طائفہ منصورہ اہل حدیث کی مساعی مشکورہ
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی جماعت یا کوئی فرد بشر ایسا نہ ہو گا جسے تمام لوگوں نے اچھا کہا یا سمجھا ہو، لیکن دیکھنا چاہیے کہ کسی جماعت یا فرد کو اچھا یا برا کہنے یا سمجھنے والوں کا اپنا وزن اور قد کاٹھ کیا ہے ۔کیونکہ بہت سے ایسے ناقدین بھی ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ اور اہل اللّٰہ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی وزن نہیں رکھتے، لیکن وہ نفسانیت کی بنا پر آسمانی شریعت کے ستاروں اور ہدایت کے میناروں پر تھوکنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور پہاڑی بکروں کی طرح علم وعمل کے پہاڑوں کو ٹکریں مار مار کر اپنے سینگ اُکھڑوا بیٹھتے ہیں اور اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ صدیوں سے طائفہ منصورہ اہل حدیث کے ساتھ ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے، بتغیر یسیر علامہ آلوسی کے بقول
إذا بلغ الفتيان سماك بفضلهم كانت كعدد النجوم عداهم
رموهم عن حسد بكل كريهة لكــن لا ينقصون عــلاهم1
''جب کچھ خوش نصیب نوجوان اپنی خوبیوں کی بدولت آسمانوں کی بلندیوں کو چھونے لگیں تو موسم برسات کی جڑی بوٹیوں کی طرح اُن کے دشمن نمودار ہونے لگیں گے۔ وہ حسد کی بنا پر اُن پر ہربری بات کا الزام دھریں گے، لیکن وہ اُن کی فلک بوس شان کو گھٹا نہ سکیں گے۔''
حسب ِسابق اس دنیا میں سب سے زیادہ پروپیگنڈا طائفہ منصورہ اہل حدیث کے برخلاف ہو رہا ہے۔ اہل بدعت کے تمام فرقے اُنہیں حشویہ، مجسّمہ، مشبہہ، نواصب، وہابیہ، نجدیہ وغیرہ ناموں سے پکارتے ہیں اور ان کے جذبۂ جہاد وحریّت کو بھسم کرنے اور ان کی دعوت واصلاح اور رجوع الیٰ القرآن والسنہ کو دبانے کے لیے ما سکو، واشنگٹن، دہلی اورتل ابیب کا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا باہم متفق ومتحد ہو چکا ہے۔ اور دن رات ان کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہے، لیکن بقولِ شاعر
نورِ الٰہ ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
رسولِ کریمﷺ نے صدیوں قبل آگاہ فرمایا تھا:
«لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ» وفي رواية «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ»2''میری اُمت میں سے ایک گروہ حق پر قائم اور منصور رہے گا ،اُس کی نصرت سے کترانے اور اُس کی مخالفت کرنے والا اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا۔ یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے ۔''امام ابو الحسن محمد بن عبد الہادی سندھی حنفی اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''طائفہ سے مرادلوگوں کی ایک جماعت ہے اور طائفہ کے لفظ کو یا تو قلت کی وجہ سے نکرہ استعمال کیا گیا ہے یا تعظیم کی وجہ سے کہ ان کی قدرو منزلت عظیم ہے اور ان کی فضلیت وہم وگمان سے بھی بڑھ کر ہے اور یہ لفظ تکثیر کا احتمال بھی رکھتا ہے، کیونکہ وہ قلتِ تعداد کے باوجود کثیر سمجھے جائیں گے اور ہزار کی تعداد رکھنے والے لوگ اُن کے ایک فرد کے برابر بھی نہ ہوں گے اور آپﷺ کے فرمان 'منصورین' سے مراد دلائل وبراہین یا شمشیر وسِنان سے اُن کا فتح یاب ہونا ہے اور مصنّف نے اس حدیث کو اس باب میں ذکر کر کے دلائل وبراہین سے مسلح اہل علم کا گروہ مراد لیا ہے۔''
3اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ گروہ متکلمین میں سے ہے ،یا مقلدین میں سے یا متصوّفین میں سے ہے یا محدثین میں سے۔ اس بحث پر ہم اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے متقدمین ائمہ اعلام اور فقہاے کرام اور صلحاے اُمّتِ محمدیہ کی تحریروں سے صراحت و وضاحت پیش کریں گے جن سے از خود آشکاراہو جائے گا کہ طائفہ منصورہ سے کون لوگ مراد ہیں جو جناتِ عدن میں داخل ہوں گے، اگرچہ دنیا میں اُن کو برے القاب دےکر خون کے گھونٹ پلائے جا رہے ہیں۔
1. چنانچہ چوتھی صدی ہجری کے مشہور امام محمد بن حبان اپنی کتاب صحیح ابن حبان میں اللّٰہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد اس طائفہ منصورہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
''پھر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے مصطفین و اَخیار کے فرامین وآثار کو اُن کی اصلی صورت میں لکھنے اور لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے ایک گروہ کو چن لیا اور اسے اپنے اَبرار کے سنن وآثار کو اپنے اوپر فرض سمجھنے والوں کے راستے پر چلنے کی ہدایت عطا کی اور اس(گروہ کےلوگوں) کے دلوں کو ایمان سے مزین کر دیا اور اس کی زبانوں کو اپنے دین کے اُصولوں کی تشریح اور اپنے رسولِ کریمﷺ کی سنن کی تعلیم وتبلیغ اور اتباع پر لگا دیا ۔چنانچہ اس گروہ نےلوگوں کے اقوال اور نظریات کو ترک کر کے سنن مصطفیٰ کوجمع کرنے کا بِیڑا اٹھایا اور اُن میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے گھر بار اور وطن عزیز کو خیر باد کہہ دیا اور وہ سواریوں پر سوار ہو کر طلبِ حدیث کے لیے چل پڑا ۔وہ اس مقصد کے لیے راویانِ حدیث کے پاس گیا اور ان سے جو کچھ سنا، اسے لکھ لیا اور پھر ان روایات پر آپس میں مذاکرہ ومناقشہ کیا اور اُنہیں اچھی طرح سمجھ کر دین کا اصل قرار دیا اور اس سے فروعاتِ دین کو مدوّن کیا اور اس نے دین اسلام کو نکھار کر اصلی صورت میں پیش کرنے کے لیے متصل اور مرفوع احادیث کو مرسَل اور موقوف احادیث سے الگ کر دیا اور ناسخ سے منسوخ اور محکم (پختہ) سے مفسوخ (شکستہ) روایات کو جدا جدا کر دیا اور مفصّل روایات کو مجمل روایات سے نمایاں کر دیا اور اس پاکباز گروہ نے مختصر روایات کو مطول روایات اورمتفصّیٰ(چھنے ہوئے) آثار سےجڑے ہوئے آثار کو اور عموم احکامات سے مخصوص احکام کو جدا کر دیا اور دلیل سے منصوص اور مزجور (ڈانٹ پڑنے والے) اُمور کو مباح (جائز) اُمور سے شناخت قائم کر دی اور اس نے غریب روایات سے مشہور روایات کو اور فرض اُمور سے رشد ورہنمائی کے اُمور کو جدا کر دیا۔ مزید برآں اس نیک طینت گروہ نے حتمی نوید والے اعمال کو وعید والے اعمال سے الگ الگ کر دیا اور اس نے عادل راویانِ حدیث کی مجروح راویوں سے اور ضعیف راویانِ حدیث کی متروک راویوں سے فہرستیں الگ کر دیں اور اُس نے معمول سے مجہول کی اور محروف سے مخذول کی نشان دہی کر دی اور مقلوب (اصل کے برعکس) سے منحول (غلط طور پر منسوب) کو اور مدلسین کی تدلیس کے آثار ونشانات کو آشکار ااور واضح کر دیا اور اللّٰہ نے اس گروہ کے ذریعے مسلمانوں کے دین کی حفاظت کی اور اس نے خلافِ عقل ونقل موضوع اور ضعیف روایات تلاش کر کے اسلام کو بدنام کرنے والوں سے بچایا۔ اور اس طائفہ منصورہ کو جھگڑوں میں فیصل اور اندھیروں کا چراغ بنایا ،چنانچہ یہ گروہ ہی انبیا کا وارث اور اس کے اصفیا کا محبوب ہے۔''
42. حضرت رسولِ کریمﷺ کے فرامین کے ساتھ اس طائفہ منصورہ کےشغف کی وجہ سے ہی اس کے حقیقی قدردان حضرت خواجہ معین الدین اجمیری نمازِ تہجد میں اپنے حق میں دعا کیا کرتے تھے کہ
اللهم احشرني مع أهل الحديث وزمرتهم يوم القيامة5''اے اللّٰہ! قیامت کے دن میرا حشر اہل حدیث اور ان کی جماعت کے ساتھ کرنا۔''
3. چوتھی صدی ہجری کے مشہوم امام قاضی حسن بن عبد الرحمٰن رامہرمزی طائفہ منصورہ (اہل حدیث) کا دفاع کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
''حدیث سے پرخاش اور بَیر رکھنے اور اہل حدیث سے بغض رکھنے والوں میں سے کچھ افراد نے اصحابِ حدیث کی عزت گھٹانے اور اُنہیں لوگوں کی نظروں میں گرانے کا بِیڑا اٹھا رکھا ہے اور وہ ان کی مَذمت کرنے اور اُن پر بہتان تھوپنے میں انسانیت کی حد سے گذر گئے ہیں ،جبکہ اللّٰہ نے علم حدیث کو شرف بخشا ہے اور اس کے حاملین کو فضیلت عطا کی ہے اور اسے ہر مجلس کا حکَم اور فیصل بنایا ہے اور اسے ہر علم پر اوّلیّت عطا کی اوراس کے حاملین اور اس سے تعلق رکھنے والوں کا نام بلند کر دیا ہے۔ چنانچہ اہل حدیث، دین اسلام کے سائبان کا مرکزی بانس اور ستون ہیں اور روشن دلائل وبراہین کا مینار ہیں۔ وہ اس فضیلت اور اعزاز کے مستحق کیوں نہ ہوں؟ جبکہ اُنہوں نے اُمّتِ محمدیہ کے دین حق کی نگہبانی اور پہرےداری کا فریضہ سر انجام دیا ہے اور تنزیل(آیات) کے شانِ نزول اور اس کے ناسخ و منسوخ اور محکم و متَشابہ کو محفوظ کر لیا ہے اور ہر اس اثر اور حدیث کو رقم ورسم کر لیا ہے جس میں رسول اللّٰہ ﷺ کی شان وعظمت بیان ہوئی ، چنانچہ اُنھوں نے ہی آپﷺ کے مشروع اَعمال کو رقم اور مشاہدات کو مدوّن کیا ہے اور آپﷺ کی نبوت ورسالت کی حقانیت پر دلائل و اَعلام سے بھر پور تصانیف لکھی ہیں اور آپﷺ کی عترت اور آپﷺ کے آباؤ اجداد اور قبیلے کے فضائل ومناقب جمع کرنے کے لیے دنیا بھر کے کتب خانے کھنگال دیے ہیں اور اس مبارک مقصد کی خاطر انھوں نے دستیاب ہونے والی روایات کی تحقیق وتنقیح کی ہے اور ا س کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ اُنہوں نے انبیاے کرام کی سیرتیں اور شہدا کے مقامات اور صِدّيقین کے واقعات بیان کرنے کا شر ف حاصل کیا ہے اور اپنے محبوب پیغمبر محمد ﷺ کے سفر وحضر اور اقامت و رحلت ، سونے اور جاگنے، اشارہ وتصریح، گفتگو اور خاموشی، بیٹھنے اور اُٹھنے، کھانے اور پینے، سواری اور لباس، رِضا مندی اور ناراضی، انکار وقبول جیسے تمام احوال کو محفوظ کر لیا۔ یہاں تک کہ آپﷺ کے ناخن تراشنے اور انھیں کام میں لانے اور ناک سے بلغم خارج کر کے اسے پھینکنے کی جہت تک کو بھی بیان کر دیا اور ان مبارک کلمات کو بھی حفظ کر لیا جو آپﷺ ہر موقع پر کہتے اور اُن پر عمل کرتے تھے۔ یہ سب کچھ اُنھوں نے اس بنا پر کیا کہ اُنھیں آپﷺ کی ذاتِ بابرکات سے انتہا درجے کی مَحبت وعقیدت تھی اور اُنھوں نے اس بات کی شدید خواہش کی کہ ہماری طرح تمام لوگوں کے دل میں آپﷺ کی تعظیم وتوقیر اور آپﷺ کے اعمال وافعال کی قدر وقیمت جاگزیں ہو۔ لہٰذا جو شخص اپنے اوپر اسلام کا حق او ر اپنے دل میں رسول اللّٰہ ﷺ کااحترام رکھتا ہے ، اس کامقام ومرتبہ اس عمل سے بلند ہے کہ وہ ان مبارک ہستیوں کی تحقیر وتوہین کرے جن کو اللّٰہ نے عزت عطا کی ہے او ر ان کے مراتب بلند کیے ہیں اور ان کےدلائل کو غالب اور ان کی فضیلت کو منفرد بیان کیا ہے ،بلکہ ایسا آدمی تو اس سیڑھی پر قدم رکھنا گوارانہیں کرتا جو نبی کریم ﷺ کے ورثا ا و رخلفا او روحی جلی و خفی کے اُمنا اور دین اسلام کے پیمانوں اور قرآن واحکام رسول کے ناقلوں پر لب کشائی کی طرف جاتی ہو اور نہ ہی وہ ان لوگوں کو برا کہنے کا سوچ سکتا ہے جن کا تذکرہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان مبارک کلمات سے کیا ہے :
﴿وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ رَضِىَ اللَّـهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ...﴿١٠٠﴾... سورةالتوبة''اور وہ لوگ جنھوں نے نیک اعمال امیں انصار اور مہاجرین کرام کی پیروی کی اور اللّٰہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللّٰہ سے راضی ہو گئے۔''4. آٹھویں صدی ہجری کے مجدد امام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم المعروف امام ابن تیمیہ طائفہ منصورہ کے منہج کی صداقت پر لاثانی استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''اہل بدعت میں سے ہر فرقہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ شریعت ِاسلام کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے اور رسول اللّٰہﷺ جس دین کو لے کر اُٹھے تھے وہ اسی کا اعتقاد رکھتا ہے اور اسی کو اختیار کیے ہوئے ہے، جبکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اہل حدیث و آثار کے علاوہ دوسرے فرقوں کے حق پر ہونے اور ان کے اعتقاد کے صحیح ہونے کا انکار کر دیا ہے ۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اہل حدیث کے متأخرین اپنے متقدمین سے ہر صدی میں تسلسل کے ساتھ اپنا دین حاصل کرتے ہوئے تابعین تک پہنچ گئے اور تابعین نے اس دین کو صحابہ کرام سے حاصل کیا اور صحابہ کرام نے اس دین کو محمد رسول اللّٰہ ﷺ سے حاصل کیا اور جس سیدھے اور معتدل دین کی طرف رسول اللّٰہ ﷺ نے لوگوں کو دعوت دی، اس کی معرفت حاصل کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ اس طریقے پر چلا جائے جس پر اہل حدیث چلے اور وہ جائزہ جو منہجِ اہل حدیث کے حق پر ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر تم ان کی جدید اور قدیم تصانیف کا اوّل تا آخر مطالعہ کرو گے تو باوجود ان کے ملکوں اور وقتوں کے مختلف ہونے اور ان کے گھروں کے دور دراز ہونے اور ہر ایک کے مختلف برّاعظم میں مقیم ہونے کے اُنھیں اعتقاد کے باب میں ایک ہی طرز اور ایک ہی راستے پر چلتے ہوئے پاؤ گے۔ نہ تو وہ اس راستےسے سر مو منحرف ہوں گے اور نہ ہی دوسرے راستوں کی طرف مائل ہوں گے۔ اعتقاد کے باب میں ان کے دل، ایک ہی دل کی طرح ہیں۔ اس بارے میں ان کی تحریروں میں معمولی سا اختلاف اور فرق نظر نہ آئے گا۔ بلکہ اگر تم ان کی زبانوں سے صادر ہونے والے اقوال اور ان کے اسلاف سے منقول آثار کو جمع کر کے موازنہ کرو گے تو تم ان میں اتنی یکسانیت پاؤ گے کہ گویا وہ ایک ہی دل سے نکلے ہیں اور ایک ہی زبان سے جاری ہوئے ہیں۔ بتایے! کیا اس سےبڑھ کر کسی گروہ کے حق پر ہونے کی دلیل ہو سکتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿أَفَلا يَتَدَبَّرونَ القُرءانَ ۚ وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ اللَّـهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرًا ﴿٨٢﴾... سورة النساء '
'تو کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے، اور اگر یہ (قرآن) غیرِ اللّٰہ کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔''5. اور دوسری جگہ فرمایا:
﴿ وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّـهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّقوا ۚ وَاذكُروا نِعمَتَ اللَّـهِ عَلَيكُم إِذ كُنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخوٰنًا ...﴿١٠٣﴾... سورة آل عمران''اور تم سب مل کر اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللّٰہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔''(اس باب میں ) اہل حدیث کے اتفاق کا سبب یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنا دین کتاب وسنت اور (ثقہ راویوں سے) نقل کے راستے سے حاصل کیا تو اس طریق نے ان کو باہمی اتفاق اور اتحاد کا وارث بنا دیا ،جبکہ اہل بدعت نے دین کو اپنی آرا سے حاصل کیا تو اس عمل نے ان کو فرقہ بندی اور اختلاف کا وارث بنا دیا۔ کیونکہ ثقہ اور حاذق اور پختہ راویوں سے منقول روایات میں اختلاف بہت ہی کم ہے۔ اگر ان میں کسی لفظ یا جملے میں اختلاف بھی ہوا ہے تو وہ دین میں قادح ہے نہ مضر۔ جبکہ آرا اور خیالات و نظریات میں اختلاف ہی اختلاف ہوتا ہے، اتفاق بہت کم نظر آتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ متأخرین اور متقدمین اصحاب الحدیث وہ عظیم لوگ ہیں جنھوں نے ان آثار کی خاطر باقاعدہ رختِ سفر باندھا اور اُنہیں حاصل کر لیا اور انھوں نے آثار واحادیث کو ان کے سرچشموں سے حاصل کیا اور لوگوں کو ان کی اتباع کی طرف دعوت دی اور اپنے مخالفین کی خرابیوں پر تنقید کی۔ان کے پاس آثار و اسانید کی کثرت ہو گئی اور وہ اس فن میں یوں مشہور ہوئے جسے دیگر ماہرین اپنی ایجادات اور مصنوعات سے مشہور ہوتے ہیں۔
پھر ہم نے ایسی قوم دیکھی جس نے ان آثار کو حفظ کرنے اور ان کی معرفت حاصل کرنے میں کم ہمتی دکھائی اور ان میں صحیح اور مشہور آثار و احادیث کی اتباع سے پہلو تہی برتی اور ان کے حاملین کی صحبت سے گریز کیا اور ان آثار پر ردّ وقدح کی اور ان کے حاملین پر طعن وتشنیع کی اور لوگوں کو ان کے حق سے بے اعتنائی برتنے کا مشغلہ اختیار کیا اور ان آثار اور ان کے حفاظ کےلیے بری مثالیں بیان کیں اور انہیں برے القاب سے بدنام کیا اور انہیں نواصب، مشبہہ، مجسّمہ اور حشویہ وغیرہ نام دیے۔
سو ہم نے روشن دلائل اور مضبوط شواہد کی بنا پر پہچان لیا کہ ان کو اس طرح کے نام دینے والے تمام فرقے ہی دراصل ان القاب کے مستحق ہیں ۔''
6میں نے بذاتِ خود مقلد حضرات کو اپنے کانوں سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ احادیث کے مجموعے پنساریوں کی دکانیں اور کباڑخانے ہیں جہاں سے ہر چیز مل سکتی ہے ،جبکہ وہ مقلدین ایسے سفہا کی رکیک تاویلات کے بارے میں اس طرح کا ہذیان نہیں بولتے جو اپنے فقیہ کے غلط استدلال کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآنِ کریم اور احادیث صحیحہ میں لفظی ومعنوی تحریف سے بھی نہیں رکتے۔حالانکہ اصحاب الرائے کی فقہ اصحاب الحدیث کی فقہ کے سامنے پرکاہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔
6. امام احمد بن حنبل بن سنان القطان آج سے صدیوں قبل کتنی سچی بات کہہ گئے ہیں:
«لَيْسَ فِي الدُّنْيَا مُبْتَدِعٌ إِلَّا وَهُوَ يُبْغِضُ أَهْلَ الْحَدِيثِ، وَإِذَا ابْتَدَعَ الرَّجُلُ نُزِعَ حَلَاوَةُ الْحَدِيثِ مِنْ قَلْبِهِ»7''دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہ ہو گا جو اہل حدیث سے بغض نہ رکھتا ہو اور جب کوئی آدمی بدعت شروع کر دیتا ہے تو اس کے دل سے حدیث کی حلاوت کھینچ لی جاتی ہے۔''
حوالہ جات
1. التراتیب الاداریۃ: 1؍80
2. صحیح مسلم : 170؛جامع ترمذی:2192
3. حاشیہ سنن ابن ماجہ :1؍7
4. صحیح ابن حبان : ۱؍۱۰۱
5. تذکرۃ الصالحین از مولانا شمس الدین اکبر آبادی بحوالہ 'تلاش 'از سید مسعود احمد، بی ایس سی، کراچی
6. مختصر الصواعق: ص 496۔499
7. معرفۃ علوم الحدیث للحاکم: ص4