پادری کے سوالات کے جوابات ، صلیبی مذہب کا تعاقب
پادری غلام مسیح کے سوالات اور ان کا جواب
(صلیبی مذہب کا تعاقب ۔۔۔قرآنی آیات سے)
پاکستان میں عیسائیوں کو مذہبی آزادی اور ہر قسم کا جانی و مالی تحفظ حاصل ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ دین اسلام کی اہانت کے مرتکب بھی ہوں اور مسلمانوں کو ان کے عقائد سے برگشتہ کرنے کی کوشش کریں ۔اب تک ان کی طرف سے توہین رسالت کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں اور کسی بھی حکومت کو نہ صرف ان کا خاطر خواہ نوٹس لینے کی توفیق میسر نہیں ہو ئی بلکہ ان کے رد عمل میں مسلم عوام کی طرف سے اگر اضطراب کی کوئی لہر اٹھی تو اسے بھی دبا دیا گیا اور مجرموں کو اس حد تک تحفظ فراہم کیا گیا کہ وہ صاف بچ نکلے اور ان کا بال تک بیکا نہ ہو ا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ہمتیں جوان ہو گئی ہیں ۔اور ان کی طرف سے نت نئی شرارتیں سامنے آرہی ہیں۔ اس کا ایک تازہ ثبوت لاہور کے ایک پادری غلام مسیح کا سوالنامہ ہے جو فوٹو سٹیٹ ہو کر ملک کے طول و عرض میں پھیلایا گیا ہے جس میں اس نے حضرات انبیائے کرام علیہ السلام کی شان میں شرمناک گستاخیاں کی ہیں حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ عیسائیوں کی ان حرکات بد کا سختی سے نوٹس لیں۔ورنہ اگر وہ دین اسلام کی حمایت سے اسی طرح دست کش رہے تو اس کے نتیجہ میں وہ خود بھی رب کی حمایت سے محروم ہو جائیں گے، کیونکہ اللہ کی مدد انہی کے شامل حال ہو تی ہے جو اللہ کے دین کی مدد کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
﴿إِن تَنصُرُوا اللَّـهَ يَنصُرْكُمْ... ٧﴾...محمد
ذیل میں ان سوالنامہ کی عبارت من و عن نقل کی جارہی ہے اور ساتھ ہی اس کا جواب بھی قلمبند کردیا گیا ہے تاکہ مسلمان عوام اس کے مہلک اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ واللہ الموفق!
پادری غلام مسیح کے سوالات
وہ غلام محمد سے غلام مسیح کیسے بنا؟
یسوع مسیح کی فضیلت دیگر تمام نبیوں پر قرآن کریم سے ثابت ہے جو مندرجہ ذیل امورمیں ہے ۔
1۔مسیح کا بغیر باپ کے ہونا قرآن کریم کی روسے ایسی فضیلت ہے جو دوسرے انبیاء علیہ السلام میں نہیں پائی جاتی۔بے شک آدم کی پیدائش بھی بغیر باپ کے ہے لیکن وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ کی آیت سے وہ گناہ گار اور گمراہ ثابت ہوتے ہیں۔ کہاں معصوم مسیح اور کہاں عاصی اور گمراہ آدم ؟
2۔مسیح کے متعلق لکھا ہے کہ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ یعنی "مسیح روح القدس سے تائید کیا گیا "یہ فضیلت بھی اور کسی نبی کو حاصل نہیں ۔
3۔مسیح کی نسبت قرآن میں لکھا ہے غُلَامًا زَكِيًّا یعنی"وہ بچپن سے ہی پاک اور زکی تھا"یہ خصوصیت بھی کسی اور کو حاصل نہیں۔
4۔مسیح کی والدہ کانام مریم علیہ السلام قرآن میں مذکورہے حالانکہ اور کسی نبی کی والدہ کانام قرآن کریم میں مذکورنہیں۔
5۔مسیح کو توریت انجیل اور کتاب و حکمت سکھائی گئی جو کسی اور نبی کو نہیں سکھائی گئی۔
6۔مسیح کو کلمۃاللہ کہا گیا ہے جو کسی اور نبی کو نہیں کہا گیا۔
7۔یسوع مسیح صیلب پر مرکر انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بنا۔اب وہ خداکا بیٹا ہو کر خدا کے داہنے ہاتھ میں بیٹھا ہے قرآن کہتا ہے کہ وہ صیلب پر مرانہیں بلکہ زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیاہے تمام نبی مرگئےصرف وہ زندہ ہے کیونکہ وہ خدا کا بیٹا ہے اور خدا ہے اس لیے صیلبی مذہب قرآن کی روسے بھی سچا ہے اور یہی وجہ میرے عیسائی بننے کی ہے۔
مکہ والوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آسمان پر چڑھیں اور وہاں سے کتاب لائیں وہ ہم پڑھیں تو انھوں نے کہا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا اس لیے صرف یسوع مسیح ہی زندہ آسمانی ہستی ہے۔ (سورہ بنی اسرائیل،آیت: 95)
الجواب بعون اللہ الوہاب :۔
قولہ :وہ غلام محمدغلام مسیح کیسے بنا؟
اقول : وہ دین اسلام چھوڑ کر کافر عیسائی اس لیے بنا کہ اسے شیطان نے گمراہ کردیا جبکہ کفار کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی وعید سنائی ہے :
﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٣٩﴾...البقرة
"اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ایسے لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔"
رہی یہ بات کہ وہ کافر کیونکر ہے تو قرآن کریم ہی میں ہے کہ:
﴿لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ...٧٢﴾...المائدة
"بلاشبہ ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم علیہ السلام ہے (یا مسیح ابن مریم علیہ السلام اللہ ہے)"پادری کو اپنا سوالنامہ پڑھنا چاہئے جس میں اس نے صاف لکھا ہے کہ۔
"وہ (مسیح ) خدا کا بیٹا ہے اور خدا ہے!"
پس پادری کے نزدیک اگر قرآن کریم سچی کتاب ہے تو اس نے قرآن کی یہ بات تسلیم نہ کر کے کفر کا ارتکاب کیوں کیا؟اور اگر اس کے نزدیک یہ سچی کتاب نہیں تو اس نے اس استدلال کیوں کیا ہے؟ اس سوال کا جواب مطلوب ہے۔۔۔!
قولہ:" یسوع مسیح کی فضیلت تمام دیگر نبیوں پر قرآن کریم سے ثابت ہے؟
اقول:پادری کی یہ بات غلط ہے قرآن کریم میں تویہ ہےکہ:
﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّـهُ ۖوَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ...٢٥٣﴾...البقرة
"یہ رسول ہیں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام کی اور بعض کے(دوسرے امور میں) درجے بلند کئے"
ہاں قرآن مجید یہ بھی بتلاتا ہے کہ تمام انبیاء علیہ السلام سے عہد لیا گیا تھا ۔کہ وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے۔
﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ...٨١﴾...آل عمران
"اور جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہ السلام سے یہ عہد لیا کہ جب میں تمھیں کتاب و حکمت دوں پھر تمھارے پاس ایسا رسول آئے جو اس چیز کی تصدیق کرے جو تمھارے پاس ہے تو تم اس پر ایمان بھی لاؤ گے اور اس کی مدد بھی کرو گے!"
چنانچہ ان انبیاء علیہ السلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ان کا اپنا اعلان قرآن مجید کی سورۃمریم علیہ السلام میں یوں مذکورہے:
﴿ إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ﴿٣٠﴾...مريم
"میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنا یا ہے "
اب اگر پادری غلام مسیح اس قرآن کو پڑھنے کے بعد بھی جس سے اس نے استدلال کیا ہے اپنی بات پر اڑا ہوا ہے اور مسیح کو خدا بھی سمجھتا ہے تو اس کی مت ماری ہوئی ہے۔
قولہ مسیح کا بغیر باپ کے ہونا ۔۔۔قرآن کریم کی روسے ایسی فضیلت ہے جو دوسرے انبیاء میں نہیں پائی جاتی۔۔۔بیشک آدم کی پیدائش بھی بغیر باپ کے ہے ،لیکن ﴿وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ ﴾کی آیت سے وہ گنہگار اور گمراہ ثابت ہوتے ہیں۔کہاں معصوم مسیح اور کہاں عاصی اور گمراہ آدم!
اقول پادری مسیح کو خدا سمجھتا ہے پھر اسے اس بات سے کیوں دلچسپی ہے کہ مسیح کا باپ نہیں تھا اور وہ صرف ماں سے پیدا ہوئے تھے ۔۔۔کیا خدا کی تعریف یہ ہے کہ اس کا باپ تونہ ہو، لیکن ماں موجود ہو؟ علاوہ ازیں پادری دوسرے انبیاء علیہ السلام کو تو خدا نہیں سمجھتا بلکہ اس کے نزدیک وہ انسان تھے جبکہ مسیح کو وہ خدا سمجھتا ہے پھر وہ ان کا تقابل ان انبیاء علیہ السلام سے کیوں کرتا ہے؟۔۔۔کہیں یہ اس کے دل کا چور تو نہیں جو اس کی نوک قلم پر آگیا ہے کہ مسیح بھی انسان ہی تھے؟اسے اپنے فقرے پر غور کرنا چاہئے کہ" مسیح کا بغیر باپ کے ہونا قرآن مجید کی روسے ایسی فضیلت ہے جو دوسرے انبیاء میں نہیں پائی جا تی "َ۔۔۔سوچتا جاشرماتاجا!!
حقیقت یہ ہے کہ مسیح کا بغیر باپ کے پیدا ہونا رب کی طرف سے ایک نشانی ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اگر یہ حضرت عیسیٰ کی فضیلت بھی سمجھ لی جائے تو ہمیں خوشی ہے اس لیے کہ وہ اللہ رب العزت کے سچے نبی ہیں اور اگر ہم انہیں سچا نبی نہ مانیں تو ہمارے ایمان میں نقص لازم آتا ہے لیکن اس بنا پر انہیں دوسرے انبیاء علیہ السلام پر ترجیح کیونکرملی؟اور دیگر انبیاء کمتر کیوں ٹھہرے ؟
کیا باپ کا بیٹا ہو نا کوئی جرم ہے؟۔۔۔پادری کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟
اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ سوائے ان جانداروں کے جن میں سلسلہ تو الد و تناسل چلتا ہے رب تعالیٰ کی بے شمار مخلوقات ایسی ہیں جو بغیر ماں باپ کے ہیں تو کیا یہ حضرت عیسیٰ کے ہم رتبہ ہوجائیں گی؟۔۔۔بلکہ پادری کے اصول کی روسے تو اگر صرف باپ کے بغیر پیدا ہو نا فضیلت ہے تو بغیر ماں اور باپ کے دوہری فضیلت ہے تب کیا یہ مخلوقات حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہتر ہو جائیں گی؟۔
ع۔ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
قرآن مجید نے انسان کو اشرف المخلوقات بتلایا ہے اس کے باوجود کہ وہ ماں باپ رکھتا ہے اور وہ مخلوقات جو بغیر ماں باپ کے ہیں اس سے کہیں کمتر ہیں ہاں وہ انسان جو مشرک و کافر ہے جانوروں سے بھی گیا گزرا ہے۔ جیسا کہ پادری غلام مسیح جو مشرک و کافرہونے کے علاوہ اپنے باپ آدم علیہ السلام کی تنقیص بھی کرتا ہے جو یقیناً نیک اور فرمانبرداراولاد کی پہچان نہیں۔
پادری نے ایک بات کی اسے یاد آیا کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش بھی بغیر باپ کے ہے ہم کہتے ہیں کہ ان کی ماں بھی نہیں!پھر یہ تو دوہری فضیلت ہوئی۔
علاوہ ازیں ان کے بارے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فر ما یا:
﴿خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾کہ "میں نے انہیں اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا "
نیز قرآن فرماتا ہے کہ:
﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ﴾"یعنی انہیں علم اسماء دیا گیا"
انہیں رب نے اپنی جنت میں ٹھہرا یا:
﴿يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ﴾"تمام فرشتوں سے انہیں سجدہ کروایا :
﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ﴾
ہاں"مگر ابلیس (جوان کی فضیلت کا انکاری تھا) اس نے انکار کیا"
اور ان کی پیدائش سے قبل ملائکہ میں ان کا تذکرہ فر ما یا ۔۔۔!
پھر پادری کا مرکز استدلال اگر قرآن ہے تو قرآن مجید ہی یہ بھی فرماتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی انسان تھے،جبکہ حضرت آدم علیہ السلام بشمول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تمام انسانوں کے باپ ہیں۔تب اس ظالم پادری نے نہ اپنے باپ کو معاف کیا نہ عیسیٰ کے باپ کو بخشا ۔ اس نے باپ حضرت آدم علیہ السلام پر کیچڑ اچھال کر بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کیچڑ اچھالا ہے اور یہ اس کے باطل مذہب پر ہونے کی پہچان ہے جبکہ اسلام سچا دین ہے جو تمام انبیاء علیہ السلام کا احترام کرتا ہے اور یہ احترام اس دین کا لازمی جزو بلکہ ایمانیات کا ایک حصہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ...٢٨٥﴾...البقرة
"رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کتاب پر ایمان لائے جوان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی اور مؤمن بھی۔ سب اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں(اور کہتے ہیں)کہ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے۔
ہاں اگر پادری یہ کہتا ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے تو اس کی سند اسے قرآن سے لانی چاہئے تھی۔ کیونکہ وہ قرآن مجید کے حوالے سے بات کر رہا ہے ۔ قرآن مجید تو ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو جہنمی بتلاتا ہے پھر پادری آخر کس بنا پر اچھل رہا ہے؟
حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں قرآن مجید میں اگر :
﴿وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ﴾ فَغَوَىٰ کے الفاظ آئے ہیں تو اس مقام پر(سورۃ طہٰ میں)فنسی کا لفظ بھی ہے کہ"آپ بھول گئے تھے "نیز فر مایا کہ﴿ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا﴾ہم نے آدم علیہ السلام میں گناہ کا ارادہ پا یا"پس یہ غلطی بھول کرہوئی اور بہترین انسان وہی ہے جو بھول کر غلطی کرے تو فوراً توبہ کر لے۔چنانچہ قرآن مجید کی روسے آپ علیہ السلام نے توبہ بھی کی یہ توبہ قبول بھی ہوئی اور آپ علیہ السلام کو فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى کا خطاب بھی ملا کہ "اللہ نے آپ کی توبہ قبول کی اور ہدایت سے سر فراز فر ما یا "ہاں جو غلطی کر کے اکڑے اور اصرار کرے تو یہ کام شیطان لعین کا ہے جس کا پادری یوں مرتکب ہوا ہے کہ وہ سچے دین اسلام کو چھوڑ کر گمراہ ہو گیا اور پھر بھی "آنیاں "دکھا رہاہے۔لگے ہاتھوں اسے یہ بھی بتا دیا جائے کہ قرآن مجید کو ماننے والوں کے نزدیک مرتد کی سزا قتل ہے پادری کا پورا پتہ مطلوب ہے تاکہ اس کے خلاف حکومت سے قانونی کاروائی کا مطالبہ کیا جا ئے۔
اور پادری نے یہ معصوم مسیح کی بھی ایک ہی کہی۔بلاشبہ وہ معصوم تھے بلکہ تمام کے تمام انبیاء علیہ السلام معصوم ہیں۔ لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ تم نے اس معصوم سے کیا سلوک کیا؟یہی ناکہ اسے سولی پر چڑھا دیا!ظالمو!خنزیر خود کھاتے ہو۔شرابیں خود پیتے ہو،زنا ولواطت تم کرتے ہو اور سزا معصوم کو دیتے ہو؟کیا یہی ہے تمھارا مذہب اور انصاف ؟
قولہ : مسیح کے متعلق لکھا ہے کہ:
﴿وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ﴾یعنی "مسیح روح القدس سے تائید کیا گیا "۔۔۔یہ فضیلت بھی اور کسی نبی کو حاصل نہیں۔
اقول: ﴿وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ ﴿٧٨﴾...البقرة
"ان میں سے ان پڑھ بھی ہیں۔کتاب کو صرف اپنی خواہشات کی حد تک ہی جانتے ہیں۔اوروہ بھی ظن و تخمین سے"(البقرۃ:78)
پادری کو بھی اپنے مطلب کی بات تو قرآن مجید میں سے نظر آگئی،لیکن اسی قرآن مجید سے اسے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ بدرکے میدان میں پانچ ہزار فرشتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی طمانیت قلبی کے لیے نازل ہوئے تھے۔
"هَـذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلافٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُسَوِّمِينَ وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ ۗ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ "
"تمھارا رب پانچ ہزار فرشتے تمھاری مدد کو بھیجے گا اور اس مدد کو اللہ نے تمھارے لیے ذریعہ بشارت بنایا اور تاکہ تمھارے دلوں کو اس سے طمانیت حاصل ہو اور مدد تو اللہ غالب حکمت والے ہی کی طرف سے ہے"(آل عمران:145۔146)
سورۃالتوبہ آیت 26میں ہے:
"ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا "پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور مومنوں پر اپنی سکنیت نازل فرمائی اور (فرشتوں کے) لشکر کے لشکر جو تمھیں نظر نہیں آتے تھے (آسمان سے تمھاری مدد کے لیے) نازل فرمائے"
یہ واقعہ غزوہ حنین کا ہے جبکہ سورۃ المجادلہ میں ہے۔
"أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ"(آیت نمبر:22)
"یہ لو گ (اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )وہ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے روح القدس کے ساتھ ان کی تائید فر مائی ہے"
یوں یہ شرف تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بھی حاصل ہے پادری انیباء علیہ السلام کی بات کر رہاہے۔۔۔اور کسے معلوم نہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام کی امدادکے لیے بھی آسمانوں سے فرشتے نازل ہوئے تھے؟
پادری نہ جانے باربار بھول کیوں جاتا ہے؟یہاں اس نے پھر وہی غلطی دوہرائی ہے جو پہلے بھی کر چکا ہے اس کا دعویٰ مسیح کے خداہونے کا ہے تو خدا کو بھی روح القدس کی تائید کی ضرورت ہے؟۔۔۔مزید غلطی اس نے یہ لکھ کر کی ہے کہ "یہ فضیلت بھی کسی اور نبی کو حاصل نہیں"۔۔۔یہ الفاظ بتلاتے ہیں کہ مسیح بھی اس کے نزدیک نبی ہیں خدا نہیں ہیں۔اس کے باوجود اگر وہ انہیں خدا کہتا ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ کیا خدا بھی نبی ہوتا ہے؟آخر اس کے ہوش ٹکانے کیوں نہیں ہیں؟۔۔۔سچ ہے۔جھوٹ کے پیرنہیں ہوتے!
قولہ : مسیح کی نسبت قرآن مجید میں لکھا ہے:
غُلَامًا زَكِيًّا یعنی وہ بچپن سے ہی پاک اورزکی تھا۔ یہ خصوصیت کسی اور کو حاصل نہیں!
اقول:پادری زَكِيًّا کے ما قبل غُلَامًا کو کیوں فراموش کر بیٹھا ہے؟غلام خدا تو نہیں ہوتا!
پادری یہ بھی کہتا ہے کہ "وہ بچپن سے ہی پاک اورزکی تھا!"توکیا خدا بچپن بھی گزارتاہے؟
حضرت مسیح بلاشبہ پاک تھے۔لیکن اس کا یہ کہنا غلط ہے کہ کسی اور کویہ خصوصیت حاصل نہیں۔قرآن مجید کی پانچ آیتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وَيُزَكِّيهِمْ کا لفظ آیا ہے ان میں سے ایک آیت ملاحظہ ہو:
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ (آل عمران :194)
"بلاشبہ مؤمنوں پر اللہ نے احسان عظیم فرمایا کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول معبوث فرمایا جوان پر اس کی آیتیں تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ نفس کرتاہے۔"
اب جو دوسروں کا بھی تزکیہ نفس کرتا ہے اس کے اپنے زکی ہونے کا کیا عالم ہو گا؟آیت نے یہ بھی بتلایا کہ یہ تزکیہ نفس مؤمنوں کا ہوا پس امت محمد یہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مؤمن بھی پاک اورزکی ہیں جبکہ پادری کو کوئی ایک شخص بھی اس صفت سے متصف نظر نہیں آتا ۔
غُلَامًا زَكِيًّا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سورۃ مریم علیہ السلام میں کہاگیاہے اور اسی سورۃمیں ان الفاظ سے قبل حضرت یحییٰ کے بارے میں فر ما یا گیا ہے:
يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّاً (12) وَحَنَاناً مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيّاً (سورۃمریم علیہ السلام :12،13،)
"اے یحییٰ علیہ السلام کتاب کو مضبوطی سے پکڑا!اور ہم نے اسے بچپن میں ہی حکم یعنی نبوت عطا فر مائی تھی نیز شفقت ہماری طرف سے اور پاکیزگی۔۔۔اور وہ متقی تھا"
پس پادری کا مذکورہ رہ دعویٰ باطل ہے اور حقیقت وہی ہے جو قرآن مجید نے بیان فر مائی کہ:
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ (سورۃ البقرۃ)
"ہم نے اپنے رسولوں کو فضیلت عطا فر مائی کسی کو کسی لحاظ سے اور کسی کو کسی لحاظ سے"
قولہ:مسیح کی والدہ کا نام قرآن مجید میں مذکورہے حالانکہ اور کسی نبی کی والدہ کا نام قرآن مجید میں مذکور نہیں۔
اقول :والدہ کا نام چھوڑ قرآن مجید میں تو تمام انبیاء علیہ السلام کے اپنے نام بھی مذکور نہیں حالانکہ یقیناً یہ سب کہ سب اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے تھے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود قرآن مجید ہی نے بڑے فضائل گنوائے ہیں لیکن ان میں سے سوائے ایک کے کسی کا نام قرآن مجید میں مذکور نہیں۔مؤمنین و متقین کو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی رضامند ی کی بشارتیں دی ہیں لیکن ان میں سے کسی کا نام بھی قرآن مجید میں موجود نہیں۔حتیٰ کہ ایک مؤمن جس نے فرعون کے سامنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حمایت میں تقریر کی تھی اللہ تعالیٰ نے ایک سورۃقرآنی میں اس کا تفصیلی تذکرہ فرمایا ہے اس سورہ کا نام تو سورۃ المؤمن رکھ دیا گیا لیکن نام اس مؤمن کا بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں درج نہیں فر ما یا ۔
پس قرآن مجید میں کسی نبی کا اپنا یا اس کی والدہ کا نام مذکورنہ ہونا اس کی فضیلت کے منافی ہر گزنہیں۔
یہ اصولی بات نوٹ کرلینے کے بعد پادری کو معلوم ہو نا چاہئے کہ ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام (اور ان کی والدہ مریم علیہ السلام کی بھی) فضیلت سے قطعی انکارنہیں، بھلا جس کی فضیلت قرآن مجید فرمائے اس سے کسی مسلمان کو انکار ہو سکتا ہے؟ لیکن کاش پادری قرآن مجید کے مقصود کو سمجھ سکتا قرآن مجید کتاب ہدی ہے اور اس کا ہر لفظ انسانیت کی رشد و ہدایت سے متعلق ہے قرآن مجید میں اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام مریم علیہ السلام مذکور ہے تو اس سے پادری کو یہ سبق حاصل ہونا چاہئے تھا کہ جس کی والدہ موجود ہواور اس والدہ کا نام بتلادیا جا ئے وہ خدا نہیں ہو تا جبکہ پادری مسیح کو خدا سمجھتا ہے۔ پھر پادری کے نزدیک مریم بھی خدا ہے حالانکہ ان کی والدہ اور والد دونوں موجود تھے تب یہ والدہ اور والد رکھنے والا خدا۔۔۔؟کیا بھی اب بات پادری کی سمجھ میں نہیں آئی؟
اس مقام پر پادری کو ایک اوربات بھی نوٹ کر لینی چاہئے کہ حضرت مریم علیہ السلام کی والدہ کا نام قرآن مجید میں مذکورنہیں اس لیے کہ ان کا باپ موجود تھا چنانچہ والدہ کی بجائے ان کے والدہ کا نام لیا گیا وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ اب اس سے یہ معلوم ہوا کہ اولاد ہمیشہ باپ کی طرف منسوب ہو تی ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے والد حضرت اسحٰق علیہ السلام حضرت اسحٰق کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یحییٰ علیہ السلام کے والد حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت سلمیان علیہ السلام کے والد حضرت داؤد کے نام نامی مذکورہیں یوں پادری کایہ فضیلت والا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔۔۔!
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا چونکہ باپ موجود نہ تھا اس لیے ان کی والدہ کا نام لیا گیا چنانچہ قرآن مجید کے کئی مقامات پر انہیں "عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام "کے لفظوں سے یاد فرمایا گیا ہے اب یہ پادری کی اپنی مرضی ہے کہ وہ ان الفاظ کو زیربحث لانے اور ان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کا استدلال کرنے کے باوجود انہیں "خداکا بیٹا"کہنے پر مصر ہے۔اب صورت حال یہ ہے کہ قرآن کے بیان کردہ مسیح علیہ السلام ابن مریم ہیں اور پادری کا مسیح ابن خدا!۔۔۔اس طرح قرآن مجید جس مریم علیہ السلام کا تذکرہ فرماتا ہے وہ اللہ کی فرمانبرداربندی ہیں جبکہ پادری جس مریم علیہ السلام کی بات کرتا ہے وہ خود خدا ہے تب پادری کو قرآن مجید کے بیان کردہ مسیح و مریم علیہ السلام سے کیا تعلق ؟۔۔۔ہاں یہ دونوں ہمارے ہیں اس لیے کہ ہمارےہیں۔اس لیے کہ ہمارے ہی قرآن کریم میں ہمارے ہی رب نے ان کا ذکر خیر فر ما یا ہے پس یہ شرف ہمارے لیے ہے پادری کے لیے نہیں!!
ویسے بھی پادری کو اس قدر بازیاں تو نہ کھانی چاہئیں کہ اس کی دماغی صحت پر شبہ ہونے لگے کبھی وہ کہتا ہے کہ "مسیح خدا کا بیٹا ہے"۔۔۔کبھی کہتا ہے کہ" مسیح خداہے"اور کبھی کہتا ہے کہ :
"مسیح کی والدہ کا نام مریم علیہ السلام قرآن میں مذکورہے حالانکہ اور کسی نبی کی والدہ کا نام قرآن مجید میں مذکورنہیں"
پادری کے یہ الفاظ حضرت مسیح علیہ السلام کے منجملہ دیگر انبیاء کے ایک نبی ہونے پر شاہد عدل ہیں ان کے خدا کا بیٹا ہونے یا خدا ہونے پر نہیں!
ع،شایدکہ اتر جائے تیرے دل میں"تیری" بات
پس پادری کی اخروی عافیت اسی میں ہے کہ وہ مسیح و مریم علیہ السلام سے متعلق قرآن مجید کا بیان کردہ عقیدہ قبول کرلے حضرت مسیح علیہ السلام کا اپنا اعلان قرآن مجید میں یوں مذکور ہے۔
إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا (سورۃ مریم:30)
"میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔
جبکہ حضرت مریم علیہ السلام کے متعلق قرآن مجید بیان فرماتا ہے۔
وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (التحریم:13)
"اور مریم بیٹی عمران کی جس نے اپنے ستر کی حفاظت کی توہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور وہ اپنے رب کے حکم اور اس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور (رب کے)فرمانبرداربندوں میں سے تھیں"
قولہ : مسیح کو تورات انجیل اور کتاب و حکمت سکھائی گئی جو کسی اور نبی کو نہیں سکھائی گئی۔اقول : کیا اللہ رب العزت کے علاوہ مزید خدا بنانے کے علاوہ اب چوتھا خدا پادری کی خود بننے نکلا ہے جو اسے یہ فکر دامن گیر ہے کہ کس نبی کو کیا سکھانا چاہئے؟۔۔۔شریعت مقرر کرنا اللہ رب العزت کے اختیار میں ہے پادریوں کے اختیار میں نہیں ،اور حضرت انبیاء علیہ السلام اسی چیز کے پابند ہوتے ہیں جو ان کی طرف وحی کی جاتی ہے پس جو انبیاء علیہ السلام تورات و انجیل کے نزول سے قبل ہو گزرے بھلا انہیں تورات و انجیل سکھانے کی کیا تک تھی؟اس مقام پر ہمیں پادری کے بڑوں کی ایک بات یاد آگئی ہے۔ یہودونصاریٰ نے یہ کہا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی یا نصرانی ہیں جواباًاللہ رب العزت نے فرمایا :
"وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالإِنْجِيلُ إِلا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ" (آل عمران:65)
"عقل کے ناخن لو۔ تورات و انجیل تو نازل ہی ان کے بعد ہوئی تھیں "(پھر وہ یہودی یاعیسائی جو توراتو انجیل کے مکلف تھے کیسے ہو سکتے ہیں؟)
اب اسی عقل مندی کا مظاہرہ پادری کررہا ہے کہ وہ ان انبیاء علیہ السلام کو بھی تورات و انجیل سکھانا چاہ رہا ہے کہ یہ کتابیں نازل ہی جن کے دنیا میں آکر اور پھر دنیامیں آکر اور پھر دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ہوئیں ورنہ پادری کی نظر میں ان کی فضیلت معاذ اللہ مشکوک ٹھہرے گی۔
ہاں جب تورات نازل ہوئی تو اس کے جاننے والے صرف حضرت عیسی علیہ السلام نہیں تھےبلکہ ان سے بھی قبل خود صاحب توراۃ حضرت موسی علیہ السلام اور دیگر کئی انبیاء علیہ السلام کے علاوہ بہت سے ربانی علماء بھی تھے قرآن مجید میں ہے:
إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ (المائدہ:44)
"ہم نے توراۃ نازل فرمائی جس میں ہدایت تھی اور نور اس کے مطابق (رب تعالیٰ کے)فرمانبر دار انبیاء علیہ السلام یہود کے فیصلے کیا کرتے تھے اور رب والے اور علماء بھی"اور ظاہر ہے یہ فیصلے تورات سیکھےبغیر نہیں ہو سکتے تھے۔۔۔اب رہی انجیل تو جب یہ نازل ہوئی اور وقت حضرت عیسی علیہ السلام کے علاوہ دوسرا کوئی نبی موجود ہی کب تھا جسے یہ سکھائی جاتی ؟ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخاطب چونکہ نصاریٰ کے علاوہ یہود بھی تھے جیسا کہ قرآن مجید میں موکور ان کے اس فرمان سے ظاہر ہے:
وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ (المائدہ:72)
اورمسیح نے کہا تھا ۔اے بنی اسرائیل !اللہ کی عبادت کرو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی "
لہٰذا اپنی تبلیغ کے سلسلہ میں تورات و انجیل دونوں کی انہیں ضرورت تھی تاہم نہ یہود کو حیا آئی اور نہ نصاریٰ کو۔ ایک نے اگر عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنادیا تو دوسرے نے عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بلکہ تیسرا خدا بھی بنا لیا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب بشمول یہود و نصاریٰ پوری دنیا کے انسان تھے :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا (سورۃسبا:28)
"اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو( پوری دنیا کے )لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے"
لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جس کامل شریعت کی ضرورت تھی اس کی متحمل تورات وانجیل دونوں مل کر بھی نہ ہو سکتی تھیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید ملا جو تمام شرائع کا جامع ہے۔
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ (المائدہ:48)
"اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سچی کتاب نازل فر مائی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان سب پر شامل!تو ان کے درمیان ماانذل اللہ کے مطابق فیصلے کیجئے "
اسی قرآن مجیدکے ذریعے دین کی تکمیل ہوئی:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدۃ3)
اور اس میں صرف یہود و نصاریٰ ہی نہیں بلکہ تقریباًپوری تاریخ انسانی کے وہ حالات و واقعات موجود ہیں جن کا تعلق رہتی دنیا تک کے آخری انسان کی ہدایت سے تھا اور تورات و انجیل کے متعدد احکام کی بھی اس میں نشاندہی کی گئی ہے پادری اگر اپنے سوالنامہ ہی پر غورکرلیتا تو اس کی غلط فہمی دور ہو جا تی کہ اس کے تمام سوالات حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ہیں لیکن بات وہ قرآن مجید کے حوالے سے کر رہا ہے پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کامل واکمل شریعت کی حامل کتاب موجود تھی تو آپ کو تورات و انجیل کی ضرورت بھی کیا تھی؟
ویسے بھی پادری سے اس مقام پر یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ کس تورات و انجیل کی بات کر رہا ہے؟کیا وہی کہ جنہیں من مانی خواہشات کے تابع بنادیا گیا اور تحریفات کی بھینٹ چڑھا کر اس حد تک مسخ کردیا گیا کہ آج شاید ہی ان کی کوئی بات اصل صورت میں باقی رہ گئی ہو؟۔۔۔ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ انجیل کے مزعومہ دعویدار آج خنزیر بڑی رغبت سے کھارہے ہیں تو کیا پادری یہ لکھ کردے سکتا ہے کہ انجیل میں خنزیر حلال تھا؟ہاں اصل انجیل سے توپادری کی نسبت ہم زیادہ واقف ہیں اور یہ واقفیت ہمیں قرآن مجید کی بدولت حاصل ہے جس میں یہ آیت موجود ہےکہ
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ (الصف:6)
"اور جب عیسیٰ علیہ السلام بن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت دینے والا جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )ہو گا"
لیکن پادریوں نے اس انجیل سے کیا سلوک کیا؟۔۔۔یہی ناکہ جس نسخہ انجیل میں یہ بشارت موجود پائی اسے جلادیا۔انجیل برنباس سے پادریوں کا یہ سلوک ڈھکا چھپا نہیں تب وہ توراۃو انجیل کا نام کس منہ سے لیتا ہے؟
رہی بات کتاب و حکمت کی تو پادری کی معلومات اس سلسلہ میں بھی جاہلانہ حد تک ناقص ہیں۔
ورنہ وہ کون سانبی ہے جسے کتاب و حکمت نہ سکھائی گئی؟۔۔۔ قرآن مجید میں ہے۔
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ (آل عمران:81)
"اور جب اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں سے یہ عہد لیا کہ جب میں تمھیں کتاب و حکمت دوں پھر تمھارے پاس ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے جو اس کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمھارے پاس ہے تو تم اس پر ایمان بھی لاؤ گے اور اس کی مدد بھی کروگے۔"
جبکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بالخصوص ارشاد ہوا کہ
وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (سورۃالنساء :113)
"اور اللہ نے صلی اللہ علیہ وسلم پر (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کتاب بھی نازل فر مائی اور حکمت بھی۔۔۔اور آپ کو وہ(سب کچھ )سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر بڑا فضل فر ما یا "
اور ان علوم میں تورات و انجیل کے علوم بھی شامل تھے اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فر ما یا:
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ۚ (سورۃالمائدۃ15)
"اے اہل کتاب تمھارے پاس ہمارے (آخری)پیغمبر آچکے ہیں جو کچھ تم کتاب الٰہی میں سے چھپاتے تھے وہ اس میں بہت کچھ تمھیں کھول کھول کر بتا دیتے ہیں اور تمھارے بہت سے تصور معاف بھی کر دئیے ہیں"
کیا پادری اب بھی یہ کہے گا کہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو توراۃ و انجیل کا علم نہ دیا گیا تھا؟ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو خود معلم کتاب و حکمت تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے مؤمنین اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض یافتہ ۔
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (آل عمران:164)
"بلاشبہ اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان فر ما یا کہ ان میں ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہی میں سے مبعوث فر مایا جو ان پر اس (اللہ) کی آیات کی تلاوت کرتا ہے ان کا تذکیہ نفس کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے"
قرآن مجید نے بتلادیا کہ تمام انبیاء علیہ السلام بلکہ امت محمدیہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے مؤمنین بھی کتاب و حکمت سلکھا ئے گئے ہیں جبکہ پادری کو اس صفت سے متصف دوسرا کوئی نظر ہی نہیں آتا ۔ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ:
گرنہ بیندبروز شیر ہ چشم چشمہ آفتاب راچہ گناہ ؟
"چمگاڈرکو اگر سورج نظر نہ آئے تو اس میں سورج کا کیا قصور؟"
قولہ :"یسوع مسیح صلیب پر مرکرانسانوں کے گناہوں کا کفارہ بنا اب وہ خدا کا بیٹا ہو کر خدا کے داہنے ہاتھ میں بیٹھا ہے قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ صیلب پر مرانہیں بلکہ زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے تمام نبی مرگئے صرف وہ زندہ ہے کیونکہ وہ خدا کا بیٹا ہے اور خدا ہے اس لیے صلیبی مذہب قرآن مجید کی رو سے بھی سچا ہے اور یہی وجہ میرے عیسائی بننے کی ہے"
اقول : صلیبی مذہب قرآن مجید کی روسے بھی جھوٹا ہے اور پادری کی ہفوات کے مطابق تو اس کا پول اور بھی کھل گیا ہے۔
قارئین کرام !غور فر مائیں یسوع مسیح پہلے تو مراکر انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بنااور پھر خدا کا بیٹا بن بیٹھا!کوئی صحیح العقل آدمی ایسی بات کر سکتا ہے؟ پادری یہ بھی کہتا ہے کہ وہ صیلب پر مر گیا اور یہ بھی کہتا ہے کہ وہ زندہ ہے ایک طرف کہتا ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہتا ہے کہ وہ خود خدا ہے۔پھر خود خدا بھی ہے اور خدا کے داہنے ہاتھ بھی بیٹھا ہے علاہ ازیں پادری کے مذہب میں خدا کو انسانوں کے گناہوں کی سزا ملتی ہے خدا صیلب پر بھی لٹکایا جا سکتا ہے خدا مر بھی سکتا ہے اور مرنے کے بعد بھی زندہ ہی رہتا ہے۔ زندہ اس لیے کہ وہ خدا کا بیٹا ہے اور خدا ہے اور مراس لیے گیا کہ وہ اپنے بندوں کے گناہ بخشنے پر قادر نہ تھا لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ پا یا کہ صلیب پر چڑھ کر مرجائے اور ان گناہوں کا کفارہ بنے۔۔۔یعنی۔
بک گیاہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
اگر پادری کی عقل پر پتھر نہ پڑگئے ہوتے یا اس کے دل پر مہر نہ لگ چکی ہوتی تو اس کی اپنی ہی یہ تحریر اسے ہلاکر رکھ دیتی کہ وہ کس قدر تضادات کے مجموعے کو مذہب سمجھے بیٹھا ہے اور پھر اس پر مفتخر(اتراتا) بھی ہےپھرصلیبی مذہب پر مر انسانوں کے گناہوں کاکفارہ بنا۔لہٰذا یسوع مسیح سے عیسائیوں کی وجہ محبت تو سمجھ میں آتی ہے کہ اس نے مر کرانہیں بدمعاشیوں کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔
لیکن صلیب سے ان کی محبت کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ۔ یہ تو وہ آلہ قتل یا موت ہے جس نے یسوع مسیح ایسے خدا کی جان بھی لے لی۔ سوچئے جس چھری چاقو یا آلہ قتل سے کسی کے عزیز کی موت واقع ہوجائے لواحقین تو اسے توڑ کر چولھے میں جھونکنا چاہتے ہیں کہ کسی طرح سینہ ہی ٹھنڈاہوجائے لیکن یہ کیسے لواحقین ہیں جو اس آلہ قتل کو سینے سے لگائے اسے چومتے چاٹتے اسے بوسے دیتے ہاتھ سے چھولینے تک کو باعث سعادت جانتے اسے اپنے مذہب کاشعار بناتے اپنے مذہب کو اس سے منسوب کرتے گرجوں پر سجاتے اور مصائب سے بچنے کے لیے اسے گلے میں آویزں کرتے اور اس کی پنا ہیں ڈھونڈھتے ہیں۔یہ نہیں سوچتے کہ جس صلیب نے ان کے خدا کو بھی نہ بخشا اور اسکی جان تک لے لی وہ انہیں مصائب سے کیا بچائے گا یا پھر صلیب سے ان کی محبت کی وجہ یہ ہوگی کہ یہ ان کے گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ بنی۔
لیکن پادری قرآن کے حوالہ سے یہ بھی کہتا ہے کہ "وہ(مسیح )صلیب پر مراہی نہیں"پھر تو سارا ٹنٹاہی ختم ہوا۔۔۔پادری کو چاہئے کہ وہ یا تو اپنی کہے اور یا پھر قرآن کی بات کرے۔اس مذہب کی تو کوئی ایک بات بھی قرآن کے مطابق نہیں۔پادری کہتا ہے کہ مسیح مر گیا قرآن فرماتا ہے کہ:
وَمَا قَتَلُوهُ انھوں نے اسے قتل نہیں کیا"۔۔۔پادری کہتا ہے کہ وہ صلیب پر مرالیکن قرآن فرماتا ہے وَمَا صَلَبُوهُ انھوں نے اسے سولی بھی نہیں دیا"۔۔۔پادری کہتا ہے کہ وہ مر کر انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بنا"قرآن فرماتا ہے کہ "وہ زندہ ہے"اور "ہرنفس اپنی نیکی کا خود حق دار اور اپنی برائی کا خود ہی ذمہ دار ہے:
لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ)البقرۃ:286)
پادری کہتا ہے کہ تمام نبی مر گئے صرف مسیح زندہ ہے!قرآن فرماتا ہے کہ موت تو انہیں بھی آکر رہے گی:
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ (آل عمران 180)
اور
وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ
("اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جوان (مسیح) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہیں لے آئےگا"
پادری کہتا ہے کہ وہ (مسیح) خدا کا بیٹا ہے قرآن فرماتا ہے کہ:
وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَداً "رحمٰن کے شایان شان ہی نہیں کہ اس کی کوئی اولاد ہو"
پادری کہتا ہے کہ وہ خدا ہے قرآن مجید باربار بیان فرماتا ہے کہ:
لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ"اللہ رب العزت کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں"
۔۔۔پادری کہتا ہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھتا ہے کہ"قرآن کہتا ہے کہ وہ صلیب پر مرانہیں "۔۔۔ظاہر ہے کہ پادری کی بات قرآن کے خلاف ہے اور قرآن مجید پادری کے برخلاف !اب یہ پادری ہی کی ہمت ہے کہ وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ"صلیبی مذہب قرآن روسے بھی سچاہے"۔۔۔پھر ہم کیوں نہ کہیں کہ پادری پاگل ہو گیا تھا اور یہی وجہ اس کے عیسائی بننے کی ہے ۔
چنانچہ جب وہ مذہب ہو گیا تو بشمول حضرت عیسی علیہ السلام کسی نبی کا بھی احترام اس کے دل میں باقی نہ رہا۔اسے اپنی تحریر پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہئے جو ہر قسم کے ادب واحترام سے ناآشنا ہی نہیں بلکہ تہذیب سے بھی گری ہوئی اور انتہائی بد تمیزی پر مبنی ہے۔
قولہ:مسیح کو کلمۃاللہ کہا گیا ہے جو کسی اور کو نہیں کہا گیا"
اقول :قرآن مجید میں مسیح کے لیے کلمۃ اللہ کے الفاظ استعمال ہی نہیں ہوئے پادری کو اپنی معلومات درست کر لینی چاہئیں!
قولہ: "مکہ والوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاکہ آسمان پر چڑھیں اور وہاں سے کتاب لائیں وہ ہم پڑھیں تو انھوں نے کہا:
قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا (الاسراء93)اس لیے یسوع مسیح ہی آسمانی زندہ ہستی ہے"
اقول :سبحان اللہ کیا شاندار تعلیم ہے قرآن مجیدکی!جو ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء علیہ السلام کا دین ،دین اسلام ہی تھا جو اپنی اپنی امت کو اللہ کی وحدانیت کا درس دیتے رہے اور اپنے قول و فعل سے اپنے مخاطبین پر یہ واضح کر تے رہے کہ اس کائنات کا مالک و مختار مدبر و منتظم اور ہر قسم کے فضل و کرم کا مبادا صرف اللہ رب العزت کی ذات والا صفات ہے وہ اپنے بندوں کو جب چاہے فضل و انعام سے نوازے اور جب چاہے اسے روک دے۔اس نے چاہا تو اپنے ایک گزیدہ بندے کو ایک بندے کو ایک ہی رات میں ساتوں آسمانوں اور جنت کی سیر کرادی اور اپنے ایک دوسرے برگزیدہ بندے کو زندہ آسمان پر اٹھالیا۔اس دین میں حضرات انبیاء علیہ السلام کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے انتہائی فرمانبرداراور مؤدب بندوں کی ہوتی ہے جنہیں یہ معلوم تھا کہ اللہ کی بارگاہ میں جو جس قدر جھکا اسی قدر بلندیوں اور رفعتوں سے ہمکنارہوا۔۔۔اللہ رب العزت نے اپنے بندوں پر حضرات انبیائےکرام علیہ السلام کی اطاعت اس حد تک فرض کی ہے کہ ان کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے لیکن اس شان و رفعت کے باوجود اس دین میں بندوں کو خدا مان لیا جا تا ہے اور خدا بھی ایسا کہ جو صلیب پر چڑھ کر موت کے گھاٹ اتر جائے اور پھر بھی زندہ ہی رہے جو معصوم ہو کر بھی سزا پائے لیکن اس کے پجاری اپنی تمام تر بدمعاشیوں کے باوجود مطمئن ہوں کہ ان کا خدا مر کر ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کر چکا ہے۔لہٰذا جنت ان کے لیے الاٹ کر دی گئی ہے۔۔۔تف ہے ایسے مذہب پر!افسوس ایسے پادری پر جو دین حق چھوڑ کر ایسے مذہب کا پرستان بن گیا کی جس کی کو ئی کل بھی سیدھی نہیں ۔۔۔
والسلام على من اتبع الهدى وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين!