئے ضروری ہے۔ کہ وہ جادو کے خطرے اور اس کے نقصانات کے متعلق لوگوں کو خبردار کریں،اور جادو کا شرعی طریقے سے علاج کریں تاکہ لوگ اس کے توڑ اورعلاج کے لئے جادو گروں کا رخ نہ کریں،اسی ضرورت کے پیش نظر میں اپنے قارئین کی خدمت میں یہ کتاب پیش کررہا ہوں۔یہ کتاب ایک کم علم آدمی کی سادہ سی کوشش ہے اور اس کا شرعی طریقے سے علاج کریں تاکہ لوگ اس کے توڑ اور علاج کے لئے جادو گروں کا رخ نہ کریں،اسی ضرورت کے پیش نظرمیں اپنے قارئین کی خدمت میں یہ کتاب پیش کررہا ہوں۔یہ کتاب ایک علم آدمی کی سادہ سی کوشش ہے اور اس کا اہم مقصد یہ ہے کہ جادو اور اس کی تاثیر سے بیمار  پڑجانے والے لوگوں اور اسی طرح حسد اور نظر بد کا مسلمان شرعی طریقوں سے علاج کرسکیں تاکہ لوگ ان جادوگروں اور شعبدہ بازوں کے پاس  جانے سے پرہیز  کریں جو ان کے عقائد کو تباہ اور ان کی عبادت کوخراب کردیتے ہیں۔
اس کتاب میں جو بات بھی آپ کو خلاف کتاب وسنت معلوم ہو اس کو ترک کرکے کتاب وسنت پر عمل کریں۔مجھے میری غلطی کے متعلق آگاہ کرنے والے ہرشخص کے لئے دعا گو ہوں۔(وحید بن عبدالسلام بالی/1410ھ)
سحر (جادو) کی تعریف
(حصہ اول)
سحر۔۔۔لغوی اعتبار سے:۔
جادو کے لیے عربی زبان میں سحر کا لفظ استعمال ہواہے جس کی تعریف علماء نے یوں کی ہے:
اللیث کہتے ہیں:" سحر وہ عمل ہے جس میں پہلے شیطان کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اس سے مدد لی جاتی ہے۔"
الازھری کہتے ہیں"سحر در اصل کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کا نام(2) ہے۔"
اور ابن منظور اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
"ساحر(جادو) جب باطل کو حق بناکر پیش کرتاہے اور کسی چیز کو اسی حقیقت سے ہٹ کر سامنے لاتا ہے۔تو گویا وہ اسے دینی حقیقت سے پھیر دیتاہے۔"(3)
ابن  عائشہ سے مروی ہے کہ "عربوں نے جادو کانام سحر اس لیے رکھا ہے کہ یہ تندرستی کو بیماری میں بدل دیتاہے۔"(4)
ابن فارس سحر کے متعلق کہتے ہیں:
"ایک قوم کا خیال یہ ہے کہ سحر باطل کو حق کی شکل میں پیش کرنا ہے۔"(5)
المعجم الوسیط میں سحر کی تعریف یوں ہے:
"سحر" وہ ہوتاہے جس کی بنیاد لطیف اور اتنہائی باریک ہو۔"(6)
صاحب محیط المحیط کہتے ہیں:
"سحر یہ ہے کہ کسی چیز کو بہت خوبصورت بنا کرپیش کیا جائے  تاکہ لوگ اس سے حیران ہوکررہ جائیں۔(7)
سحر۔۔۔شریعت کی اصطلاح میں:۔
شرعی اصطلاح میں سحر کی تعریف کچھ اس طرح سے کی گئی ہے:
امام فخر الدین الرازی کہتے ہیں:
شریعت کے عرف میں سحر(جادو) ہر اس کام کے ساتھ مخصوص ہے جس کس سبب مخفی ہو ۔اسے اس کی اصل حقیقت سے ہٹ کر پیش کیا جائے اور دھوکہ دہی اس میں نمایاں ہو۔"(8)
امام ابن قدامہ مقدسی کہتے ہیں:
"جادو" ایسی گرہوں اور ایسے دم درود اور الفاظ کا نام ہے۔ جنھیں بولا یا لکھاجائے یا یہ کہ جادوگر ایسا عمل کرے جس سے اس شخص کا بدن یادل یا عقل متاثر ہوجائے جس پر جادو  کرنا مقصود ہو۔"
اور جادو واقعتاً اثر رکھتاہے،چنانچہ جادو سے کوئی شخص قتل بھی ہوسکتا ہے،بیمار بھی ہوسکتا ہے۔اور اپنی بیوی کے قرب سے عاجز بھی آسکتاہے بلکہ جادو خاوند بیوی کے درمیان جدائی بھی ڈال سکتاہے۔اور ایک دوسرے کے دل میں نفرت  بھی پیدا کرسکتاہے اور محبت بھی۔(9)
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں:
"جادو" ارواح خبیثہ کے اثر ونفوذ سے مرکب ہوتا ہے جس سے بشری طبائع متاثر ہوجاتی ہیں(10)
غرض سحر جادو  گر اورشیطان کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کا نام ہے جس کی بناء پر جادوگر کچھ حرام اور شرکیہ امور کا ارتکاب کرتاہے اور شیطان اس کے بدلے میں جادوگرکی مدد کرتاہے اور اس کے مطالبات کو پورا کرتاہے۔
شیطان کا قرب حاصل کرنے کے لیے جادوگروں کے بعض طریقے:۔
شیطان کو راضی کرنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جادوگروں کے مختلف وسائل ہیں ،چنانچہ بعض جادوگر اس مقصد کےلئے قرآن مجید کو اپنے پاؤں سے باندھ کربیت الخلا  میں جاتے ہیں اور بعض قرآن مجید کی آیات کو گندگی سے لکھتے ہیں،بعض انھیں حیض کے خون سے لکھتے ہیں بعض قرآنی آیات کو اپنے پاؤں کے نچلے حصوں پرلکھتے ہیں،کچھ جادو گر ،سورۃ الفاتحہ کو الٹا لکھتے ہیں اور کچھ بغیر وضو کے نماز پڑھتے ہیں اور کچھ حالت جنابت میں رہتے ہیں اور کچھ جادوگروں کو شیطان کے لیے جانور ذبح کرنا پڑتے ہیں اور بھی بسم اللہ پڑھے بغیر ،اور ذبح شدہ جانور کو ایسی جگہ پر پھینکنا  پڑتا ہے جس کو خود شیطان طے کرتا ہے۔
بعض جادو گرستاروں کو سجدہ کرتے اور ان سے مخاطب ہوتے ہیں اور بعض کو  ا پنی ماں یابیٹی سے زنا کرنا پڑتاہے۔ اور کچھ کوعربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں ایسے الفاظ لکھنا پڑتے ہیں جن میں کفریہ معانی پائے جاتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ شیطان جادوگر سے  پہلے کوئی حرام کام کرواتاہے  پھر اس کی مدد اور خدمت کرتاہے چنانچہ جادو گرجتنا بڑاکفریہ کام کرے گا،شیطان اتنا زیادہ اس کا فرمانبردار ہوگا اور اس کے مطالبات کو پورا کرنے میں جلدی کر گا،اور جب جادو گرشیطان کے بتائے ہوئےکفریہ کا موں کو بجا لانے میں کوتاہی کرے گا،شیطان بھی اس کی خدمت کرنے سے رک جائے گا اور اس کا نافرمان بن جائے گا۔سو جادو گر اور شیطان ایسے ساتھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے  پر ہی آپس میں ملتے ہیں اور آپ جب کسی جادوگر کے چہرے کی طرف دیکھیں گے تو آپ کومیری یہ باتیں یقیناً درست معلوم ہوں گی کیونکہ اس کے چہرے پر کفر کا اندھیرا یوں چھایا ہوا ہوتا ہے گویا وہ سیاہ بادل ہو۔
اگر آپ کسی جادوگر کوقریب سے جانتے ہوں تو یقیناً اسے زبوں حالی کا شکار پائیں گے ۔وہ اپنی  بیوی اپنی اولاد اور حتیٰ کہ اپنے آپ سے تنگ آچکا ہوتا ہے۔اسے سکون کی نیند نصیب نہیں ہوتی اور اس پر مستزاد یہ کہ شیطان خود اس کے بیوی بچوں کو اکثر ایذا دیتے رہتے ہیں اور ان کے درمیان شدید اختلافات پیدا کردیتے ہیں۔سچ فرمایا ہے اللہ رب  العزت نے:

"وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا" (11)

"اور جس نے میرے دین سے منہ موڑ لیا(دنیا میں) اس کی زندگی تنگ گزرے گی۔"

جادو کا وجود قرآن وسنت کی روشنی میں

(حصہ سوم)

1۔جنوں اور شیطانوں کے وجود پر دلائل:۔

جن ،شیطان اور جادو کےدرمیان بہت گہرا تعلق ہوتا ہے،بلکہ جادو کی بنیاد ہی جنابت اور شیاطین ہیں،بعض لوگ جنات کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر جادو کی تاثیر کے قائل نہیں،اس لئے پہلے جنات وشیاطین کے وجود پر دلائل پیش کئے جاتے ہیں:

قرآنی دلائل:۔

1۔ وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ(12)

"اور یاد کیجئے جب ہم کئی جنوں کو تیرے پاس پھیر کر لائے"

2۔ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا (13(

"جنو اور آدمیو! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے  پیغمبر نہیں آئے جو میری آیتیں تم کو پڑھ کر سناتے اور اس دن کی ملاقات سے تم کو ڈراتے"

3۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا.(14)

"کہہ دیجئے مجھے یہ وحی آئی ہے کہ جنات میں سے چند شخصوں نے(مجھ سے قرآن) سنا،پھر کہنے لگے ہم نے ایک عجیب قرآن سنا"

4۔ وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الأِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقاً (15)

"اور (ہوا یہ کہ)بعض آدم زاد لوگ کچھ جنوں کی پناہ لیتے تھے جس سے ان کا دماغ اور چڑھ گیا"

5۔ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ.(16)

"شیطان یہی چاہتاہے کہ شراب اور جوئے سے تم میں آپس  میں دشمنی اور کینہ پیدا کردے اور تم کو اللہ کی یاد اور نماز سے باز رکھے ،تو اب بھی تم باز آتے ہو یا نہیں؟"

6۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۚ(17)

"اے ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم مت چلو،اور  جو کوئی اس کی پیروی کرے گا(وہ گمراہ ہوگا اس لیے کہ) وہ تو بے حیائی اور برے ہی کام کرنے کو کہے گا"

اس کے علاوہ بھی قرآن مجید کی بہت ساری آیات اس بارے میں موجود ہیں۔ بلکہ جنات کے متعلق ایک مکمل سورت قرآن مجید میں موجود ہے۔لفظ جن قرآن مجید میں 22 مرتبہ آیاہے،لفظ الجان سات مرتبہ اور لفظ شیطان 68 مرتبہ اور لفظ شیاطین 17 مرتبہ ذکرکیا گیاہے،جس سے اس موضوع کے متعلقہ قرآنی دلائل کی کثرت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔

حدیث میں سے چنددلائل:۔

1۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ:

"رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک رات کو ہم سے اچانک غائب ہوگئے،چنانچہ ہم انہیں وادیوں اور  گھاٹیوں میں تلاش کرنے لگے،اور آپس میں ہم نے کہا کہ شاید آپ کو اغوا کر لیا گیا ہے یا قتل کردیا گیا ہے۔ہماری وہ رات انتہائی پریشانی کے عالم میں گزری،صبح ہوئی تو ہم نے آپ کو غارِحرا کی جانب سے آتے ہوئے دیکھا ،ہم نے آپ کو بتایا کہ رات آپ اچانک ہم سے غائب ہوگئے تھے ،ہم نے آپ بہت تلاش کیالیکن آپ کے نہ ملنے پر رات بھر پریشان رہے ،تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"میرےپاس جنات کا ایک نمائندہ آیا تھا،تو میں اس کے ساتھ چل پڑا،اور جا کر انہیں قرآن مجید پڑھ کر سنایا"۔۔۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیں لے کر اس جگہ پر گئے ہمیں ان کے نشانات اور ان کی آتشیں علامات دیکھائیں،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی بتایا کہ جنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کچھ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" ہر ایسی ہڈی تمہاری غذا ہے جس پر بسم اللہ کو پڑھا گیا ہو،اور ہر گوبر تمہارے جانوروں کا کھانا ہے"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیں کہنے لگے"لہذا تم ہڈی اور گوبر کے ساتھ استنجاء مت کیا کرو کیونکہ وہ تمہارے جن بھائیوں کاکھانا ہے"(18)

2۔حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ:

"رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھےفرمایا:" میرا خیال ہے کہ تمھیں بکریاں اور دیہاتی ماحول بہت پسند ہے،سو جب تم اپنی بکریوں اور اپنے دیہات میں ہو اور اذان کہوتو اپنی آواز بلند کرلیاکرو کیونکہ موذن کی آواز کو جن ،جو انسان اورجو چیز بھی سنتی ہے وہ قیامت والے دن اس کے حق میں گواہی دے گی"(19)

3۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ:

"رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے چند ساتھیوں کولے کر نکلے اور ان کا ارادہ عکاظ کے بازار میں جانے کا تھا،اور ادھر شیاطین اور آسمان سے آنے والی خبروں کے درمیان رکاوٹیں پیدا کردی گئی تھیں اور ان(شیطانوں) پر ستارے ٹوٹنے لگ گئےتھے،چنانچہ وہ جب اپنی قوم کے پاس خالی واپس آئے تو اسے آکر بتاتے کہ ہمیں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے اور ہم پر شباب ثاقب کی مار پڑنے لگ گئی ہے،تو وہ آپس میں کہتے کہ ایسا کسی بڑے واقعے کیوجہ  سے ہورہاہے لہذا مشرق ومغرب میں جاؤ اور دیکھو کہ یہ رکاوٹیں کیوں پیدا ہورہی ہیں؟

چناچہ  تھامہ کا رخ کرنے والے شیاطین(جنات) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف نکلے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت نخلہ میں تھے اورعکاظ میں جانے کاارادہ فرمارہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فجر کی نماز پڑھائی ،ان جنات کے کانوں میں قرآن کی آواز پڑی تو وہ اسے غور سے سننےلگ گئے اور کہنے لگے:اللہ کی قسم!یہی وہ چیز ہے جو ہمیں آسمان کی خبریں سننے سے روک رہی ہے،سو یہ  ا پنی قوم کے پاس واپس آگئے۔ران سے کہنے لگے:"ہم نے عجیب وغریب قرآن سناہے جو کہ بھلائی کاراستہ دکھاتا ہے۔،سوہم تو اس  پر ایمان لے آئے ہیں اوراپنے پروردگار کے ساتھ کبھی شرک نہیں کریں گے۔"

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر:قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ کو اتار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  جنوں کی بات کے متعلق بذریعہ وحی آگاہ کردیاگیا۔(20)

4۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"فرشتوں کو نور سے ،جنوں کو آگ کے شعلے سے اور آدم علیہ السلام   کو اس چیز سے پیدا کیا گیا جو تمہارے لئے بیان کردی گئی ہے"(21)

5۔حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بنت حیی سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"بے شک شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے"(22)

6۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"تم میں سے کوئی جب بھی کھانا کھائے تو دائیں ہاتھ سے  کھا ئے اور جب بھی پانی پیے تو دائیں ہاتھ سے پیے،کیونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتاہے۔(23)

7۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے ،شیطان اس کے پہلو میں نوک دار چیز چبھوتا ہے جس سے بچہ چیخ اٹھتا ہے،سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام   اور ان کی ماں کے"(24)

8۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جو صبح ہونے تک سویا رہا ہو،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" یہ وہ شخص ہے جس کے کانوں میں شیطان پیشاب کرجاتا ہے۔(25)

9۔ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتاہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ،سو جوشخص خواب میں ناپسندیدہ چیزدیکھے وہ اپنی بائیں طرف تین بار آہستہ سے تھوک دے اور شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرے،ایسا کرنے سے برا خواب اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہوگا"(26)

10۔ابو  سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"تم میں سے جب بھی کوئی  جمائی لے  تو ا پنے ہاتھ کے ساتھ منہ بند کرلے،کیونکہ(ایسا نہ کرنے کی وجہ سے) شیطان منہ میں  داخل  ہوجاتا ہے۔(27)

اس موضوع کی دیگراحادیث بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں لیکن طلب حق کے لیے یہی کافی ہیں جو ذکر کر دی گئی ہیں اور ان سے واضح طور پرمعلوم ہورہا ہے کہ جنات اور شیاطین کا وجود کوئی وہم نہیں،حقیقت ہے اوراس حقیقت کو وہم وہی شخص قرار دے سکتا ہے جو ضدی اور متکبر ہو۔

2۔جادو کےوجود پر دلائل:۔

قرآنی دلائل:۔

1۔فرمان الٰہی ہے:

وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚوَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (28)

ترجمہ:۔"اور سلیمان علیہ السلام   کی بادشاہت میں شیطان جو پڑھا کرتے تھے وہ لوگ اس کی پیروی کرنے لگے حالانکہ سلیمان علیہ السلام   کافر نہ  تھے البتہ یہ شیطان کافر تھے جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے،اور وہ باتیں جو شہر بابل میں دو فرشتوں ہاروت وماروت پر اتاری گئیں تھیں،اور وہ دونوں(ہاروت وماروت) کسی کو جادو نہیں سکھلاتے تھے،جب تک یہ نہیں کہہ لیتے کہ ہم آزمائش ہیں پس توکافر نہ ہو۔پھر بھی وہ ان سے ایسی باتیں سیکھ لیتے ہیں جن کی وجہ سے وہ خاوند بیوی کے درمیان جدائی کرادیں حالانکہ وہ اللہ کےحکم کے بغیر کسی کا جادو سے کچھ نہیں بگاڑسکتے،اور وہ ایسی باتیں سیکھ لیتے ہیں جن میں فائدہ کچھ نہیں نقصان ہی نقصان ہے۔اور یہودیوں کو یہ معلوم ہے کہ جو کوئی(ایمان دے کر))جادو خریدے وہ آخرت میں بدنصیب ہے،اگر وہ سمجھتے ہوتے تو جس کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا،اس کابرابر بدلہ ہے"

2۔ قَالَ مُوسَىٰ أَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَكُمْ ۖ أَسِحْرٌ هَـٰذَا وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ (29)

"موسیٰ علیہ السلام   نے کہا:تم سچ بات کہو،جب وہ تمہارے پاس آئی(جادو کہتے ہو) بھلا یہ کوئی جادو ہے؟اور جادو گر تو کبھی کامیاب نہیں ہوتے"

3۔ فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَىٰ مَا جِئْتُم بِهِ السِّحْرُ ۖ إِنَّ اللَّـهَ سَيُبْطِلُهُ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿٨١﴾ وَيُحِقُّ اللَّـهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ(30)

"جب انہوں نے(اپنی لاٹھیاں اور رسیاں)ڈالیں تو موسیٰ علیہ السلام   نے کہا:یہ جو تم لے کر آئے ہو وہ تو جادو ہے،بے شک اللہ تعالیٰ اس کو باطل کردے گا،کیونکہ اللہ تعالیٰ شریر لوگوں کا کام بننے نہیں دیتا،اور اپنی باتوں سے اللہ حق کوحق کردکھائے گا اگرچہ نافرمان لوگو برا مانیں"

4۔ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ ﴿٦٧﴾ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَىٰ ﴿٦٨﴾ وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا ۖ إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ ۖ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ (31)

"موسیٰ علیہ السلام   اپنے دل ہی دل میں سہم گیا،ہم نے کہا مت ڈر،بے شک تو ہی غالب رہے گا،اور جو عصا  تیرے داہنے ہاتھ میں ہے ،اس کو(میدان میں) ڈال دے،انہوں نے جو ڈھونک رچایا ہے اسکو ہڑپ کرجائے گا،انہوں نے جو کچھ کیا ہے اس کی حقیقت کچھ نہیں جادو کا تماشا ہے اور جادو گر جہاں جائے کامیاب نہیں ہوتا"

5۔ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ (117)فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿118﴾ فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِينَ ﴿119﴾وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ ﴿120﴾ قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿121﴾ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ(32)

"اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام   کو وحی بھیجی توبھی اپنا عصا ڈال دے،سوعصاکاڈالنا تھاکہ اس ے ان کے سارے بنے بنائے کھیل کونگلنا شروع کیا،پس حق ظاہر ہوگیا۔اور انھوں نے جو کچھ بنایاتھا سب جاتا رہا،پس وہ لوگ اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوکرپھرے اور وہ جو جادوگر تھے سجدہ میں گر گئے،کہنے لگے:ہم ایمان لائے رب العالمین پر جو موسیٰ علیہ السلام   وہارون کا بھی رب ہے"

6۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿٢﴾ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿٣﴾ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿٤﴾ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿٥﴾(33)

"آپ کہہ دیجئے کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے،اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب اس کا سا اندھیرا پھیل جائے ،اور گرہ(لگا کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے بھی،اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب ہو حسد کرے"

اما قرطی رحمۃ اللہ علیہ ( وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ) کی  تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:(34)" وہ جادوگر عورتیں جو دھاگوں کی  گرہیں بنا کر ان  پر دم کرتی اور  پھونکتی ہیں"اور حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  اس کی تفسیر میں کہتے ہیں:"مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ،عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ ،حسن رحمۃ اللہ علیہ ،قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ،اورضحاک رحمۃ اللہ علیہ  نے النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ  سے جادوگر عورتیں مراد لی ہیں(35)

اور یہ بات ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ  طبری نے بھی کہی ہے،اور قاسمی  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ مفسرین نے اسی موقف کو اختیار کیا  ہے۔(36) جادو اور جادوگروں کے متعلق دیگر بہت سی آیات موجود ومشہور ہیں اوراسلام کی تھوڑی بہت معلومات رکھنے والا شخص بھی ان سے واقف ہے۔

حدیث نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے چند دلائل:۔

1۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کہتی ہیں کہ قبیلہ بنو زریق سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے( جسے لبید بن اعصم کہا جاتا  تھا)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر جادو کردیا،جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  متاثر ہوئے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاخیال ہوتاہے کہ آپ نے  فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں کیا ہوتا تھا،یہ معاملہ ایسے چلتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک دن(یا ایک رات) میرے پاس تھے اور بار بار اللہ سے دعا کررہے تھے،اس کے بعد مجھ سے فرمانے لگے:"اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرلی ہے،میرے پاس دو آدمی آئے تھے،جن میں سے ایک میرے سر اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا اور ایک نے دوسرے سے پوچھا:

اس شخص کو کیا ہوا ہے؟

اس پر جادو کیا گیا ہے!

کس نے کیا ہے؟

لبید بن اعصم نے۔۔۔۔

کس چیز میں کیا ہے؟

کنگھی ،بالوں اور کھجور کے خوشے کے غلاف میں،

جس چیز میں اس نے جادو کیا ہے ،وہ کہا ں ہے؟

بئر ذروان میں۔۔۔۔۔۔۔۔

چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ساتھ اس کنویں کو آئے(اسے نکالا اور پھر) واپس آگئے اور فرمانے لگے:

"اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  !اس کا پانی انتہائی سرخ رنگ کا ہوچکا تھا اور اس کی کھجوروں کے سر ایسے تھے جیسے شیطان کے سر ہوں"(یعنی وہ انتہائی بد شکل تھیں)۔

میں نے کہا:اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے جادو کنویں سے نکالانہیں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ نے مجھے آفیت دی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ لوگ کسی شر اور فتنہ میں مبتلا ہوجائیں۔"

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے نکالنے کا حکم دیا اور پھر اسے زمین میں دبادیا گیا۔(37)

شرح حدیث:۔

یہودیوں نے اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرے   لبید بن اعصم(جو ان میں سب سے بڑا جادو گر تھا) کے ساتھ یہ بات طے کرلی تھی کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر جادو کرے گا اور وہ اسے اس کے بدلے میں تین دینار دیں گے ،چنانچہ اس بدبخت نے یہ کام اس طرح کر ڈالا کہ ایک چھوٹی سی لڑکی کے ذریعے جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر میں آتی جاتی تھی ،آپ کے چند بال منگوالیے اور ان پر جادو کرکے انہیں بئیر ذروان میں رکھدیا۔

 اس حدیث کی مختلف روایات کو جمع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جادو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنی بیویوں سے قریب جانے سے روکنے کے لئے تھا،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو خیال ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی کسی بیوی سے جماع کرسکتے ہیں،پر جب قریب ہوتے تو نہ کر پاتے،بس اس کا آ پ صلی اللہ علیہ وسلم  پر یہی اثر تھا،اس کے علاوہ آپ کی عقل اور آپ کے تصرفات جادو کے اثر سے محفوظ تھے۔

اس جادو کی مدت میں علماءکے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔یعنی بعض نے چالیس اور دن اور  بعض نے  کوئی اور مدت بیان کی ہے۔ اللہ کو ہی معلوم ہے کہ اس کی مدت کتنی تھی۔پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ تعالیٰ سے بار بار دعا کی،اور اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعا قبول کرلی اور دو فرشتوں کو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف اتار دیا،جن کےدرمیان ایک مکالمہ ہوا(جوگزشتہ سطروں میں بیان کیاگیا ہے) اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوگیا کہ جادو کس نے کیا ہے اور کس چیز میں کیا ہے اور وہ اس وقت کہا ں ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر کیا گیا یہ جادو انتہائی شدید تھا،اور اس سے یہودیوں کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو قتل کرنا تھا،لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بچالیا اور اس کا اثر صرف اتنا ہوسکا جو ذکر کردیاگیا ہے۔

اعتراض اور اس کا جواب:۔

مازری رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں:مبتدعین نے اس حدیث کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق یہ حدیث منصب نبوت کی توہین اور اس میں شکوک وشبہات پیدا کردیتی ہے اور اسے درست ماننے سے شریعت پر اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آتا ہو کہ جبرئیل علیہ السلام   آئے حالانکہ وہ نہ آئے ہوں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف وحی کی گئی ہے حالانکہ وحی نہ کی گئی ہو!!

پھر کہتے ہیں کہ مبتدعین کا یہ کہنابالکل غلط ہے۔کیونکہ معجزات نبوت اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  تبلیغ وحی کے سلسلے میں معصوم اور سچے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عصمت جب معجزات جیسے قوی دلائل سے ثابت شدہ حقیقت ہے تو اس کے خلاف جو بات ہوگی وہ بے جا تصور کی جائے گی۔(38)

ابو الجکنی الیوسفی رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے:

"جہاں تک جادو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے متاثر ہونے کاتعلق ہے،تو اس سے منصب نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا،کیونکہ دنیا میں انبیاء علیہ السلام   پر بیماری آسکتی ہے جو آخرت میں ان کے درجات کی بلندی کاباعث بنتی ہے۔لہذا جادو کی بیماری کی وجہ سے اگر آپ کو خیال ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دنیاوی امور میں سے کوئی کام کرلیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے نہیں کیاہوتا تھا،اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اطلاع دے دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جادو کیا گیا ہے اور وہ فلاں جگہ پر ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے وہاں سے نکال کر دفن بھی کروادیا تھا اس سبب سے رسالت میں کوئی نقص نہیں آتا،کیونکہ یہ دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہی تھی،جس سے آ پ کی عقل متاثر نہیں ہوئی۔صرف اتنی بات تھی کہ آپ کا خیال ہوتا کہ شاید آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ا پنی کسی بیوی کے قریب گئے ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا نہیں کیاہوتا تھاسو اتنااثر بیماری کی حالت میں کسی بھی انسان پر ہوسکتاہے"۔۔۔پھر کہتے ہیں:

"اور حیرت اس شخص پر ہوتی ہے کہ جو جادو کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بیمار ہونے کو رسالت میں ایک عیب  تصور کرتا ہے حالانکہ قرآن مجید میں فرعون کےجادوگروں کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام   کاجوقصہ بیان کیا گیا ہے،اس میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام   کو بھی ان کے جادوکی وجہ سے یہ خیال ہونے لگا تھا کہ ان کے پھینکے ہوئے ڈنڈے دوڑ رہے ہیں۔۔۔لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ثابت قدم رکھا اور نہ ڈرنے کی تلقین کی"(39)

مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام   کے متعلق کسی نے یہ نہیں کہا کہ جادو گروں کے جادو کی وجہ سے انہیں جو خیال آرہا تھا۔ وہ ان کے منصب نبوت کے لئے عیب تھا(سوا گروہ عیب نہیں تھا تو جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ پیش آیا وہ بھی عیب نہیں ہوسکتا کیونکہ) اس طرح کی بیماری انبیاء علیہ السلام   پر آسکتی ہے جس سے ان کی ایمانی قوت میں اضافہ ہوتاہے،اللہ تعالیٰ انہیں ان کے دشمنوں پر فتح نصیب کرتاہے۔خلاف عادت معجزات عطا کرتا ہے۔جادوگروں اور کافروں کو ذلیل ورسوا کرتا ہے اور بہترین انجام متقی لوگوں کے لیے خاص کردیتاہے۔"(40)

2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"سات ہلاک کرنے والے کاموں سے بچ جاؤ"

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے کہا:اے اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ سات کام کون سے ہیں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"اللہ کے ساتھ شرک کرنا،جادو کرنا،کسی شخص کو بغیر حق کے قتل کرنا،سود کھانا،یتیم کا مال کھانا،جنگ کے دن  پیٹھ پھیر لینا اور پاک د امن ایمان والی اور بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا"(41)

اس حدیث میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جادو سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اسے ہلاک کردینے والے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے،اور یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جادو ا یک حقیقت ہے ،محض خام خیالی نہیں۔

3۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"جس نے ستاروں کا علم سیکھا گویا اس نے جادو کا ایک حصہ سیکھ لیا،پھر وہ ستاروں کے علم میں جتنا آگے جائے گا،اتنا اس کے جادو کے علم میں اضافہ ہوگا"(42)

اس حدیث میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جادو سیکھنے کا ایک راستہ بتایا ہے تاکہ مسلمان اس راستے سے بچ سکیں،اور یہ  اس بات کی دلیل ہے کہ جادو ایک حقیقی علم ہے جسے باقاعدہ طور پر حاصل کیا جاتا ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی معلوم ہوتی ہے :

فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ

"پھر وہ ان د ونوں سے اس چیز کا علم حاصل کرتے ہیں جس سے وہ خاوند بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے ہیں"

مذکورہ حدیث اورآیت دونوں جادو کاعلم حاصل کرنے کی مذمت کے ضمن میں آئی ہیں،جس سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جادو دوسرے علوم  کی طرح ایک علم ہے اور اس کےچند اصول ہیں جن  پراس کی بنیاد ہے۔

4۔عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے فال نکالی یا اس کے لئے فال نکالی گئی،اور جس نے غیب کو جاننے کادعویٰ کیا یا وہ غیب کو جاننے کادعویٰ کرنے والے کے پاس گیا اور جس نے جادو کیا یاس اس کے لئے جادو کیا گیا اور جو شخص نجومی کے پاس آیا اور وہ جو کچھ کہتاہے اس نے اس کی تصدیق کردی تو اس نے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی شریعت سے کفر کیا"(43)

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جادو سے اور جادو گر کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کسی ایسی چیز سے ہی منع کرتا ہے جو حقیقتاً موجود ہو۔

5۔ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"جنت میں داخل نہیں ہوگا:شراب پینے والا،جادو پر یقین رکھنے والا،قطع رحمی کرنے والا"(44)

اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ عقیدہ رکھنے سے منع فرمایا ہے کہ جادو بذات خود اثر انداز ہوتا ہے،سوہر مومن پر یہ عقیدہ رکھنا لازم ہے کہ جادو یا کوئی اور چیز سوائے اللہ کی مرضی کے کچھ نہیں کرسکتی۔فرمان الٰہی ہے:

وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ

"اور وہ(جادوگر) کسی کو جادو کے ذریعے نقصان نہیں پہنچا سکتے ،سوائے اس کے کہ اللہ کا حکم ہو"

6۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ جو شخص علم غیب کادعویٰ کرنے والے کے پاس یاجادو گر کے پاس یا نجوی کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھا اور پھر اس نے جو کچھ کہا اس نے اس کی تصدیق کردی،تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر اتارے گئے دین سے کفر کیا"(48)

علماء کے اقوال:۔

1۔امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں:

"کچھ لوگوں نے جادو کا انکار کیاہے اور اس کی حقیقت کو باطل قراردیا ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ جادو ثابت اور حقیقتاً موجود ہے،اسکے ثبوت پرعرب،فارس،ہند اور کچھ روم کی اکثر قوموں کااتفاق ہے۔اور یہی قومیں صفحہ ہستی پر بسنے والے لوگوں میں افضل ہیں اور انہیں میں علم وحکمت زیادہ ہے اور فرمان الٰہی ہے(يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ) "وہ لوگوں کو جادوسکھاتے ہیں"

اور اس سے پناہ طلب کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے:

 "وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَد"

اور جادو کے بارے میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث ثابت ہیں جن کا انکار وہی شخص کرسکتا ہے جو دیکھی ہوئی چیزوں اور بدیہی باتوں کو نہ مانتا ہو۔۔۔ سو جادو کی نفی کرنا جہالت اور نفی کرنے والے پر  تردید کرنا بے ہودگی اور فضول کام ہے۔(46)

2۔امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے:

"اہل السنہ کا مذہب یہ ہے کہ جادو ثابت اور فی الواقع موجودہے ،جبکہ معتزلہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگردوں میں سے ابو اسحاق الاسترابادی کا مذہب یہ ہے کہ جادو حقیقتاً موجود  نہیں ہے اور یہ محض ایک ملمع سازی،حقیقت پر پردہ پوشی اور وہم  وگمان ہے اور شعبدہ بازی کی قسموں میں سے ایک ہے،اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے متعلق یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ:

"يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ" 

یعنی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام   کو ایسے خیال آیا کہ جادو گروں کے پھینکے ہوئے ڈنڈے دوڑ رہے ہیں اور یوں نہیں فرمایا کہ وہ فی الواقع دوڑ رہے تھے،اور اسی طرح سے فرمایا(سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ) یعنی انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر  جادو کردیا۔

پھر امام قرطبی کہتے ہیں:۔

"ان آیات میں معتزلہ وغیرہ کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ ہمیں اس بات سے انکار نہیں کہ خود تخیل یعنی کسی کو وہم گمان میں مبتلا کردینا بھی جادو کا ایک حصہ ہے۔اور اس کے علاوہ دیگر عقلی ونقلی دلائل سے بھی جادو کا فی الواقع موجود ہونا ثابت ہے ،ان میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔آیت(وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ) میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ جادو کا علم سکھاتے تھے ،چنانچہ علم جادو حقیقت میں موجود نہ ہوتا تو اس کی تعلیم ممکن نہ ہوتی،اور نہ ہی اللہ تعالیٰ اس بات کی خبر دیتے کہ وہ لوگوں کو جادو سکھاتےتھے۔

2۔فرعون کے بلائے جادوگروں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ یعنی وہ عظیم جادو لے کرآئے۔

3۔سورہ فلق کے سبب نزول پر مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ لبید بن اعصم کے جادو کی وجہ سے نازل ہوئی۔

4۔صحیحین(بخاری ومسلم) میں  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ یہودیوں کے قبیلے بنو زریق سے تعلق رکھنے والے لبید بن اعصم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جادو کردیا تھا۔۔۔اور اس میں یہ بات بھی موجود ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر کئے گئے جادو کااثر ختم ہواتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا: انالله شفاني اور شفا اسی وقت ہوتی ہے جب بیماری ختم ہوجائے۔سو اس سے ثابت ہوا کہ واقعتاً جادو کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر ہواتھا۔۔۔مذکورہ آیات واحادیث جادوکے فی الواقع موجود ہونے کی یقینی اور قطعی دلیلیں ہیں اوراسی پر ان علماء کا اتفاق ہے جن کے اتفاق کو اجماع کہتے ہیں رہے معتزلہ وغیرہ تو ان کی مخالفت ناقابل اعتبار ہے۔"

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  مزیدکہتے ہیں:

"جادو کاعلم مختلف زمانوں میں منتشر رہاہے اور لوگ اس کے بارے میں گفتگو کرتے رہے  ہیں،سو یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے اور صحابہ وتابعین کرام میں سے کسی ایک سے اس کا انکار ثابت نہیں"(تفسیر قرطبی:2/46)

3۔امام مازری رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے:

"جادو ثابت اور فی الواقع موجود ہے،اور جس پر جادو کیا جاتا ہے اس پر اس کا اثر ہوتا ہے،اور کچھ لوگوں کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ جادو حقیقتاً موجود نہیں ہے اور محض وہم وگمان ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمایاہے کہ جادو ان چیزوں میں سے ہے جن کا علم باقاعدہ طور پر سیکھا جاتا ہے اور یہ کہ جادو کی وجہ سے جادوگر کافر ہوجاتاہےاور یہ کہ جادو کرکے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالی جاسکتی ہے۔چنانچہ ساری باتیں کسی ایسی چیز کےمتعلق ہی ہوسکتی ہیں جو فی الواقع موجود ہو،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جادو والی حدیث میں ذکر کیا گیاہے کہ چند چیزوں کو دفن کیاگیا تھا اور پھر انھیں نکال دیاگیا،تو کیا یہ سب کچھ جادو کی حقیقت کی دلیل نہیں ہے؟اور یہ بات عقلاً بعید نہیں ہے۔ کہ باطل سے مزین کئے ہوئے کلام کو بولتے وقت یا چند چیزوں کو آپس میں ملاتے وقت یا کچھ طاقتوں کو اکھٹا کرتے وقت جس کا طریقہ کار جادو گر کو ہی معلوم ہوتاہے اللہ تعالیٰ کسی خلاف عادت کام کو واقع کردے۔

اور یہ بات تو ہر شخص کے مشاہدے میں موجود ہے کہ کچھ چیزیں انسان کی موت  کا سبب بن جاتی ہیں،مثلاً زہر وغیرہ اور کچھ چیزیں انسان کو بیمار کر دیتی ہیں،مثلاً گرم دوائیاں ،اور کچھ چیزیں انسان کو تندرست بنادیتی ہیں مثلا وہ دوائیاں جو بیماری کے الٹ ہوتی ہیں سو اس طرح کا مشاہدہ کرنے والا آدمی اس بات کو بھی عقلا بعید نہیں سمجھتا کہ جادوگر کو چندایسی چیزوں کا علم ہو جو موت کا سبب بنتی ہوں یا اسے ایسا کلام معلوم ہوجو تباہ کن ثابت ہو یامیاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتا ہو(47)

4۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں:

"اورصحیح یہ ہے کہ جادو حقیقتاً موجود ہے اور اسی موقف کو اکثروبیشتر علماء نے اختیار کیا ہے اور کتاب وسنت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے(48)

5۔امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"اور جادوفی الواقع موجود ہے اور اس کی کئی اقسام ہیں،وہ جو کہ ماردیتاہے ،اور وہ جو کہ بیمار کردیتا ہے،اور وہ جو کہ خاوند کو بیوی کےقریب جانے سے روک دیتاہے۔اور وہ جو کہ میاں بیوی کے د رمیان جدائی ڈال دیتا ہے اور یہ بات تو لوگوں کے ہاں بہت مشہور ہے کہ جادو کی وجہ سے شوہر اپنی بیوی سے جماع کرنے پر قادر نہیں ہوتا،پھر جب اس سے جادو کا اثر ختم ہوجاتاہے تو وہ جماع کرنے کے قابل ہوجاتاہے اور یہ بات تواتر کی حد تک پہنچ چکی ہے جس کا انکارکرنا ناممکن ہوتاہے۔اور اس سلسلے میں جادوگروں کے قصے اتنی کثرت سے موجود ہیں کہ ان سب کوجھوٹا قراردینا ناممکن ہے(49)۔۔۔مزید کہتے ہیں:

"جادو جھاڑ پھونک اور گرہیں لگانے کا نام ہے ،جس سے دل وجان پر اثر ہوتا ہے ،بیماری کی شکل میں،یا موت کی شکل میں،یامیاں بیوی کے درمیان جدائی کی شکل میں فرمان الٰہی ہے:

"فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ"

"وہ لوگ ان دونوں فرشتوں سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے والا علم سیکھنے لگے"

اور فرمایا:( وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ) یعنی وہ جادو گر عورتیں جو اپنے جادو پر گرہیں لگاتی اور ان پر پھونک مارتی ہیں،ان سے تیری پناہ مانگتا ہوں،سو جادو کی اگر کچھ حقیقت نہ ہوتی تو اس سے  پناہ طلب کرنے کا حکم نہ دیا جاتا"(50)

6۔علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"فرمان الٰہی( وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ) اور حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اس بات کے دلائل ہیں کہ جادو اثرانداز ہوتا ہے اور واقعتاً موجود ہے"(51)

7۔امام ابن ابی العز حنفی رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:

"علماء نے حقیقت جادو اور اس کی اقسام میں اختلاف کیاہے ،ان میں سے اکثریہ کہتے ہیں کہ جادو کبھی  جادو کئے گئے آدمی کی موت کا سبب بنتا ہے اور کبھی اس کی بیماری کا"(52)

جادو کی اقسام

(حصہ سوم)

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک جادو کی اقسام:۔

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ جادو کی آٹھ قسمیں ہیں ۔

1۔ان لوگوں کا جادو جو سات ستاروں کی پوجاکرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہی ستارے کائنات کے امور کی تدبیرکرتے ہیں اور خیر وشر کے مالک ہیں اور یہ وہ لوگ تھے جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام   کو نبی بنا کر بھیجا ۔

2۔اصحاب اوہام اور نفوس قویہ کا جادو : امام رازی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس بات کی دلیل کہ وہم کی تاثیر ہوتی ہے۔ یہ پیش کی ہے کہ ایک درخت کا تنا جب زمین پر پڑاہوتو انسان اس پر چل سکتا ہے لیکن اگر اسی تنے کو کسی نہر پر پل بنا کر گاڑ دیا جا ئے تو وہ اس پر نہیں چل سکتا اسی طرح ڈاکٹروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص کے ناک سے خون بہہ رہا ہو وہ سرخ رنگ کی چیزوں کی طرف نہ دیکھے اور جس شخص کو مرگی کا دورہ پڑ گیا ہو وہ چمکیلی اور گھومنے والی چیزوں کی طرف نہ دیکھے اور یہ سب تصورات صرف اس لیے اختیار کئے گئے ہیں کہ انسانی نفس فطری طور پر ان وہموں کو قبول کر لیتا ہے۔

3۔جادو کی تیسری قسم یہ ہے کہ گھٹیا ارواح یعنی شیطان قسم کے جنوں سے مدد حاصل کر کے جادو کا عمل کرنا اور جنات کو قابو میں لا نا چند آسان کاموں کی مددممکن ہے بشرطیکہ  ان میں کفرو شرک پایا جاتا ہو۔

4۔شعبدہ بازی اور چند کام برق رفتاری سے کر کے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کرنا چنانچہ ایک ماہرشعبدہ باز ایک عمل کر کے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کردیتا ہے اور جب لوگ مکمل طور پر اپنی نظریں اس عمل پر ٹکائے ہوئے ہوتے ہیں اچانک اور انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ وہ ایک اور عمل کرتا ہے جس کی لوگوں کو ہر گز توقع نہیں ہوتی سووہ حیران رہ جاتے ہیں اور لوگوں کی ایسی حیرانی میں وہ اپنا کام کرجاتا ہے۔

5۔وہ عجیب و غریب چیزیں جو بعض آلات کی فٹنگ سے سامنے آتی ہیں مثلاً وہ بگل جو ایک گھوڑا سوار کے ہاتھ میں ہو تا ہے اور وقفے وقفےسے خود بخود بجتا رہتا ہے رہتا ہےاور اسی طرح ٹائم پیس وغیرہ ہیں جو وقت مقررہ پر خود بخود بجنے لگ جاتے ہیں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں کہ اس کو درحقیقت جادو میں شمار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کا ایک خاص طریقہ کار ہوتا ہے اور جو بھی اسے معلوم کرلیتا ہے اس کے بعد وہ ایسی چیزوں کو ایجاد کرسکتا ہے اور ہمرا خیال بھی یہی ہے کہ سائنسی ترقی کے بعد اس زمانے میں تویہ چیزیں عام ہوگئی ہیں لہٰذا اسے جادو کا حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

6۔بعض دوائیوں کے خواص سے مدد لیکر عجیب و غریب بیماریوں کے علاج دریافت کرنا۔

7۔دل کی کمزوری اور یہ اس وقت ہوتی ہے جب کوئی جادو گر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے"اسم اعظم"معلوم ہے اور جنات اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کی ہر بات پر عمل کرتے ہیں اس کایہ دعویٰ جب کمزور دل والاانسان سنتا ہے تو اسے درست تسلیم کرلیتا ہے اور خواہ مخواہ اس سے ڈرنے لگ جاتا ہے اسی حالت میں جادو گر جو چاہتا ہے اسے کر گزرنے کی پوزیشن میں آجاتا ہے۔

8۔چغل خوری کر کے لوگوں میں نفرت کے جذبات بھڑکا دینا اور ان میں سے کچھ کو اپنے قریب کر لینا اور ان سے اپنے مطلب کاکام نکالنا۔۔۔

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  ان آٹھ اقسام کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں ۔

"ان اقسام میں سے بہت ساری قسموں کو امام رازی رحمۃ اللہ علیہ  نے فن جادو میں اس لیے شامل کر دیا ہے کہ ان کو سمجھنے کے لیے انتہائی باریک بین عقل درکار ہوتی ہے اور سحر عربی زبان میں ہرایسی چیز کو کہا جاتا ہے جو باریک ہوا اور اس کاسبب مخفی ہو۔(53)

امام راغب رحمۃ اللہ علیہ   کے نزدیک اقسام جادو :۔

 امام راغب رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں : "سحر کا اطلاق کئی معنوں پر ہوتا ہے۔

1۔جولطیف اور انتہائی باریک ہو اور لطافت اور باریکی کی وجہ سے اس میں دھوکہ وہی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔

2۔جوبے حقیقت تو ہمات سے واقع ہو۔

3۔جو شیطانوں کی مدد معاونت سے حاصل ہو۔

4۔جوستاروں کو مخاطب کرنے سےہو۔(54)

اقسام جادو کے متعلق ایک وضاحت:۔

امام رازی اور راغب کی تقسیمات جادو میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے فن جادو میں وہ چیزیں داخل کردی ہیں جن کا جادو سے کو ئی تعلق نہیں ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے لفظ سحرکے عربی زبان میں معنی کو سامنے رکھا ہے اور "سحر"عربی ہر اس چیز پر بولتے ہیں جو لطیف ہو اور اس کا سب مخفی ہو۔چنانچہ انھوں نے نئی نئی ایجادات اور ہاتھ کی صفائی سے بر آمد ہونے والے امور کو بھی جادو میں شامل کر دیا ہے اور اسی طرح چغل خوری کرکے کام نکالنے کو بھی انھوں نے جادو قراردیاہے۔کیونکہ ان سب کے اسباب مخفی ہوتے ہیں اور ان سب چیزوں کا ہماری بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے ہماری گفتگو کا دارومدار صرف حقیقی جادو پر ہے جس میں جادو گر جنات اور شیاطین کا سہارا لیتا ہے ۔

پھر ایک حقیقت کا بیان بھی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ رازی رحمۃ اللہ علیہ  اور راغب رحمۃ اللہ علیہ  نے ستاروں کے ذریعے جادو کا عمل کرنے کا ذکر کیا ہے جبکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ستارےاللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں اور اللہ ہی کے احکامات کے پابند ہیں اور نہ ان کی کوئی روحانیت ہے اور نہ تاثیر ہے۔

اگر کوئی شخص یہ کہےکہ کئی جادو گرستاروں کے نام لے کر ان سے مخاطب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس کے بعد ان کا جادو مکمل ہوتا ہے ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چیز جادو کی تاثیر کی وجہ سے نہیں شیطانوں کی تاثیر کی وجہ سے ہو تی ہے کیونکہ خود شیطانوں نے جادو گروں کو یہ تعلیمات دے رکھی ہوتی ہیں کہ وہ ستاروں کو پکارا کریں چنانچہ وہ جب ایسا کرتے ہیں تو خودشیطان جادوکے سلسلے میں ان سے تعاون کرتے ہیں لیکن اس کا پتہ جادو گروں کو نہیں لگنے دیتے۔ جیسا کہ کافر پتھر سے بنے ہوئے بتوں کو جب پکارتے تھے تو شیطان بتوں کے اندر سے ان کو جواب دیتے تھے اور کافروں کو یقین ہو جاتا تھا کہ یہی بت ان کے معبود ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا نہ تھا یہ تو صرف شیطانوں کی طرف سے ان کافروں کو گمراہ کرنے کا ایک طریقہ تھا۔(جاری ہے)

حوالاجات:۔

(1)بخاری 2276۔مسلم 2201ترمذی 2063ابن ماجہ 2156۔

(2)تہذیب اللغۃج4ص290۔

(3)لسان العربج4ص348۔

(4)ایضاً

(5)مقاییس اللغۃص507اورالمصباح ص267۔

(6)المعجم الوسیط ج1ص419۔

(7)محیط المحیط ص399۔

(8)المصباح المیزص268۔

(9)المغنی ج10ص104۔

(10)زادالمعادج4ص126۔

(11)سورہ طہٰ 134۔

(12۔سورۃالاحقاف 29۔

(13)سورۃ الانعام 130۔

(14)سورۃ الجن1۔

(15)سورۃ الجن6)

(16)سورۃ المائدۃ 91۔

(17)سورۃ النور21۔

(18)مسلم ج4 ص170نووی ۔

(19)مالک ج1 ص68بخاری ج6ص343مع فتح النسائی ج2ص12ماجہ ج1 239۔

(20)بخاری ج2 ص253 مع فتح مسلم ج4ص ا68مع نووی ۔

(21)احمد ج2ص 153،مسلم ج18ص123مع نووی۔

(22)بخاری ج4 ص282مسلم ج14ص155۔

(23)مسلم ج 13ص191۔

(24)بخاری ج8ص212مسلم ک15ص120۔

(25)بخاری ج3ص28مسلم ج6ص64۔

(26)بخاری ج12۔ص 283مسلم ج15ص16۔

27مسلم ج18ص122دارمی ج1 ص321۔

(28)سورۃ البقرۃ 102۔

(29)سورۃ الفلق ۔

(30)سورۃیونس :81،82۔

(31)سورۃ طہٰ67تا69۔

(32)سورۃ الاعراف 117تا122۔

(33)سورۃ الفلق۔

(34)تفسیرقرطبی ج20ص257۔

(35)تفسیر ابن کثیرج4ص573۔

(36)تفسیر قاسمی ج10ص302۔

(37)بخاریج10ص222مسلمج14ص174 کتاب السلام باب السحر۔

(38)زاد المسلم ج4ص221۔

(39)سورۃ طہٰ کی آیات 66تا69۔

(40)زاد المسلم ج4ص22۔

(41)بخاری ج5ص393مسلم ج2 ص83۔

(42)ابوداود 3905ابن ماجہ 3726۔الصحیحہ للالبانی 793 صحیح سنن ابن ماجہ 3002۔

(43ہیثمی نے المجمع (ج5ص20)میں کہا کے کہ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح بخاری کے رجال میں سے ہیں سوائے اسحق بن ربیع کے جو ثقہ ہے اور منذری الترغیب (ج4ص52) میں کہتے ہیں اس حدیث کی سند اچھی ہے اور شیخ البانی تخریج الحلال والحرام (289)میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن لغیر ہ کے درجہ تک پہنچتی ہے۔

(44)ابن حبان اور البانی تخریج الحلال والحرام (291) میں کہتے ہیں یہ حدیث حسن کے درجے کو پہنچتی ہے ۔

(45)حافظ منذری رحمۃ اللہ علیہ  الترغیب (ج4ص53)میں کہتے ہیں اس حدیث کو بزار اور ابو یعلی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اچھی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

(46)شرح السنہ ج12ص188۔

(47)زادالمسلم ص225ج4۔

(48)فتح الباری ص222ج10۔

(49)المغنی ج10ص102۔

(50)فتح المجید ص314۔

(51)بدائع الفوائد ج2ص227۔

(52)شرح عقیدہ طحاویہ ص505۔

(53)تفسیر ابن کثیر ج1 ص 147۔

(54)المفردات ازامام راغب سحر۔