انکم ٹیکس کی شرعی حیثیت

واجب الاحترام وفاقی شرعی عدالت اسلام آباد ۔لاہور

شریعت درخواست نمبر 11/ایل/1990ء

فضل الرحمان بن محمد ،ایم اے اسلامیات ۔ایم اے عربی (گولڈ میڈلسٹ) شریعۃ کورس جامعہ الازہر (قاہرہ) 53۔نشتر روڈ (براندرتھ روڈ) لاہور۔درخواست دہندہ بنام۔فیڈریشن آف پاکستان بذریعہ سیکرٹری۔

منسٹری آف فنانس۔حکومت پاکستان اسلام آباد مسئول علیہ۔

درخواست زیرآرٹیکل ڈی/203۔آئین پاکستان۔

1۔میں پاکستان کا ایک شہری ہوں۔میرا شناختی کارڈ نمبر274۔35۔039423۔ڈیٹ۔4۔6۔1974ء یہ ہے ۔پاکستان کے آئین کے تحت وفاقی شرعی عدالت کو مالی معاملات کے متعلق کسی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنے کا جو اختیار مل گیا ہے۔اسی کے تحت پاکستان میں مروجہ نظام انکم ٹیکس کے غیر اسلامی ہونے پر اپنی گزارشات پیش کرتا ہوں اور دعاء گو ہوں کے اللہ تعالیٰ حق تک پہنچنے میں ہماری مدد فرمائے۔آمین

2۔واجب الاحترام عدالت عالیہ کے سامنے میری گزارش یہ ہے کہ پاکستان کا نظام انکم ٹیکس THE INCOME TAX OFRDINANCE,1979.قرآن وسنت سے متصادم ہے۔ کیونکہ مروجہ نظام انکم ٹیکس انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں ہندوستان میں جاری کیاتھا۔جبکہ اسلام کااپنا مالی نظام زکواۃ وعشر پر مبنی ہے۔اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کسی نے زکواۃ وعشر کے علاوہ کوئی اور ٹیکس مسلمانوں سے وصول نہیں کیا۔جب کبھی کوئی ہنگامی صورت سامنے آئی تو عام مسلمانوں کو اس سے آگاہ کردیا گیا اور مسلمانوں نے اسلامی ضرورت کو پورا کرنے کےلئے اپنا سب کچھ پیش کردیا۔

3۔غنیمت ،فے ،خمس،جزیہ اور خراج ان سب محاصل کا تعلق غیر مسلموں سے تھا۔

4۔اگر انکم ٹیکس کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو میرے موقف کو سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی۔

5۔انسائیکلو پیڈیا برٹیانیکا،ایڈیشن،1970ء جلد 12۔

ENCYCLEPAGDIA.BRITANNICA

کے صفحات 18 سے 25 تک میں انکم ٹیکس کی جو تاریخ بیان کی گئی ہے اس کے مطابق برطانیہ دنیا کا پہلا ملک ہے۔جس نے سب سے پہلے باقاعدہ نظام انکم ٹیکس کو اپنایا۔

6۔خواجہ امجد سعید نے اپنی کتاب۔

INCOME TAX LAW EDITION 1968.

کے صفحات 2 اور 3 پر ہندوستان میں انکم ٹیکس کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انگریز حکومت نے پہلی مرتبہ یہ ٹیکس 1860ء میں عائد کیا۔اور انکم ٹیکس ایکٹ 1918ء کے تحت کل آمدنی یعنی TOTAL INCOME اور قابل ٹیکس INCOME TAXABLE کا تصور دیا۔بعد میں اسی کو انکم ٹیکس ایکٹ 1922ء کا نام دے دیا گیا۔یہ وہ قانون ہے جو فقید ا لمثال قربانیوں کے بعد اللہ کے نام پر حاصل ہونے والے پاکستان کو انگریزی سرکار سے ورثے میں ملا۔اور پاکستان میں 1971ء تک نافذ رہا اور اب بھی انکم ٹیکس آرڈیننس 1979ء کی صورت میں سارے پاکستان میں رائج ہے۔

7۔دنیا کے جن ممالک میں یہ قانون جاری وساری ہے۔ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی راہنمائی موجود نہیں جیسی کہ نظام زکواۃ کی صورت میں ہمیں عطا کردی گئی ہے۔

8۔انکم ٹیکس کی بیان کردہ تاریخ سے عدالت عالیہ پرواضح ہوگیا ہوگا کہ مروجہ انکم ٹیکس کااسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ انگریزی دور حکومت میں ہندوستان میں رائج کیا گیا اوروہی آج بھی پاکستان کے عوام ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

لہذا میں انکم ٹیکس اور نظام ٹیکس کے بارے میں واجب الاحترام عدالت عالیہ سے درخواست گزار ہوں کہ اسے حسب ذیل وجوہات کی بناء پر غیر اسلامی قرار دیا جائے:۔

الف۔قرآن وسنت کی ہدایت کے مطابق مسلمان حکمرانوں کو مسلمان رعایا سے زکواۃوعشر کے علاوہ کسی دوسرے ٹیکس کے وصول کرنے کی اجازت نہین ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔

﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَر‌ضِ أَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ وَأَمَر‌وا بِالمَعر‌وفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ‌ وَلِلَّهِ عـٰقِبَةُ الأُمورِ‌ ﴿٤١﴾... سورةالحج

"اگر ان کو ہم زمین میں حکومت سے نوازیں تو وہ نماز،اور زکواۃ کا نظام قائم کریں گے۔اور اچھائی کا حکم دیں گے۔اور برائی سے روکیں گے۔"

مسلمان حکام کو مذکورہ بالا حکم دینے کےساتھ مسلمان رعایا کو بھی صرف زکواۃ ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے چھ مرتبہ ان الفاظ میں حکماً پابند فرمایا ہے:۔

﴿وَأَقيمُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتُوا الزَّكو‌ٰةَ ... ﴿٤٣﴾... سورةالبقرة

ترجمہ:۔"نماز قائم کرو اور زکواۃ ادا کرو۔"

توبہ کرکے اسلام میں داخل ہونے والوں کےلئے بھی ارشاد ہوتا ہے:۔

﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ فَخَلّوا سَبيلَهُم ...﴿٥﴾... سورةالتوبة

ترجمہ:۔"اگر وہ توبہ کریں اور نما ز قائم کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔"

﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ فَإِخو‌ٰنُكُم فِى الدّينِ...﴿١١﴾... سورةالتوبة

"اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں۔اور زکواۃ دیں تو دین میں وہ تمہارے بھائی ہیں۔"

ب۔قرآن کریم کے ان احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے مالی مشکلات کو حل کرنے کےلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے زکواۃ کے علاوہ مسلمانوں کو کسی اور ٹیکس کا پابند نہ بنایا۔

ج۔زکواۃ کے لئے قرآن حکیم میں انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿خُذ مِن أَمو‌ٰلِهِم صَدَقَةً...﴿١٠٣﴾... سورةالتوبة

ترجمہ:۔"آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیں۔"

﴿مَثَلُ الَّذينَ يُنفِقونَ أَمو‌ٰلَهُم فى سَبيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَت سَبعَ سَنابِلَ فى كُلِّ سُنبُلَةٍ مِا۟ئَةُ حَبَّةٍ...﴿٢٦١﴾... سورة البقرة

ترجمہ۔"مثال ان لوگوں کی جو اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ایک دانے کی طرح ہے۔(جب اسے بویاجائے) تو اس سے سات سٹے نکلتے ہیں،ہر سٹے میں سو سو دانے ہوتے ہیں۔"

قرآنی احکام کی روشنی میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:۔

د۔إذا أديت زكاة مالك فقد قضيت ما عليك

ترجمہ:۔"جب تونے اپنے مال کی زکواۃ ادا کردی جو تجھ پر فرض ہوتا تھا تو نے اسے پورا کردیا۔"

امام ترمذی ؒ نے پہلے اس حدیث کو باب بنایا پھر روایت کرنے کے بعد مذید وضاحت یوں کی ہے کہ اور طریقے سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکواۃ کا ذکر فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا ۔کیا اس کے علاوہ اور بھی مجھ پر فرض ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں،اگرتو ر ضاکارانہ طور پردینا چاہے تو اجازت ہے۔

هل علي غيرها قال لا إلا أن تطوع

ایک روایت ہے؟

ليس في المال حق سوى الزكاة

ترجمہ:۔"مال میں زکواۃ کے علاوہ کچھ حق نہیں یعنی کچھ اور فرض نہیں۔"

بخاری کتاب الزکواۃ ص187،مسلم کتاب الایمان جلد 1ص31 مسند احمد جلد 2 ص342۔فتح الباری جلد 3 ص261 میں ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ایک اعرابی(بدو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!

وعن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : أتى أعرابي النبي - صلى الله عليه وسلم - فقال : دلني على عمل إذا عملته دخلت الجنة ، قال : " تعبد الله ولا تشرك به شيئا ، وتقيم الصلاة المكتوبة ، وتؤدي الزكاة المفروضة ، وتصوم رمضان ، قال : والذي نفسي بيده لا أزيد على هذا شيئا ولا أنقص ، فلما ولى قال النبي - صلى الله عليه وسلم - : من سره أن ينظر إلى رجل من أهل الجنة فلينظر إلى هذا " . متفق عليه . ترجمہ۔"مجھے ایسا عمل بتائیں جسے میں کرکے جنت میں داخل ہوجاؤں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنا۔فرض نماز قائم کر۔اور مفروضہ زکواۃ ادا کر۔اور رمضان کے روزے رکھ۔اُس نے کہا قسم اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں اس سے نہ کچھ زیادہ اور نہ ہی کم کروں گا۔جب وہ وہاں سے پلٹا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو پسند ہے کہ کسی جنتی کو دیکھے تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔"

امام مسلمؒ اور صاحب مشکواۃ ؒص12 نے اس حدیث کو کتاب الایمان میں نقل کرکے ثابت کیا ہے۔کہ اہل ایمان پر مذکورہ چیزیں فرض ہیں۔اور ان کی ادائیگی پر مسلمان جنتی بن جاتا ہے۔جس سے معلوم ہو اکہ مالی طور پر وہ صرف زکواۃ ادا کرنے کا پابند ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کی طرف عامل بنا کر بھیجتے ہوئے فرمایا۔

فَادْعُهُمْ إِلَى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ

ترجمہ:۔"ان کو لا الٰہ الااللہ۔کی دعوت دینا اور بتانا کہ بے شک میں اللہ کا رسول ہوں۔اگر وہ یہ مان لیں تو ان کو بتانا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔اگر وہ یہ مان لیں تو ان کو بتانا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے امیروں سے لیا جائے گا اور ان کے غریبوں پر لوٹایا جائے گا۔"(بخاری ص187مسلم جلد نمبر 1 ص36 نسائی جلد 1 ص270)

بخاریؒ ص194 کی دوسری روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ زكوة في اموالهم

ترجمہ:۔"پس ان کو آگاہ کرنا بے شک اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں زکواۃ فرض کی ہے۔"

بخاری ؒ ہی کی تیسری روایت کے الفاظ ہیں:۔

فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ.

ترجمہ:۔"ان کے اچھے مال زکواۃ کے طور پر لینے سے اجتناب کرنا اور مظلوم کی بددعا سے بچنا۔اس لئے کہ اللہ اور اس کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حسب ذیل تحریری حکم کے ساتھ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین کی طرف عامل بنا کر بھیجا:۔

بسم اللہ ا لرحمٰن الرحیم!

بسم الله الرحمن الرحيم ، هذه فريضة الصدقة التي فرضها رسول الله - صلى الله عليه وسلم - على المسلمين التي أمر الله بها رسوله فمن سئلها من المؤمنين على وجهها فليعطها ، ومن سئل فوقها فلا يعطها بخاری، رقم ۱۳۶۲)

ترجمہ۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔یہ وہ صدقہ ہے۔جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض کیا ۔وہی ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا۔ پس مسلمانوں میں سے فریضہ کے مطابق جس سے طلب کیا جائے وہ ادا کردے اور جس سے فرض کردہ سے زیادہ مانگا جائے وہ نہ دے۔"(بخاری ص195 نیل الاوطار /جلد 4 ص133 الام جلد 2ص 4 مجمع الفوائد ص248۔نسائی جلد 1 ص274۔کنز الاعمال جلد 6 ص528 ابن حبان ج6 ص142۔)

حجۃ اللہ البالغہ (مترجم) ص153 جلد 2 میں شاہ ولی اللہ ؒ نے لکھا ہے:۔

"جب زیادہ مانگاجائے تو نہ دے یعنی جو اس پر فرض ہوتا ہے۔اس سے زیادہ نہ دے۔"

مذکورہ حوالہ جات سے عیاں ہو اکہ اسلامی ریاست میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر صرف زکواۃ فرض کی ہے۔عشر بھی زکواۃ ہی کی صورت ہے۔جو زرعی پیدا وار پر وصول کیا جا تا ہے۔اسی لئے امام ابو الحسن بن محمد بن حبیب البصری ،البغدادی الماوردی ؒ (م450ھ) نے ا پنی کتاب الاحکام السلطانیہ "صفحہ 113 میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کو پیش نظر رکھتے ہوئے لکھا ہے:۔

اليس في المال حق سوي الزكوة قوله صلي الله عليه وسلم لا يجب علي المسلم في ماله حق سواها

"ترجمہ۔"کہ مسلمان کے مال میں سوائے زکواۃ کے اور کچھ واجب نہیں ہوتا۔"

اسی طرح صاحب کنزالعمال (جلد 1 ص296) علامہ علاؤالدین علی المتقی بن حساب الدین الہندی المتوفی 970ھ نے نقل کیا ہے۔

من تمام إسلامكم أن تؤدوا زكاة أموالكم "

"تمہارا اسلام کو پورا کرنا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکواۃ ادا کرو۔"

علامہ شوکانیؒ نے نیل الاوطار (جلد 8 ص64) میں واضح کیا ہے:

أي ليس عليهم غير الزكاة من الضرائب والمكس ونحوهما .

ترجمہ:۔"کہ مسلمانوں پر سوائے زکواۃ کے اور کوئی ٹیکس وغیرہ نہیں۔"

اس سے واضح ہوا کہ اسلامی ریاست میں مسلمانوں پر صرف زکواۃ وعشر فرض ہے۔ جب میری مذید گزارشات کو سننے کا فیصلہ کرلیا جائے گا۔تو ان شاء اللہ تعالیٰ قرآن وسنت کی روشنی میں مزید حوالے واجب الاحترام عدالت عالیہ کے سامنے پیش کروں گا۔

9۔اسلامی مالی نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر انسان کے لئے ترقی کرنے کے یکساں مواقع موجود ہیں۔حلال وحرام کی بندش کے علاوہ اسلامی ر یاست میں بسنے والے مسلمان کی آمدنی یا کاروبار پر کوئی قید نہیں۔سوائے اس کے کہ وہ مالی سال کے اختتام پر اپنے اس مال پر جس پر ایک سال گزر چکا ہو۔زکواۃ ادا کردے۔جس کا ریٹ ڈھائی فیصد مقرر کردیا گیا ہے۔یعنی ایک مسلمان کا اثاثہ ایک لاکھ روپے کا ہے۔تو وہ ڈھائی ہزار روپے زکواۃ دینے کا پاپند ہے۔اور جس کے پاس دس لاکھ روپے جمع ہوجائیں تو وہ اسی معیاد سے 25 ہزار روپے ادا کرے گا۔

اس کے برعکس ہمارےہاں مروجہ انکم ٹیکس آرڈی نینس 1979ء کی رُو سے انکم ٹیکس ادا کرنے کی ذمہ داری آمدنی کے اعتبار سے بے حساب بڑھتی جاتی ہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔بلکہ اسی آمدنی پرانکم ٹیکس کے علاوہ سوپرٹیکس اور سرچارج کا بوجھ بھی مسلمانوں پرڈال دیا گیا ہے۔جو کہ اسلامی اصول کے منافی ہے۔

10۔ایک ہی آمدنی پر مختلف ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دینا بھی غیر اسلامی ہے۔بلکہ شریعت اس کا سختی سے سد باب کرتی ہے۔

علامہ ابو بکر بن احمد بن ابی سہل سرخسیؒ کی مشہور کتاب المبسوط (جلد 2 ص201) میں ہے۔کہ ایک نصرانی روم سے گھوڑے کے ساتھ ہمارے دارلاسلام میں داخل ہوا۔عاشر نے اس سے عشر لے لیا۔اتفاق سے اس کا گھوڑا فروخت نہ ہوا۔جب وہ گھوڑے سمیت واپس ہوا تو عاشر نے پھر اس سے عشر طلب کیا۔نصرانی نے عاشر سے کہا کہ جب میں تمہارے پاس سے گزرا تو تمھیں عشر ادا کردیا تھا۔اب مجھ پر کچھ بھی ادا کرنا باقی نہیں۔

اُس نے اپنا گھوڑا عاشر کے پاس چھوڑا اور خود مدینہ طیبہ پہنچ گیا۔اُس نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس حال میں پایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے سا تھ کسی کتاب یا خط کو دیکھ رہے تھے۔نصرانی نے مسجد کے دروازے سے آواز لگائی۔میں ایک نصرانی شیخ ہوں۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ میں دین حنیف کو ماننے و الا شیخ ہوں۔ کیا بات ہے؟ نصرانی نے عاشر سے ہونے والی اپنی گفتگو سنادی۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔نصرا نی کے خیال کیا کہ انھوں نے اس کی بات کو قابل توجہ نہیں سمجھا۔ لہذا و دوبارہ عشر ادا کرنے کے ارادے سے عاشر کے پاس لوٹ آئی آیا۔لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے عاشر کے پاس امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہدایت نامہ پہنچ چکا تھا۔کہ اگر اس سے ایک مرتبہ عشر لے چکے ہو تو دوسری بار مت لینا۔نصرانی نے کہا:

"جس دین میں عدل کی یہ صفت موجود ہو وہی حق ہونے کے لائق ہے اور وہیں وہ مسلمان ہوگیا۔

اس سے ثابت ہوا کہ جب شریعت غیر مسلم سے اس کے ما ل پر ایک سے زائد مرتبہ ٹیکس وصول کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ تو ایک مسلمان سے اس کی ایک ہی آمدنی پر مختلف ناموں سے ایک سے زائد مرتبہ ٹیکس وصول کرنے کا تصور کیسے دے سکتی ہے۔چنانچہ ایسا تصور دینے والا نظام اسلامی نہیں ہوسکتا۔

11۔مروجہ نظام ٹیکس میں 30 ہزار روپے کی آمدنی کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔جبکہ اسلامی نظام زکواۃ کی رُو سے وہ شخص اگر مسلمان ہے تو وہ صاحب نصاب ہے۔اور اس پر 750روپے کی زکواۃ کی ادائیگی کا فریضہ عائد ہوتا ہے۔ جس رقم کے ذریعے اُس نے یہ آمدنی حاصل کی ہوگی۔ظاہر ہے کہ وہ بھی کثیر ہوگی۔اسلامی ریاست میں اس سے بڑھ کر شریعت کی خلاف ورزی اور کیا ہوسکتی ہے؟

12۔واجب الاحترام عدالت عالیہ کی خدمت میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب اور اس کے ہمسایہ ملکوں میں اُن کی سوچوں کے مطابق کوئی نہ کوئی مالی نظام نافذتھا۔ظاہر ہے کہ کوئی ملک یامعاشرہ نظام کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اہل عرب سے بھی جبراً ٹیکس وصول کیا جاتاتھا۔جو اس وقت کے حکمرانوں سے عائد کرتاتھا۔اُمید واثق ہے کہ عدالت عالیہ کو ضروری علم ہوگا کہ اہل عرب میں ایک ٹیکس مکس کے نام پرمشہور تھا۔علامہ ابن منظورؒ نے لسان العرب کی جلد 6 کے صفحہ 220 پرمکس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:۔

دراهم كانت تؤخذ من بائعي السلع في الأسواق في الجاهلية

"کہ یہ وہ درہم تھے جوجاہلیت کے زمانے میں بازاروں میں مال فروخت کرنے والوں سے لیے جاتے تھے۔"

علامہ موصوف نے جابر ثعلبی کے چند اشعار بھی نقل کئے ہیں۔جو اس زمانے کی عکاسی کرتے ہیں:۔

أفي كل أسواق العراق إتاوة

وفي كل ما باع امرؤ مكس درهم ؟

ألا ينتهي عنا ملوك ، وتتقي

محارمنا ، لا يبؤ الدم بالدم ؟

تعاطى الملوك السلم ، ما قصدوا بنا

وليس علينا قتلهم بمحرم

ترجمہ:۔"کیا عراق کے ہر بازار میں رشوت اور زبردستی ٹیکس وصول کیا جاتاہے۔ اور ہر شے پر جو آدمی فروخت کرتاہے۔ اُس میں درہموں کا ٹیکس ہے کیا بادشاہ اس کام میں ہم سے نہیں رکتے۔اور ہماری عزتوں پرہاتھ ڈالنے سے نہیں بچتے۔ جب وہ ایسا کرنے سے رک جائیں گے تو کوئی کسی کو قتل نہیں کرے گا۔بادشاہوں نے تجارتی معاملے میں جو ہمارے بارے میں قصد کیا ہے اُس میں ظلم کررہے ہیں،حالانکہ ان کو قتل کرنا ہمارے اُوپر حرام نہیں۔"

المنجد(لغات العربی) ص1222میں مکس یمکس مکسا کا معنی ٹیکس جمع کرنا ہے۔اگر یہ بیع کے ساتھ استعمال ہوتو قیمت کم کرنے کے لئے جھگڑا اور مخالفت کے معنی دیتا ہے۔

اور اگر اس کا صلہ "ہ" ہو تو پھر اس سے مراد ظلم کرنا ہوتا ہے۔المکس کا معنی محصول ٹیکس اور چنگی ہے۔جس کی جمع مکوس ہے۔ٹیکس جمع کرنے والے کو الماکس یا المکاس کہا جاتا ہے۔

اسلامی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام ٹیکسوں کو ختم کرکے زکواۃ وعشر کا نظام قائم فرمادیا۔اور جاہلیت کے ٹیکس وصول کرنے والے کے بارے میں فرمایا۔

مسند احمد /جلد 4 ص 109 کتاب الاموال ص469 الترغیب والترہیب /جلد ا ص568 کی روایت ہے۔

إن صاحب المكس في النار " .

ترجمہ:۔"بے شک ٹیکس و صول کرنے والا جہنم میں ہوگا۔"

دارمی /ص209 مسند احمد جلد 4 ص142 ۔150 کتاب الاموال ص469 المستدرک ج 1 ص 404 ابو داود ص408 الترغیب والترہیب جلد 1 ص56 کی روایت کے الفاظ ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ مَكْسٍ

ترجمہ:۔"صاحب مکس یعنی عشر وصول کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔"

یہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ صاحب مکس کے لئے عشار کا لفظ بھی استعمال ہوتاتھا۔

امام ابو عبید (ولادت 150ھ وفات محرم 224ھ) نے اپنی مایہ ناز تصنیف "کتاب الاموال" ص471۔472۔میں لکھا ہے کہ مکس وصول کرنے کے بارے میں جوکراہت اورسختی احادیث میں بیان کی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے:۔

أنه قد كان له أصل في الجاهلية، يفعله ملوك العرب والعجم جميعًا، فكانت سُنتهم أن يأخذوا من التجار عُشر أموالهم إذا مروا بها عليهم.

ترجمہ:۔"کہ اس کی اصل زمانہ جاہلیت میں پائی جاتی ہے کیونکہ یہ کام عرب وعجم کے سارے بادشاہ کیاکرتے تھے۔ان کا طریقہ یہ تھا کہ جب تجار اپنا مال لے کر ان کے پاس سے گزرتے تو وہ ان کے مالوں پر عشر وصول کیاکرتے تھے۔"

انھوں نے یہ بھی لکھا ہے:۔

وعن عقبة بن عامر أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (لا يدخل الجنة .... الله ذلك برسوله وبالإسلام، وجاءت فريضة الزكاة بربع العُشر، من كل مائتي درهم خمسة،

ترجمہ:۔پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس کو باطل کردیا۔اور زکواۃ کافریضہ فرض ہوگیا جو دو سو درہموں پر دس کی چوتھائی یعنی ڈھائی فیصد ہے۔"

پھر امام ابو عبید ؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل کیا۔

لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ ، إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى .ترجمہ:۔مسلمانوں پرعشور کی ادائیگی واجب نہیں بلکہ عشور کی ادائیگی یہود ونصاریٰ پر ہے۔"

یہی مذکورہ روایت ابو داود ص436 مصنف ابن ابی شیبہ جلد 3 ص192 ترمذی جلد 1 ص109 مسند احمد /جلد 3 ص474 میں بھی موجود ہے۔

مسند احمد جلد 1 ص190مصنف ابن ابی شیبہ جلد 3 ص197مجمع الزوائد جلد 3 ص87 الفتح الربانی /جلد 5 ص 19 میں سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

" يَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ ، احْمَدُوا اللَّهَ الَّذِي رَفَعَ عَنْكُمْ الْعُشُورَ "

ترجمہ:۔"اے جماعت عرب!اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرو جس نے تم سے عشور کو ختم کردیا۔"

مسند احمد کے شارح احمد عبدالرحمٰن البناالساعاتیؒ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے۔

يعني ماکانت تاخذہ ملوكهم وروسآء قبآئلهم عنهم من الضرائب والعشور ونحو ذلک

ترجمہ:۔یعنی: ان کے بادشاہ اورقبائل کےسردار اُن سے ٹیکسوں ،عشور اور انہی کی مثل جو وصول کیاکرتے تھے۔"

یعنی اللہ تعالیٰ نے ان ٹیکسوں سے عربوں کو نجات دلادی جو ان پر ان کے بادشاہوں اور قبائلی سرداروں نے عائد کررکھے تھے۔

احمد عبدالرحمٰن البناالساعاتی ؒ نے الفتح الربانی /جلد 15 کے ص18 پر المکس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:

ان المكس أعظم الذنوب وذلك لكثرة مطالبات الناس ومظلماتهم وصرفها في غير وجهها

ترجمہ:۔"کہ بے شک مکس عظیم گناہوں میں سے ہے اس لئے کہ کثرت کے ساتھ لوگوں سے طلب کیاجاتا ہے۔اور نہ وصول ہونے کی صورت میں ان پر ظلم کیاجاتا ہے۔پھر وصول کرکے اس کا غلط استعمال ہوتاہے۔"

معلوم ہوتا ہے کہ علامہ الساعاتی ؒ نے یہ الفاظ صحیح مسلم کے شارح امام نوویؒ کی عبارت سے نقل کئے ہیں جو انھوں نے صحیح مسلم جلد 2 ص68 کے حاشیہ میں مکس کی شرح کرتے ہوئے رقم کی ہے۔

پھر الساعاتی ؒ نے ماکس یاعشار کے جہنم رسید ہونے پر یوں روشنی ڈالی:

انما کان فی النار لظلمه الناس واخذ اموالهم بدون حق شرعی فان الستحل ذلک کان فی النار خالدا فيه ابدا لانه کافر والا فيعذب فيه مع عصاۃ المومنين ما شآء الله ثم يخرج ويدخل الجنة

ترجمہ:۔"جہنم میں وہ اس لئے جائے گا کہ اُس نے لوگوں پرظلم کیا اور حق شرعی کے بغیر اُس نے لوگوں کامال لیا۔اگر وہ اسے حلال سمجھے گا تو آگ میں ہمیشہ رہے گا۔کیونکہ وہ کافر ہے اگر حلال نہیں سمجھے گا تو گناہ گار اہل ایمان کے ساتھ جب تک اللہ چاہے گا عذاب دیا جائے گا۔پھر اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردے گا۔"

ليس علي المسلمين عشور (مسلمانوں پرعشور نہیں) اس کی تشریح میں انھوں نے لکھا ہے۔:۔

اي غير ما فرضه الله عليهم في الصدقات فلا يوخذ من المسلم ضريبة ولا شيئ يقرر عليه في ماله لانه يصير كالجزية

ترجمہ:۔یعنی صدقات کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ان پر جو فرض کیا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں پس مسلمان سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔اور نہ ہی اس کے مال میں کچھ مقرر کیا جائے گا۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو وہ جزیہ کی صورت اختیار کر جائے گا۔

جذیہ کے بارے میں امام ترمذیؒ نے باب باندھا ہے جلد 1 ص109۔

باب ما جاء ليس على المسلمين جزية "یعنی مسلمان پر جزیہ نہیں"

پھر انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تصلح قبلتانِي أَرْضٍ وَاحِدَةٍ ، وَلَيْسَ عَلَى مُسْلِمٍ جِزْيَةٌ

ترجمہ:۔"ایک زمین میں دو قبلے درست نہیں اور مسلمانوں پر جزیہ نہیں۔"ابو داؤد ص43 ،نیل الاوطار جلد 8 ص64 اور مسند احمد جلد 1 ص222 میں امام ابوداود ؒ علامہ شوکانیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ سے بھی منقول ہے کہ مسلمانوں پر کوئی جزیہ نہیں۔

ابو داؤد ص433 نیل الاوطار جلد 8 ص64 اور مسند احمد جلد 1 ص222 میں امام ابو داؤد ؒ علامہ شوکانی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ سے بھی منقول ہے کہ مسلمانوں پر کوئی جزیہ نہیں۔

امام فخر الدین رازی ؒ نے تفسیر کبیر جلد 4 ص619 میں نقل کیا ہے۔

تسقط الجزية بالإسلام ، أو الموت عند ابي حنيفة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « ليس على المسلم جزية

ترجمہ:۔"کہ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک موت اور اسلام سے جزیہ ساقط ہوجاتا ہے۔اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان پر کوئی جزیہ نہیں۔"

حافظ زکی الدین عبدالعظیم بن عبدالقوی المنذری المتوفی 656ھ نے لکھا ہے۔

أما الآن فإنهم يأخذون مكسا باسم العشر، ومكوسا أخر ليس لها اسم، بل شيء يأخذونه حراما وسحتا و وَيَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ

ترجمہ:۔"آج کل ٹیکس لینے والے عشر کے نام پر جو مکس اور دوسرے بے نام ٹیکس وصول کررہے ہیں۔وہ ناجائز اور حرام لے رہے ہیں۔بلکہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں۔اپنے رب کے پاس ان کی کوئی حجت نہیں چلے گی اور اُن پر غضب ہوگا۔اور وہ سخت عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے۔"

مذکورہ بحث سے واضح ہو اکہ اسلام سے پہلے عرب وعجم میں جو بھی ٹیکس راحج تھے۔ اسلام نے مسلمانوں کو ان سے بچا کر صرف زکواۃ وعشر ادا کرنے کا پابند بنایا۔

لہذا واجب الاحترام عدالت عالیہ کی خدمت میں درخواست ہے کہ مروجہ نظام انکم ٹیکس کو غیر اسلامی قرار دیا جائے تاکہ قرآن وسنت کی خلاف ورزی کے ارتکاب سے بچ کر پاکستان میں بسنے والے مسلمان راہ حق پر گامزن ہوجانے میں کوشاں ہوجائیں۔


حوالہ جات

1۔امام شعرانیؒ اس پر علماء کا اجماع نقل کرتے ہیں۔

2۔نیل الاوطارج4 ص134 میں ہے۔ "یعنی یہ تحریر غایۃً درجہ کی صحیح ہے۔کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر علماء کی موجودگی میں عمل کیا اور کسی نے مخالفت نہیں کی۔

3۔ایضاً الترغیب والترہیب /ج1 عن علقمہ۔

4۔بحوالہ بیہقی ص66 عن محمد بن سیرین تابعیؒ۔

5۔عاشر محصول لینے والے کو کہتے ہیں۔(محدث)

6۔غیر مسلموں کے لئے محاصل کے تعین کا ا ختیار حاکم کوہے۔تاہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دارالسلام میں ہی موجودگی کی صورت میں ایک سے زائد مرتبہ محصول نہ لیتے تھے۔(محدث)