''عمّار خان ناصر کا نیا اسلام اور اُس کی سرکوبی''

صفحات:432 ... مصنّفین: ڈاکٹر مفتی عبد الواحد و مفتی شعیب احمد

عمار خان ناصر صاحب کا تعارف یہ ہے کہ وہ پاک و ہند کی مشہور علمی شخصیت مولانا سرفراز خان صفدر﷫کے پوتے اور دوسری مشہور شخصیت مولانا زاہد الراشدی﷾ کے صاحب زادے ہیں۔ گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے ماہ نامے 'الشریعہ'کے مدیر ہیں۔معروف طریقے سے مولوی ہیں،لیکن موجودہ دور کے مشہور متجدد جاوید احمد غامدی کے شاگردِ رشید بھی ہیں۔کچھ عرصے سے اُنھوں نے اپنے استاد غامدی صاحب اور اپنے افکارِ فاسدہ کے پھیلانے کو اپنا مشن بنایا ہوا ہے۔زیرِ نظر کتاب میں مفتی صاحب نے عمار خان صاحب کے کچھ افکار پر تنقید کی ہے۔ مفتی صاحب کا طریقہ یہ ہے کہ وہ فریقِ مخالف کے دعوے اور دلیل کو بلاکم وکاست اس کے اپنے الفاظ میں ذکر کرتے ہیں اورپھر تفصیل سے اس کا جواب دیتے ہیں ۔عمار خان ناصر صاحب کی تحریرات اور ان پر مفتی صاحب کی طرف سے کی جانے والی گرفت کو اگرعمار صاحب کی عبارت آرائی سے بالا تر ہوکربنظرِ انصاف دیکھا جائے توصاف نظر آتاہے کہ عمار خان صاحب کے دعاوی اور دلائل پر مفتی صاحب کی تنقید اور گرفت صحیح اور برمحل ہے۔

عمار خان کی جن گمراہیوں کا جواب مفتی صاحب نے لکھاہے، ان میں کچھ ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں تاکہ قارئین کو پہلے ہی سے اندازہ ہوجائے کہ عمار خان صاحب کی گمراہیاں کیاہیں اور اس طرح سے ان کو پور ی کتاب سمجھنے میں سہولت ہوگی ۔

عمار خان کے خود تراشیدہ سات اُصول

یہ وہ اُصول ہیں جو منکرین حدیث کے اختیار کردہ ہیں:

1. مقبول و مرفوع حدیث سے ایک حکم ثابت ہو۔ اس سے باخبر ہونے کے باوجود اجتہاد و استنباط کر کے اس سے مختلف حکم کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔

2. قران مجمل کی خود تعیین کرے تو وہ ابدی و شرعی ہے اور جو تعیین حدیث سے ہو وہ محض عرف پر مبنی ہے، شرعی و ابدی نہیں ہے۔

3. اجماع (سکوتی) محض ظنّی ہے اور ظنی درجے کی یہ حجّت یہ درجہ ہرگز نہیں رکھتی کہ اس کی بنیاد پر قران و سنت سے براہِ راست استنباط کا دورازہ بند کر دیا جائے۔

4. یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ صحابہ و تابعین نے کون سی متعین رائے کس استدلال کی بنیاد پر اختیار کی تھی۔

5. صحابہ و تابعین کی آرا اور ان کے فتاویٰ کا ایک مخصوص عملی پس منظر تھا ،یعنی اس وقت کے مخصوص سماجی اور معاشی حالات پیش نظر تھے جن سے علیحدہ کر کے ان احکام کو صحیح طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔ اور چونکہ وہ مخصوص عملی پس منظر بدل چکا ہے ،لہٰذا جو حکم پہلے دور میں سمجھا جاتا تھا، وہ اب اس طرح سے سمجھا نہیں جا سکتا ،اس لیے ہمیں نئے پس منظر میں احکام کو معلوم کرنا ہو گا۔

6. فقہ و تفسیر کا جو ذخیرہ دورِ اوّل کا ملتا ہے وہ کسی طرح بھی قرآن و سنّت کے علمی امکانات کا احاطہ نہیں کرتا، اس لیے اپنے آپ کو ان فقہی و تفسیری آرا کا نہ تو پابند کرنا درست ہے اور نہ اُن کو قانون سازی کا ماخذ بنانا درست ہے ،بلکہ حالات کی تبدیلی میں قانون سازی کا اصل ماخذ نصوص ہی قرار پاتے ہیں۔ غرض ائمہ سلف کی آرا معیار نہیں،بلکہ جو اُمور معیار ہیں وہ یہ تین چیزیں ہیں:

1۔ مزاج 2۔ شرعی نصوص 3۔ نئے حالات کے تحت نئے احکام

7. عمار صاحب جس حدیث کو اپنے مخالف پاتے ہیں، اس کو علی الاطلاق ضعیف کہہ کر اس کی اہمیت کو گھٹاتے ہیں ،مثلاً وہ حدیث جس میں عورت کی دیّت کو مرد کی دیت کا نصف قرار دیا ہے ،عمار صاحب اس کو ضعیف کہتے ہیں ،حالانکہ بعض قرائن و حالات میں (جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں)ضعیف حدیث سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔( دیکھیے ص ۸تا ۱۱)

عہدِ رسالت کے بھلے مانس لوگوں پر بہتان

1. مفتی صاحب نے عمار خان صاحب کے زِناکی بابت قائم کردہ نظریے پر تنقیدکرتے ہوئے اس طرف توجہ دلائی کہ عمار صاحب نے عہدِ رسالت ﷺ کا جو نقشہ کھینچاہے، وہ درست نہیں،اور مدینہ میں کسی کو کہاں جرأت تھی کہ وہ عورتوں پر ہاتھ ڈالتا پھرے یا مستقل یاری ،آشنائی اور زناکے اڈّے چلانے کا مرتکب ہو۔تو اس پر عمار خان ناصر نے لکھا:

''ممکن ہے مولانا محترم (عبد الواحد) کا یہ مفروضہ منافقین کے بارے میں درست ہو لیکن جہاں تک مخلص اور خدا ترس اہل ایمان کا تعلق ہے تو مستند روایات کی رو سے وہ ایسا کرنے کی (یعنی زنا کے اڈے چلانے کی، مستقل یاری ،آشنائی کرنے کی اور زنا بالجبر کرنے کی) پوری پوری جرأت رکھتے تھے۔''

2. سورہ نساکی آیات 15،16 کی تفسیر میں عہد رسالت کے مسلمانوں کی تصویر کشی جو عمار خان کی ہے، وہ مفتی عبد الواحد صاحب کے الفاظ میں یوں ہے:

''اور (اے مسلمانو!) تمہاری (مسلمان) عورتوں سے جو بدکاری (کے اڈے چلاتی ہیں اور خود بدکاری) کرتی ہیں، ان پر (اس بارے میں) چار گواہ بنا لو (کہ وہ اڈے چلاتی ہیں اور بدکاری کرتی ہیں) پھر وہ گواہ (عدالت میں جا کر) گواہی دے لیں تو تم عدالت کے حکم پر ان (عورتوں) کو گھروں میں روکے رکھو ،یہاں تک کہ ان کی موت آ جائے یا اللّٰہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی (اور) راہ بنا دیں۔ اور (اے مسلمانو!) تم میں سے جو (مسلمان) مرد و عورت (مستقل اور روز مرہ کے معمول کے طور پر یاری آشنائی کریں اور) بدکاری کریں تو (اپنی عدالت کے ذریعے) ان کو ایذا دو (یعنی تعزیر کرو) پھر (ان کی مسلسل نگرانی کرو اور اس پر نظر رکھو کہ ان کے پاس کون آتا ہے اور یہ کس کس کے پاس جاتے ہیں) پھر اگر (معلوم ہو کہ) اُنھوں نے (سچی) توبہ کر لی اور (اپنی) اصلاح کرلی تو ان سے در گزر کرو۔'' (ص: 176)

3. سورۃالنساء کی آیت 15،16 میں زنا کے جن عادی مجرموں کے لیے (جو عمار خان کے بقول مسلمان تھے) عبوری سزا بیان کی گئی، ان کا جرم چونکہ زنا کے عام مجرموں کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ سنگین تھا اور ان میں بالخصوص یاری آشنائی کا تعلق رکھنے والے بدکار جوڑے اس عرصے میں توبہ و اصلاح کا موقع دیے جانے کے باوجود اپنی روش سے باز نہیں آئے تھے ،اس لیے عام مجرموں کے بر خلاف زنا کے یہ عادی مجرم بدیہی طور پر اضافی سزاؤں کے بھی مستحق تھے۔ چنانچہ ان کے بارے میں نبیﷺ کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہدایت کی گئی کہ سو کوڑوں کے ساتھ ساتھ ان پر جلا وطنی اور رجم کی اضافی سزائیں بھی نافذ کی جائیں۔ (ص: 190)

لیکن یہ عجیب بات ہے کہ خدائی حکم کے باوجود سیدنا ماعز کو رجم کی سزاتو دی گئی جو کہ اضافی سزا تھی ،سوکوڑوں والی بنیادی سزا نہیں دی گئی اور نہ ہی انکو کبھی اسکی دھمکی دی گئی تھی۔

4. حضرت ماعز سے اتفاقیہ زنا سرزد ہو گیا ،پھر وہ از خود حاضر ہوئے اور گناہ سے پاک کرنے کا مطالبہ کیا۔ نبی ﷺ اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اُن کو بار بار ٹالتے رہے ،لیکن وہ بار بار آکر اپنے جرم کا اعتراف کرتے رہے۔ رجم کے بعدرسول ﷺ نے بتایا کہ اس بھلے مانس آدمی کی توبہ بڑے اونچے درجے کی تھی، لیکن عمار صاحب لکھتے ہیں:

''ماعز اسلمی کے جرم کی نوعیت اور ان کے نبی ﷺ کی عدالت میں خود پیش ہونے یا پکڑ کر لانے کے حوالے سے روایات اُلجھی ہوئی ہیں اور تفصیلی تحقیق و تنقید کا تقاضا کرتی ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ماعز کو رجم کرنے کے بعد رسول اللّٰہ ﷺ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس سے اس کا عادی مجرم ہونا واضح ہوتا ہے۔ ''1

جبکہ مفتی عبدالواحد صاحب نے ثابت کیا ہے کہ ماعز کے رجم کے بعد رسول اللّٰہ ﷺ نے خطبے میں جودھمکی دی تھی، وہ منافقوں کے لیے تھی۔

5. عمار صاحب یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ عربوں کے مسلمان ہو جانے کے باوجود رسول اللّٰہ ﷺ ان میں سے جاہلی معاشرت کے بعض تصورات کی اصلاح نہ کر سکے۔ جاہلیت کے عرف کے بر خلاف جس میں مرد کی دیت کے سو اونٹ تھے اور عورت کی دیت کے پچاس اونٹ تھے ،رسول اللّٰہ ﷺ نے مرد و عورت کی جان کی قیمت یکساں کرنے کے لیے دیت کا یہ قانون بنایا تھا کہ مرد اور عورت کی تفریق کے بغیر دیت ایک سو اونٹ ہو گی، لیکن تین خلفاے راشدین یعنی حضرت عمر، عثمان و علی اور تین دیگر بڑے اہل علم صحابہ یعنی حضرت ابن عباس، ابن عمر اور زید بن ثابت ان کو یا تو نبیﷺ کے بنائے ہوئے قانون کا علم نہیں تھا(جو کہ ناقابل تسلیم بات ہے ) یاا ن حضرات نے نبیﷺ کے بنائے ہوئے قانون کو دیکھا کہ لوگ عورت کی دیت کے سو اونٹ پر راضی نہیں، اس لیے ان حضرات نے معروضی حالات سے مجبور ہو کر عورت کی دیت کے دوبارہ پچاس اونٹ کر دیے۔

حالانکہ رسول اللّٰہ ﷺکی وفات کے بعد جو حالا ت پیش آئے ،ان میں حضرت ابو بکر ؓ نے ان کا اعتبار نہیں کیا اور نصوصِ صریحہ پر عمل کیا۔

ذمّی اگر توہین رسالت کرے تو اس کی سزا

امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ﷭ پر تنقید:مسلمان ملک کا غیر مسلم شہری اگر توہین رسالت کا مرتکب ہو تو امام مالک ،امام شافعی ،اور امام احمد بن حنبل ﷭ کے نزدیک اس کی سزا بطور حد کے قتل ہے ۔عمار صاحب چونکہ ایسے ذمی کوسزائے موت سے بچانا چاہتے ہیں، اس لیے انہوں نے ائمہ ثلاثہ کو بھی تنقید سے نہ بخشااور اپنے رسالے میں لکھا:

''اگر اس معاملے میں محض جذباتی انداز اختیار کر لیا جائے یا اس ضمن میں اسلامی قانون کی ایسی تعبیر پر(جوکہ توہین رسالت کے مسئلے میں ائمہ ثلاثہ کا قول ہے،اس پر) اصرار کیا جائے جس کے نتیجے میں ان تمام حکمتوں اور مصلحتوں کو یکسر قربان کر دینا پڑے گا جن کی رعایت خود نبیﷺ اور آپ کے صحابہ نے کی (لیکن ان ائمہ نے نہیں کی) تو یقینی طور سے اس رویے کو (یعنی ائمہ ثلاثہ کے قول کو حکم و قانون بنانے پر اصرار کرنے کو) کوئی متوازن اور دین و شریعت کی ہدایات کی درست ترجمانی کرنے والا رویہ نہیں کہا جا سکتا۔'' (ص220)

اس بابت عمار خان صاحب کی تحریر میں تضاد بھی ہے۔ چنانچہ توہین رسالت کے بارے میں پہلے انسانی جذبات و احساسات کو فیصلہ کن قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

''جدید جمہوری اُصولوں کی رو سے کسی بھی مملکت کی حدود میں بسنے والے ہر مذہبی گروہ کو اپنے عقیدہ و مذہب کے تحفظ کا حق اور اس کی ضمانت حاصل ہے ... اور راسخ العقیدہ اہل مذہب اپنے مذہبی شعائر، شخصیات اور جذبات کو جان و مال اور آبرو سے زیادہ محترم سمجھتے ہیں اور ان میں سے کسی بھی چیز کی توہین لازماً مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور نتیجتاً اشتعال انگیزی کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ انسانی و مذہبی حقوق کی اس خلاف ورزی کو جرم قرار دے کر اس کے سد باب کے لیے سزا مقرر کرنا ہر لحاظ سے جمہوری اُصولوں اور تصورات کے مطابق ہے۔'' (ص230،231)

(ii) پھر لکھتے ہیں کہ انسانی جذبات و احساسات توہین رسالت میں فیصلہ کن نہیں ہیں:

''بنیادی نکتہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ شرعی احکام اور خاص طور پر مختلف جرائم پر سزاؤں کی تعیین میں اصل اور اساس کی حیثیت انسانی احساسات و جذبات کو نہیں بلکہ اس چیز کو حاصل ہے کہ اس باب میں شارع کا منشا کیا ہے اور وہ کس جرم پر کس نوعیت کی سزا دلوانا چاہتا ہے۔ شرعی احکام میں انسانی جذبات اور احساسات کو یقیناً ملحوظ رکھا گیا اور ان کی رعایت کی گئی ہے ،لیکن کسی چیز کا فیصلہ کرنے میں اُنہیں فیصلہ کن اور حتمی معیار تسلیم نہیں کیا گیا۔''

(iii) اس کے بعد جرم کی سنگینی ذہنوں سے نکالنے کے لیے لکھتے ہیں:

''پیغمبر کی شان میں گستاخی کا جرم اگر اپنی نوعیت اور اثرات کے لحاظ سے اس درجے کو پہنچ جائے کہ اس کی اذیت پورے مسلمان معاشرے کو محسوس ہونے لگے (یعنی پورے ملک یا پوری مسلم دنیا میں ہلچل مچ جائے۔ ناقل) اور مجرم کسی چیز کی پروا کیے بغیر اپنی روش پر قائم رہے تو اس صورت میں یہ جرم براہِ راست آیتِ محاربہ کے تحت آ جاتا ہے (اور صرف ایسی ہی حالت میں ذمی کو سزائے موت دی جا سکتی ہے،لیکن پھر بھی ٹھہریے ... ) یہ ضروری نہیں کہ سب و شتم اور توہین و تنقیص کے جرم کو اپنی ہر صورت میں حرابہ ہی کے دائرے میں شمار کیا جائے ،کیونکہ نوعیت و کیفیت اور اثرات کے لحاظ سے اس کی نسبتاً کمتر اور ہلکی صورتوں کا رونما ہونا ممکن ہے۔'' (ص232)

''ہمارے ہاں چونکہ ایک خاص جذباتی فضا میں بہت سے حنفی اہل علم بھی فقہ حنفی کے کلاسیکی موقف کو بعض متاخرین کے فتووں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔'' (ص237)

حالانکہ متاخرین کا فتویٰ بھی فتویٰ ہی ہوتا ہے اور یہاں تو امام محمد ﷫ بھی یہی قول بیان کرتے ہیں کہ ذمی توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو اس کی سزا قتل ہے۔پھرچونکہ اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ حکومت کی سستی یا مصلحت کوشی یا لا پرواہی کی وجہ سے کوئی شخص غیرت کی بنا پر توہین رسالت کے مرتکب کو خود ہی قتل کر دے تو اس کے سدِ باب کے لیے عمار خان ناصر لکھتے ہیں:

''حدود و تعزیرات کے جتنے بھی احکام ہیں، یہ افراد کے لیے نہیں ہیں... عام آدمی میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ چور کو پکڑ کر اس کا ہاتھ کاٹ دے... یہ حکومت کا کام ہے۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ اور دیگر کافروں سے لڑنا انفرادی کام نہیں ہے۔ یہ اجتماعی طور پر حکومت کا کام ہے..تمہیں(صرف) زبان سے سمجھانے کا حق ہے۔''(ص: 257)

ان اقتباسات سے یہ باور کرنا مشکل نہیں کہ عمار خان صاحب نے ذمیوں کو توہین رسالت کے ارتکاب پر سزائے موت سے بچانے کے لیے ہردروازہ کھولنے کی کوشش کی ہے۔

مسجد اقصیٰ اور عمار خان کی یہود نوازی

مسجد اقصیٰ اور اس سے متصل احاطہ 45 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے۔ بیت المقدس کو جب مسلمانوں نے فتح کیا تو یہ احاطہ ویران اور خراب حالت میں تھا۔ حضرت عمر ر نے اس احاطہ کے ایک حصّے میں مسجد بنوائی اور کچھ مزید تعمیرات بعد کے حکمرانوں نے بنوائیں۔عمار خان صاحب کے بقول مسجد اقصیٰ کے احاطہ کی تولیت کے بارے میں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان جھگڑا پڑا ہوا ہے۔اس جھگڑے میں عمار خان کا موقِف یہ ہے کہ احاطہ کے ایک حصے میں حضرت عمر نے مسجد مقرر کی تھی، وہ درست ہے اور وہ مسلمانوں کا حق ہے ،البتہ باقی احاطہ یہودیوں کا حق ہے کہ وہ اس میں اپنی عبادت گاہ بنائیں اور یہودیوں کا یہ حق قانون کے اعتبار سے نہیں، اسلامی اخلاقیات کے اعتبار سے ہے۔ اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ باقی احاطہ پر حق نہ جتائیں اور اس کو یہودیوں کی امانت سمجھ کر ان کے حوالے کر دیں۔یہ بات عمار خان کے الفاظ میں بھی پڑھ لیجیے، لکھتے ہیں:

''جہاں تک قانونی پہلو کا تعلق ہے، اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دعواے تولیت کو ایک عملی وجہ ترجیح حاصل ہے۔ اُنھوں نے یہ عبادت گاہ نہ یہودیوں سے چھینی تھی اور نہ ان کی پہلے سے موجود کسی عبادت گاہ کو ڈھا کر اس پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کی تھی۔ نیز وہ بحالتِ موجودہ اس کی تولیت کے ذمہ دار ہیں اور یہ ذمہ داری وہ گذشتہ تیرہ صدیوں سے...تسلسل کے ساتھ انجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی اسکی تولیت کا حق دار مسلمانوں ہی کو تسلیم کیا گیا ہے۔'' (ص286)

دوسری جگہ اس کے بالکل اُلٹ لکھتے ہیں اور یہودیوں کے لیے تولیت کا حق بتاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:

''مسلمانوں نے یہود کی غیر موجودگی میں (مسجد اقصیٰ کے احاطے کی تولیت کی ذمہ داری) محض امانتاً اُٹھائی تھی۔''

کسی کو خیال ہو کہ اس جھگڑے میں عمار خان کو منصف بننے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا جواب عمار خان خود یتے ہیں:

''ہمارا احساس یہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ کی جانب سے اجتماعی طور پر اختیار کردہ اس رویے کی تشکیل میں بنیادی عنصر کی حیثیت مسئلے کی جذباتی نوعیت اور عرب اسرائیل سیاسی کشاکش کو حاصل ہے اور بعض نہایت اہم شرعی اخلاقی اور تاریخی پہلوؤں کے نظر انداز ہو جانے کی وجہ سے اس معاملے میں توازن و اعتدال کی حدود ٹھیک ٹھیک ملحوظ نہیں رکھی جا سکیں۔ چنانچہ صورتحال اس بات کی مقتضی ہے کہ تعصّبات و جذبات سے بالاتر ہو کر قران و سنت کی روشنی میں بے لاگ طریقے سے اس کا جائزہ لیا جائے۔

اللّٰہ تعالیٰ نے نہایت اہتمام کے ساتھ اُمت پر یہ واضح کیا ہے کہ ان کے ہاتھ سے عدل و انصاف کا دامن کسی حال میں بھی نہیں چھوٹنا چاہیے، چاہے معاملہ کسی ایسے گروہ ہی کا کیوں نہ ہو جس نے ان پر ظلم و زیادتی کی اور ان کے ساتھ نا انصافی کا معاملہ کیا ہو ... ذیل کی سطور میں ہم نے اسی جذبے کے ساتھ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔'' (ص285)

''لیکن (مسلمانوں کو) موجودہ مسجد اقصیٰ کے علاوہ پورے احاطۂ ہیکل کی تولیت اور تصرف کا حق جتانے اور یہودیوں کے حق کی کلیتاً نفی کرنے کا دینی و تاریخی لحاظ سے نہ کوئی جواز ہے اور نہ ضرورت۔'' (ص284)

یہاں سوچنے کی بات یہ ہے(اور مفتی عبد الواحد صاحب نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے) کہ حضرت سلیمان نے بیت المقدس میں مسجد یا عبادت گاہ بنائی تھی، ان کے دور کے بنی اسرائیل اور یہود اس کی تولیت کے حقدار تھے ،کیونکہ حضرت سلیمان نبی بھی تھے اور مسلمان بھی تھے۔ ان کے دورکے لوگ بھی مسلمان تھے، لیکن جب یہود نے بعض انبیا کو قتل کیا اور کرایا اور حضرت عیسیٰ کی نبوت و رسالت کا انکار کیا تو وہ کافر ہو گئے اور جو احاطہ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف تھا، وہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔ یہود نے حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا بھی انکار کیا اور کافر رہے اور ان پر خدا کا بغض ہوا اور لعنت ہوئی اور ذلت ہوئی۔ جس قوم پر خدا کی لعنت اور بغض ہو، اس کے توبہ کیے بغیر کافر رہتے ہوئے اس بارے میں عمار صاحب کا یہ کہنا ''کہ خدا تعالیٰ نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم تم پر رحم کریں گے اور تم کو بیت المقدس میں داخل کریں گے ''کیسا عجیب وغریب دعویٰ ہے، لیکن حیرت ہے کہ عمار خان صاحب بڑے شد ومد کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

''قرانِ مجید واقعہ اِسرا کے بعد بھی اس بات کا امکان تسلیم کرتا ہے کہ اللّٰہ کی رحمت سے یہود کو (یہودی رہتے ہوئے۔ناقل) دوبارہ اپنے مرکز عبادت کی بازیابی اور اس میں سلسلۂ عبادت کے احیا کا موقع ملے ۔اگرچہ یہ موقع بھی پہلے مواقع کی طرح اطاعت اور حسنِ کردار کے ساتھ مشروط ہو گا۔'' (ص300)

حالانکہ سیدھی سی بات ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی عالمی نبوت و رسالت کے ظاہر ہونے کے بعد آپ ﷺ پر ایمان لائے بغیر کونسی عبادت، کونسی اطاعت اور کونسا حسن کردار مقبول ہے!

یہود کے لیے عمار خان اپنا دردِ دل دکھانے کو لکھتے ہیں:

1. ''ہمارے نزدیک اس معاملے میں سب سے نازک سوال اُمّتِ مسلمہ کی اخلاقی پوزیشن کا ہے ... اُمّتِ مسلمہ کے سیاسی اور معاشرتی وجود کی با مقصد بقا کے لیے سب سے پہلے اس کے اخلاقی وجود کا تحفظ ضروری ہے۔ اگر اُمّت کسی معاملے میں اجتماعی طور پر ایک غیر اخلاقی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک نہایت سنگین صورت حال ہے جس کی اصلاح کی کوشش باقی تمام کوششوں سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔'' (ص306)

2. ''مسجدِ اقصیٰ کی حیثیت یہود کے نزدیک کسی عام عبادت گاہ کی نہیں بلکہ وہی ہے جو مسلمانوں کے نزدیک مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی کی ہے۔ مسلمان اپنی عام عبادت گاہوں کے برخلاف ان دونوں مساجد کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اگر خدا نخواستہ کبھی وہ ان کے ہاتھ سے چھن جائیں اور کسی دوسرے مذہب کے پیروکار اسے اپنی مذہبی یا دنیوی سر گرمی کا مرکز بنا لیں تو ان پر سے مسلمانوں کا حق ختم ہو جائے گا۔ اپنے قبلے کے بارے میں یہ احساسات و جذبات دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے حوالے سے مانا جانے والا یہ اُصول عدل و انصاف کی رو سے دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے لیے بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔کسی قوم کو داخلی احتساب پر آمادہ کرنا ویسے بھی کوئی آسان کام نہیں ،لیکن اس کے ساتھ جب اجتماعی نفسیات میں یہ غرہ (گھمنڈ)بھی ہوکہ ہم تو خداکی آخری شریعت کے حامل اور افضل الرسل کی اُمت ہیں ،جبکہ ہمار امخالف گروہ ایک مغضوب وملعون گروہ ہے ،تو عدل وانصاف اور غیر جانبداری کی دعوت کوئی آسانی سے ہضم ہونے والی چیز نہیں رہ جاتی۔'' (ص307)

3. ''... اسی طرح یہود کی شریعت میں ہیکل کے مقام و حیثیت، اس کی تباہی و بربادی پر ان کے دلوں میں ذلت و رسوائی کے احساسات اور اس کی باز یابی کے حوالے سے ان کے سینوں میں صدیوں سے تڑپنے والے جذبات بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہیں۔ یہ ایک نہایت اعلیٰ، مبارک اور فطری جذبہ ہے اور خود قرانِ مجید یہود سے اُن کے اس مرکزِ عبادت کےچھن جانے کی وجہ ،ان کے اخلاقی جرائم کو قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس امکان کو بھی صراحتاً تسلیم کرتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اور اُن کی آزمائش کے لیے اس مرکز کو دوبارہ ان کے تصرف میں دے دے۔'' (ص308)

بنی اسرائیل اور یہود کے بارے میں قران پاک نے جو کچھ کہا ہے اور دورِ رسالت اور دور ِصحابہ میں یہود نے اپنے جس قبیح کردار کا مظاہرہ کیا، اس کو پیش نظر رکھیں تو یہ سب باتیں عمارخان ناصر کے ڈھکوسلے او ربے پرکی باتیں ہیں۔اس کے باوجود پھر جو کوئی یہ کہے کہ مبغوض و مردود ہونے کی حالت میں یہ ممکن نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمتِ خاصہ سے ان کا مرکز ان کو دوبارہ دلوادیں۔ ہاں اگر یہ اسلام قبول کر لیں اور رسول اللّٰہ ﷺ سمیت تمام انبیا کی نبوت کو تسلیم کر لیں تو دیگر مسلمانوں کے ساتھ مل کر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس پر عمار خان طیش میں آتے ہیں اور لکھتے ہیں:

''یہ ...بالکل بے معنی (بات )ہے ...جب اسلامی شریعت میں یہود کو ایک مذہبی گروہ کے طور پر باقی رہنے اور اپنے مذہب کی پوری آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا حق دیا گیاہے (یہ عمار خان کا غلو ہے یہاں اتنا ہی اشارہ کافی ہے تفصیل کتاب میں ملے گی) اور ان کے مذہبی مقامات و شعائر کے احترام کی تلقین کی گئی ہے تو ان کے اپنے قبلے سے محروم کرنے کی کیا تُک ہے؟ کسی مذہبی گروہ سے یہ کہنا کہ تمہیں اپنے مذہب پر قائم رہنے کا تو پورا پورا حق ہے اور ہماری طرف سے تمہارے مذہبی شعائر و مقامات کو بھی پوری طرح تحفظ حاصل ہو گا ،لیکن اگر تم اپنے قبلے کے ساتھ کوئی تعلق باقی رکھنا اور اس میں عبادت کا حق حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے تمہیں اپنے مذہب سے دستبرداری اختیار کر کے ہمارے مذہب میں آنا ہو گا۔ آخر ایک مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟'' (ص316)

اس عبارت میں عمار خان کا ایک ایک جملہ صرف ایک مذاق ہی کی حیثیت رکھتا ہے۔

جہاد کے بارے میں عمار خان کے نظریات

قرآن وسنت کی نصوص اور ائمہ سلف کے ارشادات کی روشنی میں یہ بات بالکل عیاں ہے کہ دینِ اسلام کی سربلندی اور کفر کی شوکت کو توڑنے کے لیے جہاد قیامت تک باقی رہنے والا ایک مقدس فریضہ ہے ۔ لیکن عمار خان صاحب نے جہاں دیگر بہت سے اُمور میں اُمت کی اجتماعی رائے سے اختلاف کیا ہے، وہیں اُنھوں نے اس فریضے کے حوالے سے بھی اختلاف کیا ہے ۔چنانچہ پوری ملتِ اسلامیہ کے برعکس وہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ غلبہ دین کی خاطر جہاد صرف عہدِ رسالت وصحابہ کے ساتھ خاص تھا جو ان کے ساتھ ہی ختم ہوگیا ہے ۔اب کسی کو بھی قیامت تک محض غلبہ دین کے لیے تلوار اُٹھانے کی اجازت نہیں۔موصوف لکھتے ہیں:

1. '' قرآن و سنت کی نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ اور آپ کے پیرو اہل ایمان کو عہد نبوی کے معروضی حالات کے تناظر میں جہاد و قتال کا حکم دو طرح کے مقاصد کے تحت دیا گیا:

1۔ اہل کفر کے فتنہ و فساد اور اہل ایمان پر اُن کے ظلم و عدوان کا مقابلہ کرنے کے لیے۔

2۔ اور دوسرے کفر و شرک کا خاتمہ اور باطل ادیان کے مقابلے میں اسلام کا غلبہ اور سر بلندی قائم کرنے کے لیے۔'' (ص336)

2. ''اسلامی تاریخ کے صدرِ اول میں نبیﷺ اور آپ کے پیرو کاروں کے ہاتھوں جزیرۂ عرب اور روم و فارس کی سلطنتوں پر دینِ حق کا غلبہ قائم ہو جانے کے بعد غلبہ دین کے لیے جہاد و قتال کے حکم کی مدتِ نفاذ خود بخود ختم ہو چکی ہے۔ یہ شریعت کا کوئی ابدی اور آفاقی حکم نہیں تھا اور نہ ہی اس کا ہدف پوری دنیا پر تلوار کے سائے میں دین کا غلبہ اور حاکمیت قائم کرنا تھا۔ اس کے بعد قیامت تک کے لیے جہاد و قتال کا اقدام دین کے معاملے میں عدمِ اکراہ اور غیر محارب کفار کے ساتھ جنگ سے گریز کے ان عمومی اور اخلاقی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی کیا جائے گا جو قرانِ مجید کی نصوص میں مذکور ہیں۔'' (ص362)

خلفائے راشدین کی جنگی پالیسی اور محدود اہداف

عمار خان صاحب نے اپنے اس خودساختہ نظریہ جہادکا خلفاے راشدین کوبھی پابند کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس کو عمار صاحب خلفائے راشدین کی جنگی پالیسی کا نام دیتے ہیں اور اس کی یہ شقیں بتاتے ہیں:

1. جہاد و قتال سے ان(یعنی خلفائے راشدین) کا مقصد اسلامی سلطنت کی غیر محدود توسیع نہیں تھا ،بلکہ ان کا ہدف صرف رومی و فارسی سلطنتیں تھیں۔

2. رومی اور فارسی سلطنتوں کے خلاف جنگ کی اجازت حاصل ہونے کے باوجود وہ ان کے تمام علاقوں پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ ان کے پیش نظر اصلاً صرف شام اور عراق کے علاقے تھے اور وہ ان سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے تھے۔ (روم سے مراد پوری رومی سلطنت نہیں بلکہ صرف شام کا علاقہ ہے)۔

3. ان علاقوں کو فتح کرنے کے بعد جنگ کو روکنے کا فیصلہ وقتی حالات کے تحت نہیں تھا۔ بلکہ وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسی رکاوٹ حائل ہو جائے کہ نہ دشمن کی فوجیں ان تک آ سکیں اور نہ مسلمان ان تک پہنچ سکیں۔

4. روم و فارس یا ان کے زیر اثر علاقوں کے علاوہ دوسری قوموں کے خلاف اُنھوں نے صرف اسی صورت میں اقدام کیا جب انھوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں دشمن کی مدد کی یا ان کی طرف سے میدانِ جنگ میں آئے۔

5. سمندر کے راستے سے کوئی جنگی مہم بھیجنے کے وہ سرے سے قائل ہی نہیں تھے اور اس کو وہ رسول اللّٰہ ﷺ اور سیدنا ابو بکرؓ کے طریقے کے منافی اور مسلمانوں کی جانوں کو بلا ضرورت خطرے میں ڈالنے کے مترادف سمجھتے تھے۔ (ص392،393)

عمار خان صاحب کے ذکر کردہ یہ تمام نکات جن کو اُنھوں نے خلفاے راشدین کی طرف منسوب کیا ہے سب کے سب غلط ہیں جن کی تفصیلی تردید زیر نظر کتاب میں موجود ہے ۔


حوالہ جات

1. حدود و تعزیرات: 163,164