پاکستان طبی کانفرنس کا تحقیقی اجلاس مورخہ 80؍2؍15 جو جہاں نما گلبرگ لاہور مین منعقد ہوا جس میں دو سائنسدان دو ڈاکٹر اور تین حکیموں نے ''ہائی بلڈ پریشر''کے موضوع پرمقالے پڑھے۔ زیر نظر مقالہ اسی اجلاس میں ڈاکٹر ظہیر احمد ڈائریکٹر نیشنل ہیلتھ اسلام آباد کی صدارت میں پڑھا گیا۔
(ادارہ)
صاحب صدر!
حضرات و خواتین!! السلام علیکم !
اسے ضنعط الدم یا بلڈ پریشر بھی کہتے ہیں۔ اس مرض کے متعلق میرے ساتھی معالج روشنی ڈالیں گے۔لہٰذا میں مناسب نہیں سمجھتا کہ اس کی تفصیلات کو موضوع بحث بناؤں۔ نیز اس مرض سے آپ بخوبی واقف ہیں کیونکہ آپ میں سے اکثر بحیثیت معالج زندگی بسر کررہے ہیں۔اس لیے علامات، اسباب او رعلاج کی تفصیلات بتانےکی ضرورت نہیں۔ مگر بطور تمہید یہ عرض کردوں کہ اس مرض کے لیے موٹے موٹے اسباب تقریباً تین بنتے ہیں۔
1۔ فساد کون یعنی (خون کاغیر ہوجانا خصوصاً گاڑھا یا غلیظ)
2۔ قصلب شرائیں یعنی شریانوں کا سخت ہونا
3۔ تضییق شرائیں
متذکرہ بالا اسباب کسی طرح پیدا ہوجائیں یہ تو مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آج کی مجلس میں ان اسباب کے پیش نظر دور حاضر کی مشہور دوا ''اسرول'' یا چھوٹی چندن کے بارے میں کچھ عرض کروں۔
سامعین کرام! اس دوا کومختلف ممالک میں اور مختلف زبانوں میں کئی نام سے پکارا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اردو میں اسرول، ہندی میں چھوٹی چندن یہ دو نام زیادہ مشہور ہیں۔چھوٹا چاند یا چھوٹی چندر، چندردا، بنگالی میں چھوٹا چاندو، بڑوچاند، بڑو و چاندا، چندرا،تامل میں چون کودتا، مالبری تلگو میں بٹالہ گندی، مرہٹی، پرکائی، سنسکرت میں صرف گندا، ناگ منی، چندری گڑ، انگریزی میں راؤلو فاسر پنٹیا۔ لاطینی میں ارضی ایکسیلین، سرینڈا نیم۔ ڈیرا دون کے جنگلوں میں پاگل بوٹی اور مختلف ممالک میں جہاں یہ پیدا ہوتی ہے ۔ مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔
تاریخ قدیم میں 1921ء تک طب کی کسی مفردات ،مرکبات اور قرا بادینی نسخوں میں یا معالجات کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ 1932ء تک طب جدید کی معالجاتی کتابوں اور فارمیسی کی کتابوں میں اس کے متعلق کوئی اشارہ تک نہیں۔
ذرائع دریافت
اس دوا تک ہماری رسائی دو مختلف ذرائع سے ہوتی ہے۔ یہ دوا جن علاقوں میں پیدا وہتی ہے ۔ مقامی لوگ اس کے افعال سے عمومی طور پر واقف تھے۔ 1920ء کے قریب صوبہ بہار ہندوستان کے مشہور بیرسٹر سید حسن امام مرحوم کی اہلیہ شدید جنون کی کیفیت میں مبتلا ہوئی۔ باوجود جدید و قدیم علاج کے مرض میں کمی کے کوئی آثار ظاہر نہیں ہوتے تھے۔ حالات مایوسی تک پہنچ چکے تھے۔ آخر ایک مقامی سیاح کے مشورے سے اس دوائی کےاستعمال سے مریضہ صحت یاب ہوئیں۔اس واقعہ کا علم مرحوم ڈاکٹر حبیب الرحمٰن کو ہوا جنہوں نے اس کو مریضہ کے لواحقین کے توسط سے حاصل کیا اور اس کا تعارف خاندان شریعی دہلوی (اجمل خان کا خاندان) میں کروایا۔
محمد عمر عربی جن کو سیاحت کا بے حد شوق تھا او روہ مندروں، خانقاہوں میں جاکر تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ڈیرا دون کے علاقے میںشدید دردسر میں مبتلا ہوئے۔ ایک مقامی دوست نے ایک بوٹی بمع جڑوں او رپتوں کے مہیا کی اور گھوٹ کر استعمال کرنے کی ہدایت کی۔ اس کے استعمال کے چند لمحوں بعد عربی نے درد شدید سے نجات حاصل کی او ربخاری میں کمی ہوئی (درد سر دباؤ خون ہی کا نتیجہ تھا کیونکہ اس میں نبض سری اور عظیم بھی تھی) اور چند ہی لمحوں بعد جہاں درد تھا اور مریض بے چین تھا میٹھی نیند سوگیا اور مرض سے نجات حاصل ہوئی۔
میرے والد مرحوم حکیم محمد اسماعیل صاحب جگرانوی کے ان کے ساتھ دوستانہ اور صوفیانہ تعلقات تھے۔ اس واقعہ کا ذکر انہوں نے 1919ء میں کیا تھا۔ سیاحت اور تحقیق کے شوق میں 1919ء میں ایک سال تک یعنی 1920ء کے قریب محمد عمر نامی کے ہم سفر ہوئے۔اسی دوران اس دوائی کے متعلق ذکر ہوا او رمحمد عمر نامی نے اپنے میزبان ساتھی کے لیے اس دوائی کی وافر مقدار مہیا کردی (دیہاتی لوگ اس دوائی کو اس وقت صرف درد کی نجات دہندہ قرار دیتے تھے جس طرح اور بھی خود رو بوٹیاں مثلا بھنگ، پوست اور نشہ آور ادویات کو عام لوگ جانتے ہیں اس کے معجزاتی فوائد سے قطعاً ناواقف تھے۔ دیگر اعتبار سے اس کو بیکار محض جانا جاتا تھا) والد مرحوم نے اس دوائی کو کوی اور امراض میں بطور تجربہ استعمال کیا جس سے اس دوائی میں مزید کشش پیدا ہوتی گئی۔ 1925ء کے قریب شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی نظامی (جگرانواں والے) کے ایک سوال کے جواب میں والد مرحوم نے امراض کی بحث کے دوران اس دوائی کا ذکر کیا۔ شفاء الملک مرحوم کے سامنے اس کے تجربہ شدہ فوائد بعیر کسی کم و کاست کے بیان کیے او ریہ بوٹی نمونہ کے طور پر انہیں دی۔ حکیم صاحب مرحوم بہت خوش ہوئے ۔ حکیم صاحب مرحوم کے میرے والد اور دادا کے بہت ہی طبی خاندانی تعلقات تھے اس کا ذکر حکیم صاحب نے خاندان دہلی سے بھی کیا۔خاندان دہلی نے اس دوائی کو بطور تجربہ معجون میں استعمال کیا اور شفا بخش ہونے کی وجہ سے اس کا نام ''دواء الشفاء'' اور قرصوں کی شکل میں ''قرص الشفاء'' تجویز کیا۔ تجربات کے مراحل طے کرتی ہوئی یہ دوائی کئی اور امراض میں جن کا تعلق عصبی نظاموں سے ہےمفید ثابت ہوئی۔مثلاً فشاردم قوی، صرع ، بےخوابی اختناق، جنون اور ذکاوت حس۔
جنون کی جملہ اقسام مثلاً داء الکلب، قطرب میں اکسیر ثابت ہوئی۔
جناب مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان مرحوم و مغفور نے والہانہ شوق اور محبت فن کی وجہ سے دیسی ادویات کی تحقیق کے لیے طبیہ کالج دہلی کے ساتھ ایک تحقیقی شعبہ بھی قائم کیا تھا۔
1931ء میں اس شعبے میں اس وقت کے نوجوان سائنسدان جناب سلیم الزمان صدیقی اور داکٹر رفعت حسین صدیقی نےباہمی تعاون سے بہت تحقیق و تجسس کے بعد 1931ء ۔ 1934ء تک ایک قلمی مرکب اسرول سے نکالا اس کا نام حکیم صاحب مرحوم کی نسبت پر اجملین رکھا گیا۔ اسی دوران اٹلی کے سن رسیدہ کیمیا دان آپسٹن نے راولفین کے نام سے ایک جوہر علیحدہ کیا۔ اجملین اور راولفین خاصیتوں میں یکساں ہیں۔
1952ء میں شیلیڈ جوکہ جرمن نژاد تھا، نے اس دوائی پر سوئٹرز لینڈ میں اسی کام کو آگے دہرایا اور اجملین مرکب نکالا۔یہ قلمی مرکبات ناکارہ ثابت ہوئے۔ ناامید ہوکر اس نے فضلے پر جو کہ ناکارہ سمجھا گیا تھا او رکارآمد جزو جس کی تلاش تھی یعنی ریسپرین کی مانند معمولی مقدار میں حاصل کی اور اس نے 9556ء میں ریسپرین۔ پھر 1956ء میں دو ڈوا لو نوبل انعام یافتہ کیمیا دان نے اس کی مدد کی او رکام کو آگے بڑھایا۔
دنیا کے مختلف ممالک میں اس پر اب بھی تجربات جاری و ساری ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کے مفید جوہر کو علیحدہ کیا جائے اور دوائی کی کم سے کم مقدار استعمال کرانی پڑے۔ جہاں تک ہماری رسائی ہے کیونکہ ہم لیبارٹری وغیرہ کی سہولتوں اور عملیات سے محروم ہیں او رہمارا تجربہ اور تحقیق صرف مریضوں تک ہی او راس کے افعال و خواص پر ہی مبنی ہیں۔ نئی دوائی ہونے کی وجہ سے اس کے افعال و خواص، مزاج مصلحات، بدرقات، مقدار خوراک، بدل، وقت،دوا پرہیز کا تعین تھا۔ کیونکہ قدیم ادویات کے ہمارے اطبائے کرام نے اپنی حارجانہ تجربے سے اکثر و بیشتر ادویات کے تمام مراحل طے کیے ہیں۔ شاید ہی کوئی جڑی بوٹی رہ گئی ہو کہ جس کے افعال و خواص سے حکمائے قدیم واقف نہ ہوں۔ ان کا یہ سارا تجربہ اور یہ تمام مراحل مرضوں اور مریضوں پر ہی استعمال کرکےطے ہوئے تھے۔
حضرات و خواتین!
اب میں اس دوائی کے وہ تمام مراحل جو ایک دوائی کے لیے جزو لازم ہوتے ہیں عرض کروں گا۔
1۔ افعال و خواص: جنون، صرع،اعصابی امراض جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کے لیے مفید ہیں (خون کی رقیق شریانوں کو کشارہ رکھنے اور لچک پیدا کرنے میں اکسیر ہے۔ اسی وجہ سے فشاردم قوی کی دنیا میں اس سے بہتر دوائی ابھی تک سامنے نہیں آئی۔
2۔ مزاج : سروتر۔ پہلے درجے میں سرد، دوسرے درجے میں تر۔
3۔ مصلحات : کڑاسک، مرچ سیاہ،گلاب،زعفران، الائچی خورد، صدف۔
4۔ بدرقات: عرق بادیان ، عرق گلاب، عرق گاؤزبان، عرق گذر، عرق مکو۔
5۔ مقدا رخوراک : مختلف امراض میں عمر کے تناسب سے مختلف مثلاً جنون میں ایک ماشے سےلے کر دو ماشے تک اعصابی امراض میں ایک سے چار رتی تک۔فشار دم قوی میں ایک رتی سے چھ رتی تک۔
6۔بدل: آج تک اس کا بدل باوجود کوشش کے حاصل نہیں ہوسکا۔
7۔ وقت دوا: صبح و شام ، رات
8۔ پرہیز : گھی، دودھ، مکھن، پھل، گوشت، روغنیات وغیرہ
9۔ خوراک : سبزیات جملہ (ابلی ہوئی) دالیں۔ نوٹ: (شکار کا گوشت استعمال کرسکتے ہیں)
مقام پیدائش: پاکستان ، ہندوستان او ربنگلہ دیش،ملائشیا، چائنا ، نیپال اٹلی، لتکا میں بکثرت پیدا ہوتی ہے او رمقامی طور پر پیدا کی جاسکتی ہے۔
حضرات و خواتین!
مختلف ممالک میں آب و ہوا او رموسمی اثرات کی وجہ سے مختلف اشکال میں اس کی جڑیں اور پودے ہوتے ہیں۔ بہترین دوائی ہندوتان کے علاقہ ڈیرہ دون سے لے کر نینی تال تک چار ہزار فٹ تک کی بلندی میں پیدا ہونے والی دوائی جو کہ اپنی عمر 19 مہینے پوری کرچکی ہو بہترین اثرات کی حامل ہے۔ بنگلہ دیش میں چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں سے ملنے والی یہ دوائی سلہٹ کے علاقے سے بہتر ہے۔
پاکستان: وادی کاغان میں پیدا ہونے والی دوائی بھی اپنے افعال و خواص میں کافی مفید ثابت ہوتی ہے۔
اگر ڈیرہ دون سے حاصل کردہ بیج سوات، ایبٹ آباد، اسلام اباد کے موسم میں کاشٹ کیا جائے تو بہترین فائدہ مند ہوتی ہے۔میں نے شوقیہ طور پر تجربہ کے لیے ڈیرہ دون کے بیج کو اپنے گھر میں کاشت کیا او راس دوائی میں موثر نتائج حاصل کیے۔
طریقہ کاشت: اسرول کے بیج ستمبر کے شروع میں کاشت کے لیےگملوں میں لگانا چاہیے ۔ جب پودے بڑھنے لگیں تو ان کو زمین کو اچھی طرح نرم کرکے کیاریوں کی شکل میں لائنوں میں تبدیل کردیں اور آلوؤں کی طرح پانی اس کی جڑوں تک پہنچے۔
موسم برسات او ربہار میں قلموں کے ذریعے بھی اس کو بڑھایا جاسکتا ہے ۔ موسم خزاں میں پھول او رپتے جھڑ جاتے ہیں جن کو اکٹھا کرلیں۔ یہ بہت کام کی چیز ہے۔ موسم بہار میں دوبارہ کونپلیں نکل آتی ہیں او رچھ ماہ تک پھول دیتے ہیں اس کے پھول نہایت خوبصورت او ردلکش ہیں۔ سرکاری بنگلوں او ربڑے سرکاری اداروں میں خوبصورتی کے لیے لگایا جاتا ہے۔ مثلاً گورنمنٹ ہاؤس لاہور میں بھی اس کی تین کیاریاں موجود ہیں مگر مالی اور مالک اس دوائی کے معجزاتی فوائد سے واقف نہیں( خوبصورتی اور تجربے کے طور پر میں نے اپنے گھروں میں اس کی کاشت کی)
استعمال : ویسے تو یہ دوا اپنی افادیت میں ثانی نہیں رکھتی او راس کا ہر جزو فوائد سے بھرپور ہے مگر ابھی تک ہم نے اس کو جڑ سے ہی استعما کرناشروع کیا ہے او ردنیا اس کے اسی حصے کے فوائد سے روشناس ہے۔میں آپ کو اس کے دوسرے اجزا کے فوائد سے آگاہ کروں گا۔ حتی الامکان میری یہ تمام کوششیں تجرباتی دنیا کی ہیں ۔ کیونکہ علم طب جامد نہیں۔ تجربات کی دنیا وسیع ہے۔ آپ حضرات بھی اس مشکل اور تجربات کی دنیا میں کام کررہے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ اس پر جاری و ساری رکھیں تاکہ اطباء کے سر سے عدم تحقیق کا جو الزام ہے پیہم چلا آرہا ہے ختم ہوجائے۔ اطبا ءکا نام جب بھی کسی مجلس میں لیا جائے تو فوراً یہ الزام عائد ہوجاتا ہے کہ اطباء کرام میں تحقیق نہیں ہورہی۔ حالانکہ اطباء قدیم نے لاکھوں ادویات پر تحقیق کی ہے اور جس کے اثرات آج بھی وہی ہیں جو پہلے تھے۔ آئیے ہم یہ عہد کریں کہ آئندہ سے ہم اس الزام کو اپنے سر نہیں آنے دیں گے او راپنی تحقیقات سے اپنے ساتھیوں اور کارفرماؤں کو آگاہ کرتے رہیں گے۔
تجارتی نقطہ نظر سے
ہمالیہ ڈرگ کمپنی ڈیرا دون نے 1942ء کے بعد اس کی جڑوں کو باریک پیس کراسمالین کے نام سے بلڈپریشر اور تسکین کے لیے بمع فوائد و نقائص قرصوں کی شکل مین مارکیٹ میں پیش کی= اس کے ساتھ ساتھ مختلف دوا ساز اداروں نے دواؤ شفا قرص شفا اور قرص فشار کے نام سےمنسوب کرکے شہرت دی۔
معالج حضرات ! اکثر آپ کا اس دوائی کے استعمال سے تعلق رہا ہے۔ آپ پر واضح ہوگیا ہوگا کہ جس طرح دیگر ادویات مصر اور مفید اثرات رکھتی ہیں اسی طرح اس دوا میں بھی مضر اور مفید اثرات دونوں موجود ہیں۔ مضر اثرات جن کی نشاندہی میں کررہا ہوں۔
ناک کا بند ہونا، رعشہ، قے شدید، بچوں میں بے ہوشی، آنکھوں میں سرخی، بھوک کا زیادہ بڑھ جانا وغیرہ۔
چونکہ یہ دوائی ایک نئی دریافت تھی اس لیے قدیم اطباء نے جس طرح قدیم دوائیوں کے مضر اثرات کو دور کرنے کے لیے مصلح دریافت کیے تھے یہ دوائی مصلحات سے ابھی تک محروم ہے۔ چند سال بعد ہمالیہ ڈرگ کمپنی نے اس دوا کو اور نام دے کر سرپاسل اور سرپینا سے پیش کیا۔ مگر ناموں کی تبدیلیوں سے خصلتیں تبدیل نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر پنجاب میں چراغ دین،علم دین، معراج دین ان اشخاص کے نام ہوتے ہیں جن کو دین سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا (پنجا ب میں چند مثالیں مشہور ہیں۔ جیسے ''اکھوں انی تے نام چراغ بی بی'')
اسمالین کی طرح ان دونوں ادویات میں وہی مضر اثرا ت موجود ہیں بلکہ میں تویہی کہوں گا کہ ان کوقرصوں کی شکل میں لانے کے لیے جو اضافی مرکبات شامل کیے گئے ہیں۔ اس نے اس کے فائدے کو کم کردیا او رمضر اثرات میں اضافہ کیا۔ بے شک یہ دوائی ایک معجزاتی کیفیت رکھتی ہے۔ اس لیے اس کے مصلحات تلاش کرنےکا طریقہ کار تلاش کیا گیا۔
طریقہ کار ۔سادہ
اس دوائی کے تمام ممکنہ اقسام جو حاصل ہوسکتے تھے حاصل کیے۔ اب سب کے سفوف بنا کرمریضوں کو استعمال کروائے۔ ان کے حالات و علامات کو زیر نظر رکھا۔ تقریباً تین سال کے عرصہ کی محنت کے بعد یہ تجربہ حاصل ہوا کہ کس خطے او رکس عمر کی دوائی زیادہ زود اثر ہے اور مضر کم ۔ اس کے بعد دوسرا کام مصلحات کی تلاش پھر اس کے ایک ایک مضر اثرات پر کام شرو ع کیا اور تقریباً دس سال کی محنت شاقہ کے بعد اس قابل ہوسکا کہ چند ایک ادویات ملا کر ایک ایسا شافی مرکب تیار ہوا۔اس مرکب کا جزو اعظم اسرول ہی ہے جو نہایت مفید او رکارامد شافی مرکب کہا جاسکتا ہے۔ جس کے میں کسی زمانے میں خواب دیکھا کرتا تھا (زیادہ تر رہنمائی مولانا ابوالخیر مودودی مرحوم او راپنے والد مرحوم حکیم محمد اسماعیل صاحب کے تجربے سے ہوئی) میں نے اس مرکب کو ہزاروں مریضوں پر ریکارڈ رکھ کر استعمال کیا جس سے اس کی تصدیق ہوئی او راب میں مطمئن ہوں۔
سامعین کرام!
کامیابی کے مرحلے سے گزرنے کے لیے مجھے بہت سی ناکاموں اور مایوسیوں سے واسطہ پڑا او ررقم کثیر بھی خرچ کی ۔ بس یہ سمجھ لیں کہ اس ک وحاصل کرنے کے لیے جنونی کیفیت سے گزرا ہوں۔ ایک جالینوس کے قول نے میری رہنمائی میں سنگ میل کا کام دیا۔
نبض کی بحث میں اس نے ذکر کیا ہے کہ میں نے نبض کو محسوس کرنے کے لیے شہر کے دروازے پر ڈیرا لگایا اورہر آنے والے کی نبض دیکھتا اور حرکات و سکون سمجھتا یہاں تک کہ نبض دیکھ کر صاحب نبض کے خاندان تک کے حالات اور اسرار و رموز کا واقف ہوگیا تھا۔ چنانچہ ایسی جنونی کیفیت نے اس دوا کے باقی اجزا کے متعلق بھی راہیں کھول دیں جو مختصر طور پر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
اس دوا کےپانچ اجزا ہیں:
1۔ جڑ ۔ جس کا تفصیلی ذکر ہوچکا ہے۔
2۔ شاخیں۔ جو شاندے کے طور پر دردگردہ، درد مرارہ اور درد معدہ کے لیے اکسیر ہے۔
3۔ پتے۔ اس کا سفوف درد شقیقہ، درد عصابہ، صداع بیضہ کے لیے مفید ہے۔
4۔ پھول۔ ام الصبیان او رقلبی امراض میں اکسیر ہے۔
5۔ بیج۔ تخم عُقر کے لیے کارآمد ہے اگر مزید تحقیق کی جائے تو بہت سی امراض کے لیے شافی ثابت ہوں گے۔
میرا تجربہ شاہ دہے کہ اس کے پھول تازہ یا خشک چار رتی ہفتے میں ایک دفعہ اگر تندرست آدمی استعمال کرے تو قلبی اور دماغی امراض سے محفوظ رہتا ہے۔ میں آپ حضرات کو ایک خاص مرضی علامات کی طرف توجہ مبذول کروا رہا ہوں۔ آپ حضرات کو نبص ذوالفقرہ کا علم ہوگا اور اکثر حضرات جب یہ نبض محسوس کرتے ہیں تو مریض او رطبیب دونوں گھبرا جاتے ہیں۔ اس دوائی کے پھولوں کی چار رتی خوراک صرف چند گھنٹوں میں نبض کو معمول پر لاکر طبیب او رمریض کو حیران کن اثرات سے نوازتی ہے۔ میں اس دوا کا تجربہ بہت مریضوں پر اپنی معالجاتی زندگی میں کرچکا ہوں۔
حضرات و خواتین!
ساتھ ساتھ یہ بھی گوش گزار کردوں کہ یہ دوائی دماغی امراض کے لیے جتنی مفید ہے قلبی امراض میں بھی خون کو پتلا کرکے باریک سے باریک رگوں میں نفوذ کرانے کی وجہ سے انسان کو قلبی امراض سے نجات دلاتی ہے۔
سامعین کرام ! فشاردم قوی جدید مرض نہیں بلکہ قدیم ہے۔ قدیم اطباء اس سے واقف تھے۔ قدیم اطباء نے اس کو اکثر امراض میں علاماتی طو رپر بیان کیا ہے ۔ جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں۔ علم طب تجرباتی دنیا ہے۔ جوں جوں تجربات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ علم وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے گا۔ زمانہ حال میں دماغی کوفتوں کی وجہ سے قلبی اور دماغی امراض وبا کے طور پر پھیل رہی ہیں۔ہم ان کے علاج سے قلبی اور ذہنی سکون حاصل کرکے ہی عہدا برآ ہوسکتے ہیں۔
روحانی علاج
یہ مرض عام پیدا ہو رہی ہے اور اس کے تشخیصی ذرائع مشینی دنیا ہونے کی وجہ سے آسان ہوگئے ہیں اس کا اتنا ہی علاج بھی اطباء او رمعالج کی کوششوں کی وجہ سے آسان ہوگیا ہے ۔ حضرات طب مشرق فشار دم قوی کا مؤثر علام نہیں کرتی ہے۔ جیسا کہ میں اوپر بحث کرچکا ہوں۔ اب تو اطباء کے علاوہ ہمارے اور غیر ملکی ڈاکٹر صاحبان نے جس تیز سے اسے قبول کیا ہے او راپنے مریضوں پر استعمال کیا ہے وہ بھی ایسی دوائی کی افادیت کا ایک بین ثبوت ہے جس کا میرے پاس ریکارڈ موجود ہے۔
آخر میں، میں آپ کی خدمت میں اس پودے کی مختلف اقسام جو میں حاصل کرسکا ہوں پیش خدمت کررہا ہوں ۔ امید ہے میری حقیر کوشش سے آپ کچھ مفید معلومات اپنے اندر جذب کریں گے او رمیری اس محنت کو قبولیت بخشیں گے۔اگر خدا نےموقع دیا تو آئندہ برس کی ادویات پر ایک تحقیقی مضمون پیش کروں گا۔
میں جناب صاحب صدر ! محترم سامعین کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس خشک مضمون کو نہایت دلجمعی سے سنا، شکریہ! خدا حافظ ۔طب مشرق زندہ باد۔