شان رسالت ، مقام رسالت اور منصب رسالت

ربِ ذوالجلال والاکرام کے لیے یہ کچھ مشکل نہ تھا کہ چھٹی صدی عیسوی کے وہ لوگ جو دینِ حنیف کو چھوڑ کر شرک کی بھول بھلیوں میں گم ہو چکے اور معبودِ حقیقی سے منہ موڑ کر سینکڑوں خود ساختہ خداؤں کے سامنے اپنی پیشانیاں رگڑ رہے تھے، اچانک ایک ایسی زور دار آواز سے ۔۔۔ کہ جس کو وقت کا ہر ذی شعور سن اور سمجھ سکتا ۔۔۔ چونک اٹھتے کہ: "لوگو، فلاں مقام پر ایک کتاب موجود ہے، جاؤ اسے تلاش کر کے اس پر عمل کرو اور اس میں اپنی دنیاوی اور اخروی فلاح کے سامان تلاش کرو کہ یہ کتاب کتابِ ہدایت ہے ۔۔۔ اور اس کے کتابِ الہی ہونے میں کچھ بھی شک نہیں" ۔۔۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔
پھر یہ بھی نہیں ہوا کہ ایک خاص وقت میں ایک کتاب آسمانوں سے اس طرح اترتی کہ اس کے نزول کی کیفیت کو وقت کا ہر انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ۔۔۔ اور اس بناء پر لوگوں کو اس کے "منزل من اللہ" ہونے کا یقین ہو جاتا تاکہ وہ اپنی زندگیاں اس کی ہدایات کے تحت بسر کر سکیں ۔۔۔ یہ، اور ایسی کسی بھی صورت کو واقعات اور عقل تسلیم کے لیے تیار نہیں ہیں!
بلکہ ہوا تو یہ ہوا کہ انہی لوگوں میں رہنے اور بسنے والے ایک ممتاز خاندان، خاندانِ قریش کے ایک معزز گھرانے میں ایک بچے کی ولادت با سعادت ہوئی جس کا نام "محمد صلی اللہ علیہ وسلم" اور "احمد صلی اللہ علیہ وسلم" رکھا گیا۔۔۔ جس نے انہی لوگوں کے درمیان اپنے ایامِ شیر خوارگی گزارے، بچپن کی منازل طے کیں، جوانی کی سرحدوں میں قسم رکھا، کاروبار کیا، گھر آباد کیا ۔۔۔ اور پھر جب عمرِ عزیز کی چالیس بہاریں دیکھ چکا تو اچانک، جبکہ وہ ایک پہاڑی غار میں یادِ خدا میں مصروف تھا، اس پیغامِ خداوندی سے مشرف ہوا:
﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾...العلق
"پڑھ اپنے رب کے نام سے کہ جس نے پیدا کیا، انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ کہ تیرا رب بہت ہی عزت والا ہے، جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور انسان کو وہ سب کچھ سکھلایا جس کو وہ نہیں جانتا تھا۔"
یہ نزول قرآن کی ابتداء تھی ۔۔۔ اب "محمد صلی اللہ علیہ وسلم " صرف "محمد صلی اللہ علیہ وسلم" نہیں، "محمد رسول اللہ" تھے۔ اور یہی وہ بنیادی فرق ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیگر ابنائے آدم سے ممتاز کرتا ہے:
﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى... ١١٠﴾...الكهف
"(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فرما دیجئے کہ میں تمہاری مثل ایک بشر ہوں (لیکن تم میں اور مجھ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ) میری طرف وحی کی جاتی ہے (جبکہ تمہیں یہ سعادت حاصل نہیں)"
۔۔۔۔ اور یہ فرق کوئی معمولی فرق نہیں، کہاں ایک عام انسان اور کہاں سیدِ وُلدِ آدم، سید الانبیاء، سید الاولین والآخرین، خاتم النبیین، رحمت للعالمین، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کہ جنہیں   ﴿إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ... ١٥٨﴾... الأعراف کاوہ فخرِ اعزاز حاصل ہوا کہ اس سے پیشتر کسی کو بھی نصیب نہ ہو سکا ۔۔۔ جس کا کلمہ پڑھنے کی صرف اس کی اپنی امت ہی مکلف نہیں، انبیاء علیھم السلام تک سے اس پر ایمان اور اس کی تصدیق کا وعدہ لیا گیا:
﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ ﴿٨١﴾... آل عمران
کہ "جب اللہ تعالیٰ نے (روزِ اول) تمام انبیاء علیھم السلام سے یہ وعدہ لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حکمت دے کر (دنیا میں بھیجوں) پھر تمہارے پاس ایک رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آ جائے، جو تمہاری کتابوں کو سچا بتلائے، تو تمہیں ضرور ضرور اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد (تائید) کرنی ہو گی ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا، "کیا تم اقرار کرتے ہو اور میرے ساتھ اس پختہ عہد کے لیے تیار ہو؟" ۔۔۔ تو تمام انبیاء علیھم السلام نے جواب دیا، "(جی ہاں) ہم نے اقرار کیا" ۔۔۔ رب العزت نے فرمایا، "تو پھر اس بات پر گواہ رہو اور میں خود بھی اس پر گواہ ہوں" ۔۔۔ اور اسی بناء پر شبِ اسری کو تمام انبیاء علیھم السلام کی امامت کا فخر صرف محمد رسول اللہ کو حاصل ہوا۔
لیکن یاد رہے کہ یہی محمد رسول اللہ، محمد بن عبداللہ بھی ہیں، ابوالقاسم بھی ہیں، عبداللہ اور طیب، طاہر کے ابا بھی ہیں، حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے نانا بھی ہیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے والدِ ماجد بھی ہیں ۔۔۔ امہات المومنین (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، حضرت امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا، حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا، حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا، اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا) کے قابلِ فخر شوہر بھی ہیں۔۔۔گیارہ چچاؤں اور چھ پھوپھیوں کے بھتیجے بھی ہیں اور اسی لیے تو مخالفین نے یہ اعتراض کیا تھا:
﴿مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ...﴿٧﴾...الفرقان
کہ "یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا بھی ہے"
جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ... ٢٠﴾...الفرقان
کہ "(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے آپ سے قبل جتنے بھی رسول بھیجے، وہ سبھی کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے"
ایک طرف یہ تمام انسانی علائق ہیں اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ ہیں ۔۔۔
تقوی و طہارت، زہد و ورع، اخلاق و حیا اور شرافت و تقدس کا ایک ایسا کامل ترین نمونہ کہ
دامن نچوڈ دیں تو فرشتے وضو کریں
بڑے بڑے سیرت نگار، سوانح نگار، فصح اللسان، لفاظ، اہلِ قلم بھی اس اعتراف پر مجبور کہ
(لا یمکن الثناءکما کان حقه)
کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناء کما کان حقہ ممکن ہی نہیں
حقی کہ شاعرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی صرف یہی کہہ سکے
وأحسن منك لم تر قط عين    و أجمل منك لم تلد  النساء
خلقت مبرأ  من كل عيب  كأنك قد خلقت كما تشاء  (1)
جی ہاں، یہی وہ کامل و اکمل انسان ہے کہ تمام بنی نوع آدم میں سے جس کا ہم رتبہ وہم پلہ نہ کوئی ہوا، نہ ہو سکے گا ۔۔۔ انہی کی طرف قرآن مجید کا بتدریج نزول شروع ہوا ۔۔۔ ابتدائے وحی سے لے کر انتہائے وحی تک سیکنڑوں واقعات پیش آئے، حوادث رونما ہوئے، زمانے نے ہزاروں رنگ بدلے ۔۔۔ ہر نئے موڑ پر، ہر رنگ میں، ہر پیش آنے والے اہم واقعہ پر وحی الہی سے رہنمائی کا سلسلہ جاری رہا ۔۔۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف کلامِ الہی کی تبلیغ و تعلیم اور تفہیم کے لیے اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ بنے بلکہ امتِ مسلمہ کی عملی قیادت و راہنمائی کا فریضہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خوش اسلوبی سے انجام دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت قرآن مجید کی عملی تفسیر نظر آنے لگی ۔۔۔ اسی بناء پر حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا:
"خلقه القرآن"
کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآنِ مجید (کی عملی تفسیر) ہے"
اور یہی سنتِ الہی بھی ہے ۔۔۔ کسی بھی قوم کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی اور کتاب دونوں کو ذریعہ بنایا ہے ۔۔۔ بلکہ یوں سمجھیے کہ نبی اور کتاب لازم و ملزوم ہیں، نبی کو کتاب سے الگ کر دیجئے تو محض کتاب ایک ایسی کشتی ہے کہ جس کا ناخدا کوئی نہ ہو اور جس کے انجان اور اناڑی مسافر تمام عمر زندگی کے سمندر میں بھٹکتے پھریں مگر ساحل نا آشنا ہیں۔۔۔ اور اگر کتاب کو نبی سے الگ کر دیجئے تو خدشہ ہے کہ لوگ ناخدا کو ہی خدا سمجھ بیٹھیں ۔۔۔ اور وہ مقصد کہ جس کی خاطر نبی کو مبعوث کیا گیا ہے، پہلی صربِ کاری خود اسی مقصد پر لگے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خیرالامم کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا گیا، وہاں اسے ایک لاءھہ عمل (قرآن مجید) بھی دیا گیا ۔۔۔ اور جہاں اسے کتابِ ہدایت سے نوازا گیا وہاں اسے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایسا ہادی و راہنما بھی ملا ۔۔۔ اور یوں اس ارشادِ الہی کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آ گئی:
﴿لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤﴾...آل عمران
کہ "اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسانِ عظیم فرمایا کہ انہی کی جانوں میں سے، ان میں ایک ایسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھتا ہے، ان کا تزکیہ نفس کرتا اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے، جبکہ اس سے قبل یہ لوگ صریحا گمراہی میں مبتلا تھے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآنِ مجید اور متفقہ آثار و شواہد کی روشنی میں جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے، اس سے ہمارے لیے شانِ رسالت ، مقامِ رسالت اور منصبِ رسالت کو سمجھ لینا نہ صرف انتہائی آسان ہو جاتا ہے بلکہ اس بناء پر ہمیں ایک واضح لائحہ عمل بھی ملتا ہے:
رسول کوئی مافوق البشر ہستی نہیں ہوتی۔۔۔ اس دنیا میں جتنے بھی انبیاء علیھم السلام لوگوں کی راہنمائی کے لئے آئے، سبھی ابن آدم تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مخاطب فرما کر اللہ رب العزت کا یہ ارشاد کہ : ﴿ قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ... ٩﴾... الأحقاف ان تمام عقائدِ باطلہ کی نفی کر دیتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے متعلق ہمارے ہاں آج کل پائے جاتے ہیں ۔۔۔ مشرکین مکہ بھی کسی بشر کے رسول ہونے کو اچھنبا خیال کرتے تھے اور﴿ هَلْ هَـٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ ﴿٣﴾...الأنبياء کہہ کر لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رکھنے کا حربہ ان کے اسی عقیدہ کا غماز تھا، جبکہ آج ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ رسول اللہ بشر نہ تھے یا بالفاظ دیگر رسول کسی مافوق البشر ہستی کو ہونا چاہئے ۔۔۔ دراصل یہ سوچ ان لوگوں کی ہے جو شرف انسانیت کے متعلق کسی بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں، سورہ "والتین" میں اللہ تعالیٰ نے چار قسمیں کھا کر فرمایا:
﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿٤﴾... التين کہ "ہم نے انسان کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا ہے؟"
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ﴿٧٠﴾...الإسراء کہ "ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی، انہیں بر و بحر میں سواری مہیا کی، پاکیزہ رزق عطا کیا اور انہیں اپنی کثیر مخلوقات پر فضیلت عطا فرمائی"
جبکہ سورۃ البینہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے متعلق فرمایا:
﴿أُولَـٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ﴿٧﴾...البينة کہ "یہ لوگ ساری مخلوق میں بہترین ہیں"
۔۔۔ اور اس وقت تو یہ شرف اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے جب ایک انسان اپنے بشری مقتضیات کو افراط و تفریط سے بچا کر راہ اعتدال پر لے آتا اور انہیں ایک خاص مرکز و محور عطا کر دیتا ہے ۔۔۔ کیا ایک ایسے انسان کی فضیلت میں کچھ کلام ہو سکتا ہے کہ جس کے ہاتھ سلامت ہیں، لیکن یہ ہاتھ کسی پر ظلم و تعدی اور دست درازی کے لیے نہیں بڑھتے؟ ۔۔۔جس کی آنکھیں بینائی سے معمور ہیں، لیکن ان نگاہوں کا زاویہ وہی رہتا ہے جو اللہ رب العزت نے اس کے لیے متعین کر دیا ہے ۔۔۔ جو چل سکتا ہے لیکن اس کی چال غلط رخ اختیار نہیں کرتی؟ جو قوت گویائی تو رکھتا ہے، لیکن جھوٹ اور فواحش و لغویات اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔۔۔؟ ۔۔۔جو سوچ تو سکتا ہے لیکن اس کی سوچ کی لہرین شریعت کی متعینہ حدود سے تجاوز نہیں کر پاتیں ۔۔۔ جو کھاتا بھی ہے اور پیتا بھی، لیکن وہی جو قدرت نے اس کے لیے حلال ٹھہرایا ہے ۔۔۔ جو اہل و عیال تو رکھتا ہے، لیکن ان کی محبت اس کے دین کے لیے کبھی بھی خطرہ نہیں بنی ۔۔۔ جو آرام کا متمنی ہے، لیکن میٹھی نیند کوتج کر، نرم و گرم بستر چھوڑ کر کڑکتے جاڑوں مین ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے مسجد کا رخ کرتا اور اپنے خالق حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا ہے ۔۔۔ ﴿تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾...السجدة کی یہ کتنی سچی تصویر ہے؟ ۔۔۔تو پھر وہ کہ:
راتوں کے قیام سے جس کے پاؤں متورم ہوئے ۔۔۔ جس کے لبوں سے ہمیشہ رشد و ہدایت کے پھول ہی برسے ۔۔۔ جس کو "صادق و امین" کے لقب سے ان لوگوں نے یاد کیا جو اس کی جان کے درپے تھے ۔۔۔ جس نے ان کے بوجھ بھی اپنے سر پر لادے اور انہیں منزلِ مقصود تک پہنچایا جو مخالفین کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اسی سے دور بھاگ جانا چاہتے تھے ۔۔۔ جس نے اس کی عیادت میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جو روزانہ اس کے سر پر گھر کا کوڑ اپھینکتی تھی ۔۔۔ جس نے اپنے بدترین دشمنون کو بھی ﴿قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ... ٩٢﴾...يوسف کا مژدہ سنایا۔۔۔جو پسند کرتا تو پہاڑ سونے کے بن کر اس کے پابہ رکاب ہو جاتے، لیکن اس کے گھر میں مہینوں چولہا سرد رہتا ہے۔۔۔ جس کے ہزاروں جانثار ساتھی اس کے گھر کا کام کاج کرنے کو باعث سعادت خیال کرتے، لیکن اس کی بیٹی چکی خود پیستی اور پانی کا مشکیزہ خود اپنے کندھوں پر اٹھاتی تھی ۔۔۔ جوانِ رعنا مگر مجسمِ شرافت و حیا، جس کی آنکھوں نے کبھی غلط دیکھا، نہ کانوں نے کبھی غلط سنا اور نہ دل و دماغ ہی نے کبھی غلط سوچا۔۔۔ اگر یہ ایک بشر ہونے کے باوجود ان عظمتوں کا حامل ہے تو بتائیے کہ اس کا بشر ہونا باعثِ فخر و فضیلت ہے یا باعثِ عار؟ ۔۔۔ افسوس، ہم شانِ رسالت کو سمجھ سکے نہ مقامِ رسالت کو ۔۔۔ اگر کسی مافوق البشر ہستی کو رسول بنا کر انسانوں میں مبعوث کیا جاتا اور پھر اس کی اتباع بھی لازم قرار دی جاتی ۔۔۔﴿  لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ... ٢١﴾...الأحزاب کا فرمان بھی ہمیں سنایا جاتا تو اس عادل و مصنف احکم الحاکمین کہ جس سے بڑھ کر کوئی بھی عادل و مصنف نہیں، کے عدل و انصاف پر حرف نہ آتا کہ ہمارے لیے بطورِ نمونہ ایک ایسی ہستی کو پیش کیا جا رہا ہے جس کے فطری تقاضے اور داعیے ہمارے فطری تقاجوں ہی سے الگ ہیں؟ ۔۔۔ اسی حقیقت کی نقاب کشائی قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:
﴿لَّوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولًا ﴿٩٥﴾...الإسراء کہ "اگر زمین میں (انسانوں کی بجائے) فرشتے بود و باش رکھتے تو ہم (ان کی رہنمائی کے لیے) ان پر آسمانوں سے کسی فرشتے ہی کو نازل فرماتے (مگر چونکہ یہاں انسان بستے ہیں، لہذا ایک افضل ترین انسان ہی کو ان کی ہدایت پر مامور فرمایا گیا")
۔۔۔ ذرا ان الفاظ پر دوبارہ غور فرمائیے:
﴿لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ ... ١٦٤﴾...آل عمران کہ "اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسانِ عظیم فرمایا کہ ان میں ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم، انہی کی جانوں میں سے مبعوث فرمایا"
۔۔۔ حقیقت کس قدر آشکارا ہے؟ ایک طرف شانِ رسالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو مومنوں پر احسانِ عظیم جتلا رہے ہیں اور دوسری طرف یہ حقیقت اظہر من الشمس کہ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ان پر احسان عظیم ہے وہ ان میں، انہی کی جانوں میں سے مبعوث کیا گیا ہے ۔۔۔ کیوں نہ ہو، مانگنے والے نے مانگا بھی تو یہی تھا:
﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩﴾...البقرةکہ "اے ہمارے رب! ان میں ایک رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سے مبعوث فرما، جو ان پر تیری آیات پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور ان کا تزکیہ نفس کرے ، بیشک تو ہی تو غالب، حکمت والا ہے۔"
۔۔۔ اور کون نہیں جانتا کہ "دعائے خلیل علیہ السلام" اور "نوید مسیحا" یہی آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وسلم تھے، ۔۔۔ اور کسے انکار ہے کہ خلیل اللہ کی یہ دعا لفظ بہ لفظ اور حرف بحرف پوری نہیں ہوئی، مگر "منھم" کی بجائے "من انفسھم" کی مزید وضاحت کے ساتھ کہ کہیں مشرکین مکہ کی طرح ہم بھی اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائیں کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا ۔۔۔ اور ۔۔۔ رسول بشر نہیں ہوتا:
تاہم " إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ" کی حقیقت کے ساتھ ساتھ " يُوحَىٰ إِلَيَّ" کے قابلِ فخر اعزاز و امتیاز کو بھی ہرگز ہرگز نظر انداز نہ ہونا چاہئے، جو یقینا ایک بہت ہی بڑا اعزاز اور ایک بہت ہی بڑا امتیاز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مقامِ رسالت بھی تو صرف یہی نہیں کہ ایک مسلمان اپنی تمام عمر انہی بحثوں میں صرف کر دے کہ رسول اللہ کون تھے، کیسے تھے؟ ۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر جمیل اور صاحبِ جمال تھے؟ ۔۔۔ اور صرف عمروں پر ہی کیا منحصر ہے، یہ بحثیں صدیوں پر پھیل جائیں۔۔۔ قوم بے راہ، بے عمل اور بد عمل ہو جائے۔۔۔ پورے کا پورا دین پس پردہ چلا جائے، لیکن عقل و خرد، زورِ بیان، تحریر و تقریر اور تحقیق و تنقید صلاحتیں صرف علوِ مرتبت اور شان و رفعت کی تعیین کے لیے وقف ہو کر رہ جائیں حتی کہ علم و جہالت اور اسلام و کفر کا معیار بھی یہی چیزیں قرار پا جائیں لیکن کوئی سرا ہاتھ نہ آئے بلکہ یہ گتھی الجھتی ہی چلی جائے۔۔۔ حالانکہ کتاب الہی ہمارے پاس موجود ہے اور فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے سامنے ۔۔۔ کتابِ الہی مقام و منصبِ رسالت کی ترجمان ہے اور ارشاداتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مفسر و ترجمان۔۔۔ کیا یہ دونوں ایک دوسرے کا مقام و منصب متعین کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ ۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نبی کو کتاب سے الگ کر چکے اور کتاب کو نبی سے الگ کر چکے ہیں، کہ ایک طرف تو کشتی حیات ناخدا سے محروم ہو کر ڈانواں ڈول ہے اور دوسری طرف ناخدا ہی ہماری نظروں میں خدا بن چکا ہے؟
للہ، قرآن کو پڑھیے اور اس کی روشنی میں مقام و منصب رسالت کو پہچانئے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ قرآن کو بھی رسول اللہ کی زبان سے سمجھیے ۔۔۔ پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ دونوں ہی آپ کو اس راستے پر لا کھڑا کرنا چاہتے ہیں جو آپ کے خدا کی طرف جاتا ہے ۔۔۔۔ ارشاد ربانی﴿ لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ... ١٦٤﴾...آل عمران آپ کی انہی گتھیوں کو انتہائی خوش اسلوبی سے سلجھا رہا ہے کہ شان رسالت کے ساتھ ساتھ مقام و منصب رسالت یہ ہے کہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر اللہ کی آیات پڑھتا اور اس طرح آپ کا تزکیہ نفس کرتا ہے۔۔۔ لیکن اگر شان رسالت کی تقریبات میں مقام رسالت ہی نہ صرف نظر انداز ہو کر رہ جائے بلکہ خود اسی کی نفی ہونے لگے تو قرآن کا مقصد کہاں پورا ہوا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ہمیں کیا فائدہ حاصل ہوا؟ ۔۔۔ بطور مثال "عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم" کو رسول اللہ سے محبت و عقیدت کا رنگ دے کر اس کی آڑ میں اگر فلمی نغمے الاپے جائیں، ڈھولک کی تھاپ پر رقص کیا جائے، چمٹوں کی دھنا دھن پر سر دھنا جائے، ریڈیو ٹیلی ویثن ایسے قومی ذرائع ابلاغ سراپا طاؤس و رباب بن کر رہ جائیں کہ پوری قوم سر مست ہو کر جھومنے لگ جائے ، تو بتائیے کہ ارشاد  ربانی’’ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ‘‘ کے تقاضے کیا یہی ہیں؟ ۔۔۔’’ وَيُزَكِّيهِمْ ‘‘سے مراد کیا یہی تزکیہ نفس ہے، کہ انسان مقام انسانیت سے ہی گر جائے اور حیوانوں کی صف میں شامل ہو جائے؟ ۔۔۔ کیا ایک مومن کے شب و روز یہی ہونے چاہئیں؟ ۔۔۔ کیا رسول اللہ نے یہی دین ہم تک پہنچایا تھا؟ ۔۔۔ اصحابِ رسول اللہ کے آئینہ حیات میں ہمیں کوئی بھی ایسا عکس نظر آتا ہے؟ ۔۔۔ تابعین و تبع تابعین ہی کی سوانح حیات میں کوئی ایسی مثال مل سکتی ہے؟ ۔۔۔ اور آئمہ کرام رحمہم اللہ ، کہ جن کے اقوال کو فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ترجیح دے دینے کی جسارت کر ڈالی گئی ہے۔۔۔ اور جن کا مقلد ہونا باعثِ ناز سمجھا جاتا اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے والا غیر مقلد، اور غیر مقلد ہونا ایک گالی اور طعن بن چکا ہے، انہی سے ان سرمستیوں کی کوئی سندِ جواز عطا ہو سکتی ہے؟ ۔۔۔ ہر گز نہیں، ﴿وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿٨٨﴾...الإسراء ۔۔۔۔۔ اور افسوس کہ ہم نے منصبِ رسالت کو بھی نہ سمجھا۔۔۔ جس کا فرض منصبی ہی’’  وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ‘‘ ہو۔۔۔ جس کو معلمِ کتاب و حکمت خود خدا بتلائے، اس سے بڑھ کر اور اس سے بہتر اور معلم کون ہو گا؟ ۔۔۔ لیکن ہم ہیں کہ کتاب کو رسول سے الگ کر کے، فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے اسے آئمہ کی زبان سے سمجھنا چاہتے ہیں؟ کیا رسول اللہ کی تعلیم میں ہمیں کوئی نقص نظر آتا ہے؟ ۔۔۔ مندرجہ بالا ارشاد الہی سے ہمیں کیوں اطمینان حاصل نہیں؟ ۔۔۔ کیا معاذاللہ ہمارا یہ خیال ہے کہ ائمہ کا طریقِ تعلیم رسول اللہ کی نسبت زیادہ عام فہم، زیادہ پر اثر، زیادہ کامیاب اور زیادہ ذو معنی ہے؟ ۔۔۔ یا کیا ارشادِ ربانی  " الدين يسر" سے ہمیں اتفاق نہیں؟ ۔۔۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر تقلید پر فخر کرنا اور اسے ضروری قرار دینا کیا خدا تعالیٰ کو تدبیریں سمجھانے والی بات نہیں کہ رسول اللہ کی بجائے ائمہ کو مبعوث کیا جانا چاہئے تھا؟ ۔۔۔ اپنی کتاب کی ترجمانی کا فریضہ انہیں سونپنا چاہئے تھا؟ یا، رسول اللہ کی رسالت کے ساتھ ساتھ ائمہ کی رسالت کا بھی قائل ہونا ضروری ہے؟ ۔۔۔ لیکن رسول اللہ تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی نہیں، عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی نہیں ۔۔۔ اور ان کو بھی چھوڑئیے:
" لو كان موسى حيا ما وسعه إلا اتباعى"
رسول اللہ تو وہ ہیں، جنہوں نے فرمایا، "اگر موسی علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے بغیر کوئی چارہ کار ہ ہوتا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے اپنی سابقہ گزارشات کے ذریعے توحید الہی پر روشنی ڈالی تھی جبکہ زیر نظر صفحات میں ہم نے رسالت کو موضوع بحث بنایا ہے تاکہ "لا الہ الا اللہ" (توحید) کے ساتھ ساھ "محمد رسول اللہ" (رسالت) کے تقاضے بھی پورے ہو سکیں۔۔۔ پس اے وہ لوگو کہ پورے کلمہ توحید " لا إله  إلا الله محمد رسول الله " کے قائل ہو، عبادت صرف اللہ کی کرو، اور اس کا طریقہ صرف رسول اللہ سے سیکھو، کہ جہاں صفاتِ الہی میں اغیار کو شامل کرنا شرک ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر دوسروں کی اتباع کرنا بھی حبطِ اعمال کا باعث ہے ۔۔۔ دیکھیے قرآن کیا فرماتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣﴾...محمد کہ "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔ اور (اس سے منحرف ہو کر) اپنے اعمال باطل نہ کرو"
پس یہ ماہ ربیع الاول اگر تمہارے نزدیک عظمتوں کا حامل ہے، اگر رسول اللہ کی بعثت تمہارے لیے باعثِ خیر و برکت ہے، اور اگر تمہارے نزدیک آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہونا باعثِ فخر ہے ۔۔۔ تو اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری پیغام بھی سن لو:
"تركت فىكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله و سنتى "
کہ "میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، اگر تم نے انہیں مضبوطی سے پکڑے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہو گے، یہ دو چیزیں کیا ہیں؟ ۔۔۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم"
آج جبکہ تم پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی مملکت بنانا چاہتے ہو تو اس عہد کو پھر سے دلوں میں تازہ کر لو کہ تمہاری گردنیں کبھی نہ جھکیں گی مگر خدا کے سامنے، اور تمہارے سر اطاعت کبھی تسلیم نہ ہوں گے مگر ارشاداتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے۔۔۔ کرنے کا کام تو یہی ہے ، تو پھر اسے آج ہی کیوں نہ کر ڈالو، اسی ماہِ مبارک میں ۔۔۔ اسی ربیع الاول میں:
دیکھئے! قرآن مجید پکار پکار کر کہہ رہا ہے:
﴿وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٣﴾ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿١٤﴾...النساء کہ "جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے ۔۔۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدود سے تجاوز کرے گا تو اس کے لیے جہنم کا ابدی رسوا کن عذاب ہے۔"
بمصطفٰے  برساںِ خویش راکہ دیں ہمہ اوست   اگر باؤ نہ رسیدی تمام لو لہبی ست
(وما علينا إلا البلا غ المبين )