پاکستان میں اسلامی قانون کے نفاذ کی عملی تدابیر
نفاذ شریعت کا ایک اور نقطہ نظر........... تدریج
پاکستان میں اسلامی قانون کا اجراء آج کل ہماری گفتگو کا ایک اہم موضوع ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ تفصیل کے ساتھ اس مسئلہ کا جائزہ لیا جائے او رملک میں اسلامی قانون جاری کرنے کے لیے جن ذرائع تدابیر کا اختیار کرنا ضروری ہو انہیں عملی جامہ پہنایا جائے؟
اسلامی قانون کے اجراء کے متعلق بعض لوگوں کے ذہن میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ نظام حکومت کے تغیر کا اعلان ہوتے ہی پچھلے تمام قوانین یک لخت منسوخ ہوجائیں گے او راسلامی قانون بیک وقت نافذ ہوجائے گا لیکن یہ لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ملک کے قانون کا اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے ، جب تک کسی ملک کا نظام زندگی اپنے تمام شعبوں کے ساتھ نہ لائے اس کے قانونی نظام کابدل جانا ممکن نہیں، خاص کر اس حالت میں کہ انگریزی تسلط نے ہماری زندگی کے تمام پورے تمام کو اسلامی اصولوں سے ہٹا کر غیر اسلامی اصولوں پر چلایا اور اب اسے پھر بدل کر دوسری بنیادوں پر لانا کس قدر محنت طلب ہے؟
اگر فی الواقع ہم نے اسلامی قوانین کےنفاذ کو کامیاب بنانا ہے تو ہمیں اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنا ہوگی کہ اجتماعی زندگی میں جس قدر تغیرات ہونے میں بتدریج پہلو نمایاں ہوتا ہے ۔ انقلاب جتنا اچانک ہوگا اتنا ہی ناپائیدار ہوگا؟ ایک مستحکم او رپائیدار کیسے ضروری ہے کہ وہ زندگی کے ہر پہلو میں کامیاب طریقے سے بڑھے تاکہ اس کا یہ گوشہ دوسرے گوشہ کا سہارا بن سکے؟
عہد نبوی کی مثال: وہ انقلاب جو سرزمین عرب میں آنحضرتﷺ نے برپا کیاوہ آناً فاناً نہیں ہوا بلکہ اس عظیم مقصد کے لیے آپ نے معاشرے کو تیار کیا۔ اس کی تیاری کے ساتھ ساتھ جاہلیت کے سابقہ طریقوں اور رواجوں کو بدل کر نئے اسلامی طریقے اور قاعدے جاری کیے۔ حضور اکرمﷺ نے سب سے پہلے اسلام کے بنیادی تصورات اور اخلاقی اصولوں کو لوگوں کے سامنے پیش کیا رفتہ رفتہ لوگ اس دعوت کو قبول کرنے لگے۔ انہیں تربیت دے کر ایک ایسا مصلح گروہ تیار کیا جن کا ذہن فکر اور عمل خالص اسلامی تھا جب یہ کام ایک حد تک پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو اپ نے دوسرا قدم اٹھایا کہ آپ ؐ نے مدینے میں ایک ایسی حکومت قائم کی جو خالص اسلامی نظریے پر مبنی تھی جس کامقصد یہ تھا کہ زندگی کے تمام شعبوں کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالا جائے لیکن یہ سب کام ایک اسکیم اور ترتیب کے ساتھ آگے بڑھا! چنانچہ وراثت کا قانون 2 ہجری میں نافذ ہوا ۔ نکاح اور طلاق کے قوانین رفتہ رفتہ 7 ہجری میں جاکر مکمل ہوئے ۔ فوجداری قوانین ایک ایک کرکے کئی سال تک نافذ کیے جاتے رہے یہاں تک کہ ان کی تکمیل 8 ہجری میں ہوئی، شراب کی بندش بھی بیک وقت نہیں ہوئی۔ اسی طرح جب ملک کا پورا معاشی نظام نئے سانچوں میں ڈھال لیاگیا تب 9 ہجری میں سُود کی قطعی حرمت کا قانون نافذ ہوا؟
انگریزی دور کی مثال: جب برصغیر پاک و ہند میں انگریزی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے یک لخت یہاں کا نظام نہیں بدل ڈالا ان کی حکومت سے پہلے چھ سات سو برس سے یہاں کا پورا نظام زندگی اسلامی فقہ پر چل رہا تھا اتنے پرانے نظام کو ختم کرنا او راس کی جگہ پر ایک نئے نظام زندگی کو کھڑا کرنا ایک دن کا کام نہیں تھا۔ تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں کا اقتدار قائم ہونے کے بعد بھی ایک مدت تک اسلامی فقہ رائج رہی۔ عدالتوں میں قاضی ہی فیصلے کرتے تھے انگریزوں کو یہاں کا قانونی نظام بدلتے بدلتے ایک صدی لگ گئی۔ انہوں نے یہاں کا نظام بدل کر پہلے اپنےمطلب کے آدمی پیدا کئے۔ اپنے خیالات کی اشاعت کے ذہنوں کو بدلا اپنے اقتدار کے اثر سے لوگوں کے اخلاق تبدیل کیے آج ہم بھی وطن عزیز میں اسلامی قانون رائج کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے لیے بھی انگریزی حکومت کے صد سالہ نقوش کو کھرچنا اور نئے نقوش قائم کرنا محض اسلامی نظام کے نفاذ کے اعلان سے ممکن نہ ہوگا بلکہ اس عظیم مقصد کے لیے ایک طویل جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ ہمارا پرانا نظام تعلیم زندگی او راس کے عملی مسائل سے ایک مدت دراز تک بے تعلق رہنے کی وجہ سے اس قدر بے جان ہوچکا ہے کہ اس کے فارغ التحصیل میں شاید ہی کوئی ایسا ہوجو ایک جدید ترقی یافتہ ریاست کے جج او رمجسٹریٹ بن سکیں۔ دوسری طرف موجودہ نظام تعلیم نےجو لوگ پیدا کیے وہ اسلام او راس کے قوانین سے بالکل ناآشنا ہیں پھر ان میں بھی بہت کم ایسے لوگ ہیں جن کی ذہنیت اس تعلیم کے زہریلے اثرات سے محفوظ رہی ہو۔ اس کےسا تھ ساتھ سو ڈیڑھ سو سال معطل رہنے کی وجہ سے ہمارا قانونی ذخیرہ بھی رفتار زمانہ سے کافی پیچھے رہ گیا ہے او رایسے موجودہ دور کی عدالتی ضرورتوں کے مطابق کافی وقت چاہیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک مدت تک اسلامی اثر سے آزاد اور انگریزی حکومت کے تابع رہنے کی وجہ سے ہمارے اخلاق تمدن معاشرت ومعیشت اور سیاست کا نقشہ اسلامی نقشے سے بہت حد تک مختلف ہوچکا ہے۔لہٰذا اسلامی انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے ہمیں زندگی کے ان تمام گوشوں کو اسلامی ضابطوں سے روشناس کرانا ہوگا۔
صد اوّل میں جو اسلامی انقلاب ہوا اس کے لیے نبی کریمﷺ نے موزوں آدمی تیار کیے۔ تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ان کے خیالات بدلے ۔ حکومت کے پورے نظم و نسق کو معاشرے کی اصلاح کے لیے استعمال کیا ۔ماضی قریب میں انگریزوں نے جب ہمارے نظام زندگی بدلا تو انہوں نے بھی کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں دی جو اس تغیر کے خواہش مند تھے او راس لیے کام کرنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ انہوں نے اس مقصد او رنقشے کو پیش نطر رکھ کر پیہم اس تغیر کے لیے کام کیا۔ اس طرح پاکستان میں تعمیر حیات اسلامی کے لیے ضروری ہے کہ جمہوری انتخاب کے ذریعے اس ریاست کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل کی جائے جو اسلام کو جانتے بھی ہوں او راس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنا بھی چاہتے ہوں۔ پھر اس کے بعد اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی ہمہ گیر اصلاح کا ایک منصوبہ بنایا جائے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام ذرائع و وسائل استعمال کیے جائیں ۔ تعلیم کا نظام بدلا جائے۔ ریڈیو سینما او رپریس کی تمام طاقتیں لوگوں کے خیالات بدلنےکے لیے صرف کی جائیں۔
اجرائے قانون اسلامی کے لیے تعمیری کام: ملک کے قانونی نظام کو بدلنے اور اسلام کے قوانین جاری کرنے کیلئے قریب قریب ہر شعبہ زندگی میں بہت سے تعمیری کام کرنے پڑیں گے کیونکہ مدت ہا مدت کے تعطل اورغیرملکی تسلط نے ہمارے تمدن کے ہر گوشے کو بُری طرح مسخ کررکھا ہے۔
1۔ مجلس قانونی کا قیام : پچھلی صدیوں میں دنیا کے ایک بڑے حصہ پر مسلمانوں نےجس قدر سلطنتیں قائم کیں ان سب کا قانون فقہ اسلامی پر تھا۔ ان کا تمدن نہایت اعلیٰ درجے کا تھا ان کے وسیع تمدن کی ساری ضرورتوں پر فقہاء نے اسلامی قانون کو منطبق کیا۔یہی فقہاء ان اسلامی سلطنتوں میں جج ، مجسٹریٹ اور چیف جسٹس ہوتے تھے۔ ان کے فیصلوں سے نظائر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ فراہم ہوگیاہے۔لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء اور قانون دان اشخاص کا ایک ایسا بابصیرت گروہ ان بزرگوں کے چھوڑے ہوئے ذخیرے کا جائزہ لینے کے لیے مامور کیا جائے جو ان سے کارآمد حصے کو قانونی کتب کے طور پر مرتب کرے۔ تاکہ ان سے کماحقہ فائدہ اٹھایا جاسکتے۔اسی طرح علم قانون میں جو کام ہمارے اسلاف کرچکے ہیں ان کی ضروری کتب کو جو فقہ اسلامی کے لیے ناگزیر ہیں انہیں اُردو میں ترجمہ کیا جائے ۔ ساتھ ہی احکام القرآن پر مفید کتب کو اردو میں منتقل کرنا ضروری ہے دوسرا ہمارے ہاں قیمتی ذخیرہ کتب احادیث کی ہے ان کی شرحوں میں احکام کے علاوہ نظائر اور تشریحی بیان کا بھی بہترین مواد ہے اس کے بعدفقہ میں ان کی بڑی بڑی کتابوں کو بھی اُردو کا جامہ پہنانا ہوگا جو اس علم میں امہات کتب کا درجہ رکھتی ہیں پھر ہمیں اصول قانون او رحکمت تشریع کی بھی بعض کتب کو اُردو میں ترجمہ کرنا ہوگا تاکہ ان کی مدد سے ہمارے قانون دان طبقے میں اسلامی فقہ کا صحیح تصور اور اس کی روح سے گہری واقفیت پیداہو۔ ان کتابوں کے متعلق بس اتنا کرنا ہی کافی نہیں کہ ان کے ترجمے اور اُردو زبان کا لباس اوڑھا دیا جائے بلکہ ان کے مضامین کو موجودہ زمانے کی قانونی کتب کی طرز پر از سر نو مرتب کرنا ہوگا۔نئے نئے عنوانات قائم کرنے ہوں گے۔ مسائل کوایک عنوان کے تحت لانا ہوگا فہرستیں بنانا پڑیں گی۔ اس محنت کے بغیر یہ کتابیں آج کی ضروریات کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوسکتی ہیں۔ قدیم زمانے کا طرز تدوین کچھ او رتھا اور اس زمانے میں قانونی مسائل کے لیے اتنے مختلف عنوانات بھی پیدا نہیں ہوئے تھے جتنے آج پیداہوئے ہیں مثلاً فوجداری قانون کے لیے ان کے ہاں الگ عنوان نہیں تھا۔ بلکہ اس کے مسائل دیات جنایات او رحدود کے مختلف عنوانوں میں تقسیم کردیئے گئے تھے۔مالیات او رمعاشیات وغیرہ کے نام ان کے ہاں نہ تھے لیکن اس طرح کے تمام مسائل کو کتاب البیوع و کتاب الصر ف اور کتاب المضاربۃ او رکتب المضارعۃ میں شامل کردیا گیا اگر ان کتب کو جوں کا توں اردو میں نقل کردیاجائے تو ان سےکماحقہ فائدہ اٹھانا مشکل ہوگا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل علم جو قانون پر گہری نظر رکھتے ہوں اس پر کام کریں۔ ان کی قدیم ترتیب بدل کر ان کےمفید مواد کو جدید طرز پرمرتب کریں۔
2۔ تدوین احکام: دوسرا اس سلسلے میں ضروری کام یہ ہےکہ علماء او رماہرین قانون کی ایک ایسی مجلس قائم کی جائے جو اسلام کے قانونی احکام کو دور جدید کی کتب کے طرز پر مدون کریں۔ قانون صرف چار چیزوں کانام ہے۔ کوئی حکم جو قرآن کریم دے۔ کسی قرآنی حکم کی تشریح و تفصیل یا کوئی مستقل حکم جونبی کریمﷺ سے ثابت ہو، کوئی استنباط قیاس یا اجتہاد جس پر امت کا یا جمہور علماء کا ایسا فتویٰ جسے سارے مسلمانوں کی عظیم اکثریت تسلیم کرتی ہو۔ اس قبیل کا ایسا امر جس پر ہمارے ملک کے اہل حل و عقد کا جمہوری فیصلہ ہوجائے ۔ پہلے تین قسم کے احکام کو ماہرین کی یہ جماعت ایک مجلہ احکام کی شکل میں مرتب کرے۔ پھر جو قوانین آئندہ اجماعی او رجمہوری فیصلے بنتے جائیں اس کا اضافہ کتاب آئین میں کیا جاتا رہے۔ اگر اس قسم کامجلہ احکام بن جائے گا۔ اس سے عدالتوں میں اسلامی قانون کی تنفید او رکالجوں میںاس کی تعلیم آسان ہوجائے گی۔
3۔ قانونی تعلیم کی اصلاح: تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ ہم اپنے ہاں قانون کا سابقہ طریقہ بدل دیں۔ اپنے کالجوں کے نصاب او رطریق تربیت میں ایسی اصلاحات کریں جس سے ہمارے طلبہ قانون کی تنفید کے لی علمی او راخلاقی دونوں حیثیتوں سے تیار ہوں۔
اس وقت جو تعلیم ہماری قانونی درس گاہوں میں دی جاتی ہے وہ ہمارے نقطہ نظر سے بالکل ناکارہ ہے اس لیے فارغ ہوکر نکلنے والے صرف یہی نہیں کہ اسلامی قانون کے علم سے کورے ہوتے ہیں بلکہ ان کی ذہنیت بھی غیر اسلامی افکار کے سانچے میں ڈھلی ہوتی ہے او ران کے اندر اخلاقی صفات بھی ویسی ہی پیدا ہوجاتی ہیں جو مغربی قوانین کے اجراء کے لیے موزوں ہوتی ہیں مگر اسلامی قانون کو نافذ کرنے کے لیے قطعاً غیر موزوں ہوتی ہیں اس صورت کو جب تک نہین بدلا جاتا اور اپنی درس گاہوں میں معیاری فقیہ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے ہمیں وہ آدمی فراہم نہیں ہوسکیں گے جو ساری عدالتوں میں قاضی اور مفتی کے فرائض سرانجام دے سکیں اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ لاء کالجوں میں داخلہ کے لیے عربی زبان کی اتنی واقفیت ضرور لازمی قرار دی جائے جس سے قرآن حدیث اور فقہ سے استفادہ ممکن ہو۔
4۔ اسلامی قانون میں رسوخیت کے لیے بعض مضامین کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ دور جدید کے اصول قانون کے ساتھ ساتھ اصول فقہ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے نیز طلبہ میں فقہ کا پورا فہم پیدا کرنے کے لیے تمام مکاتب فکر کی فقہی کوششوں کا غیر متعصبانہ مطالعہ نہایت ضروری ہے فقہائے اسلام کے جمع کیے ہوئے ذخیرے پر وسیع نظر رکھے بغیرہم پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
تعلیم کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے لاء کالجوں کے طلبہ میں اخلاقی تربیت کا خاص انتطام کرنا ہے تاکہ ان دانش گاہوں سے بلند کردار قاضی اور مفتی پیدا ہوسکیں جن کی راست بازی اور عدل و انصاف پر پورا پورا اعتما دکیا جاسکے جن کی دیانت شک و شبہ سے بالاتر ہو۔ کوئی لالج کوئی خوف اور ذاتی دلچسپی او رکسی کی محبت و نفرت انہیں صحیح فیصلہ کرنے سے روک نہ سکے۔
5۔ عدالتی نظام کی اصلاح: اسلامی قانون کے اجراء کی خاطر زمین ہموار کرنے کے لیے اپنے عدالتی نظام میں بھی بہت کچھ تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ اوّلین اصلاح طلب معاملہ پیشہ وکالت ہے جو موجودہ عدالتی نظام کی بدترین خرابیوں میں سے ایک ہے اسلام کے مزاج سے اس پیشے کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ ظاہری اعتبار سے وکیل کا کام یہ ہے کہ وہ عدالت کے قانون کو سمجھے اور مقدمہ زیر سماعت کے حالات پر اسے منطبق کرے۔ اصولاً یہ ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اس ضرورت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو صورت طریقہ وکالت کی شکل میں اختیار کی گئی ہے وہ کہاں تک درست ہے۔ عموماً ہوتا یوں ہے کہ ایک وکیل قانونی مہارت حاصل کرکے بازار میں بیٹھ جاتا ہے او رتیار رہتا ہے کہ جو شخص اس کے دماغ کی فیس ادا کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے وہ اس کے حق میں قانونی نکات سوچنا شروع کردیتا ہے اسے اس بحث سے کوئی تعلق نہیں کہ قانون کا منشا کیا ہے؟ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس شخص نے فیس ادا کی ہے او رمیرا کام اس کی حمایت کرنا ہے وہ مقدمہ کو قانون کے مطابق بناتاہے۔ کمزور پہلوؤں کو چھپاتا ہے اور موافق پہلوؤں کو ابھارتا ہے۔ حقیقتاً اس پیشہ وکالت نے ہمارے نظام عدل و انصاف کو بہت نقصان پہنچایا اس نے قانون کی پیروی کی بجائے اس کی خلاف ورزی کو وسعت دی ۔پچھلی دس بارہ صدیوں میں مسلمانوں نے آدھی سے زیادہ دنیا پرحکومت کی اس طویل دور میں کہیں بھی اس پیشہ قانونی کی موجودہ صورت نظر نہیں آئی ۔ رہا یہ سوال کہ اگر لوگ مقدمہ کو ضابطہ کے مطابق عدالتوں کے سامنے پیش کرنے والےنہیں ہوں گے تو اس سے اہل مقدمہ کوبہت دشواریاں پیش آئیں گی۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم مختاری کے پرانے طریقہ کو زندہ کریں جو ہماری عدالتوں میں پہلے سے رائج تھا۔ ہمارے لاء کالجوں میں ایسی ضمنی کلاسوں کا انتظام ہونا چاہیے جن میں متوسط درجہ کے تعلیم یافتہ کو ضابطہ قانون پڑھایا جائے او رعملاً عدالتی طریق کار سے آگاہ کیا جائے ان لوگوں کا محض کام یہ ہوگا کہ مقدمہ کو ضابطہ کی صورت میں تیار کرکے عدالت میں پیش کریں او رمختلف مراحل میں اہل مقدمات کو عدالتی طریق کار سے آگاہ کریں اگر یہ لوگ فیس لے کر پریکٹس کریں گے تو اس سے وہ خرابیاں پیدا نہیں ہوں گی جو پیشہ وکالت میں ظاہر ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہماری عدالتیں اسلامی معیار پر قائم ہوں او ران سے انصاف حاصل کرنا ایک تجارتی کاروبار نہیں بلکہ ایک عبادت او ربلا معاوضہ خدمت ہے۔