رمضان البارک کا مقصد... اللہ کا تقویٰ

لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ!


"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ "
(اے ایمان والو!تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ)
اللہ تعالیٰ نے انسان میں خیر و شر دونوں کی صلاحیت رکھی ہے اور ہر شخص اپنے اپنے دائرہ اختیار میں اپنے انداز فکر کے مطابق دونوں میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کرتا ہے بلکہ مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اکثر لوگوں میں خیر و شر دونوں جمع ہوتے ہیں جو شخص خیر کی راہ اپنا تا ہے اس سے بھی فطری تقاضوں اور بشری کمزوریوں کی بنا پر بہت سی غلطیاں اور لغزشیں سر زد ہو جاتی ہیں اور جو شخص برائی کی راہ اختیار کرتا ہے تو وہ بھی بہت سے مواقع پر اچھے کام کر ڈالتا ہے۔
اگر غور کیا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ انسان کی دوایسی فطری ضرورتیں ہیں جن کی تہ سے بیشتر برائیاں پھوٹتی ہیں۔ایک پیٹ دوسرے شرمگاہ ۔۔۔پیٹ پالنے کا مسئلہ انسان کے لیے بڑا کٹھن ہے اور جب انسان اس ضرورت سے نمٹنے کے لیے صحیح غلط اور حلال و حرام کی تمیز اٹھا دیتا ہے تو ایسی گونا گوں برائیوں میں ملوث ہو جاتا ہے جن کا شمار مشکل ہے۔ اسی طرح جب وہ خواہش نفس کی تکمیل کے چکرمیں جائز حدودکوتوڑ دیتا ہے تو عیاشی اور فحاشی میں مبتلا ہو کر اس راہ کی ہزاروں لعنتوں میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پیٹ اور شرمگاہ کی کمزوری عام انسانوں کے اندر پائی جانے والی تقریباً تمام برائیوں کا سر چشمہ ہے اگر انسان اپنی دودنوں پر قابوپالے ۔اور ان کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جائز اور حلال حدود سے قدم آگے نہ بڑھا ئے توپھر وہ کسی اہم گناہ میں ملوث نہیں ہو سکتا ۔اور اگر ہو بھی جائے  تو بہت جلد تو بہ وانابت اور استغفار کے ذریعہ اپنے آپ کو پاک و صاف کر لے گا۔۔۔لیکن اگر دونوں کمزوریوں پر قابونہیں پاتا تو گناہوں اور جرائم  کی دلدل سے نکلنا اس کے لیے سخت مشکل ہو گا۔ اسی لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے۔
"مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ"
"جو شخص مجھے دونوں داڑھ اور دونوں ران کے درمیان کی یعنی منہ اور شرمگاہ کی حفاظت کی گارنٹی دے میں اسے جنت کی گارنٹی دیتا ہوں"
روزے کا یہ پہلو خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ روزہ دار کھانے پینے اور بیوی کے پاس جانے کے مکمل طور پر پرہیز کرتا ہے ۔یعنی روزے دار کے پاس حلال کمائی سے حاصل کی ہوئی حلال خوراک موجود ہوتی ہے۔ جائز طریقے سے حاصل کیا ہوا پانی موجود ہوتا ہے صحیح طریقے سے نکاح میں لائی ہوئی بیوی موجود ہوتی ہے اور مقاربت کے مواقع بھی حاصل ہوتے ہیں۔لیکن وہ بھوک کے باوجود کھانا نہیں کھاتا ۔
پیس کے باوجود پانی نہیں پیتا۔ اور خواہش کے باوجود بیوی کے پاس نہیں جاتا۔ یہ بھی معلوم ہے کہ وہ یہ پابندی نہ کسی مجبوری کی بنا پر اختیار کرتا ہے نہ دنیوی فائدہ حاصل کرنے کے لیے بلکہ اس پابندی کواختیار کر کے اسے کچھ نہ کچھ دنیوی فائدے کی قربانی ہی دینی پڑتی ہے۔پھر وہ پابندی کیوں اختیار کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ محض اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے گویا وہ زبان حال سے اس بات کا اقرار اور عہد کرتا ہے اور عمل سے اس کا ثبوت بھی دیتا ہے کہ اگر اللہ کی رضا اس میں ہے کہ میں اپنی حلال کمائی بھی نہ کھاؤں پیوں اور اپنی جائز منکوحہ بیوی کے پاس بھی نہ جاؤں تو میں ایسا ہی کروں گا۔
یہ روزے کا وہ مقصد ہے جو بالکل بد یہی ہے اور جس کا شعور ہر روزے دار کوہونا چاہئے اب غور کیجئے !ایک شخص جو محض رضائے الٰہی کی طلب میں اس حد تک آگے جاسکتا ہے کہ اپنی حلال کمائی کی خوراک تج کر اپنے اختیار سے بھوک پیاس کی سختیاں جھیلے کیا وہ کسی دوسرے وقت اس سطح پر بھی اتر سکتا ہے کہ رضائے الٰہی سے بالکل بے نیاز ہو کر حرام کمائی کمائے اور حرام خوراک کھائے ۔اسی طرح کیا کوئی انسان رضائے الٰہی کی طلب میں خواہش  اور موقع کے باوجود اپنی منکوحہ بیوی سے دور رہتا ہو۔ کیا اس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ دوسرے اوقات میں اپنی ہوس نفس کی تکمیل کے لیے حلال و حرام کی تمیز ختم کردے گا؟ ظاہر بات ہے کہ کوئی انسان جو عقل و شعور رکھتا ہو۔ اس سے ایسی توقع ہر گز نہیں کی جاسکتی ہے ایسی متضاد حرکتیں تو وہی کرسکتا ہے جو (؟)حدیث جانور کے مثل ہو۔
"كالبعير عقله أهله لا يدرى لم عقلوه، ثم أرسلوه لا يدرى لم أرسلوه" 
یعنی "منافق اس اونٹ کے طرح ہوتا ہے جسے نہیں معلوم کہ اس مالک نے کیوں باندھا اور کیوں کھول دیا؟"
خلاصہ یہ کہ روزہ خالص عبادت الٰہی ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کی تربیت بھی ہے کہ انسان اپنے پیٹ کے تقاضوں اور اپنے نفس کی خواہشات کو اپنے قابو اور کنٹرول میں رکھے اور اس کی تکمیل میں حدود الٰہی سے باہر قدم نہ رکھے ۔اب چونکہ یہی دونوں چیزیں ساری برائیوں کی جڑاور ساری خرابیوں کا سر چشمہ ہے اور ان پر قابو حاصل کر لینے سے ساری برائیوں اور خرابیوں پر کنٹرول ہو جا تا ہے۔اس لیے روزے کو تقویٰ کا ذریعہ قراردیا گیا۔ کیوں کہ اصل تقویٰ یہی ہے کہ انسان حلال و حرام میں تمیز کر کے حلال کو اختیار کر لے اور حرام سے کنارہ کش ہو جا ئے اس تفصیل سے کسی قدراللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی معنویت سمجھی جا سکتی ہے جو مضمون کے آغاز میں درج  کی گئی ہے۔