اعتکاف سے متعلق بعض استفسارات کے جوابات
اعتکاف رمضان المبارک کا ایک اہم عمل ہے۔جس کے مسائل اکثر لوگ پوچھتے رہتے ہیں بعض مساجد کی انتظامیہ معتکف حضرات کی سرگرمیوں سے شاکی بھی ہوتی ہے۔ذیل میں مسجد کے انتظام وانصرام سے وابستہ ایک صاحب نے تفصیلی طور پر چند چیزوں کے بارے میں علماء سے استفسار کیا ہے کہ ان امور کی قرآن وسنت کی روشنی میں شرعی حیثیت کی وضاحت کی جائے۔ان استفسارات میں سے راقم کی نگاہ میں اہم نکات صرف یہ ہیں:
1۔کیا مسجد میں چھوٹے بڑے حتیٰ کہ غیر روزہ دار بچوں کا جمع کرنا جائز ہے؟
2۔کیامعتکف(اعتکاف کرنے والے) کے لیے ان بچوں کے ساتھ مشغول ہونا درست ہے؟
3۔کیا تمام اہل خاندانکا کسی تقریب کے مثل مسجد میں جمع ہوکر کھانا پینا درست ہے؟
4۔بچوں کا مسجد میں شوروغوغا کرنا اور اپنی چیخ پکار سے نمازیوں اور اعتکاف کرنے والوں کو اذیت دینا کیسا ہے؟
5۔معتکفین کا اپنے اہل خانہ کے ساتھ دیر تک گفتگو بلکہ گپ شپ میں مصروف رہنا کیا ہے؟
6۔ایسے بچوں کا مسجد میں لانا جو وہاں پیشاب کردیتے ہوں ،کیسا ہے؟
7۔معتکف کے لیے بچوں کو ابتدائی اردو یا قرآن وغیرہ کادرس دینا کیسا ہے؟
8۔بچوں کے ساتھ پیارومحبت کرنا کیسا ہے؟
9۔معتکف کے لیے معلمی،خیاطی یا جلد سازی کرنے کا کیا حکم ہے؟
10۔مسجد میں افطاری ایک شخص لائے یا ایک سے زیادہ افراد بھی لاسکتے ہیں؟عہد صحابہ و تابعین کا اس بارے میں کیا عمل رہاہے؟
11۔کیامعتکف بچوں کو بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاسکتاہے؟
12۔اعتکاف میں بیٹھنے کا اجروثواب کتنا اور کیا ہے؟
یہاں تک کی مشروعیت ،اس کے احکامات ،شروط،مستحبات،مباحات،مکروہات اور مبطلات وغیرہ کی بجائے ہم مندرجہ بالا استفسارات کے ضمن میں صرف مندرجہ ذیل چند پہلوؤں پر ہی بحث کریں گے،کیونکہ ان تمام امور پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور اعتکاف کے ہر موسم میں رسالوں اور اشتہارات کی زینت بنتا رہتا ہے:
1۔اعتکاف کی لغوی واصطلاحی تعریف تاکہ اعتکاف کا مطلوب واضح ہوسکے۔
2۔اعتکاف کے اسرار ومقاصد۔
3۔اعتکاف کی حالت میں لایعنی گفتگو اور دنیاوی مشاغل سے اجتناب متقضیات اعتکاف میں سے ہے۔
4۔مسجد کی حفاظت سے متعلق بعض ناصحانہ گزارشات اور
5۔اعتکاف کا اجروثواب
اعتکاف کی لغوی واصطلاحی تعریف:۔
لغت میں اعتکاف کی تعریف:
"لزوم الشیء وحبس النفس عليه"
(یعنی کسی چیز کا لزوم اور اپنے آپ کو اس کے لیے روکے رکھنا) بیان کی جاتی ہے۔اور شرعی اصطلاح میں،مسجد میں تقرب اور اطاعت الٰہی کی غرض سے اس صفت پر اقامت اختیار کرنا جس کا تذکرہ ہم آگے کریں گے،اعتکاف کہلا تا ہے۔بعض مشاہیر نے اعتکاف کی لغوی واصطلاحی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کی ہے:
امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
الاعتكاف هو الاقامة على الشىء فقيل لمن لازم المسجد واقام العبادة فيه:معتكف وعاكف(1)
"اعتکاف کامطلب کسی چیز پر ہمیشگی کرناجو شخص مسجد کو اپنے لیے لازم کرلے اور اس میں عبادت پر ہمیشگی کرے،اسے معتکف اور عاکف کہا جاتاہے۔"
امام ابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
أو الاعتكاف فى اللغة هو لزوم الشىء وحبس النفس عليه برا كان أو غيره ومنه قول اللّه تعالى فى القرآن: (ما هذه التماثيل التى أنتم لها عاكفون)} وهو في الشرع الإقامة فى المسجد، (2)
"اعتکاف لغت میں کسی شے کو لازم پکڑنا اور اپنے آپ کو اس کے لیے روکے رکھنا چاہے نیک مقصد کے لیے ہو اس کےعلاوہ۔اسی سے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
"مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِى أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ "
اور
يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ
خلیل کہتے ہیں کہ عکف۔یعکف۔عکفا سے شریعت میں مسجد میں مخصوص حالت پر قیام کرناجو تقرب اور اطاعت الٰہی وغیرہ ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ"
اور
"وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ"
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
هو فى اللغة : الحبس والمكث واللزوم ، وفي الشرع : المكث فى المسجد من شخص مخصوص بصفة مخصوصة ، ويسمى الاعتكاف (3)
"لغت میں اس کامطلب رکنا،ٹھہرنا اورلازم پکڑنا ہے۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص شخص کامخصوص حالت میں مسجدمیں قیام کرنا ،اعتکاف کہلاتا ہے"
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
الاعتكاف: هو فى اللغة: الحَبس، والمكث، واللُّزوم. وفى الشَّرع: المكث فى المسجد من شخص مخصوص بصفة مخصوصة، (4)
"اعتکاف لغت میں بند رہنا،لازم پکڑنا،ٹھہرنا،استقامت اختیار کرنا اور اردگرد رہنا کے معنی میں آتا ہے۔۔۔شریعت میں مخصوص شخص کا مخصوص حالت میں مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کہلاتاہے"
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ عبدالرحمان مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
الاعتكاف لغة / :لزوم الشىء وحبس النفس عليه وشرعا المقام فى المسجد من شخص مخصوص على صفة مخصوصة (5)
"اعتکاف سے لغوی طور پر کسی شے کو لازم کرلینا اور اس پر اپنے آپ کو روک لینا مراد ہے شریعت کی اصطلاح میں مخصوص شخص کا مخصوص حالت پر مسجد میں قیام کرنا اعتکاف کہلاتا ہے"
معہد امام الدعوۃ بالریاض کے مدرس شیخ عبدالعزیز محمد سلمان فرماتے ہیں:
الاعتكاف فى اللغة هو لزوم الشىء وحبس النفس عليه برا كان أوكان غيره وفى الشرع: لزوم مسلم لا غسل عليه عاقل ولو مميزا مسجدا ولو ساعة من ليل اونهار لطاعة الله (6۔7)
"لغت میں اعتکاف کسی شے کو لازم کرنا اور اپنے آپ کو اس کے لیے ر وکے رکھناہے چاہے نیک مقاصد کے لیے ہویا اس کے علاوہ۔اورشرعی اعتبارسے کسی عاقل یاممیز مسلمان کا طہارت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے(مخصوص طریقے پر) مسجد کو لازم کرلینااعتکاف کہلاتاہے چاہے دن یا رات کی ایک گھڑی کے لیے کیوں نہ ہو"
اعتکاف کے اسرار ومقاصد:۔
اعتکاف کے چند مقاصد اوپر تعریف کے ضمن میں بیان ہوچکے ہیں۔اس کے بغض مزید اسرار اور مقاصد تفصیل کے ساتھ ذیل میں پیش خدمت ہیں۔۔۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اصلاح قلب اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے میں استقامت اللہ تعالیٰ کی طرف دل جمعی پر موقوف ہے۔اگر دل پراگندہ ہو تو اللہ سے لو لگانے میں میلان ناممکن ہے۔چونکہ کھانے پینے،لوگوں سے میل ملاپ ،سونے اور بات چیت میں زیادتی کرنے سے دل کی پراگندگی میں اضافہ ہی ہوتاہے۔اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی رفتار میں کٹوتی،سستی اور رکاوٹ ہی پیدا ہوتی ہے اس لیے عزیز ورحیم کی رحمت کاتقاضا ہوا کہ بندوں پر "روزہ"مشروع فرمائے جس سے کھانے پینے کی زیادتی جاتی رہے اور دل اختلاط شہوات سے فارغ ہوکر اللہ تعالیٰ کے حکم پر چل پڑے۔۔۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کو بھی مشروع قرار دیاہے جس کامقصد اورجس کی روح اللہ تعالیٰ پر دل کا ٹھہرجانا،اس کے احکام پر دلجمعی،اس کے لیے خلوت نشینی اورمخلوق کے ساتھ مشغولیت سے کٹ کر صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ مصروف ہوجانا ہے۔یہاں تک کہ اس کاذکر،اس کی محبت اور اس کا اقبال بندہ کے دل میں اس کے فکروغم کی جگہ لے لے۔اس کے تمام فکر اور تمام خطرات اللہ کے ذکرسے وابستہ ہوجائیں،اس کی تمام فکریں اللہ کی رضا جوئی اور اسکے تقرب کے حصول کے لیے ہوں،اس کی نسبت مخلوق کی بجائے صرف اللہ کے ساتھ ہوجائے اور یہ انسیت اس کو قبر کی وحشت کے دن کام آئے،اس وقت جبکہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کاکوئی مونس نہ ہو اور اس کے سوا کسی سے اس کی فرحت وخوشی نہ ملتی ہو۔یہ ہے اعتکاف کاعظیم مقصود۔۔۔
بات چیت کے سلسلہ میں یادہے کہ اُمت کو زبان کے استعمال میں ہر ایسی بات سے احتیاط کرنے کو لازمی کیاگیاہے جو آخرت میں مفید نہ ہو۔اعتکاف کی حالت میں غیر ضروری نیند کو روکنے کےلیے شریعت نے رات کی نماز(تہجد) کو مشروع قراردیا ہے۔جو بات چیت کے لیے جاگنے سے بہت بہتر اور مفیدہے۔عبادت کے لیے بااعتدال جاگنے سے دل اور جسم دونوں کوراحت حاصل ہوجائے گی اور بندہ کی نیکی میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔اہل ریاضت وسلوک کی ریاضت کا دارومدار انہیں چار چیزوں پر ہے اور ان میں سے سب سے زیادہ سعادت مند شخص وہ ہے جو ریاضت کے لیے طریقہ محمدی کو اختیارکرے اور افراط وتفریط کے ساتھ غلویا تقصیر کرنے والوں کی راہ سے پرہیز کرے۔۔۔ان تمام چیزوں سے اعتکاف کا مقصود اور اس کا مدعا حاصل ہوتاہے،برخلاف بعض جاہلی لوگوں کے جوجائے اعتکاف کومیل ملاپ اور زائرین سے ملاقات کی جگہ بنا لیتے ہیں اور ان کے ساتھ تمام دنیا جہاں کی باتوں میں مشغول رہتے ہیں۔اس میں اور اعتکاف نبوی میں بہت فرق ہے۔(8)
دیار عرب کے مشہور عالم دین شیخ سلمان بن فہد العودۃ حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"ہر عبادت میں کچھ اسرار اورکچھ حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں اور تمام اعمال کادارومدارقلب پر ہوتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"
أَلا وَإِنَّ فِى الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلا وَهِى الْقَلْبُ (9)
(خبردارجسم میں ایک لوتھڑ(دل) ہے،اگر وہ درست ہوجائے تو سارا جسم تندرست ہوجاتا ہے اور اگر وہ فساد زدہ ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجائے خبردار وہ لوتھڑا دل ہے)
اکثر وبیشتر جن چیزوں سے دل میں فساد پیدا ہوتا ہے وہ بے کار مشغلے ہیں جو اسے اللہ عزوجل کے اقبال سے شہوات مطاعم ومشارب ومناکح،فضول کلام،فضول نیند اور فضول مصاحبت وغیرہ کی طرف پھیردیتے ہیں۔یہ وہ کام ہیں جن سے دل بٹ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے مطلوبہ دل جمعی میں کمی واقع ہوتی ہے۔لہذا اللہ تعالیٰ نے ان مشغولیات میں غلو کرنے سے دل کومحفوظ رکھنے کے لیے،روزہ جیسی عبادت کو مشروع قرار دیاہے جس میں دن میں انسان کھانے پینے اور جماع سے رکا رہتا ہے چنانچہ روزہ ان فضول ملذات سے دل کو روک کر اللہ تعالیٰ کی جانب رواں دواں کرتا ہے۔اور جو بے کار مشاغل انسان کو آخرت سے ہٹا کر دنیا داری کی طرف مائل کرتے ہیں ان سےچھٹکارا دلاتاہے۔۔۔جس طرح روزہ دل کے لیے زرہ کی مانند ہے جو اسے شہوانی صرف اوقات اور فضول کھانے پینے اور نفسانی خواہشات کے حملوں سے بچاتی ہے،اسی طرح اعتکاف بھی عظیم اسرار کا حامل ہے۔اعتکاف بندہ کو فضول صحبت سے محفوظ رکھتا ہے کیونکہ جو صحبت حد اعتدال سے بڑھ جائے تو وہ بدہضمی کا درجہ اختیار کرلیتی ہے جیسا کہ ایک شاعر کاقول ہے:
عدوك من صديقك مستفاد,
فلا تستكثرنَّ من الصِّحابِ.
فإن الداءَ أكثرُ ما تراهُ,
يحول من الطعام أو الشراب.
لہذا اعتکاف دل کو متواتر فضول کلام سے محفوظ رکھتا ہے کیونکہ اس میں بندہ تمام اموردنیا سے فراغت پا کر مسجد میں اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے معتکف ہوتاہے۔اور وہاں ہر طرح کی عبادت کرتا ہے۔مسجد میں صرف سونے اور آرام کرنے کے لیے نہیں ٹھہرارہتا۔بلاشبہ اعتکاف میں بندہ ان چیزوں سے نجات پانے میں کامیاب رہتے ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجے ہونے سے دل کو روکتی ہیں۔مثلاً فضول صحبت وکلام وبے جا نیند وغیرہ(10)
والد محترم مولانا محمد امین الاثری رحمانی مبارکپوری "اعتکاف کا مقصد اور اس کی روحانی عظمت" بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔(11)
"اعتکاف کرنے والا قرب الٰہی کی طلب میں دنیا سے یکسو ہرکر اپنے آپ کو خدا کی عبادت کے لیے وقف کردیتا ہے۔یہاں تک کہ ناگزیر جسمانی ضرورتوں کے سوا ساری مادی خواہشوں سے بھی دور رہتاہے۔اس کے قلب وذہن پر صرف ایک ہی مطلوب حقیقی کاذکر وفکر چھایا رہتا ہے،ہر وقت اس سے لو لگی رہتی ہے یہ کیفیت حال اسے فرشتوں کے مشابہ بنا دیتی ہے۔۔۔الخ"
پس معلوم ہوا کہ اعتکاف کا مقصود بظاہر یہ ہے کہ انسان لوگوں سے قطع تعلق ہوکر کسی مسجد میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت وعبادت کے لیے فارغ ہوجائے۔اس سے معتکف کی منشا اللہ تعالیٰ کے فضل وثواب اور لیلۃ القدر پانے کی ہوتی ہے ۔اس لیے معتکف کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ذکر الٰہی،تلاوت قرآن،نفلی نمازوں اور دیگر عبادتوں میں مشغول رکھے اور دنیا کی لا یعنی اور فضول باتوں سے خود کو بچائے۔اس سے ہماری مراد ہرگز یہ نہیں کہ وہ گم صم یا چپ چپ بیٹھا رہے بلکہ اگر وہ اپنے گھر والوں یا دوسروں سے کسی مصلحت اور ضرورت کے تحت تھوڑی بہت جائز بات چیت کرلیتاہے۔تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث میں آتا ہے،فرماتی ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مُعْتَكِفًا . فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلاً . فَحَدَّثْتُهُ , ثُمَّ قُمْتُ لأَنْقَلِبَ , فَقَامَ مَعِي (12)
"نبی اکرم اعتکاف کی حالت میں ہوتے تو میں آپ کے پاس رات کو آیا کرتی اور آپ سے بات چیت کرتی،جب میں واپس جانے کو کھڑی ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ کھڑے ہوجاتے"
حالت اعتکاف میں کئے جانے والے بعض کام:۔
معتکف کے لیے اطاعات اور عبادات کے کام،مثلاً نفلی نمازیں ،ادعیہ واذکار مسنونہ،تسبیح،تکبیر،تہلیل،تمحید،استغفار،تلاوت قرآن،صلواۃ وسلام اور دعاء نیز تقرب حاصل کرنے کے دیگر کام،مثلاً وعظ ونصیحت کرنا یا سننا وغیرہ چند مستحب اعمال ہیں۔امام ابن اشد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اعتکاف بالجملہ مخصوص جگہ پر مخصوص زمانہ میں مخصوص شروط کے ساتھ مخصوص عمل کرنے اور مخصوص چیزوں کو ترک کرنے پر مشتمل ہوتا ہے۔جو اعمال اس میں خصوصیت سے کئے جاتے ہیں ،اس بارے میں دو اقوال ملتے ہیں:بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ اعمال صرف پڑھنے،اللہ کے ذکر کرنے اور قرآن کی تلاوت کرنے پر مشتمل ہیں۔ان کے علاوہ دوسرے تمام اعمال بر کا تعلق اعتکاف سے نہیں ہے۔یہ ابن القاسم کا مذہب ہے۔جبکہ بعض دوسرے لوگوں کاقول ہے کہ آخرت کےلیے خاص،تمام نیک اعمال اس میں کیے جاسکتے ہیں جو ابن وہب کا مذہب ہے۔پس اس مذہب کے مطابق معتکف جنازے میں شرکت کرسکتا ہے،مریضوں کی عیادت کرسکتا ہے اور درس وتدریس کا کام کرسکتا ہے جبکہ پہلے مذہب کے مطابق وہ ایسا نہیں کرسکتا۔یہی امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب بھی ہے جبکہ پہلا مذہب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ان کے مابین اس اختلاف کا سبب اس چیز کے بارے میں شریعت کی خاموشی ہے ،یعنی اس بارے میں صراحت کے ساتھ کوئی حد مقرر نہیں ہے۔پس جن لوگوں نے اعتکاف سے"
"حبس النفس على الأفعال المختصة بالمساجد"
"ایسے اعمال تک محدود رہنا جو مسجد میں کئے جاتے ہیں"
سمجھا ہے ان کا قول ہے کہ معتکف کے لیے نماز اور قراءت قرآن کے علاوہ کوئی دوسرا عمل جائز نہیں ہے ،جبکہ جن لوگوں نے اس سے :
"حبس النفس على القرب الأخروية كلها "
"ایسے تمام اعمال بجا لانا جو آخرت میں اللہ کے قرب کے لیے ضروری ہیں"سمجھا ہے وہ معتکف کے لیے ہر اس چیز کی اجازت دیتے ہیں جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے۔(13)
یہاں ایک اہم نکتہ بھی پیش نظر رہے جوالد محترم نے یوں بیان کیاہے:
"اعتکاف دنیا کے سارے کاموں سے کٹ کراللہ کی عبادت کے لیے یکسو ہوکر رہنے کا ایک خصوصی پروگرام ہوتا ہے لیکن آپ نے دیکھا کہ یہ خصوصی کار عبارت بھی کسی دوردراز گوشہ تنہائی میں نہیں ہوسکتا بلکہ بستی کی جامع مسجد میں انجام پاتاہے۔ یہ در اصل اس مخصوص تصور کا مظہر ہے جو اسلام،دین اور خدا ترسی کے بارے میں رکھتاہے۔اسلام میں عبادت کا منشا اگر بدن کو تکلیف دینے کا رجحان پیدا کرنا ہوتا تو وہ اعتکاف کے لیے جامع مسجد کا انتخاب ہرگز نہ کرتا بلکہ کسی ایسے مقام کا انتخاب کرتا جہاں انسان تو انسان پرندہ بھی پر نہ مار سکے،مگر چونکہ اسلام کے نزدیک عبادت کا منشا ہرگز ایسا نہیں ہے کہ دنیا سے کٹ کرگوشہ گیر ہوجائے اس لیے اس نے اعتکاف جیسی عبادت کے لیے بھی مسجد جیسے مرکز اجتماع کا تعین کیا ہے(14)
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اعتکاف میں بیویوں کا اپنے معتکف شوہروں کی زیارت کرنا،ان کے ساتھ بقدر ضرورت گفتگو اور خلوت میں رہنا جائز ہے،چنانچہ مروی ہے:
كان النبى صلى الله عليه وسلم فى المسجد وعنده أزواجه فرحن فقال لصفية بنت حيى (لا تعجلى حتى أنصرف معك) (15)
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان مُعْتَكِفًا فى المسجد ، فاجتمع إليه نساؤه ثم تفرقن ، فقال لصفية : أقلبك إلى بيتك فذهب معها.........الخ(16)
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف تھے اور آپ کے پاس آپ کی بیویاں آئیں اور پھر واپس چلی گئیں تو آپ نے صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:جلدی نہ کر،میں تجھے خود چھوڑ آؤں گا"
اور عبدالرزاق نے یوں روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہوتے تو آپ کی زوجات آپ کے پاس آتیں اور واپس چلی جاتیں،آپ نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ میں تجھے تیرے گھر چھوڑآتا ہوں تو آپ ان کے ساتھ چھوڑنے گئے۔"
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے فوائد اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وفى الحديث من الفوائد جواز اشتغال المعتكف بالأمور المباحة من تشييع زائره والقيام معه والحديث مع غيره ، وإباحة خلوة المعتكف بالزوجة ، وزيارة المرأة للمعتكف (17)
"اس حدیث سے پتہ چلتا ہےکہ معتکف جائز امور میں مشغول ہوسکتا ہے مثلاً ملاقاتی کو الوداع کہنا،اس کے ساتھ کھڑے ہونا اور اس سے بات چیت کرنا۔اسی طرح معتکف کا اپنی بیوی کے ساتھ علیحدگی کا جواز اور عورت کا معتکف سے ملاقات کرنا وغیرہ بھی"
ان کے علاوہ بعض اور دوسرے مباح کاموں کی تفصیل مختلف کتابوں ،رسالوں اور اشتہارات اعتکاف میں دیکھی جاسکتی ہے۔
حالت اعتکاف میں بلاوجہ اور لا یعنی گفتگو کرناناپسندیدہ ہے:۔
امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
"معتکف کے لیے مستحب ہے کہ نماز،تلاوت قر آن،اللہ تعالیٰ کے ذکر اور دیگر افعال طاعات وغیرہ میں مشغول رہے اور لا یعنی باتوں اور کاموں سے اجتناب کرے،زیادہ باتیں نہ کرے کیونکہ جو بہت بولتاہے۔اکثر ٹھوکر کھاتا ہے۔ایک حدیث میں ہے:۔
"من حسن اسلام المره تركه ما لا يعينه"
"لا یعنی چیزوں کو ترک کرنا انسان کے حسن اسلام میں سے ہے"
جنگ وجدال ،مراء،برا بھلا کہنے اور فحش کلام سے بچے کیونکہ یہ تمام چیزیں جب اعتکاف کے بغیر بھی مکروہ ہیں توحالت اعتکاف میں بدرجہ اولیٰ مکروہ ہوئیں۔اگرچہ ان چیزوں سے اعتکاف باطل نہیں ہوتا کیونکہ جو چیز کسی مباح کلام سے باطل نہ ہوتی ہو تو وہ اس کی ممنوعہ باتوں سے بھی باطل نہ ہوگی،جبکہ وطی کا حکم اس کے برعکس ہے۔ضرورت کے وقت کلام کرنے یا کسی دوسرے سے گفتگو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث میں مروی ہے ،وہ فرماتی ہیں:
"كَانَ النَّبِى صلى الله عليه وسلم مُعْتَكِفًا . فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلاً . فَحَدَّثْتُهُ , ثُمَّ قُمْتُ لأَنْقَلِبَ , فَقَامَ مَعِي لِيَقْلِبَنِي - وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ اسامة بن زيد...فمر رجلان من الانصار...الخ
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالت اعتکاف میں تھے تو میں ان سے ملاقات کے لیے رات کے وقت مسجد میں آئی،کچھ دیر آپ سے باتیں کرنے کے بعد میں اٹھ کھڑی ہوئی،واپسی کے لیے مڑی تو آپ میرے ہمراہ چل دیے تاکہ مجھے چھوڑ آئیں،ان کی رہائش اسامہ بن زید کے گھر میں تھی۔۔۔راستے میں دو انصاری صحابی گزرے۔۔۔الخ)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ"جو شخص اعتکاف میں بیٹھے وہ نہ گالی گلوچ کرے اور نہ بیہودہ بات کرے البتہ ضرورت کے مطابق چلتے چلتے اپنے گھر والوں کو کوئی حکم دے سکتا ہے مگر اس کے لیے ان کے پاس نہ بیٹھے"(18)
مسجد میں بکثرت باتیں کرنے کے بارے میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک فتویٰ ملاحظہ فرمائیں،لکھتے ہیں:
"جو کلام اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک پسندیدہ ہو،اسے مسجد میں کرنا بہتر ہے،لیکن جو کلام حرام ہو مسجد میں اس کا کرنا زیادہ شدت کے ساتھ حرام ہے ۔یہی حال مکروہ باتوں کا بھی ہے ۔مسجد میں مباح کلام بھی بکثرت کرنا مکروہ ہے"(19)
میں کہتا ہوں کہ جب عام حالات میں مسجد میں مباح کلام بکثرت کرنا مکروہ ہے تو حالت اعتکاف میں اس کی کراہت دوبالا ہوجاتی ہے۔واللہ اعلم بالصواب
شیخ عبدالعزیز محمد سلیمان فرماتے ہیں:
يُسن لمعتكف التشاغل بفعل القربى، واجتناب ما لا يعنيه من جدال ومراء وكثرةمن حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه حديث حسن رواه الترمذي وغيره. ولانه مكروه في غير الاعتكاف ففيه اولي روي الخلال عن عطاء قال: كانوا يكرهون فضول الكلام وكانوا يعدون فضول الكلام ما عدا كتاب الله انقراه او امر بمعروف اونهي عن منكر اوتنطق في معيشتك بما لا بدلك منه ولا باس ان تزوره زوجته في المسجد وتقحدث معه وتصلح راسه او غيره ما يتلذذ بشئي منها وله ان يتحدث مع من ياتيه ما لم يكثر...الخ (20)
"معتکف کے لیے ایسے کاموں میں مشغول رہنا مسنون ہے جو تقرب الٰہی کا باعث ہوں اور لڑائی جھگڑے ،نیر کثرت کلام ایسے بے فائدہ کا موں سے بچنا بھی سنت ہے۔کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ کسی شخص کے بہترین اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ بے فائدہ چیزوں کو خیر باد کہہ دے۔اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے روایت کیاہے جو کہ حسن درجہ کی حدیث ہے پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ ایسے ناپسندیدہ کام جب اعتکاف کے علاوہ مکروہ ہیں تواعتکاف کی حالت میں تو بالاولیٰ ناپسند قراردیے جائیں گے ۔خلال رحمۃ اللہ علیہ نے عطا رحمۃ اللہ علیہ ء سے روایت کیا ہے کہ علماء سلف فضول گفتگو کو ناپسند کیاکرتے اور اس سے گریز کیا کرتے تھے۔ہاں آ پ کتاب اللہ کی تلاوت کریں۔نیکی کا حکم دیں،برے کاموں روکیں اور اپنی معیشت اور گزران کے بارے میں ضروری بات کرسکتے ہیں اسی طرح معتکف سے اس کی بیوی مسجد میں آکر ملاقات کرسکتی ہے اور اس سے گفتگو کرسکتی ہے اور اس کی کنگھی و غیرہ کرسکتی ہے اور معتکف اپنے پاس آنے والوں کے ساتھ بقدر ضرورت گفتگو بھی کرسکتا ہے"
آں محترم ایک اورمقام پر لکھتے ہیں:
ويستحب للمعتكف التشاغل بفعل القرب كقراة القرأن والا حاديث الصحيحة والصلاة وذكر الله ونحوذلك وسن له اجتناب ما لا يعنيه من جدل ومراء وكثرة الكلام لما ورد عن ابي هريرة عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من حسن اسلام ا لمرء تركه ما لا يعنيه (21)
"معتکف کے مستحب ہے کہ اللہ کے تقرب والے افعال مثلاً تلاوت قرآن ،احادیث صحیحہ کی قراءت نماز اور اللہ کا ذکر وغیرہ جیسے افعال بجالائے اور لایعنی باتوں،جھگڑے،کثرت کلام وغیرہ سے پرہیزکرے کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آدمی کے حسن اسلام سے یہ ہے۔کہ لا یعنی باتوں کو ترک کردے۔
اور شیخ سلمان بن فہد العودۃ حفظہ اللہ چند ہدایات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"دوسرا یہ امر ملحوظ رہے کہ بعض لوگ اعتکاف کو اپنے بعض احباب اور اصحاب کے ساتھ خلوت کا موقع اور فرصت شمار کرتے ہیں۔چنانچہ ان کے ساتھ دنیا جہاں کی گفتگو میں مگن رہتے ہیں،یہ امر پسندیدہ نہیں ہے۔حق یہ ہے کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مسجد میں کوئی دوسرے کے ساتھ اعتکاف کرے،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے آپ کے ساتھ اعتکاف کیا،یہاں تک کہ ان میں سے ایک زوجہ مطہرہ نے مستخاضہ ہونے کے باوجود بھی آپ کے ساتھ مسجد میں اعتکاف کیا ہے(22)
لیکن ا گر اعتکاف سمر وسہر یا قیل وقال وغیرہ کاموقع ومحل بن کررہ جائے تو یقیناً باعث حرج ہے۔بعض جاہل لوگ جو اعتکاف گاہ کو گپ شپ اور میل ملاقات اور لوگوں سے دنیا جہاں کی گفتگو کرنے کا مقام بنالیتے ہیں ان کی طرف امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
فهذا لون، والاعتكاف النبوى لون". (23)
اعتکاف کی یہ قسم ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ا عتکاف سے یکسر مختلف ہے۔(24)
دنیاوی مشاغل سے اجتناب بھی اعتکاف کا تقاضا ہے!
اگرچہ مولانا ابو طیب شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں:
. ليس للإعتكاف ذكر مخصوص ولا فعل أخر سوى اللبث في المسجد بنية الاعتكاف ولو تكلم بكلام الدنيا اوعمل صتعة من خياطة اوغيرها لم يبطل اعتكافة(25)
"اعتکاف کا کوئی مخصوص ذکر یا مخصوص فعل تو نہیں سوائے اس کے کہ مسجد میں اعتکاف کی نیت سے قیام کیاجائے۔اگر معتکف دنیاوی کلام کرے یا کوئی سلائی وغیرہ کا کام کرے تو اس سے اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگی"
آں رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں:
والجمهور على أنه لا يكره فيه إلا ما يكره في المسجد . وعن مالك : تكره فيه الصنائع والحرف حتى طلب العلم (26)
"جمہور کی رائے یہ ہے کہ ا عتکاف میں وہ سب کچھ مکروہ ہے جو مسجد میں کرنا ناپسندیدہ ہو۔امام مالک اس صنعت وحرفت کو بھی حرام قراردیتے ہیں حتیٰ کہ طلب علم کو بھی"
لیکن امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ مقدسی کا قول ہے
"معتکف کے لیے خریدوفروخت کرناجائز نہیں ہے۔الا یہ کہ اس کے سوا چارہ نہ ہو۔"
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"میں نے امام عبداللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ معتکف نہ کچھ فروخت کرے اور نہ کچھ خریدے الا یہ کہ جو اس کے لیےناگزیر ضرورت ہو مثلا ً کھانا وغیرہ۔جہاں تک تجارت یا لین دین کا تعلق ہے تو ان میں سے کوئی بھی چیز اعتکاف میں جائز نہیں ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:بیچنے،خریدنے ،سلائی کرنے اور جوبات گنا ہ نہ ہو،وہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے"(27)
لیکن ہمارے نزدیک عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے"
باب ماجاء في كراهية البيع والشراء وانشار الضالة والشعر فى المسجد
میں مرفوعاً مروی ہے:
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنْ تَنَاشُدِ الْأَشْعَارِ فِي الْمَسْجِدِ ، وَعَنْ الْبَيْعِ وَالِاشْتِرَاءِ فِيهِ ، وَأَنْ يَتَحَلَّقَ النَّاسُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ . (28)
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں شعروشاعری کرنے،خریدوفروخت کرنے اور جمعہ کے روز نماز سے قبل حلقوں میں بیٹھنے سے منع کیا ہے"۔۔۔ایک اورحدیث میں مروی ہے:
إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ فَقُولُوا لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ (29)
"جب تم کسی آدمی کو مسجد میں خریدوفروخت کرتا ہوا دیکھو تو اسے کہو ککہ اللہ کرے تیری تجارت میں نفع ہی نہ ہو"
اول الذکر حدیث کی شرح میں علامہ عبدالرحمان محدث مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں:
أما البيع والشراء فذهب جمهور العلماء إلى أن النهي محمول على الكراهة، قال العراقي: وقد أجمع العلماء على أن ما عقد من البيع في المسجد لا يجوز نقضه، وهكذا قال الماوردي، وأنت خبير بأن حمل النهي على الكراهة يحتاج إلى قرينة صارفة عن المعنى الحقيقي الذي هو التحريم عند القائلين بأن النهي حقيقة في التحريم، وهو الحق، وإجماعهم على عدم جواز النقض، وصحة العقد لا منافاة بينه وبين التحريم، فلا يصح جعله قرينةً لحمل النهي على الكراهة وذهب بعض اصحاب الشافعي لا يكره البيع والشراء في المسجد والا حاديث ترد عليه انتهي (30)
"جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ اول الذکر حدیث میں وارد ممانعت کراہت پر محمول ہے ۔عراقی کہتے ہیں کہ علماء کا اس امر پر اجماع ہے کہ مسجد میں ہونے والی خریدوفروخت کوتوڑنا جائز نہیں۔یہی بات الماوردی نے بھی کہی ہے۔آپ اس امر کو بخوبی جانتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کو اس کے حقیقی معنی تحریم کی بجائے کراہت پر محمول کرنےکے لیے کسی قرینہ کی ضرورت ہے۔اور حق بات بھی انہی لوگوں کی ہی جو کہتے ہیں کہ نہی درحقیقت تحریم کے لیے ہوتی ہے۔۔۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض شاگردوں کا خیال یہ ہے کہ مسجد میں خریدوفروخت ممنوع نہیں،لیکن احادیث ان کی رائے کی تردید کرتی ہیں۔"
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وقد كره قوم من أهل العلم البيع والشراء فى المسجد وبه يقول أحمد وإسحاق وقد روى عن بعض اهل العلم من التابعين رخصة في البيع والشراء فى المسجد.....الخ (31)
آں رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
والعمل على هذا عند بعض أهل العلم، كرهوا أن يبيع أو يبتاع فى المسجد، وإليه ذهب أحمد وإسحاق وقدر خص بعض ا هل العلم فى البيع والشراء فى المسجد (32)
"اہل علم کی ایک جماعت نے مسجد میں یع وشراء کو ناپسند گردانا ہے۔یہی امام احمد اوراسحاق کا قول ہے جبکہ تابعین میں بعض اہل علم سے مسجد میں خریدوفروخت کی رخصت بھی منقول ہے"
لیکن شارح ترمذی مولانا مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا"جمہور علماء کا قول ہی حق ہے"یعنی یہ کہ نہی کراہت پرمحمول ہے۔جہاں تک تابعین میں سے بعض اہل علم حضرات سے اس کی رخصت منقول ہونے کاتعلق ہے تو"بعض کا یہ قول کسی صحیح دلیل پر قائم نہیں ہے بلکہ اس باب کی احادیث اس قول کی تردید کرتی ہیں۔(33)
آں رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پرفرماتے ہیں:
"اس بارے میں رخصت پردلالت کرنے والی کسی دلیل سے میں واقف نہیں ہوں بلکہ اس باب میں وارد احادیث ان لوگوں پر حجت ہیں جو رخصت کے قائل ہیں"(34)
اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
والحديثان يدلان على تحريم البيع والشراء وإنشاد الضالة وإنشاد الأشعار (35)
"دونوں حدیثیں بیع وشراء کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں اور گمشدہ چیز کے اعلان اور اشعار پڑھنے کی حرمت پر بھی"اور مروی ہے کہ:
ورأى عمران القصير رجلا يبيع في المسجد ، فقال : يا هذا ، إن هذا سوق الآخرة ، فإن أردت البيع فاخرج إلى سوق الدنيا (36)
عمران القصیر نے ایک شخص کو مسجد میں کچھ فروخت کرتےہوئے دیکھا توع اسے کہا کہ اے فلاں! یہ آخرت کا بازار ہے،اگر تجھے دنیا کی کمائی کرناہے تو دنیا کے بازار میں جا!"
ان احادیث وآثار اور مشاہیر علماء کرام کی تصریحات کی روشنی میں راقم کہتا ہے کہ ہر وہ کام جو کمائی کا باعث ہو اور اسے دستکاری قرار دیا جاسکتا ہومثلاً جلد سازی،خیاطی،بڑھئی گیری اور معماری وغیرہ،تو وہ میری رائے میں خریدوفروخت کے ہی حکم میں ہے،چنانچہ امام ابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"جب مسجد میں خریدوفروخت عام حالت میں منع ہے تواعتکاف کی حالت میں اس کا منع ہونااولیٰ ہوا۔جہاں تک دستکاری یا صنعت کاری کا تعلق ہے تو علامہ خرقی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے ظاہر ہے کہ:اس سے کمائی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بھی بمنزلہ بیع وشراء کے تجارت کے حکم میں ہے۔لیکن اگر کوئی شخص اپنا کوئی ذاتی کام کرلے تو اسکے لیے جائز ہے:مثلاً قمیص وغیرہ(میں بٹن ٹانکنا یاادھڑ جانے یاپھٹ جانے پراسے سینا،اس میں پیوند لگانا وغیرہ)
امام مروزی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:
"میں نے ابو عبداللہ سے معتکف کے بارے میں سوال کیا کہ اگر کوئی اعتکاف میں بیٹھ کر (اُجرت پر) سلائی کرے تو اس بارے میں آپ کی کیارائے ہے؟فرمایا:اگر وہ یہ کام کرنا چاہتاہے تو اسے چاہیے کہ اعتکاف ہی میں نہ بیٹھے۔قاضی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ مسجد میں خیانت جائز نہیں ہے خواہ وہ اس کا محتاج ہویا نہ ہو،خواہ کم کرے یازیادہ کیونکہ اس کا تعلق معیشت سے ہے اور یہ چیز اعتکاف سے توجہ کو دوسری طرف الجھا دیتی ہے۔آپ نے اسے بیع وشراء کے مشابہ قرار دیا ہے۔اولیٰ تر بات یہ ہے کہ جسے اس کی تھوڑی بہت ضرورت پیش آجائے تو اس کے لیے ایسا کرنامباح ہے مثلاً اگر قمیص پھٹ جائے تو سی لے یا اگر کوئی چیز ٹانکنی ہو تو اسے ٹانک لے،کیونکہ یہ تھوڑا سا کام ہے اور ضرورت اس کی متقاضی ہے۔۔۔الخ"(37)
جہاں تک اعتکاف کی حالت میں بچوں کو پڑھانے کا تعلق ہے تو اس بارے میں امام ابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"جہاں تک قرآن پڑھانے،علم کی درس وتدریس،فقہاء کے مناظرہ اور ان کی مجالست، حدیث کی کتابت وغیرہ کاتعلق ہے کہ جن کافائدہ عام ہوتا ہے تو اس بارے میں ہمارے اکثر اصحاب کا قول ہے کہ ایسا کرنا غیر مستحب ہے۔امام احمد کاظاہر کلام بھی یہی ہے ابو الحسن الاآمدی کا قول ہے کہ اس کے استحباب کے متعلق دو روایتیں آئی ہیں:ابو خطاب نے اس کامستحب ہونا پسند کیا ہے جبکہ اس کا قصد مباہات کی بجائے اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے کیونکہ وہ اسے !افضل العبادات قرار دیتے ہیں اور اس کا نفع عام ہوتا ہے۔لہذا یہی اولیٰ ہے کہ نماز کی طرح اس کو بھی نہ چھوڑا جائے۔ہمارے اصحاب نے اپنے موقف پر اس بات سے دلیل لی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب معتکف ہوتے تھے تو مخصوص عبادات کے سواکسی د وسرے کا م کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے کیونکہ اعتکاف وہ عبادت ہے۔جس کے لیے مسجد کا ہونا شرط ہے لہذا اس میں طواف وغیرہ مستحب نہیں ہے۔"(38)
آذں رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
"امام مروزی فرماتے ہیں:میں نے ابو عبداللہ سے پوچھا کہ ایک شخص ہے جو مسجد میں پڑھاتا ہے لیکن یہ بھی چاہتا ہےکہ اعتکاف کرے اور ہر روز اس میں ایک قرآن ختم کرے؟آپ نے فرمایا:اگر اس نے اعتکاف کیا تو اس نے صر ف اپنے لیے کیا لیکن اگر مسجد میں درس کے لیے بیٹھا تو یہ چیز اس کے لیے اور ساتھ ہی دوسروں کے لیے بھی نفع بخش ہے۔میرے نزدیک اس کا پڑھانا زیادہ پسندیدہ ہے۔اسی طرح کسی شخص نے سوال کیا کہ آپ کے نزدیک اعتکاف اور عبادان نامی جگہ کے لیے خروج میں سے کون سا امر زیادہ پسندیدہ ہے؟آپ نے جواب دیا:ان میں کوئی برابری نہیں،میرے نزدیک جہاد ایک عظیم شے ہے یعنی عبادان کے لیے خروج اعتکاف سے افضل تر ہے"(39)
علامہ محمد بن صالح عثمین حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"اعتکاف اس مقصد کے لیے ہونا چاہیے جس کے لیے کہ اسے مشروع قرار دیا گیا ہے ۔وہ مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ سبحان وتعالیٰ کی اطاعت کے لیے مسجد میں قیام کی اس طرح پابندی کرلے کہ خود کو دنیاوی اعمال سے اللہ کی اطاعت کے لیے فارغ کرلے اور تمام دنیاوی امور سے دوری اختیاری کرتے ہوئے نماز وذکر وغیرہ جیسی اطاعت کی اقسام کا اہی اہتمام کرے"(40)
"معتکف دنیاوی اعمال سے ددر رہے۔نہ خریدوفروخت کرے،نہ مسجد سے باہر نکلے،نہ جنازہ کے پیچھے جائے اور نہ مریض کی عیادت کرے۔بعض لوگ جو ایسا کرتے ہیں کہ وہ معتکف ہوتے ہیں،اس کے باوجود ان کے پاس رات دن کے مختلف حصوں میں ملنے والے لوگ آتے رہتے ہیں اور اس معتکف کےلیے اپنی ناجائز گفتگو سے خلل کا باعث بنتے ہیں۔یہ عمل اعتکاف کے مقصد کے منافی ہے۔لیکن اگر اس کے گھر والوں میں سے کوئی فرد اس کی زیارت کرے اور اس کے پاس بیٹھ کرکچھ دیر گفتگو کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،چنانچہ مروی ہے کہ حضرت صفیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی جبکہ آ پ معتکف تھے اور آپ سے گفتگو بھی کی تھی۔اہم چیزیہ ہے کہ انسان اپنے اعتکاف کو اللہ سبحانہ کے تقرب کے لیے خاص کرے"(41)
جہاں تک معتکف کا تمام اہل خاندان کے ساتھ کسی تقریب کے مثل مسجد میں ہی جمع ہوکر اجتماعی طور پر کھانے پینے کاتعلق ہے یا اہل خاندان کے درمیان دیر تک گھرے بیٹھے رہنے اور ان سے دنیا جہاں کی گپ شپ کرنے یا بچوں کے ساتھ پیار ومحبت میں مشغول رہنے یا انہیں ا پنے ہاتھوں سے کھلانے پلانے(یا ان کو بہلانے ،نہانےاورسلانے) وغیرہ کا تعلق ہے تو ان چیزوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس شخص نے معتکف میں بھی گویا ا پنے گھر جیسا ہی ماحول بنا رکھا ہے۔بظاہر اس کے گھر اور معتکف میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا ہے۔اگرچہ یہ تمام افعال عام حالات میں مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مباح ہیں مگر حالت اعتکاف میں یقیناً ناپسندیدہ بلکہ مقصد اعتکاف کے صریح خلاف ہیں۔یہاں میں اس واقعہ کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خیموں کو دیکھ کر انہیں اکھاڑنے کا حکم دیاتھا۔حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے آلبر ترون۔۔۔والی اس حدیث کے مختلف اسباب بیان کرتے ہوئے دیگر احتمالات کے ساتھ یہ احتمال بھی بیان کیا ہے کہ آں صلی اللہ علیہ وسلم کے گردان ازواج مطہرات کے اجتماع سے ایساماحول پیدا ہوجاتا گیا کہ آپ گھر ہی میں تشریف فرما ہیں ،چنانچہ لکھتے ہیں:
أو بالنسبة إلى أن اجتماع النسوة عنده يصيره كالجالس في بيته ، وربما شغلنه عن التخلي لما قصد من العبادة فيفوت مقصود الاعتكاف . (42)
اس کام کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ازواج مطہرات کا آپ کے گرد جمع ہونا آپ کے لیے گھر ایسا ماحول پیدا کردیتا اور شاید کہ ہو آپ کو اس علیحدگی سے مشغول کرلیتیں جو اس عبادت سے مقصود ہے،اس طرح اعتکاف کا مقصد ہی فوت ہوجاتا"
لہذا ضرورت ہے کہ اس معاملہ میں افراط وتفریط سے احتراز کیاجائے، جہاں تک مسجد میں ایک سے زیادہ افراد کے افطاری لانے کا تعلق ہے۔تو بظاہر اس میں بھی کوئی امر مانع نہیں آتا لیکن جب ہم صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ،تابعین رحمۃ اللہ علیہ اور اتباع تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں ان کے عمل کو تلاش کرتے ہیں تو مسجد میں نہ توافطاری لانے والوں کی تعداد کی کوئی تحدید نظر آتی ہے اور نہ ہی ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ خاندان کےتمام افراد معتکف کے پاس افطاری لے کرحاضر ہوتے ہوں۔ البتہ راقم مصنف عبدالرزاق ،ابن اسحاق،ابن ابی شیبہ اور سنن الکبریٰ للبیہقی سے کم از کم ایک ایک واقعہ ضرور درج کرتا ہے جس میں مذکور ہے کہ"میں نے اپنے فلاں بھائی کے لیے افطاری کا سامان لے کر مسجد جارہاتھا کہ راستہ میں مجھے ابن سیرین ملے۔۔۔"ایک روایت میں تھا کہ"کوئی خاتون اپنے شوہر کے لیے مسجد کھانا لے کر جارہی تھی کہ کوئی سائل کھانا مانگنے لگا۔۔۔"اور ایک روایت میں مذکور تھا کہ" میں شام کی جامع مسجد میں معتکف تھا،فلاں شخص بلاناغہ میرے پاس افطاری لایا کرتاتھا۔۔۔"ان واقعات سے کسی فرد واحد کامعتکف تک کھانا پہنچانا بصراحت معلوم ہوتا ہے،چنانچہ پسندیدہ اور مناسب صورت یہی ہے کہ ضرورتاً گھر سے کوئی ایک فرد یا بچہ معتکف کی افطاری پہنچا دے اور خواہ مخواہ وہاں ہجوم لگانے سے احتراز کرے۔۔۔فی الوقت انہی دلائل اور واقعات پر اکتفا کرتا ہوں۔
مسجد کی حفاظت سے متعلق بعض گزارشات:۔
جہاں تک مسجد میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو لانے کا تعلق ہے تو اس کے جواز پر متعدد صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں لیکن ان کے وہاں جمع ہونے،وہاں شوروغل مچانے اور نمازیوں یا دوسرے معتکف حضرات کےلیے خلل اور تشویش کا باعث بننے کا سوال ہے تو اس بارے میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اللہ نے نہایت واضح الفاظ میں تحریر فرمایا ہے کہ(43)
"مسجد کو ہر اس چیز سے محفوظ رکھا جائے جو اس کے لیے اور اس میں نماز پڑھنے والوں کے لیے اذیت کاباعث بنے ،خواہ وہ مسجد میں چھوٹے بچوں کا آواز بلندکرنا ہویاوہاں ان کی چیخ وپکار یا اسی طرح کی کوئی اور چیز ہی ہو،بالخصوص جبکہ نماز کا وقت ہو کیونکہ یہ چیز عظیم تر منکرات میں سے ہے"
شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر مزید فرماتے ہیں:
"کسی کے لیے اہل مسجد میں سے کسی کو اذیت پہنچانا جائز نہیں ہے،خواہ وہ نمازی ہو یا تلاوت کرنے والے یا ذکر دعا یا ایسے کاموں میں مشغول لوگ کہ جن کے لیے مساجد کو بنایا جاتا ہے۔لہذا کوئی بھی ایسا شخص ایسا کوئی کام نہ کرے جو ان لوگوں کے لیے باعث خلل وتشویش ہو ،نہ مسجد کے اندر،نہ مسجد کے دروازہ پر اور نہ ہی مسجد کے آس پاس بلکہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس پہنچے جو نماز پڑھ رہے تھے اور باآواز بلند قراءت کررہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:"
يا أيها الناس كلكم يناجي ربه فلا يجهر بعضكم على بعض بالقراءة (44)
"اے لوگو!تم سب اپنے رب سے مناجات کررہے ہو لہذا تم میں سے بعض بعض پر زور سے قراءت نہ کرے"
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو دوسرے نمازیوں پرزور سے قر اءت کرنے سے منع فرمایا تھا تو جوایسا نہ کررہا ہو اس کے لیے کیوں کر جائز ہوگا؟جو کوئی ایسا فعل کرے کہ جس سے اہل مسجد کو خلل یا تشویش ہو یا اس میں مدد یا اضافہ کاسبب بنے تو اسے اس چیز سے منع کیاجائے گا۔واللہ اعلم(45)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اول الذکر فتویٰ سے استفادہ کرتے ہوئے شیخ عبدالرحمان اللعبون حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"لیکن جو بچے اتنے چھوٹے اور نا سمجھ ہوں کہ انہیں مسجد کی حرمت کاادراک نہ ہو اور نہ وہ منضبط ہوں تو ان کی مسجد میں آنے سے روکنا واجب ہے"(46)
یہاں کوئی اس غلط فہمی میں ہرگز نہ پڑے کہ راقم یا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے فتویٰ کامدار اس روایت پر ہے:
جنبوا مساجدكم صبيانكم ، ومجانينكم ، وشراءكم ، وبيعكم ، وخصوماتكم ، ورفع أصواتكم ، وإقامة حدودكم ، وسل سيوفكم ، (47)
"اپنی مسجدوں کو اپنے بچیوں ،بیوقوفوں ،شریر لوگوں،سودے بازیوں،جھگڑوں ،اونچی آوازوں،حدود اللہ کو قائم کرنے اور تلواریں سونتنے سے بچاؤ۔۔۔"
کیونکہ یہ روایت اگرچہ مختلف اسانید کے ساتھ وارد ہے لیکن ان طرق میں سے کوئی بھی ایسا طریق نہیں ہے جو ضعف سے خالی ہو۔لہذا باتفاق محدثین یہ حدیث ضعیف اور ناقابل حجت ہے،بلکہ امام بزار اور عبدالحق اشبیلی رحمۃ اللہ علیہ ن نے تو اسے بے اصل(لااصل لہ) تک کہا ہے۔اس کے جملہ طرق اور ان کے راویوں کے کوائف پر بحث کرنا یہاں بے محل ہوگا لہذا صرف یہ لکھنے پر اکتفا کرتے ہوں کہ اس حدیث کو ضعیف قراردینے والے محدثین میں اما م عقیلی،امام بزار،امام ابن جوزی،حافظ نور الدین سہودی،امام ہثیمی،امام ا بن حجر عسقلانی،امام بخاری ،امام ابن عمر شیبانی،امام منذری ،امام شوکانی ،امام عجلونی،ملا علی قاری،علامہ بوصیری،علامہ عبدالحق اشبیلی،علامہ حوت بیروتی اورعلامہ محمد ناصر الدین البانی وغیرہم کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔(48)
یہاں ایک اور چیز واضح کردوں کہ بچوں کے مسجد میں داخلے کے جواز پر دلالت کرنے والی صحیح روایات میں سے مندرجہ ذیل روایتیں بہت شدومدکے ساتھ پیش کی جاتی ہیں:
"سكن شداد المدينة ثم تحول إلى الكوفة , ومن روايته للحديث عن عبد الله بن شداد بن الهاد عن أبيه أنه قال خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فيإحدى صلاتي العشي الظهر أو العصر وهو حامل أحد ابني ابنته الحسن أو الحسين، فتقدم النبي صلى الله عليه وسلم، فوضعه عند قدمه اليمنى ثم كبر للصلاة فصلى فسجد بين ظهراني صلاته سجدة فأطالها فرفعت رأسي من بين الناس فإذا النبي صلى الله عليه وسلم ساجد وإذا الصبي على ظهره فرجعت في سجودي فلما قيل يا رسول الله لقد سجدت سجدة أطلتها فظننا أنه قد حدث أمر أو كان يوحى إليك قال كل ذلك لم يكن ولكن ابني ارتحلني فكرهت أن أعجله" (49)
"شداد بن ہاد سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بارعشاء کی نماز میں نکلے اور آ پ نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اٹھایا ہواتھا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور انہیں نیچے بٹھا کر نماز کے لیے تکبیر کہی اور نماز پڑھائی۔اپنی نماز کے درمیانی سجدے میں آ پ نے ایک سجدے کو خوب لمبا کردیا۔راوی کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ بچہ(حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ یاحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر پر سوار تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جھکے ہوئے تھے۔میں(دوبارہ) اپنے سجدے کی طرف متوجہ ہوگیا۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ختم کرچکے تو لوگوں نے کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کے دوران ایک سجدے کو اس قدر لمبا کردیاکہ ہمیں گمان گزرا کہ کوئی اہم بات ہوگئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہورہی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایسا کچھ بھی نہیں ہوا،لیکن میرا نواسہ مجھ پر چڑھ گیا اور میں نے ناپسند کیا کہ میں جلدی کروں،تاکہ وہ اپنا شوق پورا کرلے"
2۔كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فإذا سجد وثب الحسن والحسين على ظهره ، فإذا أرادوا أن يمنعوهما أشار إليهم أن دعوهما . فإذا قضى الصلاة وضعهما في حجره وقال : من أحبني فليبحب هذين (50)
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے،جب سجدہ میں جاتے تو حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ پ کی پیٹھ پر چڑھ جاتے۔جب صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے انہیں روکنا چاہاتو آپ نے اشارہ کیا کہ ان کو چھوڑدو،جب نماز پوری کرچکے تو ان کواپنی گود میں بٹھا لیا اور فرمایا:جو مجھ سے محبت کادم بھرتاہے وہ ان دونوں سے بھی محبت کرے"
3۔وعن أبي قتادة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وهو حامل أمامة بنت زينب ، فإذا سجد وضعها، وإذا قام حملها. متفق عليه، (51)
"ابو قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرمایا کرتے اس حال میں کہ آپ نے امامہ(بنت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابو العاص بن ربیع کی بیٹی) کو اٹھایا ہوتا۔جب آپ قیام کرتے تو اس کو اٹھالیتے،جب سجدہ میں جاتے تو اس کو(زمین پر) بٹھا دیتے"
مگر حق تو یہ ہے کہ ان تینوں روایتوں میں سے کسی روایت سے بھی یہ ثابت کرنا ناممکن ہے کہ امامہ یاحسن وحسین رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کسی نے بھی مسجد میں شوروغل مچایا ہویا وہ اپنی چیخ وپکار سے نمازیوں کے لیے باعث خلل وتشویش بنے ہوں۔لہذاصرف مسجد میں بچوں کے لانے پر اعتراض نہیں بلکہ وہاں ان کی چیخ وپکار اور شوروغل کو روکنا اور انہیں مسجد کی حفاظت وحرمت سے متعلق آداب سکھانا مقصود ہے۔
اعتکاف کاثواب:۔
اگرچہ اعتکاف ان اعمال سے ہے جو تقرب الٰہی کے حصول کے لیے کئے جاتے ہیں لیکن اس کے فضائل یا اجروثواب کے بارے میں کوئی صحیح احادیث وارد نہیں ہے ۔اس بارے میں جو کچھ وارد ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا پھر موضوع۔امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ"میں نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ: کیا آپ اعتکاف کی فضیلت کے بارے میں کوئی چیز جانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
"نہیں،سوائے چند ضعیف روایات کے"(52)
ان ضعیف روایات میں سے ایک حدیث وہ ہے جو ابن ماجہ نے یوں روایت کی ہے:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «أَنَّهُ قَالَ فِي الْمُعْتَكِفِ: هُوَ يَعْكُفُ الذُّنُوبَ، وَيُجْرَى لَهُ مِنْ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَات كُلِّهَا» (53)
"اعتکاف کرنے والا ایک طرف تو گناہوں سے بچا رہتا ہے اور دوسری طرف اس عمل کی جزا کے طور پر اسے اتنی نیکیاں ملتی ہیں جتنی ساری کی ساری نیکیاں کرنے والوں کو مل سکتی ہیں"
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔اس کی اسناد میں ایک راوی فرقد السنجی ہے جوصدوق عابد مگر لین الحدیث اور کثیر الخطاء تھا۔امام نسائی اور دارقطنی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ایوب فرماتے ہیں:
لیس بشئی امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:"
"كانت فيه غفلة ورداءة حفظ فكان يرفع المرسل وهو لا يعلم ويسند الوقوف من حديث لا يفهم فبطل الاحتجاج به"
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ"وہ صالح مرد تھا لیکن حدیث کے معاملہ میں قوی نہ تھا"امام عجلی رحمۃ اللہ علیہ نے اس میں کوئی حرج نہیں بتایا ہے اور یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے لیکن حق یہ ہے کہ وہ ضعیف تھا۔(53)
علامہ محمد ناصر الدین البانی حفظہ اللہ نے بھی سنن ابن ماجہ کی اس حدیث کو"ضعیف" قرار دیا ہے۔(55)
اس سلسلہ کی دوسری روایت قطعاً من گھڑت(موضوع) ہے اور ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے:
من اعتكف عشرا في رمضان كان كحجتين وعمرتين(54)
یعنی جس نے رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا تو گویا وہ دوحج اور دو عمروں کے(ثواب) جیسا ہے صد افسوس کہ تبلیغی جماعت کے سرخیل جناب محمد زکریا کاندھلوی صاحب نے اس حدیث کو بایں الفاظ نقل کیا ہے:
"علامہ شعرانی نے کشف الغمۃ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے جو شخص عشرہ رمضان کا اعتکاف کرے ،اس کو دو حج اور دو عمروں کا اجر ہے۔۔۔۔الخ"(57)
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں راقم کا مضمون؛"کیا اعتکاف کا ثواب دو حج اور دو عمروں کے مساوی ہے؟"طبع در جریدہ"ترجمان"دہلی مجریہ 13 اپریل 1991ء اور ضمیمہ کتاب"روزہ" وغیرہ(58)
اس کے باوجود ہمارے علم میں نہیں ہے کہ اس بارے میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف موجود ہو کہ اعتکاف مسنون ہے اور اس سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے میں ایک اضافی فائدہ یہ ہے کہ اس سے اللہ عزوجل کی اطاعت کے لیے نفس کی تربیت ہوتی ہے جس کی آج عام مسلمانوں کو شدید حاجت ہے۔لہذا مسلمانوں کو اس سنت پرعمل اور اس کو زندہ کرنے میں سقت کرنی چاہیے اور اپنے اہل وعیال،بھائی بہنوں،عزیزواقارب اور دوست احباب میں اسے عام کرنے کی سعی کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ عزوجل اس کا اور اس پر عمل کرنے والوں کااجر دے گا،ان شاء اللہ۔
کثیر بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے ،فرماتے ہیں:۔
"أن النبى صلى الله عليه وسلم قال لبلال بن الحارث اعلم قال ما أعلم يا رسول الله قال اعلم ... الله قال إنه من أحيا سنة من سنتي قد أميتت بعدي فإن له من الأجر مثل من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئا" (59)
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال بن حارث کو فرمایا کہ جان لو بلال کہنے لگے:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ نے جواب دیا۔ جس نے کسی میری سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مٹ گئی تھی تو اس کے لیے اس سنت پر عمل کرنے والوں کے برابراجر ہے،جبکہ عمل کرنے والوں کے اجر میں اس سے کوئی کمی واقع نہ ہوگی"
حاشیہ جات:۔
1۔شرح السنہ ج2 ص391۔
2۔المغنی ۔ج32۔ص 183۔
3۔کذا فی عون المعبود ج2۔ص 307۔
4۔نیل الاوطار ج3 ص221۔
5۔فتح الباری ج4 ص271۔وتحفۃ الاحوذی ج2 ص68۔
6۔الاسئلۃ والاجوبۃ الفقیۃ ج2 ص183۔
7۔ موارد الظمان لدروس الزمان ج1 ص382۔
8۔زاد المعاد فی ھد خیر العباد ج1 ص 355۔357۔ملخصاً
9۔رواہ البخاری نمبر 52 ومسلم نمبر 1599۔
10۔دروس رمضان ص77۔
11۔کتاب روزہ ص91۔
12۔رواہ البخاری نمبر 1830 ومسلم نمبر 175۔والدارمی ج1 ص453۔
13۔ہدایۃ المجتھد ج1 ص 312۔313۔
14۔کتاب روزہ ص101۔
15۔صحیح البخاری مع فتح الباری ج4 ص282۔
16۔کذافی فتح الباری ج4 ص279۔
17۔فتح الباری ج4 ص280۔
18۔مغنی ج3 ص203۔204۔
19۔مجموع الفتاویٰ ج22ص200۔
20۔الاسئلۃ والاجوبۃ الفقیھۃ ج2 ص190۔
21۔موارد الظمان لدروس الزمان ج1 ص385۔
22۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے:"
(عربی) صحیح البخاری مع فتح الباری ج4 ص281۔
23۔زاد المعاد ج2 ص90۔
24۔دروس رمضان ص 83۔84
25۔ عون المعبود ج2 ص307۔
26۔عون المعبود ج2 ص 309 ونیل الاوطار ج3 ص223۔
27۔المغنی ج3 ص203۔
28۔رواہ الترمذی مع التحفۃ ج1 ص266۔272۔وابوداود نمبر 1079۔والنسائی ج2 ص47 وابن ماجہ نمبر 749 واحمد،ج2 ص 178۔وحسنہ الترمذی وصححہ ابن خذیمہ وقال الحافظ فی الفتح واسنادہ صحیح الی عمرو بن شعیب (کذافی النیل ج1 ص704۔
29۔اخرجہ الترمذی فی البیوع(مع التحفۃ ج2 ص274 ) والدارمی ج1 ص347 وابن خذیمہ فی صحیحہ ج1 اص 141 وابن حبان فی صحیحہ نمبر 312۔ و غیرہ
30۔تحفۃ الاحوذی ج1 ص266۔267۔نیل الاوطار ج1 ص705۔
31۔جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج1 ص216۔267۔
32۔نفس مصدر۔ج2 ص274۔
33۔نفس مصدر ج1 ص267۔
34۔نفس مصدر ج2 ص274۔
35۔نیل الاوطار ج1 ص 705۔
36۔37۔المغنی ج3 ص203۔
38۔39۔نفس مصدر ج3 س204۔
40۔فقہ العبادات ص267۔
41۔نفس مصدر ص267۔
42۔فتح الباری ج4 ص26 7۔
43۔مجموع الفتاویٰ ج22 ص204۔
44۔چنانچہ حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بسند صحیح مروی ہے،فرماتے ہیں:
((اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فَسَمِعَهُمْ يَجْهَرُونَ بِالْقِرَاءَةِ فَكَشَفَ ... ((أَلَا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَلَا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي ا لقراءة او قال في الصلاة(سنن بو داود مع العون ج1 ص 510)
45۔مجموع فتاویٰ ج22 ص205۔
46۔من اجل مسجد فاعل ،ص66۔
47۔سنن نسائی نمبر 750۔طبرانی کبیر ج 8 ص 156 مصنف عبدالرزاق ج1 ص441۔442۔تفسیر قرطبی ،ج12 ص 270 الجامع الصغیر نمبر3601 کنزالمعال ج1 ص316۔
48۔الفوائد المجوعۃ ص25 الضعفاء الکبیر ج3 ص 348۔فتح الباری ج 13 ص157 الاجوبہ النافعۃ ص63 مجمع الزوائد ج2 ص205۔206۔تمیز الطیب من الخبیث ص75۔المقاصد الحسنۃ ص176۔175۔کشف الخفاء ج1 ص400۔وغیرہ
49۔سنن النسائی مع تعلیقات سلفیہ ج1 ص141ابن عساکر ج4 ص257۔مسند احمد ج3 ص494۔ج6 ص467۔والحاکم وصححہ ووافقہ الذہبی۔
50۔صحیح ابن خذیمہ نمبر 887۔والبیہقی
51۔رواہ البخاری مع الفتح ج1 ص590۔ومسلم نمبر 543۔وابوداد(مع العون ج1 س 344۔345) والنسائی (مع التعلیقات ج1 ص83) واحمد ج5 ص 295۔وغیرہ
52۔الغنی ج3 ص183۔
53۔سنن ابن ماجہ نمبر 1781۔
54۔تاریخ ابن معین ۔ج3 ص513 ج4 ص44۔95۔علل لابن حنبل ج1 ص123۔التاریخ الکبیر للبخاری ج4،ص 131۔التاریخ الصغیر للبخاری نمبر 94 الضعفاء الصغیرالبخاری نمبر 298۔الضعفاءالکبیر العقیلی ج3 ص485۔وغیرہ
55۔مشکواۃ نمبر2108۔ضعیف ابن ماجہ ص137 التعلیق علی ابن ماجہ فی ضعیف الجامع نمبر 5940۔
56۔معجم الکبریٰ للطبرانی ج 1 ص 292۔ مشخیہ للانباری ج1ص 162۔
57۔تبلیغی نصاب ص 491۔ طبع ملتان(فضائل رمضان فصل ثالث)
58۔کتاب روزہ ص 176۔183۔
59۔اخرجہ الترمذی وحسنہ وقال الالبانی ایضاً۔یذا حدیث حسن فی ضعیف سنن الترمذی 31 7۔تخریج النسہ لابن ابی عاصم نمبر 42 المشکوۃ نمبر 1683۔ضعیف الجامع الصغیر نمبر 965۔ وضعیف سنن ابن ماجہ ص15۔