آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی زندگی
فقروشاہی واردات مصطفیٰ است
ایں تجلی ہائے ذات مصطفیٰ است (اقبال )
سلسلہ انبیاؑء کی آخری کڑی انسان کا مل حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے راہنمائی نہ ملتی ہو اسی وجہ سے اللہ تبارک وتعا لیٰ نے ارشاد فر ما یا۔
﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ ...﴿٢١﴾... سورةالاحزاب
یعنی "تمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ایک عمدہ نمونہ ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عبادت اور زہد سے معاملات حکومت تک کو ئی بھی ایسی چیز نہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہدایت نہ ملتی ہو لیکن اس مختصر مضمون میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی زند گی سے متعلق چند باتیں تحریر کی گئی ہیں ۔آج کل کی اس مادی دنیامیں ہر ایک آدمی حریص ہے اور مالدار اور کروڑ پتی ہو نے کے باوجود دہَل مِن مَزِید کی صدا لگا رہا ہے اسی طرح فقیر بھی قوت لایموت پر قانع نہیں ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ حضرات کی حالت نہ تھی ۔
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنےکہ منعم کو گدائے کے ڈرسے بخشش کا نہ تھا پارا اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی خود داری اس درجے پرتھی تو خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا عالم ہو گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی اس میں معاشی استحکام نہیں تھا غریب لوگوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی جو بعض اوقات حالات کے ہاتھوں تنگ آکر درختوں کے پتے اور سوکھا چمڑا تک کھانےپر مجبور ہو جا تے ہیں شعب ابی طالب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر جو حالات گزرے وہ قابل بیان ہیں غرباء کے بالمقابل امراء عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے وہ سودی کا روبار کرتے تھے شراب نوشی اور جوا عام تھا رقص و سرور کی محفلیں عام منعقد ہو تی تھیں حلال و حرام کی کو ئی تمیز نہ تھی چوری اور ڈکیتی عام تھی عورتوں کی حیثیت حیوانات کی سی تھی ان کا خیال تھا کہ جس طرح بیل ذریعہ زراعت ہیں اسی طرح عورت ذریعہ تسکین شہوت اور بس ۔اولاد کو خرچ کے ڈر سے قتل کردیتے اور لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے غلامی کا رواج عام تھا مگر غلاموں کے حقوق نہ تھے ،بلکہ ان سے ہر قسم کا ظلم و ستم روارکھا جا تا تھا قرآن مجید میں اس دور کے حالات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔
﴿ظَهَرَ الفَسادُ فِى البَرِّ وَالبَحرِ بِما كَسَبَت أَيدِى النّاسِ... ﴿٤١﴾... سورة الروم
"لوگوں کے کرتوت سے خشکی وتری میں بلائیں پھیلی پڑی ہیں ۔"
زندگی مسائل سے عبارت ہے اور ان مسائل میں معاشی مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کہ ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا ہے اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات معیشت کی تنگی کی وجہ سے انسان دین کا نقصان کر بیٹھتا ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا ۔
«كاد الفقران تكرن كفرا»
"یعنی ممکن ہے کہ محتاجی انسان کو کفر تک پہنچادے !"
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہو ئے تو یتیم تھے پھر والد ہ کا ساتھ بھی زیادہ دیر تک نہیں رہا اور وہ بھی بچپن ہی میں داغ مفارقت دے گئیں ان کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا نے لے لیا اور نہایت محبت سے پرورش شروع کی لیکن کچھ عرصہ بعد جب وہ بھی فوت ہو گئے تو پرورش کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جناب ابو طالب نے لے لی بعض روایات کے مطابق عبد المطلب نے ابو طالب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کے متعلق وصیت کی تھی ۔ابو طالب بھی دیگر امراء قریش کی طرح تجارت کیا کرتے تھے ایک بار جب انھوں نے شام کی طرف تجارت کا قصد کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ساتھ جا نے کا اشتیاق ظاہر فر ما یا جس پروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ساتھ لے گئے اسی سفر میں ایک پڑاؤ پر سجیرا نامی ایک راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی پہچان لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں کیونکہ انکی کتابوں میں آخری نبی کی علامتیں لکھی ہو ئی تھیں پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جا نے کا مشوردیا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن میں حضرت حلیمہ سعدیہ کے ہاں قیام کے دوران اور بعد میں نبوت سے قبل اہل مکہ کی بکریاں بھی چرائیں۔اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورنبوت میں خود بیان فرمائی اور ذرا شرم محسوس نہ کی۔حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
«ما بعث الله نبيا الا رع الغنم»
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانی میں قدم رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے مال سے تجارت کرنا شروع کردی۔تجارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آبائی پیشہ تھا۔بعض تو قریش کی وجہ تسمیہ بھی ان کی تجارت ہی کو قرار دیتے ہیں۔لفظ قریش قرش یقرش سے ماخوذ ہے۔جس کے معنی کمانے کے ہیں۔ اور قبیلہ قریش میں جس شخص نے تجارت میں سب سے زیادہ شہرت حاصل کی اور روم وایران اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے کئے وہ ہاشم تھا۔
عرب میں اس دور میں یہ رواج تھا کہ لوگ کسی دیانت دار آدمی کو اپنے ساتھ ملالیتے اور یہ شرط ہووتی کہ وہ ان کا مال لے کر باہر جائے اور نفع میں شریک ہوگویا یہ ایک تجارتی ایجنسی کی شکل تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اورامانت کا شہرہ بہت ہوچکا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے پاس جانے کی ضرورت نہ پڑتی بلکہ لوگ خود اپنا مال لا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےحوالے کرتے۔زیادہ نفع اور دیانت وامانت کو بنائ پر لوگوں کا رجحان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بہت بڑھ گیا جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک سفر ہوتے۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تعریف کرتے۔ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء اور حضرت قیس بن سائب کے ساتھ مل کرکام کیا۔حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیانت داری میں بے مثال تھے۔ان سے لین دین کے معاملے میں کبھی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ایک دفعہ عبداللہ بن ابی الحمساء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معاملہ کیا اور کہا کہ میرے آنے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھریں میں ابھی آتا ہوں یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور اپنے کام میں اس حد تک مشغول ہوئے کہ اپنی بات بھول گئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں رہے اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم وعدہ پورا کرنے کے لئے تین دن تک وہاں قیام فرمایا وہ تین دن کے بعد آئے تو بہت شرمندہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لقد شققت على انا ههنا منذ ثلث»
یعنی آپ نے مجھے تکلیف دی ہے میں تین دن سے یہاں پر ہوں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اورشرافت کو دیکھ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو قبیلہ قریش کی ایک مشہور بیوہ خاتون تھیں۔ اپنا تجارتی سامان دے کر شام بھیجا۔اور دوگنا نفع طے کیا اور اپنے غلام مسیرہ کو ساتھ بھیج دیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سامان کو بہت زیادہ نفع کے ساتھ نہایت دیانتداری سے فروخت کیا۔میسرہ نے اس سفر کے تمام حالات حضرت خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گوش گزار کئے۔ پچیس سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم تجارت ہی کرتے رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام ،بصرہ،فلسطین،بحرین،کویت،مسقط،اورعمان کے سفر کئے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی اوصاف اور تجارت میں حسن معاملہ سے متاثر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کا پیغام بھیجا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کے مشورہ سے قبول فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ نکاح بھی ابو طالب نے پڑھایاتھا۔ قرآن مجید میں ہے۔﴿وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَاَغْنٰى﴾یعنی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نادار پایا تو مالدار بنادیا۔ بعض روایات کے مطابق اس آیت میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کی طرف اشارہ ہے ۔شادی ک بعد تقریباً بارہ سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم تجارت کرتے رہے لیکن بعد میں طبعیت تنہائی پسند ہوگئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو بہت کم فرماتے تھے۔اور زیادہ تر غور وفکر میں مصروف رہتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کا کچھ سامان لے کر مکہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع غارحرا میں تشریف لے جاتے۔سامان ختم ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آتے۔ کبھی کبھی تو یوں بھی ہوتا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خود ا س مشکل مقام تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا دینے جایا کرتی تھیں۔اسی غار میں چالیس سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی نزول وحی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ برس مکہ میں گزارے لیکن یہ دور مشکلات کا دور تھا اور کوئی خوشحالی نہ تھی۔اسی دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں کا تین سال تک معاشرتی بائیکاٹ بھی کیا گیا یہ مدت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں کے ہمراہ شعب ابی طالب میں گزاری۔
بعد میں جب بائیکاٹ ختم ہوا تو مسلمانوں پر اور بھی ظلم وستم روا رکھے گئے انہی مظالم کو دیکھتے ہوئے اللہ کے حکم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالآخر مسلمانوں کو مدینہ جانے کی اجازت دے دی۔اور خود بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ عازم مدینہ ہوئے قرآن مجید میں ہے۔
﴿وَإِذ يَمكُرُ بِكَ الَّذينَ كَفَروا لِيُثبِتوكَ أَو يَقتُلوكَ أَو يُخرِجوكَ وَيَمكُرونَ وَيَمكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيرُ المـٰكِرينَ ﴿٣٠﴾... سورة الانفال
" اور جبکہ کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کریں یا قتل کریں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکال باہرکریں اور وہ اپنی تدبیریں کررہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کررہاتھا اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔"
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔زاد راہ کا انتظام بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا۔ جب مدینہ پہنچے اور مسجد بنانے کا قصد کیا تو مسجد نبوی کے لئے دو یتیم بچوں سے خریدی جانے والی زمین کی قیمت بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ادا کی۔مدینہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چھوٹی سی اسلامی ریاست کو مستحکم کرنے کی ان تھک کوششیں فرمائیں۔اور اپنی معاشی حالت کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔جس کی اصل وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قناعت پسندی تھی۔
دنیاوی مال ودولت کے حصول کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کوشش نہ کی۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کچھ آتا اس کو بھی غرباء پرخرچ کرڈالتے۔بعض اوقات گھر میں کھانے کوکچھ بھی نہ ہوتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں:
«ما شبع ال محمد من خبز شعير يومين متتابعين حتى قبض رسول الله»
" یعنی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نےدو دن تک سیر ہوکر جو کی روٹی بھی نہیں کھائی۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ دعا فرمایا کرتے۔
«اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا»
"یعنی اے اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رزق ضرورت کے مطابق رکھ۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس میں بھی ہمیشہ سادگی ہوتی خود فرمایا کرتے کہ:"«انما انا عبد البس كما يلبس العبد»
"یعنی میں تو خدا کا بندہ ہوں اور بندوں کی طرح لباس پہنتا ہوں"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ریشمی لباس نہ پہنتے لباس کے معاملے میں قرآن مجید کی اس آیہ مبارکہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے جس میں ارشاد خدواندی ہے کہ:
﴿يـٰبَنى ءادَمَ قَد أَنزَلنا عَلَيكُم لِباسًا يُوٰرى سَوءٰتِكُم وَريشًا وَلِباسُ التَّقوىٰ...﴿٢٦﴾... سورة الاعراف
"یعنی اے بنی آدمؑ ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا ہے جوتمہارے پردے والے جسم کو چھپاتاہے۔اور موجب زینت بھی ہے اور تقویٰ کا لباس اس سے بڑھ کر ہے"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی معاملہ میں نمائش کے قائل نہ تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدمیوں میں سے ایک آدمی تھے۔اپنے کپڑوں کا خود خیال رکھتے بکریوں کا دودھ دوہ لیتے اور اسی طرح کے اور بہت سے دوسرے کام بھی کرلیتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی بھی بہت سادہ تھی۔گھر کے سامان میں ایک لکڑی کا پیالہ زیادہ تر کھانے پینے میں استعمال ہوتا تھا۔
چمڑے کے گدے کا بستر جس میں کھجور کی چھال تھی بان کی چار پائی ٹاٹ کا بستر وغیرہ جیسی چیزیں شامل تھیں۔ایک بار حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جسم اطہر پر نشان دیکھے تو آبدیدہ ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگے کہ قیصر وکسریٰ تو عیش کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «لهم الدنيا ولنا الآخرة» (ان کے لئے دنیا ہے اور ہمارے لئے آخرت ہے ) آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی دنیا کی زندگی بے وقعتی اور آخرت کی بقاء کو سامنے رکھتے ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار ومہاجرین کے لئے دعا کرتے ہوئے آخرت کا ذکر یوں کیا:
«اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلا عَيْشُ الآخِرَةِ ، فَاغْفِرْ لِلأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَة »
یعنی"اے اللہ اصل زندگی تو آخرت ہی کی ہے انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔"
اگر کوئی چیز گھر میں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اصحاب صفہ کا خیال کرتے۔اسی طرح فتوحات کی صورت میں جو مال آتا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم شام ہونے سے پہلے تقسیم فرمادیتے سن 6 ہجری میں جنگ خیبر ہوئی اور فدک کی زمین مسلمانوں کے قبضہ میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ا س سے اپنی ازواج مطہرات کو ان کا خرچ دیتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفود کی مہمان نوازی کرتے اور اصحاب صفہ کے خرچ کا خیال کرتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ سبق دیا کہ دنیا محض ایک مسافر خانہ کی مانند ہے۔اصل زندگی آخرت کی ہے لہذا اسی کے لئے ہمیں تیاری کرنی چاہیے۔قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
﴿إِنَّ اللَّهَ اشتَرىٰ مِنَ المُؤمِنينَ أَنفُسَهُم وَأَموٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ... ﴿١١١﴾... سورة التوبة
"بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو خرید لیا ہے اور اس کے عوض میں انہیں جنت ملے گی۔گویا دنیا کی تمام تکالیف کا بدل مومن کے لئے جنت کی صورت میں ہوگا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں تاکہ آپ کو بتائیں کہ چکی پیسنے کی وجہ سے جو ان کے ہاتھوں کو تکلیف یا زخم پہنچے ہیں لہذا وہ آپ کو کوئی لونڈی دیں۔ان دنوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لونڈیاں آئی تھیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پہنچیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہ تھے۔حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس بات کا ذکر فرمایا اور گھر واپس آگئیں۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ بات بتائی۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ ہم اپنے بستروں پر تھے ہم اپنے بستروں سے اٹھنے لگے تو فرمایا اپنی جگہ پر ہی رہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور ان کے یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان بیٹھ گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کی ٹھنڈک مجھے اپنے پیٹ پرمحسوس ہوئی اور فرمایا کہ کیا میں آپ دونوں کو آپ کے سوال سے بہتر چیز نہ بتاؤں جب آپ بستروں پر جاؤ 33 بار سبحان اللہ 33 بار الحمدللہ اور 34 بار اللہ اکبر کہاکرو۔یہ تمہارے خادم سے بہتر ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذاتی جائیداد کوئی نہیں چھوڑی بلکہ ایک اصول بیان فرمایا کہ «ولا نورث ما تركنا صدقة» یعنی " ہم وارث نہیں بناتے ہیں جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں صدقہ ہوتا ہے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی فرمایا کرتے کہ:
«اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا ، وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا ، وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ »
یعنی "اے اللہ مجھے مسکین زندہ رکھ اور مسکین ہونے کی حالت میں موت دے اورمساکین کے گروہ میں سے ہی اٹھانا"
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی ایک جھلک تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرتے وقت اور قرآن وحدیث میں غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشی میدان میں بہت اصلاح کی رزق حلال کی تاکید کی اور تجارت میں دیانت ،رشوت کا خاتمہ،احتکار کی مخالفت ،مزدور سے حسن معاملہ ،انفاق فی سبیل اللہ ،سود کی حرمت اور افلاس کے خاتمہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات عالیہ درج ذیل ہیں:
«كَسْبُ طَلَبُ الْحَلالِ فَرِيضَةٌ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ»
"کسب حلال ،فریضہ الٰہی کے بعد سب سے اہم فریضہ ہے"
«التاجر الصديق الامين مع النبيين والصديقين والشهداء»
"امین اورسچا تاجر نبیوں اورصدیقوں کے ساتھ ہوگا۔"
«المحتكر ملعون»
"ذخیرہ اندوزی کرنے والا آدمی ملعون ہے"
«خَيْرُ الْكَسْبِ كَسْبُ يَدِ الْعَامِلِ إِذَا نَصَحَ»
"بہترین کمائی ہاتھ کی کمائی ہے جبکہ کرنے والا خیر خواہ ہو۔
«لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي»
"آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے والے دونوں پرلعنت فرمائی ۔"
«أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ»
"مزدور کی اُجرت اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔"
«أدّوا زكاة أموالكم»
"اپنے مالوں کی زکواۃ ادا کرو۔"
«ان فى اموالكم حقا سوى الزكوٰة»
"زکواۃ کے علاوہ بھی تمہارے مالوں میں حق ہے"
«الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ»
"مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو چھوڑتا ہے۔جو مسلمان بھائی کی ضرورت کو پوری کرگیا اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔"
«لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ»
" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی سود کھانے والے پر،کھلانے والے پر(سود کی) دستاویز لکھنے والے پر اسکے گواہوں پر اور پھر فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔"
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آج تک ہم نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روگردانی کرکے کیا حاصل کیا ہے۔نہ معاشی لحاظ سے استحکام ہے۔ اور نہ ہی معاشرتی لحاظ سے امن وسکون بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم دوسروں کے دست نگر ہوگئے ہیں۔اور اس کا بنیادی سبب قرآن سے روگردانی ہے جیسا کہ حکم خداوندی ہے۔
﴿وَمَن أَعرَضَ عَن ذِكرى فَإِنَّ لَهُ مَعيشَةً ضَنكًا...﴿١٢٤﴾... سورة طه
"یعنی جو اللہ کے ذکر سے اعراض کرلیتا ہے اس کی معیشت تنگ ہوجاتی ہے"
ہمارے تمام مسائل کا حل صرف اس چیز ہی میں ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھیں ۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی مانند ایثار وقربانی کو اپنا وطیرہ بنائیں۔قرآن مجید ہےکہ:
﴿وَلَو أَنَّ أَهلَ القُرىٰ ءامَنوا وَاتَّقَوا لَفَتَحنا عَلَيهِم بَرَكـٰتٍ مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ وَلـٰكِن كَذَّبوا فَأَخَذنـٰهُم بِما كانوا يَكسِبونَ ﴿٩٦﴾... سورة الاعراف
"اگر بستیوں والے ایمان لے آئے ہوتے اور یہ بُرے کاموں سے بچے رہتے تو ہم ان پر آسمانوں اور زمین سے برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تو جھٹلایا سوہم نے ان کے کاموں کی پاداش میں ان کو پکڑ لیا۔"
اس فرمان الٰہی کی تشریح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے حدیث قدسی ہے کہ:
«لَوْ أَنَّ عِبَادِيَ أَطَاعُونِي لأَسْقَيْتُهُمُ الْمَطَرَ بِاللَّيْلِ ، وَأَطْلَعْتُ عَلَيْهِمُ الشَّمْسَ بِالنَّهَارِ ، وَلَمْ أُسْمِعْهُمْ صَوْتَ الرَّعْدِ»
یعنی"اگر میرے بندے میرے فرمانبردار بن جائیں۔تو میں رات کے وقت(ان کی ضروریات کی بناء پر) ان پر بارش برساؤں۔اور دن کے وقت سورج طلوع کردوں۔اور ان کو بجلی کی کڑک بھی نہ سناؤں (تاکہ ان کے آرام میں خلل نہ ہو")
یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پرمہربانی کی انتہا ہے کہ پانی کی ضرورت بھی پوری ہوجائے اور آرام میں خلل بھی واقع نہ ہو۔اور اگلے دن آرام سے اپنے کام میں بندے مصروف ہوجائیں۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں تاریخ کا ایک واقعہ بھی بیان فرمایا۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔کہ ایک دفعہ ایک شخص جنگل میں چل رہا تھا۔اس نے بادل سے یہ آواز سنی"اسق حديقة فلان" یعنی فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کرو۔اسی و قت بارش ہوئی اور پانی ایک طرف چل پڑا۔وہ آدمی بھی پانی کے ساتھ چل پڑا۔وہ پانی ایک باغ میں داخل ہوا نام پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ اسی شخص کا باغ ہے جس کا نام اس نے بادلوں سے سُنا تھا۔اس نے اس شخص سے خدا تعالیٰ کی مہربانی کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ ایک حصہ مسافروں(ضرورتمندوں) کے لئے رکھتا ہے۔ایک حصہ اپنی ضرورت کے لئے اور ایک حصہ باغ پر ہی خرچ کردیتا ہے۔ اور یہی ثمر ہے۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کا۔لیکن جو لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے انحراف کرتے ہیں۔ان کو خدا وند تعالیٰ نے قرآن حکیم میں یون متنبہ کیا ہے۔
﴿فَليَحذَرِ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِهِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٦٣﴾... سورة النور
" جو لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانتے نہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ (دنیا میں) کوئی مصیبت ان پر نہ آن پڑے یا(آخرت میں تکلیف کا عذاب ان کو پہنچے۔"
آج کے اس پر فتن دور میں مسلمانوں کی بے راہ روی کا بنیادی سبب ہی یہ ہے کہ قرآن وسنت پر ترک عمل ہے۔اور یہ ترک عمل ہی گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نےآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بے وفائی کی ہے۔اور غیروں کے ساتھ رسم وفا ادا کی ہے ،ورنہ آج بھی خدا تعالیٰ کی رحمتیں ہماری منتظر ہیں۔ظفر علی خاںؒ نے درست فرمایا تھا کہ۔
سلیقہ مے کشی کا ہوتو کرسکتی ہےمحفل میں!
نگاہ ست ساقی مے کشی کا اعتبار اب بھی
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اگر سینے میں دل ہو اور تڑپ اسلام ہو دل میں
اتر سکتاہے ابررحمت پروردیگار اب بھی!
حوالہ جات
1۔بانگ درا ،علامہ محمد اقبال ،خطاب بہ جوانان مسلم ص183،(شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لا ہور ،
2۔الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبوۃ لا بن ہشام ازابوالقاسم عبد الرحمٰن بن عبد اللہ السہلی ج نمبر 12،ص127،
3۔مشکاۃ المصابیح ص429 کتب خانہ اصح المطابع ،دہلی ،ولی الدین ابو عبد اللہ الخطیب ،
4۔سیرت ابن شہام مع الروض الانف ج نمبر1 ص118 (مکتبۃ فاروقی ملتان)
5۔الجامع الصحیح بخاری ازابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری ج نمبر1 ص36 (نور محمد کتب خانہ کراچی)
6۔الزمخشری ابو القاسم جاراللہ محمود بن عمراز مخشری تفسیر الکشاف عن حقائق المتتر۔یل وعیون الاقاویل فی وجوہ التاویل سورہ قریش ج نمبر 3 ص360۔(مکتبہ مصطفیٰ البانی مصر) 11۔محمد عبداللہ اثیر الدین محمد بن یوسف اندلسی۔تفسیر البحر المیط ج نمبر 8 ص513 (مکتبہ مطالع النصر الحدیثہ مصر۔
7۔آلوسی از محمود آلوسی۔تفسیر روح المعانی ج نمبر1 ص519۔
8۔مشکواۃ المصابیح باب الوعد ص419۔
9۔طبقات ابن سعد ج1ص129 دارصادر بیروت۔
10۔سیرت ابن ہشام ج نمبر 1 ص121۔
11۔سیرت ابن ہشام ۔ج نمبر 1 ص222۔
12۔طبقات ابن سعد ج نمبر 1 ص209۔
13۔السیرۃ النبویہ واخبار الخلفاء ازا بو حاتم محمد بن احمد البتی ص130۔128۔موسۃ الکتب الثفاقیہ بیروت۔
14۔صحیح مسلم از مسلم بن حجاج القشیری ج نمبر 2 ص409۔
15۔ صحیح مسلم از مسلم بن حجاج القشیری ج نمبر 2 ص409۔
16۔زرقانی شرح المواہب الدنیہ ص200 القاہرہ۔
17۔ابن قیم الجوزیہ زاد المعاد مترجم حصہ اول انیس احمد جعفری ص108 لاہور۔
18۔صحیح بخاری ومسلم،بحوالہ مشکواۃ شریف باب فضل الفقراء وماکان من عیش النبی ؐ ص447۔
19۔الجامع الصحیح البخاری باب قول النبی لاعیش الاعیش الاخرہ ج 2 ص949 نور محمد کتب خانہ کراچی۔
20۔الجامع الصحیح بخاری ج2 ص575۔
21۔الجامع الصحیح بخاری ص806۔
22۔الجامع الصحیح للبخاری ج1 ص527۔
23۔ابن ماجہ ترمذی بیہقی بحوالہ مشکواۃ شریف ص447۔
24۔مشکواۃ شریف ص243۔
25۔جامع الترمذی از ابو عیسیٰ محمد بن عیسٰ الترمذی ج1 ص179۔
26۔سنن الدارمی ج1 ص165۔
27۔مسند احمد بن حنبل ؒ ج2 ص234۔مصر
28۔جامع الترمذی از ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی۔ابواب الاحکام ج1 ص194۔
29۔ مسند احمد از احمد بن حنبلؒ ج5 251مصر۔
30۔موطا امام مالک ؒ کتاب الذکواۃ حدیث نمبر 320۔
31۔جامع الترمذی از ابو عیسیٰ محمدبن عیسیٰ الترمذی کتاب الزکواۃ ج1 ص112۔
32۔متفق علیہ بحوالہ مشکواۃ شریف۔باب الشفقہ الرحمۃ علی الخلق ص422۔
33۔صحیح مسلم از مسلم بن حجاج القشیری ج2 ص217۔باب الربا۔
34۔الصحیح البخاری از ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری بحوالہ قرآن مجید مترجم آف کراچی عبدالستار صاحب دلوان اہل التقویٰ۔
35۔الصحیح لمسلم بحوالہ مشکواۃ شریف ص165۔