کیا حدود محض زواجر ہیں؟: موصوف قاضی صاحب فرماتے ہیں۔ ’’ اوپر دنیاوی سزا کا ذکر ہے آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہوگی۔‘‘ (ترجمان القرآن مارچ 1979ء)
جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص سے قتل کے جرم میں قصاص لیا جائے یا سرقہ کے ضمن میں قطع ید ہو یا زنا کے سلسلہ میں رجم کردیا جائے وغیرہ وغیرہ تو یہ سزا صرف دنیاوی سطح تک معتبر ہوں گی عنداللہ ان کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ ان مجرموں کو مزید سزا دی جائے گی۔
حدود کے ضمن میں دی جانے والی سزا کیا آخرت میں بھی کافی ہے یا نہیں؟ یہ اصولی بحث تو ہم کسی اور جگہ کریں گے تاہم مسئلے کی وضاحت کے لیے تو حدیث ہی کافی ہے جو خود قاضی صاحب نے بھی اپنے مضمون میں نقل کی ہے او روہ یہ کہ عوام کو محفوظ رکھنے کی غرض سے مسئلہ سمجھا دیا جائے۔ مسئلہ کی وضاحت کے لیے اولاً جو درمیان مضمون آپ نے جو حدیث درج کی ہے وہ اس کی طرف سے بردہ آزاد کرد۔ بردہ کے ہر عضو کی آزادی کی وجہ سے اس کا ہر عضو دوزخ سے آزاد ہوجائے گا۔ اس سوال یہ ہےکہ اگر وہ جہنم سے آزاد ہوگیا تو اور سزا کیا ہوگی؟ کیا اسے بطور سزا جنت میں بھیج دیا جائے گا؟
علاوہ ازیں آنحضرت ﷺ نے ایک عورت کے متعلق فرمایا ہے جس ے رجم کی سزا دی جارہی تھی کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر منافقین مدینہ پر تقسیم کردی جائے تو انہیں کافی ہوسکے تو کیا ایسی توبہ کے بعد بھی اسے اور سزا کا منتظر رہنا چاہیے۔
موصوف کی دسترس: موصوف مذکورۃ الصدر حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’احناف کے نزدیک یہ حدیث اس وجہ سے قابل استدلال نہیں کہ اس میں دوزخ کا لفط نہیں لہٰذا شبہ ہے کہ یہاں مستحق قصاص و دیت مراد ہے یا دوزخ۔‘‘ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اگر موصوف کو لفظ دوزخ مطلوب ہے تو واقعی حدیث میں یہ لفظ نہین ورنہ النار کی وضاحت تو موجود ہے۔
حدیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
قال اتینا النبی صلی اللہ علیه وآله وسلم فی صاحب لنا او جب یعنی النار بالقتل فقال اعتقوا عنه یعتق اللہ بکل عضو منه عضوا من النار (ابوداؤد مع العون ج4 صفحہ 53)
’’یعنی ہم اپنے ایک ایسے ساتھی کو نبی علیہ السلام کے پاس لائے جس پر قتل کی وجہ سے دوزخ واجب ہوچکی تھی تو اپؐ نے فرمایا اس کے بدلے (غلام) آزاد کردو۔ اللہ ہر عضو کے بدلے اس کا عضو جہنم سے آزاد کردے گا۔‘‘
توجہ طلب مسئلہ : عام فقہی کتب میں چونکہ قتل کی اقسام خمسہ کے تحت قتل قائم مقام خطا کو بھی ذکر کیا جاتا ہے تو موصوف نے بھی اسےذکرکیا ہے لیکن ہم جیسا کہ پہلے قتل شبہ عمد کے ضمن میں امام مالک کے موقف کی طرف توجہ دلا چکے ہیں اسی طرح اس موقع پر بھی مسئلہ کا یہ پہلو محتاج توجہ ہے کہ آیا قتل خطأ یا قائم مقام خطا کا فرق فی الحقیقت کوئی فرق ہے یا نہیں؟ اگر جرم کی نوعیت اور سزا کے اعتبار سے کوئی فرق ہے اور اس کی بنیاد کسی شرعی ہدایت پر ہے تو فبہا و نعمت۔ ورنہ محض لفظی فرق کے تحت اوراق کی سیاہی کا کیا مطلب او رعوام کو ایک سیدھے سادھے قانون تعزیرات میں تشکیک کا موقع فراہم کرنا چہ معنی دارد؟ لہٰذا علماء کرام کو اس فقہی تقسیم پر اجتماعی طور پر قرآن و سنت کی روشنی میں نظر ثانی کرنا چاہیے کہ کیا واقعی یہ تفریق قرین شریعت ہے یا نہیں؟
اونٹ کی جنس سے دیت: ائمہ کرام کا اختلاف ہے کہ اونٹ کی صورت میں دیت ادا کرتے وقت وہ تین حصوں پر مشتمل ہوں یا چار حصوں پر؟ امام ابوحنیفہ و قاضی ابویوسف کے نزدیک چار حصوں میںہوں یعنی 25 بنت مخاض، 25 بنت لبون 25 حقہ اور 25 جذعہ...... امام محمد اور امام شافعی کے نزدیک اثلاثاً ہوگی یعنی 3] حقہ، 30 جذعہ اور 40 ثنیہ..... دوسرے فریق کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور عمروؓ بن شعیب کی مرفوع احادیث ہیں جن میں ایسی بھی تقسیم کی وضاحت ہے جب کہ فریق اوّل کی دلیل حضرت ابن مسعودؓ کی موقوف روایت ہے جس کی تائید سائبؓ بن یزید کی روایت سے ہوتی ہے۔
قاضی صاحب نے ابن مسعودؓ کی روایت کو مرفوع بنانے کی کوشش کی ہے جو کہ درست نہیں کیونکہ وہ تقریباً جمیع طرق کی تتبع کے بعد کسی صحیح طریق سے مرفوع معلوم نہیں ہوتی۔ امام ترمذی نے اسے مرفوع بیان تو کیا ہے لیکن ضعیف سند کے ساتھ ۔ یعنی اس میں ایک تو زید بن جبیر راوی ہے۔ جس کے متعلق امام بخاری فرماتے ہیں۔ ’’متروک وقال ابو حاتم لا یکتب حدیثه، وقال ابن عدی عامة ما یرویه لا یتابع علیه‘‘ (میزان) اسیس طرح خشف بن مالک متکلم فیہ ہے۔ امام بیہقی نے اسے مجہول کہا ہے۔ علاوہ ازیں حجاج بھی متکلم فیہ راوی ہے۔ غرضیکہ یہ روایت صحیح سند سے مرفوع مروی نہیں جس پر امام دارقطنی نے بالتفصیل بحث کی ہے ۔امام شوکانی فرماتے ہیں:
والصحیح انه موقوف علی عبداللہ کما سلف (نیل الاوطار ج7 ص77)
اور جہاں تک یزید بن سائب کی روایت کا تعلق ہے تو ہمیں افسوس ہے کہ موصوف نے اس کا حوالہ نہیں دیا کہ ہم دیکھ سکتے اس کی اسنادی حیثیت کافی ہے تاہم علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں اسے بحوالہ الشفا للامیرالحسین ذکرکیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ لکھا ہے۔
’’ولم جد ھذا مرفوعاً الی النبی صلی اللہ علیه وآله وسلم فی کتاب حدیث فلینظر فیھا ذکرہ صاحب الشفاء‘‘ (نیل ج7 ص78)
علاوہ ازیں اسے ابوداؤد ن بھی حضرت علیؓ سے موقوفاً ذکر کیا ہے اور سنداً بھی کمزور ہے کیونکہ اس میں عاصم بن حمزہ راوی ہے جس پر متعدد علمائے فن نے جرح کی ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور سائب بن یزید کی روایت اوّل تو موقوف ہیں ثانیاً مرفوع اور موقوف دونون حیثیتوں میں وہ ضعیف ہیں۔ دوسری طرف مرفوع صحیح احادیث ہیں۔ لیکن قاضی صاحب موقوف اور ضعیف روایت کی حمایت میں اس طرح استدلال کرتے ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مسعود کی روایت کو موقوف ہونے کا نقص نکال کر مرجوع قرار نہیں دیا جاسکتا لہٰذا امام ابوحنیفہ نے ابن مسعود کے افقہ ہونے کی وجہ سے ان کی روایت کو ترجیح دے دیں۔ (ملخصاً)
حضرت ابن مسعود کی فقاہت سرآنکھوں پر لیکن ان سے روایت سنداً صحیح بھی تو ہو؟ محض سینہ زوری تو کوئی وجہ ترجیح نہیں؟ او رپھر دونوں احادیث کو برابر قرار دینا اپنی جگہ پر از خود ظلم عظیم ہے۔ یہی نہیں بلکہ غیر شعوری طور پر امام ابوحنیفہ کی بھی توہین ہے کہ وہ ان دونون کو برابر خیال کرتے ہیں خواہ ان کے سامنے دونوں احادیث ہی نہ ہوں۔ فیاللعجب!
دراصل معلوم یون ہوتا ہے کہ موصوف کو حقیقتاً تتبع کا موقع ہی نہیں ملا ورنہ وہ ’’اس تفصیل‘‘ جیسے پرفریب الفاظ کی رو میں بہہ کر یہ نہ فرماتے کہ عبداللہ بن مسعود کی روایت اگرچہ صورۃ موقوف ہے مگر حقیقۃ یہ بھی مرفوع کے حکم میں ہے۔ بہرحال ہم اس خود ساختہ حقیقت کی تفصیل کے منتطر ہیں۔ لعل اللہ يحدث بعد ذلک امرا۔
دیت ذمی: ذمی کی دیت کے متعلق احناف کا موقف ہے کہ مسلمان کی دیت کے برابر ہوگی۔ جب کہ حنابلہ کے نزدیک نصف دیت بصورت خطا اور مساوی بصورت عمد اور شوافع کے نزدیک ثلث دیت ہوگی جب کہ امام مالک کے نزدیک نصف دیت۔ ان مذاہب کی تفصیل و تائید سے پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ احناف کے نزدیک چونکہ النفس بالنفس کے تحت مسلمان کو کافر کے بدلہ میں قتل کیا جانا ہے تو ضروری ہے کہ وہ دیت میں بھی مساوی ہوں جبکہ ہم پہلے صفحات میں یہ بات بالدلائل ثابت کرچکے ہیں کہ مسلمان کو کافر کے بدلہ میں قتل کرنا درست نہیں بلکہ ان میں فرق ہے او راسی اعتبار سے حدیث میں بھی فرق ہے۔
چنانچہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کہ دیۃ المعاھد نصف دیۃ الحرء (ابوداؤد ج4 صفحہ 319) یعنی ’’معاہد (ذمی) کی دیت آزاد (مسلمان) کی دیت کا نصف ہے‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے:
جعل عقل اھل الکتاب من الیہود والنصاریٰ نصف عقل المسلم (بیہقی، مصنف عبدالرزاق ج10 صفحہ 92)
یعنی’’ اہل کتاب کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے۔‘‘ علامہ خطابی فرماتے ہیں:
’’لیس فی دیة اھل الکتاب شئ ا بین من ھذا والیه ذھب عمر بن عبدالعزیز و عودۃ ابن الزبیر وھو قول مالک بن انس و ابن شبرمة واحمد..... وقول رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم اولیٰ ولا باس باسنادہ۔‘‘ (عون المعبود ج4 ص320)
یعنی ’’ذمی کی دیت میں اس حدیث (مذکور) سے زیادہ واضح اور کوئی دلیل نہیں (یعنی ذمی کی نصف دیت والی روایت دلائل کی رو سے بالکل واضح ہے) عمر بن عبدالعزیز، عروہ بن زبیر، مالک بن انس، ابن شبرمہ او رامام احمد کا بھی یہی مذہب ہے او ررسول اللہ ﷺ کا فرمان ہی سب سے زیادہ اولیٰ ہے اور سند کے اعتبار سے بھی یہ روایت صحیح ہے۔‘‘
علاوہ ازیں سعید بن المسیب نے حضرت عمرؓ سے ذمی کی دیت چار ہزار درہم نقل کی ہے جس کی تائید ابوموسیٰ اشعریؓ کے خط بنام حضرت عمرؓ سے بھی ہوتی ہے۔ (مصنف عبدالرزاق ج10 صفحہ 93)
حضرت حسن بصری کا بھی یہی خیال تھا او رمجوس کے متعلق متعدد صحابہ و تابعین سے مروی ہے کہ ان کی دیت آٹھ ہزار درہم ہے بلکہ مکحول نے تو اسے نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے۔ (ایضاً ج10 صفحہ 95)
مذکورہ اختلاف مذاہب کے نقل کرنے کے بعد اب ذرا ان دلائل کا بھی تجزیہ پیش کیا جاتا ہے جو ذمی کی دیت کو مسلمان کی دیت کے برابر قرار دیتے ہیں۔
آیت کریمہ : احناف نے اپنے مدعا کی تائید میں سورہ نساء کی آیت ﴿وَإِن كانَ مِن قَومٍ بَينَكُم وَبَينَهُم ميثـٰقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ...﴿٩٢﴾...النساء کو پیش کیاہے۔ کہ یہاں بوجہ اطلاق دیت سے مراد دیت معہودہ مراد ہے جو کہ دیت سلم ہے لیکن یہ بات اس وجہ سے محل نظر ہے کہ اس سے مراد دیت سلم نہیں بلکہ اہل ذمہ کے متعلق دیت مشہورہ ہے اور وہ نصف دیت تھی۔ ثانیاً اگر اس کے اطلاق کو تسلیم کرلیا تو حدیث عمرو اس حدیث کو مقید کرتی ہے اور احناف متعدد مقامات پر خود قرآن کے عموم کو احادیث سے مقید کرنے کے قائل ہیں۔ کما لا یخفیٰ الماھر۔
نکتہ آفرینی: حنفی مسلک کی تائید میں یہ نکتہ آفرینی بھی قابل داد ہے، فرماتے ہین کہ اس میں معاہد کی دیت کی کوئی تفصیل نہیں ہے جس سے ظاہر یہی ہے کہ معاہد کی دیت بھی وہی ہے جو پیچھے مومن کی بیان کی گئی ہے (ترجمان القرآن، اپریل 1979ء) موصوف کی تفسیر نگاری اور اس نکتہ آفرینی پر جتنا تعجب کیا جائے کم ہے او رقرآن مجید کی اس ایت ہی نہیں بلکہ پورے قرآن الم سے لے کر والناس تک کہیں بھی مسلمان کی دیت کی تفصیل موجود نہیں تو پھر محض زور قلم سے قرآن کریم میں اس معنوی تحریف کا آخر کیا حکم؟ کہ پیچھے اس کی تفصیل ہے۔
یادرہے اس آیت میں دو مرتبہ دیۃ مسلمۃ کا لفظ آیا ہے پہلے دیت مسلم اور دوسری جگہ ان الفاظ سے دیت ذمی وغیرہ مراد ہے۔ امام قرطبی پہلے الفاظ کے متعلق وضاحت فرماتے ہیں کہ:
’’ولم بعین اللہ تعالیٰ فی کتاب ما یعطی فی الدیة و انما فی الایة ایجاب الدیة مطلقا ...... وانما اخذ ذلک من السنة ‘‘(تفسیر ج5 صفحہ 315)
یعنی ’’ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں دیت کی تعیین و تشریح نہیں فرمائی بلکہ مطلق طور پر دیت کا حکم دیا لہٰذا اس کی تفصیل ہمیں حدیث سے لینا ہوگی۔‘‘
یہ امام قرطبی کی وضاحت ان الفاظ کے متعلق ہے جن کی طرف قاضی موصوف اشارہ کرتے ہیں کہ دیت مسلم وہاں بیان ہے۔ بہرحال قرآن مجید میں خبر آحاد سے زیادہ پر چیخ و پکار کرنے والوں کی طرف سے یہ جسارت اس بات کا مصداق ہے کہ:
﴿فَمَن أَظلَمُ مِمَّنِ افتَرىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا لِيُضِلَّ النّاسَ بِغَيرِ عِلمٍ إِنَّ اللَّـهَ لا يَهدِى القَومَ الظّـٰلِمينَ ﴿١٤٤﴾...الأنعام
اور جہاں تک سنت سے وضاحت کا تعلق ہے وہ ہم انشاء اللہ آئندہ صفحات میں بیان کرتے ہیں کہ آیا احادیث کی روشنی میں دیت ذمی ، دیت مسلم کے برابر ہے یا نہیں؟
احادیث: احناف اس ایت کے علاوہ اپنے موقف کی تائید میں متعدد احادیث بھی پیش کرتے ہین جن میں حضرت ابن عباس کی روایت سرفہرست ہے جسے امام ترمذی نے بیان کیا ہے لیکن اس کی سند میں سعد ابوسعید بن المرزبان البقال صعیف راوی ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
قال البخاری منکر الحدیث وقال ابوحاتم لا یحتج به وقال النسائی ضعیف لیس بثقة وقال ابن معین لیس بشئ لا یکتب حدیثه و قال عمرو بن علی ضعیف الحدیث متروک الحدیث (تہذیب ج4 صفحہ 79۔80)
2۔ اسی طرح حضرت ابن عباسؓ سے ایک دوسری روایت ہے جسےامام بیہقی نے دو سندوں سے نقل کیا ہے ۔ پہلی سند میں سابقہ ابوسعید البقال ہے اور دوسری میں حسن بن عمارۃ متکلم فیہ ہیں۔ علامہ ذہبی فرماتے ہیں:
’’قال احمد متروک و قال ابن معین لیس حدیثه بشئ وقال ابو حاتم و مسلم والدارقطنی و جماعة متروک و قال شعبة یکذب (بل قبل ) اکذب الناس‘‘ (میزان ج1 صفحہ 514۔515)
3۔ ایک روایت بیہقی میں ابن عمر سے ہے کہ ودیٰ ذمیادیۃ المسلم لیکن اس کی سند میں اوبکرز متکلم فیہ ہے۔
قال الدارقطنی ابوکرز ھذا متروک الحدیث ولم یردہ عن نافع غیرہ (نصب الرایۃج4 ص366)
4۔ ایک روایت اسامہ بن زید سے دارقطنی میں ہے جس کی سند میں عثمان الوقاضی متروک ہے۔
5۔ ایک روایت سعید بن مسیب سے ابوداؤد کی مراسیل صفحہ 12 پر ہے جسے قاضی صاحب موصوف نے ذکر کیا ہے کہ ’’دیۃ کل ذی عھد فی عھدہ الف دینار‘‘ اے کاش موصوف اس کی سند بھی بیان فرما دیتے یا کم از کم اس کی تخریج ہی کردیتے۔ تاہم علامہ زیلعی نے اس کی مسند شافعی کے حوالہ سے سند نقل کی ہے جس کی سند میں محمد بن یزید متکلم فیہ ہے اور دوسرے سفیان حسین واسطی ہیں جس کی جرح و تعدیل کے متعلق مختلف اقوال ہیں لیکن چونکہ وہ زہری سے روایت کرتا ہے او رجب زہری سے روایت کرے توبالاتفاق ضعیف ہے ۔
چنانچہ امام ذہبی فرماتے ہیں:
’’قال یحییٰ بن معین لیس بالحافظ ولا بالقوی فی الزھری وقال النساوی لیس به باس الا فیٰ الزھری وقال ابن حبان یروی عن الزھری المقلوبات ‘‘ (میزان الاعتدال)
6۔ ایک روایت زہری سے مرسل بیان کی گئی ہے ۔ لیکن مراسیل زہری کے متعلق علامہ شوکانی کا یہی قول کافی ہے جبکہ بعض دیگر محدثین ن بھی امام زہری کی مرسلات کو ضعیف قرا ردیا ہے۔
ومراسیله قبیحة لانه حافظ کبیر لا یرسل الا لعلة (نیل الاوطارج7 ص66)
غرضیکہ اس سلسلہ میں جتنی بھی روایات پیش کی جاتی ہین تمام کی تمام معلول و ضعیف ہیں امام شوکانی ان روایات پر بحث کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ومع ھذا الحلل فھذہ الاحادیث معارضة بحدیث الباب وھو ارجح منھا من جھة صحته وکونه قولا وھذہ فعلا والقول ارجع من الفعل..... والراحج العمل بالحدیث۔
الصحیح و طرح ما یقابله مما لا اصل له فی الصحة (نیل الاوطار ج7 ص66)
یعنی ’’حدیث عمرو کو ان احادیث پر باعتبار صحت ترجیح کے علاوہ اس وجہ سے بھی ترجیح ہے کہ وہ قولی ہے او ریہ فعلی۔ جبکہ اصول حدیث کے مطابق قولی حدیث کو فعلی پر ترجیح ہوتی ہے بنا بریں اس راجح حدیث پر عمل کرتے ہوئے باقی تمام ایسی روایات کو ناقابل التفات سمجھنا چاہیے جس کا صحت کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں؟‘‘
آثار ۔ مکھی پر مکھی: مذکورہ احادیث کے علاوہ احناف جن آثار کا سہارا لیتے ہیں ان میں اوّلین طور پر ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن کا یہ قول ذکر کیا جاتا ہے کہ دو رنبوت و خلافت وراشدہ میں ذمی کی دیت مسلمان جیسی تھی اس اثر کو قاضی صاحب نے نمبر 4 میں ذکر کیاہے لیکن موصوف فرماتے ہیں کہ یہ اثر مراسیل ابی داؤد میں بسند صحیح مذکور ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مراسیل کے صفحہ 13 پراس اثر کی کوئی سند نقل نہیں۔معلوم نہیں موصوف کوکہاں سے وحی ہوئی ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کو اصل مراسیل کی زیارت ہی نصیب نہیں ہوئی۔ انہوں نے محض ملا علی قاری کی کتاب سے ہی نق کرنے پر اکتفا کی ہے او رمکھی پر مکھی مارتے ہوئے’’بسند صحیح‘‘ کا ترجمہ کردیاہے لیکن اس کی سند ملا علی قاری نقل بھی نہ کرسکے صرف نظر ی حکم کوہی کافی سمجھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی مکھی پر مکھی مارے ہوئے تقلید اعمیٰ کا ٹھوس ثبوت مہیا کیا اور نصب الرایہ سے نقل کردیاکہ ’’بسند صحیح‘‘
احناف کی یہ روش قدیم یا فطرت ثانیہ کہیے جو تقلیدی جمود کا شاخسانہ ہے۔ ورنہ آج کے دور کا کوئی حنفی عالم ہمیں اس کی صحیح سند دکھا دے تو اٰمنا و صدقنا۔ فاتوا برھانکم ان کنتم صدقین۔
خلط مبحث یا فن کاری: موصوف اس اثر کے آخر میں فرماتے ہیں کہ مراسیل ابن المسیب محدثین کے نزدیک صحاح کا حکم رکھتے ہیں۔‘‘ اس حکم سے پہلے ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ جناب اس اثر کے بعد متصلاً اس بات کے نقل کا کیا معنی ؟ کیا محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا مقصد ہے کہ فقہ حنفی کو تقویت مل سکے یا ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن کے اثر کو صحاح میں داخل کرنا مطلب ہے؟ لیکن محترم اس مذموم کوشش کے دنیاوی اور اخروی نتائج کو بھی تو خدارا سامنے رکھیئے؟