امام ابن اثیر جزری ؒ

544ہجری اور 606ہجری
اُن کی علمی خدمات


( ابن اثیر کے نام سے دو بھائیوں نے شہرت پائی! ایک مجدد الدین مبارک صاحب النہایہ فی غریب الحدیث والآثر (م606ہجری) دوسرے عزالدین ساحب اسدالغابہ (م630ھ) اس مقالہ میں مجد الدین ابن اثیرؒ کے حالات اور علمی خدمات کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔(عراقی)

مجددین ابن اثیر الجزری کا نام مبارک بن محمد تھا۔اور کنیت ابو السعادات 544 ہجری میں جزیرہ ابن عمر میں پیدا ہوئے اور وہیں نشو ونما پائی۔

ابن اثیر ؒ کا خاندان علم وفضل کاگہوارہ تھا۔ان کے والد محمد بھی صاحب علم وفضل تھے،ابن اثیر ؒ نے اپنے والد سے بھی اکتساب فیض کیا۔ان کے علاوہ جن اساتذہ کرام سے ابن اثیر ؒ نے استفادہ کیا ،مورخ ابن خلقان (م 681ھ) نے وفیات الاعیان میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

طالب علم کے لئے بھی ابن اثیرؒ نے مختلف ممالک کا سفر کیا ہے علامہ سیوطیؒ (م911ھ) لکھتے ہیں کہ ابن اثیر ؒ نے بغداد کے علمائے کرام سے اکتساب فیض کیا۔

حدیث میں علمی تبحر:

علامہ ابن اثیرؒ حدیث میں کمال دسترس رکھتے تھے۔آپ نامور محدث اورفقہ ومعرفت حدیث میں یکتا تھے۔آپ کے بھائی علامہ عذالدین ابن اثیر ؒ(م630ھ) اور حافظ ابن کثیر ؒ(م774ھ) لکھتے ہیں کہ۔ابن اثیر (مجددین) حدیثوں کی تقد وتمیز کے ماہر اور رجال وعلل کے واقف کار تھے۔

علوم اسلامی میں مہارت:

علامہ ابن اثیر ؒ نہ صرف حدیث میں یکتا اور منفرد حیثیت کے حامل تھے۔بلکہ دوسرے علوم اسلامیہ یعنی قرآن وتفسیر فقہ،لغت وعربیت میں بھی مثال تھے ۔ارباب سیر نے ان کا جملہ علوم اسلامیہ میں یکتا اور منفرد حیثیت کے حامل ہونے کا اعتراف کیا ہے تفسیر اور قرآنی علوم میں مہارت سے متعلق علامہ ابن کثیرؒ (م774ھ) لکھتے ہیں۔

«وقرأ القرآن وأتقن علومه وحررها»

قرآن مجید کا مطالعہ کیا اور اس کے علوم میں مہارت بہم پہنچائی۔اور ان کو قلمبند کیا۔

ان کے چھوٹے بھائی علامہ عزالدین ابن اثیرؒ (م630ھ) لکھتے ہیں کہ۔

مجددالدین ابن اثیر متعدد علوم جیسے فقہ،اصول فقہ،نحو،حدیث اور لغت وغیرہ کے متبحر عالم تھے۔

علامہ عبدالحئی بن العماد الحنبلی (م1089ھ) نے ابن اثیرؒ کا متعدد علوم اسلامیہ میں متبحر ہونے کااعتراف کیا ہے۔

علامہ ابن اثیر ؒ ادب وانشاء میں بھی یکتا تھے۔ارباب سیر وتزکرہ نگاروں نے ان کو بہترین انشاء پرداز اور ادیب لکھا ہے اور ان کی ان شاء پردازی کی تعریف کی ہے۔

فقہی مذہب:

علامہ ابن اثیر ؒ شافعی المذہب تھے۔

تدین وتقویٰ"

علامہ ابن اثیرؒ ایک طرف تو تمام علوم اسلامیہ کے جامع اور صاحب فضل وکمال تھے وہاں آپ زہد وتقویٰ سے بھی متصف تھے۔آپ بہت بڑے متدین اور جادہ مستقیم پر گامز ن تھے۔اوصاف حمیدہ اوراخلاق فافلہ کے پیگر تھے۔خوش خلقی اور حسن سلوک میں منفرحیثیت کے مالک تھے۔

علامہ ابن العماد الحنبلی ؒ (م1089ھ) فرماتے ہیں۔

"وكان ذابر واحسان"

وہ لوگوں کے ساتھ نیک اور عمدہ برتاؤ کرتے تھے۔

وفات:

علامہ ابن اثیر ؒ 606ہجری میں 62 سال کی عمر میں موحل میں انتقال کرگئے۔

علمی خدمات:

علامہ ابن اثیرؒ صاحب تصانیف کثرہ تھے۔ان کی تمام تصنیفات علمی ،وتحقیقی ہیں ۔اسلوب بیان اور حسن تحریر کے لحاظ سے دلکش ہیں۔علامہ ابن اثیر ؒ نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا ہے صاحب کثف الظنون حاجی خلیفہ مصطفیٰ (م1067ھ )نے آ پ کی تصنیفات کی تعداد بارہ لکھی ہے۔

تفسیر:

"کتاب الانصاب فی الجمع بین الکشاف"

یہ قرآن مجید کی تفسیر ہے اور چار جلدوں میں ہے۔اس میں علامہ ابن اثیر ؒ نے احمد بن ابراہیم ثعلبی (م 430ہجری) کی تفسیر کشف البیان اور علامہ ابو القاسم جار اللہ محمود بن عمرز مخشری (م528ھ ) کی تفسیر الکشاف عن حقائق التنزیل کاماحصل جمع کردیا ہے۔

اسماء الرجال:

کتاب الازواوالذوات۔

فن نحو:

کتاب الباہر فی الفروق فی النحو۔کتاب البدیع

حدیث ومتعلقات :

"کتاب الشافعی فی شرح مسند الشافعی"

امام شافعیؒ (م204ھ) کی مسند کی حدیثوں کی شرح اور ان کے معانی وضاحت اور ان سے مستنبط ہونے والے احکام وسائل کی تحقیق۔

النہایہ فی غریب الحدیث والاثر:

علامہ ابن اثیرؒ کی یہ کتاب غریب الحدیث میں بہت مشہور اور بلند پایہ ہے۔علامہ سیوطیؒ (م 911ھ) لکھتے ہیں۔

غریب الحدیث میں علامہ ابن اثیر ؒ کی النہایہ بہت مشہور اور متد اول کتاب ہے ۔

طاش کبریٰ زادہ لکھتے ہیں کہ:

ابن اثیرؒ کی النہایہ اپنے موضوع پر بہت عمدہ اور لاجواب کتاب ہے۔

النہایہ کو لغت کی کتابوں کے انداز پر حروف تہجی سے مرتب کیا گیا ہے مولانا ضیاءا لدین اصلاحی مقدمہ النہایہ کی روشنی میں النہایہ سے متعلق لکھتے ہیں کہ:

اس میں حدیثوں کے مشکل اور غریب الفاظ کو ذکر کرکے ان کے معانی بیان کئے گئے ہیں۔اور ہر لفظ کی تشریح سے پہلے حدیث کا وہ ٹکڑا بھی نقل کیا گیا ہے۔جس میں یہ لفظ آیا ہے۔لغات کی تشریح وتحقیق کےلئے دوسری حدیثوں سے لطائر اورائمہ لغت اورشارحین حدیث کے بیانات بھی نقل کئے گئے ہیں۔اس میں صرف صحاح کی حدیثوں ہی کے مشکل الفاظ کی تشریح نہیں کی گئی ہے بلکہ سنن،جوامع،مسانید اور مصنفات وغیرہ حدیثوں کے غریب الفاظ بھی درج ہیں۔شروع میں ایک مقدمہ ہے۔اس میں الفاظ حدیث کی معرفت کی ضرورت،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت وبلاغت،فتوحات کے بعد اہل عرب کے دوسری قوموں سے اختلاط کے نتیجہ میں غیر زبانوں کے الفاظ کے عربی زبان میں داخل ہونے اور اس فن کی مشہور اور اہم کتابوں کی خصوصیات وغیرہ کا بھی ذکر ہے۔

"النہایہ فی غریب الحدیث والاثر 1269۔ میں طہران سے ایک جلد میں 1308ہجری اور 1211ہجری میں قاہرہ سے 4 جلدوں میں شائع ہوئی۔علامہ جلال الدین سیوطیؒ (م911ہجری) نے اس کی تلخیص الدراالنثیر کے نام سے کی۔جو 1311ہجری کے ایڈیشن کے حاشیہ پر شائع ہوئی۔

"جامع الاصول فی احادیث الرسول"

یہ علامہ ابن اثیرؒ کی مشہور ومقبول کتاب ہے۔اس میں انھوں نے صحاح ستہ کی روایات کو جمع کیا ہے جیسا کہ علامہ ابن خلکان (م681ھ) نے اس کی تصریح کی ہے جامع الاصول سے پہلے امام زرین ؒ بن معاویہ نے بھی اسی نہج پر ایک کتاب مرتب فرمائی تھی۔مگر ابن اثیر ؒ کی جامع الاصول زیادہ جامع اور مستند ہے۔

علامہ عبدالرحمٰن بن علی المعروف ابن ربیع الشیبانی ؒ (م944ھ) لکھتے ہیں۔

"میں قدیم وجدید ائمہ فن کی اکثر کتب حدیث سے واقف ہوں۔مگر مجھ کو جامع الاصول سے زیادہ جامع اورع عمدہ کتاب کوئی نظر نہیں آئی مصنف نے اس کو بڑی خوبی اور عمدہ ڈھنگ سے مرتب کیا ہے اور یہ گوناگوں فوائد پر مشتمل ہے۔

طاش کبریٰ زادہ ؒ جامع الاصول کے متعلق یوں اظہار خیال فرماتے ہیں کہ "یہ حدیث کی 6مستند ومعتبر کتابوں کی جامع ہے۔یعنی موطا امام مالک ،صحیحین وبخاری ومسلم) سنن ابی داؤد جامع ترمذی ،اور سنن نسائی وغیرہ کی روایات و احادیث کا مجموعہ ہے اسی خصوصیت کی وجہ سے ا س کو اسلامیات کی اہم اور حدیث کی بنیادی کتابوں میں شمار کیا جاتاہے بعض علمائے کرام کا خیال ہے۔کہ اس طرز پر ایسی عمدہ کتاب نہ پہلے لکھی گئی ہے اور نہ آئندہ لکھی جائے گی۔ علامہ ابن اثیر ؒ نے جامع الاوصول میں صرف حدیثوں کو جمع ہی نہیں کیا ہے بلکہ ان کی شرح بھی کی ہے۔اور نئی مسائل ومباحث کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور اس کے ساتھ احادیث سے جو مسائل مستنبط ہوتے ہیں۔ان کی نشاندہی کی ہے۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ (م1239ھ) لکھتے ہیں۔

علامہ ابن اثیرؒ نے جامع الاوصول میں صحاح ستہ کی حدیثوں کو جمع کیا ہے۔ اورغریب الفاظ کی شرح اور مشکلات کو بھی ضبط کیا ہے۔اور راویان حدیث کے ناموں اور دوسرے متعلقات فن کو بھی بیان کیا ہے۔اس لحاظ سے یہ گویا صحاح ستہ کی شرح ہے۔جس طرح کہ مشارق الانوار اور طبقہ اولیٰ کو تینوں کتابوں (موطا اوربخاری ومسلم) کی شرح ہے۔

علامہ ابن اثیرؒ خود بھی فرماتے ہیں۔کہ جامع الاوصول میں غریب الفاظ کی شرح اور اعراب ومعانی کی وضاحت کی گئی ہے۔

جامع الاوصول کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

1۔مبادی 2۔مقاصد 3۔خاتمہ

پہلے حصہ میں چار فصلیں اورایک مقدمہ ہے ۔مقدمہ میں علم حدیث کے اصول وقواعد ،اور اصلاحات کا ذکر ہے۔اور فصلوں میں علم حدیث کی نشر واشاعت اوجمع وتدوین ،کتب حدیث کی تصنیف وتالیف کے اغراض ومقاصد ،متاخرین کے مستقدمین محدثین کی کتابوں کے خلاصے مرتب کرنے اور جامع الاوصول کے مقصد تصنیف کو بیان کیا گیا ہے۔

علامہ ابن اثیر ؒ نے جامع الاوصول کو مسانید کی بجائے ابو اب پر مرتب کیا ہے۔اور ابواب کو معانی کے لحاظ سے مرتب کیا ہے۔علامہ ابن اثیر ؒ نے اس کتاب میں یہ طریقہ اختیا ر کیا ہے۔ کہ جو حدیث کسی ایک معنی پر دلالت کرتی ہے۔اس کو اس کے باب میں جمع کیا ہے۔اور جو حدیث کئی ایک معنی پر مشتمل ہے۔اس کو علامہ ابن اثیرؒ نے آخر میں ایک مستقل باب میں درج کیا ہے۔اور جس کا نام انہوں نے کتاب اللواحق رکھا ہے۔جامع الاصول کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر علمائے کرام نے اس کے مختصرات لکھے ہیں۔جن میں علامہ شیخ عبدالرحمٰن بن علی المعروف بابن الربیع الشیبانی (م 944ھ) کی مختصر تیسرا لوصول الی اجامع الاصول بہت مشہور ہے۔یہ مختصر بہت نفیس اور عمدہ ہے۔یہ دو جلدوں میں ہے ۔اور اس کو حروف تہجی کی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے۔1252ہجری میں یہ کتاب کلکتہ سے شائع ہوئی ،اور 1896ھ میں کان پور سے شائع ہوئی۔ممی السنۃ مولانا سید نواب صدیق حسن خاں ؒ(م1307ھ) اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔

"تیسرا لوصول مختصر تعریف وتوصیف سے مستغنی ہے میرا ارادہ ہے کہ اس کی شرح فارسی زبان میں لکھوں تاکہ اس بہانے سے پروانہ نجات حاصل کروں۔اور اللہ کے ہاتھ میں توفیق ہے۔

مشہور اہل حدیث عالم مولانا ابو الحسن محمد سیالکوٹیؒ (م1325ھ) نے تیسرا لوصول کا اردو ترجمہ کیا ہے جو مطبوع ہے۔


حوالہ جات

1۔ابن خلقان وفیات الاعیان ج2ص 203،ابن سبکی طبقات الشافعیۃ ج5 ص153۔

2۔ابن خلقان وفیات الاعیان ج2ص203۔

3۔سیوطی بغیۃ الوعاۃ ص385۔

4۔عزالدین ابن اثیر تاریخ الکامل ج12 ص 913،ابن کثیر البدایہ والنہایہ ج13 ص54۔

5۔ابن کثیر البدایہ والنہایۃ ج13،ص54۔

6۔ابن اثیر تاریخ الکامل ج12 ص 11۔13۔

7۔ابن عماد الحنبلی شذرات الذہب ج5 ص22۔

8۔ابن خلکان وفیات الاعیان ج2 ص 3 ابن سبکی، طبقات الشافعیہ ج5 ص 5۔ابن اثیر تاریخ الکامل ج2 ص 113وغیرہ۔

9۔ابن سبکی طبقات الشافیعہ ج5 ص135،

10۔ابن عماد الحنبلی شذرات الذہب ج5 ص22۔

11۔ابن خلکان وفیات الاعیان ج2 ص204۔

12۔حاجی خلیفہ مصطفیٰ بن عبداللہ کشف الظنون ج1 ص 159 ص193 وغیرہ۔

13۔حاجی خلیفہ مصطفیٰ کشف الظنون ج1 ص 159،ابن خلکان وفیات الاعیان ج2 ص 213،

14۔معجم المطبوعات کالم 34،علامہ سیوطی (م 911ء نے اس کی تلخیص کی تھی۔

15۔حاجی خلیفہ مصطفیٰ کشف الظنون ج1ص 159۔

16۔ایضاً ج2 ص 433۔

17۔سیوطی تدریب الراوی ص193،

18۔مفتاح السعادۃ ج1 ص110۔

19۔معجم المطبوعات ج1 کالم 135۔

20۔ابن خلکان ،دفیات الاعیان ج2ص 203،

21۔ابن ربیع الشیبانی مقدمۃ تیسرا الاوصول ص1 ۔

22۔طاش کبریٰ زادہ،مفتاع السعادۃ ج1 ص110۔

23۔شاہ عبدالعزیز دہلوی عجالہ نافعہ معہ فوائد جامع ص4،

24۔حاجی خلیفہ مصطفیٰ بن عبداللہ کشف الظنون ج1 ص 359۔

25۔نواب صدیق حسن خانؒ،اتحاف النبلاء ص 47،

26۔ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ،ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ص47،