منشیات کی حرمت ،شراب نوشی کی سزا اوراَحکام

ہمارے معاشرے میں شراب نوشی اور اس کی شرعی سزا کے حوالے سے نت نئے شبہات پیدا کئے جاتے رہتے ہیں کہ یہ سزاقرآنِ کریم میں موجودنہیں، کبھی اس سزا کی شرعی حد ہونے اور اس میں کوڑوں کی تعداد پر اعتراض عائد کردیا جاتا ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے ایک انتہائی مفید بحث ، جس کو جامعہ لاہور الاسلامیہ میں مجھے سبقاً سبقاً پڑھانے کا موقع ملا، کا اُردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ اس تحقیق میں احادیث سے براہِ راست استدلال کے ذریعے بڑے مؤثر انداز میں شراب نوشی کی حُرمت اور دیگر منشیات کے اَحکام بیان کردیے گئے ہیں۔ یہ بحث عرب علما کے خاص علم و استدلال کی مظہر اور اُردو زبان میں اپنی نوعیت کی منفرد تحقیق ہے۔اس بحث کو 'صحیح فقہ السنہ وادلتہ وتوضیح مذاہب الائمہ'سے اخذ کیا گیاہے۔ یہ کتاب فقہی مذاہب کے مطالعے اور اُن کے موقف کو جاننے کے لیے،نیز راجح موقف کے تعین پر ایک مفید ترین تصنیف ہے، جو حال ہی میں ایک مصری عالم نے تالیف کی ہے۔ کتابِِ مذکور میں سلفی علما مثلاً شیخ البانی، شیخ ابن باز اور ابن عثیمین کے بہت سے فتاویٰ و استدلال کو بھی یکجا کردیا گیا ہے،نیز فقہی مواقف پر احادیث سے استدلال کرتے ہوئے ان کی صحت وضعف کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ ح م

'خمر' کا مفہوم ومصداق

'شراب' کے لئے عربی زبان میں لفظ خمَر استعمال ہوتا ہے، اس کی جمع 'خمور'آتی ہے اور خمر کے لغوی معنیٰ ہے :'ڈھانپنا'

خمر کا لفظ تانیث میں زیادہ مستعمل و مشہور ہے، اسی وجہ سے اس کے آخر میں تائے تانیث بھی آتی ہے جیسے : هٰذه خمرة. جب کہ مذکر استعمال بھی جائز ہے جیسے: هٰذا خمر.

خمر کی لغوی تحقیق

'القاموس المحیط ' کےمصنف جناب فیروز آبادی (م۸۱۷ھ)کاکہنا ہے :

''خمر'وہ ہے جو انگوروں کے رَس سے کشید کی جائے، یا یہ عام (جو کسی بھی پھل سے بنائی جائے)ہے، حقیقت میں اسے عموم پر رکھنا ہی زیادہ راجح ہے ،کیونکہ جب یہ حرام ہوئی تو مدینہ میں انگوروں سے شراب کا تصور نہیں تھا بلکہ وہ تو کچی پکی کھجوروں سے ہی شراب بناتے تھے۔''1

خمر کے لغوی اور شرعی معنیٰ میں مناسبت

1. شراب پر لفظ 'خمر' کا اطلاق اس وجہ سے ہے کہ شراب کشیدکرنے کے لئے برتن کے منہ کو اوپر سے ڈھانپا جاتا ہے، حتیٰ کہ اس میں اُبال اور جوش کی کیفیت پیدا ہوجائے۔

2. عقل پرچھا جانےاور شعورکو ڈھانپ دینے کی وجہ سے یہ لفظ اس کےلئے مستعمل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ خمر میں یہ دونوں سبب موجود ہیں۔ شراب کو جوش مارنے اور تیار ہونے تک ڈھانپ کر رکھا جاتا ہے، پھر اس کو پینے پر عقل و شعور میں اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے او ریہ عقل کوڈھانپ دیتی ہے۔لہٰذاخمر کو ان دونوں معانی میں استعمال کرنے پر اہل لغت کے ہاں کوئی مانع نہیں۔

'خمر' کی شرعی حقیقت

خمر کے لغوی معنی اور شرعی استعمال میں کچھ اختلاف کی بنا پر فقہا کے درمیان خمر کی حقیقت میں دو اقوال پائے جاتے ہیں۔2

پہلا قول : 'خمر' صرف وہ ہے جو آگ پر پکائے بغیر انگوروں کے رس سے کشید کی جائے ، جب وہ طبعی حرارت سے اُبلنے اور جوش مارنے لگے اور اس کے اوپر جھاگ آجائے۔ یہ امام ابوحنیفہ (م۱۵۰ھ) اور بعض شافعی فقہا﷭ کا موقف ہے۔

دوسرا قول : ہر نشہ آور مشروب کو 'خمر' کہتے ہیں، خواہ وہ انگوروں کے رس یا خشک انگور کو پانی میں بھگو کر بنائی جائے۔ اسے آگ پر پکایا جائے یا بغیر آگ کے اس میں نشہ پیدا ہوجائے۔یہ جمہور علما کا موقف ہے۔

درحقیقت خمر کی تعریف و اطلاق میں فقہا کے مابین اس اختلاف کو رسول اکرم ﷺ نے جامع تعریف کرکے ہمیں تکلف اور لاحاصل اختلاف سے بے نیاز کردیا ہے۔سیدنا عبداللّٰہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا :

«كل مُسكِر خمرو كل مسكر حرام»3

''ہر نشہ آور چیز'خمر' ہے او رہر نشہ آور چیز حرام ہے۔''

سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں :

''دو طرح کے مشروب جو ہم یمن میں استعمال کرتے تھے: ایک البِـتْعجو شہد سے بنتا ہے حتیٰ کہ ا س میں جوش پیدا ہوجاتا ہے اور دوسرا المِزْر جو مکئی اور جَو کو پانی میں بھگو کر تیار ہوتا تھا حتیٰ کہ اس میں نشہ پیدا ہوجاتا ، اِن کے متعلق میں نے رسول اکرمﷺ سے استفسار کیا تو (جوامع الکلم سے متصف) پیغمبرﷺ نے ارشاد فرمایا: «كل مُسكر حرام» 4'' ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔''

فصاحت و بلاغت سے متصف رسول نے اس تعریف کے ذریعے ہر نشہ آور چیز کو 'خمر' کانام دیا ہے ۔ لہٰذا مسکرات کی بعض انواع کو خمر کا نام دے کر دیگر(انواع) کو اس سے خارج کردینا غلط فہمی اور ایک عام لفظ کو بلا دلیل خاص کردینا ہے۔ مزید برآں اس مسئلہ میں وارد احادیث بھی اس موقف کو باطل کردیتی ہیں کہ خمر صرف انگوروں سے بنائی ہوئی شراب کے ساتھ خاص ہے۔ ان احادیث میں سے چند ایک ملاحظہ ہوں:

1. حضرت انس بیان فرماتے ہیں کہ

إِنَّ الْخَمْرَ حُرِّمَتْ، وَالْخَمْرُ يَوْمَئِذٍ الْبُسْرُ وَالتَّمْر5

''شراب حرام ہوئی تو ان دنوں کچی پکی کھجوروں سے ہی شراب بنائی جاتی تھی۔''

2. حضرت انس ؓ سے ہی روایت ہے کہ

لَقَدْ أَنْزَلَ الله الآيَةَ الَّتِى حَرَّمَ الله فِيهَا الْخَمْرَ وَمَا بِالْمَدِينَةِ شَرَابٌ يُشْرَبُ إِلاَّ مِنْ تَمْرٍ6

'' جب اللّٰہ تعالیٰ نے تحریم خمر کی آیت نازل فرمائی تو اس وقت مدینہ میں کھجوروں کی شراب ہی نوش کی جاتی تھی۔''

ایک روایت کے الفاظ ہیں:

وَمَا نَجِدُ - يَعْنِى بِالْمَدِينَةِ - خَمْرَ الأَعْنَابِ إِلاَّ قَلِيلاً، وَعَامَّةُ خَمْرِنَا الْبُسْرُ وَالتَّمْر7

''ہمارے پاس مدینے میں انگوروں کی شراب بہت کم تھی ،بلکہ عام طور پر ہمارے ہاں کچی پکی کھجوروں سے ہی شراب بنتی تھی۔''

3. حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ

نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ وَإِنَّ فِى الْمَدِينَةِ يَوْمَئِذٍ لَخَمْسَةَ أَشْرِبَةٍ، مَا فِيهَا شَرَابُ الْعِنَبِ8

''جب شراب حرام ہوئی تواس وقت مدینہ میں پانچ قسم کی شراب تیار ہوتی تھی، اور اُن میں انگوروں کی شراب نہیں تھی۔''

4. حضرت نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''گندم، جَو، خشک انگور، کھجور اور شہد ، ان میں سے ہر ایک سے شراب بنتی ہے۔''9

5. عبداللّٰہ بن عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ ''حضرت عمر نے منبر پر کھڑے ہوکر فرمایا:

أَمَّا بَعْدُ نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ وَهْىَ مِنْ خَمْسَةٍ: الْعِنَبِ وَالتَّمْرِ وَالْعَسَلِ وَالْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ، وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ الْعَقْل10

'' شراب حرام ہوچکی اور وہ پانچ اشیا سے تیار ہوتی ہے: انگور، کھجور، شہد، گندم اور جَو۔ لہٰذا ہر وہ چیز خمر ہے جو عقل پر پردہ ڈال دے۔''

مندرجہ بالا احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ انگوروں کے علاوہ دیگر اشیا پر بھی 'خمر' کا اطلاق باعتبارِ لغت صحیح ہے۔ قرآن میں'خمر' کی تحریم سے صحابہ کرام نے یہی سمجھا ہے، اس لئے انگوروں کے علاوہ دیگر اشیا سے تیار کردہ شراب کو'خمر' کے حکم میں قیاساً داخل کرنا محض تکلف ہے، جب کہ قیاس خود ايك مختلف فیہ امر ہے، البتہ قیاس کو اضافی دلیل کے طور پر یہاں لیا جاسکتا ہے۔ پھریہ تو قیاسِ جلی ہے جو قیاس کی اعلیٰ و ارفع قسم ہے یعنی یہاں ارکانِ قیاس میں سے فرع تمام اوصاف میں اصل کے مساوی ہے۔

یہاں یہ امرباعثِ تعجب ہے کہ امام ابوحنیفہ او ران کے اصحاب عام طور پر قیاس کو لینے اور اخبارِ آحاد پر ترجیح دینے میں انتہائی حد تک چلے جاتے ہیں، جب کہ یہاں وہ قیاسِ جلی کو لینے سے احتراز برتتے نظر آتے ہیں جس کی تائید کتاب و سنت کی نصوص سے ہورہی ہے۔11

شراب نوشی حرام ہے، چاہے کم ہو یا زیادہ

شارع نے ایک قطرہ شراب بھی حرام قرار دیا ہے، اگرچہ اس سے کوئی زیادہ فساد ظاہر نہیں ہوتا،لیکن یہ زیادہ پینے کا ذریعہ بن سکتی ہے، لہٰذا یہ سدذریعہ کے طور پر حرام ہے۔12

حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ سے روایت ہےکہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:

«كل مُسكر حرام، وما أسكر كثيره فقليله حرام»13

''ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جو چیز زیادہ مقدار میں نشہ پیداکرے، اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔''

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :

«كلّ مُسكر حرام، وما أسكر الفرق منه فملء الكف منه حرام»14

''ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جس چیزکا ایک 'فرق15 ' نشہ پیداکرے،اس کا چُلّو بھر بھی حرام ہے۔''

چرس، افیون اور دیگر منشیات حرام ہیں، شراب کی طرح ا ن میں بھی حدّ لگے گی:

حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

«كل مسكر خمر وکل مسكر حرام»16

''ہرنشہ آور چیزخمر ہے او رہر نشہ آور چیز حرام ہے۔''

یہ حیثیت ہر نشہ آور چیز کو شامل ہے،چاہے وہ نشہ آور کھانے کی چیز ہو یا پینے کی ، جامد ہو یا مائع ، اگر وہ شراب کی تاثیر رکھتی ہے تو حرام ہے، اگر کو ئی حشیش ،چرس وغیرہ کو مائع شکل میں ڈھال کر پی لے تو وہ بھی حرام ہوگا۔ نبی اکرمﷺ جو امع الکلم سے متصف تھے۔ آپ ایسا جامع لفظ بولتے جو استعمال کے اعتبار سے عام او راپنے مفہوم میں شامل تمام اشیا پر مشتمل ہوتا، چاہے وہ آپ کے زمانہ میں موجود ہوں یانہ ہوں۔17

صحابہ کرام (جو کہ آپﷺ کی صحبت میں کسبِ علم و فیض کرتے رہے اور آپﷺ کی حدیث کو اُن سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا) اُن کا بھی یہی کہنا ہے :

«الخمر ما خامر العقل» 18یعنی شراب وہ ہے جو عقل کوڈھانپ دے۔''

مزید برآں عقل صحیح اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ فرضِ مُحال آپ ﷺ کے الفاظ ہر نشہ آور چیز کو خمر کا نام دینے میں شامل نہ بھی ہوں، تاہم قیاسِ صحیح و صریح جس میں اصل وفرع ہر اعتبار سے برابر ہوں، تو اس کا فیصلہ یہی درست ہے کہ مُسکر کی تمام انواع و اقسام ایک ہی حکم میں داخل ہیں۔لہٰذا ان انواع میں فرق کرنا متماثلَین کے درمیان فرق کرنے کے قبیل سے ہوگا اور یہ عقل و قیاس صحیح کے خلاف ہے۔19

اس بنا پر منشیات کی تمام اقسام (چرس، افیون، ہیروئن وغیرہ) حرام ہیں او ران پر خمر (شراب) کا نام صادق آتا ہے کیونکہ یہ نشہ آور ہیں اور عقل ماؤف کردیتی ہیں۔فاسق و فاجر لوگ سرور ومستی کی کیفیت طاری کرنے کیلئے اُنہیں لیتے ہیں او ریہی اوصاف شراب میں پائے جاتے ہیں۔

مذاہب اربعہ اور دیگر فقہا نے بالاتفاق ان کے حرام ہونے کی صراحت کی ہے ۔ 20لیکن ان کے خیال میں اس کے قلیل استعمال (جس میں نشہ نہ ہو) میں حرمت نہیں بلکہ نشہ آور مقدار کا استعمال حرام ہے۔حالانکہ تحقیق اس بات کی متقاضی ہے کہ ان منشیات کے حرام ہونے پر اتفاق کے بعد، نصوصِ کتاب و سنت کے تحت اُن پر'خمر' کا اطلاق ہوتا ہے۔ اِن کو خمر سے الگ حکم دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ اِن میں شراب کے مفاسد جیسا کہ عقل میں فساد، بے ہودگی اور سرور و بدمستی کے علاوہ دین، عقل، اخلاق اور مزاج میں ضرَر واضح نظر آتا ہے ،بلکہ یہ انسان کی طبیعت و مزاج کو پاگل پن کی حد تک متاثر کرتے ہیں او ر ان کو استعمال کرنے والا گراوٹ و پستی اور ذلّت میں شراب نوشی کرنےوالےسے بھی نیچےجاگرتا ہے، چونکہ ان کے مفاسد و اَضرار شراب سے بڑھ کر ہیں ،لہٰذا یہ بالاولیٰ حرام ہیں او ران کو 'خمر' کا نام دینا بالکل صحیح ہے، اور ان کی قلیل مقدار بھی کثیر کی طرح حرام ہی ہے او ران کے استعمال کرنے والے کو حد خمر لگے گی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ (م۷۲۸ھ) کا کہنا ہے :

''شریعت کا قاعدہ ہے کہ وہ حرام اشیا جن میں انسانی نفوس رغبت رکھتے ہیں، ان کے ارتکاب پر حد لازم ہے جیسا کہ شراب اور زنا اور جس میں رغبت نہیں جیسا کہ مردار کا استعمال تھا، اس میں تعزیر ہے ۔ چرس اور افیون ان اشیا سے تعلق رکھتی ہیں جن میں ان کے استعمال کرنے والے رغبت اور خواہش رکھتے ہیں اور اسے چھوڑ نہیں سکتے تو اس کے استعمال پر بھی حد لگے گی ۔ برخلاف بھنگ وغیرہ کے جو کہ بغیر نشہ کے عقل کو فاسد کرتے ہیں اور لوگوں کو اس میں خواہش اور رغبت نہیں ہوتی تو اس کے استعمال پر تعزیر ہے۔''21

شراب نوشی کی سزا

اکثر اہل علم کا یہ موقف ہے بلکہ اس پر کئی علما نے اجماع نقل کیا ہے کہ شریعت میں شربِِ خمر پر حد کی صورت میں معین سزا موجود ہے۔22 شراب نوشی کے بارے میں بہت سی احادیث اور صحابہ کرام کا اجماع موجود ہے کہ اس پر کوڑوں کی سزا ہوگی۔ البتہ کوڑوں کی مقدار میں دو اقوال موجود ہیں:23

پہلا قول

حد کی مقدار 40 کوڑے ہیں۔ یہ امام شافعی(م۲۰۴ھ)، امام احمد(م۲۴۱ھ)﷭ سے ایک روایت ، داؤد(م۲۷۰ھ)، ابن حزم (م۴۵۶ھ)کا موقف ہے۔ صحابہ کرام کی ایک جماعت کا بھی یہی موقف رہا ہے۔

اس موقف کے دلائل درج ذیل ہیں:

عن أَنَسٍ أَنَّ النَّبِىَّ ﷺ كَانَ يَضْرِبُ فِى الْخَمْرِ بِالنِّعَالِ وَالْجَرِيدِ أَرْبَعِينَ24

1. حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ شراب پینے پر جوتوں اور چھڑیوں کی چالیس ضربیں لگوایا کرتے تھے۔

2. حضرت عثمان نے ولید بن عقبہ پر شراب نوشی کے مقدمہ میں حضرت علیؓ کو کوڑوں کے ساتھ سزا کی تنفیذ کا حکم دیا۔ حضرت علی نے جعفر سے کوڑے مارنے کو کہا، جب چالیس کوڑے ہوئے تو رکنے کا کہا اورکہنے لگے کہ رسول اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق نے چالیس کوڑے لگوائے، حضرت عمر نے اَسّی (80) کوڑے لگوائے۔ یہ سب سنت ہے لیکن چالیس کا موقف مجھے پسند ہے۔25

3. حضرت سائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمرکے ابتدائی دور میں اگر ہمارے پاس شراب نوش کو لایا جاتا تو ہم اسے اپنے ہاتھوں، جوتوں اور چادروں وغیرہ سے پیٹتے۔ یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کا دور آیا تو اُنہوں نےچالیس کوڑے لگانے شروع کردیئے۔ حتیٰ کہ لوگ فسق و فجور اور شراب نوشی ارتکاب زیادہ کرنے لگے تو حضرت عمر نے اَسّی (80) کوڑے مقرر کردیئے۔26

ان روایات سے یہ استدلال واضح ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی ادوار میں چالیس کا عدد ہی مقرر تھا اور جب لوگ شراب کے عادی ہونے لگے تو حضرت عمر نے چالیس کوڑوں کا تعزیراً اضافہ کردیا۔

اسی لئے حضرت علی کا قول ہے کہ ''اگر میرے حد قائم کرنے سے کوئی فوت ہوجائے تو مجھے کوئی پروا نہیں سوائے شرابی کے، کہ اگر وہ حد کے نفاذ سے ہلاک ہوجائے تو میں اس کی دیت ادا کروں گا کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے اس کی اس طرح حد مقرر نہیں فرمائی۔''27

حضرت علی کا مقصد یہ تھاکہ آپﷺ نے اپنے فرمان سے شراب نوش کے لئے کوئی سزا مقرر نہیں کی کہ جس پر اضافہ نہ کیا جاسکے، اسی لئے حضرت عمر نے دیگر صحابہ کرام کی مشاورت سے اضافہ کردیا او ریہ اضافی عقوبت بطورِ تعزیر تھی، اسی لئے حضرت علی نے اپنی خلافت میں چالیس کوڑے ہی لگائے اور کہا کہ یہ موقف مجھے پسند ہے۔

دوسراقول

حدِ شراب اَسّی (80) کوڑے ہیں۔یہ جمہور کا موقف ہے، ائمہ ثلاثہ (ابوحنیفہ، مالک، احمد﷭) اسی کے قائل ہیں۔ شافعیہ کے ہاں بھی یہی موقف پایا جاتا ہے۔

اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:

1. ایک روایت میں رسول اکرمﷺ کی طرف سے حد خمر میں اَسّی کوڑوں کا ذکر ملتا ہے۔28

2. حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ کےپاس ایک آدمی کو لایا گیاجس نے شراب پی تھی، آپ نے اسے کھجور کی دو ٹہنیوں کے ساتھ چالیس کوڑےلگوائے۔ حضرت ابوبکر نے بھی ایسا ہی کیا، حضرت عمر کا زمانہ آیا تو اُنہوں نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا کہ کم از کم حد 80 کوڑے (حد قذف) ہے۔ حضرت عمر نے اسی کا حکم دے دیا۔29

اس موقف کے حاملین کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام اس پر متفق ہوگئے اور یہ اجماع ہے۔

3. حضرت علی سے مروی ہے کہ اُنہوں نے کہا کہ جب کوئی نشہ کرتا ہے تو فضول بکتا ہے اور فضول بکواس میں لوگوں پر الزام لگاتا ہے او رالزام لگانے والے کی سزا اَسّی (80)کوڑے ہے۔30

لیکن یہ حضرت علی سے صحیح ثابت نہیں بلکہ پہلے یہ بات ثابت ہوچکی کہ حضرت علی کا موقف چالیس کا تھا۔

راجح موقف

دلائل کو دیکھتے ہوئے بطورِ حد چالیس کوڑوں کا قول راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ رسول اکرمﷺ، حضرت ابوبکر اور خلافت کے ابتدائی زمانے میں حضرت عمر کا یہی فعل رہا۔ حضرت عمر نے صحابہ کرام کےمشورے سے جو اضافہ کیا، وہ حد سے زائد مقدار تعزیر کے طور پر تھی کیونکہ لوگوں میں شراب نوشی کی عادت بڑھتی جارہی تھی۔

اس موقف کی تائید دو طرح سے ہوتی ہے:

1. حضرت عمر نے کوڑوں کی سزا میں بتدریج چالیس سے ساٹھ اور ساٹھ سے اَسّی کا اضافہ کیا۔ حضرت عمر کے فعل سے متعلق یہ روایت موجود ہےکہ پہلے اُنہوں نے چالیس کوڑوں کی سزا دی، پھر جب لوگوں کو دیکھا کہ باز نہیں آرہے تو اُسے ساٹھ کردیا۔پھر بھی لوگوں کے معمول میں کمی نہ آئی تو اسےبڑھا کر اَسّی (80)کردیا اور کہا کہ یہ کم از کم حد (حد قذف) ہے ۔31

2. حضرت عمر ایک ہی وقت میں مصلحت کے تحت مختلف مقدار میں(شراب پینے کی) سزا (چالیس ،ساٹھ یا اَسّی) دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے پاس ایک شرابی کو لایا گیا، آپ نے حضرت مطیع بن اسود کو حکم دیا کہ صبح اس پر حد نافذ کرنا، حضرت عمر بعد میں آئے اور دیکھا کہ وہ بہت زور سے کوڑے مار رہے تھے۔ آپ نےپوچھا :

3. کتنے کوڑے مار جاچکے ہیں؟مطیع نے کہا: ساٹھ۔ حضرت عمر نے کہا کہ اس سے بیس کوڑے کم کردو۔32

امام ابوعبید(م۲۲۴ھ) فرماتے ہیں: ''حضرت عمر کا مقصد تھا کہ شدید ضرب کو ان بیس کے قائم مقام سمجھو کہ جو اس کی سزا سے باقی ہیں۔''33

امام بیہقی﷫(م۴۵۸ھ) کا کہنا ہے کہ ''اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چالیس سے زیادہ حد نہیں، اس لئے کہ اگر وہ حد ہوتی تو شدتِ ضرب کی وجہ سے اس میں کمی نہ کی جاتی کیونکہ ضرب میں شدت کی وجہ سے عدد میں کمی کا کوئی قائل نہیں ہے۔''

اَسّی (80) کوڑے حد ہونے کے قائلین نے حضرت عمرؓ کی صحابہ کرام سے مشاورت کے بعد جو اجماعِ صحابہ کا دعویٰ کیا ہے، اس پر یہ اعتراض آتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ چالیس کے قائل تھے، پھر اجماع کا دعویٰ کیسا...؟

حاصل کلام یہی ہے کہ حد چالیس ہی ہے ،تاہم قاضی مصلحت اور لوگوں کے احوال کو دیکھتے ہوئے بطورِ تعزیر اس میں اضافہ کرسکتا ہے۔

حد خمر نافذ کرنے کا طریقہ

شراب نوشی کے حالات اور مصلحت کو دیکھتے ہوئے شراب نوش کو کھجور کی ٹہنی، ہاتھوں ، جوتوں ، کپڑوں اور کوڑوں سے حد لگائی جاسکتی ہے۔اس پر سائب بن یزید کے الفاظ دلیل ہیں:

'' ہم شراب پینے والےکو اپنے ہاتھوں، جوتوں او رچادروں سے مارتے۔''34

حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے شراب پینے میں کھجوروں کی ٹہنیوں اور جوتوں سے ضرب لگائی۔35

یہ امام شافعی﷫اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ کا موقف ہے ۔جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ باقی حدود کی طرح شراب کی حد بھی کوڑوں سے لگائی جائے گی36۔ کیونکہ ایک حدیث میں ہے:

«إذا شرب الخمر فاجلدوه»37 ''اگر کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ۔''

جمہور کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ نے شراب نوش کو کوڑے مارنے کا حکم دیا ،جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے زانی کو حد لگانے کا حکم دیا ہے تو حدِ زنا کی طرح یہ سزا کوڑوں سے ہی ہوگی اور اس پر یہ بھی دلیل ہے کہ خلفاے راشدین اور اُن کے بعد آنے والوں نے بھی کوڑوں سے ہی حد لگائی ہے۔ جن احادیث میں ہاتھوں اور جوتوں وغیرہ سے مارنے کا ذکر ہے، وہ شروع اسلام کی بات ہے ،بعد میں کوڑوں سے سزا دینے پر شرع ثابت ہوگئی۔یہی موقف قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم

حد لگاتے وقت شرابی پر لعن طعن کرنا جائز نہیں

حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کے دور میں عبداللّٰہ نامی ایک شخص جس کالقب 'حمار' تھا، وہ آپؐ کوباتیں سنا کر ہنسایا کرتا تھا۔ شراب نوشی کی وجہ سے آپﷺ نے اسے کوڑے لگائے، اسےدوبارہ لایا گیا پھر آپﷺ نے سزا دی، ایک آدمی کہنے لگا: اللّٰہ اس پر لعنت کرے، اسے کس قدر بار بار لایا گیا ہے۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اس پر لعنت نہ کرو، اللّٰہ کی قسم میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہے۔38

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہےکہ نشے میں مبتلا ایک شخص کو رسول اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ نے اسے سزا دینے کا حکم دیا۔ ہم میں سے کوئی اپنے ہاتھوں سے، کوئی اپنے جوتوں سے اور کوئی اپنے کپڑے سے اسے مارنے لگا۔ ایک آدمی نے کہا : کیا ہے اسے؟ اللّٰہ اسے رسوا کرے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بنو۔''39

تین یا اس سے زیادہ دفعہ حد لگنے کے بعد شرابی کا حکم

جسے شراب نوشی کی وجہ سے تین دفعہ حد لگے، پھر چوتھی مرتبہ شراب نوشی کی وجہ سے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ بعض احادیث میں اسے قتل کرنے کا تذکرہ ملتا ہے:

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

‏''جو شراب پیئے اسے کوڑے لگاؤ، دوبارہ پیئے پھر اسے کوڑے مارو، تیسری دفعہ پینے پربھی اسے کوڑے مارو پھر اگر چوتھی مرتبہ پیئے تو اسے قتل کردو۔''40

اس قسم کی روایات حضرت ابن عمر ، حضرت معاویہ اور دیگر صحابہ کرام سے بھی مروی ہیں۔ ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے علماے کرام نےدو قسم کے موقف اپنائے ہیں جن سے تین اقوال تشکیل پاتے ہیں۔

پہلی رائے

شرابی کو چوتھی دفعہ ( شراب پینے پر ) قتل کرنے کی احادیث منسوخ ہیں او ران کے خلاف اجماع منعقد ہوچکا ہے۔ یہ ائمہ اربعہ کی رائے ہے۔امام ترمذی﷫(م۲۷۹ھ) کتاب العلل میں فرماتے ہیں:

'' اس کتاب کی تمام احادیث معلول ہیں لیکن بعض علما نے اُنہیں قبول کیا ہے، سوائے دو احادیث کے، ان میں سے ایک شرابی کو قتل کرنے کی حدیث ہے۔''41

جمہور کے ہاں ان احادیث کے نسخ کے دلائل درج ذیل ہیں:

1. حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

''جو شراب پیئے اسے کوڑے مارو، پھر دوبارہ پیئے تو اسےکوڑے مارو، اس کے بعد پھر پیئے تو اسےکوڑے مارو ،اس کےبعد اگر پیئے تو اسے کوڑے مارو۔''

ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ کوڑے ہی سزا ہے، قتل نہیں ہے۔

ایک روایت میں ہے :

''مسلمانوں نے اس سے جان لیاکہ کوڑوں سے حد ثابت ہے اور قتل کرنا ختم کردیا گیا ہے۔''42

2. حضرت قبیصہ بن ذویب سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

''جو کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے مارو، یہاں تک کہ آپ نےفرمایا، پھر اگر چوتھی مرتبہ پیئے تو اسے قتل کرو۔ حضرت قبیصہ کا کہنا ہے کہ آپ کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا جس نے شراب پی تھی تو آپ نے اسے کوڑے مارے، پھر لایا گیا پھر آپ نے اسے کوڑے مارے، پھر لایا گیا پھر اسےکوڑے مارے، پھر اسے چوتھی مرتبہ لایا گیا تو بھی آپ نے اسےکوڑے ہی مارے۔ اس طرح لوگوں سے قتل کی سزا ختم کردی گئی او ریہ رخصت تھی۔''43

3. حضرت عمر کی روایت اس آدمی کو کوڑے مارنے کےواقعہ میں جس نے شراب پی تھی۔ اس کا لقب 'حمار' تھا۔ اس حدیث کے آخر میں ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اللّٰہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے، اسے کتنی مرتبہ لایا گیا ہے ۔رسول اکرم ﷺ نےفرمایا: اس پر لعنت مت کرو، واللّٰہ !مجھے تو یہ صرف یہ پتہ ہےکہ وہ اللّٰہ اور اس کے رسولؐ سےمحبت کرتا ہے۔44

حافظ ابن حجر﷫(م۸۵۲ھ) کاکہنا ہے کہ ''اس حدیث میں شرابی کو قتل کرنے والی حدیث کے نسخ پر دلیل موجود ہے کہ اگر چوتھی یا پانچویں مرتبہ بھی پیئے تو بھی اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ ابن عبدالبر(م۴۶۳ھ) کا کہنا ہےکہ اسے پچاس مرتبہ سے زیادہ آپ کے پاس لایا گیا۔''45

4.  عَنْ عَبْدِ الله قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ: « لاَ يَحِلُّ دَمُ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّى رَسُولُ اللهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلاَثٍ الثَّيِّبُ الزَّانِى وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْـمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ ».46

''حضرت عبداللّٰہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جومسلمان اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللّٰہ کا رسول ہوں،اس کا خون حلال نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ تین باتوں میں سے کسی ایک کا مرتکب ہو :شادی شدہ ہوکر زناکرے ،جان کے بدلے جان اور جودین(اسلام) چھوڑ دے اور جماعت(ملت اسلام) سے الگ ہو جائے۔''

اس حدیث کے عموم میں شرابی بھی داخل ہے کہ اسکا خون بہانا بھی حلال نہیں کیونکہ جن کا خون بہانا جائز ہے، ان میں سے شارب خمر نہیں ہے۔ اس استدلال پر اعتراض یہ ہے کہ اس حدیث سے نسخ کا دعویٰ صحیح نہیں کیونکہ یہ عام ہے اور شرابی کو قتل کرنے کی حدیث خاص ہے۔

5. قتل کے منسوخ ہونے پر جمہور نے اجماع کو بھی دلیل بنایا ہے کہ قتل کے خلاف اجماع ہوچکا ہے ، قتل نہ کرنے پر دلیل حدیث جابر کے بعد امام شافعی﷫ نے کہا: ''میرے علم کی حد تک شرابی کو قتل نہ کرنے میں علما کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔'' امام ترمذی﷫ نے کہا ہے کہ ''اس مسئلہ میں قدیم یا حالیہ کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔''

شرابی کے قتل سے متعلق دوسری رائے

شرابی کے قتل سے متعلق احادیث محکم ہیں، منسوخ نہیں۔ امام ابن حزم او رابن قیم﷭ کا یہی نظریہ ہے۔ اس اُصول کی حد تک دونوں میں اتفاق ہے، البتہ نتیجہ میں اختلاف کرتے ہیں۔ امام ابن حزم﷫ کا موقف ہے کہ اسے چوتھی مرتبہ بطورِ حد قتل کیا جائے گا جبکہ ابن قیم﷫(م۷۵۱ھ) کی راےہے کہ ''اگر اسے چوتھی مرتبہ قتل کرنے میں مصلحت ہو تو تعزیراً قتل کیا جاسکتا ہے۔اگر وہ(شراب نوش) شراب پینے کا عادی ہوجائے، حد کو ہلکا سمجھنے لگے اور حدسے اسے کوئی عبرت حاصل نہ ہو تو قاضی اسے حد کے طور پر نہیں بلکہ من باب التعزیر قتل کرسکتا ہے۔''

ابن حزم او رابن قیم﷭ نے جمہور کی طرف سے چوتھی مرتبہ شراب پینے پر قتل کے نسخ اور اس پر اجماع کے دعویٰ کامناقشہ؍ تجزیہ مندرجہ ذیل طریقے سے کیا ہے:

1. امام ابن حزم نے ان احادیث کو ضعیف قرا ردیا ہے جن میں قتل نہ کرنے کا ذکرہے۔

2. اس آدمی کوبار بار کوڑے لگنے کی حدیث جس کا لقب حمار تھا، اگرچہ اس مفہوم میں خاص ہے لیکن اس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس حدیث کا قتل والی حدیث سے متاخر ثابت کرنا ضروری ہے او ریہ ثابت نہیں ہے۔

3. اس عام حدیث جس میں صرف تین وجوہات سے مسلمان کے قتل کا جواز ملتا ہے، اس سے نسخ کا دعویٰ صحیح نہیں کیونکہ یہ عام ہے اور قتل کی سزا پر مشتمل حدیث خاص ہے اور خاص کو عام پر مقدم رکھا جاتا ہے۔

4. اجماعِ صحابہ کا دعویٰ حضرت عبداللّٰہ بن عمرو بن عاص کے اس قول سے ختم ہوجاتا ہے جو اُنہوں نے کہا تھا کہ اسے (شرابی کو) میرے پاس چوتھی مرتبہ لاؤ، میں اسے قتل کروں گا۔47

راجح موقف

جمہور علما کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے کہ شرابی کو چوتھی مرتبہ قتل کرنامنسوخ ہوچکا ہے کیونکہ اس پرنصوص موجود ہیں او راجماع بھی ثابت ہے۔ نقضِ اجماع کے دعویٰ میں حضرت عبداللّٰہ بن عمرو کا قول ثابت نہیں بلکہ وہ سنداً ضعیف ہے۔بفرضِ محال اسے صحیح مانیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اُنہیں نسخ والی احادیث نہ پہنچی ہوں او راس مخالفت کو شذوذ کی حیثیت حاصل ہوگی۔48

لیکن اگر لوگ شراب کے رسیا ہوجائیں اور اس قبیح عادت میں غرق ہو جائیں، حدّ(کا نفاذ) ان کے لئے مانع ثابت نہ ہو تو کیا قاضی مصلحت اور سیاست کو مدِ نظر رکھتے ہوےانہیں قتل کی سزا دےسکتا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ امام ابن تیمیہ او رابن قیم﷭ مصلحتاً قتل (کی سزا )کے قائل ہیں۔ دراصل یہ نظر و فکر او راجتہاد کا مقام ہے۔واللّٰہ اعلم!

حدِ خمر کے ثبوت کے ذرائع49

1۔ اقرار

شرابی ایک دفعہ بھی شراب پینے کا اعتراف کرلے تو حد خمر ثابت ہوجائے گی، اس اعتراف کے ساتھ منہ سے شراب کی بدبو کا آنا شرط نہیں ہے۔ اکثر اہل علم کا یہی موقف ہے کیونکہ شراب نوش بدبو زائل ہونے کے بعد بھی اعتراف کرسکتا ہے۔

جبکہ امام ابوحنیفہ﷫اعتراف کے ساتھ منہ سے بدبو آنے کی شرط لگاتے ہیں۔

2۔ گواہ

دو مسلمان گواہی دیں کہ اس نے نشہ آور مشروب استعمال کیا ہے، شراب کی نوعیت پر تفصیل فراہم کرنا گواہوں پر لازم نہیں، یہ ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ اس نے اپنے اختیار سے شراب پی ہے یا اس پر جبر ہوا ہے، نہ ہی اس تفصیل میں پڑنے کی ضرورت ہے کہ اسے اس کے نشہ آور ہونے کا علم تھا یا نہیں، کیونکہ اختیار اورعلم ہی اصل ہے۔

اس کی دلیل حضرت حصین بن منذر﷫ سے یہ روایت ہے کہ

''میں حضرت عثمان بن عفانؓ کے پاس موجود تھاکہ وہاں ولید بن عقبہ کو لایا گیا، اس نے فجر کی نماز دو رکعات پڑھا کر کہا، مزید پڑھاؤں؟ اس کے خلاف دو آدمیوں نے گواہی دی۔ حمران نامی آدمی نے گواہی میں کہا کہ اس نے شراب پی ہے او ر دوسرے نے یہ گواہی دی کہ اُس نے اسے قے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت عثمان نے کہا کہ اس نے شراب پینے کی وجہ سے ہی قے کی ہے۔ حضرت عثمان نے حضرت علی کو کوڑے لگانے کے لئےکہا۔ حضرت علی نے حضرت حسن کو یہ ذمہ داری سونپی تو حضرت حسن نے کہا کہ کاروبار حکومت میں شریک لوگ ہی یہ کڑا حکم پورا کریں۔ حضرت علی نے حضرت عبد اللّٰہ بن جعفر کو کوڑےلگانے کے لئے کہا، عبداللّٰہ بن جعفر کوڑے لگا رہے تھے اور حضرت علی شمار کررہے تھے۔ جب چالیس کوڑے ہوئے تو حضرت علی نے کہا: رُک جاؤ... الخ''50

اس سے استدلال یوں ہے کہ حضرت عثمان اور علی نے دو آدمیوں کی گواہی کو کافی سمجھا اور ان سے کوئی مزید تفصیلات دریافت نہیں کیں۔

منہ سے شراب کی بدبو یا مشروب کی قے کرنے کو شہادت سمجھا جائے گا؟

شراب کی بدبو یا قے کرنے سے حد کے وجوب میں تین اقوال پر اختلاف ہے۔51

پہلا قول : منہ سے شراب کی بدبو آنے یا قے کرنے کی وجہ سے حد واجب نہیں ہوتی۔ اکثر اہل علم، امام ثوری، ابوحنیفہ، شافعی اور امام احمد﷭ (ایک روایت کے مطابق)کا یہی موقف ہے۔

ان کی دلیل یہ ہے کہ ممکن ہے، اس نے اسے پانی سمجھ کر منہ میں ڈالا او رپھر احساس ہونےپر اس کی کلی کردی ہو، یا سمجھا ہو کہ شائد یہ نشہ آور نہیں ہے یا جبراً پلائی گئی ہو یا اس نے سیب کا رس پیا ہو (اس سے بھی کچھ شراب جیسی بو کااحساس ہوتا ہے)۔ ان وجوہات سے شراب کی بدبو پیدا ہوسکتی ہے ۔ جب یہ احتمالات موجود ہیں تو حدّ واجب نہیں ہوسکتی کیونکہ شبہات کی وجہ سے حدّ ساقط ہوجاتی ہے۔52

دوسرا قول : بدبو آنے یا قے کرنے سے حدّ واجب ہوجاتی ہے۔

یہ امام مالک﷫ کا موقف ہے او رامام احمد﷫ سے دوسری روایت ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ اور ابن قیم﷫ نے اسی موقف کو پسند کیا ہے۔ان کا استدلال یہ ہے کہ اس قول کے مطابق صحابہ کرام حضرت عمر، حضرت عثمان او رابن مسعود کے فیصلے موجود ہیں:

1. سائب بن یزید کاکہنا ہے کہ اُنہوں نے حضرت عمر کی عدالت میں ایک شرابی کو منہ سے بدبو آنے کی وجہ سے کوڑوں کی سزا دلواتے دیکھا۔ حضرت عمرؓ نے اسے پوری حدّ لگائی۔53

پہلے فریق نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس روایت کو ایسے انداز میں مختصر کیا گیا ہے کہ مفہوم میں خلل پیدا ہوگیا ہے۔ یہ روایت اصلی شکل میں یوں ہے :

''معمر نے امام زہری﷫ سے اورامام زہری﷫ نے سائب بن یزید﷫ سے بیان کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ حضرت عمر نے ایک جنازہ پڑھایا، میں بھی وہاں حاضر تھا۔ جنازہ کے بعد حضرت عمر فرمانے لگے کہ میں نے عبید اللّٰہ سے شراب کی بدبو محسوس کی، میں نے اُس سے پوچھا تو اس نےجواب دیا کہ میں نے اسے طِلا(دوائی )سمجھا تھا۔میں دوبارہ اُس سے اس مشروب کے بارے میں پوچھنے والا ہوں، اگر وہ نشہ آور تھا تو میں اسےکوڑے لگاؤں گا۔ سائب بن یزیدکہتے ہیں کہ میں دوبار ہ گیا تو حضرت عمر اسے کوڑے لگا رہے تھے۔''54

دونوں روایات سائب بن یزید﷫ سے ہی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ ایک ہی ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہواکہ حضرت عمر نے اپنے بیٹے عبیداللّٰہ کو کوڑے اس کے اس اقرار پر لگائے کہ اس نےنشہ آور طلاء پیاہے، محض منہ سے بدبو آنے پر سزا نہیں دی۔لہٰذا اس روایت میں مجرد بدبو آنے پر حد کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں۔

2. حصین بن منذر سے روایت ہے کہ میں حضرت عثمان کے پاس تھا، ان کے پاس ولید کو لایا گیا جس نےشراب پی کر فجر کی نماز پڑھائی او ربعد میں کہا کہ مزید پڑھاؤں؟ اس کے خلاف دو آدمیوں نے گواہی دی۔ حمران نےکہا کہ اس نے شراب پی ہے ، دوسرے نے کہا کہ میں نے اُسے قے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت عثمان نے کہا کہ اس نے شراب پی کر ہی قے کی ہے....الخ

یہ اثر پہلے گزر چکا ہے کہ حضرت عثمان نےاسے حدّ لگائی تھی۔

پہلے موقف والوں نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ حضرت عثمان نےاسے مجرد قے کرنے پر سزا نہیں دی بلکہ اس قرینہ کے ساتھ حمران کی واضح شہادت پر حدّ لگائی۔ اس لیے جن ائمہ کرام نے اس اثر کو ذکر کیا ہے۔ اُنہوں نے اس پر یہ باب قائم نہیں کیا کہ قے سے حدّ لازم ہوتی ہے۔

3. علقمہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حمص میں تھے۔ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے سورہ یوسف کی قراءت کی۔ایک آدمی کہنےلگا کہ اس طرح یہ سورۃ نازل نہیں ہوئی ۔ حضرت ابن مسعود نےفرمایا کہ میں نےاسے اسی انداز میں رسول اکرم ﷺ کو سنایا تھا تو آپ نے میری تحسین فرمائی تھی۔پھر حضرت ابن مسعود نے اس آدمی سے شراب کی بدبو پائی تو کہنےلگے کہ تم کتاب اللّٰہ کی تکذیب کرتے ہو اور شراب پیتے ہو، بعد میں ابن مسعود نے اس پر حدّ لگائی۔55

اس کا جواب یوں دیا گیا ہےکہ یہ استدلال ہی تسلیم شدہ نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس آدمی نے شراب نوشی کا اعتراف کیاہو۔ اس احتمال کی بنا پر یہ دلیل ساقط ہوجاتی ہے، اسی وجہ سے امام بخاری﷫ نے یہ اثر 'کتاب فضائل القرآن' میں ذکر کیا ہے اور قوتِ فہم و دقتِ استنباط کے باوجود امام بخاری﷫ نے اس اثر کو کتاب الحدود میں ذکر نہیں کیا۔ اسی طرح امام مسلم ﷫ نے بھی اسے فضائل قرآن سے متعلق احادیث کے ضمن میں ہی ذکر کیا ہے ۔ امام نووی﷫ نے اس پر باب باندھا ہے: باب فضل استماع القرآن56

4. ظاہری قرائن کے ساتھ شراب نوشی کا حکم لگانے پر صحابہ کرام کا اتفاق ہے کیونکہ حضرت عمر او ر ابن مسعود کے مذکورہ فیصلوں پر صحابہ کرام میں سے کوئی مخالف نہیں ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ فتح الباری میں حضرت علی سے یہ روایت موجود ہے کہ اُنہوں نے حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ کے مجرد بدبو کی وجہ سے حدّ لگانےپر انکار کیا تھا۔57

تیسرا قول : محض بدبو آنے سے حدّ واجب نہیں ہوتی، ہاں اگر اس کے ساتھ کوئی شہادت یا قرینہ مل جائے جو شبہات کی نفی کردے تو حد لازم ہوگی۔صحابہ کرام میں سے یہ موقف حضرت عمر، ابن زبیر کا ہے ۔ امام عطا، ابن قدامہ اور شیخ بکر ابوزید نےاسی موقف کو اختیار کیا ہے۔

راجح موقف

تیسرا موقف راجح معلوم ہوتا ہے، متفرق دلائل اسی نظریہ کی تائید کرتے ہیں۔ اس بنا پربوبد یا قے آنے پر مندرجہ ذیل صورتوں میں ہی حد واجب ہوتی ہے:58

1. جس سے شراب کی بدبو پائی گئی ، وہ شراب نوشی میں مشہور ہو۔ یہ حضرت عمر سے ثابت ہے۔59

2. کچھ فاسق لوگ اکٹھے شراب پر پائے جائیں۔ بعض پر نشہ طاری ہو اور کچھ کے منہ سے بدبو آرہی ہو تو سب کو حدّ لگے گی۔ یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز اور عطا کا موقف ہے۔60

3. بدبو کے ساتھ نشہ کے عوارض بھی پائے جائیں جیسا کہ قے وغیرہ۔ امام ابن قدامہ نے یہ ذکر کیا ہے۔

4. شراب نوشی پر دو آدمی گواہی دیں ایک شراب پینے کی اور دوسرا منہ سے بدبوآنے کی یا قےکرنے کی جیسا کہ حضرت عثمان کے واقعہ میں مذکور ہے۔

محض بدبو وغیرہ سے حدّ واجب نہ ہونے پردلیل :

حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ عہد نبویﷺ میں ایک آدمی نے شراب پی اور اس پر نشہ طاری ہوگیا۔ وہ گلی میں لڑکھڑاتا پھر رہا تھا، اُسے رسول اکرم ﷺ کے ہاں لے جانے لگے۔ جب وہ حضرت عباس کے گھر کے سامنے پہنچا تو ہاتھ سےنکل گیا، حضرت عباس کے گھر میں داخل ہوکر وہ اُن سے چمٹ گیا۔ رسولِ اکرم ﷺ کے سامنے اس کاذکر کیا گیا تو آپ نے ہنس کر فرمایا: ''کیا اس نے ایسا کیا ہے؟'' پھر آپﷺ نے اس کے بارےمیں کوئی حکم نہیں دیا۔61

امام خطابی﷫کا کہنا ہے کہ اس آدمی کے حضرت عباس کے ہاں جانے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے اس کے متعلق حکم صادر نہیں فرمایا، کیونکہ حدّ کے ثبوت کے لئے اس کا اقرار یا شہادت موجودنہیں تھی، بس وہ راستے میں لڑکھڑاتا پایا گیا او راس کے متعلق نشہ کرنے کا گمان ہوا۔ آپﷺ نے مزید استفسار نہیں فرمایا او راسے اسی حالت پر چھوڑ دیا۔

شراب نوش کو حدّنشہ کی حالت میں لگے گی یانشہ اُترنے کے بعد؟62

عمر بن عبدالعزیز، شعبی، ثوری ، ابوحنیفہ اور شافعی﷭ کا یہ موقف ہے کہ شرابی کانشہ اُترنےکے بعد ہی حدّ لگے گی۔ان کی دلیل یہ ہے کہ نشہ کی حالت میں سزا دینے سے حد کے مقاصد حاصل نہیں ہوتے۔ حد کامقصد اسے عبرت دلانا ہے اور یہ مقصد نشہ اُترنے کے بعد ہی پورا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ نشہ کی حالت میں انسان کوشعور نہیں ہوتا۔

دوسراموقف یہ ہے کہ جب شرابی پکڑ ا جائے اس پر حد لگا دی جائے۔ یہ ابن حزم کا خیال ہے۔ ان کا استدلال عام حدیث سے ہے کہ رسول اکرم ﷺ کےپاس جب شراب نوش لایا جاتا تو اس پرجرم ثابت ہوجانے پرآپ سزا دے دیتےتھے ، اُس کے نشہ اترنے کا انتظار نہیں کرتے تھے۔

جب یہ دلیل سے ثابت ہوگیا تو قیاس اور نظروفکر کی گنجائش نہ رہی، اس لئے پکڑے جانے پر شرابی کو سزا دے دی جائے سوائے اس صورت کے کہ اس میں بالکل ہی احساس و شعور نہ ہو تو کچھ شعور حاصل ہونے تک مؤخر کردیا جائے۔ وباللّٰہ التوفیق!

شرابیوں کی مجلس کا حکم63

شراب نوش لوگوں کی محفل یا وہ دستر خوان جس پر شراب یا دیگر منشیات ہوں ،وہاں ایک مسلمان کا موجود ہونا حرام ہے۔رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

«من كان يومن بالله واليوم الآخر فلا يقعد علي مائدة يشرب عليها الخمر»64

''جو بھی اللّٰہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ ایسے دستر خوان پر مت بیٹھے جہاں شراب پی جا تی ہو۔''

مسلمان پر حرام ہےکہ وہ کسی کو شراب پلائے چاہے وہ بچہ ہو یا پاگل ہو یا کافر ہو۔ کیونکہ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

«لعن الله الخمر و شاربها وساقيها وبائعها ومبتاعها وعاصرها ومعتصرها وحاملها والمحمولة إليه»65

'' اللّٰہ تعالیٰ شراب پر لعنت فرمائے، اسی طرح شراب پینے والے،پلانے والے، بیچنے والے، خریدنے والے، نچوڑنے والے اسے تیار کروانے والے، منتقل کرنے والے اور جس کی طرف منتقل کی جارہی ہے، ان سب پر اللّٰہ تعالیٰ لعنت فرمائے۔''

شرابیوں کی محفل میں بیٹھ کر شراب نہ پینے والوں پرحد لگے گی یا نہیں؟

ابن عامر اور مروان بن حکم کا خیال ہے کہ اُن کوبھی کوڑے لگائے جائیں۔ حالانکہ صحیح موقف یہی ہےکہ ان لوگوں پر حد لازم نہیں کیونکہ حد صرف شراب پینے والوں پر واجب ہے اُن کےعلاوہ کسی اور پرحد لازم ہونے میں قرآن ، سنت ، اجماع یا قول صحابی سے دلیل نہیں ہے۔ البتہ مصلحت کے تحت ایسے لوگوں پر تادیبی کارروائی ہوسکتی ہے او راُنہیں تعزیراً سزا دی جاسکتی ہے۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم!

[اُردو ترجمہ : صحیح فقہ السنّہ واَدلتہ وتوضیح مذاہب الائمہ: جلد 4 ؍صفحہ73 تا88]
حوالہ جات

1. القاموس المحیط ، مادۃ 'خمر'

2. ابن عابدین 5؍288؛ الدسوقی 4؍353،المغنی 9؍159

3. صحیح مسلم :2003

4. صحيح بخاری:4343؛ صحیح مسلم : 1733

5. صحیح بخاری :5584؛ صحیح مسلم :1980

6. صحیح مسلم :1982

7. صحیح بخاری:5580

8. صحیح بخاری 4616 ؛صحیح مسلم 3032

9. سنن ا بی داؤد:3659؛ جامع ترمذی :1934؛ سنن ابن ماجہ :3379

10. صحیح بخاری:5581؛ صحیح مسلم :3032

11. تہذیب السنن از ابن قیم :5؍262؛تفسیر قرطبی:6؍295

12. اغاثۃ اللّٰہفان فی مقاصد الشیطان : 1؍361

13. سنن ابن ماجہ :3392؛ سنن النسائی :8؍297، 300

14. جامع ترمذی :1866؛ سنن ابی داؤد :3687

15. 'فرق'وزن کا ایک پیمانہ ہے جس میں تین صاع یا16 رطل (تقریباً6.29 کلو گرام بمطابق حجازی صاع) ۔ 'اسلامی اوزان' ازفاروق اصغر صارم: ص61،62؛ لغاتِ حدیث از علامہ وحید الزماں: 3؍ 415

16. صحیح مسلم:2003

17. مجموع فتاویٰ:34؍204

18. صحیح بخاری :5581؛ مسلم :3032 (موقوف عن عمر بن الخطاب)

19. زاد المعاد :5؍749

20. ابن عابدین :4؍42؛ الدسوقی:4؍352؛ مغنی المحتاج:4؍187؛ الانصاف: 10؍228

21. مجموع فتاوٰی:34؍214

22. ابن حزم، قاضی عیاض، ابن قدامہ او رابن حجر وغیرہم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔

23. ابن عابدین:5؍289؛مغنی المحتاج:4؍187؛المحلی:11؍365؛المغنی9؍137

24. صحیح مسلم :1706

25. صحیح مسلم :1707

26.صحیح بخاری :6779

27. صحیح بخاری :6778؛ صحیح مسلم :1707

28. مصنف عبدالرزاق :7؍379 .... یہ حدیث مرسل ،ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔

29. صحیح مسلم :1706

30. موطا مالک :2؍842 ؛ سنن دارقطنی :354 ؛الإرواء :2378.... روایت ضعیف ہے

31. مصنف عبدالرزاق :7377.... مرسل روایت

32. حافظ ابن حجرنے فتح الباری:12؍75 میں اسے الغریب لأبی عبید کی طرف منسوب کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

33. سنن البیہقی :حدیث:۱۷۳۰۴ ؛ فتح الباری:12؍75

34. اس مفہوم پر احادیث پچھلے صفحات پر گزر چکی ہیں۔

35. ایضاً...

36. الہدایۃ :21؍111؛ مغنی المحتاج :4؍179؛المغنی:4؍354؛ مجموع الفتاوی:7؍483

37. سنن ابی داؤد :4484، حدیث صحیح ہے۔

38. صحیح بخاری :6780

39. صحیح بخاری :6781

40. سنن ابی داؤد :4484؛حدیث صحیح ہے۔

41. المحلی :11؍265؛ نیل الاوطار:7؍176؛ الحدود والتعزیرات : 306 تا325

42. سنن الکبریٰ للنسائی ؛ سنن بیہقی :8؍413؛الطحاوی: 2؍92

43.سنن ابی داؤد :4485؛ البیہقی :8؍314... مرسل

44. صحیح بخاری :6780

45. فتح الباری :12؍80

46. سنن ابی داؤد:4352

47. مسنداحمد :6752 ... شيخ احمد شاكر نے اس کی سند صحیح قرار دیا ہے؛ مسنداحمد:2؍191

48. فتح الباری :12؍82

49. المغنی:9؍138؛ مجموع الفتاویٰ :28؍239

50. صحیح مسلم :1707

51. المبسوط :24؍31؛ مجموع الفتاوی :28؍339؛ الحدود والتعزیرات : 325

52. المغنی :10؍332

53. مصنف عبدالرزاق :10؍228

54. صحیح بخاری تعلیقا:10؍62؛مسندشافعی: 296؛موطاامام مالک : 2؍178؛ مصنف عبدالرزاق: 10؍228

55. صحیح بخاری :5001؛ صحیح مسلم :3580

56. الحدود والتعزیرات عند ابن القیم : 336

57. فتح الباری شرح صحیح البخاری :9؍50

58. الحدود والتعزیرات : 340

59. مصنف عبدالرزاق:10؍228

60. مصنف عبدالرزاق: 17037؛ مسندالشافعی: 298

61. سنن ابو داؤد :4476.... سند ضعیف ہے۔

62. المحلی :11؍371؛ المغنی :9؍140

63. المحلی:11؍371؛ کشاف القناع :6؍118

64. جامع ترمذی :2801؛سنن ابی داؤد :3774؛ اسانید کے مجموعہ سے یہ حدیث حسن درجے کو پہنچ جاتی ہے۔ دیکھئے اِرواء الغلیل:1949

65. سنن ابی داؤد :3657؛ سنن ابن ماجہ :3380