الاستفتاء

چند دن قبل مولانا عبدالمجید صاحب بھٹی (ضلع گوجرانوالہ) کی طرف سے ادارہ کو ایک لفافہ موصول ہوا، جس میں ایک استفتاء اور اس کے دو مختلف جوابات تھے، ساتھ ہی مولانا کا ایک وضاحتی خط بھی تھا، جس میں انہوں نے لکھا تھا:
"میں نے یہ استفتاء مفتی عبدالواحد صاحب خطیب جامع مسجد گوجرانوالہ کو بھیجا تھا، جس کا جواب انہوں نے لکھ کر بھیج دیا لیکن راقمکی ان جوابات سے تشفی نہیں ہوئی چنانچہ یہی استفتاء میں نے جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ کے صدر مدرس مولانا عبدالحمید صاحب کو ارسال کیا اور انہوں نے جو جوابات لکھ کر بھیجے، گو میں ان سے مطمئن تھا لیکن چونکہ دونوں جوابات ایک دوسرے سے بہت کچھ مختلف تھے اس لیے اس الجھن میں پڑ گیا کہ ان دونوں میں سے کون سا جواب صحیح ہے اور کون سا غلط ۔۔۔ جو صحیح ہے، اس کی صحت کی دلیل کیا ہے اور غلط کس بناء پر غلط ہے؟ ۔۔۔ ناچار یہ استفتاء مع ہر دو جواب کے آپ کی خدمت میں روانہ کر رہا ہوں، آپ براہِ کرام کتاب و سنت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں، تاکہ میں نہ صرف صحیح نتیجے پر پہنچ سکوں بلکہ مجھے اطمینانِ قلب بھی حاصل ہو، جو ظاہر ہے کتاب و سنت ہی کی بناء پر ممکن ہے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے:
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ... ٥٩﴾...النساء
والسلام
(عبدالمجید بھٹی نواں کوٹ (پھیرو کے) ضلع گوجرانوالہ)
ہم نے یہ استفتاء مع جوابات اور وضاحتی خط مولانا عزیز زبیدی صاحب (منڈی وار برٹن ضلع شیخو پورہ) کی خدمت میں روانہ کر دیا جس کا جواب انہوں نے فورا ہی لکھ کر بھیج دیا۔
قارئین کے استفادہ کے لیے ہم یہ سوالات مع جوابات اور فیصلہ کے "محدث" میں شائع کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ شرع متین کہ زید نے ایک مطلقہ عورت سے عدت پوری ہونے سے پہلے نکاح کر لیا اور اس سے دو تین بچے بھی پیدا ہوئے۔ اس دوران پیش امام صاحب اور دیگر لوگوں نے اُسے کئی دفعہ تجدیدِ نکاح کی تلقین بھی کی مگر اس نے سنی ان سنی کر دی۔ آخر عرصہ آٹھ سال بعد یہ بات زور پکڑ گئی اور پیش امام صاحب نے اس کا دوبارہ نکاح کیا اور بطورِ تعزیر 120 مساکین کا کھانا پکا کر مساکین کو کھلایا گیا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ : (1) کیا س کا پہلا نکاح کرنا ناجائز تھا کہ اس کا دوبارہ نکاح کیا گیا؟ (2) پہلے نکاح میں اس عورت کی پھوپھی موجود تھی۔ کیا کسی عورت کی بوقتِ نکاح عورت دلیہ ہو سکتی ہے؟ جبکہ اس کے مرد قریبی رشتہ دار اور والدہ زندہ ہو۔ (3) دوسری دفعہ جو پیش امام صاحب نے اس کا نکاح کیا ہے اس میں اس عورت کا کوئی وار موجود نہیں تھا اور نہ ہی میاں بیوی کے درمیان جدائی کرائی گئی ہے۔ (استبراء رحم کی خاطر) تو کیا ولی کی اجازت کے بغیر اور استبراء رحم کے بغیر نکاحِ ثانی درست ہے؟ (4) کیا زید پر 120 مساکین کے کھانا کھلانے سے اس کے گناہ کی تلافی ہو گئی ہے یا اس پر یہ ناجائز بوجھ ڈالا گیا ہے؟ (5) کیا ان پر ہر دو دفعہ نکاح کرنے میں جو لوگ مجلسِ نکاح میں موجود تھے اُن کے اپنے نکاح تو نہیں ٹوٹ گئے وغیرہ۔ لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحٹ مطلوب ہے۔
بینوا توجروا
مفتی عبدالواحد صاحب کا جواب!
1۔ پہلا نکاح جب عدت کے اندر تھا تو کیا نکاح کے ناجائز ہونے میں کوئی شک ہے؟
2۔ عورت بالغہ ہے وہ اپنے آپ کی خود دلیہ ہے۔
3۔ نکاح درست ہے، وہ خود اپنے آپ کی دلیہ ہے اور نہ ہی یہاں استبراء رحم کی ضرورت ہے۔ وہ اگر حاملہ ہو تو خاوند تا وضع حمل جماع سے پرہیز کرے۔
4۔ گناہ تو صرف توبہ سے معاف ہو گا، یہ کھانا وغیرہ تو تتمیمِ توبہ کے لیے ہے۔
5۔ دوسرے نکاح میں جو لوگ شریک تھے وہ ایک جائز نکاح میں شریک ہوئے ہیں اور جو پہلے نکاح میں شامل تھے اور جانتے تھے کہ یہ نکاح عدت میں ہو رہا ہے تو وہ مجرم ہیں اور ایک حرام کے حلال بنانے میں مددگار بن رہے ہیں، توبہ کریں اور اپنے نکاحوں کی تجدید بھی کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
(عبدالواحد جامع مسجد گوجرانوالہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا عبدالحمید صاحب کا جواب:
الجواب: شرعا نکاح میں کاوند، بیوی کی رضا اور عورت کے ولی کی رضا کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر شرعا نکاح نہیں ہو گا۔ حدیث میں آتا ہے: "لا نكاح إلا بولى "نکاح ولی کے بغیر نہیں ہو گا۔"
صورتِ مذکورہ میں ایک خرابی یہ ہے کہ عدت مکمل ہونے سے پہلے ہوا ہے، یہ بھی ناجائز ہے۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ نکاح میں عورت کے ولی کی موجودگی نہیں۔ اس لیے پہلا نکاح بالکل خلافِ شرع ہے اور باطل ہے۔
دوبارہ جو نکاح ہوا ہے اس میں خرابی یہ ہے کہ ولی بھی موجود نہیں اور ساتھ ہی عورت کے لیے استبراء رحم کا ہونا ضروری تھا، وہ بھی نہیں ہوا۔
اب نکاح کی صحیح صورت یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان جدائی کر دی جائے۔ جب عورت کو ایک ماہواری حیض آ جائے تو اس کے بعد مناسب ولی کی موجودگی میں اور گواہوں کے رو برو نکاح ہو۔ جہاں تک نکاح میں شریک لوگوں کا تعلق ہے ان کے صحیح نکاحوں پر کوئی اثر نہیں۔ البتہ اپنی غلطی کی خدا سے معافی مانگیں۔ ہذا ما عندی والعلم عنداللہ
(عبدالحمید مدرس جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ)
"جواب درست ہے"
(عزیز زبیدی، وار برٹن، شیخوپورہ، 6 صفر سئہ 1402ھ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا عزیز زبیدی صاحب کا اپنا جواب اور فیصلہ
1۔ عدت کے اندر نکاح: ایسا نکاح جائز نہیں ہے۔
2۔ پھوپھی کی موجودگی: ائمہ حدیث کے نزدیک عورت ولی نہیں ہو سکتی۔ "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تزوج المرأة المرأة"(ابن ماجه) جن فقہاء کے نزدیک عورت ولی ہو سکتی ہے ان کے نزدیک بھی عصبات کی موجودگی میں وہ ولی نہیں ہو سکتی۔ " فإن لم يكن عصبة فالولاية للأم"(الدرر المختارج1 ص126) عورت خود بھی ولی نہیں ہو سکتی۔ " لا تزوج المرأة  نفسها "(دار قطنى)  حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے: "جو اپنی ولی آپ بنتی ہے وہ زانیہ ہوتی ہے۔  "فإن الزانية هى التى تزوج نفسها"(ابن ماحه ,دارقطنى) بہرحال پہلی صورت ہو یا دوسری، حدیث کی رو سے نکاح نہیں ہوا۔ ولی ارو استبراء رحم (رحم کی صفائی) کے بغیر نکاح جائز نہیں ہوتا۔
"أيما إمرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل فنكاحها باطل" ( المنتقى مع النيل ج6 ص101)
3۔ 120 مساکین کو کھانا: نکاح کے سلسلے میں اس غلطی کا کفارہ کھانا نہیں، توبہ ہے۔ مگر افسوس کچھ لوگ ہر مسئلہ میں "کھانے پینے" کی کچھ نہ کچھ سبیل نکال ہی لیتے ہیں۔ اللہ ان دوستوں کو بھی توبہ کی توفیق دے۔
4۔ اس نکاح میں شرکاء: اگر عمدا شرکت کی تو عظیم گناہ کا ارتکاب کیا، اس کے لیے استغفار اور توبہ ضروری ہے۔ بے خبری میں ہوا تو اللہ معاف کرے گا۔ واللہ اعلم
عزیز زبیدی، وار برٹن، ضلع شیخو پورہ، 6 صفر سئہ 1402ھ