علم حدیث اورعلمائے برصغیر

جمع الجوامع سے کنز العمال تک


برصغیر پاک وہند کے علماء نے علم حدیث کی خدمت میں جو کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں۔اہل علم ان سے بخوبی واقف ہیں۔اور آج تک ان علماء کی مجہودات سے مستفید ہورہے ہیں۔

زبان کی بیگانگی اوراجنبیت کے باوجود خالص،فصیح عربی زبان میں قرآن کریم،تفاسیر اور احادیث نبویہ کی ایسی شروح وحواشی ترتیب دیئے کہ وہ اہل زبان کےنزدیک بھی مقبول،معروف اور مستند ہیں۔

﴿ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ﴾

علماء ہند کی ان دینی خدمات کو عرب علماء بھی بڑے فخر سے بیان کرتے اور ان کے لئے رحمت ومغفرت کی دعا کرتے ہیں۔

"مفتاح کنوز السنہ،کے مقدمہ میں مصر کے مشہور ومعروف عالم علامہ السید رشید ر ضا رقمطرا ہیں کہ عراق،شام،مصر اور حجاز میں (علماء کے عدم التفات کے سبب) دسویں صدی ہجری سے ہی علوم حدیث کمزور پڑ چکے ہیں،اور اب چودہویں صدی کے اوائل تک یہی عالم ہے۔اگرہمارے ہندوستانی اہل علم بھائیوں کی علم حدیث کی طرف خصوصی توجہ اور خدمات نہ ہوتیں تو مشرق کے علاقوں سے علم حدیث مفقود ہوچکا ہوتا۔

نوٹ:۔ان تحریروں میں ہند سے مراد پاک وہند اور بنگلہ دیش کے ممالک ہیں۔

اس وقت میرے سامنے دمشق یونیورسٹی میں شریعت فیکلٹی کے شعبہ میں علوم الحدیث کے استاذ"ڈاکٹر محمد عجاج الخطیب" کی کتاب"لمحات في المكتبة والبحث والمصادر" ہے۔مصنف نے اس کتاب میں مقالہ نویس اور مضمون نگار حضرات کی راہنمائی کے لئے بہترین اور شاندار توجیہات پیش کی ہیں۔اس کے بعد انہوں نے دو صد سے زائد صفحات میں قرآن کریم کی تفاسیر اور متعلقہ علوم وفنون،حدیث ،کتب حدیث، علوم الحدیث،سیرت النبی ؐ،عقیدہ مختلف فرق ،فقہ،اصول فقہ،اور تاریخ اسلام وغیرہ بہت سے مختلف موضوعات پر مشتمل بہت سی کتابوں کا تعارف کرایا ہے۔تاکہ مقالہ نگار اپنی ضرورت کی کتاب کی طرف مراجعت کرسکے۔کتب حدیث کے ضمن میں مصنف جب"سنن ابی داؤد کا ذکر کرتے ہیں۔تو اس کی شروح میں"عون المعبود" کا بطور خاص ذکر کیا ہے(ص172)

اہل علم جانتے ہیں کہ سنن ابی داؤد کی یہ شرح،ہندوستان کے ایک اہل حدیث عالم محقق دوران علامہ شمس الحق ڈیانوی ؒ کی یادگار ہے۔جوسید نزیرحسین محدث دہلوی ؒ کے معروف تلامذہ میں سے ہیں۔یادرہے کہ مولانا ڈیانویؒ نےغاية المقصود حل سنن ابي داود کے نام سے 32 جلدوں میں ایک مفصل اورجامع شرح لکھی تھی جس میں بے شمارعلمی نکات اور دقیق تحقیقات تھیں جو اکثراہل علم سے مخفی اور پوشیدہ تھیں۔اس کتاب کی صرف پہلی جلد عرصہ ہوا مطبع انصاری دہلی سے شائع ہوئی۔باقی کتاب کے متعلق کوئی پتہ نہیں چل سکا کہ اب وہ کہاں ہے؟بعض لوگ کہتے ہیں کہ کتاب کا باقی نسخہ ضائع ہوگیا۔تاہم ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ ہندوستان میں باقی کتاب دستیاب ہوگئی ہے۔اور اہل علم ا س کی تحقیق وتعلیق میں مصروف ہیں۔

اللہ کرے یہ خبرصحیح ہو۔اگر یہ کتاب منظرعام پرآجائے تو یہ شرح سنن ابی داود کی شروح میں اپنے انداز کی منفردشرح ہے۔

چونکہ یہ شرح بہت زیادہ مفصل تھی،اس لئے "عون المعبود" کے نام سے اس کا اختصار حاشیہ کے انداز پرکردیا۔یہی وجہ ہے کہ جو مسئلہ طویل اور زیادہ بحث کامتقاضی ہو"عون المعبود" پرایسے مقامات پرجا بجا"غایۃ المقصود" کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ تفصیل کے لئے "غایۃ المقصود" ملاحظہ ہو۔ڈاکٹر عجاج نے اسی"عون المعبود" کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر موصوف سنن ترمذی کی شروح میں رقم طراز ہیں۔

وقد شرح السنن ترمذی عدد من العلماء من اجمع هذه الشروح عارضة الاحوزی للا امام محمد بن عبدالله ابن العربی المعافری وتحفة الاحوزی شرح جامع الترمذی للامام محمد عبدالرحمان المبارکفوری الهندي۔ص174

"یعنی بہت سے اہل علم نے سنن الترمذی کی شروح لکھی ہیں سب سے جامع شرو ع میں سے امام ابن العربی کی عارضۃ الاحوذی" اور امام محمد عبدالرحمٰن المبارک پوری الہندی ؒ کی تحفۃ الاحوذی ہے۔"

یاد رہے کہ مولانامبارک پوری بھی جماعت اہل حدیث کے مایہ ناز محدث اور محقق تھے۔دیکھئے مصنف نے کس قدرشرع صدر سے ہندوستانی اہل علم کی خدمات کااعتراف کیا ہے بلکہ مولانا مبارک پوری کو الامام کےلقب سے یاد کیا ہے۔

اس طرح سنن نسائی کے ضمن میں لکھا ہے:۔

ومن اجود طبعاته المحققة سنن النسائی بالتعلقات السلفية بتحقيق فضيلة الاستاذ محمد عطاء الله الفوجياني الامر تسری طبع المکتبة السلفية بلا هور باکستان (ص173)

"یعنی سنن نسائی کی عمدہ ار محقق طبع وہ ہے جو مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ؒ امرتسری کی تعلیقات وتحقیق کے ساتھ مکتبہ سلفیہ لاہور سے شائع ہوئی ہے۔الخ

ا س کے علاوہ بھی عرب کےاہل علم نے واضح طور پر برصغیر کے محدثین کی علمی خدمات کو سراہاہے بلکہ ایک زمانہ تک وہ لوگ علم حدیث کے حصول کے لئے ہندوستان تشریف لاتے رہے۔اللہ کریم جملہ حضرات کی ان مساعی کو قبول فرما کر ان کے رفع درجات کا ذریعہ بنائیں۔آمین

اس مختصر مضمون میں اس سلسلے کی زیادہ معلومات جمع کرنے کی گنجائش نہیں۔دسویں صدی ہجری میں ایک ہندی عالم الشیخ علاؤ الدین المتقی بن حسام الدین ہندی برہانپوری (متوفی 975ھ)گزرے ہیں انہوں نے بھی خدمت حدیث کے میدان میں لازوال خدمات سر انجام دیں ہیں۔

ان کا یہ کام کس قدر محنت طلب اوردقت طلب تھا۔اس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو تصنیف وتالیف کے شغل سے وابستہ ہیں۔

شیخ ہندی ؒ کے ا علمی کلام سے ہماری مراد ان کی کتاب "کنزالعمال" ہے۔

ہمارے موجودہ دور کے طلبہ اور اکثر مدرسین علماء کرام(الا ماشاء اللہ) اس سے ناواقف ہیں کہ یہ کتاب موجودہ صورت میں آنے سے پہلے کتنے مراحل سے گزری۔

ا س ضرورت کے تحت ہم قارئین کو اس کتاب سے متعارف کرانا چاہتے ہیں۔اور اس سے پہلے علامہ جلاد الدین سیوطیؒ (المتوفی 911ھ) کی تین کتابوں کا ذکر کرناضروری ہے۔کیونکہ شیخ علی متقیؒ کا یہ سارا کام انہی کتابوں پر ہوا ہے۔

شیخ الاسلام العلامہ جلال الدین سیوطیؒ کوکون نہیں جانتا؟انہوں نے علوم قرآن علوم حدیث،لغت،بلاغت، شعر،تاریخ،صرف ونحو غرض یہ کہ ہر ہرفن کے بارے میں بہت سی کتب تصنیف کیں۔علماء نے ان کی مولفات ومصنفات کی تعداد سات سو سے زائد بتائی ہے۔

1۔جمع الجوامع:۔

علامہ سیوطیؒ کی سب سے مشہور کتاب ہے۔جو الجامع الکبیر" کے نام سے بھی معروف ہے مصنف نے اس کتاب میں ایک لاکھ کے قریب قولی اور فعلی احادیث کو قسم الاقوال اور قسم الافعال کے تحت جمع کردیا ہے۔اور ہر احادیث کے آخر میں صحت،حسن اورضعف کا حکم بھی لگایا ہے۔مصنف کے خیال میں تمام قولی اورفعلی احادیث کی تعداد دو لاکھ سے متجاوز نہیں۔وہ ان تمام احادیث کو اس کتاب میں جمع کردینا چاہتے تھے۔مگر موت نے مہلت نہ دی اور وہ اپنی اس کتاب کی تکمیل نہ کرسکے اس کتاب کی تالیف میں انہوں نے ایک صد سے زائد مراجع پیش نظررکھے ۔اور ایک ایک حدیث کے لئے بنفس بنفیس ایک ایک کتاب کی طرف مراجعت کی۔

2۔الجامع الصغیر من احادیث البشیر والنذیر:۔

جمع الجوامع کی تالیف کے دوران مصنف کو خیال آیا کہ یہ کام خاصادقت طلب ہے۔اس لئے انہوں نے قولی احادیث کو اس کتاب میں جمع فرمادیا۔اس میں احادیث کی تعداد 10031 ہے۔

3۔الزوائد علی الجامع الصغیر:۔

مصنف نے اس کتاب میں وہ قولی احادیث جمع کی ہیں۔جو الجامع الصغیر میں درج ہونے سے رہ گئی تھیں۔اس میں احادیث کی تعداد 4440ہے۔

ان تینوں کتابوں میں احادیث کو حروف تہجی کی ترتیب سے جمع کیا گیا ہے ۔شیخ علی متقیؒ نے خدمت حدیث کےجزبہ کے تحت الجامع الصغیر اور اس کے زوائد کو فقہی ابواب اور کتب کےلحاظ سے ترتیب دیا اور اس کا نام منہج العمال فی سن الاقوال رکھا۔

ا س کتاب میں احادیث کی تعداد 14471 ہے۔

اس کتب کےبعد مصنف کوخیال آیا کہ جمع الجوامع یعنی الجامع الکبیر کی قسم الاقوال کی بقیہ احادیث کو بھی ترتیب دیناچاہیے۔

چنانچہ الاکمال المنہج العمال کے نام سے ایک کتاب میں یہ کام مکمل کردیا۔

چونکہ منہج العمال اور اکمال میں دونوں میں قولی احادیث تھیں۔شیخ علی متقی ؒ نے ان دونوں کتابوں کو یکجاکردیا۔اور ا س کا نام غایۃ المثال فی سنن الاقوال رکھا شیخ علی متقیؒ کو اللہ کریم نے خدمت حدیث کے بے پایاں جذبہ سے سرشار رکھا تھا اب جبکہ وہ جمع الجوامع کی قسم الاقوال کی ترتیب کا کام مکمل کرچکے تھے۔انہوں نے اسی انداز پر قسم الافعال کو بھی ترتیب دیناشروع کیا۔اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا۔اور مصنف کے ہاتوں یہ کام بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔اور ان احادیث کو بھی فقہی ابواب کی ترتیب پر مرتب کرلیا۔

اس کتاب کا نام مستدرک الاقوال بسنن الافعال رکھا۔

اب جبکہ مصنف جمع الجوامع کی قسم الاقوال اور قسم الافعال کو ترتیب دے چکے تھے،مذید سہولت اور فائدہ کے لئے دونوں قسموں کو پھر ایک کتاب میں جمع کردیا۔

اور کتاب کا نام کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال رکھا۔

اور یوں صحیح الجوامع کے بعد علامہ سیوطیؒ اور علامہ متقی ہندی کی مرحلہ وار کوششوں کے نتیجہ میں کتاب کنزالعمال معرض وجود میں آئی۔

یہ کتاب 46624احادیث کامجموعہ ہے۔

مصنف نے کنزالعمال کویوں ترتیب دیا ہے کہ کوئی چاہے تو الجامع الکبیر الجمع الجوامع) اور الجامع الصغیر کو علیحدہ علیحدہ کرسکتا ہے۔

کیونکہ مصنف پہلے"منہج العمال" کی احادیث ذکر کرتے ہیں پھر اکمال کی اس کے بعد قسم الاقوال لاتے ہیں۔مصنف نے فقہی کتب کو حروف ہجاء کے لحاظ سے ترتیب دیاہے۔

مثلاً باب الہمزہ میں کتاب الایمان ،کتابالاعتصام،بالکتاب والسنۃ اور کتاب الاستغفار وغیرہ لائے ہیں۔

کتاب الصلواۃ اور کتاب الصیام کوباب الصاد میں ذکر کیا ہے۔وہکذا لبواقی،یہ کتاب علامہ سیوطی ؒ اور علامہ ہندیؒ کی بہت بڑی کوشش ہے اس کاصحیح اندازہ وہی لو گ کرسکتے ہیں۔جنہیں تصنیف وتالیف کی پیچیدگیوں سے واسطہ پڑا ہو۔

اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو ان کے لئے رفع درجات کا ذریعہ بنائے۔آمین

"کنز العمال" چونکہ بہت مفصل کتاب تھی۔اور شیخ متقیؒ کو بھی اللہ تعالیٰ نے استقلال ہمت اور خدمت حدیث کے جذبہ سے نوازاتھا۔اگرچہ عمر کے لحاظ سے کافی بڑے ہوچکے تھے۔مگرہمت جواں تھی۔وہ ایک مرتبہ پھر خدمت حدیث کےمیدان میں اترے۔اور کنز العمال کا اختصار کیا۔

تاکہ کنز العمال میں جو احادیث مکرر ہوں یا ایک ہی معنی ادا کرتی ہوں انہیں حذف کردیا جائے مکرر اور ہم معنی احادیث کو علیحدہ کرنے سے کتاب کا حجم تقریباً ایک تہائی کم ہوگیا۔اور منتخب کنز العمال دی ہے۔جو آج کل مسند احمد ؒ بن حنبل کے حاشیہ پر مطبو ع ہے اور مکمل کنز العمال سو ا اجزاء میں بلاد عربیہ میں طبع ہوچکی ہے۔اور بازار میں دستیاب ہے۔