اسلامی کتب خانے اور ان کا انتظام

"مجلس التحقیق الاسلامی" کے زیرِ اہتمام ہر سال قانون و شریعت کنونشن منعقد ہوتا ہے، لیکن گذشتہ سال مجلس نے کنونشن کے بجائے دس روزہ سیمینار کا انعقاد کیا تھا ۔۔۔ زیر نظر مقالہ ، جو اس سیمینار میں پنجاب یونیورسٹی کے لائبریرین جناب سید جمیل احمد صاحب رضوی نے پڑھا تھا، اپنی افادیت کی بناء پر ہدیہ قارئینِ "محدث" ہے۔ (ادارہ)
اسلامی کتب خانوں کو زیرِ بحث لانے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ کتب خانہ جس ادارہ کی ایجنسی ہے، اسلام میں اس کی اہمیت کیا ہے ؟[1] اگر ہم اس پہلو کو پہلے جان لیں، تو پھر یہ سمجھنا آسان ہو گا کہ اسلام میں کتب خانوں کی کیا اہمیت ہے اور مسلمانوں نے اپنی تہذیب و ثقافت کے عروج کے دور میں اس طرف کتنی توجہ مبذول کی؟
اسلام میں علم کی اہمیت: ۔۔۔ لائبریری جس ادارہ کی ایجنسی ہے، وہ علم ہے اور اسلام نے علم کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ قرآنِ حکیم کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سب سے پہلی وحی نازل ہوئی، اس میں پڑھنے کا ذکر تکرار کے ساتھ موجود ہے۔ تعلیم اور آلاتِ تعلیم میں سے قلم کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ علق میں ارشادِ رب العزت ہے:
﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾...العلق
"(اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھئے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ اسی نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ سے تعلیم دی اور انسان کو وہ کچھ سکھا دیا جو وہ نہ جانتا تھا۔"
اس طرح سورہ طہ میں علم کے بارے میں ارشادِ پروردگار ہے:
﴿وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ﴿١١٤﴾...طه
"یعنی (اے رسول) یہ کہا کیجئے، "اے پروردگار! میرا علم بڑھا دے۔"
گویا زبانِ رسالت سے ہمیں تعلیم دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے علم میں اضافے کے لیے دعا کیا کریں۔
علماء کی فضیلت کو قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا:
﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ... ٢٨﴾...فاطر
"یعنی اللہ تعالیٰ سے، اس کے بندوں میں سے، اہل علم ہی ڈرتے ہیں۔"
قرآنِ حکیم کی یہ چند آیات علم اور صاحبانِ علم کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں بھی ہمیں بہت سے احکام نظر آئیں گے جن میں علم کے حصول پر زور دیا گیا ہے۔ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
" طلب العلم فريضة على كل مسلم"
"ہر مسلمان پر طلب علم ایک فریضہ ہے۔"
یہ حکم بھی ہمیں ملتا ہے:
" أطلبوا العلم من المهدإلى اللحد"
"آغوشِ مادر سے قبر میں جانے تک علم حاصل کرو۔"
ابنِ ماجہ کی حدیث ہے:
"أفضل الصدقة أن يتعلم المرء المسلم ثم يعلمه أخاه  المسلم"(ابن ماجه)
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "افضل صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان شخص علم سیکھ کر اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو اس کی تعلیم دے۔"
ان چند احادیث سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ تعلیم ایک ایسا ادارہ ہے جس کی اہمیت تعلیماتِ اسلامیہ میں بہت زیادہ ہے اور علم کی نشر و اشاعت (Dissemination of Information) پر کتنا زور دیا گیا ہے۔ آخری حدیث میں تو بہت پر زور انداز میں تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کو بیان کیا گیا ہے۔
نظامِ تعلیم میں کتاب کی اہمیت پر ان احکامات و ارشادات کا ہی نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ تعلیم و تعلم کی طرف پوری توجہ دی۔ کتاب سے محبت ان کا طرہ امتیاز رہا۔ کسی بھی نظامِ تعلیم میں کتاب کو ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ کتاب ایک ایسا ذریعہ ہے جو علم کو اپنے دامن میں سمیٹ کر محفوظ رکھتا ہے۔ زمانہ حال کے ماہرینِ تعلیم بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تعلیم کے نظام میں کتاب نے بہت اہم رول ادا کیا ہے اور ادا کرتی رہے گی۔ ایک مغربی ماہر تعلیم کے الفاظ ہیں:
"ہمارے تعلیمی نظام میں ہمیشہ کتاب کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ میں ہمیشہ کا لفظ اس معنی میں استعمال کرتا ہوں کہ جہاں تک ہمارے پاس ریکارڈز ہیں کم سے کم مغربی دنیا میں تعلیم کے شعبے میں کتاب کو مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے بے شک تعلیم ابلاغ کا ایک عمل ہے خواہ یہ زبانی ہو یا تحریری۔ مطبوعہ کتاب مدت سے خیالات کے ابلاغ کا ایک ذریعہ رہی ہے۔ کتاب وقت کو ملانے والی ہے۔ یہ نہ صرف مکانی فاصلہ طے کرتی ہے بلکہ زمانی بھی۔ جب آپ اس پر غور و فکر کرتے ہیں تو یہ ایک نہایت اہم ایجاد نظر آتی ہے جیسا کہ مسز لینگر (MRS. Langer) نے کہا ہے "ہم ایک کتاب کو اٹھاتے ہیں اور جو کچھ کسی نے کہا ہے، اس کو معلوم کر سکتے ہیں۔ کہنے والے کو ہم نے دیکھا نہیں، وہ ہماری پیدائش سے کئی صدیاں پہلے مر چکا ہے تاہم صوتیاتی تحریر (Phontic Writing) کے معجزے سے ہم اس کی کہی ہوئی باتوں کی نقل اتار سکتے ہیں۔"[2]
اسلامی نظامِ تعلیم میں بھی کتاب کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ کلام اللہ یعنی قرآنِ حکیم کو الکتاب کے نام سے پکارا گیا۔ عہدِ عباسی کا مشہور شاعر متنبی کتاب کے بارے میں کہتا ہے:
" أعز مكان فى الدنى سرج سابح وخير جلس فى الزمان كتاب"
یعنی "دنیا میں سب سے زیادہ عزت والی جگہ گھوڑے کی زین ہے اور زمانے میں بہترین رفیق کتاب ہے۔"
ابن الطقطقی اپنی مشہور عالم تاریخ الفخری میں لکھتا ہے کہ:
"حکماء نے کہا ہے کہ کتاب ایک ایسی ہمنشین ہے جو نہ منافقت کرتی ہے اور نہ آزردہ خاطر ہوتی ہے۔ اگر تم اس پر زیادتی بھی کرو تو ناراض نہیں ہوتی اور تمہارا کوئی راز فاش نہیں کرتی۔ مہلب نے اپنی اولاد سے کہا تھا، "اے فرزندو! اگر تمہیں بازار میں کہیں رکنا پڑے تو وہیں رکو جہاں ہتھیار فروخت ہوتے ہوں یا کتابیں بکتی ہوں۔"[3]
اسی مورخِ نے کتاب سے محبت کا ایک اور دلچسپ واقعہ لکھا ہے:
"ایک خلیفہ کا ذکر ہے کہ اس نے کسی عالم کو باتیں کرنے کے لیے بلوا بھیجا۔ جب بلانے والا آیا تو اس نے دیکھا کہ وہ بیٹھا ہے اور اس کے گرد و پیش کتابیں بکھری پڑی ہیں جن کا وہ مطالعہ کر رہا ہے۔ اس نے کہا: "امیرالمومنین آپ کو یاد فرماتے ہیں۔" اس نے جواب دیا کہ "ان سے عرض کر دینا کہ میرے پاس حکماء کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی ہے جن سے میں گفتگو کر رہا ہوں۔ ان سے فارغ ہو کر حاضر ہو جاؤں گا۔" جب وہ خادم خلیفہ کے پاس آیا اور اس کو اس عالم کا پیغام دیا تو اس نے پوچھا کہ "وہ کون سے حکماء ہیں جو اس کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں؟" اس نے کہا: "بخدا! اے امیر المومنین! اس کے پاس آدمی تو کوئی بھی نہیں۔" خلیفہ نے کہا: "وہ جس حال میں بھی ہو اسے فورا بلا لاؤ۔"
جب وہ عالم آیا تو خلیفہ نے پوچھا کہ "وہ کون سے حکماء ہیں جو تمہارے پاس بیٹھے ہوئے تھے؟" اس نے جواب دیا کہ "اے امیر المومنین!
"لنا جلساء ما نمل حديثهم أمينون ما مونون غيبا و مشهدا
يفيد وننا من علمهم علم  ما مضى ورأيا و تأديبا و مجدل وسؤددا
 فإن قلت أموات لا اتعد أمرهم وإن قلت أحياء فلست مضندا"
یعنی "ہمارے ہمنشین ایسے ہیں جن کی باتوں سے ہم اکتاتے نہیں۔ وہ امنتدار ہیں اور قابلِ وثوق ہیں، سامنے بھی اور بعد میں بھی۔
ہمیں اپنے علم سے جو وہ فائدہ پہنچاتے ہیں، وہ ماضی کا علم ہے، مشورہ ہے، ادب آموزی ہے، حصولِ شرف و نیاز ہے۔
اگر آپ انہیں مردہ کہیں تو یہ کوئی زیادتی نہ ہو گی اور اگر انہیں زندہ کہیں تو یہ بھی کوئی بہکی ہوئی بات نہ ہو گی۔"
خلیفہ سمجھ گیا کہ وہ کتابوں کا ذکر کر رہا ہے، اس لیے دیر سے آنے پر کوئی باز پرس نہ کی [4]۔۔۔۔۔ جاحظ (م 255ھ/866ء ، تیسری صدی ہجری کا معروف مصنف) ۔۔۔ علاوہ ان کتابوں کو پڑھنے اور مطالعہ کرنے کے جن کو وہ خرید سکتا تھا، وہ کتب فروشوں سے روپیہ امانت رکھ کر کتابیں لاتا تھا اور ان کو اول سے آخر تک بالاستیعاب پڑھتا تھا۔ حتی کہ انہی کتابوں کی وجہ سے موت کا شکار بھی ہوا۔ اس کی عادت یہ تھی کہ وہ اپنے گرد ضروری کتابیں دیوار کی طرح چن دیا کرتا تھا۔ چنانچہ آخر عمر میں جبکہ فالج نے اس کے آدھے جسم کو بیکار کر دیا تھا، وہ مطالعہ میں مشغول تھا کہ یکایک وہ کتابیں اس پر گر پڑیں اور اس طرح وہ غریب ان کے نیچے دب کر جاں بحق ہو گیا۔[5]
کاغذ سازی:
مسلمانوں نے کاغذ سیاسی کے شعبے میں بھی کار ہائے نمایاں سر انجام دیے۔ جہاں تک کاغذ کا تعلق ہے۔ اسے چین میں سائی لون (T Sailun) نے 105ء میں ایجاد کیا تھا۔ مسلمانوں نے چینیوں ہی سے یہ فن تیسیر صدی ہجری (آٹھویں صدی عیسی) میں سیکھا اور پھر ان ہی کے ذریعے یورپ پہنچا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کاغذ کی قسمت مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں آ کر جاگی۔ ان سے پہلے یہ فن عام نہ ہوا تھا۔ انہوں نے کاغذ سازی کے کارخانے قائم کیے، روئی سے کاغذ بنایا اور اس صنعت کو توسیع و ترقی دے کر یورپ پہنچایا۔
کاغذ کی صنعت کی بنیاد آٹھویں صدی عیسوی میں سمرقند رکھی گئی تھی۔ اسی زمانے میں ہارون الرشید نے کاغذ سازی کا کارخانہ بغداد میں قائم کیا، جسے " صنابحة الوراقة" کہتے تھے۔ پھر اندلس میں قرطبہ اور چاطبہ اس صنعت کے بہت بڑے مرکز بن گئے، جہاں سے یورپ کو بھی کاغذ جاتا تھا۔ [6] اختر جوناگڑھی لکھتے ہیں کہ:
"تیسری صدی ہجری میں خراسان اور بغداد اور پھر جزیرۃ عرب کے بعض مقامات یمن و تہامہ وغیرہ میں کاغذ بنانے کے کارخانے قائم ہو گئے تھے"[7]
کتاب کے ساتھ محبت، فنِ کاغذ سازی میں مہارت اور تجلید و تہذیب کے شعبوں میں ترقی کرنے سے مسلمانوں کی کوششوں سے کتابوں کی تعداد میں بکثرت اضافہ ہونے لگا اور انہوں نے کتب خانے قائم کرنے میں بہت دلچسپی سے کام لیا۔ اسلامی کتب خانوں کا ذکر اس مختصر مقالے میں کرنا ممکن نہیں۔ تاریخی اعتباد سے اس کا سروے کیا جائے کہ مسلمانوں نے مختلف ادوار اور مختلف ممالک میں کتنے کتب خانے قائم کئے، ان کی اقسام کیا تھیں، ان میں ذخیرہ ہائے کتب کی نوعیت کیا تھی، وہ کون سے لوگ تھے جو ان سے استفادہ کر سکتے تھے؟ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو بہت وسیع ہے اور اس پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس مقالہ میں مختصرا یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ ان کتب خانوں کا انتظام کس طرح کیا جاتا ہے۔ ان کا نظم و نسق کیسا تھا؟

کتب خانوں کا انتظام


کتب خانے کی عمارت:
جب ہم کتب خانوں کے نظم و نسق کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس عمارت پر نظر جاتی ہے جس میں یہ قائم کیا جاتا ہے۔ لائبریری سائنس کے جدید نظریات کی روشنی میں اس عمارت کو ان فرائض و مقاصد کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے جو اس کو ادا کرنا ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا عملی (Functional) ہونا نہ کہ صرف فنِ تعمیر کا ایک بہترین نمونہ، اس میں کتابوں ، قارئین اور عملے کے لیے کافی جگہ ہونی چاہئے۔ ڈاکٹر اولگا نپٹو عہدِ عباسی کے کےکتب خانوں میں لکھی ہیں:
"سلاطینِ اسلام ان مکانوں کی بہت حفاظت کرتے تھے جو عام کتب خانوں کے لیے مخصوص ہوتے تھے۔ بعض مثلا شیراز، قرطبہ اور قاہرہ میں ان کتب خانوں کے لیے علیحدہ عمارتیں تعمیر کرانی گئی تھیں۔ جن میں مختلف کاموں کے لیے متعدد کمرے ہوتے تھے مثلا گیلریاں جن میں کتابون کی الماریاں رکھی جاتی تھیں اور وہ کمرے جہاں شائقین کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ بعض کمرے ان کاتبوں کے لیے مخصوص تھے جو کتابوں کی نقلیں کیا کرتے تھے اور وہ مکہ سے بھی تھے جو "مجالسِ علمیہ" کے کام آتے تھے کہیں کہیں موسیقی اور غناء وغیرہ کے لیے بھی علیحدہ کمرے ہوا کرتے تھے۔ یہ تمام کمرے نہایت آراستہ اور پیراستہ ہوا کرتے تھے جن میں قالین، چٹائیاں وغیرہ بچھی رہتی تھیں اور جن پر شائقین مشرقہ طرز سے دو زانو (آلتی پالتی مار کر) بیٹھ کر کاغذ یا پارچمنٹ (Parchment) اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتے تھے۔ کھڑکیوں اور دروازوں پر پردے پڑے ہوتے تھے اور صدر دروازہ میں خاص طور پر ایک بھاری پردہ لگا رہتا تھا، تاکہ سرد ہوا اندر داخل نہ ہو۔[8] (جاری ہے)
[1] لائبریری سائنس کے ماہرین میں اختلاف ہے کہ کیا لائبریری ایک سماجی ادارہ ہے یا ایجنسی؟ ایک امریکی ماہرِ تعلیم ڈاکٹر جے-ایچ-شیرا J-H-Sheraکے نزدیک لائبریری ایک سماجی ایجنسی ہے (جے-ایچ-شیرا۔ لائبریرین شپ کی عمرانی بنیادیں (اردو ترجمہ) ص28)
میرے نزدیک ایجنسی بھی ایک سماجی آلہ ہے جو ادارے کے فائدے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ یہ وہ ذریعہ ہے جس کے واسطے سے ادارہ کام کرتا ہے ۔۔۔ قانون ایک ادارہ ہے۔ عدالتیں اس کی ایجنسیاں ہیں، مذہب ایک ادارہ ہے۔ چرچ اس کی ایک ایجنسی ہے۔ تعلیم یا علم ایک ادارہ ہے، سکول، کالج، یونیورسٹی اور لائبریری اس کی ایجنسیاں ہیں۔ بہرحال کتب خانے کو ایک معاشرتی ادارہ سمجھا جائے یا اس کی ایجنسی۔۔۔ یہ دراصل تعلیم کا ایک لاحقہ ہے نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔
[2] جے-ایچ-شیرا- لائبریرین شپ کی عمرانی بنیادیں۔ ص16
[3] ابن الطقطقی۔ الفخری۔ مترجم محمد جعفر پھلواری۔ ص2
[4] ابن الطقطقی، الفخری، ترجمہ محمد جعفر پھلواری، ص2،3
[5] اولگا پنٹو (ڈاکٹر)۔ اسلامی کتب خانے (عہدِ عباسیہ میں) ، مترجم قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی ص7
[6] محمد زبیر۔ اسلامی کتب خانے، ص73
[7] قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی۔ "عہدِ اسلامی میں کتب خانوں کا نظم و نسق، روئیداد اجلاس سوم، ادارہ معارف اسلامیہ منعقدہ دہلی، ص 141،142)
[8] اولگا نپٹو