غزل

بکھری ہوئی ہیں ان کی ادائیں کہاں کہاں

دامن کو دل کے ان سے بچائیں کہاں کہاں

جلوے قدم قدم ہیں تمہارے بہ ہر نگاہ

آنکھوں کو فرش راہ بنائیں کہاں کہاں

ہیں امتحان میں اپنی وفاداریاں ہنوز

داغوں سے اپنے دل کو سجائیں کہاں کہاں

فتنے ہیں  حُسن کے کہیں حُسن نگاہ کے

ان آفتوں سے دل کو بچائیں کہاں کہاں

غم خوار کوئی ہو توبیاں غم کریں کہیں

غیروں کو داستاں یہ سنائیں کہاں کہاں

رازو نیاز اب تو نہیں درمیاں مگر

دیتے رہے ہیں ان کو دعائیں کہاں کہاں

دیرو حرم کی قید گوارا نہ تھی ہمیں

اس دل نے دی ہیں ان کو صدائیں کہاں کہاں

ہر ذرہ زمیں ہے امیں حُسن ذات کا

یادوں کے اس کی نقش مٹائیں کہاں کہاں

اسرار دل کا راس بیاں کس طرح کریں

داغ غم نہاں کو دکھائیں کہاں کہاں