شریعت ایکٹ (1991ء) ۔۔۔شرع یا شرک؟
نفاذ شریعت ایکٹ نمبر (10) آف 1991ء نے 18 جون 1991ء کو صدر پاکستان کی طرف سے توثیق پاکر"بل" کے بجائے"ایکٹ"کی شکل اختیار کی تو اس پر موجودہ حکومت کی تعریف میں بڑے قصدے پڑھے گئے۔اگرچہ 19 مئی کے اخبارات میں اس ایکٹ کا جوانگریزی اور اردو متن شائع کرایا گیا تھا وہ اس سے جا بجا مختلف تھا۔جو بعد میں سرکاری گزٹ کی صورت شائع ہوا گویا اس وقت بھی یہ کوشش کی گئی کہ کسی طرح تجزیہ نگاروں کی تنقید سے بچا جاسکے تاہم قانونی نظر رکھنے والوں نے ہیر پھیر کے باوجود اس میں سے بہت کچھ بھانپ لیاتھا۔افسوس یہ ہے کہ یہ سارا کھیل شریعت کے نام پر کھیلاگیاجس مقصد نہ صرف انسدادشریعت تھا بلکہ آئین پاکستان کی نفاذشریعت کی طرف دروازہ کھولنے والی دفعات کو مع ان کی ایسی تعبیرات کے جو اعلیٰ ترین عدالتوں کی طرف سے ہوچکی ہیں۔غیر مؤثر بنانے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ اس بناء پراسلامی شریعت کونسل پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت سے مبینہ شریعت ایکٹ کی بہت سی دفعات کو غیر اسلامی قراردینے کی درخواست کررکھی ہے۔
جناب جسٹس گل محمد خان نے جو وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے عہدہ سے کچھ عرصہ قبل ہی فارغ ہوئے ہیں۔سطور ذیل میں اس نام نہاد شریعت ایکٹ کےبعض خطرناک پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔جو قانون دانوں کے علاوہ بالخصوص علماء کے قابل توجہ ہیں۔کہ وہ حفاظت دین کے علمبردار گردانے جاتے ہیں۔اس تبصرہ کے ساتھ ہی شریعت ایکٹ 1991ء کے اس انگریز متن کا اردو ترجمہ بھی دیا جارہا ہے۔جو حکومت پاکستان کے سرکاری گزٹ 18جون 1991ء کےمطابق ہے۔(محدث)
شریعت بل جس کا بڑا چرچا اورشہرہ تھا۔اور جس کے گن گائے جارہے تھے۔ایک ہنگامہ خیزی کے عالم میں مجلس شوریٰ نے بطور قانون پاس کردیا۔صدر پاکستان بھی اس پر اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔اور یہ اب اسلامی مملکت خداداد پاکستان کے مرقع قانون کا ایک اہم حصہ ہے۔بعض لوگوں نےاسے غیر آئینی قرار دیا ہے۔اور بعض نے بے نتیجہ اور بے اثر مسٹرانوار سید نےا پنے ایک مضمون مطبوعہ روزنامہ نیشن مورخہ 4جولائی 1991ء میں اس کی بعض اہم دفعات کوغیر آئینی اور دوسروں کو بےتکا کہا ہے۔بعض لوگوں نے اسے غیر اسلامی اورشرک سے تعبیرکیا ہے۔اس کی تعریف صرف ان لوگوں نے کی ہے۔جنھوں نے اس کا صرف عنوان پڑھا یا بنظر غائر نہیں دیکھا یا وقتی تقاضوں سے مجبوری کی حالت میں اس پر رائے زنی کی۔بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ دستور اس قانون میں بھی اللہ کی حاکمیت کا اقرار اور تصدیق کرنے کے بعد موجودہ سیاسی نظام،عورتوں کے حقوق چاہے وہ شرع کے خلاف بھی ہوں،متفننہ کے اختیار قانون سازی،ادائیگی اور مطالبہ سود(اندرونی یا بیرونی عہد واقرار کے تحت) کو تحفظ دینا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر مجلس شوریٰ اور صوبائی اسمبلیوں کے قوانین کوترجیح دینا خدائی حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے۔تاہم سب سے زیادہ مخمصہ اور تحیر اس بات کا ہے کہ وزیراعظم جن کا تعلق ایک دینی اور صاحب ایمان گھرانے سے ہے۔اور جو خدمت دین میں پس و کوتاہ نہیں ایسے قانون کو پاس کرانے میں کیوں کوشاں رہے؟بہرحال یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون کی اہم دفعات اور ان کا تجزی عوام کےسامنے لایا جائے تاکہ وہ خود اپنا نظریہ قائم کرسکیں۔
شریعت ایکٹ کی دفعہ تین الف(A۔3) اسلامی قانون کو اعلیٰ ار ارفع بتلاتا ہے۔جبکہ دفعہ چار الف (A۔4) سب مسلمانوں کو ذمہ دار گردانتا ہے۔کہ وہ شرعی احکام پرعمل کریں۔اگر ان مسلمانوں میں مجلس شوریٰ کے ممبران اپنے آپ کو شامل کرلیتے توشاید یہ منافقت نما قانون پاس ہی نہ ہوسکتا۔ساتھ ہی دفعہ تین ب(B۔3) یہ کہتاہے۔ کہ اس قانون یا کسی بھی عدالت کے کسی فیصلے یا کسی بھی رائج الوقت قانون کے تحت۔۔۔موجودہ سیاسی نظام من جملہ مجلس شوریٰ،صوبائی اسمبلیوں ،نافذہ حکومتی طریق کار کو کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت ،مقتدرہ یا ٹریبونل میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔یعنی چاہے وہ احکام خداوندی اور ارشادات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی خلاف ہوں،ان کے خلاف انگلی تک نہیں اٹھائی جاسکتی۔اب بتائیے کون سا قانون ارفع ہے!؟اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں سورہ نساء آیت 59 میں فرماتا ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ...﴿٥٩﴾... سورة النساء
"ایمان والو!اللہ کی تابعداری کرو اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور اولی الامر کی۔لیکن اگر کسی بات میں (اولی الامر) سے اختلاف ہوجائے تو اسے(عدالت میں) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے احکام کے مطابق فیصلہ کروالو،اگر تم روز حساب میں یقین رکھتے ہو۔"
تو قرآن تو عدالتوں میں جانے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق فیصلہ کا حکم دیتا ہے۔جبکہ ہمارا قانون اس کی نفی کرتا ہے۔اور صحیح فیصلہ حاصل کرنے سے روکتاہے۔کیا ایسا قانون،قانون شریعت کہلاسکتاہے۔؟
اس ضمن میں دو سوالات توجہ طلب ہیں:اول یہ کہ کیا موجودہ سیاسی نظام۔۔۔مجلس شوریٰ،صوبائی مقننہ یا موجودہ نظام حکومت شرعی تقاضے پورا کرتے ہیں۔یا ان کی ضد ہیں؟اس مسئلہ پر اس وقت تک نہ تو اسلامی نظریاتی کونسل اور نہ ہی مجلس شوریٰ نے غورفرمایاہے یا حتمی رائے کا اظہار کیا ہے۔مگر دفعہ تین ب(3-B) سے ظاہر ہوتا ہے۔کہ مجلس شوریٰ کو ان اداروں کے شرعی جواز کے متعلق شک تھا لہذا انھوں نے ان کو تحفظ دینے کی سعی کی ہے۔اگر یہ صحیح ہے تو مجلس شوریٰ نے جان بوجھ کر اورارادتاً حرام کو حلال کرنے اور اسے دوام بخشنے کی ناپسندیدہ حرکت کی ہے۔یہاں پر یہ بات قارئین کے علم میں لانا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے صلاح الدین وغیرہ کے ایک کیس(1989ء) میں ایک فیصلہ کے ذریعے موجودہ قوانین الیکشن جو موجودہ حکومت اور سیاسی نظام کو وجود میں لانے کے ذمہ دار ہیں کو غیر شرعی قرار دیا ۔اگر واقعی مجلس شوریٰ نے اس فیصلے یا اس کے بعد آنے والے فیصلوں کی پیش بندی کی ہےتو یہ ان کی علمی تہی دامنی کا ثبوت بھی ہے۔اورایک گناہ بے لذت بھی۔قارئین کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئینی او ردستوری اختیارات یا ان کے اثرات کو عام قانون سے نہ تو زائل کیا جاسکتاہے اورنہ ہی بے اثر۔بہرحال ا س فیصلہ کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی ہوئی ہے۔لہذا یہ فیصلہ معطل ہے۔چونکہ یہ فیصلہ پچھلے الیکشن سے بھی قبل دیا گیا تھا۔اگر سپریم کورٹ کا اپیل بنچ اسی وقت فیصلہ دے دیتا تو صحیح آئینی اور شرعی حالت واضح ہوجاتی ۔اب بھی اگر اس پر فیصلہ دے دیا جائے۔تو آئندہ الیکشن سے قبل صورت حال کو شرع کے مطابق استوار کیا جاسکتا ہے۔بہرحال سپریم کورٹ کے سامنے اس کیس کی اہمیت کے پیش نظر یہ التجا کرنی چاہیے کہ قصاص ودیت والے کیس کی طرح اسے بھی ایک طویل عرصہ التواء میں نہ رکھیں۔بلکہ ثواب دارین کےمستحق ہوں۔ اس صورت کے پیش نظر مجلس شوریٰ کو بھی احتیاط لازم تھی کہ سپریم کورت کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسی دفعات کو قانون کا حصہ بنانے سے اجتناب کرتی جبکہ بالخصوص ایسی کاوش قانوناً بھی بے اثر لاحاصل اور بے سود ہو۔
مذید برآں دستور کا آرٹیکل 227 الف(227-A) مجلس شوریٰ کو مجبور کرتا ہے کہ وہ کوئی ایسا قانون نہ بنائے جوشرع کے خلاف ہو۔ایسا ہی ایک حکم آرٹیکل 30 میں بھی ہے۔ہر ممبر مجلس شوریٰ نے اس امر کا حلف بھی اٹھا رکھا ہے۔کہ وہ دستور پرعمل،اس کی پاسداری اور حفاظت کرے گا۔آرٹیکل 227،آرٹیکل 229 اور آرٹیکل 230ج(230-c) کے پڑھنے سے کہ معلوم ہوتا ہے کہ مجلس شوریٰ ہر قانون پاس کرنے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے مشورہ لے۔کہ کہیں مجوزہ قانون احکام اسلام کے خلاف تو نہیں۔بظاہر مجلس شوریٰ نے ان سے آرٹیکلز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ایسا قانون پاس کیا ہے جس کے متعلق کسی کوبھی شک نہیں ہونا چاہیے۔کہ وہ نہ صرف خلاف شرع ہے۔بلکہ شرک کی حدود میں بھی آسکتا ہے۔یہاں یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ1980ء سے قبل دستور نے ہی جہاں خلاف شرع قانون بنانے کی پابندی لگائی تھی۔وہاں قانون سازاداروں کو اس ضمن میں عدالتوں کے احتساب سے بھی تحفظ دیا تھا۔نتیجہ یہ نکلا کہ قانون ساز ادارے بے دھڑک غیر شرعی قوانین،ضابطے اور احکام جاری وساری رکھتے رہے اور عوام الناس بے کس وبے آواز ان کی چیرہ دستیوں کا تماشہ کرتے رہے۔
1980ء میں جنرل ضیاء الحق مرحوم نے پہلی دفعہ وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لا کر اختیار دیا کہ ماسوائے چند ایک کے،عدالت باقی قوانین کی چھان بین کرکے غیر اسلامی قوانین کو کالعدم قرار دے۔پھر 1985ء میں آرٹیکل 2-الف (2-A) کا اضافہ کرکے قرارداد مقاصد کو د ستور کا مؤثر حصہ بنایا اور یوں تمام قوانین حتیٰ کہ دستور کو بھی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن وسنت کے تابع کردیا۔بعد میں مجلس شوریٰ نے بھی آٹھویں ترمیم کے ذریعہ اسے پاس کیا اور مہر تصدیق ثبت کردی۔سپریم کورٹ نے بھی حال ہی میں قرآن وسنت کے احکام کی بالا دستی اور مستقل قانونی حیثیت کو قبول کرلیا ہے۔اس آئینی صورت حال اور عدالتی تشریح کی روشنی میں یہ بات بلا خوف وتردید کہی جاسکتی ہے۔کہ اب بندوں کا بنایا ہوا پاکستان کا دستور اللہ کےاحکام کے تابع ہے اور کسی قانون یا دستور کےکسی حصہ میں اگر کوئی بات اللہ کے احکام سے متصادم ہے تو وہ کالعدم اور غیر مؤثر ہے۔اس صورت حال میں دوسری وضاحت یہ ملتی ہے کہ ممبران مجلس شوریٰ اور باقی قانون ساز ادارے جان بوجھ کر خلاف شرع قوانین پاس کرکے نہ صرف غیر شرعی صورت حال سامنے لارہے ہیں۔بلکہ اپنی حلف شکنی اور دستور شکنی کے مرتکب ہورہے ہیں۔امید ہے ممبران مجلس شوریٰ کو یہ بات معلوم ہوگی کہ ان کے بنائے ہوئے قوانین عدالتوں میں چیلنج کئے جاسکتے اور ایسی خوش فہمی وہاں نہیں ہے۔1980ء کے بعد سے یہ اختیار وفاقی شرعی عدالت کے پاس ہے۔اور 1985ء سے وہ مستثنیات جو وفاقی عدالت کے اختیار سے باہر تھیں اب ہائی کورٹس کے اختیارات میں آگئی ہیں۔ممبران مجلس شوریٰ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ایک عام قانون ان کی ان خلاف ورزیوں کو جو دستور اور احکام الٰہی کے خلاف ہیں عدالتوں کے احتساب سے تحفظ نہیں دے سکتا۔یہ بھی ایک مسلمہ کلیہ ہے۔کہ مجلس شوریٰ مملکت کے قانون سے واقف ہوتی ہے۔ اور جو نیا قانون وہ وضع کرتی ہے اس کے جمہ پیچ و خم سے بھی بہرحال آگاہ ہوتی ہے۔ایسی صورت میں اگر کوئی قانون جو بظاہر یا اصل میں احکام الٰہی کے خلاف بن جائے تو یہ فرض کر لیا جائے گا کہ وہ دانستہ اور عمداً بنایا گیا ہے۔ بلاشبہ عدلیہ ایسے قانون کو کالعدم اور غیر مؤثر قرار دے گی۔مگر ساتھ ہی ممبران مجلس شوریٰ کی وہ قسم بھی ٹوٹ جائے گی جس کے بل بوتے پر وہ قانون سازی اور مجلس شوریٰ کی کاروائی میں حصہ لیتے ہیں۔یہاں یہ بات واضح کردینی چاہیے کہ اپنے حلف میں ہر ممبر یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسلام کی نظریاتی حدود کے دفاع کے لئے ہر ممکن کاوش اور یہ کہ وہ اسلامی مملکت پاکستان کے دستور کے استحکام ،تحفظ اوردفاع کی حتی المقدور کوشش بطور اللہ تعالیٰ کے نائب کے کرے گا۔
علاوہ ازیں ممبران مجلس شوریٰ دستور پاکستان کے آرٹیکل (6) کی خلاف ورزی کے بھی مرتکب ہوسکتے ہیں۔جس میں یہ قرار پایا ہے کہ اگر کوئی شخص پاکستان کے دستور کو مٹانے یا توڑنے کی سازش یا کوشش کرتا ہے یا توڑتا ہے یا ہٹانے کی کوشش یا سازش بزور بازو یا دیگر غیر آئینی طریقوں سے کرتا ہے۔تو وہ غداری اور بغاوت کا مرتکب ہوگا۔اب چونکہ عوام الناس نے اللہ کی حاکمیت اور احکام الٰہی کی بالادستی کو قبول کرکے دستور کا مؤثرحصہ بنا دیا ہے۔تو کوئی شخص جو اپنی یا مجلس شوریٰ کی بالادستی کا ارتکا ب کرے گا۔تو وہ دستور سے بغاوت اور غداری کا مرتکب گردانا جاسکتاہے۔بدقسمتی سے چونکہ ایسے افعال حکمران طبقہ سے سرزد ہوتے ہیں۔ان کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا جاتا اور نہ ہی دستور کے اس حصہ پر عمل ہوا ہے۔ اس لئے نہ ہی عدالتوں کو اس پر غور کرنے کا موقع ملا۔اور نہ ہی عوام کو اس سے واقفیت ہوئی۔بہرحال وقت آگیا ہے۔کہ ملک کی نظریاتی حدود کے تحفظ اور مجلس شوریٰ کے اختیارات کا تعین کرنے کےلئے مناسب اقدامات کئے جائیں۔ساتھ ہی ممبران مجلس شوریٰ جن کو عوام الناس نے قابل اور مناسب سمجھ کر اپنے نمائندگان کے بطور منتخب کیا ہے۔وہ سنجیدگی اورمتانت سے از خود ا پنے حدود اختیار کا تیقن اور تعین کریں۔تاکہ بعد میں آنے والوں کی بھی راہنمائی ہواور وہ صرف اپنی انا کی تسکین کے لئے دنیا وآخرت کے انعامات سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔
اب دوسرا اہم جواب طلب مسئلہ یہ ہے کہ دستور کے تحت ممبران مجلس شوریٰ کی ذمہ داریاں اور فرائض کیا ہیں۔دستور کے مطابق پاکستان کے لوگ اللہ کی حاکمیت کے امین اور اسے اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے پابند ہیں۔اور یہ ذمہ داری وہ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے عمل میں لائیں گے۔اس صورت حال میں اولاً ممبران مجلس شوریٰ لوگوں کے وکیل ہیں لہذا وہ صرف وہ اختیار استعمال کرسکتے ہیں جولوگوں نے ان کو تفویض کئے ہیں۔دوم لوگ نہ تو ان کو اپنے اختیارات سے زائد اختیار سونپ سکتے ہیں۔اور نہ ہی وہ خود ان سے تجاوز کرسکتے ہیں۔اس لئے ان نمائندگان قوم کے اختیارات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے تحت اور ان کی مقرر کردہ حدود میں محدود ہیں۔لہذا یہ ان کا اولین فرض ہے کہ بطور امین وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کو جاری وساری کریں بلکہ اگر کوئی دیگر قانون یا ضابطہ ان احکام کے مخالف یا ان سے متصادم ہے تو اسے ہٹائیں اور مٹائیں۔ان حالات میں کسی دوسرے قانون کی بالا دستی کو قائم کرنا یا اسے ماننے کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ جو احکم الحاکمین ہے۔فرماتا ہے۔
﴿أَلا لَهُ الحُكمُ...﴿٦٢﴾... سورالانعام "خبردار حکم (قانون) صرف اللہ کا ہی ہے۔"
﴿إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ يَقُصُّ الحَقَّ وَهُوَ خَيرُ الفـٰصِلينَ ﴿٥٧﴾... سورةالانعام
"اور قانون صرف اللہ کا ہی ہے وہ سچائی بیان کرتا ہے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔"
﴿وَلا يُشرِكُ فى حُكمِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾... سورة الكهف
"وہ کسی کو اپنی حکمرانی میں شرکت کی اجازت نہیں دیتا۔"
﴿وَاللَّهُ يَحكُمُ لا مُعَقِّبَ لِحُكمِهِ ...﴿٤١﴾... سورةالرعد
"اور اللہ ہی حاکم اعلیٰ ہے ۔اس کےقانون کو کوئی بھی رد نہیں کرسکتا۔
﴿ما تَعبُدونَ مِن دونِهِ إِلّا أَسماءً سَمَّيتُموها أَنتُم وَءاباؤُكُم ما أَنزَلَ اللَّهُ بِها مِن سُلطـٰنٍ إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿٤٠﴾... سورةيوسف
"اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو تم پوجتے ہو وہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باب دادا نے رکھ لئے ہیں۔"اللہ تعالیٰ نے تو ان کے پوجنے کی کوئی سند نہیں اتاری۔اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں۔اسی نے حکم دیا ہے۔کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو۔یہی سیدھا رستہ ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔"
﴿ما كانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤتِيَهُ اللَّهُ الكِتـٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقولَ لِلنّاسِ كونوا عِبادًا لى مِن دونِ اللَّهِ وَلـٰكِن كونوا رَبّـٰنِيّـۧنَ بِما كُنتُم تُعَلِّمونَ الكِتـٰبَ وَبِما كُنتُم تَدرُسونَ ﴿٧٩﴾... سورة آل عمران
"کسی آدمی کو لائق نہیں کہ اللہ اسے کتاب ،حکمت اور نبوت عطا کرے پھر وہ لوگوں سے کہے:خدا کو چھوڑ کرمیرے بندے بن جاؤ۔بلکہ اللہ والے بن جاؤ۔کیونکہ تم اللہ کی کتاب کو پڑھاتے ہو اور خود بھی پڑھتے رہے ہو۔
یہ آیت کریمہ بالکل واضح کردیتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خود بھی یہ اختیارات حاصل نہیں ہیں کہ وہ اللہ کے سوا اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کا اعلان کرتے پھریں پھر ہمارے نمائندے جو اس عہد کے پابند ہیں۔کہ وہ بطور متولی کام کریں گے وہ آخرت میں اور یہاں رائج الوقت قانون کے بھی جواب دہ ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ تنبیہ کرتے ہیں۔
﴿أَفَحُكمَ الجـٰهِلِيَّةِ يَبغونَ وَمَن أَحسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكمًا لِقَومٍ يوقِنونَ ﴿٥٠﴾... سورةالمائدة
"کیا پس کفر کے وقت کا حکم چاہتے ہو اور جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر حکم دینے والا کون ہے؟"
حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو انسانوں کوحکمرانی عطا کرتا ہے اور اس کے لئے اس نے حدود مقرر کررکھی ہیں۔جو کہ اس کے قانون کے مطابق ہیں۔مذید فرمایا۔
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰفِرونَ ﴿٤٤﴾... سورةالمائدة
"اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کےمطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔"
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٤٥﴾... سورةالمائدة
"اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کےمطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔"
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الفـٰسِقونَ ﴿٤٧﴾... سورة المائدة
"اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کےمطابق فیصلہ نہ کریں وہی لوگ فاسق ہیں۔"
لہذا ارکان مجلس شوریٰ اس بات کے مکلف ہیں کہ قرآن وسنت کی وہ تعلیمات جو واضح اور غیر مبہم ہیں ان کی پابندی کریں۔ان کا یہ کہنا کہ کچھ معاملات اس قدر مقدس ہوتے ہیں کہ انہیں کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا چاہے وہ قرآن وسنت کے خلاف ہی ہوں یہ بدعت اورواضح کفرہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
﴿وَاللَّهُ يَحكُمُ لا مُعَقِّبَ لِحُكمِهِ ...﴿٤١﴾... سورةالرعد
"اور اللہ حکم دیتا ہے اس کے حکم کو ٹالنے والا کوئی نہیں ۔نیز فرمایا:
﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ وَمَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَدِ افتَرىٰ إِثمًا عَظيمًا ﴿٤٨﴾... سورةالنساء
"بے شک اللہ تعالیٰ شرک کو بخشنے والا نہیں ہے اور شرک کے سوا جس کو چاہے بخش دے اور جس نے اللہ کے ساتھ شریک (یعنی اس کی حاکمیت میں کسی اور کو حصہ دار بنایا) اس نے بہت بڑا گناہ کیا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ سورہ مائدہ آیت 72 میں فرماتا ہے:۔
﴿إِنَّهُ مَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيهِ الجَنَّةَ وَمَأوىٰهُ النّارُ...﴿٧٢﴾... سورةالمائدة
"وہ جو اللہ کے سوا اوروں کے احکام مانتا ہے۔اس پر جنت حرام ہے اور اس کا مسکن آگ میں ہوگا۔"
لہذا مصدقہ اور مسلمہ پوزیشن یہ ہے کہ اگر ہم اللہ کے چند احکام کی تابعداری صرف اس لئے کرتے ہیں کہ بندے کا بنایا ہوا قانون ایسا حکم دیتا ہے تو پھر بالادستی بندے کے قانون کی ہے نہ کہ اللہ کے قانون کی۔اسی طرح سے اگر لادین حکومتیں اللہ کے چند قوانین کی روح کو اپنے قوانین کا حصہ بنا کر نافذ کردیں تو ہم انہیں اسلامی ریاست نہیں کہہ سکتے۔مغرب کی بعض وہ ر یاستیں جنھوں نے عوام کی بہتری کے چند قوانین نافذ کئے انہوں نے اسلامی ریاست کا درجہ پالیا ہے؟کوئی بھی شخص اسلام کا ایک من پسند حصہ اپنا کر اور دوسرے کی خلاف ورزی کرکے اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہلاسکتا۔اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ آیت 85 میں فرماتا ہے:
﴿أَفَتُؤمِنونَ بِبَعضِ الكِتـٰبِ وَتَكفُرونَ بِبَعضٍ فَما جَزاءُ مَن يَفعَلُ ذٰلِكَ مِنكُم إِلّا خِزىٌ فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا وَيَومَ القِيـٰمَةِ يُرَدّونَ إِلىٰ أَشَدِّ العَذابِ...﴿٨٥﴾... سورةالبقرة
"کہ جو شخص کتاب کے بعض حصوں پر ایمان رکھتاہے اور بعض پر نہیں تو ایسے شخص کی دنیاوی زندگی میں بجز رسوائی اور روز قیامت بجز سخت عذاب کے اور کیا سزا ہوسکتی ہے؟" اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت 208 میں فرمایا:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا ادخُلوا فِى السِّلمِ كافَّةً وَلا تَتَّبِعوا خُطُوٰتِ الشَّيطـٰنِ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ ﴿٢٠٨﴾... سورةالبقرة
"اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔"سورہ نساء کی آیت 115 میں حکم ہوا ہے کہ:
﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَت مَصيرًا ﴿١١٥﴾... سورةالنساء
"ہدایت آجانے کے بعد جس نے پیغمبر کی نافرمانی کی اور ایک ایسا ر استہ اختیار کیا جو فرماں برداروں کانہیں اسےجہنم میں ڈالا جائے گا جو برا ٹھکانہ ہے۔"
دستور کے اندر بھی پاکستانی عوام کی طرف سے اپنے منتخب نمائندگان کو یہی ہدایت ہے کہ اللہ کے قانون کے تابع رہیں۔لیکن اگر کوئی نمائندہ اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے تو وہ یا تو نمائندگی سے استعفیٰ دے دے یا لوگوں کو کھلم کھلا بتادے کہ وہ اللہ کے احکام یا لوگوں کی ہدایت ماننے کو تیار نہیں ہے۔یہ ایک انتہائی مذموم حرکت ہے کہ اسلام کے نام تلے غیر اسلامی اور ملحدانہ قوانین پاس کئے جائیں۔اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران آیت 187میں فرماتا ہے:
﴿وَإِذ أَخَذَ اللَّهُ ميثـٰقَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنّاسِ وَلا تَكتُمونَهُ فَنَبَذوهُ وَراءَ ظُهورِهِم وَاشتَرَوا بِهِ ثَمَنًا قَليلًا فَبِئسَ ما يَشتَرونَ ﴿١٨٧﴾ لا تَحسَبَنَّ الَّذينَ يَفرَحونَ بِما أَتَوا وَيُحِبّونَ أَن يُحمَدوا بِما لَم يَفعَلوا فَلا تَحسَبَنَّهُم بِمَفازَةٍ مِنَ العَذابِ وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿١٨٨﴾... سورة آل عمران
کہ جب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے وعدہ لیا کہ لوگوں کو یہ کتاب من وعن سناؤاور اس میں سے کچھ نہ چھپاؤ تو انہوں نے ان صحیفوں کو پس پشت ڈال دیا۔اور چند سکوں کے عوض بیچ دیا۔یہ کاروبار گھناؤنا تھا۔ایسے لوگ جواپنے کردار بد پر خوش ہوتے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے تو ایسے لوگوں کے لئے اچھا خیال مت کرو کہ و ہ اللہ کے عذاب سے بچ جائیں گے۔بلکہ ان کو درد ناک عذاب ہوگا۔"
یہاں پر نام نہاد شریعت ایکٹ کی دفعات21۔20۔کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔یہ دفعات موجودہ نظام حکومت ،دستور میں دیئے گئے عورتوں کے حقوق،ممبران مجلس شوریٰ کے موجودہ حقوق اور صرف ان کے پاس کردہ قوانین کا نفاذ۔۔۔چاہے وہ احکام قرآن وسنت کے یکسر خلاف ہوں۔کو بالادست اور یقینی بناتی ہیں۔پس یہ دفعات ان سب نقائص کی حامل ہیں اور مبنی برشرک ہیں۔کیا عورتوں کے د ستور میں دئیے ہوئے حقوق زیادہ مناسب ہیں یا کتاب وسنت میں مذکورہ حقوق؟کیا یہ ممبران مجلس شوریٰ ان حقوق" کو دوام بخشنا چاہتے ہیں۔جو خلاف شرع ہیں۔یا ان کو جو شرع کے مطابق ہیں؟مجھے یقین ہے کہ اس ملک میں سوائے چند سو یا چند ہزار خواتین کے باقی سب قرآن وحدیث کےحقوق(جوفی الواقع زیادہ وسیع،حفاظت اور عزت مہیا کرنے والے ہیں) کا مطالبہ کرتی ہیں۔اور حاصل کرنا چاہتی ہیں۔پھر مقننہ کے حقوق بھی اسلام میں بیان کردیئے گئے ہیں۔کیا کوئی مسلمان نمائندہ ان کے علاوہ دوسرے مخالف حقوق کا مطالبہ کرے گا؟یہاں یہ بھی کہہ دینا مناسب ہے کہ غیر مسلموں کو جو حقوق قرآن وسنت میں دئیے گئے ہیں وہ ان کو کسی دوسری مملکت میں آج تک نہیں ملے۔دستور بھی ان کے حقوق کی حدود کا تعین کرتا ہے اور من مانی کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔کیا وہ ان سے باہر جاسکتے ہیں؟
اب ہم مبینہ شریعت ایکٹ کی دفعہ 18 اور 19 کی طرف آتے ہیں۔یہ سودی معاہدات اور ان کے تحت سود کی ادائیگی کو نہ صرف روارکھتے ہیں۔بلکہ عدالتوں کی معرفت ان اندرون اور بیرون ملکی معاہدات کے تحت قابل ادا سود کی،عدالتوں کی معرفت بازیابی کے حق کو یقینی بناتے ہیں۔یعنی اللہ تعالیٰ سود دینے اور لینے والے کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔مگر یہ اسلامی حکومت نہ صرف سود لینے اور دینے کو جائز قراردیتی ہے۔بلکہ سود نہ ادا کرنے والے کے خلاف اعلان جنگ کرتی ہے۔(العیاذ باللہ) سود کا مسئلہ بہت قدیم ہے۔یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ قریباً ہر فلاسفر اور سماوی مذہب نے اسےغیر پسندیدہ ،حرام اور قبیح جرم جانا اور اس پراسی طرح صدیوں عمل کرنے کی تلقین ہوتی رہی۔ان یہودی اور عیسائی حکومتوں میں جہاں مذہبی جماعتوں کا عمل دخل زیادہ رہا۔وہاں سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔تاہم بعد میں جب چرچ،جو کہ امیر ترین ادارہ تھا۔نے اپنا فالتو سرمایہ نفع پر لگانا شروع کیا تو یہ جرم بھی نرم پڑتا گیا۔حتیٰ کہ اب نہ صرف کہ سود کی وصولی یا ادائیگی جرم نہیں رہی بلکہ اسے قبولیت کا درجہ مل گیا۔تاہم اسلام کے کسی عالم دین نے دنیا میں کسی بھی جگہ اسے حلال یا جائز نہیں کہا ہے۔ہاں چند مغرب زدہ اورمغربی تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل لوگ اس کی بعض حالات میں جائز ہونے کی تاویلیں کررہے ہیں۔مگر ان کی یہ بات ماننے کو کوئی تیار نہیں۔صرف ایک ہی دلیل قابل توجہ رہی ہے کہ سودی نظام کو یک دم ختم کردینے سے انتشار پیدا ہوگا۔لہذا جب تک متبادل نظام وضع نہ کرلیا جائے اسے بحال رکھا جائے۔مگر اس ضمن میں یہ تاریخی شواہد یہ ثابت کرتے ہیں۔کہ ہم لوگ نہ تو متبادل نظام وضع کرنے کےلئے نیک نیتی سے کوشش کرتے رہے ہیں۔اور نہ ہی ارادہ رکھتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ 13 جنوری 1964 ء کو ا سلامی نظریاتی کونسل نے حکومت کے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سود کی وصولی وادائیگی حرام ہے۔اس کونسل کی تشکیل 1962ء کے دستور کے تحت ہوئی تھی۔پھر 23دسمبر 1969ء کو اسی کونسل نے علامہ علاؤلدین صدیقی کی سربراہی میں اسی فیصلہ کو صادر کیا اور کہا"موجودہ بنکنگ نظام "سود کے زمرے میں آتا ہے اسی طرح سے 1971ء اور 1978ء میں بھی ایسی رائے دی گئی۔
اس کے بعد زیادہ تر توجہ متبادل نظام وضع کرنے پر دی گئی۔کونسل نے بھی ایک متبادل نظام وضع کرکے پیش کیا مگر حالات وواقعات سے یہ تاثر ملتا ہے۔ کہ متعلقہ ادارے پس وپیش کرتے رہے۔جسٹس حمود الرحمان مرحوم اور جسٹس افضل چیمہ کی سربراہی میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی متبادل نظام پر عمل کرنے کو کہا مگر ارباب وبست وکشاد کے عملی اقدام سود کی طرف زیادہ اور اس کے خلاف کم تر رہے۔جنرل ضیاء الحق مرحوم نے بھی خاصی کوشش کی۔مگر پرنالہابھی تک وہیں ہے۔اب حکومت نے ان دفعات کے تحت ایک اور کمیشن کی تشکیل کردی ہے۔مگر جو رپورٹس اور سفارشات قبل ازیں دی گئی ہیں ان پر عمل درآمد نہ تو زور دیاگیا ہے اور نہ ایسی خواہشیں معلوم ہوتی ہیں۔اس لئے موجودہ کمیشن موجودہ حکومت کواپنی مدت پوری کرنے میں مددتو دے سکتا ہے۔مگر مذید پیش رفت کاتصور تک نہیں ہوسکتا۔
یہاں یہ بات قابل توجہ اور تحسین طلب ہے۔کہ مسٹرمحمد خاں جونیجو کی حکومت نے نویں دستوری ترمیم میں ایک ایسی تجویز پیش کی کہ اگر علمائے کرام اپنی اپنی جماعت کے سود وزیاں کودیکھے بغیر اسے پاس کروالیتے تو یہ مسئلہ کافی حد تک آگے بڑھ چکا ہوتا۔جونیجو صاحب کی تجویز کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار دیا جاناتھا۔ کہ عدالت ہر قسم کے غیرشرعی مالی قانون کو کالعدم اور غیر مؤثر قرار دے سکتی ہے۔مگر ساتھ ہی ایک متبادل نظام بھی وضع کرکے دے دیتی۔اگر یہ دستوری ترمیم پاس ہوجاتی تو متبادل نظام با امر مجبوری وضع کرنا پڑتا۔یہاں یہ بات بھی کہنا بے جا نہ ہوگی کہ اس دنیا اور خاص طور پر مغربی دنیا کے ماہرین اقتصادیات کا ایک بڑا حصہ سود کو بہت سی اقتصادی بیماریوں اور خرابیوں کی جڑتصور کرتا ہے۔اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ مجلس شوریٰ نے شریعت ایکٹ جس کی بیشتر دفعات وعدوں اور ارادوں کی نشان دہی کرتی ہیں۔اور بقایا یا تو قطعاً خلاف دستور ہیں۔یا خلاف شرع،پاس کردیا ہے اس قانون کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلس شوریٰ نے قرآن وسنت کی بجائے اپنی بالادستی قائم کرنے کی سعی کی ہے اور یہ قرار دیا ہے کہ اتنا ہی اسلام نافذ ہوگا جو مجلس شوریٰ چاہے گی اور جو غیر اسلامی نظام وہ نہیں ہٹانا یامٹانا چاہتی اسے پورا تحفظ دیا جائے گا۔یہ شرک کی انتہا اور اللہ کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔بدقسمتی تو یہ ہے کہ اسے بہت سارے علماء کی بھی سرپرستی حاصل ہے۔اور وہ اس کے پاس کرانے میں ممدوکوشاں رہے۔یہ علماء کرام جو دوسروں کی معمولی لغزشوں پر کفر کے فتوے صادر کرتے رہتے ہیں۔اپنے کئے پر نہ تو شرمندہ ہیں اور نہ توبہ کے لئے تیار۔کیا ایسے قانون کو پاس کرانا یا اس کے ممدومعاون ہونا کسی گرفت میں آتا ہے یا نہیں؟کیا ایسے علماء عوام کے منتخب نمائندے کہلانے کا حق رکھتے ہیں؟کیا ان کا حلف نہیں ٹوٹا اور وہ حق نمائندگی سے محروم نہیں ہوگئے؟میری التجاء یہ ہے کہ سب علماء حضرات اوردیگرقارئین اس قانون کادوبارہ مطالعہ کرکے اپنی ر ائے سے لوگوں کو مستفید کریں۔اوراگر یہ قانون واقعی خلاف شرع اور شرک کی حدوں کوچھوتا ہے تو وہ علماءکرام جنھوں نے اس کے پاس کرانے میں حصہ لیا توبہ تائب ہوکر اپنے حلف کااعادہ کریں۔اللہ تعالیٰ سورہ فاطر آیت 14 تا16 میں فرماتا ہے:۔
﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ أَنتُمُ الفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الغَنِىُّ الحَميدُ ﴿١٥﴾ إِن يَشَأ يُذهِبكُم وَيَأتِ بِخَلقٍ جَديدٍ ﴿١٦﴾... سورةفاطر
"اے لوگو!تم خدا کے محتاج ہو اور اللہ تو نے نیاز ہے۔اورتمام خوبیوں والا ہے۔اگر وہ چاہے تو تمھیں فناکردے اور ایک نئی مخلوق پیدا کردے اور یہ بات خدا کو مشکل نہیں۔"
کیا ان حالات میں بھی ہم سب اللہ کے حضور سربسجود ہوکر ا پنی علمائے کرام اور مجلس شوریٰ کی لغزشوں اورکوتاہیوں کی معافی نہ مانگیں کیونکہ وہ بے نیاز ہے۔اور اسی میں ہماری بقاء اور بہتری ہے۔(وما علینا الا لبلاغ)
نفاذ شریعت ایکٹ 1991ء
تمہید:۔
چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔اور پاکستان کے جمہور کو ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعہ جو اختیار واقتدار اس کی مقررہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے۔اورچوں کہ اسلام کو پاکستان کا مملکتی مذہب قرا ر دے دیا گیا ہے۔اس لئے تمام مسلمانوں پر لازم اور واجب ہوگیا ہے کہ وہ قرآن پاک اور سنت کے احکام کی پیروی کریں۔ اور اپنی زندگی کو قانون الٰہی کی مکمل اطاعت کرتے ہوئے ترتیب دیں۔اور چوں کہ اسلامی مملکت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ د اری یہ ہے کہ شہریوں کی آبرو جان ،آزادی املاک اور حقوق کی حفاظت کی جائے اور امن وامان کو یقینی بنایا جائے اور ایک آزاد اسلامی نظام عدل کے ذریعہ ہر طرح کے لوگوں کو سستا اور فوری انصاف فراہم کیا اور چونکہ فحاشی،بدکاری،قمار بازی،عصمت فروشی،اور دیگراخلاقی برائیوں کی جو کسی اسلامی مملکت کی نفی کرتی ہیں۔معاشرہ میں مکمل طور پر روک تھام کرنی چاہیے۔اور ان کوجڑ سے اکھاڑدیناچاہیے۔اور چونکہ یہ ضروری ہے کہ قرآن پاک اور سنت کے احکام کی مطابقت میں قوانین وضع کئے جائیں اورتسلیم شدہ طریقے کے ذریعے پاکستان کے عوام کی خواہشات اورآرزؤں کا پتہ چلایاجائے۔اور ہر لحاظ سے ان کے فیصلے کو نافذ کیا جائے۔جو اسلامی اصول قانون کا بنیادی ستون ہے۔اور چونکہ مذکورہ بالا بیان کردہ مقاصد اور اہداف کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ مملکت کے اقدامات کی دستوری اور قانونی تائید کی جائے لہذا حسب ذیل قانون وضع کیا جاتاہے۔
نمبر1۔مختصر عنوان،وسعت اور آغاذ نفاذ
شق نمبر (1)۔یہ ایکٹ نفاذ شریعت ایکٹ(1991ء)کے نام سے موسوم ہوگا۔
نمبر2۔یہ پورے پاکستان پر وسعت پزیرہوگا۔
نمبر۔3۔یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا۔
نمبر 4۔اس ایکٹ میں شامل کوئی امر غیر مسلموں کے شخصی قوانین ،مذہبی آزادی،روایات ،رواجات ،اور طرززندگی پراثر انداز نہیں ہوگا۔
2۔تعریفات:۔
اس ایکٹ میں تاوقت یہ کہ متن میں بصورت دیگر قرار دیاگیا ہو۔شریعت سے وہ اسلام کے احکام مراد ہیں۔جس طرح کہ قرآن پاک۔اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے۔
تشریح:۔
شریعت کی تعبیروتشریح کرتےہوئے قرآن کریم اورسنت کی تعبیر اور توضیح کے مسلمہ اصولوں کی پیروی کی جائے گی۔اوراصول فقہ کے رائج اسلامی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمہ فقہاء کی تشریحات اورآراء کوپیش نظر رکھاجائے گا۔
نمبر(3)۔شریعت کی بالادستی
1۔قرآن وسنت (شریعت) پاکستان کا اعلیٰ ترین قانون ہوں گے۔
2۔اس ایکٹ کسی عدالت کے فیصلہ یا فی الوقت نافذ العمل کسی دیگر قانون میں شامل کسی امر کے باوجود موجودہ سیاسی نظام بشمول مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوں اور حکومت کے موجودہ نظام کو کسی عدالت بشمول عدالت عظمیٰ وفاقی شرعی عدالت یاکسی مقتدرہ یاٹریبونل میں چیلنج نہیں کیا جائے گا۔شرط یہ ہے کہ یہاں شامل کوئی امر دستور کے ذریعہ یا دستور کے تحت گارنٹی شدہ غیر مسلموں کے حقوق کو متاثر نہیں کرے گا۔
نمبر(4)۔قوانین کی تعبیر شریعت کی روشنی میں کی جائے گی۔
اس ایکٹ کی غرض کےلئے(اول) قانون موضوعہ کی تشریح وتعبیرکرتے وقت اگرایک سے زیادہ تشریحات اورتعبیرات ممکن ہوں تو عدالت کی طرف سے اس تشریح وتعبیر کو اختیا ر کیا جائےگا۔جو اسلامی اصولوں اور حصول قانون کے مطابق ہو اور(دوم) جب کہ دو یازیادہ تشریحات وتعبیرات مساوی طور پر ممکن ہوں تو عدالت کی طرف سے اس تشریح وتعبیر کو اختیار کیا جائے گا جو دستور میں بیان کردہ حکمت عملی کے اصولوں اور اسلامی احکام کو فروغ دے۔
نمبر5۔مسلمان شہریوں کی طرف سے شریعت کی پابندی:۔
پاکستان کے تمام مسلمان شہری شریعت کی پابندی کریں گے اور اس کے مطابق عمل کریں گے اور اس سلسلہ میں مجلس شوریٰ (پارلمینٹ) عمال حکومت کے لئے ضابطہ اخلاق وضع کرے گی ۔
نمبر 6۔شریعت کی تدریس
مملکت مؤثر انتظامات کرے گی۔
1۔تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت کی مناسب سطحوں پرشریعت،اسلامی اصول قانون اور اسلامی قانون کے دیگر تمام شعبوں کی تدریس وتربیت کے لئے۔
ب۔"لاء" کالجوں کے نصاب میں شریعت پراسباق شامل کرنے کے لئے۔
ج۔عربی زبان کی تدریس کے لئے۔
د۔عدالتی نظام شریعت،اسلامی اصول فقہ اورافتاء میں باقاعدہ سندیافتہ افراد کی خدمات سے استفادہ کے لئے۔
نمبر 7۔تعلیم کو اسلامی بنانا۔
1۔مملکت اسلامی معاشرہ کی حیثیت سے جامع اور متوازن ترقی کے لئے اقدامات کرے گی تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ پاکستان کے نظام تعلیم کی اساس۔۔۔تعلیم،تدریس اور کردار سازی کی اسلامی اقدار پرقائم ہو۔
2۔تعلیم اور ذرائع ابلاغ عامہ کو اسلامی سانچہ میں ڈھالنے کے لئے وفاقی حکومت،اس ایکٹ کے آغاذ نفاذ سے تیس دن کے اندر ایک کمیشن مقرر کرے گی جو ایسے ماہرین تعلیم،ماہرین قانون،ماہرین علماء اور منتخب نمائندوں پرمشتمل ہوگا جن کو وہ موزوں تصور کرے اور ان میں سے ایک کو اس کا چیئرمین مقرر کرے گی۔
3۔کمیشن کے کارہائے منصبی ذیلی دفعہ(1) میں محولہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے نظام تعلیم کا جائزہ لینا اور اس سلسلہ میں سفارشات پیش کرنا ہوں گی۔
4۔کمیشن کی سفارشات پرمشتمل رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کی جائے گی جو اسے مجلس شوریٰ(پارلمینٹ) کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کرنے کی موجب ہوگی۔
5۔کمیشن کو ہر لحاظ سے جس طرح وہ مناسب تصور کرے اپنی کاروائی کے انصرام اور اپنے طریقہ کار کے انضباط کا اختیار ہوگا۔
6۔جملہ انتظامی مقتدرات ،ادارے اور مقامی حکام کمیشن کی اعانت کریں گے۔
7۔وزارت تعلیم حکومت پاکستان اس کمیشن سے متعلق انتظامی امور کی ذمہ دار ہوگی۔
نمبر8۔معیشت کو اسلامی بنانا
1۔مملکت اس امر کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرے گی کہ پاکستان کے معاشی نظام کی تعمیر اسلامی معاشی مقاصد اصولوں اور ترجیحات کی بنیاد پر کی جائے۔
2۔وفاقی حکومت اس ایکٹ کے آغاذ نفاذ سے تیس دن کے اندر ایک کمیشن مقرر کرے گی جو ماہرین معاشیات ،بینکاروں ،ماہرین قانون،علماء،منتخب نمائندوں اور ایسے دیگر اشخاص پرمشتمل ہو گا۔جن کو وہ موزوں تصور کرے اور ان میں سے ایک کو اس کا چیئرمین مقرر کرے گی۔
3۔کمیشن کے کارہائے منصبی حسب ذیل ہوں گے:
الف۔ایسی تدابیر اور اقدامات بشمول موزوں متبادلات کی سفارش کرنا جن سے اسلام کا پیش کردہ معاشی نظام قائم کیا جاسکے۔
ب۔جیسا کہ دستور کے آرٹیکل (38) میں متصورہ ہے۔عوام کی سماجی اور معاشی فلاح وبہبود کے حصول کے لئے پاکستان کے معاشی نظام میں تبدیلیوں کے لئے ذرائع،وسائل اور حکمت عملی کی سفارش کرنا۔
ج۔کسی مالیاتی قانون یا محصولات اور فیسوں کے عائد کرنے اور وصول کرنے سے متعلق کسی قانون کا یا بنکاری اور بیمہ کے معمولات اور طریقہ کار کا یہ یقین کرنے کےلئے جائزہ لینا کہ آیا یہ شریعت کے منافی ہے یا نہیں؟اورایسے قوانین ،معمول اور طریقہ کار کو شریعت کے مطابق بنانے کے لئے سفارشات پیش کرنا اور
د۔معیشت کو اسلامی بنانے کی بابت ترقی کی فرد گذاشتوں اوررکاوٹوں کی ،اگر کوئی ہوں نشاندہی کرتے ہوئے نگرانی کرنا اور کسی مشکل کے ازالہ کے لئے متبادلات تجویز کرنا۔
4۔کمیشن مختصر ترین مدت میں معاشی سرگرمی کے ہر ایک شعبہ سے ربوا کے خاتمہ کے عمل کی نگرانی کرے گا۔اور حکومت کو ایسے اقدامات کی سفارش کرے گا۔جو معیشت سے کم ازکم ممکن مدت کے اندر ربوا کے مکمل خاتمہ کو یقینی بنائیں۔تاوقت یہ کہ مجلس شوریٰ(پارلمینٹ) کی طرف سے اس میں توسیع نہ کردی جائے۔
5۔کمیشن اپنی رپورٹیں باقاعدگی سے اور مناسب وقفوں سے وفاقی حکومت کو پیش کرے گا جو ان کو مجلس شوریٰ (پارلمینٹ) کے دونوں ایوانوں کے سامنےپیش کر ےگی۔اور وفاقی حکومت کی جانب سے اسلامی نظام معیشت کے قیام سے متعلق کسی سوال کاجواب بھی دے گا۔
6۔کمیشن کو ہر لحاظ سے جس طرح وہ مناسب تصور کرے اپنی کاروائی کے انصرام اوراپنے طریقہ کار کے انضباط کا اختیار ہوگا۔
7۔جملہ انتظامی مقتدرات،ادارے اورمقامی حکام کمیشن کی اعانت کریں گے۔
8۔وزارت خزانہ حکومت پاکستان سے متعلق انتظامی امور کی ذمہ دار ہوگی۔
نمبر9۔ذرائع ابلاغ عامہ اسلامی اقدار کوفروغ دیں گے۔
1۔مملکت ذرائع ابلاغ عامہ کے ذریعے اسلامی اقدار کو فروغ دینے کے لئے اقدامات کرے گی۔
2۔شریعت کے خلاف یا اس سے متصادم پرگراموں بشمول فحش مواد کی اشاعت اور اس کے فروغ کی ممانعت ہوگی۔
نمبر 10۔زندگی،آزادی املاک وغیرہ کی حفاظت۔
1۔شہریوں کی جان،آبرو،آزادی،جائیداداور حقوق کے تحفظ کےلئے مملکت انتظامی اقدامات کرے گی تاکہ:
الف۔انتطامی اور پولیس اصلاحات کی جائیں۔
ب۔دہشت پسندانہ ،تخریبی اور انتشار انگیز سرگرمیوں کی روک تھام کی جائے۔
ج۔ناجائز اسلحہ کو رکھنے اور اس کی نمائش کرنے کی روک تھام کیجائے۔
نمبر 11۔رشوت اور بدعنوانی کا خاتمہ:۔
مملکت۔۔۔رشوت،بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے خاتمہ کے لئے قانونی اورانتظامی اقدامات کرے گی اور مذکورہ جرائم کے لئے مثالی سزا قرار دے گی۔
نمبر (12) فحاشی،سوقیت وغیرہ کا خاتمہ:۔
مملکت کی طرف سے فحاشی ،سوقیت اوردیگر اخلاقی برائیوں کے خاتمہ کے لئے موثر قانونی اور انتظامی تدابیر اختیار کی جائیں گی۔
نمبر 13۔سماجی برائیوں کا خاتمہ:۔
مملکت امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے اصولوں پرجس طرح قرآن پاک میں ان کا تعین کیا گیا ہے،سماجی برائیوں کے خاتمہ اور اسلامی نیکیوں کو فروغ دینے والے قوانین وضع کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کرےگی۔
نمبر 14۔نظام عدل:۔
مملکت ۔۔۔قانون کی تاخیر،مختلف عدالتوں میں کثیر التعداد کاروائیوں،مقدمہ بازی کے اخراجات کو ختم کرکے اور عدالت کی طرف سے سچائی کی جستجو کو یقینی بناتے ہوئے ایک اسلامی نظام انصاف قائم کرنے کے لئے مناسب اقدامات کرے گی۔
نمبر15۔بیت المال (بہبود فنڈ)
مملکت ۔۔۔غریب،محتاج،بے سہارا،معذور،ناکارہ،بیوگان،بتامی اور مفلسوں کی اعانت کے لئےایک بیت المال قائم کرنے کے اقدامات کرے گی۔
16۔نظریہ پاکستان وغیرہ کی حفاظت:۔
ایک اسلامی ریاست کے طور پر پاکستان کے نظریہ ،استحکام اور سالمیت کے تحفظ کے لئے مملکت قوانین وضع کرے گی۔
نمبر 17۔جھوٹے الزامات وغیرہ کے خلاف تحفظ:۔
مملکت۔۔۔جھوٹے الزامات،کردار کشی اور خلوت میں خلل اندازی کے خلاف شہریوں کی آبرو اورشہرت کی حفاظت کے لئے قانونی اور انتظامی اقدامات کرے گی۔
18۔بین الاقوامی مالی ذمہ داریاں وغیرہ:۔
اس ایکٹ میں شامل کسی امر یا اس کے تحت دیئے گئے کسی فیصلہ کے باجود اس ایکٹ کے آغاذ نفاذ سے پہلے یا بعد کسی قومی ادارے اور کسی بیرونی ایجنسی کے درمیان عائد کردہ یا عائد کی جانے و الی ذمہ داریاں اور کئے گئے یا کئے جانے والے معاہدے مؤثر،لازم اور قابل عمل رہیں گے جب تک کہ متبادل معاشی نظام کا استنباط نہ ہوجائے۔
تشریح۔اس دفعہ میں (قومی ادارے) کے الفاظ میں وفاقی حکومت یا کوئی صوبائی حکومت،کوئی قانونی کارپوریشن ،کمپنی،ادارہ،تجارتی ادارہ اور پاکستان میں کوئی شخص بھی شامل ہوں گے اور "بیرونی ایجنسی" کے الفاظ میں کوئی بیرونی حکومت،کوئی بیرونی مالی ادارہ،بیرونی مالی منڈی،بشمول بنک اور کوئی بھی قرض دینے والی ایجنسی بشمول کوئی شخص اور مال وخدمات کا مہیا کنندہ شامل ہوگا۔
نمبر ۔19۔موجودہ ذمہ داریوں کی تکمیل:۔
اس ایکٹ میں شامل کوئی امر یا اس کے تحت دیا گیا کوئی فیصلہ کسی عائد کردہ مالی زمہ داری کے جواز پر اثر انداز نہیں ہوگا۔بشمول ان ذمہ داریوں کے جو وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت یا کسی مالی یا قانونی کارپوریشن یا د یگر ادارے نے یا اس کی جانب سے کسی دستاویزات کے تحت واجب کی ہوں۔خواہ معاہداتی ہوں یا بصورت دیگر ہوں۔یا ان میں متصورہ ادائیگی کے وعدے کے تحت ہوں اور یہ تمام ذمہ داریاں،وعدے اور مالی پابندیاں قابل عمل،لازم اور مؤثر رہیں گی جب تک کہ کسی متبادل معاشی نظام کا کا استنباط نہ ہو۔
عورتوں کے حقوق متاثر نہیں ہوں گے:۔
نمبر 20۔اس ایکٹ میں کسی امر کے شامل ہونے کے باوجود خواتین کے حقوق،جیسا کہ آئین میں اس کی ضمانت دی گئی ہے متاثر نہیں ہوں گے۔
قوانین صرف مجلس شوریٰ(پارلمینٹ) اور صوبائی اسمبلیاں ہی وضع کریں گی۔
نمبر 21۔اس ایکٹ میں شامل کسی امر یا عدالت بشمول عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے باوجود مجلس شوریٰ (پارلمینٹ) اورصوبائی اسمبلی جو بھی صورت حال ہو،بلاشرکت غیرے تمام قانون وضع کریں گی۔اور آئین میں وضع کردہ طریقہ کار سے ہٹ کر نہ تو کوئی قانون بنایا جائے گا اور نہ ہی و ہ قانون متصور ہوگا۔
قواعد وضوابط:۔
22۔وفاقی حکومت سرکاری جریدے میں اعلان کے ذریعے اس ایکٹ کی اغراض کی بجا آوری کے لئے قواعد وضع کرسکے گی۔