علامہ حافظ محمد زبیر علی زئی ﷫

میرے شیخ ومحسن، مربی، فضیلۃ الاستاذ اور علم حدیث کے ممتاز ماہر، فن اسماء الرجال کے شہ سوار علامہ حافظ محمد زبیر علی زئی ﷫ دارِفانی سے کوچ کرگئے۔

مٹے ناموں کے نشاں کیسے کیسے زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے!!

بروز اتوار،5محرم الحرام 1435ھ؍10نومبر 2013ء،ساڑھے نو بجے میرے بیٹے جابر نے مجھے دامان (ضلع خٹک) سے فون کیا کہ محترم شیخ حافظ زبیر علی زئی وفات پا گئے ہیں۔ إنا لله وإنا إليه راجعون، اللهُمّ أْجُرْني في مصيبتي واخْلُفْ لي خَيرًا مِنْها

''ہم سب اللّٰہ کے ہیں اور ہم نے اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اے اللّٰہ! تو اس مصیبت میں مجھے اجر عطا فرما اور اُس کا نعم البدل عطا فرما۔''

یہ خبر مجھے ریل گاڑی میں اس وقت ملی جب میں شیخ صاحب کی عیادت کر کے کراچی واپس آ رہا تھا۔ اس خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے۔ والدین کی وفات پر بھی غم واَلم ایک فطری بات ہے لیکن محترم شیخ کے بچھڑنے کا جو غم تھا، وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ موصوف کے دنیا سے رحلت کے بعد ایسا لگا جیسے ہم یتیم ہو گئے۔ علم وعرفان اورعمل کا یہ آفتاب بہت جلد غروب ہو گیا تھا، حالانکہ ابھی ہم نے اُن سے بہت کچھ حاصل کرنا تھا۔ شیخ صاحب ہمارا بہت بڑا سرمایہ تھے اور ہم گھر بیٹھے ہی اُن سے علم کے موتی وجواہرات حاصل کر لیا کرتے تھے۔ افسوس اب وہ ہمارا سہارا ختم ہو گیا اور معلومات حاصل کرنے کا وہ عظیم الشان دروازہ بند ہو گیا۔

علماے کرام کا اس طرح دنیا سے اُٹھ جانا ہمارا بہت بڑا نقصان ہے کہ جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ قیامت کی علامات میں سے ایک بڑی علامت یہ بھی ہے کہ علم اور علماے کرام دنیا سے اُٹھتے جائیں گے۔ سیدنا عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:

«إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْ الْعِبَادِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»1

''اللّٰہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے بلکہ وہ علم کو اس طرح اُٹھائے گا کہ (حق پرست) علما کو اُٹھا لے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں (جاہل مولویوں) کو اپنا بڑا (راہبر و راہنما) بنا لیں گے۔ تو لوگ ان سے (دینی معاملات میں) سوالات کریں گے اور وہ بغیر علم کے (اپنی رائے) سے جواب دیں گے۔ اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔''
بچھڑا کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بد ل گئی اِک شخص پورے شہر کو ویران کرگیا
؏ اب ڈھونڈ اُنہیں چراغِ رخِ زیبا لے کر!!

...محترم شیخ صاحب کی عادت تھی کہ وہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے لیے اپنے دستِ راست حافظ شیر محمد کے علاقہ دیر میں جایا کرتے تھے کیونکہ وہ ٹھنڈا علاقہ تھا لیکن گزشتہ رمضان میں شیخ صاحب وہاں بیمار ہو گئے تو اُنہیں اپنے پیرداد حضرو واپس آنا پڑا اور اس دوران علاج معالجہ سے شیخ صاحب کی طبیعت سنبھلنے لگی۔ میں 15 روزہ تبلیغی دورہ میں اپنے ساتھیوں کےساتھ فیصل آباد، مرکز ادارۃ الاصلاح بھائی پھیرو،حافظ آباد، لاہور وغیرہ کا دورہ کرکے اپنے آبائی گاؤں دامان بتاریخ 10 ستمبر 2013ء کو پہنچا تھا۔ دوسرے دن میں نے موبائل پر شیخ صاحب سے گفتگو کی اور اُن کو بتایا کہ میں آج آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ شیخ محترم نے مجھے بتایا کہ میں اس وقت سرگودھا میں ہوں اور میرا قیام وہاں 20 دن تک رہے گا۔ میرا قیام چونکہ ایک ہفتہ تک کا تھا، پھر مجھے کراچی واپس آنا تھا لہٰذا شیخ صاحب سے ملاقات کی آرزو لیے کراچی روانہ ہو گیا۔

جب ہم کراچی سے تھوڑے فاصلے پر تھے تو مجھے ایک میسج آیا جس نے مجھے سخت پریشان کر دیا۔ اس میسج میں تھا کہ شیخ صاحب پر فالج کا اٹیک ہو گیا ہے اور اُنہیں سرگودھا کے ہسپتال میں داخل کر ا دیا گیا ہے۔ اس خبر سے مجھے سخت دھچکا لگا اور ہم نے شیخ صاحب کے لیے دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ شیخ صاحب کو اسلام آباد کے 'الشفا ہسپتال' میں منتقل کر دیا گیا ہے اور وہاں اُن کے دو آپریشن بھی ہوئے۔ اس دوران ملک کے طول وعرض میں دعاؤں کا سلسلہ جاری وساری ہو گیا۔ خطباتِ جمعہ اور نمازوں میں بھی دعائیں ہوتی رہیں۔ میرا دل بے تاب تھا کہ کب شیخ صاحب سے ملاقات ہو گی؟

چنانچہ میں 31 اکتوبر 2013ء کو خیبر میل کے ذریعے راولپنڈی پہنچ گیا اور وہاں سے اسلامک ریسرچ کونسل سنٹر میں کچھ دیر قیام کیا، پھر حافظ شیر محمد صاحب کے ذریعے جنرل ہسپتال راولپنڈی پہنچا اور اس وقت شیخ صاحب آئی سی یو میں داخل تھے اور اُنہیں نلکیاں لگی ہوئی تھی اور وہ بے ہوش تھے۔ اگرچہ شیخ صاحب کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی لیکن ہوش وحواس میں نہ تھے۔ میں نے شیخ صاحب سے بات کرنے کی کوشش کی اور اُنہیں چھوا ، آواز دی لیکن بے سود پھر اُنہیں دم کرنے لگا۔ اس سلسلہ میں سنن ابو داؤد کی ایک روایت بھی میرے پیش نظر تھی جس میں آتا ہے کہ اگر ان کلمات کو مریض کے سرہانے پڑھا جائے تو اللّٰہ تعالیٰ اس مریض کو ضرور شفا دیتا ہے، سوائے موت کے (کہ موت کو کوئی نہیں روک سکتا) وہ کلمات یہ ہیں:

«اسـأل الله العظيم رب العرش العظيم أن يشفيك»

''میں اللّٰہ عظیم سے سوال کرتا ہوں جو عرشِ عظیم کا ربّ ہے کہ وہ آپ کو شفا عطا فرمائے۔''

رات کو میں دوبارہ شیخ صاحب کے پاس آیا اور اُن کا دیدار کرتا رہا اور اس اُمید پر اُنہیں دوبارہ دم کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کو صحت وتندرستی عطا فرمائے۔اور یہ دعا بھی کرتا رہا کہ اے اللّٰہ! ہمارے شیخ کو صحت وتندرسی عطا فرما دے۔ اے اللّٰہ! شیخ ہمارے لیے بہت بڑا سہارا ہیں،ان کی رہنمائی کے بغیر ہم بالکل بے سہارا ہو جائیں گے۔ اے اللّٰہ! ان کو جلد صحت وعافیت عطا فرما۔

شیخ صاحب کے اُستاد، استاذ العلما شیخ محترم حافظ عبد المنان نورپوری ﷫ پر بھی اسی طرح فالج کا اٹیک ہوا تھا اور وہ بھی کئی دنوں تک شیخ زید ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل تھے اور بے ہوش تھے اور اُن کو بھی اسی طرح نلکیاں لگی ہوئی تھیں۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ یہ دونوں علما جو آپس میں اُستاد وشاگرد کے رشتہ میں منسلک تھے، ایک ہی طرح کی بیماری میں مبتلا ہو کر خالق حقیقی سے جا ملے۔

دوسرے دن میں حافظ شیر محمد صاحب کے ہمراہ پیرداد حضرو پہنچا، جو شیخ صاحب کا آبائی گاؤں ہے۔ و ہاں شیخ صاحب کے والد محترم مجدد خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اُن کی عمر اس وقت 100 سے تجاوز کر چکی ہے۔ حافظ شیر محمد صاحب نے مجھے خطبہ جمعہ کا کہا۔ چنانچہ میں نے وہاں خطبہ جمعہ دیا اور وہاں آئے ہوئے دوستوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ شیخ صاحب کے لیے خطبہ جمعہ اور نمازِ جمعہ میں قنوتِ نازلہ میں بھی دعائیں کی گئیں۔ اس کے بعد میں اپنے گاؤں چلا گیا اور بدھ کے دن دوبارہ شیخ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، محترم شیخ صاحب بدستور بے ہوش تھے۔ لگتا تھا کہ وادی چھچھو کا یہ شیر گہری نیند سو چکا ہے۔ میں نے پہلے کی طرح دم ودعا کا سلسلہ جاری رکھا۔ کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ سرگودھا سے مولانا سید محمد سبطین شاہ نقوی ﷾ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تشریف لا رہے ہیں۔ چنانچہ ان علماے کرام سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ دوسرے دن بروز جمعرات میں گوجرانوالہ روانہ ہو گیا، جہاں مجھے مولانا صفدر عثمانی ﷾ کی مسجد میں جمعہ پڑھانا تھا۔ جمعہ کی رات کو بعد نمازِ عشا فضیلۃ الشیخ محترم ارشاد الحق اثری ﷾ کا خطاب تھا۔ شیخ صاحب کے خطاب سے پہلے میں نے عذابِِ قبر کے موضوع پر مختصر بیان کیا۔ شیخ موصوف نے رافضیت پر اپنا علمی مقالہ پیش کیا ۔ نمازِ جمعہ کے بعد میں لاہور روانہ ہو گیا اور رات کو مولانا ارشد کمال کے ہاں قیام کیا۔ اُنہوں نے بروز ہفتہ 9نومبر کا ٹکٹ لے رکھا تھا چنانچہ بروز ہفتہ میں کراچی روانہ ہو گیا۔

دوسرے دن مجھے تقریباً ساڑھے نو بجے یہ خبر ملی کہ کہ محترم شیخ وفات پا گئے ہیں۔ میں 11 بجے اپنے گھر پہنچا اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے معلومات حاصل کیں۔ لیکن اتوار کی وجہ سے تمام ٹکٹ بک ہو چکے تھے۔ میں افسوس ہی کرتا رہ گیا کہ کاش میں وہیں ہوتا اور شیخ صاحب کو اپنے ہاتھوں سے غسل دیتا۔ ان کو کفن پہناتا لیکن یہ سعادت تو اوروں کے لیے لکھ دی گئی تھی۔ بہر حال مسجد سعد بن معاذ ، عمر خان روڈبھٹہ ویلج کیماڑی میں ہم نے محترم شیخ صاحب کا غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کیا اور اس سے قبل مسجد ابراہیم کیماڑی میں نمازِ ظہر کے بعد نمازِ جنازہ غائبانہ ادا کیا گیا تھا۔ اور معلوم نہیں کہ محترم شیخ سے محبت رکھنے والوں نے کہاں کہاں اُن کے لیے نماز جنازہ غائبانہ ادا کیا ہو گا...!

احادیثِ رسولﷺ سے شیخ کی والہانہ محبت واُلفت

ہمارے شیخ حق وصداقت کی علامت تھے۔ جس مسئلہ کا حق ہونا اُن پر واضح ہو جاتا ،اُس پر مضبوطی سے ڈٹ جاتے اور دنیا کی کوئی طاقت اُنہیں اپنے موقف سے نہیں ہٹا سکتی تھی اور وہ اس معاملہ میں کسی لومۃ لائم کی بالکل پرواہ نہ کرتے تھے۔

اپنے بھی خفا مجھ سے، بیگانے بھی ناخوش میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکاقند!

احادیث کی صحّت وسقم کے بارے میں شیخ صاحب کی تحقیقات بہت وسیع تھیں اور ان کی عادت تھی کہ حدیث پر حکم لگانے سے پہلے اس حدیث کی پوری تحقیق فرمایا کرتے تھے اور اس سلسلہ میں اگر اُن سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی اور اُنہیں جب اس کا احساس ہو جاتا تو وہ علانیہ اپنی غلطی سے رجوع فرماتے تھے اور یہ اُن کی بہت بڑی خوبی تھی جو خال خال لوگوں ہی میں نظر آتی ہے۔موصوف کا صحیحین (بخاری ومسلم) کےبارے میں یہ موقف تھا کہ اِن کی تمام مرفوع روایات بالکل صحیح ہیں۔ اگر کسی نے بخاری یا مسلم کی روایت پر اعتراض کیا تو شیخ صاحب اس کا جواب لکھ دیا کرتے تھے۔

سنن اربعہ اور دیگر کتب ِ احادیث میں صحیح کے ساتھ ساتھ ضعیف روایات بھی موجود ہیں چنانچہ اس سلسلہ میں موصوف نے سنن اربعہ پر تحقیق وتخریج کا کام بھی کیا ہے جن میں سے ابوداؤد ، ابن ماجہ اور نسائی کو دار السلام نے شائع کر دیا ہے لیکن سنن ترمذی ابھی تک شائع نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں مشکوٰۃ المصابیح، تفسیر ابن کثیر کو بھی مکتبہ اسلامیہ نے شیخ صاحب کی تحقیق وتخریج کے ساتھ شائع کر دیا ہے۔ نیز شمائل ترمذی شیخ صاحب کی تحقیق وتخریج اور عمدہ فوائد کے ساتھ عنقریب شائع ہونے والی ہے۔

شیخ موصوف نے سنن اربعہ کی ضعیف و موضوع روایات کو بھی ایک جز میں اکٹھا کر دیا ہے جس کا نام أنوار الصحیحة في الأحادیث الضعیفة من السنن الأربعة ركھا ۔ یہ کتاب سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ کی ضعیف روایات کا مجموعہ ہے جس میں ان روایات کے اطراف، راویانِ حدیث ، وجہ ضعف اور مختصر تخریج بھی درج کی گئی ہے۔اس کے علاوہ شیخ موصوف کی درج ذیل کتب بھی شائع ہو چکی ہیں:

1. نصر الباری فی تحقیق جزء القراءۃ للبخار ی

2. جزء رفع الیدین للبخاری

3. تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء للبخاری (عربی)

4. الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین لابن حجر العسقلانی (عربی)

5. جزء علی بن محمد الحمیری (عربی)

6. مسائل محمد بن عثمان ابن شیبہ (عربی)

شیخ موصوف جب کسی روایت پر ضعف کا حکم لگاتے ہیں تو اُس کی وجہ ضعف بھی بیان کر دیتے ہیں کہ یہ حدیث کس وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ بعض لوگ کسی روایت پر حکم لگاتے ہیں لیکن اس حدیث کی وجہ ضعف بھی بیان نہیں کرتے۔ نیز شیخ موصوف جب کسی ایسے راوی پر تحقیق کرتے ہیں اور کچھ محدثین نے اُن پر جرح بھی کر رکھی ہوتی ہے تو موصوف جمہور محدثین کی توثیق کی وجہ سے اسے ثقہ قرار دیتے اور ایک مقالہ میں اُنہوں نے اس کے دلائل بھی ذکر فرما دیے ہیں۔

موجودہ دور میں گمراہ فرقے، ثقہ وثبت رواۃِ حدیث کو اپنی نفسانی خواہشات کی وجہ سے ضعیف باور کرانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں،ایسے باطل فرقوں کے خلاف موصوف کا قلم فوراً حرکت میں آ جایا کرتا تھا۔ حدیث بیان کرنے والے بعض رواۃ ایسے بھی ہیں کہ جنہیں عموماً ضعیف سمجھا جاتا ہے لیکن جب شیخ موصوف نے ان پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جمہور کے نزدیک وہ ثقہ ہیں جیسے مؤمل بن اسماعیل، نعیم بن حماد خزاعی مروزی، محمد بن عثمان بن ابی شیبہ اور شہر بن حوشب وغیرہم۔

اور بعض حدیث بیان کرنے والوں پر بلاوجہ بھی کلام کیا گیا ہے اور موجودہ دور میں ان کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے چنانچہ اس سلسلہ میں شیخ موصوف کے مقالات کی طرف رجوع ضروری ہے۔

احادیث کی تصحیح وتضعیف میں فن تدلیس کا بھی بہت کردار ہے۔ محترم شیخ نے اس سلسلہ میں بہت سے مقالات تحریر فرمائے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی راوی اگر 'مدلس' ہے اور وہ کسی روایت کو عن سے بیان کر رہا ہے تو جب تک کسی دوسری روایت میں اس راوی کے سماع کی تصریح نہیں مل جاتی تو صحیحین کے علاوہ دوسری کتب میں نقل کردہ ایسی روایات ضعیف مانی جائیں گی اور اس بات کی وضاحت اُصولِ حدیث کی کتب میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ بلکہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر کسی راوی نے ایک ہی مرتبہ تدلیس کی ہو گی تو اس راوی کی روایت بھی سماع کی تصریح کے بغیر قبول نہیں کی جائے گی اور اس روایت کو ضعیف ہی مانا جائے گا۔ اورصحیحین کی روایات میں مدلسین کا عنعنہ قابل قبول ہے کیونکہ امام بخاری اور امام مسلم نے وہ معنعن روایات ذکر کی ہیں کہ جن کے سماع کی تصریح دوسرے مقام پر موجود ہوتی ہے۔ اوراس فن پر جن لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں، اُنہوں نے وہاں اس کے ثبوت پیش کردیے ہیں۔ اس سلسلہ میں بعض لوگوں نے بڑی فاش غلطیاں بھی کی ہیں اور کسی جگہ بعض رواۃ کی روایات کو تو ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض راویوں کی روایات کو صحیح قرار دے ڈالا ہے حالانکہ وہ رواۃ بھی مدلسین میں شامل ہیں۔

محترم شیخ نے احادیث کی تصحیح وتضعیف میں اُصولوں کی زبردست پابندی کی ہے اور اس سلسلہ میں اُنہوں نے خوب مطالعہ کرنے کے بعد ہی احادیث کی تصحیح وتضعیف کا کام کیا ہے۔ بعض لوگوں نے دو چار ضعیف احادیث کو ذکر کر کے اور ضعیف+ ضعیف+ ضعیف ذکر کر کے اس حدیث کو صحیح قرار دے ڈالا ہے۔ شیخ موصوف کا اُصول یہ ہے کہ کسی ضعیف روایت کے کتنے ہی ضعیف شواہد کیوں نہ ہوں، وہ حدیث اصلاً ضعیف ہی مانی جائے گی اور وہ اس و قت تک صحیح تسلیم نہیں کی جائے گی جب تک کہ اس کا کوئی صحیح شاہد نہ مل جائے ۔ اس بحث کو مقالات میں دیکھا جا سکتا ہے۔

موصوف کے مقالات 5جلدوں میں اور فتاویٰ علمیہ2 جلدوں میں چھپ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر موصوف کی کتب موجود ہیں۔ جن میں موصوف نے دلائل کے ساتھ صحیح موقف کو واضح کیا ہے اور لوگوں کی قرآن وحدیث کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔

موصوف نے منکرین حدیث کے ردّ میں بھی کتابیں لکھی ہیں۔ مقلدین احناف میں دیوبندیوں اور بریلویوں کے ردّ میں بھی آپ نے بہت کچھ لکھا ہے اور اُن کے ایسے عقائد ونظریات، جوقرآن وحدیث کے خلاف ہیں، اُن پر کھل کر لکھا ہے اور قرآن وحدیث کی طرف اُن کی راہنمائی فرمائی ہے تاکہ وہ غلط عقائد ونظریات کو ترک کر کے خالص اسلام کی شاہراہ پر آ جائیں۔ شیخ موصوف کو اللّٰہ تعالیٰ نے اخلاص بھرا دل عطا فرمایا تھا اور آپ کی کوشش تھی کہ جس طرح اُنہوں نے خود حق وصداقت کو سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے، دوسرے لوگ بھی اس سچائی کی پیروی کر لیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہدایت اللّٰہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہ جیسے چاہتا ہے، صراط ِمستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتا ہے۔

شیخ صاحب کو قرآنِ کریم سے بھی والہانہ محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف نے اس دوران قرآن کو صرف 3 ماہ میں حفظ کر لیا تھا اور پھر اپنے نام کے ساتھ حافظ لکھا کرتے تھے۔

محترم شیخ صاحب شروع میں اپنے والدِ محترم کی وجہ سےحنفی علما سے متاثر تھے کیونکہ ان کے والد جماعتِ اسلامی سے وابستہ تھے۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ ان کے چچا محترم نے اُنہیں ایک مرتبہ صحیح بخاری عنایت کی اور کہا کہ بیٹا! حدیث کی یہ کتاب صحیح ترین کتاب ہے، آپ اس کا مطالعہ ضرور کریں لیکن اس پر عمل نہ کرنا۔ میں حیران رہ گیا کہ جب بخاری شریف حدیث کی سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے تو پھر اس پر عمل سے کیوں روکا جا رہا ہے؟ چنانچہ میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا اور اس پر عمل کرنا بھی شروع کر دیا اور جہاں رفع الیدین کا ذکر آیا ،میں نے اپنے طور پر رفع الیدین بھی کرنا شروع کر دیا۔

شیخ موصوف جدید تعلیم یافتہ بھی تھے۔ اُنہوں نے انگلش میں ایم اے کیا تھا اور فرماتے ہیں کہ میں نے پشتو زبان بھی پڑھی اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے پشتو کی گرامر بھی پڑھی۔ اگر میں اتنی محنت عربی زبان پر کرتا توعربی میں مزید ماہر ہو جاتا۔

موصوف تقریباً 23 سال کی عمر میں دینی علوم کی طرف متوجہ ہوئے۔ شروع میں انہوں نے اپنے اُستاد شیخ اللّٰہ دتہ ﷫سے علم سیکھا اور جہلم میں باقاعدہ پڑھ کر وہاں سے سندِ فراغت حاصل کی۔ موصوف انتہائی ذہین انسان تھے، اس لیے اُنہوں نے چند سالوں میں ہی دینی علوم میں دسترس حاصل کر لی تھی اور پھر اُنہوں نے دینی کتب کا مطالعہ شروع کر دیا جس سے ان کے علم میں نکھار پیدا ہو گیا۔

میں نے 1984ء میں عذابِِ قبر کے منکر ڈاکٹر عثمانی کے ردّ میں ایک کتاب 'الدین الخالص'لکھی تھی جس کا مطالعہ موصوف نے بھی کیا۔ اس وقت تک میری شیخ صاحب سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔ شیخ نے مجھے خط لکھا اور اس میں میری ایک غلطی کی نشاندہی کی میں نے ایک محدث ابواحمد الحاکم کے متعلق لکھا کہ وہ متسا ہل ہیں شیخ صاحب نے بتایا کہ ابو احمد الحاکم متساہل نہیں ہیں بلکہ وہ ابو عبد اللّٰہ الحاکم صاحب مستدرک ہیں کہ جو متساہل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محترم شیخ صاحب کے علاوہ کسی دوسرے عالم نے میری اس غلطی کی نشاندہی نہ کی تھی۔ پھر شیخ صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا کہ شروع میں، مَیں قبر میں سوال وجواب کے وقت اعادۂ روح کا قائل نہ تھا لیکن آپ کی کتاب کے مطالعہ کے بعد میں اعادۂ روح کا قائل ہو گیا۔

شیخ صاحب ایک مرتبہ کراچی تشریف لائے تھے۔ کمال عثمانی صاحب نے ان سے کہا کہ آپ نمازِ جمعہ کے بعد ڈاکٹر عثمانی سے بات کرنے کے لیے تشریف لے جائیں اور اُن سے سوال کریں کہ اُنہوں نے امام احمد بن حنبل﷫ کو کس دلیل کی بنیاد پر کافر قرار دیا ہے؟ (نعوذ باللّٰہ من ذلک) ڈاکٹر عثمانی کا دعویٰ تھا کہ چونکہ امام احمد بن حنبل﷫ کا یہ عقیدہ تھا کہ قبر میں سوال وجواب کے وقت روح لوٹائی جاتی ہے، اس بنا پر میرا ان کے بارے میں یہ موقف ہے۔ اور دلیل کےطور پر ڈاکٹر موصوف نے امام احمد کی طرف منسوب 'کتاب الصلوٰۃ' کا حوالہ دیا تھا اور حوالہ کے طور پر اُنہوں نے دیوبندی عالم مولانا سرفراز خان صفدر کی کتاب 'تسکین الصدور' کا عکس دیا تھا جبکہ کتاب الصلوٰۃ میں یہ مسئلہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور پھر کتاب الصلوٰۃ کا انتساب بھی امام احمد بن حنبل کی طرف درست نہیں ۔ یہ کتاب ان کی طرف منسوب ہے لیکن درحقیقت یہ کتاب اُن سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ طبقاتِ حنابلہ میں اعادۂ روح کی بات موجود ہے لیکن اس کی سند میں کئی رواۃ مجہول ہیں2۔ جب موصوف وہاں تشریف لے گئے اور ڈاکٹر عثمانی سے سوال کیا کہ آپ نے کس دلیل کی بنیاد پر امام احمد بن حنبل کو کافر کہا ہے؟ اس کا ثبوت پیش کریں۔

ڈاکٹر عثمانی نے شیخ صاحب کو ٹالنے کی بہت کوشش کی لیکن شیخ صاحب نے ان سے مطالبہ کیا کہ آپ طبقاتِ حنابلہ لائیں تاکہ میں آپ کو بتاؤں کہ اس سند میں کیا خامی ہے۔ ڈاکٹر عثمانی کہنے لگا: تم الف ب تو جانتے نہیں کل کے بچے ہو (اس کا خیال تھا کہ شیخ صاحب کوعربی نہیں آتی ہوگی) شیخ صاحب نے ڈاکٹر عثمانی سے عربی میں گفتگو شروع کردی شیخ صاحب روانی سے عربی بول رہے تھے جبکہ ڈاکٹر عثمانی اٹک اٹک کر گفتگو کر رہے تھے۔ جب ڈاکٹر عثمانی زچ ہوگیا تو کہنے لگا کہ اُردو میں بولو، ورنہ یہیں بات چیت ختم کر دوں گا۔ شیخ صاحب کا وہی مطالبہ تھا کہ کتاب پیش کرو کیونکہ آپ نے اتنا بڑا فتویٰ لگایا ہے۔ ڈاکٹر عثمانی نے پینترا بدل کر کہا کہ میاں! تم کتاب کیوں نہیں لائے؟ شیخ صاحب نے کہاکہ دعویٰ آپ کا ہے، کتاب میں کیوں لے کر آؤں؟ اور آخر میں ڈاکٹر عثمانی نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ جب تم کتاب لاؤ گے تو پھر گفتگو ہو گی۔ اس گفتگو میں ڈاکٹر عثمانی نے چالاکی کی حد کر دی لیکن اپنا دعویٰ وہ ایک عالم دین کے سامنے ثابت نہ کر سکے۔ شیخ صاحب اپنے ساتھ ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکاڈر بھی لے گئے تھے لیکن اس میں صحیح ریکاڈنگ نہ ہو سکی تھی۔ اللّٰہ کی قدرت دیکھیے کہ ڈاکٹر عثمانی کے ہی ایک مرید سے صاف ریکارڈنگ مل گئی جو پھر بعد میں کئی لوگوں نے سن کر اپنے نظریات اور امام احمد بن حنبل پر بہتان کی اصلاح کی۔ یہ واقعہ غالباً 1985ء میں کا ہے۔ اس وقت شیخ صاحب کی عمر 27 سال کے لگ بھگ تھی۔

شیخ صاحب کو علامہ بدیع الدین شاہ راشدی اور ان کے بھائی سید محب اللّٰہ راشدی رحمہم اللّٰہ سے بے انتہا محبت تھی اور ان دونوں شیخین سے اُنہوں نے اجازتِ حدیث کی سند بھی حاصل کی تھی اور پھر مجھے بھی کہا کہ آپ بھی ان سے 'اجازۂ حدیث' حاصل کر لیں۔ چنانچہ میں نے بھی ان دونوں بزرگوں سے 'اجازۂ حدیث' حاصل کر لی۔ شیخ موصوف نے اپنے رسالہ 'الحدیث' میں ان دونوں بزرگوں کا مفصل تذکرہ کیا ہے اور پھر اپنے مقالات میں بھی ان کے تذکروں کو نقل کیا ہے۔3

میں نے 1989ء میں کتاب 'الفرقۃ الجدیدۃ' لکھی جو فرقہ مسعودیہ کے ردّ میں تھی۔ اور اس کتاب میں شیخ صاحب کے ایک مضمون کو میں نے بطورِ مقدمہ شامل کتاب کر لیا تھا۔شیخ صاحب نے میری اس کتاب کو بے حد پسند کیا اور شیخ صاحب جو مضمون فرقہ مسعودیہ کے ردّ میں لکھتے، اس میں میری کتاب 'الفرقۃ الجدیدۃ' کو پڑھنے کی خاص تاکید فرماتے۔اس کتاب میں ذکر کردہ احادیث کی تحقیق وتخریج کا کام بھی شیخ صاحب نے فرمایا تھا۔ شیخ صاحب نے میرا ایک مضمون 'بے اختیار خلیفہ کی حقیقت'بھی الحدیث کے شمارہ نمبر 22 میں شائع فرمایا تھا اور اس مضمون کو اُنہوں نے بے انتہا پسند فرمایا اور اس کا پروف بھی مجھے تصحیح کے لیے بھیجا تھا۔

موصوف نے ماہنامہ 'الحدیث' کا آغازجون 2004ء سے فرمایا تھا اور اب نومبر 2013ء میں اس کا شمارہ نمبر 111 آ چکا ہے۔ اس رسالہ کو بعد میں ماہنامہ 'اشاعۃ الحدیث' کا نام دے دیا گیا۔ 9 سال کے اس عرصہ میں موصوف کے قلم سے ایسے علمی وتحقیقی مضامین منظر عام پر آئے کہ جس نے علمی دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موصوف نے اپنے آپ کو دین کے کام اور خدمت ودفاعِ حدیث کے لیے وقف کر دیا تھا۔ موصوف نے یہ علمی وتحقیقی کام قرآنِ کریم اور حدیثِ رسول ﷺکے اس فرمان کے مطابق شروع کیا تھا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا...٦﴾... سورۃ الحجرات

''اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔ ''(اور تحقیق کےبعد ہی اسے لوگوں کےسامنے پیش کرو)

اور نبی ﷺ کافرمان ہے :

«كفٰى بالمرء أن يحدّث بكل ما سمع»4

''کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر ے۔ (اور اس کی تحقیق نہ کرے)''

شیخ صاحب نے اس عرصہ میں بے شمار علمی وتحقیق مضامین لکھے جن میں سےبہت مضامین اُنہوں نے ماہنامہ 'اشاعۃ الحدیث' میں شائع کر دیے۔ اور اب یہ تمام مضامین کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکے ہیں اور دین حق کے پروانے ان مضامین سے اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔ شیخ صاحب کی اکثر کتب کو لاہور میں مکتبہ اسلامیہ ، اردو بازار والے مولانا محمد سرور عاصم شائع کرتے رہے۔ ان کتابوں سے شرک وکفر، بدعات اورتقلید جامد کے اندھیرے چھٹنے لگے اور لوگوں کے قافلے قرآن وحدیث اور توحید وسنت کی طرف رواں دواں ہو ئے اور اللّٰہ تعالیٰ نے نورِ ایمان اور نورِ قرآن وحدیث سے لوگوں کے سینوں کو منو ر کرنا شروع کر دیا ۔

اللّٰہ تعالیٰ سے اُمید واثق ہے کہ شیخ صاحب کی یہ تمام تگ ودو اسلام کے چشمہ صافی کو تیز تر کرنے اور اس کی نشأۃِ ثانیہ کے لیے خالص بنیاد کا کام کرے گی ۔ شیخ صاحب تو دنیا سے روانہ ہو چکے لیکن ان کا مشن سنبھالنے کے لیے ان کے شاگرد میدانِ عمل میں مصروف ہیں۔ شیخ صاحب کی جدائی کا صدمہ یقیناً ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے لیکن شیخ صاحب جو دینی اثاثہ چھوڑ گئے ہیں، وہ ہمارے لئے تقویت کا زبردست سہارا ہے۔ گویا شیخ محترم ہم سے جدا ہونے کے بعد ہمارے درمیان زندہ ہیں، ان کے ورثہ کی حفاظت اللّٰہ کی مدد سے ان کے شاگرد اور ساتھی کریں گے اور کتاب وسنت کی جس شاہراہ پر آپ زندگی بھر مصروف اور گامزن رہے ہیں، اللّٰہ کی توفیق سے ہم اس راہ کو کھوٹا نہ کریں گے بلکہ یقین محکم کے ساتھ علم کی اس راہ پر رواں دواں رہیں گے۔

شیخ محترم نے جو کچھ محنت فرمائی ہے، اسے وہ اپنے پیچھے صدقہ جاریہ بنا کر چھوڑ گئے ہیں۔ محترم شیخ نے طلبا وطالبات کے لیے اپنے ہاں مدرسہ کی بنیاد بھی رکھ دی تھی اور یہ قافلہ بھی اب اپنی منزلیں طے کر رہا ہے اور یہ ننھے ننھے پودے بھی ان شاء اللّٰہ بارآور درخت بن جائیں گے اور محترم شیخ صاحب کےلیے صدقہ جاریہ کا کام کرتے رہیں گے۔

ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ محترم شیخ ہمیں اتنے جلدی چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ان کی رفاقت کے لمحات یقینی طور پر یاد آتے رہیں گے۔ان کا حسین اور منور چہرہ نظروں کے سامنے جب آتا ہے تو دل کو طمانیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کی گفتار ورفتار اور نشست وبرخاست ہر لمحہ یاد آتی رہے گی۔ جانے والے تم ہمیں بہت یاد آؤ گے!!

شیخ محترم کو جو مقام اللّٰہ تعالیٰ نے عنایت فرمایا، اسے کسی شاعر نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:
ایں سعادت بزروبازونیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ

''ایسے مراقب بزورِ بازو حاصل نہیں ہوتے بلکہ محض اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے۔''

ایسے علما ے کرام جو راسخون فی العلم کے درجہ پر فائز ہیں، دنیا ان کے وجود سے خالی ہوتی جا رہی ہے، شیخ صاحب کا شمار ان نابغہ روزگار ہستیوں میں ہے کہ ایسے علما صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔آپ کے شاگردانِ باوفا آپ کو اپنی دعاؤں میں ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔ نبی کریمﷺ نے اپنے جان نثار ساتھی سیدنا ابو سلمہ کی موت پر جو دعا مانگی تھی، ہم بھی محترم شیخ صاحب کے لیے وہی دعا مانگتے ہیں:

اللهم اغفر لحافظ زبير عليزئي وارفع درجته في المهديين واخلفه في عقبه في الغابرين واغفرلنا وله يا رب العالمين وافسح له في قبره ونور له فيه

''اے اللّٰہ! حافظ زبیر علی زئی﷫ کی مغفرت فرما ، ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کا درجہ بلند فرما، اس کے پیچھے باقی رہ جانے والوں میں تو اس کا خلیفہ بن جائے۔ تمام جہانوں کے پروردگار! ہمیں اور اسے بخش دے، اس کی قبر کو کشادہ فرما اور اسے (نور سے) منور فرما۔''

شیخ صاحب کے اہل وعیال اور عزیز واقارب سے ہم اِنہی الفاظ سے تعزیت کرتے ہیں۔ اے اللّٰہ! ہمارے شیخ حافظ زبیر علی زئی کی مغفرت فرما ، اُن کی لغزشوں کو معاف فرما اور جنت الفردوس میں ان کو اعلیٰ مقام نصیب فرما۔ آمین!
حوالہ جات

1. صحیح بخاری: 7307

2. دیکھیے میری کتاب الدین الخالص : قسط دوم؍ص22، 23

3. دیکھیے:مقالات حصّہ اول 484تا 506

4. صحیح مسلم:5