دعوت اسلام
(12) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَتَبَ إِلَى قَيْصَرَ يَدْعُوهُ إِلَى الإِسْلاَمِ، وَبَعَثَ بِكِتَابِهِ إِلَيْهِ مَعَ دِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ.......... فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ " بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ: سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهُدَى،أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ(صحیح البخاری:حدیث7)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر کو ایک خط لکھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی تھی ۔ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکتوب دے کر بھیجا..............
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا ہی مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ یہ خط ہے محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف ، اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت قبول کر لے ۔ امابعد میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں ۔ اسلام قبول کرو ، تمہیں بھی سلامتی و امن حاصل ہو گی اور اسلام قبول کرو اللہ تمہیں دہرا اجر دے گا ( ایک تمہارے اپنے اسلام کا اور دوسرا تمہاری قوم کے اسلام کا جو تمہاری وجہ سے اسلام میں داخل ہو گی ) لیکن اگر تم نے اس دعوت سے منہ موڑ لیا تو تمہاری رعایا کا گناہ بھی تم پر ہو گا''
ہر مملکت اسلامیہ کا یہ دینی فریضہ ہے کہ حیثیت سے دنیا کے تمام غیر مسلم تاجدار کو اور ان کی معرفت ان کی قوموں کو اسلام کی طرف دعوت دیں۔ مگر افسوس ! مدتوں سے اب یہ سنت بالکل متروک ہوچکی ہے۔ چونکہ مسلم ریاستوں کے حکمران عموما خود بھی ننگ اسلام ہوتے ہیں ان کو اپنی کرسی سے غرض ہوتی ہے۔اسلام ناؤ پار ہویا ڈوبے ان کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی اس لیے ان سے تبلیغ دین کی توقع بھی عبث ہو گئی ہے۔اب تو اس سنت کا احیاء ان دینداروں کو کرنا چاہیے جواعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں دعوت نامے ارسال کریں اپنے وفود روانہ کریں اوردعوت دین کے سلسلے میں اتمام حجت کےلیے جو کچھ بھی ان کےلیے ممکن ہے کرگزریں ورنہ اندیشہ ہے کہ کہیں ساری ملت اسلامیہ خدا کے ہاں مجرم نہ ٹھہرے۔
تبلیغ دین ہمارا بنیادی فریضہ ہے اگر آپ نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس نہ کی اور اس عہدہ برآ ہونے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی تو ہوسکتا ہے کہ:۔
خدا کے ہاں ان غیر مسلم اقوام کے کفر وحجود وبال میں سے آپ کو بھی حصہ ملے اورآپ سے ان کی بابت باز پرس ہو۔
امام عادل
(17) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الإِمَامُ العَادِلُ،(صحیح البخاری:حدیث660)
ترجمہ:
ایسے سات انسان جن پر اللہ کا اس دن سایہ (رحمت) ہوگا جس دن اس کے سایہ (رحمت) کے سوا او رکوئی سایہ نہ ہوگا.......... ان میں سے ایک امام عادل ہے۔
ایک اوروقع پر فرمایا:
اللہ سب سے زیادہ محبوب عادل حکمران (امام عادل) ہے اور سب سے زیادہ مبغوض ظالم حکمران ہے۔
احب الخلق الى الله امام عادل وابغضهم اليه امام جائر(رواه احمد)
اسلام كا معيار عدل یہ ہےکہ: اسلامی قانون کے تقاضے بلارورعایت پورے ہوں اور محض اللہ کی خوشنودی حاصل کرنےکے لیے ہوں اور اس کی مخلوق اس کی رحمتوں کو عاغم کرنے کے جذبہ پر مبنی ہوں۔
طالب جاہ کے لیے عہدہ:۔
(18)عن ابى موسى قال قال رسول ﷺ:انا والله لا تونى على هذا العمل احد ساله اوحرص عليه وفي رواية۔
حضرت ابوموسیٰ (اشعری) فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے:
بخدا ہم ایسے شخص کو کوئی منصب دینے کےلیے تیار نہیں ہیں جو اس کےلیے خود سوال کرتا ہے یا اس کےلیے وہ لالچ کرتا ہے۔
ایک اورروایت میں ہے :۔
ہم اپنے کسی (ذمہ دارانہ) منصب پرایسے شخص کی تقرری نہیں کریں گے جو اس کی خواہش کرتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ:
اسلامی مملکت کی ہرڈیوٹی چھوٹی ہویابڑی عبادت کا درجہ رکھتی ہے اس لیے یہ پھولوں کا تاج نہیں کانٹوں کس سیج ہے۔ اس سے غرض ریاست کا استحکام اور اس کی برکات کی نشرواشاعت ہے جو لوگ اسے خون نعیما تصور کرکے اس کے حصول کےلیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں وہ اصل اسے کاروبار سمجھ کر کرتے ہیں..... کہاں وہ عبادت اور کہاں یہ کاروباری ذہنیت اس لیے فرمایا:
الحذر!الحذ! اس سے بچ کر رہیے ۔کیونکہ اسلامی ریاست کا اس سے حلیہ بگڑجائے گا ملک ملت کی بجائے اس اپنے ہی سیاسی مستقبل کے لیے وہ زینہ بناڈالیں گے....خلوص کی بجائے مادی لالچ کو خلق خدا کی جگہ اپنی دنیا کو سامنے رکھیں گے۔ اس لیے فرمایا کہ ملکی اور ملی منصب کے لیے بھاک ورڑ کریں گے ہم ان کو کوئی بھی عہدہ نہیں دیں گے۔کیونکہ پہلے ہی دن اس کی نیت میں فتور آگیا ہے اس لیے وہ قابل اطمینان نہیں رہے۔
بعد کےاوقات نے حضورﷺ کے اس اندیشے کو بالکل صحیح ثابت کردکھایا ہے۔
باقی رہی یہ بات کہ :کارکنوں کےبغیر حکومت کار حکومت کیسے چلائے؟ سو مملکت کےسربارود اور صلحا ء لوگ اپنے اپنے دائرہ اور حلقہ میں ایسے لوگوں پر نظر رکھیں گے جو صلاحیت کار رکھتے ہیں۔ جب ذیلی شعبوں تک حکومت اپنےڈھب کے کارکن تعینات کرلیتی ہے تو ان کی معرفت ملک اور قوم کےایک فرج سےباخبر رہ سکتی ہے۔شروع میں تو اس سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے لیکن بعدمیں نہیں... اس لیے ان حالات میں ملت اسلامیہ کےصلحاء اور اہل ترین لوگوں کے لیے ضروری ہوجاتا ہےکہ وہ حکومت سے تعاون کریں بہتر آدمیوں کی نشاندہی کریں بصورت آخر چارہ کار میں جب شر ہی غالب ہوتو اہل خیر کو اس مسئلہ پر آگے بڑھ کر حکومت سے پورا تعاون کرنا چاہیے۔
خالص غیر اسلامی مملکت ہویاادھوری جہاں خلق کی تباہی سامنے ہو وہاں تو ضروری ہوتا ہےکہ اہل خیر سرکاری مناصب کے لیے اپنی خدمات پیش کریں کیونکہ یہ صورت ممنوعہ صورت نہیں ہے'نہ یہ خدمات اپنی ذات کے لیے ہیں بلکہ اسلامی ریاست کے حسین اورمبارک مستقل کے لیے پیش کی جارہی ہیں..... اور یہ عین عبادت ہے۔
بگڑے ہوئے حکمرانوں کی اصلاح کے لیے دعائیں کریں۔
(19)عن ابى امامة(رفعه)لاتسبو الائمة وادعو الله لهم بالصلاح فان صلاحهم لكم صلاح(رواه الطبرانى في الكبير والاسط)
حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ: حضور کا ارشاد ہے کہ:
حکمرانوں کو گالیاں نہ دو ان کی اصلاح کے لیے رب سے دعائیں کرو کیونکہ تمہاری درستی ان کی درستی میں مضمر ہے۔
گالیاں دینا کوئی کام نہیں اصلی کام ان کےلیےدعائیں کرنا ہے کیونکہ وہ مارے گئے تو وہ مرتے مرتے بھی بہت سے لوگوں کو مار کر مریں گے اگر ان کی درستی کے لیے دعائیں کرنا ہے کیونکہ وہ مارے گئے تو وہ مرتے مرتے بھی بہت سے لوگوں کو ماریں گے اگر ان کی درستی کے لیے دعائیں کیں تو اس میں بھی ملک وملت کا ہی بھلا ہے ۔ بھلے ہو کر کام کریں گے تو قوم تو قوم بگڑی ہی بنےگی۔
خیر خواہانہ جذبات:۔
عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الدِّينُ النَّصِيحَةُ» قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: «لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ»(صحیح مسلم:حدیث55)
حضرت تمیم داری سےروایت ہے کہ حضور ﷺکا ارشاد ہے کہ:۔
'' دین خیر خواہی کا نام ہے تین بار فرمایا: ہم نے عرض کی: (حضور) کس کاخیراخواہی؟فرمایا: اللہ کی اس کے رسول کی مسلمانوں کے حکمرانوں کی اور مسلم عوام کی:۔
خیر خواہی ۔کا مفہوم :بھلاسوچنا بھلا چاہنا اور بھلا کرنا ہے۔
اللہ کے لیے خیر خواہی:۔
اللہ کےلیے خیر خواہی کامطلب ہےکہ: کوئی چاہے کہ : اللہ کابول بالا ہو اس کے مرضی کے خلاف کہیں کچھ نہ ہونے دیا جائے اور وہی کیا جائے جس سے وہ ذات خوش ہو۔
رسول کی خیر خواہی:۔
اس کے معنی ہیں کہ:سب اسے چاہیں وہی کریں جوآپﷺ کےپیغام کا تقاضا اورسنت کا مقتضا ہو۔
مسلم حکمرانوں کی خیر خواہی:۔
اس کامفہوم یہ ہےکہ: ملک وملت کی خدمات میں ان سے تعاون کیا جائے راہ راست کو چلانے کےلیے ان کے لیے خدا سےدعائیں کی جائیں جہاں بھٹکیں ان کی رہنمائی کی جائے نظام حق کو چلانے کےلیے ان پوری اعانت کی جائے اور ان کو غلط راستوں پڑ چلنے سے روکا جائے اگر بازنہ آئیں ۔تو پھر اسے علیٰحدہ کردیا جائے تاکہ کسی عظیم فتنے میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں۔
عوام کی خیر خواہی:۔
یہ ہے ان کی دینی اور دنیوی مستقبل کےلیے پورے خلوص اور جذبہ کے ساتھ محنت کی جائے تاکہ ان کی دنیوی اوراخروی عافیتیں سلامت رہیں۔
تفرقہ میں نہ پڑو۔
(21): قَالَ النبی صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللهَ يَرْضَى لَكُمْ ثَلَاثًا، وَيَكْرَهُ لَكُمْ ثَلَاثًا، فَيَرْضَى لَكُمْ: أَنْ تَعْبُدُوهُ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا، وان تناصحوا من ولاہ اللہ امرکم (رواہ مسلم)
رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:
یہ ایک واقعہ ہےکہ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے تین چیزیں پسند کرتا ہے:
1۔ یہ کہ آپ اس کی عبادت اور غلامی بجالائیں کسی شے کو بھی اس کا شریک نہ بنائیں۔
2۔یہ کہ آپ سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن ورسول کا دامن تھام کر رکھیں اور تتر بتر نہ ہونےپائیں۔
3۔یہ کہ آپ کی باگ ڈور اللہ تعالیٰ نےجس کےہاتھ میں دی ہے اس کے سلسلے میں ''خیر خواہی)ملحوظ رکھیں(مسلم)
1۔عبادت نماز روزہ اورذکو اذکار کو بھی کہتے ہیں اور غلام بےدام کوبھی یہاں یہ سب مراد ہیں مقصود یہ ہےکہ:حق تعالیٰ کے آگے سرجھکا کر پھر کسی اور کے سامنے نہ جھکیں اس کی غلامی کادم بھر کر کسی دوسرے کی غلامی سے اپنی پیشانی کو داغدار نہ کریں۔
وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًاکہا ہے شے میں جاندار بے جان عاقل اورغیر عاقل سبھی چیزیں آجاتی ہیں یعنی کسی بندے کے پیچھے لگ کر حق تعالیٰ سے منہ نہ موڑیں اور یہ انداز زندگی بھی چھوڑیں کہ ادھربھی خدا کے ساتھ غیر خدا کی دلجوئی بھی..... یہ دوغلی پالیسی سودمند نہیں ہوتی خاص کر خدا تو اسے بالکل برداشت نہیں فرماتے چہ نسبت خاک رابا عالم پاک ........شے کہہ کر یہ بھی بتادیا کہ کسی مادی مفاد کی خاطر قرآن وحدیث کوپس پشت ڈالنا مسلمانی نہیں ہے۔
2۔اللہ کی رسی کو تھام لینے کامطلب یہ ہے کہ:قرآن ورسول سے تعلق خاطر نہ ٹوٹے اور سب مل کر اس لیے کہا کہ:قرآن اوررسول کےنام پر تفرقوں کی بنیاد نہ ڈالیں بلکہ اس سے آب ملی وحدت تشکیل پائے کتاب وسنت کا دامن تو تھما ہو مگر دل اوررخ ایک دوسرے سے مختلف ہو ں تو وہ ننگ اعتصام ہے ۔ اعتصام بالکتاب نہیں ہے۔
3۔ تناصحوا(ایک دوسرے کی خیر خواہی ملحوظ رکھیں) فرمایا یہ بات بتائی کہ: ملی اور دینی امور میں سیاسی سربراہ سے تعاون کیا جائے تاکہ وہ اس میں فیل نہ ہوں ۔تنقید ہو تو تعمیری ہو تخریبی نہ ہو۔
اس سے غرض حکمرانوں کی آنکھیں کھولنا ہو اس کے خلاف سازشیں نہ ہو۔اسے تھامنا اور سنبھالا دینا مقصود نہ ہو'ہاں اگر ثابت ہوجائے کہ وہ لاعلاج ہے اور اس کی وجہ سے ملک ودینی اور ملی فریضہ ہوتا ہے بشرطیکہ ملت خانہ جنگی میں مبتلا نہ ہونے پائے اور غیر جمہوری طریقے اختیار کرکے قوم کو ایک اورلاینحل مرض میں گرفتار نہ کیا جائے۔