چیچنیا (شیشان)کا جہاد آزادی

روس نے اپنی روایتی مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہو ئے افغانستا ن کی تبا ہی اور بو سنیا میں شر مناک کر دارادا کرنے کے بعد بلآخر آزادی کا اعلان کرنے والی مسلمان ریاست جمہور یہ چیچنیا جسے مقامی زبان میں " چیچنیا " کہتے ہیں پر فوجی چڑھائی کر کے مسلح جارحیت کا ارتکاب کیا ہے اس سے قبل وہ سابقہ سوویت یو نین سے آزاد ہو نے والی دیگر مسلم ریاستوں خصوصاً تاجکستان میں حتی المقدور فوجی مداخلت کرتا رہا ہے رشین فیڈریشن کی دیگر ریاستوں کے سامنے بے بس ہو کر اس نے انتقامی کا روا ئی کے لیے چیچنیا کا نتخاب کیا اور انسانی حقوق اور حق خود ارادیت کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کو پامال کرتے ہو ئے "آئین کی بحالی " کے نام پر اس نومو د ریاست پر آتش و آہن کی بارش کر دی ہوائی اڈے اور طیاروں کو تباہ کرنے کے علاوہ شہری آبادیوں پر بے دریغ بمباری کر کے بھاری جا نی اور مالی نقصان پہنچا یا گیا روسی افواج جس طرح قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے ہو ئے چیچنیا میں داخل ہو ئی ہیں وہ ظلم و بربریت کی بد تر ین مثال ہے وہ اپنی کا روا ئی جلد از جلد مکمل کرنا چا ہتی ہیں تا کہ عالمی ضمیر جا گنے سے پہلے یہاں روس کا قبضہ ہو جا ئے عالمی سطح پر جو ابتدائی رد عمل سامنے آیا اس سے دو ہرے معیار اور دو غلی پالیسیوں کا اظہار ہو تا ہے یو رپ کے بعض ممالک امریکی نائب صدر الگور اور ان کے ایک ترجمان نے اسے رو س کا اندرونی معا ملہ قرار دے کر مطلوبہ مقاصد کم سے کم وقت میں حاصل کرنے کا عند یہ دیا ہے خود اسلامی ممالک کے مجبور و بے بس سر براہوں نے کا سا بلا نکا نفرس میں اس معاملہ پر خاموشی اختیار کر کے بے حسی کا ثبوت دیا ہے اس مظلوم ریاست کے باشندوں کی خصوصی فر یاد صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے تا کہ وہ اپنی رحمت سے ان کے لیے حامی و ناصر اور مدد گا ر مہیا کرے اور انہیں ظالموں کے شکنجہ سے نجا ت دلائے ۔فوجی حملہ کا حکم دینے کے بعد روسی صدر بورس یلسن ناک کے اپریشن کے لیے ہسپتال میں داخل ہو گئے تا کہ وہ ہو نے والی قتل و غارت گری سے اپنی لا علمی کا بہانہ کر سکیں اس سے قبل وہ چیچنیا کے صدر جعفر ادادا یوف کا تختہ اُلٹنے کی سازشیں پروان چڑھاتے رہے جو کامیاب نہ ہو سکیں ۔ پچا س سالہ صدر جعفر دادا یوف سابقہ پائلٹ ہیں جو ماسکو کی پو ری گا گرین ائیر فورس اکیڈمی میں زیر تر بیت رہے اور بعد میں روسی مسلح افواج میں جنرل کے عہدہ تک پہنچے وہ ماضی میں کرائے کے چیمپین رہے ہیں ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جس پامردی اور استقلال سے انہوں نے روسی جارحیت کا مقابلہ کیا اپنی مثا ل آپ ہے ان پر متعدد قاتلانہ حملے ہو ئے مسلح بغاوت ناکام کو ششیں ہو ئیں روس کے ایماء پر عمر اتر خانوف کی قیادت میں ان کا تختہ اُلٹنے کی سازش ہوئی آخر کار تمام اخلاقی حدود و قیود کو بالائے طاق رکھ کرروسی قیامت نے اس چھوٹی سے ریاست کو ہر قیمت پر فوجی قوت کے ذریعہ کچلنے کا فیصلہ کر لیا حملہ کے بعد دار الحکومت گروزنی کے باشندوں کے شہر چھوڑنے اور عالمی نشر یاتی اداروں کے نما ئندوں کو وہاں سے نکل جا نے کا حکم دے دیا چیچنیا کے مسلمانوں کو عظیم گوریلا لیڈر امام شامل رحمۃ اللہ علیہ کی زیر سر گردگی جہاد کرنے کا شرف حاصل رہا ہے کا کیشیا کا یہ خط زارروس نے 1859ء میں روس میں شامل کیا تھا اس کے حصول کے لیے روسیوں کو ڈیڑھ سو سال تک جنگ لڑنا پڑی 1943ءمیں جنگ عظیم دوم کے دورا ن جب جرمن فوجیں یہاں کے دار الخلافہ گروزنی کے قریب پہنچیں تو وہاں کے باشندوں نے روسی ڈکٹیڑسٹالن کے خلا ف بغاوی کر دی اس طرح جرمن افواج نے چیچنیا کے مغربی حصہ پر قبضہ کر لیا 1991ءمیں علیحدگی کے اعلان کے ایک سال بعد اس ریاست کا ایک حصہ انگشتیا کے نام سے روسی فیڈریشن میں شامل ہو گیا لیکن چیچنیا کی حکومت اور عوام نے آزادی کا علم سر بلند رکھا خودروسی را ئے عامہ چیچنیا پر فوجی حملہ کے خلا ف گہرے جذبات رکھتی ہے ایک روسی جر نیل نے گروزنی شہر پر بمباری سے انکار کرتے ہوئے
سول آبادیوں پر فوجی یلغار کو غیر آئینی قرار دیا جبکہ روسی افواج کے اول نائب کمانڈر انچیف جنرل ایڈورڈربوف نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا مزید چھ اعلیٰ افسران کو احکا مات کی خلا ف ورزی پر برطرف کر دیا گیا صدر یلسن نے چیچنیا کے عوام کو پیش کش کی کہ اگر وہ آزادی کا مطالبہ ترک کر کے ہتھیا ر ڈال دیں تو انہیں معاف کر کے شہری آزادیاں بحال کر دی جا ئیں گی اور انہیں آئینی حقوق دے کر فیصلہ عوام کے حق خود ارادیت کے مطا بق کیا جائے گا ۔اس طرح انہوں نے آزادی کے سوال پر استصواب را ئے یا ریفرنڈم کے امکا ن کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اس اعلان کے ساتھ ساتھ روس نے شہری آبادیوں پر کلسڑبمبوں اور دیگر مہلک ہتھیاروں کے ذریعہ حملے جاری رکھے ادھرروسی پارلیمنٹ نے ایک قرار داد منظور کر لی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ شیشان کے خلا ف فوجی آپریشن بند کیا جا ئے ارکان پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس قرار داد کی نقول لے کر خود فوجی کمانڈروں کے پاس جائیں گے وسط ایشیاء کی دیگر مسلمان ریاستیں اس جارحیت پر زیادہ عرصہ خاموش نہیں رہیں گی اور مستقبل میں روس کو رد عمل کے طور پر بھاری قیمت ادا کرنا ہو گی ایک ایسی تہذیب کو جس کی تعمیر میں چورہ صدیاں صرف ہو ئی ہوں طاقت کے ذریعہ نہیں مٹایا جا سلکتا چیچنیا کے مذہبی اور ثقافتی رشتے صرف وسط ایشیاء سے نہیں بلکہ پورے عالم اسلام سے ہیں دنیا کے کروڑوں مسلمان اس کی آزادی اور سلامتی کے لیے دعا گو ہیں پاکستان کی جانب سے حمایت پر وہاں کے مفتی اعظم ابراہیم بن اوہم نے شکریہ ادا کیا ہے چیچنیا کے صدر جعفر ادادا یوف نے خط کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ روس کے خلا ف جہاد میں ان کا ساتھ دیں وزیر خارجہ یوسف شمس الدین نے پاکستان کی جماعت اسلامی کے امیر کو ایک خط میں تحر یر کیا کہ "روسی استعمار سوفی صد مسلم آبادی پر مشتمل ہماری ریاست کو اپنی بد تر ین دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے جہازوں اور ٹینکوں سمیت جدید ترین اسحہ سے لیں پانچ لا کھ سے زائد روسی افواج نے چیچنیا کی تمام اہم تنصیبات کو گھیر ے میں لے رکھا ہے تما م سڑکوں پر قبضہ کر کے آمدورفت کے راستے بند کر دئیے گئے ہیں ریاست کی عام آبادی نے اس ظلم کے خلا ف آواز بلند کی ہے مگر ان کے احتجاج کو بندوق کے زور پر ختم کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے ہم مذہب زبان تہذیب تمدن اور تاریخ ہر اعتبار سے روس سے الگ ریاستہیں مگر روس یہاں غاصبانہ قبضہ کرنا چاہتا ہے گذشتہ کئی صدیوں سے اہم نے بے شمار قربانیاں دے کر اپنے مذہب اسلام کو زندہ رکھا ہے ہمیں اپنی قربانیوں اور مذہب پر فخر ہے ہمیں توقع ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں پوری ملت اسلامیہ ہماری پشت پر ہو گی اور دشمن کی جارحیت کے مقابلہ میں اپنے مسلمان بھا ئیوں کو ہر ممکن مدد فرا ہم کرے گی۔"
تیل کی دولت سے مالا مال یہ ریاست ماضی میں بھی جارحیت کا شکار رہی ہے سو لہویں صدی عیدوی کے بعد سے چیچنیا اور وسط ایشیاء کی دیگر مسلم ریاستوں کو روسی فتوحات کی وجہ سے جبر کا سامنا کرنا پڑا اس کٹھن دور میں وہاں کے باشندوں نے تصوف کا سہارا لے کر اپنا جہاد جاری رکھا زار روس کے زمانے میں مسلمان ریاستوں میں زبر دست قتل و غارت گری کی گئی بہت سے مسلمانوں کو وہاں سے ہجرت پر مجبور کر دیا گیا جنہوں نے خلا فت عثمانیہ میں پنا ہ لی باقی ماندہ آبادی کو عیسا ئی بنا نے کی مذموم کو ششیں جا ری رہیں ۔انقلاب روس کے بعد سر کاری طور پر تمام شہریوں کو برابر قرار دیتے ہو ئے مذہبی اقدار کو ختم کر دیا گیا دیگر ریاستوں کے مقابلہ میں روس کو بڑا بھا ئی تسلیم کر کے اسے ثقافت کا معیار بنا کر پیش کیا گیا علا قائی قومیتوں کو پروان چڑھایا گیا مذہب کو برائیویٹ معاملہ قرار دیا گیا سب سے بڑا ادارہ کمیونسٹ پارٹی تھی جسے قومیوں پر بھی بالا دستی حاصل تھی مسلمانوں کی نسل کشی کے علاوہ انہیں روسی کلچر میں ضم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کئے گئے بطور ملت ان کا تشخص ختم کرنے کے لیے ستالن نے 1924ء میں وسط ایشیاء کو قومی اور لسانی بنیادوں پر نئی انتظامی حیثیت دیتے ہو ئے اسے ازبک ،تر کمان ،تا جک ،کرغیز ،قزاق اور کراکل پاک کے نام سے چھ ریاستوں میں تقسیم کر دیا ہے مذہب اسلام کو نا بود کرنے کے لیے سوویت یو نین میں سب سے بڑی مہم کا آغاز 1928ء میں ہوا اس سے قبل عیسائیت کی بیخ کنی شروع ہو چکی تھی بالشو یک دانشوروں کا موقف یہ تھا کہ مسلمانوں اور دیگر استحصالی دور کی یادگار کی صورت میں پائے جا نے والے اوہام جو انہیں تعمیری کا موں سے رو کتے ہیں کو یکسر ختم کر دیا جا ئے ان کے نزدیک مذہب عوام کے لیے افیون کی حیثیت رکھتا تھا جو انہیں استحصالی طبقوں کے خلا ف صف آراء ہو نے سے رو کتا تھا ان کا کہنا تھا کہ مذہب ایک مسحور کن اغلاط سے پُر غیر سائنسی شے ہے جو انسانوں کو جنت کے نام پر کسی اور دنیا کے خواب دکھا تا ہے جبکہ کمیونزم خود دنیا کو جنت بنا نے کا داعی ہے اس فلسفہ میں مذہب کے لیے کو ئی گنجائش نہیں یہ پارٹی کے پروگرام سے کو ئی مطابقت نہیں رکھتا لہٰذا اس کے خلا ف اعلان جنگ کرنا اور اسے شکست دینا انتہائی ضروری ہے نام نہاد دانشوروں کے اس قسم کے دلا ئل پر مبنی مضامین سرکاری رسائل "سائنس اور مذہب" اور "سائنسی الحاد کے مسائل "میں شائع کئے جا تے تھے اسلام کے خلا ف یہ الزام بھی تھا کہ یہ ایک اجنبی بدلیسی مذہب ہے جسے عرب ایرانی ترک اور دیگر حملہ آور وسط ایشیاء اور کاکیشیا تک لا ئےتھے نیز یہ کہ اسلام قدامت پرست ہے بزرگوں کا ادب سکھا کر ان کی بالادستی قائم کرتا ہے عورتوں کو ان کا جا ئز مقام نہیں دیتا ۔اپنے پیروکاروں کو بنیا د پرستی اور کٹرپن سکھا تا ہے کا فر اور مسلمان کے در میان فرق پیدا کر کے سودیت عوام کے درمیان دوستی کو نقصان پہنچاتا ہے اسلامی رسوم و رواج مثلاً بچوں کے ختنے کرانے اور رمضان کے رو زے رکھنے کو پرانی یادگار ظالمانہ فرسودہ اور صحت کے لیے مضر بتایا گیا اسلامی ثقافت اور اخلا قیات کو جمود کا شکار گردان کر اسے روسی ثقافت اور اخلا قیات کے راستہ میں رکاوٹ سے تعبیر کیا گیا مذہب دشمن پرا پگینڈہ کرنا ہر روسی کی اخلا قی ذمہ داری قرار پا یا اخبارا ت و رسائل فلم ،تھیٹر نما ئشوں عجائب گھروں ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے مذہب کو مطعون کرنے کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا ۔مسلم اوقاف پر زبردستی قبضہ کا سلسلہ 1930ء میں مکمل کر لیا گیا تا کہ مسلمان علماء کی معاشی قوت ختم ہو کر رہ جا ئے ۔اسلامی شریعت کو سبوتا ژکرنے کے لیے روائتی مسلم عدالتوں کا خاتمہ کر دیا گیا مرد عورت کو برابری کی بنیاد پر زندگی گزارنے کا حکم دیتے ہو ئے تعدد ازدواج سے منع کر دیا گیا مسلمان لڑکیوں کی جلدی شادی اور پردے کا رواج ختم کر دیا گیا لیکن یہ سب کچھ ختم کرنے کے باوجود روسی معاشرہ میں عورت کا استحصال جا ری رہا اور اس نے نئی شکلیں اختیار کر لیں نئے کلچر نے عوام کو سکھ پہنچانے کی بجا ئے پہلےسے زیادہ گھمبیر سائل میں اُلجھا دیا مذہب اور الحاد کی اس کھلی جنگ کو طویل بنیادوں پر لڑنے کے لیے مسلمانوں نے تین طرح کے روئیے اختیار کئے سب سے پہلا طریقہ جہاد کا تھا جسے صوفیاء کی سر کردگی میں جا ری رکھا گیا دوسرا رویہ مار کسزم اور دیگر باطل نظر یا ت کو دلا ئل کی بنیا د پر شکست دینے کا تھا تیسرے رویہ میں کفر کے ساتھ عارضی طور پر ممد تعاون پر مبنی پالیسی کے ذریعہ اپنی بقاء کو ممکن بنا یا گیا صوفیاء کا جہاد اشترا کی انقلا ب سے بھی پہلے سے جا ری تھا چیچنیا کی گوریلا جنگ بسماچی تحریک اور چیچنیا کی 1941۔42،کی بغاوت مشہور واقعات ہیں یہ جہاد زیادہ تر نقشبندی سلسلہ اور کسی حد تک قادری سلسلہ کے پیروکا روں نے لڑا مخدوش حالات میں انھوں نے اپنے وابستگان کو زیر زمین چلے جا نے اور اپنے علوم اور روا یا ت کو چھپ کر جا ری رکھنے پر زور دیا جس پر سودیت روس کے خاتمہ تک عمل ہو تا رہا قرآن کریم اور عربی زبان کی تعلیم محدود پیمانے پر جاری رہی اس طرح مسلم قومیت کا تحفظ غیر محسوس طور پر کیا گیا اسلامی نام رکھنے بچوں کے ختنے کرانے رمضان کے روزے اہتمام کے ساتھ رکھنے پر عمل ہو تا رہا عید کے تہوار بھی منائے جا تے سیکولر کہلا نے کے باوجود مسلمان کمیونٹ اسلامی شعائر عمل کرتے رہے پاکستان کے ایک معروف تاریخ دان پروفیسر احمد حسن دانی نے یہ دلچسپ واقعہ سنایا کہ سودیت یونین کے آخری ایام میں یونیسکوکے زیر اہتمام ایک تعلیمی پراجیکٹ کے سلسلہ میں وہ وسط ایشیاء کے دورے پر گئے ان کی مسلمان گائیڈ نے انہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ کھا نے کی دعوت دی اور بتا یا کہ ہم اسلامی رسوم پر عمل کرتے ہیں روزے رکھتے ہیں عید منا تے ہیں اس لحاظ سے ہم مسلمان ہیں لیکن چونکہ ہم خدا پر یقین نہیں رکھتے اس لیے ہم کمیو نسٹ ہیں یہ بیک وقت عبرتنا ک اور مضحکہ خیز صورت حال مسلم ریاستوں کی آزادی تک جاری رہی جس کےبعد وہاں کی مسلم اقوام نے اپنے اصل عقائد کی طرف رجوع کر کے ایک خدا پرست معاشرہ کی بنیا دیں رکھنا شروع کر دیں بعض مسلمان کمیونسٹوں نے سودیت حکومت میں رہتے ہو ئے اسلامی اور مار کسی تعلیمات کو ایک ساتھ پیش کرنے کا تجربہ کیا انھوں نے تجدد پسندوں کی راہ کو اپنا یا قرآن کی تشریح اپنے نظریات کی رو شنی میں کرنا چا ہتے تھے مارکسزم کی تشریح بھی انھوں نے اسی انداز میں کی اس طرح اسلامی طریق زند گی کے کچھ گوشوں کو محفوظ رکھنے کی مسا عی کی گئیں انھوں نے اسلام کو مکمل طور پر ختم کرنے کی بجا ئے اسے سیکولر بنیا دوں پر اپنا یا اور اس کی اخلا قی معاشرتی اور سیاسی اہمیت کو بر قرار رکھا اس سارے عمل میں نئے روسی کلچر کو بلا دستی حاصل رہی بعد میں اشترا کی انقلا ب دیگر ممالک تک بر آمد کرنے کی ضرورت پیش آئی تو یہ محسوس کیا گیا دیگر معاشروں میں پرو لتاری جد و جہد میں مقای علماء کو شامل کرنا بہتر ثابت ہو سکتا ہے اسطرح جزوی طور پر مذہب کا سہارا لینے کا سلسلہ شروع ہوا روسی تسلط تلے دبے ہو ئے مسلمانوں کو دنیا نے عرصہ دراز تک فرا موش کئے رکھا روسی زبان اور رسم الخط کو زبر دستی و سط ایشیاء کے مسلمانوں پر مسلط کیا گیا اور قرآنی تعلیمات اور عربی رسم الخط کے خاتمہ کی ہر مملکن کو شش ہو ئی اشتراکی انقلا ب سے کچھ پہلے جب وہاں کے مسلمانوں نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کا م کا آغاز کیا تو انھوں نے عوام کی رہنما ئی کے لیے "دنیائے اسلام" "اسلامک ریویو" "عوام کی جا نب " اور "آواز ترکی" کے نا موں سے مختلف رسائل کا اجراء کیا ترکی اور ایران کی تہذیبوں اور زبانوں نے اس خطہ کو بہت متاثر کیا ہے سودیت روس کے آخری ایا م میں ایرانی انقلاب نے اس خطہ کو بہت متاثر کیا ہے سودیت روس کے آخری ایام میں ایرانی انقلا ب کے با نی آیت اللہ خمینی نے روس کے صدر میخائل گوریا گیا تھا چوف کو ایک تفصیلی خط لکھا جس میں مار کسزم کو ترک کر کے اسلامی تہذیب و ثقافت اپنا نے پر زور دیا گیا تھا اور اسلام کو مستقبل کے واحد نجا ت دھندہ نظریہ کے طور پیش کیا گیا تھا اس جرات مندانہ اقدام سے دنیا کی تو جہ ایک نئی آئیڈیا لو جی کی طرف مبذول ہو ئی اس خط کو نوشتہ دیوار کی حیثیت حاصل ہے جس میں زوال پذیر سلطنت کے حکمرانوں کو تنبیہہ کی گئی تھی کہ وہ صرف اسلام کو بالا تر نظر یہ کے طور پر اپنا کراپنے بکھرتے ہو ئے وجود کو سلامت رکھ سکتے ہیں روس میں ایرانی انقلاب کو اس لیے کچھ پذیرائی حاصل ہو ئی کہ یہ متکبرین جہاں کے خلا ف مستضعفین کی جد و جہد کی نما ئندگی کررہا تھا البتہ ساٹھ سالہ روسی تسلط کے دوران چیچنیااور دیگر مسلم ریاستوں میں شیعہ سنی کا اختلا ف تقریباً دم توڑ چکا تھا جو ایک مثبت علا مت تھی ۔خروشیف کے بعد اقتدار سنبھالنے والے حکمرانوں نے سخت آہنی پردہ سر کا نا شروع کیا تو بیرونی دنیا سے وہاں کے مسلمانوں کے رابط پیدا ہو ئے اس نرمی کا بڑا مقصد دنیا کو سوشلزم کی برکات اور نتا ئج سے روشناس کرانا تھا روس نے یہ تاثر بھی دینے کی کو شش کی کہ چیچنیا سمیت روسی مسلمان ریاستوں میں معاشی خوشحالی کے علاوہ آزادی کا دور دورہ ہے اس طرح اسلامی دنیا کے دل میں روس کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کانفرسوں کا انعقاد شروع ہوا اور باہر سے کئی و فود منگوائے گئے روس کے مسلمان مفتیوں کو بیرونی دوروں پر بھیجا گیا ذرا ئع ابلا غ سے اس ضمن میں خصوصی پروپیگنڈا کیا گیا تاشقند کے مفتی ضیا ء الدین با با خانوف کی دعوت پر بیرونی و فود روس کے دورے پر گئے سر کا ری استقبال کے بعد انہیں دو بڑے مدرسوں میرعرب اور "امام اسمٰعیل بخاری" کی سیر کرائی گئی انہیں سمر قند اور اور باکو بھی لے جا یا گیا 1974ء میں جمعیت علماء اسلام پاکستان ینگ مسلم سو سائٹی مصر 1975ء میں صومالیہ 1976ء میں افغانستان اور 1978ءمیں ترکی پاکستانی اور اردنی علماء دورے پر آئے جبکہ وسط ایشیاء کے علماء نے مراکش شمالی یمن عراق اردن اور مصر کا دورہ کیا الازھریونیورسٹی کو خصوصی اہمیت دی گئی 1975ءمیں مکہ میں منعقد ہو نے والی مسا جد کا نفرنس میں با با خانوف کا استقبال شاہ خالد نے کیا اس سال بھارت (لکھنؤ) صومالیہ اور موریطاننیہ کے لیے و فود روانہ ہو ئے اگلے سال عیسا ئی مسلم کا نفرنس طراابلس میں اور اس کے بعد الجزائر بنگلہ دیش پاکستان (کراچی ) نائجرمالی سینگال ترکی (استنبول ) میں منعقد ہو نے والی کا نفرنسوں میں وفود بھیجے گئے ۔افغانستان میں مداخلت کے ساتھ ہی روس کا زوال شروع ہو گیا وہ چا ہتا تھا کہ افغانستان میں جلد از جلد کا میابی حاصل کر کے وسط ایشیا کے حوالہ سے اپنے وفاق کو مضبوط بنا ئے لیکن وہ جنگ میں ایسا اُلجھا کہ اس کے لیے جانبدار ہو نا ممکن نہ ہو سکا دس سالہ جنگ میں سودیت یو نین کے تو بو ت میں آخری کیل ٹھونک دی مشرقی یورپ آزاد ہو گیا دیوار بر لن ٹوٹ گئی بیسویں صدی کا عظیم معجزہ اہل اسلام کی قر بانیوں کے نتیجہ میں رو نما ہوا وسط ایشیاء کی آزادی کے بعد اسے پاکستان سے دور رکھنے کے لیے افغانستان میں طویل خانہ جنگی کو جنم دیا گیا تاجکستان کو دوبارہ سیکولر بنا نے کی کو شش ہو ئی اور آخر کار چیچنیا کے مسلمانوں کو تباہ کرنے کے منصوبہ پر عمل در آمد شروع کر دیا گیا سابقہ سودیت یونین کی فوج تقریباً 25فیصد مسلمانوں پر مشتمل تھی اب بھی روسی فوج میں مسلمان اور ان کے ہمدرد موجود ہیں اس لیے چیچنیا پر روسی حملہ اس کے لیے زیادہ مثبت نتا ئج کا حامل نہیں ہوسکتا چیچنیا اور وسط ایشیاء کی مسلم ریا ستوں کے باشندے آزادی سے قبل قومیت کی بنیا د سوچتے تھے لیکن اب ان کی سوچ قومیت پرستی سے بالا تر ہو چکی ہے اور وہ مسلم اُمہ کے عظیم دھارے میں شامل ہو نے کے لیے بے قرار ہیں لیکن خود مسلم اُمہ اضمحلال کا شکار ہے اور مختلف ٹکڑوں میں بٹی ہو ئی ہے اگرچہ اسلام جعفرافیائی حدودوقیود کا پابند نہیں ہے اور اصولی طور پر دنیا بھر میں ایک ہی اسلامی حکومت اور اس کا ایک ہی سر براہ ہو چاہئے تا کہ وہ مسلمانوں کے مسائل مجموعی طور پر حل کرنے کی پو زیشن میں ہو لیکن اغیار کی سازشوں اوراسلام دشمن قوتوں کے ایماپر ہمارے حکمرانوں نے اسلامی دنیا کو نندربانٹ کے ذریعہ تقسیم کر کے اسے غیر مؤثر کر رکھا ہے تعداد کے لحاظ سے مسلم ممالک کا گروپ اقوام متحدہ میں سب سے بڑا ہے اس کے باوجود کسی مسلمان ملک کو یا مجموعی طور پر اسلامی گروپ کو سیکورٹی کو نسل میں دینوکا حق حاصل نہیں ہے بے اختیاری کی اس کیفیت سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اجزائے اُمت آپس میں متفق ہو کر اپنی آواز بلند کریں امتیازی پابندیاں خواہ وہ کسی ایک ملک کی جانب سے ہوں یا اقوام متحدہ کی طرف سے قبول نہ کی جا ئیں عراق ایران ،لیبیا اور سوڈان کے خلا ف لگا ئی جا نے والی پابندیوں کو توڑ کر اور حقوق انسانی کی پا مالی تسلیم نہ کرکے عا لم اسلام اپنا راستہ خود بنا سکتا ہے چیچنیا کی آزادی اور بقا کا مسئلہ بھی اس اُمر کا متقاضی ہے کہ مسلمان ممالک ایکمتفقہ موقف اپنائیں اور اپنے مظلوم بھائیوں کو خبر غلا می اور ذلت کی زندگی سے نجا ت دلا نے کے لیے اپنا کردار ادا کریں آزادی کے بعد وہاں کے باشندے اسلامی تشخص کی تلا ش میں سر گرداں ہیں اگر روس انہیں دوبارہ محکوم بنا نے میں کامیاب ہو گیا تو اس کا اگلا نشانہ وسط ایشیا کی مسلمان ریاستیں ہوں گی جہاں وہ پہلے ہی "بگ باس" کی حیثیت حاصل کئے ہوئے ہے ۔
(ڈاکٹر محمود احمد فیصل)