ایک چراغ اور بجھا

إِنّا لِلَّهِ وَإِنّا إِلَيهِ ر‌ٰ‌جِعونَ


قلعہ میاں سنگھ کے مشہور اہل حدیث خاندان کے چشم وچراغ حکیم عبدالقیوم صاحب چند ماہ پہلے 23اگست 1990ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔

تعلیم:

ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد ان کے والد اپنے عبدالمالک مر حوم نے آپ کو مولانا داؤد غزنوی ؒ کے حلقہء درس میں شامل کردیا۔دینی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد،ادیب عالم کا امتیازی نمبروں میں امتحان پا س کیا۔

تربیت روح وبدن کی اعلیٰ ترین تعلیم کے وقار کو برقرار ر کھنے کے لئے طیبہ کالج لاہور میں داخل ہوگئے۔حکیم محمد حسین قریشی صاحب کو اپنے اخلاق اور ذہانت سے ایسا متاثر کیا۔کہ وہ انہیں ایک لمحہ کے لئے بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتےتھے۔ جس کے نتیجہ میں حکیم عبدالقیوم صاحب کو حصول تعلیم کے دوران ہی فن طب کے اصولوں میں مہارت حاصل ہوگئی۔اس کے بعد حکیم صاحب نے اس وقت کے مشہور نباض حکیم عبدالوہاب نابینا کی خدمت میں حاضر ہوکر نبض شناسی میں ایسی قابلیت حاصل کی کہ مریض نبض پر انگلیاں ر کھتے ہی بتادیتے۔مریض کس مرض کا شکار ہ ے۔

وطن واپسی:

آپ کے چچا اور حافظ سلیم تابانیؒ کے والد محترم مولوی عبدالوکیل مرحوم نے آپ لاہور چونہ منڈی میں مطلب کرنے کی دعوت دی۔

اللہ تعالیٰ نے ان علم کے ساتھ ان کے ہاتھوں کو نعمت شفا سے بھی نوازا۔چند دنوں میں ہی ان کا مطب زبان زدعام ہوگیا۔لیکن اپنے مشفق چچا کی وفات کے بعد ان کا دل وہاں سے ایسا اچاٹ ہوا کہ پھر وہاں نہ رہ سکے۔

حکیم محمد عبداللہ ؒ انھیں اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے اکثر کہا کرتے تھے:عبدالقیوم بہت ہی ذہین طبیب ہے۔

قیام پاکستان کے سپاہی:۔

حکیم عبدالقیوم صاحب صرف حکیم ہی نہ تھے۔عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے قیام پاکستان کی تحریک میں بھی بھر پور حصہ لیا۔

حامدناصرچٹھہ کے والد صلاح الدین چٹھہ کے ساتھ انتخابی مہم میں صبح وشام شریک رہے۔پاکستان بن گیا تو حکیم صاحب نے مہاجرین کی آباد کاری میں بہت دہیانت کے ساتھ دن رات ایک کرکے ا ن میں خوراک،کپڑے،اورلحاف وغیرہ تقسیم کئے۔

واربرٹن آخری رہائش:۔

1953ء میں واربرٹن ضلع شیخو پورہ کے قریب مچھرالہ گاؤں والوں کے اصرار پر قلعہ میاں سنگھ کو چھوڑ کر وار برٹن میں مستقل قیام کافیصلہ کرلیا۔چنانچہ تادم آخر وہیں مطب کرتے رہے۔

حج کی سعادت:

1973ء میں سعادت حج سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نوازا۔

تلاوت اورتہجد:۔

حکیم صاحب ؒ روانہ چار۔پانچ سپارے تلاوت فرماتے اور تہجد مرتے دم تک نہیں چھوڑی تھی۔

چنانچہ انتقال کے وقت تقریباً 3 بجے عصر کی نماز اشاروں سے ادا کی اور 23 اگست پونے چار بجے اس جہاں فانی سے رحلت فرماگئے۔إِنّا لِلَّهِ وَإِنّا إِلَيهِ ر‌ٰ‌جِعونَ۔

ع۔آسمان تیری لحد پرشبنم افشانی کرے۔


مرحوم کو ادب سے بھی کافی دلچپسی تھی۔حضرت مولانا زبیدی صاحب سے انھیں بہت محبت تھی۔

جب تک مولانا لندن میں رہے ان کوحکیم صاحب نے جتنے بھی خطوط لکھے اُن کی تحریروں میں ادبی رنگ زیادہ ہوتاہے۔

اس کے علاوہ بھی ان کی کئی تحریریں طبی اور ادبی رسالوں میں زینت قرطاس ممبتی رہی ہیں۔

آخری آرام گاہ:

آپ اپنے آبائی گاؤں قلعہ میاں سنگھ اپنے جد امجد حضرت مولانا غلام رسول ؒ کے پاس اور اپنے چچیرے بھائی اور مشہورصحافی وشاعر حافظ سلیم تابانی کے پہلو میں سپر دخاک کر دیئے گئے۔