مرزا غلام احمد قادیانی ؛ نبی یا نفسیاتی مریض؟
مرزا غلام احمد 40؍1839ء میں پیدا ہوئے۔ 68-1864ء میں سیالکوٹ کی کچہری میں بطورِ محرّر ملازمت کی۔ اس دوران مختاری کا امتحان دیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔مرزا صاحب علم نجوم سے تو دلچسپی رکھتے ہی تھے، 1868ء میں سیالکوٹ سے واپسی کے بعدتسخیری عملیات اور اَوراد و وظائف کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور تقریباً 9ماہ کی چلّہ کشی کے دوران 'مسمریزم' کی بھی مشق کی۔یہ مناظروں کا دور تھا اور ایک خاص حلقہ میں آپ مناظر اسلام کی حیثیت سے بھی معروف ہو چکے تھے ۔ مزید آنکہ مقدمات کے سلسلے میں آپ کا لاہور اکثر آنا جانا اور یہاں کئی کئی دن تک قیام بھی رہتا تھا جہاں مخالفین اسلام سے مذہبی بحث مباحثہ بھی آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور اسی سلسلہ میں آریوں کے خلاف مضمون نگاری بھی شروع کر دی اور پھر 1877ء تا 1878ء مناظرانہ چیلنج بازی کا طریق اپناتے ہوئے خوب اشتہار بازی کی اور پھر اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے مامور من اللّٰہ اور ملہم ہو کر 50؍ اجزا پر مشتمل 'بر اہین احمدیہ ' نامی ایسی لاجواب کتا ب لکھنے کا اعلان کیا جس میں تین سو دلائل ہوں گے جن کا کسی کے پاس جواب نہیں۔ اس کا حصہ اوّل اور دوم1880ء میں جبکہ حصہ سوم 1882ء اور حصہ چہارم 1884ء میں شائع کیا۔ ہندوستان کے بہت سے علمی و دینی حلقوں میں اس کتاب کا پُرجوش استقبال کیا گیا۔ اس طرح مرزا غلام احمد صاحب قادیان کے گوشۂ گمنانی سے نکال کر شہرت و احترام کے زینے چڑھتے گئے اور لوگوں کی نگاہیں اُن کی طرف اُٹھ گئیں۔ اس دوران مرزا صاحب اسلام کے وکیل اور ایک مصنّف کی حیثیت سے سامنے آئے۔
مرزا صاحب نے اپنی مذہبی زندگی کا آغاز ایک صوفی اور مناظر کی حیثیت سے کیا، پھر 'ملہم ومحدَّث1 'ہونے کا اعلان کیا۔ 1884ء میں آپ نے مصلح اور مجدد ہونے اور مسیح کی مشابہت کا جبکہ 1891ء میں 'مثیل مسیح' اور پھر 'مسیح موعود' اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا اور آخر کار 1901ء میں نبی اور رسول اللّٰہ ہونے کا اعلان کر دیا اور 1908ء میں مرزا انتقال کر گئے۔
ختم نبوت
پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک ہر زمانے، اور پوری دنیاے اسلام میں ہر ملک کے مسلمان اور علما اس عقیدے پر متفق ہیں کہ محمد ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا اور یہ کہ جو بھی آپ کے بعد اس منصب کا دعویٰ کرے یا اس کو مانے وہ کافر اور خارج از ملتِ اسلام ہے چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
﴿ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلـٰكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّـۧنَ...﴿٤٠﴾... سورةالاحزاب
''(لوگو!) محمدﷺ تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللّٰہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں۔''
رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
« إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلاَ رَسُولَ بَعْدِي وَلاَ نَبِيَّ»2
''رسالت ونبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا،میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔''
«وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي»3
''میری اُمت میں تیس کذاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النّبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔''
حتیٰ کہ ابتدا میں مرزا صاحب خود بھی ختم نبوت کے قائل تھے اور نبوت کے داعی کو کافر گردانتے تھے، چنانچہ لکھتے ہیں کہ
'' اللّٰہ تعالیٰ نے آپ (آنحضورﷺ) پر نبیوں کا خاتمہ فرما دیا۔''4
''فی الحقیقت ہمارے نبیﷺ پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔''5
'' میں جناب خاتم الانبیاﷺ کی ختم نبوت کاقائل ہوں او رجو شخص ختم نبوت کا منکر ہو، اس کو بے دین اور دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔''6
''سیدنا مولانا حضرت محمد ﷺختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اوررسالت کو کاذب جانتا ہوں۔''7
دعویٰ نبوت کی حقیقت
قرآن وحدیث کے اتنے واضح دلائل اور پھر مرزا صاحب کے اپنے اعلان کہ آنحضور ﷺ خدا کے آخری نبی ہیں اور ختم نبوت کا منکر کاذب اور کافر ہے، کے بعد مرزا صاحب کا اعلانِ نبوت حیران کن ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرزا صاحب نے جو کہ ایک عالمِ دین تھے اور ختم نبوت کے داعی کو کاذب و کافر سمجھتے تھے، خود اعلان نبوت کیوں کیا؟
مرزا صاحب کے اعلانِ نبوت کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ اُنہوں نے صرف دنیوی غرض و مفادات کے لیے سوچ سمجھ کر اور خوب غور وفکر کے بعد ایک پروگرام کے تحت یہ ڈھونگ رچایا ہو اور یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ مرزا صاحب سے پہلے بھی بہت سے لوگ نبوت کا دعویٰ کر چکے ہیں۔ حتیٰ کہ خود آنحضورﷺ کی زندگی میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور قتل ہوا لیکن اگر مرزا صاحب کی کتب کا سرسری جائزہ لیا جائے تو معمولی سوجھ بوجھ کا ہر انسان اُن کی تحریروں میں واضح تضادات کو فوراً محسوس کر لیتا ہے۔ مرزا صاحب ایک ذہین آدمی تھے، اگر انہوں نے یہ دعویٰ سوچ سمجھ کر ایک سکیم کے تحت کیا ہوتا تو ان کی کتب میں واضح تضادات نہ ہوتے، کیونکہ کسی بھی نارمل فرد کی تحریروں میں اس قدر نمایاں تضادات نہیں ہوتے جبکہ مرزا صاحب کی تحریریں تضادات کا شاہکار ہیں۔ خود مرزا صاحب کا ارشاد ہے:
''کسی عقل مند اور صاف دل انسان کے کلام میں ہرگز تناقص نہیں ہوتا، اگر کوئی پاگل یا مجنون یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طور پر ہاں ملا دیتا ہو اس کا کلام بے شک متناقض ہوجاتا ہے۔''8
''جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔''9
مگر خود مرزا صاحب کا کلام تضاد اور تناقض سے بھرا پڑا ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:
1. ''اے لوگو! دشمن قرآن نہ بنو! اور خاتم النّبیین کے بعد وحی نبوت کا نیا سلسلہ جاری نہ کرو، اس خدا سے شرم کرو جس کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے۔''10
''ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں۔''11
دوسری طرف فرماتے ہیں:'' اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا ہے۔''12
''سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔''13
2. ''میرے دعوے کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر نہیں ہو سکتا۔''14
دوسری طرف لکھتے ہیں:'' خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اُس نے مجھے قبول نہیں کیا، وہ مسلمان نہیں۔''15
3. ''لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں۔ مؤمن لعان (لعنت کرنے والا) نہیں ہوتا۔''16
''میری فطرت اس سے دور ہے کہ کوئی تلخ بات منہ پر لاؤں۔''17
''گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں۔ ''18
'' میں سچ سچ کہتا ہوں جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس کو 'دشنام دہی' کہا جائے۔''19
د وسری طرف فرماتے ہیں: ''ہمارے دشمن بیابانوں کے خنزیر ہو گئے او ران کی عورتیں کتیوں سے بھی بڑھ گئیں۔''20
مولانا محمد حسین بٹالوی کے متعلق فرماتے ہیں:
''پلید ، بے حیا، سفلہ...''21
مولانا ثناء اللّٰہ امر تسری کے متعلق لکھتے ہیں:
''کفن فروش ، کتا...''22
''خبیث، سور، کتا، بدذات، گوں خور۔''23
مولانا سعد اللّٰہ لدھیانوی کے متعلق ارشاد ہے:
''غول، لئیم، فاسق، ملعون، نطفہ، سفہار، خبیب، کنجری کا بیٹا۔''24
مرزا صاحب کی مذکورہ بالا تحریریں نہ صرف تضاد کا شاہکار ہیں بلکہ ایسی تحریریں ایک نبی کا تو ذکر ہی کیا، کسی بھی شریف انسان کے مقام سے فروتر ہیں۔ کوئی بھی نارمل اور معقول انسان ایسی گندی زبان تحریر کرنا پسند نہیں کرتا چہ جائیکہ ایک نبی ایسی گھٹیا اور بازاری زبان استعمال کرے۔
4. مرزا صاحب فرماتے ہیں: '' اور یہ بالکل غیر معقول اور بے ہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔''25
دوسر ی طرف مرزا صاحب لکھتے ہیں:
'' زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں۔ جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔''26
یاد رہے کہ مرزا صاحب کی اصل زبان پنجابی تھی۔
مزید براں مرزا صاحب کے بقول ان کو الہام بھی ہوتا تھا۔ آپ نے اپنی کتب میں اپنے بہت سے الہاموں کا ذکر کیا ہے۔ مرزا صاحب کو پہلا الہام 1865ء میں ہوا۔ اس کے بعد بقول مرزا صاحب الہامات کی بھر مار شروع ہو گئی۔ چند الہامات ملاحظہ فرمائیں:
'' تو ہمارے پانی سے ہے اور وہ لوگ (بزدلی) سے۔''27
'عالم کباب' ''آسمان سے دودھ اُترا۔ محفوظ رکھو۔''28
''بالو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے۔''29
''کنواری بیوہ'' ''ڈگری ہو گئی ہے.... مسلمان ہے۔''30
''ہمارا ربّ حاجی ہے۔''31
''میری نعمت کاشکر کر، تو نے میری خدیجہ کو دیکھ لیا۔''32
"We can what we will do"33
تضادات اور تناقصات کے علاوہ اگر مرزا صاحب کے الہامات کا سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا لغو، بے مقصد اور لا یعنی کلام خدا کا تو کیا کسی نارمل انسان کا بھی نہیں ہو سکتا اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مرزا صاحب کا دعویٰ نبوت کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہ تھا بلکہ یہ ایک نفسیاتی بیماری 'پیرانائے' Parania کے تحت تھا کیونکہ اگر یہ دعویٰ نبوت کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوتا تو مرزا صاحب کی تحریروں میں اس قدر کھلا تضاد نہ ہوتا اور نہ ہی وہ اپنی کتب میں اپنے لغو، بے مقصد اور لا یعنی الہامات کا ذکر کرتے۔ مرزا صاحب کے انگریزی الہامات کی زبان تک درست نہیں۔ مزید براں سوچا سمجھا دعویٰ ہمیشہ ایسی کھلی اور واضح غلطیوں سے پاک ہوتا ہے۔
اس بیماری کے تحت مرزا صاحب کا یہ دعویٰ نبوت کوئی نیا یا انوکھا نہیں بلکہ اگر آپ آج بھی کسی پاگل خانے میں چلے جائیں تو وہاں آپ کی ملاقات پانچ سات ولیوں، دو چار نبیوں اور ایک آدھ خدا سے ضرور ہو جائے گی۔34
پیرانائے Parania
پیرانائے،دیوانگی شدید دماغی خلل Psychosis کی وہ صورت ہے کہ جس میں وسوسوں یا خبطوں کا ایک منظّم گروہ مریض کے ذہن میں رس بس جاتا ہے، ایسے مریض کے وسوسے اور خبط نہایت منظم ومربوط، متدون، مدلل، منطقی، مستقل، متعین شدہ Well Fixed، پیچیدہ Intricate اور اُلجھے ہوئے Complexہوتے ہیں۔ یہ وسوسے Delusions اکثر کسی ایک ہی مرکزی خیال کے گرد گھومتے ہیں، یہ مرض عموماً آہستہ آہستہ بڑھتا ہے۔
اکثر مریضوں کی شخصیت میں کوئی نمایاں خرابی یا نقص نہیں ہوتا، مریض محض اسی وسوسے یا خبط کی حد تک ابنارمل ہوتا، ورنہ باقی ہر لحاظ سے وہ صحیح عقل وفہم کا مالک ہوتا ہے اور بادی النظر میں بالکل نارمل دکھائی دیتا ہے۔
بعض مریضوں کو سمعی اور بصری وہم Hallucination آتے ہیں، انہیں طرح طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، چیزیں نظر آتی ہیں، یعنی مریض حواسِ خمسہ کے مختلف حواس سے کچھ نہ کچھ محسوس کرتا ہے حالانکہ حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اس بیماری کے بنیادی وسوسے دو قسم کے ہوتے ہیں:
1۔ اذیت بخش وسوسے (خبط اذیت) 2۔ پرشکوہ یا اقتداری وسوسے (خبط عظمت)
خبط اذیت میں مریض سمجھتا ہے کہ لوگ اس کے خلاف ہیں۔ یہ لوگوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور خبط عظمت کی وجہ سے مریض اپنے آپ کو ایک بڑا آدمی اور عظیم ہستی تصور کرتا ہے۔
خبطِ عظمت کی ایک قسم مذہبی خبط عظمت ہے جس میں مریض سمجھتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ ''خدا مجھ سے محبت کرتا ہے میں اللّٰہ کا منتخب بندہ ہوں اور اس کا برگزیدہ خادم ہوں۔ خدا کانبی اور رسول ہوں اور مجھے خدا نے دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے۔'' ایسے لوگ نئے نئے دین وضع کرتے ہیں، مذہبی کتابوں اور اصطلاحوں کی نئی نئی تفسیر یں کرتے ہیں تاکہ اُنہیں اپنے تصورات کے مطابق ڈھال لیں۔ مریض محسوس اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور اسے الہامات ہوتے ہیں۔35
یہ مرض عموماً مردوں کو ہوتا ہے، وہ بھی تیس سال کے بعد عمر کے آخری حصہ میں۔ اس قسم کے مریض بہت شکی مزاج ، خود پندار Slef Importanat، متکبر، گستاخ، مغرور اور نہایت حساس ہوتے ہیں۔ تنقید قطعاً برداشت نہیں کر سکتے، فوراً بھڑک اٹھتے ہیں۔ ایسے مریض زبردست احساسِ برتری کا شکار ہوتے ہیں مگر ان کے احساس برتری کے پس منظر میں احساسِ کمتری کار فرما ہوتا ہے۔ ان مریضوں کی اکثریت جنسی مسائل سے دوچار ہوتی ہے۔36
پیرانائے کے اکثر مریض ذہین افراد ہوتے ہیں، ظاہری طور پر چونکہ بالکل نارمل معلوم ہوتے ہیں لہٰذا وہ ہر قسم کے دلائل سے اپنی بات وقتی طور پر منوا لیتے ہیں یہ لوگ واقعات اور حقائق کو اسی طرح توڑ موڑ لیتے ہیں کہ وہ اُن کے وسوسوں پر ٹھیک بیٹھتے ہیں۔37
بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ جب مریض کو یہ وسوسے آنے شروع ہوتے ہیں تو مریض کے دوست احباب اور عزیز واقارب کو اس کی اس تبدیلی کا احساس تک نہیں ہوتا اور وہ اس طرف توجہ نہیں دیتے کیونکہ مریض ظاہری طور پر بالکل نارمل معلوم ہوتا ہے۔ پھر جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے یہ وسوسے زیادہ منظم ہوتے جاتے ہیں اور مریض زیادہ مدلل، منطقی اور معقول معلوم ہوتا ہے۔ مرض جتنا شدید ہو گا، اس کی گفتگو اتنی ہی مدلل، منطقی اور معقول معلوم ہوتی ہے۔38
ایسے مریض اپنے خیالات اور نظریات کو نہایت مربوط اور مدلل انداز میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ لوگ ان پر یقین کر لیتے ہیں۔ ایسے افراد اپنے رشتہ داروں، دوست احباب اور بعض دوسرے معقول افراد کو اپنے دعوے کی سچائی پر مطمئن کر لیتے ہیں۔39
مریض عموماً سمجھتا ہے اور اسے اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کے نظریات اور خیالات کو وسوسے خیال کرتے ہیں مگر پھر بھی وہ ان کی واضح تردید سے مطمئن نہیں ہوتا کیونکہ اس کا وسوسی نظام بہت پختہ اور اس کی ساخت پرداخت حد درجہ منطقی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مریض اپنے وسوسوں پر جما ٹکا رہتا ہے۔40
عمومی وجوہات
پیرانائے کی تشکیل میں مریض کی معاشرتی، سماجی، پیشہ وارانہ اور ازدواجی زندگی کی ناکامیاں اہم رول ادا کرتی ہیں یہ ناکامیاں مریض کی خودی (اَنا) اور شخصی اہمیت کے تصور کو خطرے میں ڈال دیتی ہے جس سے اس کا وقار سخت مجروح ہوتا ہے۔ایسے افراد کے مقاصد زندگی اور خیالات بہت بلند ہوتے ہیں مگر جب وہ ان کو حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ ناکامی ان میں احساسِ کمزوری اور احساسِ کمتری پیدا کر دیتی ہے اور پھر وہ اس احساسِ کمتری کو مٹانے یا کم ازکم، کم کرنے کے لیے اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
فرائڈ کے نزدیک اس مرض کے پیچھے دبی ہوئی ہم جنسی تمناؤں اور خواہشات کا بھی گہرا ہاتھ ہوتا ہے، اگرچہ مریض کو ان کا شعور و احساس نہیں ہوتا۔ یہ خواہشات نہایت غیر اخلاقی اورناقابل قبول سمجھی جاتی ہیں جو کہ مریض کو پریشان کرتی ہیں، نتیجۃً مریض احساسِ گناہ اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر اس کی تلافی کرنے کے لیے وہ اپنے آپ کو بلند و اعلیٰ دکھانا چاہتا ہے۔ اس طرح اپنے وسوسوں کو ناقابل قبول اور متنفرانہ تمناؤں کے خلاف دفاعی فصیل سی بنا دیتا ہے۔41
پیرانائےکی ایک وجہ جنسی عدم مطابقت Maladjustment بھی بیان کی جاتی ہے۔ پیرانائے کے مریضوں کی اکثریت جنسی مسائل، پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہوتی ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ مسائل ہم جنسیت ہی کے ہوں جیسا کہ فرائڈ کا خیال ہے۔42
بقول کول مین عصر حاضر کے محققین کی اکثریت کے خیال کے مطابق اس بیماری کی تشکیل میں اہم ترین عناصرفرد کی دوسرے لوگوں کے ساتھ باہمی تعلقات میں دشواری، اپنی کوتاہی وکمزوری اور کمتری کا شدید احساس ہے۔
بعض دوسرے ماہرین کی رائے میں اس بیماری کی تشکیل میں عموماً حسب ذیل وجوہات پائی جاتی ہیں: غیر اخلاقی کردار پر احساسِ گناہ، دبی ہوئی ہم جنسی خواہشات، احساسِ کمتری اور اعلیٰ غیر حقیقت پسندانہ اُمنگیں۔
مرزا صاحب ایک نفسیاتی مریض
اگر پیرانائے کے مرض کی علامات کا سرسری جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ اس مرض کی کم وبیش تمام علامات مرزا صاحب میں موجود تھیں، مثلاً
1. تمام مریضوں کی طرح مرزا صاحب کے تمام وسوسے خوب منظّم اور اکثر مریضوں کی طرح ایک ہی مرکزی خیال کہ وہ دنیا کی اصلاح کے لیے خدا کی طرف سے مامور ہیں، کے گرد گھومتے ہیں۔ مرزا صاحب پہلے ایک مصلح کے حیثیت سے سامنے آئے پھر 'محدَّث' اور مجدد ہونے کا دعویٰ کیا، بعد ازاں مثیل مسیح، مسیح موعود اور آخر کار نبوت کا اعلان کر دیا، ان تمام دعووں کا مرکزی خیال ایک ہی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے دنیا کی اصلاح کے لیے مامور ہیں۔ اگرچہ بیماری کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کا دعویٰ بھی بڑھتا گیا۔
2. مرزا صاحب کے وسوسے اگرچہ مربوط، مدلل اور ایک ہی مرکزی خیال کے گرد گھومتے تھے مگر اکثر مریضوں کی طرح ان کے وسوسے کافی پیچیدہ اور اُلجھے ہوئے تھے۔ ان کے اُلجھاؤ کا اندازہ اس امر سے بخوبی ہوتا ہے کہ وہ کبھی اپنے آپ کو مصلح43 اور محدث 44کہتے ہیں اور کبھی مجدد45 کبھی مثیل مسیح46 اور مسیح موعود47 ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کبھی نبی48 ہونے کا، حتیٰ کہ کبھی کرشن اور گوپال ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔49
مرزا صاحب کے وسوسوں کی پیچیدگی ان کے بعض الہامات سے مزید ظاہر ہوتی ہے مثلاً
''مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھیرایا گیا اور آخر کئی مہینے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں، بذریعہ اس الہام، مجھے مریم سے عیسیٰ بنا دیا گیا پس اس طرح میں ابن مریم ٹھیرا۔''50
یعنی پہلے مریم بنے پھر خود ہی حاملہ ہوئے پھر اپنے پیٹ سے آپ عیسیٰ ابن مریم بن کر تولد ہو گئے۔
3. اکثر مریضوں کی طرح مرزا صاحب کو یہ بیماری یک بارگی لاحق نہیں ہوئی بلکہ مرزا صاحب اس بیماری میں آہستہ آہستہ گرفتار ہوتے گئے۔ چنانچہ مرزا صاحب نے نبوت کا اعلان یک لخت نہیں کیا بلکہ پہلے پہل وہ ایک مبلغ اور مصلح کی حیثیت سے سامنے آئے 51، پھر محدث ہونے کا دعویٰ کیا۔ لکھتے ہیں: '' نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدث کا دعویٰ ہے۔52 1884ء میں مجدد ہونے کا اعلان کیا چنانچہ ان کے بقول
''اور مصنف کو بھی اس بات کا علم دیا گیا کہ وہ مجددِ وقت ہے۔ ''53
پھر مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا، فرماتے ہیں: '' مجھے فقط مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے۔''54
1891ء میں مسیح موعود ہونے کا اعلان کیا۔ چنانچہ رقمطراز ہیں: '' میں مسیح موعود ہوں۔''55
حتیٰ کہ آخر کار مرزا صاحب نے 1901ء میں نبوت و رسالت کا دعویٰ کر دیا۔ فرماتے ہیں:
'' سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔''56
''اس نبوت میں نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا۔ دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔''57
مختصر یہ کہ مرزاصاحب کے مذہبی خبط عظمت کے وہ وسوے جو تقریباً 1879ء میں شروع ہوئے، بڑھتے بڑھتے 1901ء میں نبوت کے دعوے پر منتج ہوئے۔ مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں: '' حال یہ ہے اگرچہ عرصہ بیس سال سے متواتر اس عاجز کو الہام ہو رہے ہیں۔ اکثر دفعہ ان میں رسول یا نبی کا لفظ آ گیا ہے۔''58
4. بعض مریضوں کی طرح آپ کو سمعی اور بصری واہمے Hallucinations آتے تھے۔ اُنہیں آوازیں سنائی دیتی تھیں اور لوگ نظر آتے تھے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ''میرے پاس جبرائیل آیا اور اس نے مجھے چن لیا۔''59
''بعض اوقات دیر دیر تک خدا مجھ سے باتیں کرتا رہتا۔''60
5. مذہبی خبط عظمت میں مریض محسوس کرتا ہے اور دعویٰ بھی کرتا ہے کہ اس پرو حی نازل ہوتی ہے اور اسے الہامات ہوتے ہیں۔ مرزا صاحب نے اپنی تصنیفات میں جگہ جگہ اپنی وحی اور الہامات کا ذکر کیاہے ۔ مثلاً
''یہ سچ ہے کہ وہ الہام جو خدا نے اس بندے پر نازل فرمایا۔''61
'' بیس سال سے متواتر اس عاجز پر الہام ہوا ہے۔''62
''مجھے اپنی وحی پر ایسا ایمان ہے جیسا کہ تورات اور انجیل اور قرآن پر ۔''63
6. جیسا کہ قبل ازیں بتایا جا چکا ہے کہ مذہبی خبطِ عظمت کا مریض سمجھتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللّٰہ کا منتخب بندہ اور اس کا برگزیدہ خادم ہے۔ خدا نے دنیا کی اصلاح کے لیے اسے بھیجا ہے۔ ایسے لوگ نئے نئے دین وضع کرتے ہیں۔ مذہبی کتابوں اور اصطلاحوں کی نئی نئی تفسیریں ایجاد کرتے ہیں تاکہ اُنہیں اپنے تصورات کے مطابق ڈھال لیں۔
مرزا صاحب چونکہ مذہبی خبطِ عظمت کے مریض تھے چنانچہ اُن کے دعوے بالکل اسی نوعیت کے تھے مثلاً '' خدا نے مجھے امام اور رہبر مقرر فرمایا۔''64 براہین احمدیہ میں اپنی ذات کے متعلق بار بار اظہار کرتے ہیں کہ وہ دنیا کی اصلاح اور اسلام کی دعوت کے لیے خدا کی طرف سے مامور اور عصر حاضر کے مجدد ہیں، اور اُن کو حضرت مسیح سے مماثلت ہے۔65
چنانچہ مرزا صاحب نے ایک نیا دین وضع کیا اور نبی بن گئے۔ اس کے لیے قرآن وحدیث کی عجیب وغریب تشریح اور تفسیر کی جو کہ نہ صرف علماے امت کے اجماع کے خلاف ہے بلکہ ان کے اپنے ابتدائی خیالات کے بھی برعکس ہے، مثلاً ابتدا میں آپ ختم نبوت کے قائل تھے اور ختم نبوت کے منکر کو کافر سمجھتے تھے، چنانچہ لکھتے ہیں:
'' قرآن کریم بعد خاتم النّبیینﷺ کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔''65
'' اللّٰہ کو شایان شان نہیں کہ خاتم النّبیین کے بعد نبی بھیجے اور نہیں شایان کہ سلسلۂ نبوت کو دوبارہ شروع کر دے، بعد اس کے کہ اسے قطع کر چکا ہو۔''66
ہم اس بات کے قائل ہیں اور معترف ہیں کہ نبوت کے حقیقی معنوں کی رو سے بعد آنحضرتﷺ نہ کوئی نیا نبی آ سکتا ہے اور نہ پرانا۔''67
چنانچہ بعد ازاں جب مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو لفظ ختم نبوت کی عجیب وغریب تعبیر اور تفسیر کی اور اس کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھال لیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
'' وہ (آنحضور ﷺ) ان معنوں میں خاتم الانبیا ہیں کہ ایک تو تمام کمالاتِ نبوت اُن پر ختم ہیں۔68'' یعنی 'خاتم النّبیین' کے معنیٰ آخری نبی کے نہیں بلکہ افضل النبیین کے ہیں۔ اسطرح نبوت کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے البتہ کمالاتِ نبوت حضور پرختم ہو گئے۔
مرزا صاحب نے اپنی نبوت اور رسالت کے لیے ایک دلچسپ تاویل کی۔ لکھتے ہیں:
''مجھے بروزی صورت میں نبی اور رسول بنایا ہے اور اس بنا پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللّٰہ اور رسول اللّٰہ رکھا۔مگر بروزی صورت میں میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفیٰﷺ ہے، اس لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا، پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمد کی چیز، محمد کے پاس ہی رہی۔69
7. اس مرض کے عام مریضوں کی طرح مرزا صاحب کو بھی یہ مرض 30 سال کے بعد عمر کے دوسرے حصہ میں لاحق ہوا۔ آپ 40۔1839ء میں پیدا ہوئے۔ 1891ء میں پہلی مرتبہ اپنی تصنیف ' فتح الاسلام' میں مثیل مسیح اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ بعد ازاں 1901ء میں نبوت کا دعویٰ کیا۔
8. خبطِ عظمت کے دوسرے مریضوں کی مانند مرزا صاحب بھی بہت حساس تھے۔ اپنے خلاف تنقید ہرگز برداشت نہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ اس دور کے جن علما نے ان کے دعویٰ نبوت پر تنقید کی، وہ ان پر برس پڑے حتیٰ کہ گالی گلوچ پر اتر آئے۔ مثلاً مولانا ثناء اللّٰہ امر تسری کے متعلق لکھتے ہیں: '' کفن فروش، خبیث، سور، گوں خور۔''70
مولانا سعد اللّٰہ لدھیانوی کے متعلق فرماتے ہیں:
'' غول، لئیم،فاسق، ملعون، نطفہ، سفہار، خبیث، کنجری کا بیٹا۔''71
9. خبط عظمت کے تمام مریضوں کی طرح مرزا صاحب بھی زبردست احساسِ برتری کا شکار تھے، ان کا یہ احساس اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ اوّل تو وہ اپنے آپ کو تمام انبیا کا ہم پلہ اور ہم چشم سمجھتے تھے اور اس پر مستزاد یہ کہ اپنے تئیں جامع کمالاتِ انبیا بلکہ تمام انبیا سے افضل گردانتے تھے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
الف: خدا نے میرے ہزار ہانشانیوں سے میری وہ تائید کی ہے کہ بہت کم نبی ہیں جن کی تائید کی گئی۔72
ب: اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر راست باز اور مقدس نبی گذر چکے ہیں، ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کیے جاویں، سو وہ میں ہوں۔73
ج: اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو آسمان پیدا نہ کرتا۔74
د: مرزا صاحب اپنے کو حضرت آدم75 ، حضرت نوح 76، حضرت یوسف 77، اور حضرت عیسیٰ 78سے افضل سمجھتے تھے۔
ر: اور اس شخص (مرزا صاحب) کو تم نے دیکھ لیا جس کو دیکھنے کے لیے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی۔79
10. بقول کول مین ان مریضوں کی اکثریت جنسی مسائل سے دوچار ہوتی ہے۔ مرزصاحب بھی اسی اکثریت میں شامل تھے۔ مرزا صاحب کی قوتِ مردمی کمزور تھی جس کا مرزا صاحب کو علم بلکہ پوری شدت سے احساس تھا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
'' حالتِ مردمی کا لعدم۔''80
''جب میں نے شادی کی تھی تو مدت تک مجھے یقین رہا کہ میں نامرد ہوں، آخر میں نے صبر کیا۔''81
11. چونکہ یہ مریض اکثر ذہین افراد ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ لوگ واقعات اور حقائق کو اس طرح توڑ موڑ لیتے ہیں کہ وہ اُن کے وسوسوں پر ٹھیک بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح مرزا صاحب بھی ابن مریم اور نبی بننے کے لیے حقائق کو توڑتے موڑتے رہے۔ چنانچہ آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور چونکہ مسیح موعود تو حضرت عیسیٰ ابن مریم ہیں۔ لہٰذا مرزا صاحب نے خود عیسیٰ ابن مریم بننے کے لیے یہ پر لطف تاویل فرمائی:
''اس (یعنی اللّٰہ تعالیٰ)نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصے میں میرا نام مریم رکھا پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے کہ دو برس تک صفتِ مریمیت میں، مَیں نے پرورش پائی ... پھر مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ پر نفخ کی گئی اور استعارے کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر میں براہین احمدیہ کے حصّہ چہارم میں درج ہے، مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اس طور سے عیسیٰ ابن مریم ٹھہرا۔''82
یعنی پہلے آپ مریم بنے پھر خود ہی حاملہ ہوئے، پھر اپنے پیٹ سے آپ عیسیٰ ابن مریم بن کر تولد ہو گئے۔ اس کے بعد یہ مشکل آئی کہ عیسیٰ ابن مریم کا نزول تو احادیث کی رو سے دمشق میں ہوتا تھا جو کہ کئی ہزار برس سے شام کا مشہور ومعروف مقام ہے۔ یہ مشکل ایک دوسری دلچسپ تاویل سے یوں رفع کی گئی ۔ لکھتے ہیں:
'' واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللّٰہ یہ ظاہر کیا گیا کہ اس جگہ ایسے قصبے کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں۔ یہ قصبہ قادیان بہ وجہ اس کے اکثر یزیدی الطبع لوگ اس میں سکونت رکھتے ہیں، دمشق سے ایک مشابہت اور مناسبت رکھتا ہے۔''83
12. خبط عظمت کے اکثر مریضوں کی طرح مرزا صاحب کی شخصیت میں بھی کوئی نمایاں خرابی یا نقص نہ تھا بلکہ ظاہراً آپ بالکل نارمل انسان تھے۔ آپ بھی محض اپنے وسوسوں کی حد تک ابنارمل تھے۔ مزید برآں مرزا صاحب اکثر مریضوں کی طرح کافی ذہین اور اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک تھے چنانچہ آپ نے اپنے خیالات اور نظریات کو نہایت مربوط اور مدلل انداز میں پیش کیا جس کی وجہ سے نہ صرف اُن کے قریبی عزیزوں اور دوستوں بلکہ معاشرے کے بعض دوسرے ذہین افراد نے بھی اُن کے دعوے کی سچائی کو مان لیا۔ ڈاکٹر عبد الحکیم خان 20 برس تک مرزا صاحب کے مرید رہے بعد ازاں توبہ کر لی اور مرزا صاحب کے شدید مخالف بن گئے۔
13. مریض کو عموماً احساس اور اعتراف ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کے نظریات اور خیالات کو درست خیال نہیں کرتے مگر پھر بھی وہ اُن کی واضح تردید سے مطمئن نہیں ہوتا۔ چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
''اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ (مولانا ثناء اللّٰہ امرتسری) اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی۔ اور آخر وہ ذلت اور خسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے۔''84
یعنی مرزا صاحب کو بھی احساس تھا کہ دوسرے لوگ ان کے خیالات کو درست نہیں سمجھتے، مگر مولانا ثناء اللّٰہ اور دوسرے علماے کرام کی واضح تردید سے بھی آپ مطمئن نہ ہوئے بلکہ نبوت کا شوق جاری رکھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مرزا صاحب مذکورہ بالا اشتہار کے ایک سال بعد فوت ہو گئے جبکہ مولانا ثناء اللّٰہ امرتسری چالیس سال تک زندہ رہے۔
14. اگر چہ مرزا صاحب کو کوئی دوسری شدید ذہنی بیماری Psychosis لاحق نہ تھی جس کی وجہ سے وہ ظاہری طور پر نا رمل معلوم ہوتے تھے مگر مرزا صاحب کے صاحبزادے مرزا بشیر احمد نے ان کی بعض خفیف ذہنی بیماریوں Neuroses کا ذکر کیا ہے مثلاً
''مرزا صاحب کو جوانی میں ہسٹریا کی شکایت ہو گئی تھی اور کبھی کبھی اس کا ایسا دورہ پڑتا تھا کہ بے ہوش ہو کر گر جاتے تھے۔''85
''اور پھر ان سب پر مستزاد مالیخولیا اور مراق کاموذی مرض''86
مذکورہ بالا واقعات، حقائق اور دلائل سے یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ خبطِ عظمت کی کم وبیش تمام علامات مرزا صاحب کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود تھیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ مرزا صاحب در اصل شدید ذہنی بیما ری Psychosis، پیرانائےParaniaمیں مبتلا تھے اور ان کا دعویٰ نبوت اسی بیماری کے اثر کا نتیجہ تھا۔
اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کو یہ نفسیاتی بیماری کیوں لاحق ہوئی؟ ہمارے خیال میں اگر پیرانائے کی عام وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ زیادہ تر مریض انہی وجوہات کی بنا پر اس مرض کا شکار ہوتے ہیں:
1. مرزا صاحب کی اس بیمار ی کی تشکیل میں ان کی پیشہ وارانہ اور ازدواجی زندگی کی ناکامیوں نے اہم کردار کیا ہے۔آپ کی ابتدائی زندگی عسرت و غربت سے شروع ہوئی۔ لکھتے ہیں:
''مجھے صرف اپنے دسترخوان اور روٹی کی فکرتھی۔87'' بعد ازاں 68-1864ء میں آپ نے سیالکوٹ کی کچہری میں بطورِ محرر ملازمت کی۔ اس دوران ترقی کے لیے مختاری کا امتحان دیا مگر ناکام رہے۔'' آپ (مرزا صاحب ) نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور قانون کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔ پر امتحان میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ''88
اسی طرح مرزا صاحب کی ازدواجی زندگی میں کچھ زیادہ کامیاب نہ تھی کیونکہ آپ کی قوتِ مردمی کمزور تھی۔ لکھتے ہیں: '' جب میں نے شادی کی تھی تو مدت تک مجھے یقین رہا کہ میں نامرد ہوں۔ آخر میں نے صبر کیا۔''89 ' حالتِ مردمی کالعدم۔''90
پیشہ وارانہ اور ازدواجی ناکامیوں نے مرزا صاحب کی اَنا اور وقار کو سخت مجروح کیا۔ جس سے آپ میں اپنی کوتاہی، کمزوری اور کمتری کا شدید احساس پیدا ہو گیا پھر اس احساس کو مٹانے کے لیے آپ نے اپنے آپ کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
2. اکثر مریضوں کی طرح مرزا صاحب بھی جنسی مسائل (جنسی عدم مطابقت Sexual Maladjustment ) کا شکار تھے کیونکہ آپ جنسی لحاظ سے کمزور تھے اور اس کمزوری کی وجہ سے ازدواجی فرائض بہتر طور پر ادا نہ کر سکتے تھے، جس کی وجہ سے ان میں شدید احساسِ جرم (Guilt)پیدا ہوا اور اس کی تلافی کرنے کے لیے اپنے آپ کو بلند واعلیٰ دکھانا شروع کر دیا۔
3. ممکن ہے کہ فرائڈ کے نظریے کے مطابق مرزا صاحب کے مذہبی خبطِ عظمت کے پیچھے ہم جنسی تمناؤں اور خواہشات کا ہاتھ ہو۔ ممکن اس لیے کہ مریض کو ایسی خواہشات کا احساس اور شعور نہیں ہوتا کیونکہ یہ خواہشات لاشعوری ہوتی ہیں چونکہ یہ خواہشات نہایت غیر اخلاقی اور ناقابل قبول سمجھی جاتی ہیں جو مریض کو پریشان کرتی ہیں، نتیجۃً مریض احساسِ گناہ اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے، پھر اس کی تلافی کرنے کے لیے مرزا صاحب نے اپنے آپ کو بلند و اعلیٰ بنا کر پیش کیا۔ اس طرح اپنے وسوسوں کو ناقابل قبول اور متنفرانہ تمناؤں کے خلاف دفاعی فصیل بنا دیا۔
نوٹ: بلاشبہ مرزا صاحب مختلف موذی امراض میں مبتلا تھے اور یہ انسان کی طبیعت پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ البتہ ان کے دعویٰ مسیحیت ونبوت کے بارے میں دیگر اسباب وعوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں 'الرحیق المختوم' کے نامور مصنف مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کی تصنیف'قادیانیت اپنے آئینے میں'بہت مفید ہے۔ ادارہ محدث
ایسا شخص جس کی زبان پر صرف حق جاری ہوتا ہو، یا وہ کسی شے پر فکر مندی محسوس کرے تو اللہ کی طرف سے اسے رہنمائی حاصل ہو، اسے محدَّث کہتے ہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث 3469 کے تحت شارحِ بخاری شیخ مصطفیٰ البغا نے محدث کی یہی وضاحت کی ہے۔ ادارہ
حوالہ جات1.جامع ترمذی: ۲۲۷۲
2. سنن ابو داؤد:۴۲۵۲
3. حمامۃ البشریٰ از مرزا صاحب،ص ۳۶،ضیاء الاسلام پریس، ربوہ
4. کتاب البریہ:ص181
5. تبلیغ رسالت:2؍44
6. تبلیغ رسالت :2؍122
7. ست بچن: ص 30
8. ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم: ص 112
9. آسمانی فیصلہ: ص 25
10. تبلیغ رسالت: 6؍ 302
11. حقیقۃ الوحی:ص 150
12. دافع البلاء: ص 11
13. تریاق القلوب: ص 130
14. الذکر الحکیم (رسالہ) نمبر 4: ص 25
15. ازالہ اوہام: ص 660
16. آسمانی فیصلہ: 9
17. اربعین ضمیمہ نمبر 4 ص 5
18. ازالہ اوہام:1؍6
19. درّ ثمین:249
20. ضیاء الحق: ص 133
21. اعجاز احمدی: ص 23
22. بحوالہ الہمات مرزا از شیخ الاسلام :ص 122، حاشیہ
23. انجام آتھم: ص 281
24. چشم معرفت: ص 209
25. نزول المسیح: ص 57
26. ''خاکسار پیپرمنٹ''البشریٰ جلد2؍94... انجام آتھم: ص 55
27. البشریٰ :2؍ 112-116
28. تتمہ حقیقۃ الوحی: ص 143
29. براہین احمدیہ
30. براہین احمدیہ: 3؍ 523
31. براہین احمدیہ: 3؍ 557
32. براہین احمدیہ: 3؍ 480
33. تحلیل نفسی از حزب اللہ.... ابنارمل سائیکالوجی اینڈ ماڈرن لائف از کول مین
34. ابنارمل سائیکالوجی اینڈ ماڈرن لائف از کول مین
35. تحلیل نفسی از حزب اللہ
36. سائیکالوجی اینڈ لائف از اُش
37. ابنارمل سائیکالوجی اینڈ ماڈرن لائف از کول مین
38. تحلیل نفسی از حزب اللہ
39. ابنارمل سائیکالوجی اینڈ ماڈرن لائف از کول مین؛ تحلیل نفسی از حزب اللہ
40. ابنارمل سائیکالوجی اینڈ ماڈرن لائف از کول مین
41. براہین احمدیہ:3؍ 238
42. ازالہ اوہام: 421
43. تبلیغ رسالت: 1؍ 15
44. تبلیغ رسالت:2؍ 21
45. ازالہ اوہام: 683
46. دافع البلاء: 10،11
47. ملفوظاتِ احمدیہ: 4؍ 142
48. کشتی نوح: ص 47
49. براہین احمدیہ: 3؍ 238
50. ازالہ اوہام: ص 421
51. تبلیغ رسالت: 1؍ 15
52. اشتہار مرزا صاحب مندرجہ تبلیغ رسالت:2؍ 21
53. ازالہ اوہام: ص 683
54. دافع البلاء: ص 10،11
55. حقیقۃ الوحی: ص 391
56. خط مرزا صاحب مندرجہ اخبار الحکم قادیان: جلد 3، مؤرخہ 17؍ اگست 1899ء
57. مواہب الرحمٰن: ص 43
58. سیرۃ المہدی از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد:1؍ 58
59. سراج منیر: ص 302
60. خط مرزا صاحب مندرجہ اخبار الحکم قادیان جلد3 نمبر 29، مورخہ 17 اگست 1899
61. اربعین نمبر 4: ص 25
62. اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت: ص 82
63. سیرۃ المہدی از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد حصّہ اوّل: ص 29
64.ازالۂ اوہام:ص 261
65. آئینہ کمالات ِاسلام: ص 377
66. سراج منیر: ص 302
67. چشمہ معرفت ضمیمہ:ص 9
68. ایک غلطی کا ازالہ:ص 12
69. اعجاز احمدی:ص 23؛ الہامات از مرزا شیخ الاسلام :ص 122 حاشیہ
70. انجام آتھم از مرزا غلام احمد:ص 281
71. تتمہ حقیقت الوحی: ص 148
72. براہین احمدیہ حصہ پنجم: ص68، 101
73. حقیقۃ الوحی: ص 99
74. خطباتِ الہامیہ
75. تتمہ حقیقۃ الوحی : 137
76. براہین احمدیہ حصہ پنجم
77. تریاق القلوب: 157
78. اربعین حصہ 4 ص 13
79. نزولِ مسیح: ص 209
80. مکتوبات احمدیہ جلد نمبر 5 خط نمبر 4
81. کشتی نوح: ص 87تا 89
82. حاشیہ ازالہ اوہام :ص 63تا 73
83. مرزا صاحب کا اشتہار مؤرخہ 5؍ اپریل 1907ء مندرجہ تبلیغ رسالت :10؍ 120
84. سیرۃ المہدی از بشیر احمد: 1؍ 17
85. سیرۃ المہدی:2؍ 55
86. نزولِ مسیح: ص 118
87. سیرۃ المہدی از بشیر احمد: 1؍ ص 138
88. المکتوب احمدیہ: 5؍ خط نمبر 14
89. نزول ِمسیح: ص209