مسئلہ شہادت نسواں چند اہم نکات کی وضاحت

جون 1989ءمیں وفاقی شرعی عدالت کے لاہور سیشن میں تقریباً دو ہفتے مسئلہ شہادت نسواں پر بحث جاری رہی،درخواست گزاروں کامؤقف یہ تھاکہ حدود آرڈیننس میں حدود کے معاملات میں عورت کی گواہی کو جو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے۔وہ صحیح نہیں ہے۔اس معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوناچاہیے۔

تمام مکاتب فکر کے جید علماء کے علاوہ تجدد پسندوں اور مغرب زدہ افراد کو بھی دعوت خطاب دی گئی۔اور فاضل عدالت نے بڑے صبر وتحمل سے سب کی باتیں سنیں۔متجددین منحرفین میں ایک جاوید غامدی صاحب بھی تھے۔انہوں نے نہ صرف شہادت نسواں کے مسئلے میں مغرب زدگان کی ہمنوائی کی بلکہ اپنے بیان اور خطاب میں اور بھی کئی اسلامی مسلمات کا انکار اور قرآن کریم کی معنوی تحریف کاارتکاب کیا۔

راقم بھی اس بحث میں فاضل عدالت کی خواہش پرچونکہ مکمل طور پرشریک رہا تھا۔اس لئے غامدی صاحب کابھی پورا بیان سننے کا موقع ملا۔ان کے بیان کے بعد راقم نے فاضل عدالت کو خطاب کرکے کہا کہ غامدی صاحب نے تمام اسلامی مسلمات کاانکار کیا ہے۔اس لئے ہمیں اس بیان پربحث کرنے اور اس کا جواب دینے کا موقع دیا جائے۔لیکن اس وقت کے چیف جسٹس صاحب نے اس درخواست کو درخور اعتناء نہیں سمجھا۔

راقم نے یہ دیکھتے ہوئے کہ فاضل عدالت بوجوہ مذید وقت دینے کو مناسب خیال نہیں کرتی تو راقم نے اپنے اس مفصل بیان کے علاوہ جو فاضل عدالت میں تحریری طور پر غامدی صاحبسے پہلے پیش کرچکا تھا۔ذیل کی تحریرتیار کی۔اس میں غامدی صاحب اور ان جیسے بعض دوسرے منحرفین کے پیش کردہ دلائل کا مختصر جائزہ لیا۔اور انکے مؤقف کی کمزوری اور ان کے استدلال کے پائے جو بیں کی بے تمکینی کو واضح کیا۔(یہ تحریر بھی اس وقت فاضل عدالت میں پیش کردی گئی تھی)

نومبر 1990ء کے "اشتراق" میں جناب غامدی صاحب نے اپنے اس بیان کا خلاصہ شائع کردیا ہے۔جو انہوں نے فاضل عدالت کے روبرو پیش کیا تھا چونکہ انہوں نے اپنا یہ خلاصہ شائع کردیا ہے۔اس لئے اس کے جواب میں جو تحریر شرعی عدالت کو ارسال کی گئی تھی۔ہم بھی افادۃ عام کی خاطر اسے محدث میں شائع کرارہے ہیں۔

اس تحریر میں قارئین شاید کچھ تشنگی اور ابہام محسوس کریں کیونکہ یہ تحریر خاص پس منظر میں لکھی گئی ہے جس میں اصل مسئلہ کی بجائے مخصوص نکات ہی پیش نظر رہے ہیں اصل مسئلہ پر راقم کامفصل مقالہ ماہنامہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن میں بالا اقساط شائع ہورہاہے۔(صلاح الدین یوسف)

مسئلہ شہادت نسواں پر،جو فاضل عدالت میں زیر بحث ہے دو مؤقف پیش کئے گئے ہیں اتفاق سے اس دفعہ گزشتہ چند دنوں میں لاہور میں جو بحث ہوئی اسے راقم کو سننے کاموقع ملا۔اس سے الحمدللہ راقم کو اس موقف کی صداقت پر مذید یقین حاصل ہوا جو چودہ سوسال سے علماء وفقہائے امت کا رہا ہے اور اب تک ہے۔

علاوہ ازیں قرآن فہمی کے اس اصول کی صداقت بھی مذید نکھر کر سامنے آئی کہ قرآن کریم کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ایسی جو کوشش بھی ہوگی وہ سراسر گمراہی ہے کیونکہ اس سے نظریاتی انتشار اور فکری انارکی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

ایک تیسری چیز یہ بھی واضح ہوئی کہ علماء وفقہاء امت کا مسئلہ شہادت نسواں پر جو اتفاق ہے۔اس کی بھی واحد وجہ یہ ہے کہ ان حضرات نے آیات متعلقہ کا مفہوم ومطلب حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعین کیاہے۔جس کی وجہ سے وہ ان آیات کی تشریح وتوضیح میں کسی گنجلک کا شکار نہیں ہوئے بلکہ حیرت انگیز حد تک ان کے درمیان مماثلت وموافقت پائی جاتی ہے۔

اس کی وضاحت کے لئے پانچ ضمیمے شامل ہیں۔

اس کے برعکس جو دوسرا مؤقف پیش کیا گیا ہے۔اس کے پیش کرنے والوں نے بھی زبان کی حد تک اگرچہ اس موقف کااعادہ کیا ہے۔کہ حدیث کی حجیت کے وہ بھی قائل ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس زبانی دعوے کے بعد انھوں نے مؤقف جو پیش کیا ہے۔ وہ سراسر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف پر مبنی ہے۔اس لئے ان کا یہ دعویٰ کہ وہ حجیت حدیث کے وہ قائل ہیں۔مرزائیوں کے اس دعوے سے مختلف نہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے قائل ہیں۔

درآں حالیکہ کہ ختم نبوت کا وہ ایک ایسا مفہوم مراد لیتے ہیں کہ جس سے متبنی قادیاں کی نبوت کا اثبات بھی ہوسکے۔اگرمرزائیوں کادعویٰ ختم نبوت اس لئے تسلیم نہیں کہ وہ اس کا ایک من مانا مفہوم مراد لیتے ہیں اور اس مفہوم کو تسلیم نہیں کرتے جو امت کامتفقہ مسلک ہے۔تو پھر ان حضرات کا حجیت حدیث کے تسلیم کرنے کا دعویٰ کیونکر صحیح ہوسکتاہے۔جو حجیت حدیث کا ایک خود ساختہ مفہوم مراد لیتے ہیں اور وہ مفہوم مراد نہیں لیتے جو اس کا حقیقی مفہوم ہے اور جسے پوری امت کے علماء وفقہاء تسلیم کرتے آئے ہیں۔

قرآن فہمی کے اصول میں اس بنیادی اختلاف کی وجہ سے ان حضرات نے آیات ذیر بحث کا مفہوم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً بے نیاز ہوکر محض اپنے زور فہم سے متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔جس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ انھوں نے تمام مسلمات کا ہی انکار کردیا ہے۔

علاوہ ازیں ان حضرات کا مؤقف بھی ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہے۔ایک دوسرے کے متضاد ہے۔ گویا ایک متفقہ مؤقف سے انحراف کرکے انھوں نے کوئی ایک واضح مؤقف پیش کرنے کی بجائے اختلاف وانتشار کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ اور یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف کا وہ لازمی ومنطقی نتیجہ ہے جو ہر صورت نکلتاہے اور ہمیشہ نکلے گا۔

اپنی اس بات کو اب میں چند مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ میرا نقطہ نظر نمایاں ہوسکے۔

آیت﴿وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ﴾ میں فاحشہ سے کیا مراد ۔صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین ؒ سے لے کر آج تک مفسرین،محدثین ،علماء وفقہہا نے کہا ہے کہ یہاں اس سے مراد بے حیائی کی وہ قبیح ترین صورت ہے جسے زنا کہا جاتاہے۔ کیونکہ اس کی و ضاحت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث میں آگئی ہے۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےکہ آیت مذکورہ میں جس سبیل کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا وہ سبیل واضح کردی ہے۔اور وہ یہ ہے کہ شادی شدہ زانی کو اور غیر شادی شدہ زانی کو کو ڑے۔(فاحشہ کی تعین میں مفسرین امت کے اتفاق کےلئے ملاحظہ ہوضمیہ(نمبر1)

اس حدیث نے یہاں فاحشہ کے مفہوم کو متعین اور اس جرم کے اثبات کے لئے چار مسلمان مرد گواہوں کو ضروری قرار دے دیا ہے۔کیونکہ نصاب شہادت تو یہاں قرآن نے ہی بیان کردیا ہے۔جس کا اعادہ سورہ نور کی آیت﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا﴾ (نمبر 4) میں بھی کیا گیا ہے اور زنا کی حد بالخصوص شادی شدہ زانی مرد وعورت کی حد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سبیل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمادی گئی ہے۔چنانچہ مذکورہ حدیث کی وجہ سے تمام مفسرین امت اور تمام علماء وفقہاء مذکورہ حد زنا اورنصاب شہادت کو تسلیم کرتے ہیں۔حتیٰ کہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب جنھوں نے امت میں سب سے پہلے حد رجم کا بطور حد انکار کیا،وہ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آیات مذکورہ میں بیان کردہ تعزیرات اگرچہ سورہ نور میں نازل شدہ حدود کے بعد منسوخ ہوگئیں لیکن بدکاری کے معاملے میں شہادت کا یہی ضابطہ بعد میں باقی رہا۔(ملاحظہ ہوتفسیر تدبرقرآن)ج2،ص37)

اس کے برعکس جن لوگوں نے حدیث مذکور(حدیث عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو نظر انداز کردیا ہے ان کا باہمی اختلاف وتضاد ملاحظہ ہو۔

ایک صاحب نے کہا ہے کہ فاحشہ سے مراد صرف زنا نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی بے حیائی مراد ہے اور ہر قسم کی بے حیائی کےلئے چار گواہوں کی ضرورت ہے۔

دوسرے(غامدی) صاحب نے کہا کہ اس سے مراد زنا نہیں ہے بلکہ نہ اس میں زنا کی سزا بیان کی گئی ہے۔بلکہ اس میں استمراء کا مفہوم پایا جاتا ہے۔

جس کی وجہ سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ جو پیش ورطوائفیں ہیں ان کی اس میں سز ا بیان کی گئی ہے۔عام بدکارعورتوں کی یہ سزا نہیں ہے گویا پہلے صاحب نے اسے بالکل عام کردیا اور دوسرے صاحب نے بالکل خاص کردیا۔

علاوہ ازیں پہلے صاحب نے اس آیت کو محکم (غیر منسوخ) قرار دیا۔اور دوسرے صاحب نے اسے ایک عبوری حکم باور کرایا جو بعد میں آیت﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا﴾ سے منسوخ ہوگیا۔

پھر ان صاحب نے مذید ظلم یہ ڈھایا کہ محض اپنے نقطہ نظر کے اثبات کے لئے حضرت ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت غامدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسے پاکباز صحابہ وصحابیہ کو غنڈہ،پیشہ وعر بدمعاش اور طوائد باورکرایا«نعوذ بالله من هذه الهذيانات والخرافات» درآں حالیکہ و ہ دونوں نہایت نیک اورمخلص مسلمان تھے جن سے بتقاضائے بشریت غلطی کا صدور ہوگیا تھا اور جس نے انھیں بے قرار اور مضطرب کردیا تھا۔(اس کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو راقم کی کتاب حد رجم کی شرعی حیثیت۔صفحات 56۔66)

پھر اس پر ہی بس نہیں کی گئی۔یہ دعویٰ بھی ان صاحب نے کیا کہ قرآن وحدیث میں کہیں سرے سے ثبوت زنا کے لئے چار گواہوں کا ہی ذکر نہیں ہے۔اس لئے اثبات زنا کے لئے چار گواہوں کا نصاب ہی غیرضروری ہے۔زنا تو ایک گواہ بلکہ ایک بچے کی شہادت ،بلکہ بغیر کسی شہادت کے قرائن کی بنیاد پر بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

1۔اسی طرح موصوف نے حد اور تعزیر کے مابین فرق کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

2۔اور آیت﴿وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ الْمُحْصَنَاتِ﴾ کہ بابت ارشاد فرمایا گیا کہ اس میں ان لوگوں کی بابت سزا بیان کئی گئی ہے۔جو بیٹھے بٹھائے یوں ہی بغیر کسی واقعے کے صدور کے کسی پر بدکاری کی تہمت لگادیں،اس کا تعلق زنا کے اس الزام سے نہیں ہے۔جس کا فی الواقع ارتکاب کیا جاچکا ہو،کیونکہ اس کے ثبوت کے لئے تو کسی متعین نصاب شہادت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

موصوف کی یہ تمام باتیں قرآن وحدیث کی واضح نصوص کے خلاف ہیں۔اور جیسا کہ خود موصوف نے تسلیم کیا ہے کہ"کہ اُمت میں پہلا فرد ہوں جس کی یہ رائے ہے حتیٰ کہ اس رائے میں میں اپنے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے بھی مختلف ہوں۔"

موصوف نے جو موقف اختیار کیا ہے اس کے دلائل پرتو آگے بحث آئے گی،یہاں فی الحال اس پہلو کی وضاحت مقصود ہے کہ فقہائے امت کے متفقہ مسلک سے انحراف نے جو دراصل حجیت حدیث کے انکار پر مبنی ہے۔موصوف کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔اور کتنے فخر اور تعلی سے وہ پوری امت میں اپنے منفرد ہونے کا اعلان فرمارہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ا س زیغ وضلال اور من شذا شُذا۔۔۔کا مصداق بننے سے بچائے!

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور متضاد کی طرف توجہ مبذول کرادی جائے جو مذکورہ حضرات کےباہمی موقف میں پایا جاتا ہے ۔اور وہ ہے آیت مدائنہ کے مفہوم میں۔ایک صاحب نے یہ کہا کہ اس آیت میں مسلمانوں کو باہمی قرض کا معاملہ کرتے ہوئے جو ہدایت کی گئی ہے۔ کہ وہ اسے ضبط تحریر میں ضرور لائیں۔نیز اس پردو مرد گواہ یا ایک مرد اوردو عورتوں کو گواہ بنالو۔یہ حکم ایسا ہے کہ جو لین دین ضبط تحریر کے بغیر ہوگا۔ا س کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔اور اس قسم کے کسی معامالت کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکے گا۔ اس کے برعکس غامدی صاحب نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔کہ اموال ودیون میں پیش کردہ مذکورہ ہدایت محض اخلاقی تعلیم ہے۔ کوئی اصول ضابطہ اور متعین نصاب شہادت نہیں ہے۔کیونکہ بہت سے لوگ لکھنے اور گواہ بنانے کا اہتمام نہیں کرتے۔اگر اسے اصول اور کلیہ مان لیاجائے گا۔تو ایسے بہت سے لوگوں کی دادرسی کا اہتمام ناممکن ہوگا۔

حالانکہ یہ دونوں ہی موقف غلط ہیں۔یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ ا گر معاہدے کی تحریر نہیں ہوگی تو وہ معاہدہ ہی کالعدم سمجھا جائے گا۔اس طرح تو بے شمار لوگوں کے حقوق ضائع ہوں گے۔اسی طرح اس مفروضے پر کہ اس طرح تو بہت سے حقوق ضائع ہوں گے سرے سے قرآن کے بیان کردہ اصول اور ضابطے کا انکار ہی کردینا معقول طرز عمل نہیں ہے۔

ان دونوں موقفوں میں جو اگرچہ ایک دوسرے سے یکسر متضاد ہیں۔بنیادی طور پر ایک ہی مفروضہ کار فرما ہے کہ اگر معاہدہ تحریری نہ ہواتو پھر جھگڑے کی صورت میں اس کے ثبوت کی کوئی صورت نہ ہوگی۔حالانکہ اس قسم کی صورتوں کے لئے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک حل موجود ہے۔اور وہ یہ ہے کہ اگر مدعی کے پاس کوئی ثبوت اورگواہ نہیں ہے تو مدعیٰ علیہ سے قسم طلب کی جائے گی اورقسم پر فیصلہ کیا جاسکے گا۔نیز ایک گواہ کم ہونے کی صورت میں ایک قسم سے اس کمی کو پورا کیا جاسکے گا۔گویا یہاں بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے اعتنائی بلکہ گریز وانحراف نے دونوں فریقوں کو عجب مخمصے اور پیچیدگی میں مبتلا کردیا ہے یہاں اس مثال کے پیش کرنے سے مقصود بھی ان کے اسی نظریاتی انتشار کی وضاحت سے جو حجیت حدیث کے انکار کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے۔

غامدی صاحب کے دلائل کی حقیقت:۔

اب میں مختصراً غامدی صاحب کے دلائل کی وضاحت کرکے ان کے استدلال کی کمزوری نمایاں کرو ں گا،کیونکہ بعض حضرات ان کے ادعائی رویوں کی وجہ سے) موصوف کے دلائل اور دعاوی میں قوت محسوس کررہے ہیں۔اس لئے نہایت ضروری بلکہ فرض منصبی ہے۔کہ میں اس پر بھی کچھ گزارشات پیش کروں:۔

1۔موصوف نے يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ میں استمراء کا مفہوم لیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد پیشہ ورطوائف ہیں،حالانکہ یہ دعویٰ ایک طرف تمام مفسرین امت کی متفقہ رائے کے خلاف ہے۔(اس کی تفصیل ضمیمہ نمبر 1 میں ملاحظہ فرمائیں)دوسرے خود قواعد عربیہ کی رو سے بھی غلط ہے۔ کیونکہ یہاں استمرار پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ ہی نہین ہے۔جب ایسا ہے تو اس میں استمرار کا مفہوم کیونکہ تسلیم کیا جاسکتاہے۔یہ ٹھیک ہے کہ بعض دفعہ عام قاعدہ یعنی فعل مضارع پر کاَنَ کے بغیر بھی (جو استمرار کا عام قاعدہ ہے)استمرار ہوسکتا ہے۔لیکن اس کے لئے قوی قرینہ ضروری ہے۔بغیر کسی قرینے کے استمرار کا مفہوم مراد نہیں لیا جاسکتا ۔

جیسے قرآن مجید میں ہے:

﴿وَإِذا لَقُوا الَّذينَ ءامَنوا قالوا ءامَنّا وَإِذا خَلَوا إِلىٰ شَيـٰطينِهِم قالوا إِنّا مَعَكُم ... ﴿١٤﴾... سورةالبقرة

"جب منافقین اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایماندار ہیں اور جب اپنے سرداروں سے ان کی ملاقات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔"

حافظ جلال الدین سیوطی ؒ لکھتے ہیں کہ یہاں قرآن مجید میں لفظ اذا جو ماضی کے صیغے پرداخل ہوا ہے استمرار کے لئے ہے۔اي ان هذا شانهم ابدا (یعنی ہمیشہ وہ اسی کردار کامظاہرہ کرتے ہیں۔)

حافظ سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ﴿وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ﴾ (منافقین جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔تو سست سست کھڑے ہوتے ہیں۔)اس آیت میں بھی اذا استمرار کے لئے ہے۔(ملاحظہ ہوالاتقان ج1،ص49،طبع 1935 طبع مصر)

اس لئے جب تک يَأْتِينَ میں استمرار کے لئے کوئی لفظ یا واضح قرینہ نہیں ہوگا۔خالی لفظ مضارع کو استمرار کے مفہوم میں نہیں لیا جاسکتا۔اس لئے موصوف کا دعویٰ عربی زبان کے مسلمہ اصول وقواعد کے بھی خلاف ہے۔

2۔موصوف نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ شهداء کا لفظ أَزْوَاجَ کی طرح مشترک ہے،اس لئے أَرْ‌بَعَةً شهداءسے صرف چار مردوں کی تخصیص صحیح نہیں،اس میں مرد اور عورت دونوں شامل سمجھے جائیں گے۔لیکن موصوف نے یہ نہیں سوچا کہ علماء وفقہائے امت کا اصل استدلال سورہ نساء میں وارد لفظ أَرْ‌بَعَةً مِّنكُمْ سے ہے۔جس میں عدد معدود کے کے مسلمہ اصول کے مطابق چار مرد گواہ ہی اس جرم کے اثبات کے لئے ضروری ہوں گے۔اس لئے لفظ شهداءکو مشترکہ جان لینے کے باوجود سورہ نساء میں وار دلفظ أَرْ‌بَعَةً میں عدد معدود کے اصول کے مطابق جب تک کسی مضبوط دلیل سے أَرْ‌بَعَةً کو بھی مشترک ثابت نہ کردیا جائے۔لفظ شهداءکے مشترک ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔کیونکہ ﴿فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْ‌بَعَةً مِّنكُمْ﴾ کا انداز مبتلا رہا ہے کہ یہاں محذوف رجال ہی ہے۔شهداءنہیں ہے۔اس لئے مفسرین امت نے بالاتفاق اس سےاربعة رجال ہی جو مراد لیا ہے۔وہ یقیناًمنشائے الٰہی کے مطابق ہے۔جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ تمام مفسرین امت نے یہاں رجال ہی کی تخصیص کی ہے۔اس کے لئے ضمیمہ نمبر2 ملاحظہ فرمالیا جائے۔

مفسرین امت کا یہ اتفاق اور فقہاء کا اجماع منشائے الٰہی کو سمجھنے کے لئے ایک دلیل قطعی ہے۔اگریہ غلط ہوتا اور اللہ تعالیٰ کامنشاء یہاں صرف مردوں کی تخصیص نہ ہوتا تو یقینا یہ اجمائےامت متصور نہیں کیا جاسکتاتھا۔جو کہ فی الواقع موجودہے۔کیونکہ یہ ایک غلط بات اور منشائے الٰہی کے خلاف اجماع ہوتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی۔

اس بناء پر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مفسرین امت اور فقہائے کرام سے فہم قرآن میں غلطی بھی ہوگئی ہو اور پھر اس پر اجماع بھی ہوجائے۔اگر ان کے فہم میں غلطی ہوتی تو یقیناً اس میں اختلاف ہوتا اور کچھ نہ کچھ لوگ ضرور دوسری رائے کے حامل بھی ہوتے،جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے،کہ میری امت میں ایک گروہ ضرور حق پررہے گا،کسی ایک مفسر یا کسی ایک فقیہہ کا بھی اربعة رجال میں اختلاف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ فہم وتفسیر منشائے الٰہی کے مطابق ہے۔

لفط اربعۃ سے کسی طرح اربعۃ رجال مسلم ہے ،اس کے لئے امام شافعی ؒ کی کتاب"الام سےایک اقتباس قابل ملاحظہ ہے:۔

[قال الشافعي]: رحمه الله فلا يجوز في الزنا الشهود أقل من أربعة بحكم الله عز وجل ثم بحكم رسوله فإذا لم يكملوا أربعة فهم قذفة، وكذلك حكم عليهم عمر بن الخطاب فجلدهم جلد القذفة ولم أعلم بين أحد لقيته ببلدنا اختلافا فيما وصفت من أنه لا يقبل في الزنا أقل من أربعة وأنهم إذا لم يكملوا أربعة حدوا حد القذف وليس هكذا شيء من الشهادات غير شهود الزنا. (الام ج٦ ص١٢٢)

اس اقتباس میں چار دفعہ اربعۃ کا لفظ آیا ہے اور کہیں بھی اس کی وضاحت لفظ رجال سے نہیں کی،کیونکہ عدد معدود کے مسلمہ اصول کی رو سے اربعۃ سے مراد اربعۃ رجال ہی ہو سکتا ہے کچھ اور نہیں۔

حد زنا کے ثبوت کے لئے کوئی متعین نصاب شہادت نہیں؟

3۔تیسرا دعویٰ (غامدی صاحب کی طرف سے) یہ کیا گیا ہے کہ الزام زنا کے ثبوت کے لئے قرآن وحدیث میں کہیں بھی نصاب شہادت کا تعین نہیں کیا گیا ہے ۔اس لئے چار گواہوں کو ضروری قرار دینا ہی سرے سے غلط ہے۔الزام زنا کے ثبوت کے لئے ایک گواہ بھی کافی ہے۔بلکہ قرآئن کی بنیاد پر بھی زنا کی سزاد دی جاسکتی ہے۔

یہ دعویٰ بھی اگرچہ بڑے تحدی کے انداز میں گیا گیا ہے ،قرآن وحدیث کی واضح نصوس کے خلاف ہے،جیسا کہ آیت ﴿وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ﴾ میں چار گواہوں کو ضروری قراردیا گیا ہے ۔اور پھر اس کی تاکید سورہ نور کی آیت وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ الْمُحْصَنَاتِمیں کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں آیت نور﴿وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ أَزْوَاجَهُمْ﴾ کی شان نزول سے متعلقہ صحیح روایات میں بھی چار گواہوں کی تعین کی گئی ہے۔

قرآن وحدیث کی ان واضح نصوص سے امت کے تمام مفسرین علما،اور فقہاء محدثین نے یہی سمجھا ہے۔کہ ثبوت حد زنا کے لئے(اگر مجرم کا اپنا اقرار واعتراف نہ ہو) تو چارگواہ ضروری ہیں۔ اس نصاب شہادت کے انکار کا صاف مطلب یہ ہے کہ امت کے تمام فقہاء ومحدثین (نعوذ باللہ۔ثم نعوذ باللہ) قرآن وحدیث کے فہم سے یکسرعاری تھے کہ ایک ایسی چیز کو انھوں نے لازمی اور ضروری سمجھا جس کا قرآن وحدیث میں سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔

وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ الْمُحْصَنَاتِ کی دوراز کا رتاویل:۔

4۔یہ موقف چونکہ قرآن کریم کی نص صریح ﴿وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ الْمُحْصَنَاتِ﴾ سے ٹکراتا ہے۔

اس لئے اس آیت کی یہ دور دراز کارتاویل کی گئی کہ ا س سے مراد وہ لوگ ہیں جو بیٹھے بٹھائے یوں ہی(بغیر واقعے کے) کسی پاک دامن پر زنا کی تہمت لگا دیتے ہیں۔یعنی صدور زنا کے بغیر جو لو گ کسی پریوں ہی تہمت لگادیتے ہیں۔اس کے لئے چار گواہ ضروری ہیں۔لیکن اگر فی الواقع زنا کا صدور ہوچکا ہوتو اس کے ثبوت کے لئے چار گواہ ضروری نہیں ہیں۔بغیر گواہوں کے بھی اس کا اثبات کیا جاسکتا ہے۔یا ایک گواہ کے بیان پر بھی حدزنا عائد کی جاسکتی ہے صرف عدالت کا اطمینان کافی ہے۔متعین نصاب شہادت ضروری نہیں ہے۔

یہ تاویل اپنی ر کاکت اور بدے پن میں بالکل واضح اور ۔عیاں راچہ بیان،کی مصداق ہے۔قرآن کریم کے الفاظ اس بودی تاویل کو کسی طرح قبول نہیں کرتے۔

الزام کی دو نوعتیں بنادی گئی ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس کا تعین کون کرے گا۔یہ الزام فی الواقع ایک صحیح الزام ہے۔یا یوں ہی محض بیٹھے بٹھائے لگا دیا گیا ہے؟آخر الزام لگانے کے بعد ہی عدالت ثبوت طلب کرے گی۔اگر یہ دو الگ الگ جرم ہیں تو عدالت کسی جرم کے تحت چبوت مانگے گی؟محض تہمت کے اثبات کے لئے یا الزام زنا کے کے ثبوت کے لئے؟پہلی صورت کے چارگواہوں کا پیش کرنا ضروری ہوگا،جبکہ دوسری صورت کے لئے سرے سے متعین نصاب شہادت ہی ضروری نہیں ہے۔ا س کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ محض تہمت زیادہ بڑا جرم ہے کہ اس کے ثبوت کے لئے تو چار گواہ ضروری ہیں۔اگر یہ مہیا نہی کیے جائیں گے تو تہمت لگانے والوں کو اسی اسی کوڑے لگائے جائیں گے۔اور الزام زنا(جو صدور زنا کے بعد عائد کیا گیا ہو) وہ ہلکا جرم ہے جس کے لئے شہادست کا کوئی نصاب ہی نہیں ہے۔

علاوہ ازیں اس موقف کی کمزوری اس سے بھی واضح ہے کہ اگر فی الواقع مسئلے کی نوعیت ایسی ہی ہوتی جیسی کہ غامدی صاحب نے بیان کی ہے تو پھر لعان کی مشروعیت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ہے۔کیونکہ لعان کی صورت اس و قت پیش آتی ہے۔کہ جب خاوند اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو کسی اور مرد کے ساتھ بدکاری کرے ہوئے دیکھتا ہے۔لیکن اس کی مشکل یہ ہے کہ وہ چار عینی گواہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔نیز بیوی کی بدکاری کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد اس کی غیرت بھی اس کو اپنے پاس رکھنا گوارا نہیں کرتی۔شریعت نے اس کی مشکل کا یہ حل پیش کیا کہ وہ اس صورت میں لعان کرکے بیوی سے علیحدہ ہوجائے۔

اب اگر زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہ ضروری نہیں ہیں۔بلکہ ایک گواہ بھی کافی ہے تو بیوی کی بدکاری پر خاوند سے بڑھ کر اور کون گواہ ہوسکتا ہے؟اگر ثبوت زناکے لئے ایک اورگواہ بھی کافی ہوتی تو خاوند کی گواہی پر بیوی پر زنا کی حد عائد ہونی چاہیے تھی۔لیکن شریعت نے ایسا نہیں کیا بلکہ خاوند کو بھی یہی حکم دیا کہ وہ چار گواہ پیش کرے بصورت دیگر لعان کرے۔

لعان کی مشروعیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ثبوت زنا کے لئے چار گواہ ضروری ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تواللہ تبارک وتعالیٰ لعان کا حکم ہی نازل نہ فرماتا،کیونکہ لعان کا تو حکم ایک ہی گواہ کی موجودگی ایک ہی گواہ کی موجودگی کے باجود مشروع کیا گیا ہے۔اور اس ایک گواہی کو ثبوت زنا کے لئے کافی نہیں سمجھاگیا۔

موصوف نے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حد اورتعزیر میں کوئی فرق نہیں ہے۔یہ دعویٰ بھی امت کے اجماعی موقف سے انحراف ہے تاہم موصوف یہ دعویٰ کرکے آگے گزر گئے۔اور اس سلسلے میں کوئی د لائل پیش نہیں کیے۔اس لئے فی الحال اس پر بحث ممکن نہیں ۔یہاں اس وقت اس کا ذکر اس لئے کردیا گیا ہے تاکہ موصوف کی تنہا روی کی روش مذید نمایاں ہوکر سامنے آجائے۔

مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں؟

5۔موصوف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔جو احکام مسلمانوں کےلئے ہیں وہی اسلامی مملکت میں رہنے والے غیر مسلموں کے لئے بھی ہیں۔اس لئے اسلام کے تعزیری نظام کے دائرے سے وہ باہر نہیں ہوں گے۔یہ موقف بھی فقہائے امت کے متفقہ اور اجماعی مسلک سے مختلف ہے۔غیر مسلم جس طرح عبادات میں اسلامی احکام کے پابند نہیں ہیں۔اسی ط ح وہ بہت سے احکام میں اسلامی شریعت کے پابند نہیں ہیں۔اور انہی احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زنا کے گواہوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔غیر مسلموں کی گواہی پر زنا کی حد عائد نہیں ہوگی،البتہ تعزیری سزا دی جاسکتی ہے۔اور تعزیری سزا قتل تک بھی ہوسکتی ہے۔

اس پر اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ جہاں مسلمان گواہ میسر آنے کا امکان نہ ہو،وہاں پھر گویا ایک اسلامی مملکت میں زنا کی اجازت ہوگی کیونکہ غیر مسلموں کی گواہی پر توحد زنا عائد ہی نہیں ہوسکے گی۔

لیکن راقم کے خیال میں غیر مسلموں کی شہادت پرحد زنا کے عدم نفاذ کا مطلب زنا کی اجازت لینا صریحاً زیادتی ہے۔اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ ایسے علاقوں میں جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہو،وہاں زنا کی عام اجازت ہوگی اس کے وجوہ بھی حسب ذیل ہیں:۔

اولاً ایک تو اسلامی مملکت میں جہاں صحیح معنوں میں اسلام کا نظام حدود وتعزیرات نافذ ہو،جرائم کاایسا سد باب ہوجاتا ہے۔ کہ وہاں زنا کاری کی کسی کو جرائت نہیں ہوتی اس لئے وہاں مذکورہ اعتراض کی حیثیت ایک مفروضے سے زیادہ نہیں ہے۔

ثانیاً یہی اعتراض اسلام کے مقررہ نصاب شہادت پر بھی عائد ہوسکتا ہے کہنے والا کہہ سکتاہے۔کہ اسلام نے ثبوت زنا کے لئے چار عینی گواہوں کو جو ضروری قرار دیا ہے۔وہ اتنا کڑا معیار ہے کہ عملاً چار عینی گواہوں کا مہیا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی مملکت میں جہاں دو تین گواہ ہوں وہاں زنا کی عام اجازت ہے۔صرف چارآدمیوں کی موجودگی میں احتیاط کی ضرورت ہے۔کیا اسلام کے اس کڑے معیار کو زنا کی اجازت سے تعبیر کرنا صحیح ہوگا؟

اگر یہ تعبیر صحیح نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے۔تو پھر گواہوں کے لئے مسلمان ہونے کی شرط کو زنا کی اجازت سے تعبیر کرنا بھی کسی لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔اگرچار گواہوں کا نصاب صحیح ہے۔اوریقیناً صحیح ہے تو مسلمان ہونے کی شرط بھی صحیح ہے۔اس سے کوئی خاص فرق واضح نہیں ہوگا۔بنا بریں فقہائے امت نے متفقہ طور پر جو مسلمان ہونے کی شرط عائد کی ہے اسے محض مفروضوں کی بنیاد پر ختم نہیں کیا جاسکتا ۔فقہائے امت کا اس پر اتفاق ہے یا نہیں اس کے لئے ضمیمہ نمبر 2 ملاحظہ فرمالیا جائے)۔

مرد کی طرح عورت بھی الزام زنا عائد کرسکتی ہے:۔

اسی طرح ﴿وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ میں مِن نِّسَائِكُمْ ﴾سے یہ استدلال کرنا کہ جس طرح عورت کے ارتکاب زنا پر مرد شکایت کرسکتا ہے اسی طرح مرد کے ارتکاب زنا پر عورت بھی شکایت کرسکتی ہے۔یا ایک عورت دوسری عورت کی شکایت کرسکتی ہے۔اس لئے(مِن نِّسَائِكُمْ) صرف مردوں کےلئے خاص نہیں رہتا۔اسی طرح(اربعة منكم) بھی مردوں کے لئے یا مسلمانوں کے لئے ہی خاص نہیں رہنا چاہیے یہ صحیح نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سورۃ نساء کی اس آیت سے مذکورہ اصول کے کشید کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔کیونکہ فقہاء نے یہ بات﴿وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ الْمُحْصَنَاتِ﴾ (سورہ نور) کے تحت تسلیم کی ہے اور اس کا وہاں ذکر کیا ہے۔(دیکھئے ضمیمہ نمبر 4)اگرچہ اس آیت میں عورت کا مرد کے ساتھ الحاق کرنے کی وجہ میں اختلاف ہے۔کسی نے اشتراک علت کی بناء پرقیاس کے ذریعے سے الحاق کیا ہے۔اور کسی کے نزدیک قیاس کے بغیر ہی یہ چیز چونکہ اس کے معنی ومفہوم میں داخل ہے اسلئے یہ بات من باب كون الشئي في معني الشيئ کے تحت اس میں داخل ہے۔تاہم اس بات سے انکار کسی کو نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہو اکہ یہ بات بھی اجماع امت سے طے پاگئی ہے۔کہ جس طرح ایک مرد عورت پر الزام زنا (قذف) عائد کرسکتاہے ۔اسی طرح ایک عورت بھی یہ الزام عائد کرسکتی ہے۔اس لئے سورہ نساء کا صرف وہی مفہوم مراد لینا صحیح ہے۔جو اس کے ظاہری الفاظ سے واضح ہے۔اس میں مذید کسی اور کو داخل کرنا اور پھر اس کی بنیاد پرآیت کو اس کے ظاہری مفہوم سے نکال کر اس میں عموم پیدا کرنا صحیح نہیں ہے۔

آیت لعان میں شہادات باللہ کا مطلب حلف باللہ (قسم ) ہے۔

اسی طرح آیات لعان میں اربع شهادات بالله میں اصطلاحی شہادت مراد لے کر مرد وعورت کی گواہی کو برابر قراردینا بھی صحیح نہیں ہے۔اس لئے کہ یہاں شهادات بالله کے معنی قسموں کے ہیں۔کیونکہ شہادت تو ایک انسان دوسرے انسان کے بارے میں دیتاہے۔جبکہ یہاں بیوی جو شہادت دیتے ہیں۔وہ اپنے اپنے بارے میں ہے۔خاوند خود اپنے بارے میں چار مرتبہ حلف اٹھا کر یہ کہتا ہے کہ وہ اپنی بیوی پر جو الزام عائدکررہا ہے۔ اس میں وہ سچا ہے۔اور بیوی حد سے بچنے کےلئے چارمرتبہ حلف اٹھا کر یہ کہتی ہے کہ خاوند جھوٹاہے۔

علاوہ ازیں حدیث ر سول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اسے قسمیں ہی قرار دیا گیا ہے۔عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں لعان کا جو واقعہ ہو ا۔اس میں عورت جھوٹی تھی۔کیونکہ جب بچہ پیدا ہوا تو وہ خاوند کی بجائے زانی مرد کے مشابہ تھا۔اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ لولا الايمان لكان لي ولها شان اگر یہ عورت قسمیں نہ کھا چکی ہوتی تو سزا سے نہ بچ سکتی۔"

یہ حدیث اس بات پرصریح نص ہے۔ کہ اربع شهادات بالله میں قسمیں مراد ہیں اصطلاحی شہادت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو مفسرین امت اور فقہائے کرام بھی اس آیت سے وہ استدلال ضرور کرتے۔جو اب بعض لوگ اس سے کررہے ہیں۔اور پھر اس کی بنیاد پرمرد عورت کی گواہی کو برابر باور کررارہے ہیں دراں حالیکہ دونوں کی گواہی کر برابر قرار دینا قرآن وحدیث کی دوسری نصوص صریحہ سے بھی متصادم ہے۔اور یوں وہ القرآن يفسر بعضه بعضا قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے) کی بجائے القرآن يختلف بعضه بعضا (قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی مخالفت کرتا ہے) کااثبات کررہے ہیں۔

اس آیت کے استدلال کے ضمن میں۔۔۔راقم اپنے مفصل مقالے میں بھی بحث کرچکا ہے۔(ملاحظہ ہوصفحہ 70۔76)مذید تفسیری حوالوں کے لئے دیکھیئے ضمیمہ نمبر 5)

علاوہ ازیں لعان کی یہ شہادت(یا قسم) جو عورت ادا کرتی ہے۔ اس کا تعلق اثبات حد سے نہیں ہے۔درء حد (حد کے ٹالنے) کے لئے ہے۔جبکہ زیر بحث عورت کی وہ شہادت ہے جس سے اثبات حد ممکن ہوسکے۔اس میں چونکہ عورت کی شہادت سے شبہ پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہے۔نیز اسلام عورت کو اس عدالتی شہادت کی کھکیڑ میں ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا۔اس لئے ان کو اس فرض کی ادائیگی سے ہی سبکدوش کردیا گیا ہے۔الا یہ کہ کوئی واقعہ ایسا جگہ ہوجائے جہاں عورتوں کے سوا کوئی موجود ہی نہ ہو تو وہاں انکی شہادت کی بنیاد پر حد یاتعزیر کی سزا دی جاسکتی ہے۔

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعے سے استدلال:۔

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جس واقعے سے استدلال کیا جارہا ہے کہ ایک عورت کے ساتھ ایک مرد نے بالجبر زنا کا ارتکاب کیا۔اور اس عورت کی گواہی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملزم کو رجم کرنے کا حکم صادرفرمایا۔

اس حدیث کی بابت راقم نے پہلے بھی عرض کیا تھا۔ یہ سند اور متن کے لحاظ سے مخدوش اور مضطرب ہے۔امام ابن حزم ؒ نے بھی اسے غیر صحیح قرار دیا ہے۔ بعد میں ایک اور فاضل دوست نے بھی اس کے بعض راویوں پر جرح کرکے اس روایت کو ساقط الاعتبار ثابت کیا ہے۔

استنادی حیثیت سے اگر ہم صرف نظر بھی کرلیں،تب بھی اس سے وہ کچھ ثابت نہیں جس کے لئے اسے پیش کیا جارہا ہے ۔کیونکہ یہ روایت مسند احمد(ج6۔ص399) ابو داؤد(ج 4،ص542،طبع مصر) جامع ترمذی(ج4،ص56 طبع مصر) میں آئی ہے۔تینوں مقامات میں متن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مستغیثہ عورت کی نشاندہی پر کہ اس شخص نے میرے ساتھ یہ فعل کیا ہے۔مدعا علیہ خاموش رہا گویا اس کی خاموشی کو اقرار کے مترادف سمجھ کر اس کی بابت رجم کا حکم دیا گیا۔،محض ایک عورت کے استغاثہ،دعوے،یاشہادت پر ایسا حکم نہیں دیا گیا ۔جبکہ بنائے استدلال یہ ہے کہ مدعا علیہ کے انکار کے باوجود محض عورت کے بیان پر حکم رجم دیا گیا۔درآں حالیکہ مذکورہ کتابوں کے متن میں انکار کی صراحت نہیں ہے۔

البتہ سنن بیہقی میں وارد الفاظ سے انکار کا پہلو نکلتا ہے۔لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ صحت واستناد کے لحاظ سے ابو داود وترمذی اور مسند احمد سنن بیہقی سے فائق تر ہیں۔اور اس لحاظ سے بیہقی کا متن مرجوح اور دوسری کتابوں کا متن راجح اور قابل قبول قرار پائے گا۔علاوہ ازیں خودامام بیہقی ؒ نے اپنی روایت کردہ روایت کے متن کے مقابلے میں دوسرے متن ہی کو ترجیح دے کر دو ا حتمالات بیان کئے ہیں۔پہلا یہ کہ امر به کا مطلب ہے۔ کہ تعزیر کا حکم دیا ،(رجم کا نہیں) دوسرا احتمال یہ ہے کہ عورت کے ساتھ آنے والے لوگوں نے اس شخص کے خلاف گواہی دی ہو(اگرچہ یہ گواہیاں غلط تھیں)تاہم ان گواہیوں کی بناء پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم رجم صادر فرمایا۔(ملاحظہ ہوسنن بیہقیؒ ،ج8ص284،285)

ان دواحتمالات کی موجودگی میں روایت سے وہ استدلال ممکن نہیں رہتا جو بعض حضرات کررہے ہیں۔علاوہ ازیں خود امام بیہقی ؒ نے کتاب الحدود کی بجائے اسے دوسرے باب میں ذکر کرکے مذکورہ استدلال کو کمزور کردیا ہے۔گویا اس کا تعلق ان کے نزدیک حدود سے ہے ہی نہیں یہ امام بیہقی ؒ نے حسب ذیل باب میں یہ روایت ذکر کی ہے۔

باب من قال يسقط كل حق لله تعالى بالتوبة قياسا على آية المحاربة

"اس باب کے بیان میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہر حق توبہ کے ساتھ ساقط ہوجاتاہے۔آیت محاربہ پرقیاس کرتے ہوئے۔"

مثال پیش کرنے کامطالبہ کسی اصول پر مبنی نہیں ہے:۔

ایک بات یہ کہی جارہی ہے کہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایک مثال اس امر کی پیش کی جائے کہ جس میں عورت کی گواہی حدود میں رد کردی گئی ہو۔لیکن یہ مطالبہ کسی اصول پر مبنی نہیں ہے۔جب مثبت طور پر اس کے واضح دلائل موجود ہوں(جیسا کہ مسئلہ زیر بحث پر موجود ہیں جس کی تفصیل راقم نے بھی اپنے اصل مقالے(صفحہ 47،52) میں کی ہے۔تو اس کے بعد مذکورہ مطالبہ کوئی اہمیت اور وزن نہیں رکھتا۔کیونکہ اسکے برعکس بھی کوئی مثال پیش کرنی مشکل ہے۔

اس سلسلے میں" حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلے" نامی ایک اردو کتاب سے بعض واقعات پیش کرکے یہ باور کرایا جارہا ہے۔ کہ عورتوں کی شہادت پر حدود نافذ کی گئی ہیں۔حالانکہ اول تو یہ اردو کی کتاب ہے۔جو بے سند ہے۔ثانیاً واقعات کا انداز بتلا رہا ہے۔کہ کسی شخص نے گھر میں بیٹھ کر یہ واقعات تصنیف کئے ہیں۔جس سے مولف کا مقصد صرف حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت کو نمایاں اور ممتاز کرناہے۔بلکہ ان کے اندر خدائی صفات کا اثبات ہے جوس طرح کہ "محراب میں لاش والے واقعے سے واضح ہے۔تاہم اس کے باجود راقم نے ان واقعات کو غور سے پڑھا ہے لیکن سوائے ایک واقعے کے کسی کا بھی تعلق مسئلہ زیر بحث سے نہیں ہے۔یہ واقعہ صفحہ 250 پر بعنوان ایک یتیمہ پر انوکھا ظلم ہے۔صرف یہ واقعہ ایسا ہے کہ جس میں زنا کی گواہ صرف عورتیں تھیں۔(اور یہ سب جھوٹی تھیں) لیکن اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گواہی کے لئے ان کو طلب کیا ۔

اس سے بظاہر یہ استدلال ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باوجود اس بات کے کہ گواہ صرف عورتیں تھیں،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان گواہی کے لئے طلب فرمایا جس سے یہ معلوم ہو اکہ زنا کے کیس میں عورت کی گواہی قابل قبول ہے۔کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ یہ فرمادیتے کہ مرد گواہ پیش کرو،عورتوں کو گواہ پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

لیکن اول تو یہ واقعہ بالکل بے حوالہ ہے۔اس کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے۔اگراس قسم کے واقعات کو اہمیت دی جائے تو عورت کی گواہی کے رد کئے جانے کے واقعات بھی تصنیف کرکے کتابی شکل میں چھاپے جاسکتے ہیں۔اور پھر بطور ماخذ ان کو پیش کیا جاسکتا ہے۔اس لئے دلائل کی دنیا میں ایسے مت گھڑت واقعات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اگر بالفرض اس کی صحت بھی تسلیم کرلی جائے تو اس سے صرف یہی ثابت ہوگا کہ جہاں وقوعہ کے وقت گواہ صرف عورتیں ہی ہوں گی۔تو وہاں ان کی گواہی یقیناً سنی جائے گی۔اور ایسے واقعات میں عورتوں کی گواہی سننے سے کسی بھی عالم وفقیہہ کو انکار ہی نہیں ہے۔سب اس بات کو مانتے ہیں۔ اختلاف صرف اس امر میں ہے کہ صرف عورتوں کی گواہی پر حد بھی نافذ کی جاسکتی ہے یا نہیں؟جمہورعلماء اس صورت میں صرف تعزیری سزا کے قائل ہیں جبکہ امام ابن تیمیہؒ وابن قیم ؒ حد کے نفاذ کے بھی قائل ہیں۔جیسا کہ راقم کے ا صل مقالے میں اس کی ضروری تفصیل موجود ہے۔

بنا بریں راقوم پوری ذمہ داری سے یہ عرض کرتا ہے کہ اس کتاب میں پیش کردہ واقعات میں سے کوئی بھی واقعہ(اگرچہ ان کی استنادی حیثیت محل نظر ہی ہے۔)علمائے کرام کے اس متفقہ موقف کے خلاف نہیں ہے جس پر فقہائے امت کا ا جماع ہے۔والحمدلله علي ذلك

ضمیمہ


ضمیمہ نمبر1:۔

ياتين الفاحشة میں فاحشه سے مراد زنا ہے:

١. وقال الألوسي : والفاحشة ما اشتد قبحه واستعملت كثيرا في الزنا لأنه من أقبح القبائح وهو المراد هنا على الصحيح . (روح المعاني ج٤ ص٢٤)

٢. ههنا الزنا ، وإنما أطلق على الزنا اسم الفاحشة لزيادتها في القبح على كثير من القبائح . (الكشاف ج١ س ٣٥٥ طبع قديم)

٣. قال ابن العربي رحمه الله: "الفاحشة: هي في اللغة عبارة عن كل فعل تعظم كراهيته في النفوس ويقبح ذكره في الألسنة (احكام القرآن لابن العربي ج١ ص ٣٥٤)

٤.ولمرادها ضاالزنا خاصة وانيانها نعلها ومباشرتها(فتح القدير)

٥.الفاحشة يعني الزنا وهي يشتمل السحاقات ايضاً لعموم اللفظ ويشتمل ايضاً ان يوتي المراة الاجنية في دهرها _تفسير المظهري ج٢ ص٤٤)

٦. ( بالفاحشة ) . والمراد بها هنا الزنا خاصة (فتح القدير ج١ ص ٥٢٥)

٧. الفاحشة يعني الزنا (تفسير ابن كثير ج١ ص ٤٦٢)

٨.............(تفسير البغوي ج١ ص٤-٥)

٩. وأجمعوا على أن الفاحشة ههنا الزنا (تفسير كبير امام رازي ج٩ ص٢٣-)

10. والمراد بها هنا الزنا (تفسير المراغي ج٤ ص٢-٥)

١١.ا بالفاحشة في هذا الموضع غير الزنا (تفسير القرطبي ج٥ ص٨٣)

١٢.اي الخصلة البليغة في القبح وهي الزنيٰ (تفسير القاسمي محمد جمال الدين قاسمي ج٣ ص٦٤)

١٣. وأجمعوا على أن الفاحشة ههنا الزنا (تفسير غرائب القرآن ورغائب الفرقان ج٤ ص٢-٣)

١٤.الفاحشة الفعلة القبيحة اريد ها الزنا لزيادة قبحه (تفسير ابي السعود ج٧ ص ١٥٤)

١٥.الزنا لزيادة قبحها وشنا عتها (تفسير الجواهرشيخ طحاوي جوهري ج٢ ص٢٦)

١٦.تفسير الدرة لمنشور ج٢/ص ١٢٩)

١٧.تفسير اضواء البيان شنقيطي /ج١ ص٣١٤)

١٨.الزنا في القول الجماعة (تفسير زاد المسير لابن الجوزي ج٢ ص٣٤)

١٩.للم يختلف السلف في أن ذلك كان حد الزانية في الإسلام، وأنه منسوخ

٢-.احكام القرآن امام شافعي ج١ ص٣-٣ الطبعة الاوليٰ ١٩٥١ء)

٢١.المراد بالفاحشة الزنا احكام القرآن مولانا ظفراحمد عثماني ج٢ ص١٨١

٢٢. بها هنا الزنا لزيادتها في القبح على كثير من القبائح، (تفسير مدارك لنفسي ج١ ص ٣ طبع لاهور)

٢٣. والمراد بها هنا الزنا (صفوة التفاسير محمد علي الصابوني ج١ ص٢٦٥)

٢٤. كِنَايَةٌ عَنِ الزِّنَا (مفردات القرآن امام راغب ٣٨- طبع نور محمد كراچي

٢٥. والفاحشة الزنا لزيادة قبحها وشناعتها (تفسير بيضاوي ج١ ص٣-٩)

٢٦.والفاحشة (تفسير جلالين تفسير بيضاوي ج١ ص٢-٩)

٢٧.والفاحشة الزنا (التفسيرات الاحمدية ج١ ص٢٤-)

٢٨.اي الزنا (تسيرالكريمه الرحمٰن ج٢ ص١٨)

٢٩.يعن الزنا (تفسير مجاهد ص ١٤٨ طبع قطر ١٩٧٦ء)

ضمیمہ نمبر2

زنا کے چار گواہوں کے مرد ہونے پر مفسرین اُمت کااتفاق :۔

١. أربعة رجال من رجالكم، يعني: من المسلمين (تفسير الطبري ج٨ به تحقيق احمد محمد شاكر)

٢. أربعة منكم والخطاب [ ص: 357 ] للمسلمين كافة ; لأنهم متكافلون في أمورهم العامة ، وهم الذين يختارون لأنفسهم الحكام الذين ينفذون الأحكام ويقيمون الحدود . ولفظ الأربعة يطلق على الذكور ، فالمراد أربعة من رجالكم ، قال الزهري : " مضت السنة من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - والخليفتين بعده ألا تقبل شهادة النساء في الحدود " فيؤخذ منه أن قيام المرأتين مقام الرجل في الشهادة كما هو ثابت في سورة البقرة لا يقبل في الحدود فهو خاص بما عداها ، وكأن حكمة ذلك إبعاد النساء عن مواقف الفواحش ، والجرائم ، والعقاب ، والتعذيب رغبة في أن يكن دائما غافلات عن القبائح لا يفكرن فيها ، ولا يخضن مع أربابها ، وأن تحفظ لهن رقة أفئدتهن فلا يكن سببا للعقاب ، واشترطوا في الشهداء أيضا أن يكونوا أحرارا . (للنارج٤ ص٤٣٥)

٣. أي أربعة من رجال المؤمنين وأحرارهم قال ... في الحدود، واشترط الأربعة في الزنا تغليظًا على المدعي وسترًا على العباد (تفسير روح المعاني ج٤ ص٢٤)

٤. وهذا حكم ثابت بإجماع من الأمة... قوله تعالى : { منكم } المراد به هاهنا الذكور دون الإناث ; لأنه سبحانه ذكر أولا { من نسائكم } ثم قال : { منكم } فاقتضى ذلك أن يكون الشاهد غير المشهود عليه ، ولا خلاف في ذلك بين الأمة . (احكام القرآن ابن العربي ج١ ص٣٥٥)

٥.منكم المراد به المسلمون (فتح الاقدير شوكاني ج١ ص٤-٣)

٦.يعني رجالا اربعة من المومنين العدول فلا يجوزفي الحدود شهادة النساء اجماعاً

٧.منكم المرادبه الرجال المسلمون (تفسير فتح البيان ج١ ص٥٢٥ طبع بهونبال ٢٩-

٨.اتفق العلماء علي ان الزني يثبت بشهادة اربعة من الرجال ولايثبت بشهادتها دونها ولابشهادة النساء لقوله تعاليٰ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْ‌بَعَةً مِّنكُمْ (تفسير المظهري ج٦ ص٤٣٤)

٩.يعني من المسلمين وهذا خطاب للاحكام اي فاطلبوا عليهن اربعة من الشهور فيه بيان انه الزني لا يثبت الا باربعة من الشهور (تفسير البغوي ج١ ص٤-٥)

١-. المراد منه الزنا ، وذلك لأن المرأة إذا نسبت إلى الزنا فلا سبيل لأحد عليها إلا بأن يشهد أربعة رجال مسلمون على أنها ارتكبت الزنا ، فإذا شهدوا عليها أمسكت في بيت محبوسة إلى أن تموت أو يجعل الله لهن سبيلا ، وهذا قول جمهور المفسرين . (تفسير كبير ج٩ ص٢٣١)

١١ أي اطلبوا الشهادة من رجلين (تفسير المراخي ج٤ ص٢-٥)

١٢. منكم أي من المسلمين ، فجعل الله الشهادة على الزنا خاصة أربعة تغليظا على المدعي وسترا على العباد (تفسير القرطبي ج٥ ص٨٣ وتعديل الشهور وبالاربعة لازنا حكم ثابت في التوراة والانجيل والقرآن ج١٢ ص ١٧٦)

١٣. أربعة منكم أي من المسلمين (تفسير القاسمي ج٣ ص٦٤) ان الزنيٰ لا يقبل منه الا اربعة رجال لا اقل ولا نساء (تفسير القاسمي ٧ ص٦٤)

١٤. وفي النص دقة واحتياط بالغان . فهو يحدد النساء اللواتي ينطبق عليهن الحد:"من نسائكم" - أي المسلمات - ويحدد نوع الرجال الذين يستشهدون على وقوع الفعل:"من رجالكم" - أي المسلمين - فحسب هذا النص يتعين من توقع عليهن العقوبة إذا ثبت الفعل . ويتعين من تطلب إليهم الشهادة على وقوعه .

إن الإسلام لا يستشهد على المسلمات - حين يقعن في الخطيئة - رجالا غير مسلمين . بل لا بد من أربعة رجال مسلمين . منكم . من هذا المجتمع المسلم . يعيشون فيه , ويخضعون لشريعته , ويتبعون قيادته , ويهمهم أمره , ويعرفون ما فيه ومن فيه . ولا تجوز في هذا الأمر شهادة غير المسلم , لأنه غير مأمون على عرض المسلمة , وغير موثوق بأمانته وتقواه , ولا مصلحة له ولا غيرة كذلك على نظافة هذا المجتمع وعفته , ولا على إجراء العدالة فيه . وقد بقيت هذه الضمانات في الشهادة حين تغير الحكم , وأصبح هو الجلد أو الرجم . .

(تفسير في ظلال القرآن ج٢ ص٢٧٥)

١٥. مِنْ رِجَالِكُمْ ، قَالَ الزُّهْرِيُّ : " مَضَتِ السُّنَّةُ...(تفسير غرائب القرآن ج٤ ص٢-٣)

١٦. أي فاطلبوا أن يشهد {عَلَيْهِنَّ} بإتيانهن الفاحشة {أَرْبَعةً مّنْكُمْ} أي أربعة من رجال المؤمنين وأحرارهم (تفسير ابي السعود ج١ ص ١٥٤)

١٧.فاطلبوا ثمن قد فهن اربعة من الرجال تشهد عليهن (تفسير الجواهر شيخ طحاوي ج٢ ص٢٦)

١٨.تفسير الدرا المنثور ج٢ ص١٢٩

١٩.منكم من المسلمين (تفسير ذاد السير ج٢ص٣٤)

٢-.ولفظ اربعة اسم لعدد المزكرين فالمعني استشهدوا اربعة من رجال المومنين واحرارهم وهذا اجماع لاخلاف فيه بين اهل العلم لقول الله تعاليٰ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْ‌بَعَةً مِّنكُمْ...قوله...ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْ‌بَعَةِ شُهَدَاءَ وقال لولا جاء وا عليه بااربعة الشهداء وقال سعد بن عبادة لرسول الله صلي الله عليه وسلم ارائيت لووجدت مع امراتي رجلا حتيٰ آتي بِأَرْ‌بَعَةِ شُهَدَاءَ فقال النبي صلي الله عليه وسلم نعم (رواه مالك وابوداود (احكام القرآن مولانا ظفر عثماني ج٢ص ١٩١...١٩٣ طبع كراچي ١٩٨٧ء)

٢١.منكم من المومنين (تفسير مدارك لنفسي ج١ ص٣-طبع لاهور

٢٢. فاطلبوا أن يشهد على اقترافهن الزنا أربعة رجال من المسلمين الأحرار (صفوة التفاسير ج١ ص٢٦٥)

٢٣. فاطلبوا ممن قذفهن أربعة من رجال المؤمنين تشهد عليهن (تفسير بيضاوي ج١ص ٢-٩)

٢٤.منكم رجال المسلمين (تفسير جلالين مع تفسير بيضاوي ج١ ص٢-٩

٢٥.اربعة من الرجال المومنين يشهد واعلهين (التفسيرات الاحمدية ملاجيون ج١ ص٢٤-

اُردو تفاسیر وتراجم:۔

1۔تفہم القرآن ج1ص۔۔۔۔ج 3،ص 328۔333۔

2۔تدبر قرآن ج1ص36۔37۔ج4 ص508(صرف اس تفسیر میں گواہوں کی جنس کے بارے میں کوئی صراحت نہیں ہے۔البتہ ثبوت زنا کے لئے چار گواہوں کا نصاب تسلیم کیا گیا ہے)۔

3۔تفسیر حقانی ج2ص136۔طبع نور محمد کراچی۔ج3ص 371۔372۔

4۔تفسیر مواہب الرحمٰن،ج2 ص185۔186۔

5۔تفسیر معارف القرآن ،مفتی محمد شفیع مرحوم،ج2ص 335،337۔ج6 ص353،354۔

6۔تفسیر بیان القرآن مولانا اشرف علی تھانوی ؒ۔

7۔تفسیر ترجمان القرآن ج اول ص363۔مولانا ابو الکلام آزاد۔

8۔ترجمہ وحاشیہ مولاناشبیر احمد عثمانی مرحوم ؒ ص 103۔طبع لاہور۔

9۔کشف الرحمٰن مولانا احمد سعید دہلوی ؒ ص126۔ضمیمہ ص 30۔طبع کراچی۔

10۔تفسیر "ترجمان القرآن" اردو نواب صدیق حسن خاںؒ۔ج2 ص599 ۔601۔

11۔تفسیر موضح القرآن شاہ عبدالقادر دہلویؒ ص129۔130۔579۔

12۔تفسیر ماجدی مولانا عبدالماجدؒ دریا آبادی جلد اول ص183۔مطبوعہ تاج کمپنی۔

13۔تفسیر احسن التفاسیر سید احمد حسن دہلوی،ج1ص 301۔مکتبہ سلفیہ لاہور۔

14۔تفسیر وحیدی مولانا وحید الزمان حیدر آبادی ص73 طبع لاہور۔

15۔کنز الایمان ترجمہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی ص117 طبع دہلی۔

16۔ترجمہ قرآن مجید مع غرائب القران ڈپٹی نزید احمد دہلویؒ ص132۔143۔طبع دہلی 1323ہجری ۔

17۔مقبول ترجمہ مولانا مقبول احمد دہلوی (شیعہ ترجمہ وحاشیہ) ص94۔95طبع لاہور)

18۔ترجمہ وحاشیہ مولانا فرمان علی (شعیہ۔۔۔) ص419طبع لاہور۔

ضمیمہ نمبر 3

گواہوں کے مسلمان ہونے کی شرط:۔

. والمراد بالاحصان هاهنا بإجماع العلماء ان يكون حرّا عاقلا بالغا مسلما عفيفا غير متهم بالزنى (المظهري ٦/٤٤٤)

وشرائط الإحصان خمسة : الإسلام والعقل والبلوغ والحرية والعفة من الزنى (التفسير الكبير ج٢٣ ص١٥٦) تفسير ابي السعود ج٣ ص١٥٧(تفسير اضواء البيان ج٦ ص٩٩) (تفسير القرطبي ج١٢ ص١٧٣)

الاحصان الذي يوجب الحد علي قاذفه وهران تيكون حرا بالغاً عاقلا مسلماً عفيفا ولا نعلم خلافا بين الفقهاء في هذ المعني(احكام القرآن جصاص ج٣ ص٣٢٩)

أن يكونوا مسلمين ، فلا تقبل شهادة أهل الذمة فيه (احكام القرآن ظفر احمد عثماني ج٢ ص١٩٢)

وشروط احسان القذف الحرية والعقل والبلوغ و الاسلام والفقة عن الزنا (المدارك ج٣ ص٣٢٥)

وأما شروط الإسلام فيه ; فلأنه من معاني الإحصان وأشرفها ، كما بيناه من قبل ، ولأن عرض الكافر لا حرمة له يهتكها القذف ، كالفاسق المعلن لا حرمة لعرضه ; بل هو أولى لزيادة الكفر على المعلن بالفسق . (احكام القرآن لابن العربي ج٣ ص١٣٣)

والا احصان ها هنا بالحربة والبلوغ والعقل والاسلام والفقه عن الزنا (تفسير بيضاوي ج٢ س١١٨) (التفسيرات الحمدية ص٥٤٧)

ضمیمہ نمبر 4

عورت بھی مرد پر الزام زنا عائد کرسکتی ہے:۔

1 والذين يرمون المحصنات.. أي النساء العفيفات بالزنى وكذا المحصنين وإنما خصهن بالذكر لأن قذفهن أشنع والعار فيهن أعظم، ويلحق الرجال بالنساء في هذا الحكم بلا خلاف بين علماء هذه الأمة.

(فتح القديرشوكاني ج٤ ص٦)

٢.فتح البيان نواب صديق حسن خان'ج٣ ص٢٣٩

3والمحصنات يراد بهن هنا العفائف من النساء ، وخصهن بالذكر لأن قذفهن أكثر وأشنع من قذف الرجال ، ودخل الرجال في ذلك بالمعنى ، إذ لا فرق بينهم ، وأجمع العلماء على أن حكم الرجال والنساء هنا واحد " (تفسير المظهري ج٦ ص٤٤٥)

٤. فإذا كان المقذوف رجلا فكذلك يجلد قاذفه أيضا ، ليس في هذا نزاع بين العلماء " (ابن كثير)

٥وكل من رمى محصنا أو محصنة بالزنا فقال له : زنيت أو يا زاني فيجب عليه جلد (البغوي)

٦. قال الحسن البصري قوله : ( والذين يرمون المحصنات ) يقع على الرجال والنساء ، وسائر العلماء أنكروا ذلك لأن لفظ المحصنات جمع لمؤنث فلا يتناول الرجال ، بل الإجماع دل على أنه لا فرق في هذا الباب بين المحصنين والمحصنات . (تفسیر الکبیر ج23ص156)

٧.قال القرطبي رحمه الله في تفسيره : " ذكر الله تعالى في الآية النساء من حيث هنّ أهم ، ورميهن بالفاحشة أشنع وأنكى للنفوس . وقذف الرجال داخل في حكم الآية بالمعنى ، وإجماع الأمة على ذلك " انتهى . (تفسير القرطبي ج٢ ص١٧٢)

٨. تخصيص النساء في قوله: {المحصنات} لخصوص الواقعة، ولأن قذفهن أغلب وأشنع، وفيه إيذاء لهن ولأقربائهن، وإلا فلا فرق بين الذكر والأنثى (تفسير القاسمي ج٧ ص١٣٣)

٩.تفسير الجواهر الشيخ طحاوي (ج١٢ص٥)

لا يخفى أن الآية إنما نصت على قذف الذكور للإناث خاصة ; لأن ذلك هو صريح قوله : والذين يرمون المحصنات وقد أجمع جميع المسلمين على أن قذف الذكور للذكور ، أو الإناث للإناث ، أو الإناث للذكور لا فرق بينه وبين ما نصت عليه الآية ، من قذف الذكور للإناث ; للجزم بنفي الفارق بين الجميع

. (تفسير اضواء البيان لشنقيطي ج٦ ص٨٩)

١١. قد خص الله تعالى الرجال ببعض الفضائل والأحكام ، وكذلك خص النساء ببعض الفضائل والأحكام ، فلا يجوز لأحد من الرجال أن يتمنى ما خصت به النساء ، ولا يجوز لأحد من النساء أن يتمنى ما فضل به الرجال ، فإن هذا التمني اعتراض على الله تعالى في تشريعه وحكمه . (احكام القرآن جصاص ج٣ ص٣٢٩)

والمحصن كالمحصنة في وجوب حد القذف

(تفسير مدارك لنسفي ج٣ ص٣٢٥)

13.هو وصف للنساء ، ولحق بهن الرجال ، واختلف في وجه إلحاق الرجال بهن ; فقيل بالقياس عليهن ; كما ألحق ذكور العبيد بإمائهم في تشطير الحد ; وهو مذهب شيخ السنة ، ومذهب لسان الأمة . وقال إمام الحرمين : ليس من باب القياس ; وإنما هو من باب كون الشيء في معنى الشيء قبل النظر إلى علته ، وجعل من هذا القبيل إلحاق الأمة بالعبد في قوله : " من [ ص: 344 ] أعتق شركا له في عبد [ فكان له من المال قدر ما يبلغ قيمته ] قوم عليه قيمة عدل " فهذا إذا سمعه كل أحد علم أن الأمة كذلك قبل أن ينظر في وجه الجامع بينهما في الاشتراك في حكم السراية .

وقيل : المراد بقوله : { المحصنات } الأنفس المحصنات . وهذا كلام من جهل القياس وفائدته ، وخفي عليه ، ولم يعلم كونه أصل الدين وقاعدته . والصحيح ما أشار إليه أبو الحسن والقاضي أبو بكر كما قدمنا عنهما ، من أنه قياس صريح صحيح . المسألة الحادية عشرة : قيل : نزلت هذه الآية في الذين رموا عائشة رضي الله عنها فلا جرم جلد النبي منهم من ثبت ذلك عليه .

وقيل : نزلت في سائر نساء المسلمين ، وهو الصحيح

. (احكام القرآن لابن العربي ج٣ ص١٣٢٣)

١٤. أراد بالرمي القذف بالزنا، وكل من رمى محصناً أو محصنة بالزنا (تفسير البغوي ج ٣ ص٣٢٣)

ولا فرق فيه بين الذكر والأنثى ، وتخصيص " المحصنات " لخصوص الواقعة أو لأن قذف النساء أغلب وأشنع

(انوارالتنزيل واسرار التاويل بيضاوي ج٢ص١١٨)

١٦.اعلم انه اتفق المفسرون والفقهاء علي ان هذه الاية هي الغي يستدل بها علي ان من قذف محصنا او مصنة بالزنا ثم لم يات باربعة شهداء وجب عليهم ضرب حد ثمانين جلدةّ

(التفسيرات الاحمدية ص٥٤٦)

١٧. أي: النساء الأحرار العفائف، وكذاك الرجال، لا فرق بين الأمرين، تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان

(ج٥ ص١٩٢ طبع مدنيه منوره)

ضمیمہ نمبر 5

لعان کی شہادتیں قسمیں ہیں:۔

لعان کی شہادتیں اصطلاحی شہادات نہیں،قسمیں ہیں۔(روح المعانی ج18ص106)۔

فيحلفه الحاكم أربع شهادات بالله في مقابلة أربعة شهداء

(تفسیر ابن کثیر۔ج3ص265)مدلل بحث قابل ملاحظہ ہو۔(تفسیر اضواء البیان۔ج6ص134۔138)


حاشیہ

1۔اپنے تحریری بیان میں استمرار والی بات غامدی صاحب نے نہیں دہرائی جب کہ عدالت کے روبرو بیان دیتے ہوئے اسے انھوں نے بڑے اعتماد بلکہ ادعاء کے ساتھ پیش کیا تھا۔(ص۔ی)

2۔اپنے تحریری بیان میں اس نکتے کو انھوں نے سرے سے حذف ہی کردیا ہے۔جبکہ عدالتی بیان میں انھوں نے حد اورتعزیر کے درمیان فرق تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔(ص۔ی)

3۔خیال رہے کہ غامدی صاحب کے یہ وہ الفاظ ہیں جو انھوں نے فاضل عدالت کے روبرو کہے تھے تاہم اپنے تحریری بیان میں اس "ادعاء" سے اجتناب برتاہے۔پتہ نہیں کیوں؟