تبصرہ کتب

نام کتاب:                                سید بادشاہ کا قافلہ
مولفہ: آباد شاہ پوری         ضخامت: 456 صفحات
بڑا سائز، کاغذ کتابت، طباعت عمدہ، مجلد، سنہری ڈائیدار، قیمت 48 روپے
ناشر: البدر پبلی کیشنر 23 راحت مارکیٹ اردو بازار لاہور
سید احمد شہید بریلوی نے عزم و ہمت، صبر و استقامت اور راہِ حق میں بلا کشی کے جو نقوش سیتہ گیتی پر مرتسم کئے، وہ ابدالاباد تک اہل ایمان کے دلوں مین حرارت پیدا کرتے رہیں گے۔ فی الحقیقت احیاء دین کے سلسلہ میں سید احمد شہید اور ان کے سرفروز رفقاء کی مساعی جمیلہ اور ان کی داستان، جہاد و شہادت ہماری تاریخ کا ایک تابناک باب ہے، اتنا تابناک کہ اس کی روشنی میں ملتِ اسلامیہ اپنی منزلِ مقصود کا رخ متعین کر سکتی ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے سید احمد کی تحریک جہاد کا تعارف یوں کرایا ہے:
"تیرھویں صدی میں جب ایک طرف ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت فنا ہو رہی تھی اور دوسری طرف ان میں مشرکانہ رسوم اور بدعات کا زور تھا، مولانا اسمعیل شہید اور حضرت سید احمد بریلوی کی مجاہدانہ کوششوں نے تجدیدِ دین کی نئی تحریک شروع کی، یہ وہ وقت تھا جب سارے پنجاب پر سکھوں کا اور باقی ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ ان دو بزرگوں نے اپنی بلند ہمتی سے اسلام کا علم اٹھایا اور مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دی جس کی آواز ہمالیہ کی چوٹیوں اور نیپال کی ترائیوں سے لے کر خلیج بنگال کے کناروں تک یکساں پھیل گئی اور لوگ جوق در جوق اس علم کے نیچے جمع ہونے لگے، اس مجددانہ کارنامہ کی عام تاریخ لوگوں کو یہیں تک معلوم ہے کہ ان مجاہدوں نے سرحد پار ہو کر سکھوں سے مقابلہ کیا اور شہید ہوئے حالانکہ یہ واقعہ اس کی پوری تاریخ کا صرف ایک باب ہے۔" (دیباچہ سید احمد شہید از سید ابوالحسن علی ندوی)
سید احمد شہید کی سیرت اور تحریکِ جہاد پر اس سے پہلے بھی کئی بلند پایہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اب مولانا آباد شاہ پوری نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ جناب آباد شاہ پوری کا نام پاکستان کے علمی اور دینی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ ایک کہنہ مشق صحافی اور ایسے بلند پایہ ادیب ہیں جن کا قلم موتی بکھیرتا ہے اور جن کو زبان و بیان پر قابل رشک قدرت حاصل ہے۔ سب سے بڑح کر یہ کہ مبداء فیض نے انہیں قلبِ تپاں سے نوازا ہے۔ وہ متعدد اگرانقدر کتابوں کے مصنف ہیں، لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ زیرِنظر کتاب ان کی تمام تصنیفات میں شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ کتاب کی زبان اتنی شستہ در فتہ اور اسلوب نگارش ایسا دلآویز ہے کہ قاری کو اپنے جذب کر لیتا ہے اور پھر اس پر خلوص ، عقیدے اور سوزِ دروں کی ایسی گہری چھاپ ہے کہ سخت سے سخت دلوں کو پگھلا کر رکھ دیتی ہے اور اس کے با وصف اس میں صحتِ واقعات کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے کہ تاریخ کے چہرے پر ذرا بھی خراش نہیں آئی۔ کتاب کا تعارف خود فاضل مولف نے"بانگِ رحیل" کے عنوان سے بڑے جچے تلے انداز میں کرایا ہے اس کی چند ابتدائی سطریں ملاحظہ ہوں:
"یہ ایک عظیم تحریک کے قافلہ شوق کی داستان جلیل و جمیل ہے۔ برصغیر پاکستان و ہند کی پہلی اسلامی تحریک کے قافلے کی داستانِ لازوال، ان کی روح پر در دینی ولولوں اور کفر و باطل کے ساتھ جانگسل تصادموں اور رنج و محن کی داستانِ جانگداز، جس کے اوراق بالا کوٹ کی شہادت گاہ سے اندرون ملک کے قید خانوں اور انڈمان کے وحشت ناک جزیروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ تقریبا سوا سو برس کے عرصے پر محیط ایک ایسی داستان جس کو جہنم دینے والا ایک ایک لمحہ ایمان افروز سے جذب و شوق کی کائنات لیے ہوئے۔"
فاضل مولف کے اپنے قول کے مطابق اس تصنیف سے ان کا مقصد مسلمان نوجوانوں خصوصا ان تحریکوں کے کارکنوں کو فکر و نظر اور کردار و عمل کی تربیت کا گراں بہا سرمایہ بہم پہنچانا ہے جو خالص کتاب و سنت کے اسلام کو سربلند کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔"
کتاب کے چار ابواب ہیں، مشہد بالا کوٹ، صادق پور، انڈمان اور چمر کنڈ، ان ابواب میں سید احمد شہید کی تحریکِ احیاء دین کو نہایت موثر انداز میں منزل بہ منزل چلتے دکھایا گیا ہے۔ حق یہ ہے کہ مولانا آباد شاہ پوری نے اپنے موضوع کا حق ادا کر دیا ہے، یہ کتاب تاریخ اور ادب کا نہایت حسین امتزاج ہے اور پاکستان کے علمی اور ادبی سرمائے میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔ ہم جناب آباد شاہ پوری کو اس ایمان افروز تصنیف پر عمقِ قلب سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ناشرین بھی داد و تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے اس کتاب کو اس کے شایان شان انداز سے شائع کیا۔ صوری و معنوی خوبیوں سے مالا مال اس گراں بہا کتاب کی قیمت 480 روپے بالکل واجبی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ کوئی کتب خانہ اور تاریخ و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی گھرانا اس کتاب سے خالی نہ رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طالب ہاشمی

نام کتاب:                                موت کے سائے
مولف:                                    مولانا عبدالرحمن عاجز مالیر کوٹلوی
ناشر:                                        رحمانیہ دارالکتب امین پور بازار فیصل آباد
ضخامت:                                  564 صفحات
کاغذ سفید گلیزڈ۔ ہر صفحہ بیلدار۔ طباعت آفسٹ
مجلد سنہری ڈائی دار ۔۔۔ قیمت سفید کاغذ جلد پلاسٹک کور 30 روپے
دیدہ زیب جہیز ایڈیشن 55 روپے، اعلی ایڈیشن 39 روپے
مشہور شاعر اور نثر نگار مولانا عبدالرحمن صاحب عاجز مالیر کوٹلوی کے حصے میں بہت بڑی سعادت آئی ہے کہ وہ مدت سے نظم و نثر کے ذریعے دین و اخلاق کی خدمت مین مصروف ہیں۔ ان کا اسلوب نگارش بڑا دلگداز اور اثرانگیز ہے۔ فی الحقیقت اللہ تعالیٰ نے انہیں قلبِ تپاں سے نوازا ہے، دین سے اپنی بے پناہ محبت اور ہدایت و اصلاح کی تڑپ کو وہ اپنی تحریروں میں اس طرح سمو دیتے ہیں کہ سخت سے سخت دل بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کسی مصنف یا شاعر کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے کہ وہ اس کی ذہنی اور تحقیقی کاوشوں میں تاثیر پیدا کر دے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مولانا عاجز کی نظم اور نثر دونوں میں بلا کی تاثیر ہوتی ہے۔ اگر اس تاثیر کی بدولت کچھ لوگوں کو ہدایت نصیب ہو جائے اور وہ دنیا پرستی کی دلدل سے نکل کر اپنی آخرت سنوارنے کی فکر میں لگ جائیں تو مولانا عاجز کی نظم و نثر ان کے لیے توشہ آخرت ثابت ہو سکتی ہے، مولانا موصوف سے ہمیں ذاتی نیاز حاصل ہے، وہ حضرت علامہ اقبال کے اس شعر کی سچی تصویر ہیں۔
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم، پاک دل و پاکباز
زیر نظر کتاب "موت کے سائے" مولانا عاجز کی تازہ ترین تالیف ہے۔ اس کتاب کا بنظر غائر مطالعہ کر کے ہم حیران ہیں کہ اس پر کیا تبصرہ کریں کیونکہ جو باتیں تبصرے میں کہی جا سکتی ہیں وہ سب اس کتاب کے اندر موجود ہیں تاہم امتثالِ امر کے طور پر یہ چند سطور اہل علم کو اس بلند پایہ کتاب سے متعارف کرانے کے لیے لکھی جا رہی ہیں ۔۔۔ کتاب کا موضوع ہے "موت" اور یہ اپنے موضوع کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے سوا کسی کو اس سے مفر نہیں۔ اس کے سامنے تمام مخلوق بے بس ہے اور مقررہ وقت اور جگہ پر اس کا آنا اٹل ہے، اسی لئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئی مسافر رہتا ہے، نہیں بلکہ جیسے کوئی مسافر رستہ چلتے ہوئے ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری) قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو، موت تمہاری گردن آ دبوچے گی، اگرچہ تم مضبوط قلعوں اور محلوں میں چلے جاؤ، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کیا کرو جو کہ دنیوی عیش و عشرت اور لذتوں کو مٹا دینے والی ہے۔
علمائے ربانی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں موت کی جو تشریح کی ہے وہ یہ ہے کہ موت نہ عدمِ محض ہے اور نہ فناء محض بلکہ جسم اور روح کی مفارقت یا جسم سے روح کے تدبیری تعلق کے یکسر منقطع ہونے کا نام موت ہے۔ روح جسم سے نکل کر خدا کی طرف لوٹ جاتی ہے یعنی جسم میں جہاں سے آ کر داخل ہوئی تھی وہیں واپس چلی جاتی ہے اور جسدِ بے روح کے اجزاء کچھ مدت میں منتشر ہو جاتے ہیں۔ قرآن حکیم میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے لئے دو موتیں اور دو حیاتیں ہیں، پہلی موت وہ ہے جس میں انسان کی تخلیق نہیں ہوئی تھی اور وہ عنصر یا مادہ کی صورت میں تھا پھر اس میں روح پھونکی گئی یعنی وہ زندہ ہو کر اس دنیا میں پیدا ہوا یہ اس کی پہلی حیات یا زندگی ہے۔ پھر موت آئے گی اور جسم اور روح ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گے۔ جسم اگلی مادی صورت میں تبدیل ہو جائے گا اور روح خدا کی طرف لوٹ جائے گی، یہ دوسری موت ہے پھر اللہ تعالیٰ انسان کی روح کو جسم عطا کر کے زندہ کرے گا یہ اس کی دوسری زندگی یا حیات ہے جس کے بعد پھر موت نہیں، یہی وہ آخرت ہے جس کے لئے انسان کو تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس عالم آخرت میں اگر کچھ پلے ہو گا تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور نعمتیں جنت کی صورت میں ملیں گی ورنہ نارِ جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت کے لئے زادِ راہ مہیا کرنے کی توفیق دے۔ یہ کتاب موت کو یاد دلاتی ہے اور دل میں آخرت کے لئے کچھ کرنے کی فکر پیدا کرتی ہے۔ فاضل مولف نے اس موضوع پر قرآن حکیم سے استدلال کرنے کے علاوہ سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار ارشادات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم و دوسرے متعدد سلف صالحین کے حالات اور فرمودات بڑی تحقیق و تفحص کے ساتھ جمع کر دئیے ہیں۔ اس طرح یہ کتاب قرآن و حدیث، سیرت و تاریخ اور ادب و انشاء کا نہایت حسین امتزاج بن گئی ہے۔ اس کو پڑھ کر دل میں خشیتِ الہی پیدا ہوتی ہے اور قلب و نظر کی تطہیر ہوتی ہے۔ اس کتاب کا ہر مسلمان گھرانے میں ہونا بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ کتاب کا کاغذ، کتابت،  طباعت، جلد بندی، ہر چیز نہایت شاندار ہے اور جس اونچے پایہ کی یہ کتاب ہے اس کے شایانِ شان ہے۔
آخر میں ہم دو تین گزارشات فاضل مولف کی خدمت میں کرنا چاہتے ہیں، پہلی یہ کہ ہر صفحہ کے نیچے اپنی دکان کا اشتہار دینا کتاب کی ثقاہت کے خلاف ہے، دوسری یہ کہ کتاب کے آغاز میں تقریظیں لکھوا کر شائع کرنا اب متروک ہو چکا ہے کیونکہ اہلِ علم اسے خود ستائی اور احساسِ کمتری کے مترادف سمجھتے ہیں۔ تیسری یہ کہ کتابیات میں جن ماخذ کے نام دئیے گئے ہیں ان کے مصنفین کے نام دینے بھی ضروری تھے کیونکہ ہر شخص نہیں جانتا کہ صفۃ الصفوۃ ، کتاب الروح، شرح الصدور، صید الخاطر وغیرہ کا مصنف کون ہے؟ امید ہے آئندہ ایڈیشن میں یہ تسامحات دور کر دئیے جائیں گے۔ (طالب ہاشمی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نام کتاب:                                فقہی اختلافات کی اصلیت
تالیف:                                    حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
مترجم:                                     مولانا محمد عبیداللہ بن خوشی محمد
ناشر:                                        علماء اکیڈمی، محکمہ اوقاف پنجاب، لاہور
صفحات:                                   102 صفحات
قیمت:                                      12 روپے
یہ کتاب شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور تصنیف "الانصاف" کا اردو ترجمہ ہے، اس کے مترجم مولانا محمد عبیداللہ بن خوشی محمد صاحب علمی دنیا کے ابھرتے ہوئے اہل قلم ہیں، ان کے مضامین مختلف اخباروں و جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔ اس کتاب کا ترجمہ کر کے محترم مولانا محمد عبیداللہ صاحب نے علمی میدان میں مزید پیش رفت کی ہے جس کی قدر افزائی کی جانی چاہئے۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کتاب تصنیف کر کے اتحادِ امت کو فروغ دینے کی عظیم کوشش فرمائی ہے۔ اس سلسلہ میں مختلف حلقوں کی مساعی کو بار آور بنانے کے لئے طریقِ کار کی وضاحت کے لیے اس کتاب کا ترجمہ افادہ عام کے لیے ناگزیر تھا۔ تاہم جوشِ اتحاد میں علمی اور تحقیقی روش کو جو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس کا تحفظ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اہلِ فقہ، چند کے سوا بیشتر حدیث کی برتری کو نہیں پہنچتے۔ صحیح و ضعیف میں امتیاز نہیں کرتے اور نہ کھری کھوٹی روایات کو پہچانتے ہیں، انہوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ ضعیف روایات اور منقطع احادیث کو بھی، اگر وہ ان کے ائمہ میں مشہور ہوں اور زبانوں پر ان کا چرچا ہو تو قبول کر لیں گے خواہ وہ صحت اور یقینی علم کی حامل نہ ہوں۔ ان کی یہ لغزش بے خبری کے باعث ہے" (صفحہ 55)
اہلِ حدیث اور اہلِ فقہ کے درمیان اور خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور فقہاء کے درمیان اختلاف کے اسباب و علل جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی مفید ثابت ہو گا۔
کتاب کو سہل اور عام فہم بنانے میں فاضل مترجم کی طرف سے حواشی کا بھی بہت دخل ہے۔
عمدہ طباعت اور نفیس کتابت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قیمت 12 روپے نہایت مناسب ہے۔ (عطاء الرحمن ثاقب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیس پروانے شمع رسالت کے
از طلب ہاشمی
ضخامت: 512 صفحات بڑا سائز، سنہری ڈائی دار مجلد، 
قیمت: چالیس روپے        ناشر: مکتبہ چراغِ اسلام، قذافی مارکیٹ اردو بازار، لاہور
جناب طالب ہاشمی کا نام علمی اور دینی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ ایک صاحبِ طرز مؤرخ اور سیرت نگار ہیں اور مدتوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، صحابیات رضی اللہ عنھن اور امت کے دوسرے اکابر کے انوارِ سیرت کو کتابوں کے اوراق پر بجا کر پیش کر رہے ہیں۔ زیرِ نظر کتاب میں انہوں نے تیس جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مستند اور مفصل حالات ایسے دلآویز انداز میں پیش کئے ہیں کہ انہیں پڑھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے اور قاری کے دل میں ان مقدس ہستیوں کے نقوشِ قدم پر چلنے کی تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ کتاب کا مقدمہ ادیبِ شہیر مولاناماہر القادری رحمہ اللہ علیہ نے لکھا ہے، اسی سے کتاب کی قدر و قیمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ کتاب جن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے حالات پر مشتمل ہے ان میں سے چند کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
محبوبِ رسول حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ، میزبانِ رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ، حضرت اُسید بن حضیر نعم الرجل رضی اللہ عنہ، حضرت حذیفہ بن الیمان صاحب السر رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن معاذ انصارِ صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت خبیب بن عدی بلیع الارض رضی اللہ عنہ، حضرت سلمان الخیر فارسی رضی اللہ عنہ، حضرت ضرار بن ازور ضیغمِ اسلام رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود فقیہ الامت رضی اللہ عنہ، حضرت ابوذر غفاری خلیلِ رسول رضی اللہ عنہ،حضرت ثابت بن قیس خطیب رسول اللہ رضی اللہ عنہ،حضرت صہیب رومی نعم العبد رضی اللہ عنہ،حضرت ابوقتادہ فارس رسول اللہ رضی اللہ عنہ، حضرت سہیل بن عمرو خطیبِ قریش رضی اللہ عنہ، حضرت ابوسفیان سپہ سالار قریش رضی اللہ عنہ، یہ کتاب ہر لحاظ سے مطالعہ کے لائق ہے اور ہر لائبریری اور دینی گھرانے میں اس کی موجودگی بے انتہا افادیت کا باعث بن ہو سکتی ہے۔
فاضل مولف اور ناشر دونوں اس گرانقدر کتاب کی اشاعت پر مبارکباد کے مستحق ہیں (اکرام اللہ ساجد)