سورۃ بقرہ

(قسط18)

﴿وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ‌ بِهِ ۖ وَلَا تَشْتَرُ‌وا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ ﴿٤١﴾ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٤٢﴾ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْ‌كَعُوا مَعَ الرَّ‌اكِعِينَ ﴿٤٣﴾... سورةالبقرة

'' اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے تمہاری کتابوں کی تصدیق میں نازل فرمائی ہے اور اس کے ساتھ تم ہی پہلے کافر نہ بنو اور میری آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر نہ فروخت کرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو (41) اور حق کو باطل کے ساتھ خَلط مَلط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، تمہیں تو خود اس کا علم ہے (42) اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰة دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوعکرو''

(7) لِمَا مَعَكُمْ(جو کتاب تمہارے پاس ہے) وقت اور حالات کے مختلف دواعی اورمقتضیات کے مطابق جزوی اختلاف کے باوجود آسمانی کتابیں ایک ہی سنہری سلسلے کی کڑیاں ہیں جو باہم بالکل مربوط ہیں ان میں سے کوئی بھی کتاب کی مصدق ہی رہی ہے ۔اگر یہ بھی ایک پیشہ اور کاروبار ہوتا یقینا پچھلی کتاب کی تنقیص پر اپنے مستقبل کی بنیاد رکھتی جیساکہ اس قماش کے لوگوں دستور ہوتا ہے ۔ہمارے لیے ان کا یہ اسلوب نظر ان کی صداقت اور حقانیت کی ایک دلیل ہے۔

فرمایا اس قرآن پر ایمان لاؤ جو پہلی منزل کتابوں کا مصدق بھی ہے۔گویاکہ کہ بنیادی تعلیم سب کا بھی منکر ہے جس کے ماننے کاوہ بھی مدعی ہے۔

(8) أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ(اس کے پہلے منکر)یعنی یہ قرآن ہم نے نازل کیا ہے اور وہ پہلی آسمانی کتابوں کا مصدق بھی ہے اس کے انکار میں تم پہل نہ کر۔کیونکہ جوبعد میں ان کی دیکھا دیکھی ایسا کرے گا۔اس کے وبال میں اس کو بھی حصہ ملے گا۔ مفسرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ: یہ خطاب کن سے ہے؟اکثریت کا کہنا ہے کہ اس سے مراد مدینے کے اسرائیل (یہودی) ہیں کیونکہ نسبتا یہ اہل علم لوگ تھے اس لیے لوگ بھی ان کی پیروی کرتے تھے۔ہمارے نزدیک اس سے مراد مکے اور مدینے کے سب فرقے بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ اس کےبارے میں عرب جو بھی راہ اختیار کرتے ہیں بیرونی دنیا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔اس کا ہر دائرہ اپنے خارجی دائرہ کےلیے پہلی مثال قرار دپاسکتا ہے جو اس کےلیے سبب بنتا ہے۔اگر اس کی اضافی حیثیت کو اختیار کیا جائے تو تقیید کی بہ نسبت اس اطلاق میں وہ جامعیت ہوگی۔

(9) وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ(اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈنہ کرو)

لبس۔کپڑے سے اپنے کوڈھانپ کر چھپالینےکو لبس کہتے ہیں یہاں مراد ایسی تدابیر اختیار کرنا ہیں جن کےذریعے حق کا روشن چہرہ گہنا جائے اور اپنی اصلی آب وتاب کےساتھ نمایاں نہ ہونے پائے۔

حق۔علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ:

اس کے اصل معنی موافقت او راطاعت کے ہیں جیسا کہ دروازے کی چول جو اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ استقامت کےساتھ وہ اس میں اپنے محور پر گومتی رہتی ہےقرآن میں اس کے استعمال کی کئی صورتیں ہیں۔

(1)وہ ذات جو اقتضائےحکمت کے مطابق چیزوں کو وجود بخشی ہے یعنی ذات باری تعالیٰ۔

(2)وہ شے بھی حق کہلاتی ہے جو اقتضاء حکمت کے عین مطابق پیداکی گئی ہو۔

(3)کسی شے کےبارے میں اس طرح اعتقاد رکھنا جیساکہ وہ نفس الامر میں ہے۔

(4)وہ قول اورفعل کہ جس طرح جس مقدار میں اور جس وقت اس کےلیے ہونا ضروری ہو ویسے ہی وہ صادر ہو(مفردات) یہاں پر یہ سب معنی مراد ہوسکتے ہیں۔

باطل۔بیکار ردی لغو بے اصل بے فائدہ ناپائیدار او رحق کے بالکل ضد اور اس کے بالکل الٹ اوربرعکس چیز اورمعاملہ کو باطل کہتے ہیں۔

مقصد یہ ہے کہ:ایسا انداز اختیار نہ کیجیےکہ: حق اور باطل پر پردہ پڑجائے اوردیکھنےوالا یہ اندازہ نہ کرسکے کہ یہ حق ہےاور باطل .......اور اس کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں مثلا یہ کہ:۔

1۔ایسا انداز ہ کیا جائے کہ:ان میں سے کوئی چیز بھی اہم اورقابل اعتناء نہ رہے نہ حق کہ اسے حاصل کرنے کی تڑپ پیدا ہوا اور نہ باطل کہ اس مضرت اور بد نتائج سے احتراز کرنے کا کوئی حق داعیہ کروٹ لے۔

3۔نیک عمل کےساتھ بدعملی کوگوار کر لینے کس سکت پیدا کردینا یا اس کاپیدا ہوجانا بھی تلبیس کی ایک مکروہ شکل ہے کہ اس کے بتدریج نیک عملی (حق) کا دائرہ گھٹتا جاتا ہے اور بدعملی یابے عملی (باطل) کاحلقہ وسیع سے تر ہوتا جاتا ہے۔شیطان اس راہ سے سب سے زیادہ حملہ آور ہوتا ہے کیونکہ انسان اگر اپنی زندگی کے خاکہ میں اس اختلاط کو برداشت کرلیتا ہے تو وہ ذہنی طور پر بیمار ہوجاتا ہے حقیقت پسند ہونے کےیجائے شیخ چلی بن جاتا ہے او ربدعملی کے بد نتائج کا احساس کرنے کےبجائے سيغفرلنا( آخر بخشش ہوجائے گی جیسی تمناؤں پالنا شروع کردیتا ہے۔

(10) وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ (اور تم حق کونہ چھپاؤ) یہاں پر باطل کاذکر نہیں فرمایا بلکہ حق کانام لیا ہے ۔کیونکہ حق کی امیزش سے باطل حق نہیں بن جاتا باطل رہتا ہے لیکن باطل کے امتزاج سے حق حق نہیں لیتا باطل بن جاتا ہے مگر افسوس ! جو دنیا اس قدر لطافت اور نظافت پسند واقع ہوگئی ہے کہ اگر دودھ کےبھر ے مٹکے میں پیشاب کی ایک بوند بھر ے تالاب یا کنوئیں میں ایک مردار چوہا حلوے کی پکی دیگ میں گندگی ایک ذرہ زرق برق لباس پرداغ دھبہ کا ایک نقطہ اور زعفران زار محفل میں بدمزگی کا ابک بول برداشت نہیں کرسکتی وہ زندگی کی پوری کائنات میں بدعملی کی منوں گندگی اور ٹنوں بدمزگی کو نہ صرف گوار کررہی ہے بلکہ معصیت کی اس سڑاند جیفہ تعفن اور بدبو کو روح افزا سمجھ کی حیات مستعار کے سارے جسد پر مل بھی رہی ہے ۔اگر غور رکیا جائے تو محسوس ہوگا کہ یہ شکل أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فرمایا :یہ کتمان حق ان کی سادگی یا بے خبری کا نتیجہ نہیں بلکہ جان بوجھ کر ایسے کرتے ہیں اور صورت حال کے وضوح کےباوجود ایسا کرتے ہیں۔

﴿الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِ‌فُونَهُ كَمَا يَعْرِ‌فُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِ‌يقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٤٦﴾... سورةالبقرة

(11) وَارْ‌كَعُوا مَعَ الرَّ‌اكِعِينَ(جو میرے حضور میں بوقت نماز جھکتے ہیں ان کے ہمراہ تم بھی جھکاکرو)یعنی باجماعت پڑھا کرو اگر کوئی پاس نہ ہوا اور ویرانہ درپیش ہوتو تکبیر کہ کر کھڑے ہوجاؤ ملائکہ شریک نماز ہوجائیں گے۔تمہاری جماعت ہوجائے گی۔

اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انفرادی سے زیادہ اجتماعی عمل کی وقعت زیادہ ہے دوسرا یہ کہ معیت کے لیے ان لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے جن کا رخ رب العلمین کی طرف ہے باقی رہے نتھو پھتو؟ تو ان کی معیت خسران او رابتلاء کا موجب تو ہوسکتی ہے فوز فلاح کا زینہ نہیں۔

بنی اسرئیل کا مجموعی کردار

ان نوازشات مکرمات معاہدات تلقینات او ر دعوات کے باوجو بنی اسرائیل کا مجموعی کردار شرمناک رہا ہے۔انھوں نے خدا سے حیا نہیں کی اور نہ ہی اس کےفضل وکرم کا کچھ احساس کیا ہے قرآن حکیم اس سلسلے کے شکووں سےبھرا پڑا ہے۔

خدا کو ٹھوک بجاکر ماننے کی ریت۔

خدا ایک ایسی ذات پاک ہے جو انسانی احساسات اورعقل وہوش سے وراء الوراء ہے اسے صرف اس کی صفتوں اور قدرتوں کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے یا اس کے فرستادوں کی رہنمائی کےذریعے پہچانا جاسکتا ہے مگر بنی اسرائیل نے اس کے بجائے ایمان لانے کے لیے خدا کو پہلے ٹھو ک بجاکر اطمینان کرلینے کی شرط ہی عائد کرڈالی تھی کہ: دیکھوں تومانوں گویاکہ ان کےنزدیک خدابھی جنس بازار کی کوئی چیز ہے دیکھیں گے پسند آگئی تو بہتر ورنہ نہ سہی۔

﴿يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَ‌ى اللَّـهَ جَهْرَ‌ةً ... ﴿٥٥﴾... سورةالبقرة

﴿فَقَالُوا أَرِ‌نَا اللَّـهَ جَهْرَ‌ةً...١٥٣﴾... سورةالنساء

آپ کہیں گے کہ خدا کو دیکھنے کا مطالبہ کچھ برا نہیں ہے آخر مضرت موسیٰ نےبھی مطالبہ تو کیا ہی تھا؟ایک مطالبہ دیدار یار کے شوق اورعشق ومستی کا نتیجہ ہوتا ہے جیساکہ حضرت موسیٰ کا تھا اور ایک ٹھوک بجاکر دیکھنے کا ہوتا ہے جیساکہ ان اسرائیلیوں کا تھا۔ پہلے پر غصہ نہیں آتا پیار آتا ہے دوسرے پر غصہ آتا ہے اس کے علاوہ اگر خدا نظر آبھی جائے تونگاہ پیغمبر کےلیے تویہ بات ہوگی؟ جن لوگوں کو پتھر بھی خدا دکھائی دیتے ہیں وہ خدا کا کیا اندازہ کرسکیں گے کہ یہ واقعی خدا ہے؟ پہلے کسی نے اسے دیکھا نہیں کہ اب انھیں بتائے کہ ہاں یہ وہی خدا ہے ۔نہ خداؤں کی کہیں منڈی لگتی ہے کہ دیکھ کر انسان یہ باور کرسکے کہ خدا ایسا ہوتا ہے لہذا یہ بھی خدا ہے۔

بچھڑا بھی خدا۔

جدت طرازی یہ کہ ٹھو ک بجا کردیکھے بغیر خدا کو نہیں مانیں گے مگر پستی کا یہ عالم کہ: اپنی نیاز کےلیے آسان بھی تلاش کیا تو بچھڑے کا کیا۔

﴿ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ﴿٥١﴾... سورةالبقرة

غور فرمائیے ! کہ ان کی خدا فہمی کیا عالم ہے؟

کاغذوں میں لکھی ہوئی کتاب لاؤ۔

اے پیغمبر! آپ کے واسطہ سے سہی بہرحال خدا کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب ہم پر نازل کرنے کا اہتمام کرو وہ اتررہی ہو اورہم اسے دیکھ رہے ہوں کہ وہ نازل ہو رہی ہے۔

﴿يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ...﴿١٥٣﴾... سورة النساء

دراصل یہ عجوبہ پسندی اور مظاہر پرستی کی باتیں حقیقت شناسی کے لیے چنیاں نہیں ہیں اس لیے شنوائی نہیں رہی ۔

ہمارے قلب پہلے ہی معمور ہیں۔

خدا کے پیغمبر کے جب ان خدا کی باتیں سناتے ہیں توچاہیے کہ انسانوں کی طرح کم ازکم انھیں سن ہی لیں مگر اس کی بجائے ان کہنا ہے کہ:

(1)ہمارے دل علم وعرفان کےپہلے ہی گنجینے ہیں اے رسول عربی ! ہم آپ کی تعلیمات کے محتاج نہیں ہیں۔

(2) دوسرا یہ کہ: ہم کان کےکچے نہیں ہیں کہ جس کی سنی اس کے پیچھے ہولیے ہم تو اپنے قلب ونگاہ کو محفوظ رکھتے ہیں۔

﴿وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ...٨٨﴾... سورةالبقرة

یہ تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ گھر بیٹھ کر ایک کتاب مرتب کرلیتے او ر لوگوں سے کہتے کہ یہ رب نےنازل کی ہے گویاکہ کہ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ اے رسول ! جیسی کچھ کتاب آپ پیش کررہے ہیں ایسی تو ہم بیسیوں پیش کرسکتے ہیں یہ تو ہمارے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے ۔یا اپنے ہاتھ سے لکھ کرکتاب کے نام پر بندگان خدا کا استحصال کرنا چاہتے ہیں بہرحال جعلی کتاب لکھ کر منزل من اللہ مشہور کرکے لوگوں کو پیش کرتے تاکہ وہ نبی عربی ﷺ کی طرف توجہ نہ دیں او ر ان کی اپنی ہی دکان چمکے۔

﴿فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ لِيَشْتَرُ‌وا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا... ﴿٧٩﴾... سورةالبقرة

تحریف کتاب۔

اگر اپنے ہاتھ سے لکھنےوالا داؤ نہ چلتا تو پھر خدا کی اصلی کتاب میں ٹانکے لگاتے مطلب کی معنی پیدا کرنےکے لیے اس میں

(1)معنوی تحریف کرتے

(2)یا الفاظ کتاب میں ردبد ل کردیتے ۔

﴿يُحَرِّ‌فُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ...٤٦﴾... سورةالنساء

﴿يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ يُحَرِّ‌فُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿٧٥﴾... سورة البقرة

سنتے ہیں مگر مانیں گے نہیں۔

بفرض محال اگر وہ کچھ بھی نہ کرسکتے تو آخر ی داؤ کےطور پر یہ کہ ڈالتے کہ جائیے!جائیے! آپ کی بات سن لی یہ ہمارے کام کی چیز نہیں ہے۔

﴿وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا...٤٦﴾... سورةالنساء

میٹھا میٹھا ہپ کڑواکڑوا تھو! اگر کچھ مانا بھی تو میٹھا میٹھا ہپ کڑوا کڑوا تھوکے مصداق

﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُ‌ونَ بِبَعْضٍ...٨٥﴾... سورة البقرة

﴿أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَ‌سُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْ‌تُمْ...﴿٨٧﴾... سورةالبقر ة

ہماری بھی سنیں ۔

پیغمبر خدا سے کہتے کہ آپ جو رات دن ہمار ے کان کھاتے رہتے ہیں اب ہمیں بھی وقت دیجیے ! کچھ ہماری بھی سن لیجیے!

وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ(سورۃ النساء :آیت 46)

تکذیب اورقتل۔

اللہ کی ذات اس کی کتابوں کےساتھ جو سلوک کیا آپ نےدیکھ لیا اس کے فرستادوں کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ بھی ان سے کچھ کم سنگین نہیں تھا پہلے ان کی تکذیب کی اگر انبیاء کرام علیھم الصلوۃ والسلام جرم حق سے باز نہ آئے تو انھیں قتل کرنے سےبھی دریغ نہ کیا ۔

فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ(سورۃ البقرہ:آیت87)

بات ایمان کی نہیں قبیلے اور خاندان کی ہے۔اصل روگ یہ تھا کہ: ان کو ایمان سےدلچسپی نہیں تھی بلکہ انھیں اپنی خاندانی روایات پر اصرار رہا ہے گھر کی بات ہےتوگو غلط ہے جان ایمان ہے اگر ایمان کی بات ہے اور گو وہ حق ہے ان کےلیے بے کار ہے۔

قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ(سورۃ البقرہ :آیت 91)

تورات پر بھی نہیں چلتے۔

ان کی یہ باتیں کہ ہم پر جونازل ہوا ہم صرف اسے مانیں گے صرف باتیں ہی تھیں کیونکہ تورات جو ان پر نازل ہوئی وہ اس کے احکام پر بھی نہیں چلتے تھے۔

وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرَاةُ فِيهَا حُكْمُ اللَّهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُولَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ(سورۃ المائد:آیت 43)

ان کو دنیوی زندگی عزیر ہے۔

ان کو ایمان اور آخرت نہیں دنیا عزیز ہے اس لیے اگر ضرورت پڑی ہے تو ایمان بیچ کر دنیا کمائی ہے۔

ولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ(سورۃ البقرہ :آیت 86)

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ(سورۃ البقرہ :آیت 96)

وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ(سورۃ البقرہ :آیت102)

فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ(سورۃ المائد:آیت79)

ان کی قبیح خواہش۔

صرف یہ بات نہیں کہ اپنی ذات کی حد تک ایمان کےبارے میں چور ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ: آپ سےبھی آپ کا ایمان چھین لیں۔

وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا(سورۃ البقرہ :آیت109)

مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ(سورۃ البقرہ :آیت105)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا فَرِيقًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ(سورۃ آل عمران:آیت100)

وہ چاہتے ہیں کہ تمھیں گمراہ کردیں۔

وَدَّتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يُضِلُّونَكُمْ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ(سورۃ آل عمران:آیت96)

پھونکوں سےچراغ بجھاتے ہیں۔

پھونکوں سے وہ چراغ بجھا نا چاہتے ہیں جوزب نے روشن کیا ہے لیکن انشاءاللہ بجھایا نہ جائے گا بلکہ اس کی تکمیل ہوگی کیونکہ روشنیاں پھونکوں سے مزیدروشن ہوکر بقعہ نور بن جاتی ہیں۔

يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ(سورۃ التوبہ:آیت 32)

گویا یہ روحانی الو ہیں جو دلوں کی ایمان ویرانی کے متمنی رہتے ہیں۔

قبیح طرز عمل۔

یہ صرف ان کی خواہش ہی نہ تھی عمل بھی اس کے مطابق تھا عملا خدا کے راستہ سے ان کو روکتے بھی تھے۔

وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيرًا(سورۃ النساء :آیت 106)

کجی نکال نکال کر۔

اسلام سے روکتے بھی تو اس کی خامیاں نکال نکال کربدراہ کرتے تھے۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ(سورۃ النساء :آیت 96)

حددرجہ بد عمل۔

کویہ اہل علم لوگ تھے مگر یوں جیسے گدھے پر کتابیں لادی گئی ہوں۔

مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (سورۃ الجمعہ:آیت 5)

لاٹھی اور دھن۔ان کےنزدیک فضلیت کا معیار انسانیت تھا بلکہ اقتدار کی لاٹھی یادھن دولت تھا اگر یہ نہیں ہیں تو خواہ وہ نبی ہوں ان کے لیے اس کی حیثیت پر کاہ کے برابر بھی نہیں ہے۔

أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ(سورۃ البقرہ :آیت247)

ضدایمان سے پیاری:۔

ان کو ضد ایمان سےپیاری رہی ہے اگر ان کا حریف ایمان لاچکا ہے تو یہ ضد ضروری ہی اس کے برعکس راہ اختیار کریں گے اور بالکل جان بوجھ کر۔

فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ(سورۃ الجاثیۃ:آیت17)

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ(سورۃ البقرہ:آیت59)

دل سخت تھے:۔

ان کے سینوں میں دل نہیں پتھر رکھے تھے بلکہ اس سے بھی سخت ترکوئی شے۔

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً(سورۃ البقرہ:آیت74)

سب بھلا چکے:۔

انھیں جوجوسبق پڑھائے گئے تھے ایک ایک کرکے سب بھلا بیٹھے تھے۔

وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ(سورۃ المائد:آیت 13)

اگر کچھ یادر ہا بھی تواسے بھی پس پشت ڈال دیا پروانہ کی۔

نَبَذَ فَرِيقٌ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ(سورۃ البقرہ:آیت101)

خدا کے معاہدوں کاحشر:۔

یہی حشر ان معاہدوں ہوا جووخداسے انھوں نےکیے تھے۔

أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ(سورۃ البقرہ:آیت100)

خدا کی کچھ بھی قدر نہ کی:۔

ان ظالموں نے خدا کی کچھ بھی قدر نہ کی۔

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ(سورۃ الانعام :آیت91)

نخرے:۔

نخرے بے حد کیے اوربلاجواز کیے۔

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَنْ نَصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ (سورۃ البقرہ:آیت61)

حددرجہ بزدل :۔

ایک قوم کی حیثیت سے یہ پوری بزدل قوم تھی۔

قَالُوا يَا مُوسَى إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّى يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ(سورۃ المائد:آیت 22)

قَالُوا يَا مُوسَى إِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا أَبَدًا مَا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (سورۃالمائدہ:آیت 24)

خدا نے اس کی ان کویہ سزا دی کہ چالیس سال تک مارے مارے جنگلوں میں پھرتے رہے۔

قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ(سورۃالمائدہ:آیت26)

حرام خور قوم:۔

لوگوں کے مال ناحق کھاتے اور سود لیتے تھے۔

وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا(سورۃ النساء:آیت 161)

جھوٹ اور حرام کے دھنی :۔

جھوٹ سننے کےبڑے مشاق اور حرام خور ی میں بڑے بیباک تھے۔

سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ(سورۃالمائدہ:آیت42)

حضرت مریم پر بہتان۔

حضرت مریم پر بہتان باندھتے ہوئے نہ شرمائے۔

وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا(سورۃ النساء:آیت 156)

جھوٹ ستائش کو متمنی:۔

چاہئے کہ جو کام نہیں کیے ان کی بھی داد ان کو ملے۔

وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا(سورۃ آل عمران:آیت 188)

خدا بر افتراء:۔

خدا بر تہمت لگاتے ہوئے حیا نہیں کرتے تھے:بولے ہمیں خدا نے کہا ہے کہ اس نبی پر ایمان نہ لانا جب تک اپنی قربانی کا نظارہ نہ دکھائے۔

الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّى يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ(سورۃ آل عمران:آیت 183)

بڑے چار سوبیس:۔

شاطرانہ انداز میں ربان کو خم دے یوں پڑھ کے دکھاتے جیساکہ کلام خدا پڑھ رہے ہوں۔حالانکہ یہ محض فراڈ ہوتا تھا۔

وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ(سورۃ آل عمران:آیت78)

بہت بڑےسازشی:۔

سازش ان کی گھٹی میں پڑی تھی اپنی قماش کےلوگوں سے کہتے صبح کو ایمان لاکر شام کویا شام کو لاکر صبح کو پھر جایا کرناتاکہ لوگ یہ تصور کریں کہ آخر ان میں کوئی خرابی ہے تویہ واپس پلٹ آئے ہیں۔

وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ(سورۃ آل عمران:آیت72)

تعاون علی الاثم والعدوان:۔

گناہ اور زیادہ تیوں کے باب میں ان کی حمایت مجرموں کے حاصل ہوتی تھی۔

ظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(سورۃ البقر:آیت85)

اپنوں کے قاتل:۔

اپنوں کے دشمن اور قاتل بھی تھے۔

ثُمَّ أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ(سورۃ البقر:آیت85)

اکثر خیانتی:۔

ان میں اکثر یت خائنوں کی تھی۔

وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا(سورۃ المائدہ:آیت13)

کتمان حق:۔

حق چھپانا ان کی گھٹی میں تھا۔

لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ(سورۃ آل عمران:آیت187)

ڈینگیں:۔

کرتوت وہ اور ڈینگیں یہ کہ ہم خدا کی اولاد اور محبوب ہیں:وہ آخر میں ہمیں بخش ہی دے گا۔

نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ(سورۃ المائدہ:آیت18)

وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا(سورۃ الاعراف:آیت 169)

بڑےمقدس بنتے ہیں:۔

اپنی منہ میاں مٹھو بڑے مقدس بھی بنتے ہیں۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنْفُسَهُمْ(سورۃ النساء:آیت49)

بندر اور سور دینگیں یہ اور حالت یہ کہ خدا نے ان کو ان کی فطرت حیلہ جوئی اور سرکشی کی بنا پر بندر او رسورے بنادیا تھا۔

قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ(سورۃ الاعراف:166)

پھر ان بڑوں کےنام پر فخرو مباہات کیسی ؟

جوتے الگ:۔

بعد میں جورہے ان سے فرمایا کہ تمھیں جوتے پڑتے ہی رہیں گے۔

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ(سورۃ الاعراف آیت:167)

معلوم ہوتا کہ: یہودیت میں بحثییت یہودیت شر کاپہلو غالب ہے اس لیے مذہبا جو یہودی رہنےپر مصر ہے وہ مغضوب ہی رہے گا۔الایہ کہ ایمان لے آئے یا عارضی طور پر کسی کی منت سماجت کرے دو دن دم لے لے۔

ٹکڑے ٹکڑے:۔

ان کو رب نے ٹکڑے ٹکڑے کرکے روئے زمین پر پرگنداہ کردیا تاکہ ان کو جمعیت حاصل نہ ہو۔

وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الْأَرْضِ أُمَمًا(سورۃ الاعراف:۔آیت168)

اب فلسطین میں ان کا بھان متی کا کنبہ'' جورا جارہا ہے وہ عارضی ہے بالاخر ان کو منتشر ہونا ہے یا جمع ہو کر مرنا ہے بہرحال یہ جمعیت ان کے جمعیت ثابت نہ ہوگی ۔انشاء اللہ۔

بہشت صرف ہمارے لیے ہے :۔

بہشت بھی صرف ہمارا ہے اور ہم ہی اس میں داخل ہوں گے۔

وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى(سورۃ البقرہ:آیت111)

آگ کےصرف چار دن:۔

ان تمام حماقتوں کے ساتھ یہ دعویٰ تھا کہ صرف چند دن آگ سےپالا پڑے گا یعنی وہ بچھڑے والے چالیس دن۔

وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً(سورۃ البقرہ:آیت80)

آگ کی سہار:۔

فرمایا :ان میں آگ کی سہار کتنی غضب کی سہار ہے جہان ایک ثانیہ مشکل ہے وہاں ان دنوں کا حوصلہ ۔اوفو!

فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ(سورۃ البقرہ:آیت175)

سچ کہا کسی نے کہ:ع شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

ایک رب کےبجائے ارباب ۔

ان ظالموں نے ایک خدا کی تو قدر نہ کی لیکن کئی رب بنا کر ان کے حضور جھک رہے ۔

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ(سورۃ مریم:آیت 31)

مادہ پرستی:۔

مادہ پرستی کا روگ بھی ان کو لگ گیا تھا اس لیے پوری زندگی اس کےلیے گنوا کر بھی سمجھ رہے کہ خوب ہورہا ہے۔

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا (103) الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا(سورۃ الکھف :آیت 103تا104)

حضرت مصعب کے والد فرماتے ہیں یہ لوگ یہود اورنصاریٰ ہیں۔

هم اليهود النصاري(بخاري )

ہدایت کے بدلے ضلالت:۔

جو انسان نجی او رعارضی مفاد کے لیے روحانی او رلازوال اقدار اصولوں کی پروا نہیں کرتا وہ گویا کہ ہدایت کے بدلے ضلالت او ر مغفرت کے بدلے عذاب لیتا ہے ۔یہی حال ان اہل کتاب کا ہے۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ(سورۃالبقرہ:آیت 175)

یہ آگ ہے:۔

ایمان اور ضمیر بیچ کر جو کماتے ہیں اور کھاتے ہیں وہ پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔

أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ(سورۃالبقرہ:آیت 174)

اس پر بھی اڑ جاتے ہیں۔ جو بھی برا کام ایک دفعہ شروع کر بیٹھتے تو پھر اسے وقار کا ہی مسئلہ بنالیتے ہیں کہ یا خدا پھر کسی کی نہیں سنتے تھے۔

كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ(سورۃ المائدہ:آیت 79)

نہ برائی بر گرے پڑتے ہیں۔ برائی پر صرف ار نہیں جاتے تھے بلکہ لپکے پڑتے تھے:معصیت اوروعدوان کے سلسلے میں انتائی چاک وچوبند رہتے۔

وَتَرَى كَثِيرًا مِنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ(سورۃ المائدہ: آیت62)

وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا(سورۃ البقرہ:آیت102)

ٹونے ٹوٹکے او ر جادو:۔

جاد و اور ٹونے ٹوٹکوں پر جان چھڑکتے تھے بس چاہتے کہ: کسی محنت کے بغیر سارے کام اور ساری حسرتیں صرف دم جھاڑ سے پوری ہوں اور اس ذہنیت نے ان میں بری اخلاق گندگیاں او رکمزوریاں پیدا کردی تھیں خاص کربیوی او رشوہر کے تعلقات کو خراب کرنا ان کا بڑا اہم مشغلہ تھا۔چونکہ اس سے پوری عائلی زندگی بلکہ برادری سسٹم بھی تلپٹ ہوجاتا ہے اس لیے شیطان نے ان کو اس لیے بالکل یکسو کر رکھا تھا۔

اتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ(سورۃ البقرہ:آیت102)

خدا سے زیادہ مادی سہاروں پر بھروسہ:۔

ان کو خدا سے زیادہ مادی سہاروں پر بھروسہ تھا اسباب کے حد تک ان سے سروکار رکھنا برا نہیں مطلوب ہے مگر ان کو خدا سمجھنا کہ بس ان کے سہارے سب ہوجائے گا غلط ہے۔

وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ(سورۃ الحشر:آیت2)

خدا کی پکڑ:۔

یہ سمجھتے تھے کہ جن اسباب کو جمع کر لیا ہے ان کے سامنے تو بس خدا کی بھی نہ چلے گی لیکن گرفت او رپکڑ کے انداز وہم وگمان سے بھی وراء الوراء ہیں جن کو یہ سمجھ سکیں ؟مشکل ہے۔

تَرَى كَثِيرًا مِنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا(سورۃ المائدہ:آیت 80)

فرمایا کہ اگر یہ لوگ دل سے مسلمان ہوتے تو ان کافروں کویار نہ بناتے۔

وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ(سورۃ المائدہ:آیت 81)

ہاں مسلمانوں کےپکے دشمن تھے۔ ہاں ان کو کوئی کد تھی تو بروں کےبجائے بھلے لوگوں او ر مسلمانوں سے تھی۔

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا(سورۃ المائدہ:آیت 82)

جرم جرم حق ہے۔ مسلمانوں سے دشمنی البغض للہ نہیں تھی بلکہ اس کا محرک مسلمانوں کا ایمان اور ایمان داری تھا کہ یہ اللہ کے نام کیوں لیتے ہیں؟

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ(سورۃ المائدہ:آیت59)

عیسائی نسبتاکم دشمن ہیں:۔

گو نصرانی بھی مسلمانون کےدشمن ہیں مگر یہودیوں اور مشرکین سے کم کیونکہ ان کے بعض علماء اور مشائخ نیک دل ہیں:اس لیے یہ دوستی مین نسبتا مسلمانوں سےزیادہ قریب ہیں۔

وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ(سورۃ المائدہ:آیت82)

تارے بھی اتار لائیں تو نہیں مانیں گے:۔

او رآپ کی دشمنی میں اس قدر راسخ اورپختہ ہوچکے ہیں کہ اگر آپ آسمان سے تارے بھی اتار لائیں تو بھی وہ آپ کے حامی بھرنے کےلیے تیار نہیں ہوں گے۔

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ(سورۃ البقرہ :آیت 145)

بات خدا کی نہیں خاندان کی ہے:۔

قبلہ نماز میں رخ کرنے کےلیے ایک سمت کا نام ہے ایسی بات نہبں کہ خدا اسی جانب میں رہتا ہے اس لیے جیسا وہ فرمائیں ماننا چاہیے مگر وہ کہتے ہیں کہ ہمیں خدا کے پھیچے نہیں ' خدا کو ہمارے پیچھے چلنا چاہیے۔

مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ(سورۃ البقرہ :آیت 145)

فرمایا کہ وہ بڑی نکتہ چینی کریں گے آپ ان کی پر واہ نہ کریں

فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي(سورۃ البقرہ :آیت 150)

دین خدائی منشا کی تعمیل کا نام ہے کسی خاندان یا نسل کی بات نہیں ہے ۔مگر انھوں نے دین کو بھی ایک نسل بات بنالیا تھا۔

نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ(سورۃ المائدہ:آیت نمبر18)

سب سے بڑے تخریب کار ہیں:۔

یہ بہت بڑی تخریب کار جماعت ہے۔

وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا(سورۃ المائدہ:آیت نمبر33)

اس لیے تکذیب اور قتل انبیاء میں منہمک رہے او رسمجھے کہ اس سے کچھ نہیں بگڑے گا۔

وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ(سورۃ المائدہ:آیت نمبر71)

اور ان کی اس غلط فہمی نے اس قدر طول کھینچا کہ خدا کے حضور بھی جوابدہی کا ان کو احساس نہ رہا تا آنکہ بخت نصر جیسے عذاب الہیٰ کے جوتے پڑے تو آنکھیں کھلیں اور توبہ کی اللہ نےقبول فرمالی۔لیکن چور چور ی جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا ۔بری لتا مشکل سےچھوٹتی ہے۔ پھر انہی بے ہوشیوں کی وادی میں جاپڑے۔

فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِنْهُمْ(سورۃ المائدہ:آیت نمبر71)

دین کامذاق اڑاتے تھے۔دین کا مذاق اڑاتے او ر دین سے یوں معاملہ کرتے جیسے بات عبادت کی نہیں ہنسی کھیل او رمخول کی ہے۔

آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ(سورۃ المائدہ:آیت نمبر57)

رسول کی شان میں گستاخی:۔

مشرکین کی طرح اسرائیلی بھی رسول کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے۔

وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ(سورۃ آل عمران:آیت186)

خدا کو باتیں بناتے ہیں:۔

رسول اور مومنوں بر بس نہیں خدا کو بھی باتیں بناتے ہیں کہتے ہیں ان دنوں خدا کا ہاتھ تنگ ہے۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ(سورۃ المائدہ:آیت نمبر64)

ان کو ان کے علماء اور مرشد بھی نہیں روکتے:۔

عوام کالانعام ہوتے ہیں خواص بھی ان کو قبیح کاموں اورباتوں سے نہیں روکتے تھے۔ ان کے مشائخ طریقت اورہنما سب کچھ دیکھتے ہیں مگر مصلحتا ان سےکچھ نہیں کہتے۔

لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ(سورۃ المائدہ:آیت نمبر63)

جیسے آئے ویسے گئے۔بات لمحے کی نہیں بلکہ از اول تاآخر یہ لوگ بے ایمان اور منافق ہی رہے جیسے آئے ویسے گئے۔

وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ(سورۃ المائدہ:آیت نمبر63)

دین میں غلو:۔

ان کے پاس دین تھاہی نہیں جتنا اور جیساکہ کچھ وہ بھی اوہام پرستا نہ تھا شدید غلو کرتے تھے۔

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ(سورۃ النساء:آیت171)

یہ عجیب مسلک ہے کہ ماننا نہیں اگر ماننا ہے تو حدور کاپاس نہیں کرنا۔ نباہنا تو اس سے بھی مشکل تھا۔بدعات کو جتنا رواج ان کے عہد میں ہوا اور کسی عہد میں نہیں ہوا۔

وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا(سورۃ الحدید:آیت27)

عقل کےاندھے:۔

حضرت ابراہیم کےبارے میں یہودیوں اور عیسائیوں کا دعوی تھا کہ وہ یہودی یا نصرانی تھے(العیاذ باللہ) اللہ فرماتے ہیں وہ کیسے؟ تورات اور انجیل جس کے تم پیروکار ہو وہ تو ان کےبعد نازل ہوئیں 'وہ یہودی کیسے ہوگئے؟

وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ(سورۃ آل عمران:آیت65)

خود فراموش:۔

دوسروں کوتو بڑی نصحیت کرتےتھے مگر اپنا ان کو ہوش نہیں تھا۔

أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ(سورۃ البقرہ:آیت44)

دقیق مسائل:۔

علم وعقل کاعالم یہ لیکن دھن مشکل اورکلامی مسائل میں غور خوض کرنےکی اللہ رے تیری شان !پوچھتے ہیں روح کیا شے ہے؟

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ(سورۃ الاسراء:آیت85)

روح سے مراد معروف روح کی بات نہ سہی اس سے مراد وحی ہی سہی بہرحال ان کو اس سے کیا کام جو عقل کےاندھے ہوں؟

جبرائیل امین کےدشمن:۔

کہتے ہیں تھے جبرائیل ےمین ہمار دشمن ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اس کے دشمن ہم تمہارے دشمن۔

فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ(سورۃ البقرہ:آیت98)

ان میں کچھ نیک بھی تھے:۔

ان میں کچھ لوگ نیک دل اورشب زند ہ دار بھی تھے۔نیک کاموں کی تبلیغ اور برے کاموں سے روکتے تھے۔

لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ (113) يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ(سورۃ آل عمران:آیت113تا114)

قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ(سورۃ الاعراف:164)

امین بھی ہیں:۔

ایک گروہ امین بھی ہے۔

وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ(سورۃ آل عمران:آیت75)

وہ بھی ہیں جو روتے ہیں:۔

عیسائیوں میں بعض مشائخ اور علماء ایسے بھی ہیں جو قرآن سن کر روپڑتے ہیں ان کی آنکھوں سے نیر بہنے لگ جاتے ہیں'خدا سے دعائیں کرنے لگ جاتے اور ایمان لے آتے ہیں۔

وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ(سورۃ المائدہ:آیت نمبر85)

غالبا ان سے مراد شاہ حبش نجاشی اور ان کےدرباری ہیں کیونکہ یہ کیفیت ان کی تھی۔

ہاں اکثر بے ایمان ہیں۔ ان میں جو نیک تھے کم تھے بس آٹے میں نمک اکثریت بدوں کی تھی۔

مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ(سورۃ آل عمران:آیت110)

گمراہ اور گمراہ کن:۔

نہ صرف گمراہ بلکہ یہ لوگ گمراہ کن بھی ہیں اس لیے ان کی راہ نہ لیں۔

وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ(سورۃ المائدہ:آیت نمبر77)

شایان شان تبادلہ خیال ہو:۔اس کے باوجود ان بازاری لوگوں سے سوقیانہ انداز میں بات نہ کی جائے بلکہ ہوتو شایان شان تبارلہ خیال ہو۔

وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ(سورۃ الاعراف:آیت 46)

یہ احمق ہیں:۔

خدا کے نزدیک یہ احمقوں کا ٹولہ ہے اس لیے نہیں کہ ان کے پاس عقل وہوش نہیں ہے بلکہ صرف اس لیے کہ عقل سے کام نہیں لیتے او ر اپنے اخروی مستقبل کو دنیا کے عارضی مصالح کی بھینٹ چڑھاتے رہتے ہیں۔

سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ(سورۃالبقرہ:آیت142)

حضرت براء فرماتے ہیں یہ یہودیوں کی بات ہے (تفسیر ابن جریر)

کفار تم سے زیادہ ہدایت پر ہیں ۔رسول کریم ﷺ کےساتھ عناد میں اتنے دور چلے گئے تھے کہ مشرکوں سے کہا کرتے تھے کہ :وہ مسلمانوں سے زیادہ ہدایت پر ہیں۔

وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا(سورۃ النساء:آیت51)

لعنتی قرار پائے:۔

ان بوالحجبوں اور بوالہوسوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کی انہی کرتوتوں کی بنا پر لعنتی قرار دیا۔

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ(سورۃالمائدہ:آیت 109)

لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ(سورۃالمائدہ:آیت78)

پتھر بنادیا:۔

ابنی غلط کاریوں کی وجہ سے ان کےدل اثر پذیری کےقابل نہ رہے جیسے پھتر ۔

وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً(سورۃالمائدہ:آیت13)

باہمی عداوت:۔ دنیا میں یہ سب سے بڑا عذاب ہے کہ:کسی قوم کی باہم لڑتے بھڑتے گزرجائے' اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کو یہ سزا بھی دی ۔

فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ(سورۃالمائدہ:آیت14)

آخرت بھی برباد:۔

آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں حق تعالیٰ ان سے بات کریں گے نہ ان کو نظر کرم سےدیکھیں گے اور نہ ہی ان کا تزکیہ کریں گے۔

أُولَئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ(سورۃ آل عمران:آیت77)

ذلت ورسوائی:۔

ذلت اور رسوائی ان کا مقدر بن گئی ہے۔ ہاں ایمان لے آئے تو اوربات ہے۔

یا کوئی دوسرا عارضی سہارا لے لیا تو عارضی طور پر کچھ وقت کےلیے بھی سنبھا لا ممکن ہوجائے گا۔

وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ(سورۃ البقرہ:آیت61)

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ(سورۃ آل عمران:آیت 112)

اسرائیلیوں کی موجودہ ریاست بڑی طاقتوں کے سہارے قائم ہے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ استدراج ہو۔ تاکہ ان کو یک جاکر کے ان کا کچومر نکا لا جائے بہرحال قرآن سچا ہے اور ان کے دوسرے سہارے جھوٹے۔

اپنےہاتھوں اپنے گھروں کی تباہی:۔

خدا نے ان کو ایک سزا یہ بھی دی کہ اپنے ہاتھوں سے آپنے گھروں کو انھوں نےاجاڑا رہی سہی کسر مسلمانوں نے پوری کردی۔

يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ(سورۃ الحشر:آیت2)

بالکل ان کو مٹا دیتامگر.....:۔

حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر گھر سے بے گھر ہوکر ٹھوکریں کھانا ان کے مقدر میں نہ ہوتا تو ان کی اور طرح سے خبر لیتے یعنی صفحہ ہستی سے ان کو مٹا دیتے یا کوئی اور سخت عذاب دیتے ۔

وَلَوْلَا أَنْ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا(سورۃ الحشر:آیت3)

باقی رہا اخروی عذاب؟سودہ ہے ہی۔

وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ(سورۃ الحشر:آیت3)

مرعوبیت:۔

مرعوبیت ان کی گھٹی میں ڈال دی گئی ہے۔یہ خدا کا بڑا عذاب ہے۔

وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ(سورۃ الحشر:آیت2)