رمضان البارک میں کرنے والے کام

ہم رمضان المبارک کا استقبال کیسے کریں؟
اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک کو بہت سے خصائص وفضائل کی وجہ سے دوسرے مہینوں کے مقابلے میں ایک ممتاز مقام عطا کیاہے جیسے:
ا س ماہ مبارک میں قرآن مجید کا نزول ہوا:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ (البقرہ:2/185)
اس کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں ایک قدر کی رات(شب قدر) ہوتی ہے جس میں اللہ کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (القدر 97/3)
"شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے"
ہزار مہینے 83 سال اور 4 مہینے  بنتے ہیں۔عام طور پر ایک انسان کو اتنی عمر بھی نہیں ملتی۔یہ امت مسلمہ پر اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اسے اتنی فضیلت والی رات عطا کی۔
رمضان کی ہر رات کو اللہ تعالیٰ اپنےبندوں کو جہنم سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔
اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کےدروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔
سرکش شیاطین کو جکڑ دیاجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ روزانہ جنت کو سنوارتا اور مزین فرماتا ہے اور پھر جنت سے خطاب کرکے کہتا ہے کہ :
"میرے نیک بندے  ا س ماہ میں اپنےگناہوں کی معافی مانگ کر اورمجھے راضی کرکے تیرے پاس آئیں گے۔
رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔اگر انہوں نے صحیح معنوں میں روزے رکھ کر ان کےتقاضوں کو پورا کیا ہوگا۔
فرشتے،جب تک روزے دار روزہ افطار نہیں کرلیتے،ان کے حق میں رحمت ومغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ اور خوشگوار ہے۔
یہ اس مہینے کی چندخصوصیات اور  فضیلتیں ہیں۔اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کیسے اس کا استقبال کریں؟کیا ویسے ہی جیسے ہر مہینے کا استقبال ہم اللہ کی نافرمانیوں اور غفلت سے کرتے ہیں؟یا اس اندازے سے کہ ہم اس کی خصوصیات اور فضائل سے بہرہ ور ہوسکیں؟اور جنت میں داخلے کے اور جہنم سے آزادی کے مستحق ہوسکیں؟
اللہ کے نیک بندے اس کا استقبال اس طرح کرتے ہیں کہ غفلت کے پردے چاک کردیتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کے ساتھ یہ عزم صادق کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اس ماہ مبارک کی عظمتوں اور سعادتوں سے ایک مرتبہ پھر نوازا ہے تو ہم اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کی فضیلتیں حاصل کریں گے اور ا پنے اوقات کو اللہ کی عبادت کرنے ،اعمال صالحہ بجا لانے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے میں صرف کریں گے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ اس مہینے کے کون سے وہ اعمال صالحہ ہیں جن کی خصوصی  فضیلت اور تاکید بیان کی گئی ہے۔
رمضان المبارک ک خصوصی اعمال ووضائف:۔
روزہ:۔
ان میں سب سے اہم عمل،روزہ رکھنا ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : إِلا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ، يدع طعامه وشهوته من أجلي ، للصائم فرحتان : فرحة عند لقاء  ربه ولخلوف فم الصائم اطيب عند الله من ريح المسك  (صحیح بخاری ،باب فضل الصوم،رقم 1893 مسلم باب فضل الصیام رقم 163۔165۔واللفظ لمسلم)
"انسان جو بھی نیک عمل کرتا ہے ،اس  کا اجراسے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے۔لیکن روزے کے بابت اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ یہ عمل(چونکہ) خالص میرے لیے ہے،اس لیے میں ہی اس کی جزادوں گا۔(کیونکہ) روزے دار صرف میر ی خاطر اپنی جنسی خواہش،کھانا ور پینا چھوڑتا ہے۔روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں:ایک خوشی اسے روزہ کھولتے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اسے اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملے گا اور  روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے"
ایک دوسری  روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح بخاری،الصوم،باب من صام رمضان ایمانا واحتسابا ونیة رقم:1901)
"جس نے رمضان کے روزےایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے(یعنی اخلاص سے)رکھے تو اس کے پچھلے  گناہ معاف کردیے جاتے ہیں"
یہ فضیلت اور اجرعظیم صرف کھانا پینا چھوڑ دینے سے حاصل نہیں ہوجائے گا،بلکہ اس کا مستحق صرف وہ روزے دار ہوگا جو صحیح معنوں میں روزوں کے تقاضے بھی پورے کرے گا۔جیسے جھوٹ سے،غیبت سے،بدگوئی اورگالی گلوچ سے ،دھوکہ فریب دینے سے اور اس قسم کی تمام بے ہودگیوں اور بدعملیوں سے بھی اجتناب کرے گا۔اس لیے کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:
(من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه (صحیح بخاری الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل به رقم:1903)
"جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا،تواللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں کہ یہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑے"۔۔۔اور فرمایا:
"الصيام جنةوإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث، ولا يصخب فإن سابه أحد، أو قاتله فليقل: إني امرؤ صائم"
"روزہ ایک ڈھال ہے۔جب تم میں سے کسی کا روزے کا دن ہو،تو وہ نہ دل لگی کی باتیں کرے اور نہ شوروشغب۔اگر کوئی اسے گالی دے یالڑنے کی کوشش کرے تو(اس کو) کہہ دے کہ میں تو  روزے دار ہوں"(بخاری رقم 1903 مسلم رقم1151 باب 29۔30)
یعنی جس طرح ڈھال کےذریعے سے انسان  دشمن کے وار سے اپنا بچاؤ کرتا ہے۔اس طرح جو روزے دار روزے کی ڈھال سے اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچے گا۔گویا اس کے لیے ہی یہ روزہ جہنم سے بچاؤ کے لیے ڈھال ثابت ہوگا۔اس لیے جب ایک مسلمان روزہ رکھے،تو اس کے کانوں کا بھی روزہ ہو،اس کی آنکھ کابھی روزہ ہو،اس کی زبان کا بھی  روزہ ہو،اور اسی طرح اس کے دیگراعضاء وجوارح کا بھی روزہ ہو۔یعنی اس کاکوئی بھی  عضو اور جزاللہ کی نافرمانی میں استعمال نہ ہو۔اور اس کی روزے کی حالت اور غیر روزے کی حالت ایک جیسی نہ ہو بلکہ ان دونوں حالتوں اور دونوں میں فرق وامتیاز واضح اور نمایاں ہو۔
قیام اللیل:۔
دوسرا عمل،قیام اللیل ہے۔یعنی راتوں کو اللہ کی عبادت اور اس کی بارگاہ  میں عجزونیاز کا اظہار کرنا۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عبادالرحمان(رحمان کے بندوں) کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ،ان میں ایک یہ ہے:
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِيَاماً (الفرقان:25/63)
"ان کی راتیں اپنے رب کے سامنے قیام وسجود میں گزرتی ہیں"
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح بخاری صلاۃ التراویح باب فضل من قام  رمضان رقم 2009 مسلم صلاۃ المسافرین باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح رقم 759)
"جس نے رمضان(کی راتوں) میں قیام کیا،ایمان کی حالت میں ،ثواب کی نیت(اخلاص) سے ،تو اسکے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے"
راتوں کا قیام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا بھی مستقل معمول تھا ،صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ  بھی اس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور ہر دور کے اہل علم  وصلاح اور اصحاب زہدو تقویٰ کا یہ امتیاز رہاہے۔خصوصاً رمضان المبارک میں اس کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔رات کا یہ تیسراآخری پہر اس لیے بھی بڑی اہمیت  رکھتاہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ ہر روز آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اہل  دنیا سے خطاب کرکے کہتا ہے:
"کون ہے جو مجھ سے مانگے،تو میں اس کی دعا قبول کروں؟کون ہے جو مجھ سے سوال کرے،تو میں اس کو عطا کروں؟کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے ،تو میں اسے بخش دوں؟"
"يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ "(البخاری ،کتاب التہجد باب الدعاء والصلاۃ من آخر اللیل رقم:1135)
صدقہ وخیرات:۔
تیسرا صدقہ وخیرات کرنا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   فرماتے ہیں :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -اجود الناس وَكَانَ اجود مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْانَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -اجود بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ‏. ‏ (مسلم الفضائل باب12 رقم 2208)
"رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے  تھے اور آپ کی سب سے زیادہ سخاوت  رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی۔۔۔اس مہینے میں(قرآن کا دور کرنے کے لیے) آپ سے جب جبرئیل  علیہ السلام   ملتے،تو آپ کی سخاوت اتنی زیادہ اور اس طرح عام ہوتی جیسے تیز ہوا ہوتی ہے ،بلکہ اس سے بھی زیادہ"
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں عام دنوں کے مقابلے میں صدقہ وخیرات کا  اہتمام کرنا چاہیے۔
صدقہ و خیرات کا مطلب ہے ،اللہ کی  رضا جوئی کے لیے  فقراء مساکین ،یتامی وبیوگان اور معاشرے کے معذور اور بے سہارا افراد کی ضروریات پر خرچ کرنا اور ان کی خبر گیری کرنا۔بے لباسوں کو لباس پہنانا، بھوکوں کو غلہ فراہم کرنا،بیماروں کا علاج معالجہ کرنا،یتیموں اور بیواؤں کی سر پرستی کرنا،معذوروں کاسہارا بننا،مقروضوں کو قرض کے بوجھ سے نجات دلا دینا اور اس طرح کےدیگر افراد کے ساتھ تعاون وہمدردی کرنا۔
سلف صالحین میں کھانا کھلانے کا ذوق وجذبہ بڑاعام  تھا،اور یہ سلسلہ بھوکوں اور تنگ دستوں کو ہی کھلانے تک محدود نہ تھا ،بلکہ دوست احباب اور نیک لوگوں کی دعوت کرنا کا بھی شوق فراواں تھا،اس لیے کہ اس  سے آ پس میں پیارومحبت میں اضافہ ہوتاہے اور نیک لوگوں کی دعائیں حاصل ہوتی ہیں جن سےگھروں میں خیر وبرکت کا نزول ہوتا ہے۔
روزے کھلوانا:۔
ایک عمل روزے کھلوانا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا" (ترمذی الصوم باب ماجاء فی فضل   من فطر رقم 807)
"جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا،تو اس کو بھی روزے دار کی مثل اجر ملے گا،بغیر اس کے کہ اللہ روزے دار کے اجر میں کوئی کمی کرے"
ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ (صحیح الترغیب 2901)
"جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا یا کسی مجاہد کوتیار کیا(سامان حرب دے کر) تو اس کے لیے بھی اس کی مثل اجر ہے"
کثرت تلاوت:۔
قرآن کریم کا نزول رمضان المبارک میں ہوا،اس لیے قرآن کریم کا نہایت گہراتعلق رمضان المبارک سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت  جبرئیل  علیہ السلام   کے ساتھ قرآن کریم کادور فرمایا کرتے تھے اور صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین   وتابعین رحمۃ اللہ علیہ  بھی اس ماہ میں کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کااہتمام کرتے تھے،ان میں سے کوئی دس دن میں،کوئی سات دن اور کوئی تین دن میں قرآن ختم کرلیا کرتا تھا اور بعض کی بابت آتا ہے کہ وہ اس سے  بھی کم مدت میں  قرآن  ختم کرلیتے تھے۔بعض علماء نے کہا ہے کہ:
حدیث میں تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کرنے کی جو ممانعت ہے، اس کا تعلق عام حالات وایام سے ہے ۔فضیلت والے اوقات اور  فضیلت والے مقامات اس سے مستثنیٰ ہیں۔یعنی ان اوقات اور مقامات میں تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم کرنا جائز ہے۔جیسے رمضان المبارک کےشب وروز ،بالخصوص شب قدر ہے۔یا جیسے مکہ ہے جہاں حج یا عمرے کی نیت سے کوئی گیا ہو۔ان اوقات اور جگہوں میں چونکہ انسان ذکر وعبادت کا کثرت سے اہتمام کرتاہے،اس لیے کثرت تلاوت بھی مستحب ہے۔"
تاہم حدیث کے عموم کو ملحوظ رکھنا اور کسی بھی وقت یا جگہ کو اس سے مستثنیٰ نہ کرنا ،زیادہ صحیح ہے،توجہ اور اہتمام سے روزانہ دس پاروں کی تلاوت بھی کافی ہے،باقی اوقات میں انسان دوسری عبارات کا اہتمام کرسکتاہے یا قرآن کریم کے مطالب ومعانی کے سمجھنے میں صرف کرسکتا ہے۔کیونکہ جس طرح تلاوت مستحب ومطلوب ہے،اسی طرح قرآن میں  تدبر کرنا اور اس کے مطالب ومعانی کو سمجھنا بھی پسندیدہ اور امر موکد ہے۔
تلاوت قرآن میں خوف وبکاء کی مطلوبیت:۔
قرآن کریم کو پڑھتے اور سنتے وقت انسان پر خوف اور رقت کی کیفیت بھی طاری ہونی چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب پڑھنے اور سننے والے مطالب ومعانی سے بھی واقف ہوں۔اسی لیے قرآن کو شعروں کی سی تیزی اور روانی سے پڑھنے کی ممانعت ہے ،جس کا مطلب  یہی ہے کہ قرآن کومحض تاریخ وقصص کی کتاب نہ سمجھا جائے بلکہ اسے کتاب وہدایت سمجھ کر  پڑھا جائے،آیات وعد ووعید اور انذار وتبیشیر پر غور کیا جائے،
جہاں اللہ کی رحمت ومغفرت اور اس کی بشارتوں اور نعمتوں کا بیان ہے وہاں اللہ سے ان کا سوال کیا جائے اور جہاں اس کے انذار وتخویف اور عذاب ووعید کاتذکرہ ہو،وہاں ان سے پناہ مانگی جائے۔ہمارے اسلاف اس طرح غوروتدبر سے قرآن پڑھتے تو ان بعض دفعہ ایسی کیفیت اور  رقت طاری ہوتی کہ بار بار وہ ان آیتوں کی تلاوت کرتے اور خوب بارگاہ الٰہی میں گڑگڑاتے ۔اگر سننے والے بھی غوروتدبر سے سنیں تو ان پر بھی یہی کیفیت طاری ہوتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے فرمایا:"اقرا علي " مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ"حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے عرض کیا:"اقرا عليك وعليك انزل"میں آپ کو پڑھ کر سناؤں؟حالانکہ آپ پرتو قرآن نازل ہواہے"آپ نے  فرمایا:"اني احب ان اسمعه من غيري"میں اپنے علاوہ کسی اور سے سننا چاہتا ہوں"چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے سورہ نساء پڑھنی شروع کردی۔جب وہ اس آیت پر پہنچے:
"فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِيدًا "
"اس وقت کیا حال ہوگاجب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ حاضر کریں گے اور(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) ان سب پر آپ کو گواہ بنائیں گے۔"(النساء 4/41)
تو  آپ نے فرمایا:"حسبك"بس کرو"حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ    فرماتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔(صحیح بخاری،تفسیر سورۃالنساء ،رقم الحدیث ،4582)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اس طرح غوروتدبر سے قرآن  پڑھتے اور اس سے اثر پذیر ہوتے کہ جن سورتوں میں قیامت کی ہولناکیوں کابیان ہے آپ  فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھے بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کردیا ہے:
شيبتني هود و أخواتها قبل المشيب (طبرانی کبیر  بحوالہ الصحیحۃ  رقم 955)
دوسری روایت میں ہے:
شَيَّبَتْنِى هُودٌ وَالْوَاقِعَةُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَ (عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ)
مجھے سورہ ہود(اور اس جیسی دوسری سورتوں) سورہ واقعہ ،مرسلات اور(عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ) نے بوڑھا کردیاہے"(ترمذی بحوالہ صحیح الجامع الصغیر 1/692)
اللہ کے خوف سے ڈرنا اور رونا،اللہ کو بہت محبوب ہے۔ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"سات آدمیوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا،ان میں ایک وہ شخص ہوگا جس کی آنکھوں سے تنہائی میں اللہ کے ذکر اور اس کی عظمیت وہیبت کے تصور سے آنسو جاری ہوجائیں۔
"رجل ذكر الله خاليا ففاضت عيناه" (صحیح بخاری الاذان،باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔رقم 660  ورقم 6479)
ایک واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان  فرمایا کہ:
"پچھلی امتوں میں ایک شخص تھا ،اللہ نے اس کومال ودولت سے نوازاتھا،لیکن وہ سمجھتا تھا کہ میں نے اس کا حق ادا نہیں کیا اور بہت گناہ کیے ہیں۔چنانچہ موت کے وقت اس نے اپنے بیٹوں کو بلا کروصیت کی کہ میری لاش جلا کر اس کی  راکھ تیز ہوا میں اڑادینا(بعض روایات میں ہے کہ سمندر میں پھینک دینا)چنانچہ اس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے اس کے اجزاء کوجمع کیا اور اس سے پوچھا:" تو نے ایسا کیوں کیا؟"اس نے کہا صرف تیرے خوف نے مجھے ایسا کرنے پرآمادہ کیا۔تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا۔"(صحیح بخاری الرقاق رقم 6481۔الانبیاءرقم :3452۔3478۔3479)
بہرحال اللہ کا خوف اپنے دل میں پیدا کرنے کی سعی کرنی چاہیے اور اس کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت غوروتدبر سے کی جائے اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھا جائے اور اللہ کی عظمت وجلالت کوقلب وذہن میں مستحضر کیاجائے۔
اعتکاف:۔
رمضان کی ایک خصوصی عبادت اعتکاف ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اس کابھی خصوصی اہتمام  فرماتے تھے۔رمضان کے آخری دس دن ،رات دن مسجد کے ایک گوشے میں گزارتے اور دنیوی معمولات اور تعلقات ختم فرمادیتے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اتنی پابندی سے اعتکاف فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ آپ اعتکاف نہ بیٹھ سکے،تو آپ نے شوال کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا:(صحیح بخاری) اور جس سال آپ کی وفات ہوئی،اس سال آپ نے رمضان میں دس دن کی بجائے 20 دن اعتکاف فرمایا:(صحیح بخاری ،الاعتکاف،رقم 2044)
اعتکاف کے معنی  ہیں"جھک کر یکسوئی سے بیٹھ رہنا"اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اللہ کے گھر میں یکسو ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔اس کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہتی ہے کہ اللہ مجھ سے راضی ہوجائے۔چنانچہ وہ اس گوشہ خلوت میں بیٹھ کر توبہ واستغفار کرتاہے۔نوافل پڑھتا ہے ،ذکر وتلاوت کرتاہے۔دعاء التجا کرتاہے اور یہ سارے ہی کام عبادات ہیں۔اس اعتبار سے اعتکاف گویا مجموعہ عبادات ہے۔اس موقع پر اعتکاف کے ضروری مسائل میں بھی سمجھ لینے مناسب ہیں:
اس کا آغاز 20  رمضان المبارک کی شام سے ہوتا ہے۔معتکف مغرب سے پہلے مسجد میں آجائے اور صبح فجر کی نماز پڑھ کر معتکف (جائے اعتکاف) میں داخل ہو۔
اس میں بلا ضرورت مسجد سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔
بیمار کی مزاج پرسی،جنازے میں شرکت اور اس قسم کے دیگر رفاہی اور معاشرتی امور میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔
البتہ بیوی آکر مل سکتی ہے ،خاوند کے بالوں میں کنگھی وغیرہ کرسکتی ہے۔خاوند بھی اسے چھوڑنے کے لیے گھر تک جاسکتاہے۔اسی طرح کوئی انتظام نہ ہو اور گھر بھی قریب ہو تو اپنی ضروریات زندگی لینے کے لیے گھر جاسکتا ہے۔
غسل کرنے اور چارپائی استعمال کرنے کی بھی اجازت ہے۔
اعتکاف جامع مسجد میں کیاجائے،یعنی جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو۔
عورتیں بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں،لیکن ان کے لیے اعتکاف بیٹھنے کی جگہ مساجد ہی ہیں نہ کہ گھر۔جیسا کہ بعض مذہبی حلقوں میں گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا سلسلہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف بیٹھتی رہی ہیں اور ان کے خیمے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں ہی لگتے تھے،جیسا کہ صحیح بخاری میں وضاحت موجود ہے اور قرآن کریم کی آیت:
وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ (البقرہ:187) سے بھی واضح ہے۔
اس لیے عورتوں کا گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا رواج بے اصل اور قرآن وحدیث کی  تصریحات کے خلاف ہے۔تاہم چونکہ یہ نفلی عبادت ہے بنا بریں جب تک کسی مسجد  میں عورتوں کے لیے الگ مستقل جگہ نہ ہو،جہاں مردوں کی آمدورفت کا سلسلہ بالکل نہ ہو،اس وقت تک عورتوں کی مسجدوں میں اعتکاف نہیں بیٹھنا چاہیے۔
ایک فقہی اصول ہے:دراالمفاسد اولي من جلب المصالح یعنی خرابیوں سے بچنا اور ان کے امکانات کو ٹالنا مصالح حاصل کرنے کے بہ نسبت ،زیادہ ضروری ہے۔"اس لیے جب تک کسی مسجدمیں عورت کی عزت  وآبرو محفوظ نہ ہو،وہاں اس کے لیے اعتکاف بیٹھنا مناسب نہیں۔
لیلۃ القدر کی تلاش:۔
لیلۃ القدر جس کی فضیلت یہ ہے کہ ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،یہ بھی رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک  رات ہوتی ہے۔اور اسے مخفی رکھنے میں بھی یہی حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک مومن اس کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے پانچوں راتوں میں اللہ کی خوب عبادت کرے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی فضیلت میں بیان  فرمایا ہے:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ "جس نے شب قدر میں قیام کیا(یعنی اللہ کی عبادت کی) اسکے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے"(صحیح بخاری،باب فضل لیلۃ القدر،باب رقم 1،رقم :2014)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے تلاش کرنے کی تاکید  بھی فرمائی ہے۔فرمایا:
"إنّي رأيت ليلة القدر ثم أُنسيتها أو نسيتها فالتمسوها في العشر الأواخر في الوتر "
(صحیح مسلم،الصیام باب فضل لیلۃ القدر والحث علی علیھا۔۔۔رقم:1167)
"مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی تھی،لیکن(اب) اسے بھول گیا(یامجھے بھلا دیاگیا) پس تم اسے رمضان کے آخری دنوں کی طاق  راتوں میں تلاش کرو"
یعنی ان طاق راتوں  میں خوب اللہ کی عبادت کرو،تاکہ لیلۃ القدر کی  فضیلت پاسکو۔
لیلۃ القدر کی خصوصی دعا:۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا    فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا،اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے ،تومیں کیا پڑھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  فرمایا:یہ دعا پڑھو:
"اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي"
 (ترمذی ،الدعوات باب 88 ،رقم:313)
"اے اللہ! توبہت معاف کرنے والا ہے ،معاف کرنا تجھے پسند ہے،پس تو مجھے معاف  فرمادے"
آخری عشرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول:۔
یہ بات واضح ہے کہ  رمضان کے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کیا جاتاہے اور اسی عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدر بھی ہے،جس کی تلاش وجستجو ان راتوں کو قیام کرنے اور ذکر وعبارت میں  رات گزارنے کی تاکید ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اس عشرہ اخیر میں عبادت کے لیے خود بھی کمر کس لیتے اور اپنے گھر والوں کو بھی حکم دیتے۔حضرت  عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا    فرماتی ہیں:
"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر أحيا الليل وأيقظ أهله وجد وشد المئزر "
(صحیح مسلم الصیام الاعتکاف باب الاجتہاد فی العشر الاواخر من  رمضان رقم 1174)
"رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول تھا کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتاتو  رات کا بیشتر حصہ جاگ کر گزارتے اور اپنے گھروالوں کو بھی بیدار کرتے اور(عبادت میں) خوب محنت کرتے اور کمر کس لیتے"
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا    فرماتی ہیں:
"كَانَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ -أي: من رمضان- مَا لاَ يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ"
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  آخری عشرے میں جتنی محنت کرتے تھے،اور دنوں میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے"(حوالہ مذکور)
اس محنت اور کوشش سے مراد ،ذکر وعبادت کی محنت اور کوشش ہے۔اس لیے ہمیں بھی ان آخری دس دنوں میں اللہ کو راضی کرنے کے لیے ذکر وعبادت اور توبہ واستغفار کا خوب خوب اہتمام کرنا چاہیے۔
رمضان المبارک میں عمرہ کرنا:۔
رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کی بھی بڑی فضیلت ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عورت سے فرمایا:
"فإذا كان رمضان اعتمري فيه ، فإن عمرة في رمضان حجة "
(صحیح بخاری الحج کتاب المعمرۃ باب عمرۃ فی رمضان رقم1782)
اور بخاری کی دوسری روایت  میں یہ الفاظ ہیں:
"حجة معي"
(بخاری فضائل المدینہ رقم:18263)
اس مقام پر اس عورت کا نام بھی ام سنان انصاریہ یہ بیان کیا گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے  فرمایا:
"جب رمضان آئے تو اس میں عمرہ کرنا،اس لیے کہ رمضان میں عمرہ کرناحج کے یامیرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک معمول یہ بھی تھا کہ آپ اکثر فجر کی نماز پڑھ کر اپنے مصلےٰ پر تشریف رکھتے یہاں تک کہ سورج خوب چڑھ آتا۔
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى الْفَجْرَ جَلَسَ فِي مُصَلَّاهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ  حسناً (صحیح مسلم کتاب المساجد باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح وفضل المساجد 7رقم:680)
ایک اور حدیث میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
من صلى الفجر في جماعة، ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين، كانت له أجر حجة و عمرة تامة، تامة؟
(رواہ الترمذی حسنہ الالبانی فی تعلیق المشکوۃ 1/306 باب الذکر بعد الصلوۃ)
"جس نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ  پڑھی،پھر(مسجد میں) بیٹھا اللہ کا ذکر کرتارہا،یہاں تک کہ سورج نکل آیا،پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی ،تو اس کو ایک حج اور عمرے کی مثل اجر ملے گا۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:پورے حج وعمرے کا حج وعمرے کا،پورے حج وعمرے کا"
یہ فضیلت عام ہے،رمضان اور غیر  رمضان دونوں حالت میں مذکورہ دو رکعتوں کی وہ فضیلت ہےجو اس میں بیان کی گئی ہے۔اسے اعمال  رمضان میں بیان کرنے کامقصد یہ ہے کہ عام دنوں میں تو ہر مسلمان کے لیے اس فضیلت کا حاصل کرنا مشکل ہے۔تاہم رمضان میں ،جب کہ نیکی کرنے کا جذبہ زیادہ قوی اور ثواب کمانے کاشوق فراواں ہوتا ہے،اس لیے رمضان میں تو یہ فضیلت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔
کثرت دعا کی ضرورت:۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے احکام ومسائل کے درمیان دعا کی ترغیب بیان فرمائی ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي (البقرہ:2/186)
"جب میرے بندے آپ سے میری بابت پوچھیں،تو میں قریب ہوں،پکارنے و الے کی پکار کو قبول کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ کو پکارے ،لوگوں کو چاہیے کہ وہ بھی میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں"
اس سے علماء اور مفسرین نے استدلال کیا ہے کہ اس انداز بیان سے اللہ تعالیٰ کی یہ منشا معلوم ہوتی ہے کہ رمضان المبارک میں دعاؤں کا بھی خصوصی اہتمام کیاجائے،کیونکہ روزہ ایک تو اخلاص عمل بہترین نمونہ ہے،دوسرے ،روزے کی حالت  میں انسان نیکیاں بھی زیادہ سے زیادہ کرتا ہے،راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتا اور توبہ واستغفار بھی کرتاہے اور یہ سارے عمل انسان کو اللہ کے قریب کرنے والے ہیں۔
اس لیے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی خوب کی جائیں،خصوصاً افطاری کے وقت اور رات کے آخری پہر میں،جب اللہ تعالیٰ خودآسمان دنیا پر نزول فرما کر لوگوں سے کہتاہے کہ مجھ سے مانگو،میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔تاہم قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ دعا کے آداب وشرائط کا بھی اہتمام کیا جائے جیسے:
1۔اللہ کی حمد وثنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر ورود کا اہتمام۔
2۔حضور قلب اور خشوع کا اظہار۔
3۔اللہ کی ذات پر اعتماد ویقین۔
4۔تسلسل وتکرار سے دعا کرنا اور جلد بازی سے گریز۔
5۔صرف حلال کمائی پر قناعت اورحرام کمائی سے اجتناب وغیرہ۔
اس سلسلے میں چند ارشادات ملاحظہ ہوں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ". (ترمذی)
"اللہ سے اس طرح دعاکرو کہ تمھیں یہ یقین ہوکہ وہ ضرور دعا قبول فرمائے گا اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل ،بے پروا دل سے نکلی ہوئی دعا قبول نہیں فرماتا"
ایک اور حدیث میں فرمایا:
"لا يقولنَّ أحدكم: اللهمَّ اغفر لي إن شئت، اللهم ارحمني إن شئت. ليعزم في الدعاء؛ فإنَّ الله صانع ما شاء لا مكره له"
 (صحیح بخاری الدعوات  رقم:6339۔۔۔مسلم،کتاب الذکر والدعاء  رقم:2679)
"جب تم میں سے کوئی دعا کرے ،تو اس طرح دعا نہ کرے:"اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے معاف کردے،اگر تو چاہے تو رحم فرما"بلکہ پورے یقین،اذعان اورالحاح واصرار سے دعا کرے،اس لیے کہ اسے کوئی مجبور کرنے والا نہیں"
ایک اور حدیث میں فرمایا:
"لا يَزالُ يُسْتَجَابُ لِلعَبْدِ مَا لَمْ يَدْعُ بإثْمٍ، أَوْ قَطيعَةِ رحِمٍ، مَا لَمْ يَسْتَعْجِلْ" قيل: يَا رسولَ اللهِ مَا الاستعجال؟ قَالَ: "يقول: قَدْ دَعوْتُ، وَقَدْ دَعَوْتُ، فَلَمْ أرَ يسْتَجِبُ لي، " فَيَسْتَحْسِرُ عِنْدَ ذَلِكَ وَيَدَعُ الدُّعَاءَ"
صحیح بخاری الدعوات باب12  رقم:634۔صحیح مسلم الذکر والدعاء باب25 رقم 2735 والفظ لمسلم)
"بندے کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے ،جب  تک وہ  گنا یاقطع رحمی کی دعا نہ ہو اور جلد بازی بھی نہ کی جائے۔پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جلد بازی کا مطلب کیاہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: وہ کہتا ہے ،میں نے دعاکی اور بار بار دعا کی۔لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی۔چنانچہ اس کے نتیجے میں وہ سست اور مایوس ہوجاتا اور دعا کرنا چھوڑ بیٹھتا ہے"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے ،پراگندہ حال،گردوغبار میں اٹا ہوا اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتا اور کہتا ہے :
يا رَبُّ.. يا رَبُّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامِ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِّيَ بِالْحَرَامَ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لَهُ؟ (صحیح مسلم الزکاۃ باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا رقم:1015)
"اے رب! اے رب! کرتے ہوئے دعا کرتاہے ،حالانکہ اس کا کھاناحرام کا ہے،اس کا پینا حرام کاہے اور اس کا لباس بھی حرام کا ہے،حرام کی غذا ہی اس کی خوراک ہے ،تو ایسے شخص کی  دعا کیونکر قبول ہوسکتی ہے؟"
مذکورہ احادیث سے ان آداب وشرائط کی وضاحت ہوجاتی ہے جو اس عنوان کے آغاز میں بیان کئے گئے ہیں۔ان آداب وشرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعا کی جائے  تو یقیناً وہ دعا قبول ہوتی ہے یا اس کے عوض کچھ اورفوائد انسان کو حاصل ہوجاتے ہیں۔جیسے ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : (ما مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلاَ قَطِيعَةُ رَحِمٍ إِلاَّ أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلاَثٍ إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِى الآخِرَةِ وَإِمَّا أَنُْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا ). قَالُوا: إِذاً نُكْثِرُ. قَالَ: اللَّهُ أَكْثَرُ  (رواہ احمد)
"جو مسلمان بھی کوئی دعا کرتاہے۔بشرط یہ کہ وہ گناہ اور قطعی رحمی کی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے دعا کی وہ سے تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور عطا کر تا ہے،یاتو  فی الفور اس کی دعا قبول کرلی جاتی ہے،یا اس کو اس کے لیے ذ خیرہ آخرت بنادیا جاتاہے۔یا اس سے اس کی مثل اس کو پہنچنے والی برائی کو دور کردیا جاتاہے۔یہ سن کر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین   نے کہا تب تو ہم خوب دعائیں کیا کریں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اللہ کے پاس بھی بہت خزانے ہیں"
ایک دوسرے کے حق میں غائبانہ دعا کی فضیلت:۔
انسان کو صرف اپنے لیے ہی دعا نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنے دوست احباب اور خویش واقارب کے حق میں  پرخلوص دعائیں کرنی چاہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّمَا دَعَا لأَخِيهِ بِخَيْرٍ، قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ: آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ»". (مسلم کتاب الذکر والدعاء۔۔۔باب فضل الدعاء بظھر الغیب رقم:2733)
"مسلمان کی اپنے(مسلمان) بھائی کے حق میں غائبانہ دعا قبول ہوتی ہے۔اس کے سر پر ایک مقروضہ فرشتہ ہوتا ہے،جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتاہے،تو اس پر مقررہ فرشتہ کہتاہے:"آمین(اے اللہ! اس کی دعا قبول فرمالے) اور اللہ تجھے بھی اس کی مثل دے"
بد دعا دینے سے اجتناب کیا جائے!
انسان فطرۃ کمزور اور جلد باز ہے ،اس لیے جب وہ کسی سے تنگ آجاتاہے توفوراً بددعائیں دینی شروع کردیتا ہے حتیٰ کہ اپنی اولاد کو اور اپنے آپ کو بھی بددعائیں دینے سے گریز نہیں کرتا۔اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
" لا تَدْعُوا على أنْفُسِكُمْ، وَلا تَدْعُوا على أوْلادِكُمْ، وَلا تَدْعُوا على خَدَمِكمْ، ولا تَدْعُوا على أمْوَالِكُمْ، لا تُوافِقُوا مِنَ اللَّهِ ساعَةً نِيْلَ فيها عَطاءٌ فَيُسْتَجابَ مِنْكُمْ "
"اپنے لیے بددعا نہ کرو، اپنی اولاد کے لیے بددعا نہ کرو،اپنے مال وکاربار کےلیے بددعانہ کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بددعا ایسی گھڑی کے موافق ہوجائے جس  میں اللہ تعالیٰ انسان کو وہ کچھ عطا فرمادیتا ہے جس کا وہ سوال کرتاہے،اور یوں وہ تمہاری بددعائیں تمہاری ہی حق میں قبول کرلی جائیں"(صحیح مسلم کتاب الذھد والرقائق رقم3009)
مظلوم کی آہ سے بچو!
یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان ،دوسرے مسلمان بلکہ کسی بھی انسان پر ظلم نہ کرے۔اس لیے کہ مظلوم کی بددعا  فوراً عرش پر پہنچتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
اتق دعوة المظلوم فان ليس بينها وبين الله حجاب, (بخاری،الذکاۃ،باب اخذ الصدقۃ من الاغنیاء  رقم :1496 مسلم رقم29)
"مظلوم کی بد دعا سے بچو ،اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی آڑ نہیں ہوتی"
حق تلفیوں کا ازالہ اور گناہوں سےاجتناب کریں!
یہ مہینہ  تو بہ واستغفار اور اللہ کی رحمت ومغفرت کا مہینہ ہے۔یعنی اس میں ایک مسلمان کثرت سے توبہ واستغفار کرتا ہے،اور توبہ واستغفار سے حقوق اللہ میں روا رکھی گئی کوہتاہیاں تو شاید اللہ معاف فرمادے لیکن حقوق العباد سے متعلق کوتاہیاں اس وقت تک معاف نہیں ہوں گی،جب تک دنیا میں ان کا ازالہ نہ کرلیا جائے۔مثلا کسی کاحق غصب کیا ہے تواسے واپس کیاجائے۔کسی کو سب وشتم یا الزام وبہتان کانشانہ بنایا ہے۔تو اس سے معافی مانگ کراسے راضی کیا جائے،کسی کی زمین یا کوئی اور جائیداد ہتھیائی ہے تو وہ اسے لوٹا دے۔جب تک ایک مسلمان اس  طرح تلافی اور ازالہ نہیں کرے گا، اس کی توبہ کی کوئی حیثیت نہیں۔اسی طرح وہ کسی اور معاملے میں اللہ کی نافرمانیوں کا ارتکاب کررہا ہے۔مثلا رشوت لیتا ہے ،سود کھاتاہے،حرام اور ناجائز چیزوں کا کاروبار کرتا ہے،یا کاروربار میں جھوٹ اور دھوکے سے کام لیتا ہے،تو جب تک ان گناہوں اور حرکتوں سے بھی انسان باز نہیں آئے گا،اس کی توبہ بے معنی اور مذاق ہے ۔
اسی طرح اس مہینے میں یقیناً اللہ کی رحمت ومغفرت عام ہوتی ہے۔لیکن اس کے مستحق وہی مومن قرار پاتے ہیں جنھوں نے گناہوں کو ترک کرکے اور حقوق العباد ادا کرکے خالص توبہ کرلی ہوتی ہے۔دوسرے لوگ تو اس مہینے میں بھی رحمت ومغفرت الٰہی سے محروم رہ سکتے ہیں۔
اپنے دلوں کی باہمی بغض وعناد سے پاک کریں!
اللہ کی ر حمت ومغفرت کا مستحق بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے  کہ ہم  آپس میں اپنے دلوں کو ایک د و سرے کی بابت بغض وعنادسے پاک کریں،قطع رحمی سے اجتناب کریں اور اگر ایک دوسرے سے دنیوی معاملات کی وجہ سے بول چال  بند کی ہوئی ہے تو آپس میں تعلقات بحال کریں،ورنہ یہ قطع رحمی ،ترک تعلق اور باہمی بغض وعناد بھی مغفرت الٰہی سے محرومی کا باعث  بن سکتاہے۔حدیث میں آتاہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ فَيُقَالُ أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا "
(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والاداب،باب النھی عن الشحناء والتھاجر)
"پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ اور ہر اس بندے کو معاف کردیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا،سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان  دشمنی اوربغض ہو۔ان کی بابت کہا جاتاہے کہ جب تک یہ باہم صلح نہ کرلیں اس وقت تک ان کی مغفرت کے معاملے کو موخر کردو۔صلح کرنے تک ان کے معاملے کوموخر کردو۔ان کے باہم صلح کرنے تک ان کے معاملے کو موخر کردو"
اس حدیث سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آپس میں بغض وعناد اور ترک تعلق کتنا بڑا جرم ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین دن سےزیادہ بول چال بند رکھنے اور تعلق ترک کئے رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ ، فَمَنْ هَجَرَ فَوْقَ ثَلَاثٍ فَمَاتَ دَخَلَ النَّارَ "
(رواہ احمد وابوداود وقال البانی اسنادہ صحیح تعلیق المشکوۃ 3/1400)
"کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں  ہے کہ وہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق منقطع   کئے رکھے اورجس نے تین دن سے زیادہ تعلق  توڑے رکھا اور اسی حال میں اس کو موت آگئی،تو وہ جہنمی ہے"
اسی طرح قطع رحمی کاجرم ہے یعنی رشتے داروں سے رشتے ناطے توڑ لینا،ان سے بدسلوکی کرنا اور ان سے تعلق قائم نہ رکھنا۔ایسے شخص کے بارے میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"لا يدخل الجنة قاطع رحم"
(صحیح مسلم البر والصلۃ باب صلۃ الرحم۔۔۔رقم:2556)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام اعمال سے بچائے جو جنت میں جانے سے رکاوٹ بن سکتے ہیں اور ایسے اعمال کرنے کی توفیق سے نوازے جو ہمیں رحمت ومغفرت الٰہی کامستحق بنادیں۔آمین!