.......كلمة الحكمة ضالة "

مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ سے شائع ہو نے والا اُردو ماہنا مہ "تہذیب الاخلاق "مجریہ ماہ مئی 1988ء را قم کے پیش نظر ہے ۔شمار ہ ہذا میں جنا ب مولوی شبیر احمد خاں غوری صاحب (سابق رجسٹر ارامتحانات و فارسی بورڈ سرشتہ تعلیم الٰہ آباد یو ،پی) کا ایک اہم مضمون زیر عنوان "اسلام اور سائنس "شائع ہوا ہے آں موصوف کی شخصیت بر صغیر کے اہل علم طبقہ میں خاصی معروف ہے آپ کے تحقیقی مقالات اکثر برصغیر کے مشہور علمی رسا ئل و جرا ئد کی زینت بنتے رہتے ہیں آں محترم نے پیش نظر مضمون کے ایک مقام پر بعض انتہائی "ضعیف " اور ساقط الاعتبار احادیث سے استدلال کیا ہے جو ایک محقق کی شان کے خلا ف ہے چنانچہ رقم طراز ہیں ۔(1)
"اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے پیرووں کو جس طرح اللہ تعا لیٰ کی عبادت اور نیکو کاری اختیار کرنے اور برا ئیوں سے بچنے کا حکم دیا ہے اسی طرح ان کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ خود کو اوصاف حمیدہ سے متصف کریں اور ان اوصاف حمیدہ کے چندن ہار میں واسطہ العقد علم وحکمت ہے لہٰذا رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے پیرووں کو حکم دیا کہ وہ علم حاصل کریں ہر چند کہ اس کے حاصل کرنے کے لیے انہیں انتہائی مشقت حتیٰ کہ اقصائے عالم کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔
اطلبوا العلم ولو في الصين"
"علم تلاش کرو خواہ چین (اقصائے عالم ) ہی میں کیوں نہ دستیاب ہو" پھر اس "حکم ناطق " کو مزید مؤکد بنا نے کے لیے اسے "فریضہ " سے تعبیر کیا جس میں کسی کو تا ہی یا تسا ہل کی گنجا ئش ہی نہیں ہے ۔
طلب العلم فريضة على كل مسلم ومسلمة
"علم کو طلب کرنا مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت کا فرض ہے ۔" یہی نہیں بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا : "حکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے جہاں ملے وہ دوسروں کے مقابلے میں اسے لینے کا زیادہ حقدار ہے ۔
كلمة الحكمة ضالة المؤمن اينما وجدها فهو أحق بها "
شمع رسالت کے پروانوں کو اس حکم کی تعمیل میں کیا پس و پیش ہو سکتا تھا لہٰذا زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ امت مسلمہ علم و حکمت کے خزانوں کی امین ہو گئی "افسوس کہ آں محترم کی بیان کردہ یہ تینوں احادیث انتہائی ضعیف اور قطعاًناقابل اعتبار ہیں پہلی دونوں احادیث پر راقم کا ایک طویل تحقیقی مضمون سہ ماہی مجلہ جامعہ ابرا ہمیہ (2)سیالکوٹ (پاکستان ) میں تقریباً دس سال قبل شائع ہو چکا ہے دوبارہ مجلس التحقیق  الاسلامی لاہور نے اپنے مؤقر علمی ماہنامہ "محدث "میں (3)اسی مضمون کو بالا قساط شائع کر رہی ہے شائقین کے لیےیہ مضمون بھی لا ئق مراجعت ہے زیر نظر مضمون میں محترم جناب غوری صاحب کی بیان کردہ  تیسری حدیث "كلمة الحكمة اور اس کے جملہ طرق پر علمی بحث پیش کی جا تی ہے تا کہ واضح ہو جا ئے کہ عند المحدثین اس روا یت کا کیا مقام و مرتبہ ہے ۔اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی "جامع " (4)کے "ابواب العلم " میں ابن ماجہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی سنن (5) کی کتاب الزھد" میں بیہقی نے "مدخل " میں اور عسکری  نے بطریق ابرا ہیم بن الفضل عن سعید المقبری عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مرفوعاً روایت کیا ہے ۔خطیب تبریزی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کو "مشکوۃ المصابیح (6) میں علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ  نے المقاصد الحَسَنة في بیان کثیر من الأحادیث المُشْتهره
(7)"میں امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ  نے العلل المتناهية في الاحاديث الواهية
(8)میں ملا قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ  نے الاسرار المرفوعة في ا لاخبار الموضوعة
(میں علامہ محمد اسماعیل عجلونی الجراحی  رحمۃ اللہ علیہ  نے كشف الخفاء ومزيل الالباس عما اشتهر من الاحاديث علي السنة الناس
(10)میں علامہ محمد درویش حوت البیروتی رحمۃ اللہ علیہ  نے اسني المطالب في احاديث مختلفة المراتب
(11) میں علامہ شیبانی اثری نے تميز الطيب من الخبيث  فيما يدور علي السنة الناس من الحديث
(12)میں امام ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  نے" كتاب المجروحين
(13)میں امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ  نے الضعفاء الكبير
(14)میں علامہ جلال الدین سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  نے  الدر رالمنتشرة
(15)اور جامع الصفير میں علامہ قضائی رحمۃ اللہ علیہ  نے "مسند الشہاب "میں بیہقی نے "مدخل
"میں عسکری رحمۃ اللہ علیہ  اور علامہ شیخ محمدناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے ضعيف الجامع وزيادته وغیرہ
میں معمولی حک و اضافہ (6)کے ساتھ وارد کیا ہے اس حدیث کو روا یت کرنے کے بعد خود امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں۔
هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الوَجْهِ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ الْفَضْلِ الْمَخْزُومِيُّ  ضعيف في الحديث
(17)امام ابن الجوزی بھی فر ما تے ہیں کہ " حدیث صحیح نہیں (18)اس روایت کی سند میں ایک مجروح راوی "ابرا ہیم بن الفضل المخزومی المدنی "موجود ہے جس کے متعلق ابن معین رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں کہ "ضعیف ہے اس کی حدیث نہیں لکھی جاتی "ایک اور مقام پر فر ما تے ہیں کچھ بھی نہیں  ہے امام نسائی فر ما تے ہیں "متروک الحدیث ہے" علامہ ابن حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔"متروک ہے" علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں "نسائی اور آئمہ جرح و تعدیل کی ایک جماعت نے اس کو متروک بتایا ہے امام احمد اور ابو زرعہ  رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے کہ ضعیف ہے"ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں "فاحش الخطاء ہے " امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں "امام بخاری کا قول ہے کہ منکر الحدیث ہے " امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں کہ " حدیث میں قوی نہیں ضعیف الحدیث ہے" امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ   نے یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ  کا قول نقل کیا ہے کہ" اس کی حدیث کچھ بھی نہیں ہوتی ڈاکٹر عبد المعطی امین قلعہ جی  فر ما تے ہیں  کہ" اس کے متروک ہونے پر آئمہ جرح و تعدیل کا اجماع ہے حدیث کے تمام نقد نے اس کی تضعیف کی ہے مجھے ایسا کوئی فرد نظر نہیں آتا کہ جس نے اس کی تو ثیق کی ہو ۔"ابرا ہیم بن الفضل المخزومی " کے تفصیلی ترجمہ کے لیے تاریخ یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ  الطللا بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  التاریخ الکبیر للبخاری " التاریخ الصغیر البخاری المروفۃ  والتاریخ للبسوی رحمۃ اللہ علیہ  الضعفاء الکبیر العقیلی رحمۃ اللہ علیہ  الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم المجروحین لا بن حبان رحمۃ اللہ علیہ  الکامل فی الضعفاء لا بن عدی  رحمۃ اللہ علیہ  میزان الاعتدال للذہبی تہذیب التہذیب لا بن  حجر  رحمۃ اللہ علیہ تقریب  تہذیب لا بن حجر الضعفاء المتروکون للنسائی الضعفاء والمتروکون للدار قطنی  رحمۃ اللہ علیہ  اور المجموع فی الضعفاء والمترو کین للسیروان وغیرہ (19) ملا حظہ فر ما ئیں ۔
اب ذیل میں اس باب میں وارد ہو نے والی چند دیگر روا یا ت اور ان کے طرق کا علمی جائزہ پیش کیاجا تا ہے۔
اس حدیث کو قضآعی رحمۃ اللہ علیہ  نے "مسند الشہاب "میں طریق لیث عن ہشام  بن سعد عن زید بن اسلم مرفوعاً روا یت کیا ہے اس میں یہ اضافی الفاظ موجود ہیں
حيث ما وجد المومن ضالة فليجمعها اليه
عسکری  رحمۃ اللہ علیہ  کی ایک دوسری حدیث بطریق عنبۃ بن عبد الرحمٰن عن شبیب بن بشیر عن انس مرفوعاًبھی مروی ہے جو اس طرح ہے العلم ضالة المومن حيث وجده اخذهقضاعی اور عسکری کی ایک اور روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے ۔
كلمة الحكمة ضالة كل حكيم فاذا وجدها فهوا حق بها
ابن عساکر  رحمۃ اللہ علیہ  ابن لال  رحمۃ اللہ علیہ  اور دیلمی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے بطریق عبد الوھاب عن مجا ہد عن علی مرفوعاً اس طرح بھی روا یت کی ہے
ضالة المومن العلم كلما قيد حديث طلب اليه اخر
دیلمی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی "مسند" (20)میں اور عفیف الدین ابو المعالی  رحمۃ اللہ علیہ  نے" فضل العلم "(21)میں ابرا ہیم بن ھانی عن عمرو بن حکام عن بکر زیاد بن ابی حسان عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرفوع طریق سے ایک اور حدیث اس طرح روایت کی ہے ۔
 احسبوا علي الومنين ضالتهم قالوا:وما ضالة المومنين؟قال:العلم"
اس باب میں دیلمی رحمۃ اللہ علیہ  کی ایک اور حدیث جو حضرت ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے اس طرح ہے ۔
نعم الفائدة الكلمة من الحكمة يسمعها الرجل فيهد يها  لاخيه
دیلمی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس باب میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی ایک حدیث روا یت کی جو اس طرح ہے ۔
خذالحكمة ولا يضرك من اي وعاء خرجت
ان تمام روا یا ت میں قضاعی رحمۃ اللہ علیہ  کی زید بن اسلم والی مرفوع حدیث کے متعلق علامہ سخاوی اور علامہ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں کہ یہ روا یت مرسل ہے (22)لیکن اس میں صرف راوی "زید بن اسلم" (جو کثرت سے ارسال کرتے ہیں ) (23)کی مو جودگی ہی اکیلی علت نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ دو مزید مجروح راوی بھی اس کی سند میں موجود ہیں یعنی لیث بن ابی سلیم الکونی اور ہشام بن سعد "لیث بن ابی سلیم الکونی "جن سے صحاح اور سنن وغیرہ میں مرویات موجود ہیں کی نسبت امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تےہیں کہ "ضعیف ہے " امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے کہ صدوق تھے مگر آخر عمر میں اختلاط کرنے لگے تھے اور اپنی احادیث میں تمیز کرنے کی صلاحیت کھوبیٹھے تھے "امام احمد " فر ما تے ہیں ۔"مضطرب الحدیث تھے لیکن لو گ ان سے روا یت کرتے ہیں ۔"امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں ۔"یحییٰ اور نسائی نے اسے ضعیف کہا ہے لیکن ابن معین رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے کہ اس میں کو ئی حرج نہیں ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  بیان کرتے ہیں کہ "آخر عمر میں اختلاط کرتےتھے "امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں کہ "ابن عینیۃ لیث بن ابی سلیم کی تضعیف کیا کرتے تھے ۔۔۔یحییٰ بن سعید القطان لیث سے کو ئی روا یت بیان نہیں کرتے تھے ۔"لیث بن ابی سلیم کے تفصیلی ترجمہ کے لیے ملا حظہ فرمائیں "الضعفاء والمتروکون للنسائی "تاریخ یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ  التاریخ الکبیر للبخاری رحمۃ اللہ علیہ  الضعفاء الکبیر للعقیلی الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم  رحمۃ اللہ علیہ  المجروحین لا بن حبان رحمۃ اللہ علیہ  الکامل فی الضعفاء لا بن عدی میزان الاعتدال للذہبی تہذیب التہذیب لا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ  تقریب التہذیب لابن حجر اور المجموع فی الضعفاء و المتروکین للسیر وان وغیرہ (24)اس طریق کا دوسرا مجروح راوی "ہشام بن سعد ابو عباد المدنی " ہے جس کی نسبت امام نسائی  رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں ۔"ضعیف تھے "امام نسائی  رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک اور قول ہے کہ قوی نہ تھے ابن حجر عسقلانی فر ما تے ہیں :"صدوق ہے لیکن اس کو وہم رہتا ہے اس پر تشیع کا الزام بھی ہے "امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں "امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے کہ حافظ حدیث نہ تھے یحییٰ القطان  رحمۃ اللہ علیہ  ان سے کو ئی روا یت بیان نہیں کرتے تھے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک قول یہ بھی ہے کہ "وہ محکم الحدیث نہ تھے ابن معین رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں کہ "نہ قوی تھے اور نہ متروک "ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے کہ ضعف کے باوجود ان کی حدیث لکھی جا تی ہے "ہشام بن سعد "کے تفصیلی ترجمہ کے لیے الضعفاء والمتروکون للنسائی  رحمۃ اللہ علیہ  الضعفاء الکبیر للعقیلی  التاریخ الکبیر للبخاری الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم المجروحین لا بن حبان الکامل فی الضعفاء لا بن عدی میزان الاعتدال للذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  تقریب التہذیب لا بن حجر اور المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان وغیرہ (25)ملاحظہ فرمائیں ۔عسکری  رحمۃ اللہ علیہ  کے ثانی الذکر طریق میں ایک مجروح راوی "عنبسۃ بن عبد الرحمٰن" ہے جسے امام نسائی اور امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  نے" متروک الحدیث "بتا یا ہے ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کو "وضع حدیث" کے لیے متہم کیا ہے امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے "ترک"کیا ہے علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں "امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  امام بخاری سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ذاھب الحدیث تھا " امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں یحییٰ  رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے کہ وہ ضعیف تھا عنبسۃ بن عبد الرحمٰن کے تفصیلی ترجمہ کے لیے تاریخ یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ  التاریخ الکبیر للبخاری التاریخ الصغیر للبخاری  رحمۃ اللہ علیہ  الضعفاء و المتروکون للنسائی الضعفاء والمتروکون للدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  المعرفۃ والتاریخ للبسوی  رحمۃ اللہ علیہ  الضعفاءالکبیر للعقیلی رحمۃ اللہ علیہ  المجروحین لابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم  رحمۃ اللہ علیہ  کا مل فی الضعفاء لا بن عدی  رحمۃ اللہ علیہ  میزان الاعتدال للذہبی الجمموع الضعفاء والمتروکین للسیروان تہذیب التہذیب لا بن حجر اور تقریب التہذیب لا بن حجر وغیرہ (26)مطا لعہ فر ما ئیں۔اب دیلمی رحمۃ اللہ علیہ  کی احادیث پر ناقدانہ بحث پیش کی جاتی ہے ۔دیلمی رحمۃ اللہ علیہ  کی اول الذکر (یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی مرفوع ) حدیث کی سند میں عبد الوھاب حضرت مجاہد بن جبر یعنی اپنے والد سے روا یت کرتا ہے حالانکہ اس کا حضرت مجا ہد سے سماع نہیں ہے امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  اور وکیع وغیرہ نے اس امرکی تصریح کی ہے امام نسائی اس کی نسبت فر ما تے ہیں "متروک الحدیث ہے" امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں "یحییٰ کا قول ہے کہ اس کی حدیث نہیں لکھی جا تی عثمان بن سعید یحییٰ کا قول نقل کرتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  بھی فرماتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں ضعیف الحدیث ہے ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں کہ "جو کچھ وہ روا یت کرتا ہے عموماً اس کی متابعت نہیں ہوا کرتی عبد الوھاب بن مجاہد بن جبر کے تفصیلی ترجمہ کے لیے ملا حظہ فر ما ئیں الضعفاء الکبیر للبخاری  رحمۃ اللہ علیہ  الضعفاء والمتروکون للنسائی الکامل فی الضعفاء لا بن عدی  رحمۃ اللہ علیہ  الضعفاء و المتروکون للدارقطنی میزان الاعتدال للذہبی تہذیب لا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ  اور المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان وغیرہ(27)حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی اس مرفوع حدیث کی تخریج ابن عساکر  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی کی ہے جس کے متعلق علامہ سید ابو الوزیر احمد حسن محدث دہلوی (م1338ھ)فر ما تے ہیں اس باب میں ابن عساکر نے بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے باسناد حسن روا یت کی ہے ۔(28)اور علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری فرماتے ہیں اور ابن عساکر نے بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس کی تخریج کی ہے جیسا کہ الجامع الصغیر میں مذکورہے" علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں کہ " حدیث باسناد حسن مروی ہے (29)حا لا نکہ یہ حدیث سنداً  "ضعیف "ہے جیسا کہ اوپر واضح کیا جا چکا ہے غالباًصاحبان تنقیح الرواۃ و تحفۃ الاحوذی رحمہم اللہ کو علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ  کے قول سے وہم ہوا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے طریق سے وارد ہو نے والی اس حدیث کو علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے "ضعیف الجامع الصگیر و زیادتہ "میں وارد کیا ہے دیلمی رحمۃ اللہ علیہ  اور عفیف الدین ابو المعالی رحمۃ اللہ علیہ  کی روا یت کردہ حدیث "ضعیف " نہیں بلکہ اصلاً "موضوع " ہے اس روا یت کو امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی "جامع " اور "ذیل والاحادیث الموضوعۃ "(30)ابن النجار نے اپنی "تاریخ "میں اور علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی نے "سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ " (31)میں وارد کیا ہے اس کی سند میں ابرا ہیم بن ھانی "مجہول " راوی ہے اور اگلے تین راوی (جو درج ذیل ہیں ) انتہائی مجروح بلکہ "متروک " ہیں (1)"زیاد بن ابی حسان البصری " جس کی نسبت امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ  اور نقاش  رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے کہ " وہ حضرت انس  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ سے موضوع احادیث بیان کرتا ہے "امام ذہبی فر ما تے ہیں شعبۃ نے اس پر شدید جرح کی اور اس کی تکذیب کی ہے دار قطنی نے اسے متروک قرار دیا ہے ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے کہا کہ " اس کے ساتھ کو ئی حجت نہیں ہے "ابن ابی حسان کے تفصیلی ترجمہ کے لیے التاریخ الکبیر للبخاری التاریخ الصغر للبخاری الضعفاء والمتروکون للدارقطنی الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم المجروحین لا بن حبان رحمۃ اللہ علیه  الکامل فی الضعفاء لا بن عدی رحمۃ اللہ علیه  میزان الاعتدال للذہبی لسان المیزان لا بن حجر رحمۃ اللہ علیه  اورا لمجموع فی الضعفاء والمتروکین (32)وغیرہ کا کہ مطالعہ فر ما ئیں ۔

(2)اس سند کا دوسرا مجروح راوی "بکر بن خنیس القاضی " ہے جس کو امام نسائی نے ضعیف " گروانا ہے دار قطنی  رحمۃ اللہ علیہ  نے "متروک" قرارد یا ہے ابن حبان فرماتے ہیں "اہل بصرہ اور اہل کوفہ سے اشیائے موضوعہ روا یت کرتا ہے امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں "ابن معین  رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک قول ہے کہ کہ کچھ بھی نہیں ہے دوسرا قول ہے کہ کہ ضعیف ہے اور تیسرا قول ہے کہ اس میں کو ئی حرج نہیں ہے "ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے کہ صالح ہے لیکن قوی نہیں ہے ابن خنیس القاضی کے تفصیلی ترجمہ کے لیے تاریخ بن معین التاریخ الکبیر للبخاری  رحمۃ اللہ علیہ  المعرفہ والتاریخ للبسوی والضعفاء الکبیر للعقیلی الجرح والتعدیل لا بن حاتم المجروحین لا بن حبان رحمۃ اللہ علیہ  الکامل فی الضعفاء لا بن عدی الضعفاء والمتروکون للدار قطنی الضعفاء والمتروکون للنسائی میزان الاعتدال للذہبی المغنی فی الضعفاء للذہبی اور مجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان وغیرہ کی طرف (33) رجوع فرمائیں
(3)اس سند کا تیسرا مجروح راوی "عمرو بن حکا م " ہے لیکن مذکورہ با لا دونوں راوی ہی اصلاً اس روا یت کی آفت ہیں عمرو بن حکام کو امام نسائی نے "متروک الحادیث" کہا اور امام بخاری نے اس کی تضعیف "کی ہے امام احمد نے بھی اس کی حدیث کو "ترک" کیا ہے ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ  بیان کرتے ہیں کہ عموماًوہ جو کچھ روا یت کرتا ہے اس میں متابعت نہیں ہو تی لیکن باوجو د ضعف کے اس کی حدیث لکھی جا تی ہے امام ذہبی نے "میزان "میں اس سے مروی چند منکر روا یا ت بطور نمونہ نقل  فرمائی ہیں عمرو بن حکام کے تفصیلی ترجمہ کے لیے التاریخ الکبیر للبخاری الضعفاء الکبیر للعقیلی  رحمۃ اللہ علیہ  الجراح والتعدیل لا بن ابی حاتم  رحمۃ اللہ علیہ  المجروحین لابن حبان الکامل فی الضعفاء لا بن عدی رحمۃ اللہ علیہ  الضعفاء والمتروکون للنسائی الضعفاء الصغیر للبخاری میزان العتدال للذہبی اور المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان (34)وغیرہ ملا حظہ فر ما ئیں ۔علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ  اس حدیث پر تعقب فر ما تے ہوئے لکھتے ہیں "اس کی سند میں ابرا ہیم بن ھانی ہے جسے امام ذہبی نے "الضعفاء " میں وارد کیا ہے اور کہا ہے کہ مجہول ہے اور باطل روایات ہے یہ ایک دوسرے راوی عمرو بن حکام سے روایت کرتا ہے جسے امام احمد اور نسائی نے متروک کیا ہے اور عمرو بن حکام بکر بن حکام خنیس سے روا یت کرتا ہے جسے دار قطنی نے متروک بتایا ہے اور وہ زیادبن حسان سے روا یت کرتا ہے اور اسے بھی ترک کیا گیا ہے ۔
تعجب تو علامہ جلا ل الدین السیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  پر ہو تا ہے کہ جنہوں نے دیلمی رحمۃ اللہ علیہ  کی اس حدیث کو اس کی سند کی تحقیق کے بغیر نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے اپنی "الجامع" میں وارد کیا ہے اور پھر طرف تماشہ یہ کہ اسی روایت کو اپنی"ذیل الاحادیث الموضوعہ"میں بھی لکھ ڈا لا ہے۔دیلمی  رحمۃ اللہ علیہ  کی آخری دونوں روایتیں چونکہ بلا سند مروی ہیں لہٰذا ازروئےاصول حدیث کے معیار کی تحقیق ممکن نہیں ہے۔ البتہ حضرت عبد اللہ بن عمر رحمۃ اللہ علیہ  والی آخری حدیث کے مشابہ ایک قول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے جیسا کہ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ  اور علامہ عجلونی  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے بصراحت بیان کیا ہے۔(35)پس ثابت ہوا کہ یہ حدیث رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہر گز ثا بت نہیں ہو ئی اس کے جملہ طرق انتہائی "ضعیف " اور قطعاً غیر معتبر ہیں ۔البتہ ایسا ممکن ہے کہ علم و حکمت کے حصول کی طرف رغبت دلانے کے لیے یہ حکیمانہ قول ہمارے اسلاف و حکماء میں سے بعض کا ہو ۔علامہ سخاوی  رحمۃ اللہ علیہ  اور علامہ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس سلسلہ میں اسلاف رحمہم اللہ کے کچھ اقوال بھی نقل کئے ہیں جو راقم کی اس رائے کے لیے شاہد و مؤید ہیں ۔ان میں سے کچھ اقوال اس طرح ہیں : عسکری رحمۃ اللہ علیہ  نے سلیمان بن معاذ عن عکرمہ عن ابن عباس کے طریق سے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا یہ قول روایت کیا ہے :
خذوا الحكمة ممن سمعتموها فانه قد يقول الحكمة غير الحكيم وتكون الرمية من غير رام
"بیہقی نے" المدخل "میں یہی قول عکرمۃ کی جا نب منسوب کرتے ہو ئے بطریق ابو نعیم حدثنا الحسن بن صالح عن عکرمۃ روایت کی ہے ۔
«خذ الحكمة ممن سمعت؛ فإن الرجل يتكلم بالحكمة وليس بحكيم فيكون كالرمية خرجت من غير رام
بیہقی نے  سعید بن ابی بردۃ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے۔
الحكمة ضالة المومن من ياخذها حيث وجدها
اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  عبد العزیز بن ابی رواد کے حوالہ سے عبد اللہ بن عبید بن عمیر کا یہ قول بھی نقل فر ما تے ہیں ۔
العلم ضالة المومن من يغدو في طلبها  فان اصاب منها شئيا حواه حتي يضم اليه غيره
"خود عسکری کا قول ہے اراد صلي الله عليه وسلم ان الحكيم يطلب الحكمة ابدا وينشد ها فهو بمنزلة المضل ناقته يطلبها وغیرہ(36)
علامہ ملا علی القاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ   نے بھی اپنی الاسرار المرفوعة في الاخبار الموضوعة المعروف بالموضوعة الكبري
میں اس حدیث کو وارد کرنے کے بعد ارشاد فر ما یا ہےکہ"یہ بعض سلف کا کلام ہے "(37)
اگرچہ اسلام رحہم اللہ کے مندرجہ بالا اقوال میں سے بھی اکثر سنداً معیار صحت پر بہت زیادہ پختہ اور قوی ثابت نہیں ہوتے۔لیکن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی جانب کسی غیر مستند قول یا فعل کو منسوب کیا جانا بدرجہا مہلک ہے۔بہ نسبت اس بات کے کہ سلف صالحین سے آنے والی کوئی غیر قوی خبر بیان کردی جائے لیکن اسے شرعی دلیل کے طور پر نہ اپنایا جائے۔واللہ اعلم
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين. والصلاة والسلام علي رسول الكريم
حوالہ جات۔
1۔ماہنامہ تہذیب الاخلاق علی گڑھ ج7،عدد5،بمطابق ماہ مئی 1988ء ص29۔
2۔سہہ ماہی مجلہ جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ عدد نمبر 11 بمطابق ماہ جمادی الاخریٰ تا رمضان 1406ھ ص42۔وعدد 13 بمطابق ماہ ذوالحجہ ھ تا محرم 1407۔ص38۔26۔
3۔ماہنامہ محدث لاہور ج18 عدد 10،بمطابق جون 1988۔ص41۔60۔
4۔جامع الترمذیؒ مع تحفۃ الاحوذی ج3 ص382۔طبع دہلی ملتان
5۔سنن ابن ماجہ ص317 حدیث نمبر۔4169۔
6۔مشکواۃ المصابیح مع تنقیح الرواۃ:ج1،ص49۔طبع لاہور
7۔المقاصد الحسنۃ للسخاوی ؒ ص 192۔191۔
8۔العلل المتناھیہ لابن الجوزی ؒج1 ص88۔
9۔الاسرار المرفوعۃ لقاریؒ ص186۔
10۔کشف الخفاء للعجلونی ج1،ص435۔
11۔اسنی المطالب للحوتؒ ص133۔
12۔تمیز الطیب الشیبانیؒ ص138۔
13۔المجروحین لابن حبانؒ ج1ص105۔
14۔الضعفاء الکبیر للعقیلی ؒ ج1،ص61۔
15۔الدررالمنتشر للسیوطی ص194۔
16۔خطیب تبریزیؒ نے"مشکواۃ" میں ترمذی"اور ابن ماجہ والی حضرت ابوہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں "المومن" کے بجائے "الحکیم" لکھا ہے حالانکہ ترمذی ؒ میں المومن ک الفاظ مروی ہیں،(مشکواۃ مع تنقیح الرواۃ ج 1ص 149۔علامہ سخاویۃ نے ترمذی کی ر وایت کے الفاظ اس طرح نقل کیے ہیں:الحكمة الحكيمة الخ(المقاصد الحسنۃ ص192)حالانکہ اصل عبارت میں لفظ:الحکمیۃ" کے بجائے "الحکمۃ" موجود ہے(جامع ترمذیؒ مع تحفۃ :ج3 ص382۔
17۔جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی :ج3،ص382۔383۔
18۔العلل المتناھیۃ لابن الجوزی ج1 ص88۔
19۔تاریخ بن یحییٰ بن معینؒ ج3 ص ،161،العلل لابن حنبلؒ ج1 ص403۔التاریخ الکبیر للبخاری ج1ص 311۔التاریخ الصغیر للبخاری المروفۃ  والتاریخ للبسوی رحمۃ اللہ علیہ ج 3 ص44  الضعفاء الکبیر العقیلی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص60۔  الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم  ج 1 ص 133۔المجروحین لا بن حبان رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص104  الکامل فی الضعفاء لا بن عدی  رحمۃ اللہ علیہ   ج 1 ترجمہ ۔231۔میزان الاعتدال للذہبی  ج 1 ص 52۔تہذیب التہذیب لا بن  حجر  رحمۃ اللہ علیہ  ج 1 ص 151۔تقریب  تہذیب لا بن حجر ج 1 ص 41۔ الضعفاء المتروکون للنسائی  ترجمہ 4۔الضعفاء والمتروکون للدار قطنی  رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ۔1  اور المجموع فی الضعفاء والمترو کین للسیروان  ص 42۔
20۔مسند ویلمی ج1ص 20۔
21۔فضل العلم لابی المعالیؒ ج1 ص 114۔
22۔المقاصد الحسنۃ لسخاویؒ ص92۔وکشف الخفاء للعجلونی ج1 ص435۔
23۔کذا فی التقریب تہذیب لابن حجرؒ ج1 ص272۔
24۔الضعفاء والمتروکون للنسائیؒ ترجمہ 511۔تاریخ یحییٰ بن معین ؒ ج2 ص501۔التاریخ الکبیر للبخاری ۔الضعفاء الکبیر للعقیلی  ج 4 ص 14۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم  رحمۃ اللہ علیہ ج3 ص 177۔  المجروحین لا بن حبان رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص231۔  الکامل فی الضعفاء لا بن عدی ج 6 ترجمہ۔2105۔ میزان الاعتدال للذہبی  ج 3 ص 420۔تہذیب التہذیب لا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ ج8 ص465۔  تقریب التہذیب لابن حجر ج2 ص 138 اور المجموع فی الضعفاء و المتروکین للسیر وان ص 199۔
25۔ الضعفاء والمتروکون للنسائی  رحمۃ اللہ علیہ  ترجمہ ۔611۔  الضعفاء الکبیر للعقیلی   ج4 ص 341۔التاریخ الکبیر للبخاری ج3 ص 200۔ الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم  ج9 ص61۔المجروحین لا بن حبان ج3 ص89۔ الکامل فی الضعفاء لا بن عدی  ج 7 ص 2566۔میزان الاعتدال للذہبی  رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص298۔  تقریب التہذیب لا بن حجر ج 2 ص 318۔ اور المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان ص 234۔
26۔ تاریخ یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ  ج 4 ص 414۔التاریخ الکبیر للبخاری ج4 ص 39۔ التاریخ الصغیر للبخاری  رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص263۔ الضعفاء و المتروکون للنسائی الضعفاء والمتروکون للدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  ترجمہ ۔421۔ المعرفۃ والتاریخ للبسوی  رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 448۔  الضعفاءالکبیر للعقیلی رحمۃ اللہ علیہ ج3ص 327  المجروحین لابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ج 2 ص 178۔  الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم  رحمۃ اللہ علیہ ج3 ص 403۔  کا مل فی الضعفاء لا بن عدی  رحمۃ اللہ علیہ   ج ص 5 ترجمہ ۔1900میزان الاعتدال للذہبی ج3 ص301۔ الجمموع الضعفاء والمتروکین للسیروان  ص 169۔تہذیب التہذیب لا بن حجر ج 8 ص 161۔اور تقریب التہذیب لا بن حجر ج2 ص88۔
27۔ الضعفاء الکبیر للبخاری  رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ۔234۔  الضعفاء والمتروکون للنسائی  ترجمہ 375۔الکامل فی الضعفاء لا بن عدی  رحمۃ اللہ علیہ ج5 ترجمہ۔1932۔  الضعفاء و المتروکون للدارقطنی ترجمہ۔345۔ میزان الاعتدال للذہبی  ج 2 ص 682۔تہذیب لا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ   ج 6 ص 453۔اور المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان ص153۔
28۔تنقیح الرواۃ ج1 ص 49۔
29۔تحفۃ الاحوزی ج3 ص383۔
30۔ذیل الاحادیث الموضوعۃ للسیوطیؒ ص42۔
31۔سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للبانی ج2 ص224۔225۔
32۔ التاریخ الکبیر للبخاری ج2 ص 350۔ التاریخ الصغیرللبخاری  ج 2 ص 108۔الضعفاء والمتروکون للدارقطنی ترجمہ۔235۔ الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم  ج 1 ص 530۔المجروحین لا بن حبان رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 305۔  الکامل فی الضعفاء لا بن عدی رحمۃ اللہ علیہ   ج 3 ترجمہ 1051۔میزان الاعتدال للذہبی  ج2 ص 88۔لسان المیزان لا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ   ج 2 ص 294۔اورا لمجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان ص314۔437۔
33۔تاریخ بن معین ج3 ص 280۔ التاریخ الکبیر للبخاری  رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص89۔  المعرفہ والتاریخ للبسوی  ج 3 ص 35۔والضعفاء الکبیر للعقیلی  ج 1 ص 148۔الجرح والتعدیل لا بن حاتم  ج 1 ص 384۔المجروحین لا بن حبان رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 195۔  الکامل فی الضعفاء لا بن عدی ج2 ترجمہ458۔ الضعفاء والمتروکون للدار قطنی ترجمہ ۔128۔ الضعفاء والمتروکون للنسائی   ترجمہ ۔84۔میزان الاعتدال للذہبی  ج 1 ص 344۔المغنی فی الضعفاء للذہبی ج1ص 113۔ اور مجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان ص66۔290۔
34۔ التاریخ الکبیر للبخاری  ج 3ص 324۔الضعفاء الکبیر للعقیلی  رحمۃ اللہ علیہ   ج 3 ص 266۔الجراح والتعدیل لا بن ابی حاتم  رحمۃ اللہ علیہ  ج3ص 227۔ المجروحین لابن حبان  ج 2 ص 280۔الکامل فی الضعفاء لا بن عدی رحمۃ اللہ علیہ ج5 ترجمہ 1786۔  الضعفاء والمتروکون للنسائی  ترجمہ ۔448۔الضعفاء الصغیر للبخاری ترجمہ 258۔ میزان العتدال للذہبی ج 3 ص 354۔ اور المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان ص۔175۔465۔
35۔المقاصد الحنسۃ للسخاویؒ ص193،وکشف الخفاء للعجلونی ؒ ج1 ص 436۔
36۔ایضاً۔
37۔الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ لقاریؒ ص 186۔