رہ وفا میں مراحل تو بے شمار آئے |
وفا شعار بہرگام کامگار آئے |
کوئی نہ کام زمانے میں کیجئے ایسا |
یقین دل کونہ آنکھوں کو اعتبار آئے |
جنہیں خبر تھی شہادت کا مرتبہ کیا ہے |
گزر کے دیروحرم سے وہ سوئے دار |آئے |
کہاں کہاں دل بے تاب لے گیا ان کو |
کہاں کہاں تیرے شیدا تجھے پکار |آئے |
کہاں گئے ہیں خدا جانے قیصر و فغفور |
نہ جانے کتنے یہاں ایسے تاجدار آئے |
وہ روز و شب ہمیں یاد آرہے ہیں روز و شب |
جو روز و شب کہ مدینہ میں ہم گزار آئے |
فسردہ کلیاں ہوں، گُل زرد۔ سرنگوں غنچے |
چمن میں ایسے نہ یارب کبھی بہار آئے |
ہےجس کے سامنے یوم حساب کا منظر |
مرے کریم، اسے کس طرح قرار آئے |
جو زندگی میں بٹھاتے تھے اپنی آنکھوں پر |
وہ بعد مرگ لحد میں ہمیں اتار آئے |
ہے غم یہی کہ کبھی غم تھا او ردل غمگین |
رہ نہ غم کوئی جس دم تو غمگسار آئے |
فضائے گلشن عالم ہے غم فضا عاجز |
جو آئے گلشن عالم میں اشکبار آئے |