استفتاء

محترم جناب!

السلام علیکم ۔گاہےگاہے آپ کا رسالہ محدث نظروں سے گزرنا ہے جس میں باب الاستفتاء پر مفصل روشنی ڈالی جاتی ہے۔کافی عرصہ سے ان دوسوالوں نےدل ودماغ میں خلجان پیدا کررکھا ہے میں امید کرتا ہوں کہ آپ بواپسی ڈاک مطلع کریں جوابی لفافہ ارسال خدمت ہے۔

1۔قرآن پاک میں کئی بار مذکو ر ہے کہ مردار خون خنزیر کا گوشت اور لغیراللہ حرام ہیں۔ ایک مولوی صاحب نے فرمایا کہ شہید کا خون پاک ہے۔جب مترجم قرآن پاک کو دیکھا تو مفسر نےلکھا خون رگوں سے نکلتا ہے وہ حرام ہے اور جو خون گوشت پر لگارتا ہے وہ حلال اورپاک ہے۔ اگر گوشت کوبغیر دھوئے پکا لیاجائے تو نظافت کے خلاف ہے۔ قرآن میں تویہ حرام ہے خواہ رگ کا ہو یا کسی اورمقام کا۔

2۔میرے ایک رشتہ دار نے 5کنال زمیں بعوض 5ہزار روپے رہن لی ہے اور زمین میں گندم کاشت کی ہوئی ہے۔کیاوہ اس زمین کی تمام پیداور لے سکتا ہے یادین اسلام میں پابندی ہے؟

ایک مولوی صاحب نے فرمایا کہ رہن کا فعل جائز ہے لیکن آمدنی ناجائز ہے۔اگر فعل جائز توآمدنی بھی جائز ہے۔

آپ ازراہ کرم مفصل جواب لکھیں تاکہ خلجان باقی نہ رہے بعض لوگ زمین کو حرام بتاتے ہیں لیکن قرآن وحدیث میں تو حرام نہیں ۔خدائی اختیار اپنے ہاتھ میں کیوں لیتے ہیں۔

ٹیچرعبدالخالق گورنمنٹ ہائی سکول دیوی
ضلع راولپنڈی

الجواب

خون۔خون کاذکر قرآن مجید نے مختلف مقامات پر کیا ہے

سورہ بقرہ پارہ دوم رکوع21میں اورسورۃ نحل پارہ14رکوع 15میں۔

﴿إِنَّمَا حَرَّ‌مَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ...١٧٣﴾... سورة البقرة

تم پر اس نے بس مردار اور خون (الخ)حرام کیا ہے۔

سورۃ المائدہ پارہ 6رکوع 1میں ہے

﴿حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ...٣﴾... سورةالمائدة

تم پر مردار اور خون (الخ) حرام کیے گئے ہیں۔

ان آیات میں مطلق خون کا ذکر ہے سورہ انعام میں مفصل اور مقید ہے۔

﴿أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا﴾

''بہتا ہوا خون''

مقصد یہ ہے کہ:خون صرف وہ حرام ہے جوبہہ کرباہر نکل آئے ۔امام ابن ابی حاتم نے حضرت عائشہ سے یہی قول نقل کیا ہے۔

قالت انما نهي عن الدم السافح(ابن كثير)

جوخون گوشت کے ساتھ لگا ہوتا ہے وہ حرام ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے بعض اکابر کا ارشاد ہے کہ جوشے''نجس عین ' ہو وہ تھوڑی ہوبا بہت وہ حرام ہوتی ہےکیونکہ اس میں تخری نہیں ہوتی ۔

وايد هذا بان كل ماهو نجس لعينه فلايتبعض(بداية)

لیکن صحیح یہ ہے کہ: یہ قبیل خون جوگوشت سے لگا ہوتا ہے حرام نہیں ہے کیونکہ یہ دم مسفوح نہیں جو حرام ہے ۔الایہ کہ دم مسفوح آکر چسپاں ہوگیا ہو۔

امام قرطبی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انھوں نےایسا گوشت پکا کر حضور کو کھلایا تھا مگر آپ نےاس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔

وقدروت عائشة انها كانت تطبخ اللحم فتعلو الصفرة على البرمة من الدم فياكل ذلك النبي ﷺ ولاينكر ه (نيل المرام من تفسيرايات الاحكام )

امام ابن جریر نے اسے موقوفا بیان کیا ہے ابن کثیر فرماتے ہیں یہ صحیح ہے۔

(الحمرة والدم يكونان على القدر وقرآت هذا الايه صحيح غريب) (ابن كثير)

امام قرطبی نے یہ تصریح کی ہے کہ:عموما بلوے(ایسی صورت جس سے خلاصی آسان نہیں اور عموما در پیش رہتی ہے) کی وجہ سے مندرجہ بالا صورت دم مسفوح سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اس سےمفر نہیں ہے۔

وَأَمَّا الدَّمُ فَمُحَرَّمٌ مَا لَمْ تَعُمَّ بِهِ الْبَلْوَى،هوالدم في الحم والعروق عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: (كُنَّا نَطْبُخُ الْبُرْمَةَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْلُوهَا الصُّفْرَةُ مِنَ الدَّمِ فَنَأْكُلُ وَلَا نُنْكِرُهُ، (تفسير قرطبي)

بشرط صحت یہ روایت اس بارےمیں بالکل واضح ہے۔

ویسے بھی بات ظاہر ہے کہ وہ دم مسفوح نہیں ہے اس سے احتراز مشکل بھی ہے۔

اس لیے ایسی صورت میں اسے حرام قراد دینا بہت بڑے حرج کا باعث ہے۔ہاں اگر دم مسفوح لگا ہے تو اور بات ہے۔

باقی رہا یہ امر کہ خون پاک ہے یا نجس ؟سو عرض ہے کہ:

اکثرائمہ کےنزدیک یہ ناپاک بھی ہے مگر اس سلسلے میں صحیح روایت موجود نہیں ہے بلکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے ۔کمایجئی

مغالطے کے اسباب:۔

جوائمہ اسے ناپاک کہتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہ میں ہ کی ضمیر ہے اس کا تعلق تمام مذکو رہ حرام چیزوں سے ہے۔مگر اصولا یہ بات محل نظر ہے کیونکہ جملہ میں متعدد امور کےذکر کے بعد جو قید یا ضمیر واقع ہوتی ہے اس کا تعلق صرف قریب سے ہوتا ہے۔

وَإِذَا احْتَمَلَ الضَّمِيرُ الْعَوْدَ عَلَى شَيْئَيْنِ كَانَ عُودُهُ عَلَى الْأَقْرَبِ أَرْجَحَ(بحر محیط)

ومن رام تحقيق الكلام في الخلاف الواقع في مثل هذا الضمير المذكور في الاية فيرجع الى ماذكره اهل الاصول فى الكلام على القيد الواقع بعد جملة مشتملة على امور متعددة(نيل المرام)

کچھ روایات :۔

اس کے علاوہ وجہ مغالطہ اس سلسلے کی کچھ روایات بھی ہیں جو ان کے سامنے ہیں ۔مثلا

حضرت تمیم داری ۔ ایک روایت حضرت تمیم داری کی ہے جس میں ہے ہر بہنے والے خون سے وضو ہے۔

الوضو من كل سائل(رواه الدارقطنى ص 57باب الوضوء من الخارج من البدن كالرعاف والقى والحجامةو نحوه)

امام دارقطنی اس روایت کے بعد فرماتے ہیں اس حدیث کے روای عمر بن عبدالعزیز نے تمیم داری سے نہیں سنا اور نہ اسے دیکھا ہے یعنی روایت منقطع ہے اس کے علاوہ دوسرے دورادی یزید بن خالد اور یزید بن خالد دونوں مجہول ہیں یعنی کچھ پتہ نہیں کون ہیں اور کیسے ہیں:

عمربن عبدالعزيز لم يسمع من تميم الداري ولاراه ويزيد بن خالد ويزيد بن محمد مجهولا(دارقطنى)

علامہ زیلعی حنفی نے (ف 746؁)نے دار قطنی کاقول نقل کرکے سکوت کیا ہے ۔ملاحظہ ہو نصب الرایہ ص37ج1 ۔حافظ ابن حجر اعسقلانی (ف852؁) نے تمیم داری کی روایت کے بارے میں فرمایا ہے اس میں ضعف اور انقطاع ہے۔

امام عبدالحق ازدی اشبیلی (ف 582)احکام کبریٰ میں لکھتے ہیں۔

هذا منقطع الاسناد وضعيف(13/2)

قال الذهبي: يزيد بن محمدشيخ بقية لايدري من هو؟(ميزان) حدث عن عمربن عبدالعزيز لايدري من هو(ايضا ص439)

یزیدبقیہ کا استاذ ہے کچھ نہیں معلوم کہ وہ کون ہے؟

يزيدبن محمدحدث عن عمربن عبدالعزيز لايدري من هو(ايضا ص439)

یزید بن محمد عمر بن عبدالعزیز سے حدیث بیان کرتا ہے معلوم نہیں یہ کون ہے؟

اس میں ایک راوی بقیہ بھی ہیں جویزید بن خالد کے شاگرد ہیں مگر مدلس ہیں اوریہاں روایت عنعہ (یعنی عن کہ کر ) روایت کی ہے جو حجت نہیں ہے۔

امام احمد بن حنبل﷫ فرماتے ہیں کہ پہلے میرا خیال تھا کہ بقیہ مجہولوں سے منکر روایتیں بیان کرتا ہے لیکن معلوم ہوا کہ وہ مشاہیر سے بھی منکر روایتیں کرتا ہے۔

توهمت ان بقية لايعدث المناكير الاعن المجاهيل فاذا هو يحدث المناكير عن المشاهير(ميزان)

اماابن حبان فرماتے ہیں کہ :شعبہ اور امام مالک وغیرہما سے صحیح احادیث کا سماع کیا ہے پھر کذاب رایوں کے ذریعے شعبہ اور مالک سے سنیں مگر عن (روایت ہے) کہ کر ثقہ سے ان کو روایت کرڈالا۔

سمع من شعبته ومالك وغير هما احاديث مستقيمة ثم سمع من اقوام كذابين عن شعبه ومالك فروى الثقات بالتدليس مااخذ عن الضعفاء(ميزان لاعتدال 331)

امام ذہبی فرماتے ہیں کہ بہت سے ائمہ کا کہنا ہے کہ وہ مدلس ہے اس لیے حجت نہیں ہے۔

وقال غيرواحد: كامدلسا فليس بحجة(ايضا)

حضرت زید بن ثابت ۔ دوسری روایت حضرت زید بن ثابت سے آئی ہے یعنی مذکورہ روایت :

قال الزيلعى:

فرواه ابن عدى في الكامل في ترجمة احمدبن الفرج عن بقية ثنا شعبة(نصب الرايةص37ج1)

امام زیلعی فرماتے ہیں: امام ابن عدی کا ارشاد ہے کہ اسے احمد بن الفرج کےسوا کسی نےروایت نہیں کیا اور وہ قابل احتجاج روای نہیں ہے۔

قال ابن عدي: هذا حديث لانعرفه الامن حديث احمد هذا وهو ممن لايحتج بحديثه ولكنه يكتب فان الناس مع ضعفه قد احتملو احديث(ص37ج1)

امام محمد بن عوف طائي نے اس کی تصنیف کی ہے۔

وضعفه محمدبن عوف الطائى (ميزان الاعتدال)

احمدبن الفرج حمصی ہے اور محمد بن عوف بھی حمصی ہیں اس لیے وہ ان کے گھر کے بھیدی بھی ہیں وہ فرماتے ہیں ساری خلقت سے بڑھ کر کذاب ہے:

فقال بقية اصل هو فيها اكذب خلق الله (الاحاديث الضعيفه ص 94والموضوعة للالبانى)

حضرت ابو ہریرہ :۔ایک روایت حضرت ابو ہریرہ عنہ سے بھی آئی ہے کہ قطرہ دوقطرے خون سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔ہاں بہتا ہوا خون ہوتو اوربات ہے۔

لیس فى القطرة والقطرتين من الدم وضوء الا ان يكون دما سائلا (دارقطنى ص57)

امام دارقطنی اس سلسلے کے راویوں کےبارے میں فرماتے ہیں کہ:

محمدبن الفضل بن عطية ضعيف وسفيان بن زيادوحجاج بن نصير ضعيفان(دارقطني ص57)

حافظ ابن حجر عسقلانی کا ارشاد ہے کہ یہ سند درجہ کی ضعیف ہے محمد بن الفضل متروک ہے۔

فاسناده ضعيف جدا فيه محمد بن الفضل عطية متروك (تلخيص ص41)

امام احمد فرماتے ہیں کہ ان کی روایت جھوٹوں کی روایت ہے ۔امام یحییٰ فرماتے ہیں اس کی حدیث نہیں لکھنا چاہیئے اکثر فرماتےہیں یہ متروک ہے۔امام بخاری فرماتے ہیں لوگوں نے ان سے روایت لینے میں سکوت کیا ہے(یعنی اس سے نہیں لی) امام ابن شیبہ نے اس پر جھوٹ کی تہمت لگائی ہے۔امام فلاس فرماتے ہیں یہ کذاب ہے۔

قال احمد حديثه اهل الكذب وقال يحيٰ لايكتب حديثه وقال غير واحد متروك......وقال البخاري سكتواعنه....... رماه ابن شيبه بالكذب وقال الفلاس كذاب(ميزان)

امام ذہبی فرماتے ہیں کہ ان کی منکرروایتیں بہت ہیں۔

قلت ومناکیر هذا الرجل كثيرة(ميزان)

الغرض:امام نووی فرماتے ہیں کہ اس سلسلے کی کوئی بھی روایت صحیح ثابت نہبں ہے(حاشیہ درایۃ)حافظ ابن حجر نے تویہ کلیہ بیان کیا ہے کہ سبیلین (دونوں شرمگاہوں)کےعلاوہ جوبھی شے ناقض وضو ملتی ہے اس کی آخر تان یہاں آکر ٹوٹتی ہےکہ وہ سبیلین سےبعض نواقض کےخروج کا مظنہ اور سبب بن سکتے ہیں۔

ويكمن ان يقال ان نواقض الوضوء المعتبرة ترجع الى المخرجين فالنوم مظنة خروج الريح ولمس المراة ومن الذكر مظنة خروج المذي (فتح البارى ص140ج1)

يعنی جیسے نیند کہ خروج ریح کا مظنہ ہے عورت اور شرمگاہ کوچھونے سے مذی کےنکلنے کا امکان ہے.....یعنی سبیلین کے سوایہاں بھی بات اور کوئی نہیں ہے سبیلین کی ہے۔

چونکہ حرام ہے:۔

چونکہ خون حرام ہے اس لیےناپاک بھی ہے۔یہ ان کی دلیل کا دوسرا پہلو ہے مگر یہ پہلے سےبھی زیادہ کمزور ہے۔کیونکہ جو چیز حرام ہو ضروری نہیں کہ وہ نجس اورناپاک بھی ہو ہاں جو چیز نجس ہوتی ہے وہ ضرور حرام بھی ہوتی ہے۔لیکن خود انسان حرام ہے لیکن ناپاک نہیں ہے(المؤمن لانجس'حدیث) مشرک جن کو قرآن نے نجس کہا ہے وہ بھی بایں معنی نجس نہیں ہے۔

جیسے گندگی۔بلکہ آپ سب جانتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے مبارک عہد میں آپ کے پاس مسجد نبوی میں مشرکین رسول کریم ﷺ سے ملتے رہے۔ثمامہ کو حضورﷺ خود مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔تمام زہریں جو قاتل ہیں اور تمام مخدرات جیسے بھنگ اور افیون وغیرہ حرام ہیں مگر ناپاک نہیں ہیں ریشم کے کپڑے اور سونے کا استعمال حرام ہے مگر وہ پاک ہیں ۔امام امیر یمانی لکھتے ہیں۔

وَأَنَّ التَّحْرِيمَ لَا يُلَازِمُ النَّجَاسَةَ، فَإِنَّ الْحَشِيشَةَ مُحَرَّمَةٌ طَاهِرَةٌ، وَكَذَا الْمُخَدَّرَاتُ وَالسُّمُومُ الْقَاتِلَةُ، لَا دَلِيلَ عَلَى نَجَاسَتِهَا؛ وَأَمَّا النَّجَاسَةُ فَيُلَازِمُهَا التَّحْرِيمُ، فَكُلُّ نَجِسٍ مُحَرَّمٌ وَلَا عَكْسَ، وَذَلِكَ لِأَنَّ الْحُكْمَ فِي النَّجَاسَةِ هُوَ الْمَنْعُ عَنْ مُلَابَسَتِهَا عَلَى كُلِّ حَالٍ، فَالْحُكْمُ بِنَجَاسَةِ الْعَيْنِ حُكْمٌ بِتَحْرِيمِهَا بِخِلَافِ الْحُكْمِ بِالتَّحْرِيمِ، فَإِنَّهُ يُحَرَّمُ لُبْسُ الْحَرِيرِ وَالذَّهَبِ وَهُمَا طَاهِرَانِ ضَرُورَةً شَرْعِيَّةً وَإِجْمَاعًا(سبل السلام شرح بلوغ المرام)

اصل ہر شے کی اباحت اور طہارت ہے تحریم خلاف اصل ہے اس لیے یہاں ثابت ہوگی الایہ کہ اس کے لیے کوئی دلیل ہو۔ورنہ نہیں ۔

والحق ان الاصل في الاعيان الطهارة (سبل السلام)

صحیح مسلک:۔

صحیح مسلک یہ ہے کہ:

دم مسفوح (بہتا ہواخون ) حرام ہےدوسرا خون نہیں اور حرام ہونے کے باوجود وہ نجس اور ناپاک یا پلید نہیں ہے اس سلسلے کے دلائل یہ ہیں ۔

خون بہتا رہا نماز جاری رہی:۔

ابوداؤد میں دوپہرے کاذکر ہے کہ: ایک صحابی نے پہرہ میں نماز شروع کردی دشمن نے تاک کر تیر مارے جن کی وجہ سے خون کےفوارے پھوٹ پڑے مگر انھوں نے نماز جاری رکھی۔

فَرَمَاهُ بِسَهْمٍ فَوَضَعَهُ فِيهِ فَنَزَعَهُ، حَتَّى رَمَاهُ بِثَلَاثَةِ أَسْهُمٍ، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ، ثُمَّ انْتَبَهَ صَاحِبُهُ، فَلَمَّا عَرَفَ أَنَّهُمْ قَدْ نَذِرُوا بِهِ هَرَبَ، وَلَمَّا رَأَى الْمُهَاجِرِيُّ مَا بِالْأَنْصَارِيِّ مِنَ الدَّمِ، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ أَلَا أَنْبَهْتَنِي أَوَّلَ مَا رَمَى، قَالَ: كُنْتَ فِي سُورَةٍ أَقْرَؤُهَا فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَهَا(ابوداؤد)

امام بخاری کے الفاظ یہ ہیں۔

فرمى رجل بسهم فنزعه الدم(البخاري)

کہتے ہیں اس کے ایک راوی عقیل بن جابر ہیں جو مجہول ہیں ۔مگر امام ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے اس لیے مجہول العین نہ رہا۔

وَعَقِيلُ بْنُ جَابِرٍ الرَّاوِي قَدْ وَثَّقَهُ بن حبان وصحح حديثه هو وبن خُزَيْمَةَ وَالْحَاكِمُ فَارْتَفَعَتْ جَهَالَتُهُ(عون المعبود)

مگر ہمارے نزدیک یہ بات رفع جہالت کے لیے کافی نہیں ہے کیونکہ ابن حبان ہر اس راوی کی توثیق کرتے ہیں جن کے متعلق جرح وتعدیل ثابت نہ ہو باقی رہی تصحیح حدیث کی بات؟سووہ حدیث کےراوی کو مستلزم نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہی یہ ضروری ہے کہ یہ دوسرے خارجی قرائن کی بنیاد پر ہو۔

زخم اور نماز:۔

حضرت حسن بصری ﷫ فرماتے ہیں کہ :صحابہ جنگوں میں زخمی ہوتےاورنمازیں پڑھتے رہتے :

مازال المسلمون يصلون في جراحاتهم(بخاري)

حضرت حسن بصری تابعی ہیں صحابہ کےشاگرد ہیں انھوں نےیہ صحابہ اور تابعین کا تعامل بتایا ہے ظاہر ہے تیروسناں کےزخموں سے خون بھی بہتا ہے۔اگر ناپاک ہوتا تو ایسی حالت میں نماز کیوں پڑھتے ؟گویاکہ یہ اجماع سکوتی ہے۔

حضرت عمر :۔

حضرت عمر کو جب خنجر لگا تو خون کے فوارے پھوٹ پڑے مگر جب نماز کا وقت آگیا تونماز نہ چھوڑی۔

وقدصح ان عمر صلى وجرحه ينبع دما(فتح الباري)

أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَهُ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَابْنُ عَبَّاسٍ عَلَى عُمَرَ حِينَ طُعِنَ فَقُلْنَا: الصَّلَاةُ. فَقَالَ: «إِنَّهُ لَا حَظَّ لِأَحَدٍ فِي الْإِسْلَامِ أَضَاعَ الصَّلَاةَ» فَصَلَّى وَجُرْحُهُ يَثْعَبُ دَمًا(مصنف عبدالرزاق: حديث579)

حضرت مسورۃ بن مخرمہ اور حضرت ابن عباس حضرت عمر کے پاس اس وقت تشریف لے گئے جب ان کو نیزہ ماراگیا تھا تو انھوں نےحضرت عمر سے کہا کہ : نماز پڑھی حالانکہ خون پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہا تھا۔ اس وقت اکابر صحابہ موجود تھے عظیم تابعی موجود تھے بڑے ڑے ائمہ صحابہ اورتابعین کی موجودگی میں یہ کیفیت بے معنی بات نہیں ہوسکتی۔

آپ کہیں گے کہ یہ مجبوری ہوئی؟ جناب خون جو بھی نکلتا ہےکسی مجبور کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔خوشی کس کوہوتی ہے؟ اورکون خوشی سے بہاتا ہے؟

حضرت ابن مسعود حضرت ابن مسعود نےاونٹ ذبح کیے مگر خون وگوبر سے وہ لت پت ہوگئے۔اقامت ہوئی تو اس حالت میں نماز پڑھ لی مگر انھیں دھویا نہیں۔

عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ: «نَحَرَ ابْنُ مَسْعُودٍ جَزُورًا فَتَلَطَّخَ بِدَمِهَا وَفَرْثِهَا، ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ»(مصنف عبدالرزاق:حديث 460)

رسول کریمﷺ کے عہد میں:۔

کوئی صاحب کہ سکتے ہیں کہ یہ توصحابہ کے واقعات ہوئے؟گویہ اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتے ہیں تاہم رسول کریمﷺ کے مبارک عہد کا واقعہ بھی اس کی تائید کرتا ہے۔

بئر معونہ کےموقعہ پر حضور ﷺ نے علماء اور قراء صحابہ کی ایک عظیم جماعت روانہ فرمائی تھی ایک صحابی کو نیزہ لگتا ہے خون پھوٹ پڑتا ہے وہ اسے اٹھا کر سراور منہ پر مل لیتے ہیں۔

أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: " لَمَّا طُعِنَ حَرَامُ بْنُ مِلْحَانَ، وَكَانَ خَالَهُ يَوْمَ بِئْرِ مَعُونَةَ، قَالَ: بِالدَّمِ هَكَذَا فَنَضَحَهُ عَلَى وَجْهِهِ وَرَأْسِهِ، ثُمَّ قَالَ: فُزْتُ وَرَبِّ الكَعْبَةِ "(صحيح البخاري :حديث4092)

بخاری وغیرہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ نےرب سے دعاکی تھی اس لیے ماجرے کی تفصیل بھی حضورﷺ کےعہد میں کوئی کام کریں اور نہی نازل نہ ہو تو وہ شرعی حجت ہوتا ہے۔بہرحال سر اور منہ پر پاک چیز ہی ملی جاتی ہے ۔ناپاک نہیں ۔اس لیے ثابت ہواکہ خون ''دم مسفوح''(جاری خون)حرام ضرور ہے۔باقی رہا وہ خون کا گوشت کو لگا ہوتا ہے وہ پاک بھی ہے اور حلال بھی۔دلائل آپ کے سامنے ہیں۔

زمین مرہونہ سے انقطاع:۔

رہن کے بارے میں قرآن حمید کا ارشاد ہے کہ:

﴿وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِ‌هَانٌ مَّقْبُوضَةٌ...٢٨٣﴾... سورة البقرة

''اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو،''

قرض کے لیے ضروری ہے کہ اس کےلیے تحریری دستاویز اور دوگواہ ہونے چاہئیں چونکہ سفر میں یہ بات مشکل ہوتی ہے اس لیے سفر بالخصوص ذکر فرمایا گیا ہے۔ورنہ حضر یں رہن رکھی جاسکتی ہے (جیساکہ مدینہ منورہ میں پ نے زرہ رہن رکھی ) گویاکہ رہن تحریر (وثیقہ) اور گواہوں کےقائم مقام شے ہے۔امام ابن القیم﷫ فرماتے ہیں۔

فدل ذلك دلالة بينة ان الرهان قائمة مقام الكتاب والشهود شاهدة مخبرة بالحق كمايخبربه الكتاب والشهود(اغاثه ص49ج2)

قرض کے دو پہلو ہیں ایک لینے والے ضرورت مند اور حاجت کا تقاضا کہ اس موقعہ پر اس سے تعاون کیا جائے ۔دوسرے قرض دینے والے کے اطمینان اور حق کی بات کا اقتضا ہے کہ حق محفوظ رہے اور اس سلسلے میں اسے اطمینان حاصل ہو ورنہ کوئی بھی شخص کسی کے کام آنے کاحوصلہ نہیں کرے گا ۔چنانچہ اسلام نے سفارش کی کہ ضرورت مند کو قرض حسن دو او رقرض خواہ سے کہا کہ آپ اپنے اطمینان کے لیے ان سے مناضمانت لے لیں ۔تحریر(وثیقہ) اور گواہ یا کوئی شے سن رکھ لیں۔اس لیے اس اصول بے ساختہ داہ وانکل گئی۔

فلااحسن من هذا النصيحة وهذا الارشاد والتعليم الذي لواخذبه الناس لم يقع في الاكثر حق احد ولم يتمكن المبطل من الجحود والنسيان(اغاثه)

معلوم ہواکہ رہن سے غرض قرض کے سلسلے میں ضمانت اور اطمینان حاصل کرنا ہے تاکہ اسے اپنے قرض کی وصولی کےسلسلے میں اطمینان حاصل ہوجائے۔نہ یہ کہ اس سے قرض خواہ کچھ کمائے کیونکہ یہ تو ربا اور سود ہے۔لیکن رہن رکھی ہوئی چیزیں مختلف ہوتی ہیں اگر پڑی رہیں تو ان کا کچھ نہیں بگڑتا مثلا زیور ہیں یاسونا اور چاندی ۔اس صورت میں ان سے کسی بھی درجہ میں استفتا کرنا جائز نہیں ہے ۔ان کو استعمال نہ کرے ۔

بعض ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن پر مرتہن (قرض خواہ ۔جس کے پاس رہن رکھی گئی ہے) کو کچھ خدمات انجام دینا پڑتی ہیں اور کچھ مصارف بھی برداشت کرناپڑتے ہیں ورنہ شے کےضائع ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے مثلا جانور ہے یا زمیں جیسی چیزیں۔اس صورت میں اگر مرتہن مفوضہ ذمہ داری بجا نہ لائے تو چیز ضائع ہوسکتی ہے ۔اگر وہ خدمات یا مصارف تو مرتہن برداشت کرے لیکن حق الخدمت وصول نہ کرے تو یہ رہن تو ان کےلیے بلائے جان بن جائے گی اور راہن کےلیے وارے نیارے ہوں گےکیونکہ گھر میں بیٹھے قرض کے علاوہ بھی ان کو وصول ہوتا رہے گا۔اس لیے شریعت نےاس امر کی گنجائش رکھی ہے کہ وہ مناسب حق الخدمت وصول کرلیا کرے۔ رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ:

سواری ہے تو خرچہ کے مطابق اس پر سواری کرسکتا ہے اگر دودھ دینے والا جانور ہےتو وہ دوھ نوش کرسکتا ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «الرَّهْنُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ، وَيُشْرَبُ لَبَنُ الدَّرِّ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا»( صحيح البخاري باب الرهن مركوب والحلوب:حديث2511)

وفى رواية:اذاكانت الدابة مرهونة فعلى المرتهن علفها لبن الدريشوب الحديث(طحاوي ص209والدارقطني ص303)

عن الشعبى رفعه الى النبى ﷺ فی الرهن :الدروالظهر مركوب ومحلوب بنفقة(مصنف عبدالرزاق مرسلا ص 244)

حضرت ابوہریرہ عنہ کافتویٰ بھی اسی کے مطابق تھا۔

عن ابى صالح عن ابى هريرةقال: الرهن مركوب ومحلوب ومعلوب (مصنف عبدالرازق ص244ج4)

ہاں اگر خرچہ اور حق الخدمت سے زیادہ اس سے زیادہ وصول ہوتا ہےتو اسے قرض سے وضع ہوناچاہیے۔

قال طاؤس :فى كتاب معاذبن جبل : من ارتهن ارضا فهو يحسب ثمرها لصاحب الرهن هن جح النبىﷺ (مصنف ص 245)

حضرت طاؤس کی روایت معاذ سے مرسلا ہے۔ہاں ان کی کتاب سے اخذ کی گئی ہے اس لیے یقینا حجت بھی ہے۔

بہرحال اس مسئلہ میں بہت زیادہ اختلاف ہے اس کے مخالف بھی ہیں اور موافق بھی۔لیکن رقم الحروف کا رجحان ان کر طرف ہے جو انتقاع بالہ ہون کے قائل ہیں مگر بقدر حق الخدمت والمصارف اگر زائد ہوتو اسے قرض سے وضع ہونا چاہیے ۔ورنہ وہ ربا ہوگا۔