زیست کی بلبل

پہ ایک دن موت کا جھپٹے گا باز
تو نے مجھ کو دولت دل سے کیا ہے سرفراز
مانگتا ہوں تجھ سےمیں اب دولت سوزوگداز
کیوں نہ ہو محبوب مومن کو تہجد کی نماز
حاصل عمررواں ہے عرصہ رازو نیاز
کام آتا ہے جو انساں دہر میں انسان کے
نعمت عظمیٰ ہے اُس انسان کی عمر دراز
جان سے جاں کر بھی سکون جاں نہیں اُنکوملا
جاں رہی جنکی فدائے رقص وموسیقی وساز
خلق سے الفت ہے میری خالق گل کےلئے
بے حقیقت سے فلسفے ہیں یہ حقیقت اور مجاز
کر خوشی سے صرف مال وزرخدا کی راہ کی میں
حسرت وغم کا سبب ہے مال وزر کا ارتکاز