سید سلمان ندوی کی دینی خدمات
آپ صوبہ بہار کے ایک مروم خیز گا ؤں دیسنہ (ضلع پٹنہ) میں 23صفر1302ھ/22نومبر1884ءکو پیدا ہو ئے ،ابتدا ئی تعلیم گھر پر حا صل کرنے کے بعد پھلواری اور دربھنگہ میں تحصیل علم کے لیے مقیم رہے۔
1901ءمیں "دارالعلوم ندوۃ العلماء "لکھنؤمیں داخل ہو ئے""ندوۃ" میں ان کے ادبی و علمی ذوق کی جلا ہو ئی ۔ان کا سب سے پہلا مضمون1903ءمیں " وقت " کے عنوان سے رسالہ "مخزن "لاہور میں چھپا،جس کے ایڈاس وقت کے مشہور اہل قلم شیخ عبد القادر تھے۔ اسی سال ان کا دوسرا مضمون "علم اور اسلام" کے عنوان سے "علی گڑھ میگزین "میں بھی تعریفی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا۔(1)سید سلیمان ندویؒ عربی مضامین اخبارات و رسائل کا مطالعہ کیا کرتے تھے اس طرح ان میں جدید عربی ادب کا ذوق پیدا ہوا۔شبلی نعمانی نے مجلہ الندوۃ (ماہانہ رسالہ )سید صاحب کے سپرد کر دیا ایک مرتبہ سید صاحب نے بہترین فصیح و بلیغ انداز میں عربی زبان میں تقریر کی، اس کو سن کر ان کے استاد گرا می شبلی نعمانی اتنے خوش ہو ئے کہ اپنے سرسے عمامہ اتار کر اپنے شاگرد رشید (ندوی صاحب ) کے سر پر باند ھ دیا۔(2)
شبلی نعمانی کے" دفتر سیرت "میں شمولیت :
شبلی نعمانی ؒ نے 1912ءمیں ایک کمیٹی "مجلس تالیف سیراۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم " تشکیل دی اور اس میں انگریزی کے دو مترجم رکھے جبکہ عربی کے مدددگار کی حیثیت سے سید صاحب کا تقرر ہوا ۔(3)
سید صاحبؒ فر ما تے ہیں ۔میرےذمہ یہ خدمت سپرد ہو ئی کہ میں "صحیح بخاری "سے سیرت کے واقعات کو یکجا کروں(4)
سید صاحب ؒ نے پانچ ماہ "الہلال" میں کام کیا پھر وہاں سے چھوڑ کر" دکن کالج"پونہ میں بطور اسسٹنٹ پرو فیسر مقرر ہو ئے (5)
18نومبر 1914ء کو ان کے استا د گرا می شبلی نعمانی انتقال کر گئے اس کے بعد سید صاحب مستقل طور پر "دارالمصنفین اعظم گڑھ "میں آگئے۔(6)
وفات:14ربیع الاول 1373ھ اتوار کی رات دنیائے علم و ادب کا یہ درخشندہ آفتا ب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔۔۔اناللہ وانا الیہ راجعون (7)
سید صاحب ؒ کی تصنیفات اور ان کا مختصر جائزہ:
سید صاحب ؒ مولانا شبلیؒ کے جانشین علوم شرقیہ کے ممتاز عالم تھے تاریخ تحقیق ان کے خاص موضوع تھے وہ ادبی بصیرت اور شاعرانہ ذوق میں مہارت تامہ رکھتے تھے :آپ کی مختلف موضوعات پر درج ذیل "مؤلفات "ہیں ۔
(1)سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق :
(ب)خطبات مدراس
(ج)رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم
(2)سوانحی تصانیف: (الف) حیا ت مالک (ب)سیرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (ج)خیام (ا)حیات شبلی (2)علمی تحقیقی و تاریخی تصانیف : (الف)ارض القرآن : ج1،2(ب) عرب و ہند کے تعلقات (ج)عربوں کی جہاز رانی (د)سیرافغانستان (ھ)یادرفتگان
"سیرت البنی صلی اللہ علیہ وسلم "کی دو جلدیں علامہ شبلی نعمانی ؒ کی تصنیف کردہ تھیں لیکن ان کی تدوین اور مقدمہ لکھنے کی سعادت سید صاحب کو نصیب ہو ئی۔
"سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم "
جلدسوم اس جلد کے اندر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر تفصیلاً تبصرہ کیا گیا ہے پھر سحر اور معجزہ کے موضوعپر علمی بحث بھی کی گئی ہے۔ان کے علاوہ بہت سے مباحث مثلاً مکالمہ الٰہی وحی نزول ملائکہ انبیاء معراج نبوی ،شق القمر ،معجزہ قرآن خصائص محمدی ،نیز ختم نبوت پر بھی بحث کی ہے یہ جلد 1924ءمیں چھپ گئی تھی ۔
جلد چہارم 1932ءمیں ان کی معرکۃ الاراء کتاب "سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم " کی چوتھی جلد شائع ہو ئی جس میں "منصب نبوت " اور "محمدی نبوت" کے لوازم ،خصائص پر بحث کی گئی ہے۔
جلد پنجم :1935ءمیں "سیرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم " کی پانجویں جلد شائع ہو ئی جس کا موضوع عبادات ہے۔
جلدششم :1939ء میں جلد شائع ہو ئی جس میں اسلام کی اخلا قی تعلیمات(8)پرمباحث ہیں اس جلد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ مولانا مناظر احسن کیلانی نے اس پرتبصرہ کرتے ہو ئے اس جلد کو سید صاحب کا " کار عظیم "قراردیا ہے۔(9)
"سیرۃالنبی"جلد ہفتم اس جلد کا خاکہ تیار ہو چکا تھا کہ تکمیل سے پہلے سید صاحب اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔
مولانا ابو الحسن ندوی حفظہ اللہ فر ماتے ہیں ۔
"یہ کتاب اگر مکمل ہو جا تی تو نہ صرف سلسلہ "سیرت النبی"پایہ تکمیل کو پہنچ جا تا بلکہ ان کے علمی و ذہنی کمالات و سعت نظر جامعیت اعتدال و توازں احتیاط ،شریعت اسلامی کے مزاج سے آشنائی قدیم و جدید کی واقفیت نہ صرف براہ راست بلکہ اعلیٰ درجہ کی فکری بصیرت اور علمی و فکری پختگی کی بنا پر جو چیز تیار ہو تی اس میں شریعت اسلامہ اور تعلیمات نبوی کی بہتر سے بہتر نمائند گی اور ترجمانی بھی ہو تی۔(10)
خطبات مدراس:۔
1925ء میں آپ نے جنوبی ہند کی مسلم ایجو کیشن ایسو سی ایشن ،کی دعوت پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آٹھ خطبے دینے جو "خطبات مدراس "کے نام سے شائع ہو ئے ان خطبات میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے اچھوتے اور دل نشین انداز میں پیش کی گئی ہے کہ اس سے بہتر طریقے پر اب تک پیش نہیں کی جا سکی ،یہ خطبات اپنے وانشاء اور زور خطابت کے لحاظ سے اردو ادب کے شاہکار (11)سمجھے جا تے ہیں۔
"خطبات مدراس "کے متعلق مولانا ابو الحسن ندوی لکھتے ہیں۔
"خطبات مدراس "سیرت نبوی کا عطر ہیں اور اس سے بہتر طریقہ پر ابھی تک سیرت کو پیش نہیں کیا گیا ۔(12۔)
"رحمت عالم":۔
1940ءمیں"رحمت عالم "بچوں کے لیے لکھی جو سلیس اور آسان زبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مشتمل ہے(13)
"حیات مالک":۔
اس میں امام مالک ؒ امام دارالہجرۃ کی سوانح عمری سے متعلق کچھ جلی عمنوانات قائم کئے گئے ہیں آپ کو امام مالک ؒ سے خاص عقیدت تھی ۔ ابو علی لکھتے ہیں
"امام مالک ؒ پر جہاں تک ہمارا حافظہ کا م کرتا ہے بہترین کتاب ہے ۔پھر اردو میں کو ئی کتاب اس کے ہم پلہ نہیں لکھی گئی (14)
سیرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا :،۔
اس کتاب میں سید صاحب نے اپنی ذہانت اور دلیل سے عورتوں کا درجہ بلند کیا ہے اس سوانح عمری سے اسلام میں عورتوں کے حقوق ان کا احترا م اور ان کا بلند مقام بھی متعین ہو تا ہے شاہ معین الدین ندوی لکھتے ہیں۔
"اگرچہ وہ حضرت عائشہ کی سوانح عمری ہے لیکن ایک حیثیت سے وہ بھی سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ضمیمہ ہے (15)
"خیام":۔
1933ءمیں سید صاحب کی مشہور معروف محققانہ تصنیف "خیام "شائع ہو ئی علمی دنیا کو پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ ان کی شراب بھٹی کی شراب نہ تھی بلکہ "شراب معرفت "اور"باوہ حقیقت "تھی نیز وہ نہ ایک شاعر تھا بلکہ فلسفی ،منجم ،ریاضی دان بھی تھا ، اس کتاب کے متعلق سید صاحب لکھتے ہیں۔
"میں نے یہ کتاب محض اس حقیقت کے اظہار کے لیے پیش کی تھی کہ اہل مغرب کو معلوم ہو جا ئے کہ جس تحقیق پر انہیں ناز ہے علمائے مشرق ان سے کسی طرح سے بھی پیچھے نہیں (16)
"حیات شبلی ":۔
سید صاحبؒ نے اپنے استاد گرا می کی سوانح عمری لکھ کر سعادت مندی کا ثبوت فرا ہم کیا نیز اس سلسلے میں سیدصاحب ؒ غیر جانبدار رہے بقول سید صاحبؒ"یہ 900صفحات کی کتاب صرف اس عہد کے ایک اہم شخص کی سوانح عمری ہی نہیں بلکہ در حقیقت مسلمانان ہند کے پچاس برس کے علمی و ادبی ،سیاسی و مذہبی اور قومی واقعات کی تاریخ بن گئی (17)
"تاریخ ارض القرآن "جلد (1)
اس کتاب میں"ارض القرآن " کا جغرافیہ اقوام عرب کے سیاسی تاریخی ،نسبی قومی دینی ،تجارتی اور تمدنی حالات پر بحث کی گئی ہے، اور قرآن مجید کے بیانات سے اس کی مطابقت دکھا ئی گئی ہے یہ کتا دو جلدوں پر مشتمل ہے مولانا مناظراحسن گیلانی لکھتے ہیں "تاریخ ارض قرآن" میں سید صاحب نے تمام انسانی تاریخ کے سلسلہ میں نئی راہیں کھولیں ،بلکہ قرآن مجید کی کے بعض جزئی شخصیتوں کے متعلق بعض ایسے اہم انکشافات کئے جن کی روشنی میں ان کی حیثیتوں اور ان کی قدرو قیمت میں تبدیلی واقع ہو جا تی ہے۔(18)
"عرب وہند کے تعلقات "
اس کتاب کا مقصد ہندو مسلمان کے درمیان پھیلی ہو ئی غلط فہمیوں کو دور کرنا تھا جو انگریزوں نے اپنی سیاسی مصلحتوں کی بنا پر پھیلا رکھی تھیں ۔ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی لکھتے ہیں ۔۔"یہ اردو ادبیات میں پیش بہا اضافہ ہے اور مصنف نے اسے سے جس طرح تصنیف کیا ہے کہ یہ دنیا ئے اردو ادب میں انہی کا حصہ ہے۔(19)
عربوں کی جہاز رانی:۔
مارچ 1931ء میں عربوں کی جہاز رانی پر بمبئی گورنمنٹ کے شعبہ تعلیم کی سرپرستی میں چار خطبے دیئے جن میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ موجودہ رانی کی ترقی میں عربوں کا کتنا حصہ ہے ۔بعد میں اس کو کتابی شکل دے دی گئی ،جو دو سو صفحات مشتمل ہے۔(20)
اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب لکھتے ہیں:کم ہی کتابیں ہوتی ہیں جو خاص وعام کو یکساں پسند آتی ہیں،ان خوش نصیب کتب میں سے مولانا کی تازہ تصنیف:"عربوں کی جہاز رانی"بھی ہے۔جس کا مضمون اتنا اچھوتا اور مواداتنا زیادہ کہ اس کی توقع کم تھی"(21)
"سیر افغانستان"
یہ مولانا موصوف کا سفر نامہ ہے،یہ سفر نامہ سیر وسیاحت کی محض تفریحی سرگزشت نہیں ہے بلکہ اس میں افغانستان کے اہم تاریخی واقعات،آثار قدیمہ،موجودہ افغانستان کے تعلیمی اور صنعتی مدارس،قدیم وجدید تمدن کے مظاہر وغیرہ،غرض یہ کہ افغانستان کے جملہ تاریخی وتمدنی،علمی ومعاشرتی حالات آگئے ہیں۔علامہ اقبال ؒ جو اس سفر میں سید صاحب ؒ کے ہمرکاب تھے۔فرماتے ہیں:
"سید صاحب" علم وفضل کا دریا ہے جس سے سینکڑوں نہیں نکلتی ہیں اور ہزاروں سوکھی بستیاں سیراب ہوتی ہیں۔آپ صرف عالم ہی نہیں بلکہ امیر العلماء ہیں۔مصنف نہیں رئیس المصنفین بھی ہیں۔"(22)
"یاد رفتگان"(وفیات)
اس کتاب میں 1914ء سے 1952ء تک کے 135 اکابرین ومشاہیر کی وفات پر سید صاحب ؒ نے اپنے جذبات اور تاثرات کو قلمبند کیا ہے اور ان کے کارناموں کا تذکرہ بھی کیا ہے،اس کتاب میں سوانح بھی ہے اور تذکرہ بھی ،احوال بھی ہیں،افکار بھی ،نیز تاریخی اسناد بھی ہیں اور جغرافیائی معلومات بھی ،مدارس ومعاہد کا حال بھی اور اخبارات ورسائل کی فہرست بھی ہے۔
مولانا موصوف کی علمی یادگاروں میں ان کی اہم تصانیف کے علاوہ"دارالمصنفین"اور اس کا ماہانہ رسالہ"معارف" بھی شامل ہے۔اس رسالے میں ادارت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے بے شمار مذہبی ،علمی،ادبی اور تاریخی مضامین بھی لکھے۔
الغرض مولانا ندوی جیسی جامع کمالات شخصیت کہیں دیر بعد ہی پیدا ہوتی ہے ،جملہ علوم اسلامی پر ان کی گہری نظر تھی اور بعض علوم میں امامت واجہتاد کے مقام پر فائزتھے،آپ کا علمی درجہ بہت وسیع اور بلند تھا جس کو احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہے نیز ان کے پیش نظر اسلامی احکام وتعلیمات کی صحیح اوردل نشین انداز میں تعبیر وترجمانی تھی۔رحمۃ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ
حوالہ جات:۔
1۔اردو دائرۃ معارف اسلامیۃ (جامعہ پنجاب ،لاہور) 266/11،اور شاہ معین الدین ندوی :حیات سلیمان،اعظم گڑھ،1973ء ص17۔
2۔سلیمان ندوی:حیات شبلی،(ط3،1943ء) ص458۔
3۔حیات شبلی ،ص 707۔4۔حیات شبلی ،ص 707۔5۔غلام محمد :تذکرۃ سلیمان(کراچی ،1960ء) ص172۔
6۔اردو دائرۃ معارف اسلامیہ ،267/11)
7۔سول اینڈ ملٹری گذٹ(لاہور،23 نومبر 1953 ص81)
8۔اردو دائرۃ معارف اسلامیہ ،268/11۔
9۔معارف کی پانچ اشاعتیں ،(معارف جنوری 1940ء)
10۔"سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم " پیش لفظ جلد دوم، ص2۔
11۔اردو دائرۃ معارف اسلامیہ ،268/11۔
12۔پرانے چراغ(کراچی ،ط2،1975ء) ص 56۔
13۔اردو دائرۃ معارف اسلامیہ ،269/11۔
14۔ابو علی اعظم گڑھ:مولانا سلیمان ندوی کے علمی وتاریخی کارنامے،معارف (مئی 1960ء)35/44)
15۔معارف سلیمان نمبر۔16۔غلام محمد تذکرہ سلیمان (کراچی1960ء)ص54
17۔حیات شبلی،ص8۔9،18۔معارف سلیمان نمبر1955ء226/75۔
19۔عرب وہند کے تعلقات ،معارف جنوری 1931ء(ص168)
20۔اردو دائرۃ معارف اسلامیہ 268/11
21۔عربوں کی جہاز رانی پراستدراک ،معارف مئی 1936ء،ص 325۔
22۔معارف سلیمان نمبر مئی 1955ء ص28۔
تذکرۃ المشاہیر مفتی محمد عبدہ الفلاح