مولانا حافظ عبد العزیز رحیم آبادی ۔1854۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1918ء:
ولادت ونشاۃ:
1270ھ 1854ء کو ایک بڑے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔والد گرامی کا نام شیخ احمداللہ اوروالدہ کانام بی بی بھی مخدومن ہے۔عمر کے 13ویں سال میں قرآن پاک حفظ کیا۔اس کے بعد عربی ،فارسی کی کتابیں پڑھنا شروع کریں جو اس دور میں رائج تھیں۔مختلف اساتذہ کرام سے ابتدائی کتابیں تحصیل کیں،ان اساتذہ میں مولوی عظمت اللہ ،مولوی محمودعالم رامپوری (1302ھ) اور مولوی محمد یحییٰ عظیم آبادی کےاسماءگرامی خاص طور پر مذکور ہیں۔(1)
اعلیٰ تعلیم کے لئے رحلت:۔
پھر 1290 ہجری کو بیس سال کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے حضرت شیخ الکل محدث اعظم سید نزیر حسین دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے کیونکہ اس سے پہلے ان کے بڑے بھائی شیخ عبدالرحیم بھی اسی درس گاہ سے فیض یاب ہوچکے تھے۔دہلی میں دو سال قیام کے دوران حضرت میاں صاحب سےصحاح ستہ،موطا امام مالک،سنن دارمی ،جامع صغیر ہدایہ،جلالین اور اصول حدیث کی کتابیں پڑھیں۔(2) اور دو سال کی قلیل مدت میں تکمیل کے بعد 1292ھ کو حضرت میاں صاحب سےسند لے کر وطن و اپس ہوئے۔(3)
درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ:۔
وطن پہنچ کر درس وتدریس اوردعوت وتبلیغ میں مشغول ہوگئے اور اپنے والد کے قائم کردہ مدرسہ میں درس دینا شروع کردیا۔مسلسل آٹھ سال تک برابر تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ دعوت وتبلیغ کے کاموں میں بھی تند ہی سے حصہ لیتے رہے۔بعض مسائل میں اپنے والد شیخ احمد اللہ سے اختلاف کی بناء پر تقریباً 1300ھ کے زمانہ میں رحیم آباد کوالوداع کیا اور بمع اہل وعیال مظفر پورہ چلے آئے اور ایک محلہ(چھوٹی کلیانی) کی مسجد میں ٹھہر گئے۔اسی کو اپنا مسکن اوردرسگاہ بنا لیا اور اس میں تدریس کا کام شروع کردیا اور دعوت وتبلیغ کا فریضہ بھی سر انجام دیتے رہے اور یہ درس گاہ آگے چل کر مظفر پور میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے مشہور ہوئی اور نصف صدی تک اس درس گاہ میں بہت سے جید علماء کرام درس دیتے رہے،جن میں مولانا ابو طاہر بہاری،مولانا مولا بخش ہراکری،مولانا محمد اسحاق آروی،حافظ محمد حنیف آروی،حافظ عبداللہ رحیم آبادی اورحافظ عبدالستار مولا نگری کے اسماء گرامی مشہور ہیں۔
مولانا کی علمی کوششوں نے بڑے بڑے لوگوں کو ایک شیرازہ میں جمع کردیا۔مدرسہ احمدیہ آرہ کا اولین دور تھا۔اس دور میں ہی مولانا عبدالغفار نشتر محدث مہدانوی،حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی اور مولانا شمشاد الحق ڈیانوی ایک سلسلہ میں مربوط تھے،یہ تمام حضرات حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی ؒ صاحب کے حلقہ درس کے حاشیہ نشین تھے۔
حضرت میاں صاحب کے فیض صحبت کا یہ اثر تھا کہ آپ کے تلامذہ بیرون ہند میں مشہور ہوئے اور تمام حضرات نے ملک میں بڑی بڑی خدمتیں سر انجام دیں۔انہی میں ایک حضرت رحیم آبادی بھی تھے۔
مولانامحمد سعید( مسجد علی جان دھلی ) لکھتے ہیں:(4)
"آپ مبلغ اسلام تھے ،آپ کے کلام میں خاص اثر تھا جس سے سامعین بہت محفوظ ہوتے تھے۔ہزاروں غیر مسلم آپ کا وعظ سن کر مشرف باسلام ہوتے"بلکہ ایسے واقعات بھی پیش آتے کہ مخالفین نے آپ کا وعظ سن کر اعتراف کیا کہ آپ اس امت کے امام غزالی ہیں اور ایسے اجلاس میں آپ کا خطاب توجہ سے سناگیا جب کہ مخالفین کسی اہل حدیث عالم کا خطاب سننے کے لئے تیار نہ تھے۔
جماعتی تنظیم:۔
مولانا رحیم آبادی دعوت وتبلیغ مسلک اہل حدیث کے ساتھ ساتھ جماعتی تنظیم کے لئے بھی متحرک رہے اور جب کبھی مجالس میں علماء کے ساتھ جمع ہوتے تو جماعت کو منظم کرنے کے لیے مشاورت اور تجاویز پیش کرتے اور بحث وتمحیص کرتے۔اس وقت تک:آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس"کے عنوان سے اہل حدیث کی تنظیم قائم نہیں ہوئی تھی۔
اتفاق کی بات ہے کہ مدرسہ احمدیہ آرہ میں ایک اجتماع ہوا اور وہاں یہ مسئلہ چھیڑ دیاگیا اور طے پایا کے جماعت کے لئے ایک سردار(امیر) کا انتخاب ہونا چاہیے۔ چنانچہ مولانا ابو محمد ابراہیم صاحب آروی باتفاق رائے امیر منتخب کرلیے گئے۔اور تنظیم جماعت کے لئے یہ پہلا قدم تھا۔
ان کا انتخاب تو ہوگیا مگرتمام تنظیمی امور کو مولانا رحیم آبادی سر انجام دیتے رہے حتیٰ کہ جب آروی صاحب ہجرت کرکے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو مدرسہ احمدیہ آرہ اور جماعت کی امارت کا بوجھ رحیم آبادی پر ڈال گئے۔اس صوبائی(بہاری) تنظیم کےساتھ مولانا رحیم آبادی آل انڈیا تنظیم کے لئے کوشاں رہے۔اخبار اہل حدیث کے ذریعہ اس تحریک کوشروع کیا اور علماء اہل حدیث نے بھی اپنی آراء اخبار کے ذریعہ نشر کیں۔
چنانچہ 1906ء کے اخبار اہل حدیث میں اس کانفرنس کے لئے اتفاق رائے کا اعلان کردیا گیا اور مولانا ابوالقاسم بنارسی نے تحریر فرمایا کہ مجھےبھی اس کانفرنس سے اتفاق ہے اور نہایت خوشی کی بات ہے کہ جلسہ مذاکرہ علمیہ قریب آرہا ہے لہذا اس اہلحدیث کانفرنس کا انعقاد بھی اسی جلسہ میں ہوجائے۔(5)
چنانچہ طے شدہ پروگرام کے مطابق مدرسہ احمدیہ آرہ کے مذاکرہ علمیہ کا اجلاس 22۔23۔دسمبر 1906ء ہونا قرار پایا۔جس میں آل انڈیا کے چوٹی کے علماء شامل ہوئے ۔حتیٰ کہ حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی بھی صعوبت سفر اٹھا کروہاں پہنچے اور باتفاق آراء کا نفرنس کی تجویز منظور ہوگئی۔ اور حافظ عبداللہ صاحب کانفرس کے صدر منتخب ہوئے اور ان تین افراد پر تنظیم جماعت کی ذمہ داری ڈالی گئی:مولانا رحیم آبادیؒ،مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ اور محمد ابراہیم میر سیالکوٹی۔
اصحاب ثلاثہ کی مساعی:
چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ ان اصحاب ثلاثہ نے جماعتی تنظیم کے لئے ملک بھر کے دورے کیے اور عوام کو اس تنظیم کے اغراض ومقاصد سے متعارف کروایا،بلکہ جماعت کو بنگال سے پشاور تک ایک مرکز پر جمع کردیا۔اور ہر سال اس کے سالانہ اجلاس کرواتےرہے۔ہم ان ان سالانہ کانفرنسوں کی تفصیل"تحریک کے چنداوراق" میں بیان کرچکے ہیں۔
تحریک مجاہدین میں مولانا کی سرگرمیاں:۔
تحریک جہاد کے بانی امیر قافلہ سیداحمد شہیدؒ اور ان کے وزیر شاہ اسماعیل شہیدؒ تھے۔ان دونوں بزرگوں کی شہادت کے بعد صادق پور علماء نے اس تحریک کو زندہ رکھا اور صادق پور پٹنہ میں مرکزی امیر مولانا عبدالرحیم صادق پوری ؒقرار پائے۔مولانا رحیم آبادی بھی اس تحریک میں شامل تھے،جب مولانا عبدالرحیم گرفتار ہوئے تو ان کے بعد مولانا مبارک علی وتبارک علی بالترتیب قائم مقام امیر مقرر ہوئے۔پھر ان دونوں بھائیوں کی گرفتاری کے بعد 1872ء میں تحریک کی تمام تر ذمہ داری مولانا رحیم آبادی پر ڈالی گئی اور آپ نے زندگی بھر اس ذمہ داری کا پورا حق ادا کیا۔اس کی تفصیل ہم"تحریک مجاہدین" میں بیان کر آئے ہیں۔
مدرسہ احمدیہ ،در بھنگہ:۔
حضرت میاں صاحب دہلوی ؒ کے تلامذہ نے ہندوستان کے مختلف صوبہ جات میں دینی درس گاہیں قائم کرلی تھیں۔جو تحریک اہل حدیث کے لئے مراکز کی حیثیت اختیار کرگئی تھیں۔چنانچہ 1898ء کو مولانا ابو محمد ابراہیم آروی نے مدرسہ احمدیہ آرہ کی بنیاد رکھی۔(6) ان کے ہجرت کرنے جانے کے بعد اس کا اہتمام بھی مولانا رحیم آبادی کے سپرد ہوا۔یہ مدرسہ کئی سال بڑی تندہی سے چلتارہا اور پورے ہندوستان سے شائقین علم اس مدرسہ سے فیض یاب ہوتے رہے۔
بالآخر حالات کی مجبوری کے تحت مولانا نے یہ مدرسہ در بھنگہ منتقل کردیا۔جو اب دارا لعلوم در بھنگہ کے نام سے چل رہا ہے۔مولانا کے بعد بابو عبداللہ رحیم آبادی مدرسہ کے نگران مقرر ہوئے اور ان کی وفات کے بعد 1347ھ کو ڈاکٹر سید محمد فرید دارالعلوم کے ہور ہے۔
تبلیغی مساعی:،۔
یوں تو ہمارے اکابر تبلیغ ووعظ اور مسلک اہل حدیث کی نشرواشاعت کےلئے آل انڈیا کے دورے کرتے رہے مگرانہوں نے ا پنے خاص علاقوں میں نہایت محنت سے کام کیا اور عمل بالسنۃ" کے لئے ہر قسم کی مشکلات کا مقابلہ کیا۔چنانچہ جب ہم مولانا رحیم آبادی کی تبلیغی مساعی کو ان کے خاص علاقہ کے تناظر سے دیکھتے ہیں توان کی محنت شاقہ اور حسن انتظام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
مولانا کا خاص علاقہ مشرقی بہار تھا جو کہ مظفر پور،در بھنگہ ،چمپارن،اور ترہت پر مشتمل تھا۔مولانا نے اس علاقہ کےدیہات کے دور ے کرکے ہر گاؤں میں ایک سردار مقرر کیا اور چند گاؤں کے لئے ایک ذیلی مرکز بنایا جو اپنے ماتحت موازعات کو کنٹرول کرتا اور حالات کا جائزہ لینے کے لئے خود مولانا سال میں ایک یا دومرتبہ تاکہ کتاب وسنت پر عمل کے جذبہ کو بیدار رکھا جاسکے اور شرک وبدعات کو مٹانے کے لئے تازہ دم مساعی عمل میں لائی جاسکیں۔
مجالس وعظ:۔
اس غرض سے سالانہ جلسے رکھے جاتے تاکہ اجتماعی طور پر وعظ ونصیحت کی جاسکے۔ اور گزشتہ سال کے کام کا جائزہ لے کر آئندہ سال کےلئے لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔اور مولانا ابراہیم آروی اس غرض کے لئے مدرسہ احمدیہ میں"مذاکرہ علمیہ" کے نام سے سالانہ جلسہ کیا کرتے تھے۔
مولانا آروی کی ہجرت کے بعد یہ ذمہ داری مولانا رحیم آبادی پر تھی کہ مدرسہ احمدیہ کے انتظام وانصرام کے ساتھ سالانہ مذاکرہ علمیہ کا بھی اہتمام کیا جائے۔چنانچہ مولانا اس ذمہ داری سے باحسن طریق عہدہ برآ ہوتے رہے مولانا ا س جلسے کو مدرسہ احمدیہ تک ہی محدود نہ رکھا بلکہ صوبہ کے دوسرے علاقوں میں بھی یہ اجلاس منعقد ہوتے رہے جن کی افادیت سے انکار نہیں ہوسکتا۔اس مذاکرہ علمیہ کے سترہویں جلسہ کے موقع پر1906ء کو"آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس" کا وجود عمل میں آیا اور اس سے ایک سال پہلے یعنی 1905ء کو مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ کی تفسیر کی وجہ سےجو نزاع پیدا ہوگیا تھا۔اس کے تصفیہ کے لئے مولانا رحیم آبادی نے مثبت کوششیں کیں۔جن کے پیش نظر جلسہ مذاکرہ علمیہ کے موقع پر اس کے لیےحکم مقرر ہوتے تھے۔
تصانیف:۔
مولانا رحیم آبادی راسخ فی العلم تھے اور ان کی زندگی کا اکثر حصہ تبلیغی مہمات میں گزرا لیکن ساتھ ہی آپ نے تصنیف وتالیف کے میدان میں جوباقیات چھوڑی ہیں،وہ اگرچہ آپ کی تبلیغی مہمات کا حصہ ہیں۔لیکن آپ کے علم وتحقیق پر شاہد عدل ہیں۔
سواء الطریق ترجمه مشکوۃ المصابیح:۔
علامہ بغوی(17) نے"المصابیح" کے نام سے حدیث کا مجموعہ ترتیب دیا،جس کے متعلق صاحب مشکوۃ(8) لکھتے ہیں:۔
أجمع كتاب صنِّف في بابه، وأضبط الشوارد الأحاديث وأوابدها
یعنی یہ کتاب احادیث کا بہترین انتخاب ہے۔صاحب مشکواۃ نے اسی المصابیح کو از سر نو مرتب کیا اور احادیث کے مخارج کا ا ضافہ کرکے کتاب میں جو اصولی نقص تھا اس کو دور کردیا۔اس طرح مشکوۃ المصابیح احادیث کا بہترین مجموعہ بن گئی اور ہمارے دینی مدارس میں اس کو مقررات کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
بہت سے علماء نے شروح اورحواشی لکھ کر اس کتاب کی خدمت کی ہے۔علی القاری کی"مرقاۃ" اور شیخ عبدالحق کی"لمعات" اس کی اہم شروح شمارہ ہوتی ہیں۔لیکن ان میں ایک مکتب کر کی ترجمانی کی گئی ہے۔تاہم حل مطالب کی حد تک انہوں نے حق شرح ادا کردیا ہے۔اہل حدیث کے علماء میں سے تاحال کسی نے توجہ نہ دی تھی۔بالآخر قیام پاکستان کے بعد مولانا عبیداللہ المبارکپوری سابق شیخ الحدیث مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی نے ہمت کمر باندھی اور"مرعاۃ المفاتیح" کے نام سے مشکوۃ کی جامع ترین شرح لکھی جوہر لحاظ سے مفید ترین اور کامل شرح ہے۔تاہم اردو میں اس کوئی ایسا ترجمہ شائع نہ ہوسکا جو سلفی انداز تحقیق کے مطابق تشریحات پر مشتمل ہوتا۔مولانا ابراہیم آروی نے"طریق النجاۃ" کے نام سے اس کاترجمہ کیا تاہم اسے مختصر ترجمہ کہنا انسب ہے۔گویہ ترجمہ زبان واسلوب کے لحاظ سے معیاری ترجمہ ہے اور یہ ترجمہ اس وقت شائع ہوا جبکہ حدیث کے اردو تراجم(صحاح ستہ) شائع نہیں ہوئے تھے۔سوعوام میں بڑا مقبول ہوا۔
مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی نے ترجمہ مشکوۃ میں ایک دوسرا انتخاب بھی کیا،یعنی مشکوۃ میں سے ہر باب کی فصل اول(جو صحیحین کی احادیث پر مشتمل ہے)کاسلیس ترجمہ کیا اور اس کا نام "سواء اطریق"رکھا۔(9) اور یہ دونوں بزرگ سید نزیر حسین دہلوی (1320ھ) کے ممتاز اور متحرک تلامذہ میں سے ہیں۔اور حضرت میاں صاحب کے مشن کو چلانے میں مستعد نظر آتے ہیں۔
ہمارے پاکستانی علماء میں سے حافظ عبداللہ صاحب روپڑی غفراللہ اور حافظ محمد اعظم گوندلوی رفع اللہ درجتہ نے تدریس کے لئے مشکوۃ المصابیح کو خاص کیا اور اس کی شروح لکھنے کابھی عزم کیا تاہم یہ کام کتاب الایمان سے آگے نہ بڑھ سکا اور کالعدم ہی ہوکر رہ گیا۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا سلفی رحمہ اللہ علیہ نے بھی تشریحی نوٹس کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ شروع کیا تاہم مکمل نہ ہوسکا اور وہ بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اس لئے یہ کام بھی تشنہ تکمیل ہے۔اللہ تعالیٰ کسی مرد مجاہد کو یہ توفیق دے کہ وہ اس کام کومختصر جامع حواشی کے ساتھ مکمل کرجائے تاکہ عوام اس سے مستفید ہوسکیں یا مولانا آروی کے ترجمہ کو نظر ثانی کے ساتھ مکمل کرکے شائع کیا جائے تو یہ کتاب مسلک حق کےمقاصد پورے کرنے میں بے حد مفید ہوسکتی ہے۔
حسن البیان فیمانی سیرۃ النعمان :
یہ آپ کا دوسرا شاہکا ر ہے۔ علامہ شبی مر حوم نے مام ابو حنیفہ کی سیرۃ کیا لکھی کہ زور قلم میں بہت سی لغزشوں کا شاکار ہو گئے اور بقول شخصے حدیث و تفسیر اور تا ریخ و سیر مسخ کر گئے ۔مو لا نا رحیم آبادی پہلی شخصیت ہیں جس نے مولا نا شبلی کی کتاب کی باقاعدہ تحقیق کی اور کتاب کی غلطیوں کی نشان دہی کی۔ حتی کہ شبلی مرحوم بھی لغزشوں کی اصلا ح پر مجبور ہو گئے۔
سیرۃالنعمان میں مو لا نا شبلی نے دعویٰ کیا کہ امام ذہلی ؒ نے امام بخاری ؒ کو اپنی مجلس سے نکال دیا اور امام مالکؒ اور شافعی ؒ فقہاء سے تھے ،محدث نہیں تھے اور امام حنبل کے مجتہد اور فقیہ ہو نے میں اختلا ف ہے اور امام ابو حنیفہ کی قلت روایت کی وجہ ان کی شرا ئط کا کڑی ہو نا ہے اور امام صاحب نے مجلس تدوین فقہ قائم کی اور پھر اس مجلس کے ارکان کے اوصاف ذکر کئے ہیں وغیرہ ۔حا لا نکہ یہ تمام باتیں تاریخی حقائق کے بر عکس تھیں ۔اس لیے مولانا رحیم آبادی نے صاحب سیرۃ النعمان پر گرفت کی اور یہ چونکہ صحیح تھی اس لیے شبلی صاحب دوسرے ایڈیشن میں اصلاح و ترمیم پر مجبور ہو گئے ۔
ہدایۃ المعتدی فی القراء ۃ للمقتدی :
یہ رسالہ "تحقیق قراءۃ المقتدی"کا جواب ہے جو مطبع خادم الاسلام کی طرف سے شائع ہوا ۔مولانا رحیم آبادی نے ہدایۃالمعتدی میں اس کا رد کیا اور مطبع فاروقی دہلی سے 1310ھ کو شائع فر ما ئی۔
روداد مناظرہ مرشد آباد:
1305ھ میں ضلع مرشد آباد بنگا ل میں اہل حدیث اور احنا ف کے در مین مجلس منا ظرہ قائم ہوئی جو ایک ہفتہ تک جا ری رہی ۔اس کی روداد مولانا نے خود مرتب کی جو کتابی صورت میں شا ئع کی اور اس پر بطور شہادۃ مو لا نا ابراہیم آروی اور استاذالاساتذہ حافظ عبد اللہ صاحب غازی پو ری کے تقریظات بھی مر سوم ہیں اس کے مطا لعہ سے مو لا نا کی انشاء پردازی کی بلندی مترشح ہو تی ہے۔
الرق المشور:
الرق المشور فی رد فتح الشکور مطبع انصاری دہلی سے شائع ہو ئی اس پر مصنف کا نام مولانامحمود عالم درج ہے لیکن بعض نے اس کو مولانا کی تصنیف لکھا ہے اور مولانا محمود عالم صاحب مظفر پو ری ،مولانا رحیم آبادی کے تلمیذ رشید ہیں چنانچہ اس کتاب کے دیبا چہ میں مرقوم ہے۔
"فتح الشور مصبفہ میاں چرا غ علی عرف حافظ عبد الشکور ساکن ٹانڈیہے اور مولانا عبد العزیز کے نام سے اس کا دیبا چہ لکھ رہے ہیں ۔
اس کتاب کی تقلید اور اس قسم کے دوسرے مسائل ہیں اور مولانا رحیم آبادی نے اس کا رد لکھا ہے (10)
رمی الجمرہ :
یہ کتا ب "جمرہ نامی کتاب کے جواب میں لکھی گئی ہے اس لیے اس کا نام رمی الجمرہ رکھا گیا ہے علاوہ ازیں مولانا کے کچھ مسودات بھی ہیں جن میں سے بعض نامکمل ہیں اور جو مکمل ہیں وہ بھی ابھی تک شائع نہیں ہو سکے ۔
العلوم احمد یہ سلفیہ :
مولانا رحیم آبادی دار العلوم کے لیے زمین تو اپنی زند گی میں ہی خرید چکے تھے اور اس میں پرائمری تعلیم کی حدتک انتظا م بھی کر دیا تھا پھر با بو عبد اللہ رحیم آبادی کی جگہ امیر مقرر ہو ئے تو انھوں نے دار العلوم کی تکمیل کے لیے کو شیش جا ری رکھیں ۔بالآخر یہ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ در بھنگہ کے نام سے قائم ہو گیا اور بابو عبد اللہ کے بعد ڈاکٹر سید محمد فرید صاحب اس کے منصرم رہے اور ان کے بعد سید عبد الحفیظ ڈاکٹر یہ خدمت انجام دیتے رہے۔
وفات:
مالانا ذیا بیطس کے مریض چلے آرہے تھے کا فی عرصہ بیمار رہ کر 4جمادی الآخر 1336ھ کے مطا بق 17مارچ 1917ء کو عالم جاوادنی کو سیدھا ر گئے۔
مولانا مرحوم کی وفا ت پر بہت سے لوگوں نے نظم و نٹر کے ذریعہ اپنے قلبی اور جماعتی لگا ؤ کا اظہار کیا ہم یہاں پر مولانا ثناء اللہ صاحبؒ اور مو لا نا محمد ابرا ہیم : سیالکوٹی کے بیا نات پر اکتفاء کرتے ہیں شیخ الاسلام مو لا نا ثناء اللہ مرحوم 26مارچ 1918ء کے اخبا ر اہلحدیث میں لکھتے ہیں ۔
آہ مولانا عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔!
منْ شاء بعدكَ فليمتْ،, فعليكَ كنتُ أحاذرُ
آہ میں اس غم کو کن لفظوں میں لکھوں قلم لکھ رہا ہے اور آنکھیں اشکبار ہیں اور دل مضطراب !۔۔۔مگر مومن کی شام یہ ہے کہ وہی کلمہ کہے جس کی شریعت نے اجا زت دی یعنی انا للہ وانا الیه راجعون ۔
آہ ! ہماری جماعت کو باپ کی طرح کو ن ڈانٹے گا مربی کی طرح ہماری کو ن خبر لے گا ۔ہماری کا نفرس کی صدا رت کو ن کرے گا مولانا آپ تو آرام میں جا پہنچے مگر ہماری بھی کو ئی خبر ہے لیجئے میں اب وہی مصرعہ لکھتا ہوں جو آپ کی طرف سے خط و فرحت پہنچنے پر لکھا کرتا تھا : ع
گیرم کہ غم نیست غم ماہم نیست
آہ عبد العزیز آج تو کہاں چلا گیا کہ ہم کو جواب نہیں دیتا ۔۔۔انا للہ مختصراً
مولانا محمد ابرا ہیم میر سیا لکوٹی نے 4دسمبر 1925ء کو اخبار اہلحدیث میں ایک پیغام قوم کے نام شائع کیا اس سے قبل 25 فروری 1925ء کو مؤناتھ بھنجن میں اہل حدیث کا نفرس کا اجلا س ہو چکا تھا جس کا خطبہ استقبالیہ مولوی احمد نے دیا :
"آہ !اس شیر میدا ن تقریر محبان بلا غت مولانا عبد العزیز رحیم آبادی مرحوم کی جلا ورعب والی پیشانی کا جمال کیسے کراؤں میں خدا وند قدوس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے سارا ہندوستان چھا ن مارا مجھے اس قابلیت کی ایک و جا معیت کی ایک ہستی بھی نظر نہیں آئی چہ جا ئیکہ چہاریار مولانا ڈیانوی مولانا پھلواروی حافظ غازی پوری اور مولانا رحیم آبادی کا نصاب پورا کر دوں ۔میں محض اعتقاد سے نہیں کہتا بلکہ اپنی ناقص فراست و مردم شناسی کی بنا ء پر کہتا ہوں کہ ان چاروںوجودوں نے اپنے پیچھے اپنا بدل نہیں چھوڑا ۔مدعی دعویٰ کرتے پھر ے لیکن شیر قالین اور ہے اور شیر نیستاں اور ہے ۔جب سے آخر 17مارچ 1918ء کو حضرت رحیم آبادی نے انتقال کیا تو میں نے خطبہ جمعہ میں پکار کر کہہ دیا تھا کہ جماعت کی طشتری کا سر پوش اٹھ گیا ۔۔۔الخ "
اخبار اہلحدیث میں مولانا امرتسری مرحوم کے بیان کی روشنی میں ہم کہتے ہیں :مولا نا امرتسری نے 29نو مبر 1940ء کو "اہلحدیث کا نفرنس " کے اجلاس منعقد ہ آرہ میں (11)"حاضرین کرام ! ابھی کل کا واقعہ ہے کہ اس شہر آرہ میں "تذکرہ علمیہ "کے نام سے ایک جلسہ منعقد ہوا کرتا تھا اس میں جو علماء شریک ہو تے تھے آج ان کے دیکھنے کو آنکھیں ترس رہی ہیں ان میں چند کے نام یہ ہیں ۔حضرت استاذ العلماء حافظ عبد اللہ صاحب غاز ی پو ری ۔شاہوا ر میدا ن فصاحت حضرت رحیم آبادی ؒ۔مولانا شمس الحق ڈیا نوی ؒ صاحب عون المعبود۔مو لا نا عبد الرحمٰن ؒ صاحب شارح ترمذی۔مو لا نا عبد السلام مبا رکپوری صاحب سیرۃ البخاری۔
جماعت اہلحدیث کے ابرا ہیم دھم مولانا شا ہ عین الحق پھلواروی انے کے استاذ مولا نا علی نعمت مر حوم
ہند وستان کے استادان سیاست ،ممبرا ن خاندان صادقپورہ
مولا نا عبد الجبار صاحب عمر پو ری ۔۔حکیم نظا م الدین صاحب
مولوی مسلم خاں صاحب ۔۔مو لوی حکیم ادریس صاحب
مولانا عبد الغفور صاحب ۔۔۔
رحمه الله عليهم اجمعين اللهم اغفر لهم وارفع درجاتهم وابد لهم دار خير من دارهم واهلا خير من اهلهم
ان حضرات کی جدا ئی پر مو لا نا حالی کی رباعی یاد آگئی آپ فر ما تے ہیں : ع
غالب ہے نہ شیفۃ نہ نیر باقی
وحشت ہے نہ سالک نہ ابور باقی
حالی اب انہی کو بزم یاران سمجھو
یاروں کے جو کچھ داغ ہیں دل پر باقی
اخبار اہل حدیث کی تحریک پر جلسہ آرہ مذاکرہ علمیہ 1906ء میں "اہل حدیث کانفرنس" کی بنیاد رکھی گئی،جس کے صدر مولانا عبداللہ غازی فوری اور ناظم مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ قرار پائے۔اس کے بعد 1907ء میں جب محمد پور کواری میں مذاکرہ علمیہ کا جلسہ منعقد ہوا تو اس میں قرار پایا کہ اہل حدیث کانفرنس کی گاڑی پھر سے چلانے کے لئے ایک دفعہ ملک کا دورہ کرنا ضروری ہے۔اوراس وفد تین ارکان منتخب ہوئے۔مولانا رحیم آبادی کی معیت میں مولانا امرتسری اور میرسیالکوٹی مرحوم۔سب سے پہلے حافظ محمد امین دہلوی نے جو ان دنوں راج شاہی میں تجارت کرتے تھے،راج شاہی میں پہنچنے کی دعوت دی۔چنانچہ وفد وہاں پہنچا اور ایک جلسہ بھی منعقد ہوا اس کے بعد یہ وفد کلکتہ چلا آیا۔اور پھر بنارس،بنارس سے پنجاب کا رخ کیا بعد میں یہ وفد لدھیانہ پہنچا۔ان دنوں مولوی محمد حسن رئیس لدھیانہ زندہ تھے۔ان کے ہاں قیام رہا۔پھر لدھیانہ سے امرتسر،پھر لاہور پھر براستہ امرتسر دہلی پہنچا۔ دہلوی میں اس وقت مولوی محمد حسین کوئلے والے زندہ تھے۔انھوں نے وفد کی مہمانی اور قیام کا انتظام کیا۔ان کے بھائی حافظ محمد حسن بھی وفد کی مہمان نوازی میں شریک رہے۔
جلسہ آرہ میں یہ طے ہوگیا تھا کہ کانفرنس کا صدر دفتر دہلی میں رہے گا۔چنانچہ اس کے لیے احباب دہلی کو جمع کیا گیا جس میں مولانا عبدالوہاب دہلوی،حافظ حمید اللہ صاحب پیچک والے،مولوی حکیم عبدالوہاب،حافظ عبدالوہاب صاحب،مولوی ابو الحسن صاحب،میاں سید نذیرحسین صاحب دہلوی، حاجی عبدالغفار صاحب علی جان والے،مولوی احمد حسن مرحوم اورمولانا ضمیر مرزا وغیرہ اعیان اہل حدیث کانفرنس کے جلسوں میں شریک ہوتے رہے۔
کانفرنس کے صدر مولوی احمد حسن صاحب قرار پائے اور ناظم مولانا امرتسری ہی رہے۔دفتری انتظام اورشعبہ مالیات کے سیکرٹری حافظ حمیداللہ صاحب مقررہوئے۔
اس کے بعد کانفرنس کا پہلا اجلاس 1912ء کو دہلی میں منعقعد ہواجو بہت پررونق رہا اور طے پایا کہ کانفرنس کاآئندہ سالانہ جلسہ امرتسر میں ہوگا اور پھر امرتسر کے بعد پشاور میں کانفرنس کا جلسہ ہوا۔پشاور والے جلسہ کے صدر ارباب عبدالروف خان تھے اس کے بعد کانفرنس کے سالانہ جلسے گوجرانوالہ ،ملتان،علی گڑھ،بنارس،آگرہ،موناتھ،بھنجن،(اعظم گڑھ) کلکتہ،اور مدراس ایسے مقامات پر ہوتے رہے۔
1939ء کو کانفرنس کا 21واں جلسہ فتح گڑھ چوڑیاں ضلع گرداسپور(مشرقی پنجاب) میں ہوا،جس کے صدر مولانا عبدالقادر صاحب قصوری مرحوم تھے۔اس کے بعد 1940ء کو کانفرنس کا22 واں سالانہ اجلاس اپنے مولد یعنی شہر آرہ میں ہوا۔جس کے صدر مولانا امرتسری مرحوم تھے۔
مولانا رحیم آبادی مرحوم کانفرنس کے اجلاس کلکتہ تک تو شریک رہے ۔اس کے بعد داعی اجل کو لبیک کہا،اس لئے آئندہ سال مدراس کے جلسہ میں مولوی محمد حسن کے صاحبزادے نے نظم پڑھی اس میں ایک مصرع یہ تھا:
چہ خوش بودے اگر عبدالعزیز ایں جلسہ مے دیدے
مدراس کا یہ اجلاس 3مئی 1918ء کوہوا(اجلاس کی رپورٹ 24مئی 1918ء کے اخبار اہل حدیث میں شائع ہوئی) اس میں ایک نظم پڑھی گئی،جس کا ایک بند یہ تھا:ع
کیا خوب ہوتا وہ بھی گر آج زندہ ہوتے
عبدالعزیز نامی "حسن البیان" والے
اس اجلاس کی صدارت حافظ عبداللہ غاذی پوری کے سپرد تھی۔ان کی طرف سےنیابت میں مولوی ابو البرکات محمد عبداللہ صاحب حیدر آبادی نے خطبہ صدارت پڑھا۔
15 اپریل 1918ء کے اخبار اہل حدیث میں مولانا مرحوم کے انتقال پر مولانا امرتسری نے ایک ایک بیان شائع کیا۔
بربلاتے کنو آسمان اید
خانہ بیکساں تلاش کند
جس میں مولانا امرتسری نےمولانا رحیم آبادی کی موت پر تاسف کا اظہار کیا اور پہلے مرحومین کے نام سے جن میں مولانا ڈیانوی،مولانا غزنوی،حافظ وزیر آبادی،مولانا لطف حسین،عبدالسلام دہلوی ،مولانا آروی ،مولانا سہسوانی،مولاان عمر پوری مع فرزند،مولانا بقا غاذیفوری،مولانا محمد جامری کے نام شامل تھے،مولانا نے فرمایا:مولانا رحیم آبادی کے صدمہ نے ان سب کی یادتازہ کردی ہے اور فرمایا:
"ہمارے مفسرین نے رحسین فردا فردا طعمہء اجل ہورہے ہیں مصنفین ہمارے دیکھتےہوئے ہمیں الوداعی سلام کہہ رہے ہیں اور ہم میں سے کسی وقت وہ احساس سے خالی ہاتھوں پر ہاتھوں دھرے تائید آسمانی کے منتظر ہیں اس کے بعد 3 مئی 1918ء کو مدراس میں اہل حدیث کانفرنس ہوئی جس کی رپورٹ 24 مئی 1918ء کے اخبار اہل حدیث میں شائع ہوئی۔"
مناظرات:۔
مناظرہ بذات خود دعوت وتبلیغ کا جزولاینفک ہے۔ہر زمانہ میں دعوت حق کے لئے مخالفین سے مجادلات ومناظرات بھی ہوتے رہے۔خود قرآن میں فرق اربعہ باطلہ سے مجادلات مذکورہ ہیں اور ان کی افادیت بھی مسلم ہے۔مولانا سلفی مرحوم اپنے ایک مقالہ میں علمائے اہل حدیث کی مناظرانہ سرگرمیوں کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:۔
"بعض بزرگوں نے مناظرات کی راہ اختیار کی وقتی خطرات کے لیے یہ ایک مفید علاج تھا۔۔۔اوروقت کی ضرورت کے لحاظ سے ان کے مفید ہونے میں شبہ نہیں کیا جاسکتا،قادیانیت اور بعض دوسرے فرقوں نے عوام میں جس طرح بدعی خیالات کی اشاعت شروع کی تھی،اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جاتا تو آج پانی سر سے گزرگیا ہوتا۔اگر صورتحال کو جلد ازجلد درست نہ کیا جاتا تو قادیانیت ایک عظیم فتنہ اختیار کرلیتی"
مولانا رحیم آبادی بھی ایسے دور میں زندگی گزار رہے تھے،جس کو مناظرات کا دور کہاجاتا ہے۔مولانا شیخ الاسلام امرتسری (1848ء۔1868ء)مولانا حافظ محمد ابراہیم سیالکوٹی اور دیگر اکابر اہلحدیث نے دعوت وارشاد اور تبلیغ کی غرض سے مخالفین سے مناظرات میں اپنی زندگی کابہترین حصہ اور صلاحیتیں صرف کرڈالیں اور اسلام سے دفاع کے لئے عیسائیت،مرزائیت،چکڑالویت،اورآریہ سماج سے مناظرات کیے اور ان کے اسلام پر اعتراضات کے دنداں شکن جوابات دیئے اور تحریک اہلحدیث کے دائرہ کو آل انڈیا میں وسیع کرنے کے لئے مقلدین سے بھی مناظرے کئے اور تقلید وجمود کو توڑنے کے لئے متعدد مناظروں سے کامیابی کے جوہر دکھائے،اس طرح توحید وسنت کی اشاعت اورشرک وبدعت کی تردید میں اپنی زندگیاں وقف کردیں۔مولانا رحیم آبادی کو بھی دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں مناظرات کے میدان میں کودنا پڑا اس ضمن میں اہل حدیث اوراحناف کے درمیان بہت سی مجالس مناظرۃ منعقد ہوتی رہیں۔مگر ان میں مرشد آباد(بنگال) کے مناظرہ میں کامیابی کی وجہ سے اس علاقہ میں تحریک اہل حدیث کے دائرہ کو وسعت پزیری کا موقع ہاتھ آگیا۔
اس مناظرہ میں فریقین کے اکابر علماء شریک ہوئے۔اہلحدیث جماعت کی طرف سے مولانا رحیم آبادی کو مناظر مقرر کیا گیا اور اہلحدیثوں کوفتح حاصل ہوئی۔تفصیل کے لئے"مناظرہ مرشد آباد" مطبوعہ کراچی دیکھا جاسکتا ہے اور مولانا کی تالیفات کے ضمن میں ہم بیان کرآئے ہیں۔
خطابت:۔
مولانا رحیم آبادی فن خطابت کے ماہر تھے اور تقریر میں مجمع پر چھا جاتے کے حاضرین رحیم آبادی کے علاوہ کسی کی تقریر سننا گوارہ نہ کرتے۔حضرت مولانا ثناءاللہ امرتسریؒ "اخبار اہل حدیث" میں لکھتے ہیں:(12)
گر حق یہ ہے کہ مولانا رحیم آبادی کی تقریر کچھ ایسی دلپزیر ہوتی ہے کہ بے ساختہ کہنا پڑتا ہے:ع
اثر بہانے کا پیارے تیرے بیان میں ہے
کسی کی آنکھ میں ،جادو تیری زبان میں ہے
حوالہ جات:۔
1۔اہل حدیث امرتسر 1920ء نزھۃ الخواطر 8/رقم 227۔
2۔اخبار اہل حدیث امرتسر۔
3۔حیات ثنائی سوہدروی ،ص 233۔
4۔اخبار اہل حدیث امرتسر،4جون 1927ء۔
5۔اخبار اہل حدیث امرتسر مجریہ 14دسمبر 1906ء
6۔تفصیل کے لئے دیکھئے :تذکرہ مولانا ابراہیم آروی،محدث نمبر۔94۔
7۔ابو محمد الحسین بن مسعود الفراء البغوی المتوفی 516ء۔
8۔الشیخ ولی الدین ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الخطیب العمری والتبریزی،
9۔اس کا پہلا ایڈیشن مطبع فاروقی میں طبع ہوا اور دوسرا اور تیسرا ایڈیشن دار العلوم احمد سلفیہ کے اہتمام سے شائع ہوا۔
10۔فضل الرحمان مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی،
11۔اخبار اہلحدیث دہلی، 15نومبر 1951ء کو یہ تقریر دوبارہ شائع ہوئی۔
12۔اہل حدیث امرتسر مجریہ ۔4اپریل