جامعہ لاہور الاسلامیہ میں مُبارک لمحات

ایم فِل کلاسز کا آغاز ... ائمہِ مسجدِ نبویؐ کی تشریف آوری... ماضی اور حال

کسی بھی ادارے، اس کے بانیان ومنتظمین اورمنسوبین کے لئے حقیقی مسرّت کے لمحات وہ ہوتے ہیں جب وہ ادارہ اپنے پیش نظر مقاصد کی طرف احسن انداز میں پیش قدمی کرے اور اس میں ترقی ہوتی نظر آئے۔ ایسے ہی خوشی کے لمحات جامعہ لاہور الاسلامیہ میں بھی آئے جب اس ادارے میں علوم اسلامیہ کے ایسے اعلیٰ تعلیمی مراحل کا آغاز ہوا جو سرکاری طور پر منظور شدہ ہیں اور یہ اعزاز برصغیر پاک وہند کی کسی بھی اسلامی درسگاہ کو سب سے پہلے حاصل ہوا ہے...!!

جامعہ میں مؤرخہ2؍نومبر 2013ء کو ایم اے کے بعد، ایم فل(ایم ایس؍ماجستیر) کی پہلی کلاس کا باقاعدہ آغاز ہوا، جو آخر کار تعلیم وتحقیق کی آخری سند یعنی پی ایچ ڈی کی طرف پیش قدمی اور اُس کا مقدمہ ہے۔اس کلاس میں پچیس طلبہ کو علوم قرآن، علوم حدیث، عربی زبان وادب اور بحث وتحقیق کے کورسز نامور اہل علم وفضل پڑھا رہے ہیں، جو اس اعلیٰ تعلیمی مرحلے کے تقاضوں کے مطابق طویل تدریسی وتحقیقی تجربہ کے حامل اور پی ایچ ڈی کے سندیافتہ ہیں۔

جامعہ ہذا میں ایم فل کی یہ تعلیم جہاں لاہور کی دیگر پرائیویٹ یونیورسٹیوں مثلاً سنٹرل پنجاب یونیورسٹی،یو ایم ٹی، سپیرئیر اورلیڈز یونیورسٹی وغیرہ سے بہتر ہے، وہاں اس کے علمی پایہ اور مقام ومرتبہ کا معاصر یونیورسٹیوں سے مقابلہ کرنا بھی زیادتی ہے۔علوم اسلامیہ کے حوالے سے جامعہ لاہور الاسلامیہ چالیس برس سے میدانِ علم وتحقیق میں سرگرم ہے اور اُس کے فضلا دنیا بھر میں اپنی نامور خدمات کی بنا پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ نیز جامعہ کے طلبہ عالمی اسلامی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ امتیازات اور مختلف فیکلٹیوں میں اوّل پوزیشن سے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔جہاں تک سرکاری اعتراف کی بات ہے تو جامعہ ہذا کے اس وقت عالم عرب کی ممتاز ترین یونیورسٹیوں مثلاً ازہر یونیورسٹی مصر، مدینہ منورہ یونیورسٹی، امام یونیورسٹی ریاض وغیرہ ، عالم اسلام میں انٹرنیشنل مدینہ یونیورسٹی ملائیشیا، آلِ بیت یونیورسٹی اُردن کے علاوہ، پاکستان کی معروف سرکاری یونیورسٹیوں مثلاً بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ، لاہور یونیورسٹی برائے خواتین اور سرگودھا یونیورسٹی سے مضبوط تعلیمی معاہدات ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ روز افزوں ہے۔ واضح ہے کہ عالمی اور سرکاری یونیورسٹیوں سے تعلیمی معاہدات کی حامل اسناد، نجی منظور شدہ یونیورسٹیوں کی سندوں سے زیادہ اعتبار ومقام رکھتی ہیں کیونکہ سرکاری سند ہونے کے ناطے اُنہیں کسی بھی مقام پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیمی سال 2013ء-2014ء کے لئے سرکاری طورپر سات شعبوں میں ایم اے(اُردو، عربی، انگریزی، اکنامکس، اسلامیات، ابلاغیات)،3 ڈسپلن میں بی ایس، اور مینجمنٹ، کامرس اور کمپیوٹرسائنسز میں بیچلر ، بی ایس سی اور ماسٹر کی سطح کے پروگرام جاری کرنے کی صلاحیت حاصل ہے۔

جامعہ ہذا کیلئے یہ امر بھی باعثِ افتخار ہے کہ ' فیڈریشن آف یونیورسٹیز آف اسلامک ورلڈ' کے چیئرمین ڈاکٹر سلیمان عبد اللّٰہ اباالخیل، جو امام یونیورسٹی الریاض کے چانسلر اور معروف علمی ودینی شخصیت ہیں، کو سعودی حکومت نے گذشتہ سال 12 مئی 2012ء کو جامعہ ہذا کے نائب الرئیس کے طورپر متعین کرتے ہوئے دونوں جامعات کے مابین 11نکاتی وقیع معاہدۂ اتفاق وتعاون کی بھی منظوری 1دی ہے اور جامعہ کے بعض اہم منصوبہ جات کی تکمیل میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد بایں طور معاون ہے کہ اس کے پروچانسلر بھی مذکورہ بالا شخصیت ڈاکٹر اباالخیل ہی ہیں اور اُ س کے موجودہ چیئرمین، امام یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار معروف عالم وفقیہ ڈاکٹر عبدالرحمٰن یوسف الُدریویش ، دونوں اداروں کے مشترکہ تعلیمی مقاصد اور ترقی کے لئے بے حد پرجوش ہیں۔

جامعہ ہذا میں فی الحال ایم فل کی تعلیم کا آغاز علوم اسلامیہ اور اسلامک اکنامکس کے میدانوں میں کیا گیا ہے۔جبکہ جامعہ کی اپنی جاری شدہ اسناد کم وبیش تین دہائیوں سے سعودی عرب میں منظور شدہ ہیں۔ جامعہ ہذا برصغیر پاک وہند کا وہ واحد غیرسرکاری ادارہ ہے ، جس کی ہائرسکینڈری یعنی انٹر کی اسناد کو سعودی وزارتِ تعلیم کی طرف سے 1984ء میں انٹر ؍ہائر سیکنڈری کے مساوی تسلیم کرکے،سعودی یونیورسٹیوں میں طلبہ کے داخلہ کے لئے منظور کر رکھا ہے۔ماضی میں جامعہ کی اس سند پر، جو مڈل کے بعد چار سالہ تعلیم کے بعد دی جاتی ہے ، سیکڑوں طلبہ سعودی جامعات میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں، اور انہی دنوں مدینہ منورہ یونیورسٹی میں سات طلبہ کو تعلیمی سکالر شپ برائے تعلیمی سال 1435ھ حاصل ہوا ہے۔ گویا اس طرح پنجاب بھر میں کسی بھی ادارے کو حاصل ہونے والا یہ سب سے بڑا سعودی سکالر شپ ہے۔ مزید برآں جامعہ میں مڈل کے بعد آٹھ سالہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو دی جانے والی سند کو ، سعودی عرب کی منسٹری آف ہائر ایجوکیشن، 1986ء سے ایم اے کے برابر تسلیم کرکے، اس کی بنا پر سندیافتہ طلبہ کو ایم فل یعنی ماجستیر میں براہِ راست داخلہ کی منظوری دے چکی ہے۔ کسی بھی غیرحکومتی ادارے کے لئے سعودی نظام تعلیم سے ہم آہنگی اور اعتراف کی یہ سب سے بڑی مثال ہے۔

جامعہ لاہور اسلامیہ کا آغاز چالیس برس قبل عالم اسلام کی معروف ترین جامعہ، مدینہ یونیورسٹی سے فیض پانے والے ان چند مدنی علما وفضلا نے کیا تھا، جو 1962ء میں اس یونیورسٹی کے آغاز کے بعد پہلے پہل وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے۔ مدینہ منورہ یونیورسٹی عالم اسلام کے نامور اساطین علم کی مشترکہ تدریسی وتنظیمی کاوشوں اور مشاورتوں کے ساتھ مدینۃ الرسولﷺ میں اُمّتِ اسلامیہ کے ذمّے عائد تعلیم دین کے فریضہ سے عہدہ برا ہونے کے لئے قائم کی گئی تھی اور مفتی دیارِ سعودیہ شیخ امام محمد بن ابراہیم اور سابق مفتی اعظم جنہیں اس وقت امام عبد العزیز بن باز﷫ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کے اوّلین وائس چانسلرز تھے۔ اُن کی سربراہی میں دنیا بھر سے بلائے جانے والے نامور علما وفقہا اس یونیورسٹی کے اوّلین اساتذہ کرام قرار پائے۔

پاکستان سےمدینہ منورہ یونیورسٹی میں سب سے پہلا تعلیمی سکالر شپ حضرۃ العلام ، مجتہد العصر حافظ عبد اللّٰہ محدث روپڑی﷫کے زیر انتظام چلنے والے جامعہ اہل حدیث، لاہور کو حاصل ہوا، اور اسی جامعہ کے تین طلبہ، جو محدث روپڑی کے ممتاز شاگرد تھے، سب سے پہلے 1963ء میں علماے پاکستان کی ایک نمائندہ پروقار تقریب میں اس مبارک مقصد کےلئے مدینۃ الرسولؐ عازمِ سفر ہوئے۔ ان تین علما کے اسماے گرامی شیخ الحدیث حافظ ثناء اللّٰہ مدنی ﷾، مولانا ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی﷾اور مولانا عبد السلام کیلانی مدنی  ہیں۔ ان علما نے مدینہ منورہ سے واپسی پر، ایک طرف 'محدث' کے نام سے تحقیقی مجلّہ جاری کیا۔ مولانا کیلانی نے اوّل الذکر کے گاؤں سرہالی کلاں، قصور میں بیٹھ کر مجلّہ کا یہ مبارک نام تجویز کیا،جس کی عملی ذمہ داری مولانا عبد الرحمٰن مدنی 43 برس سے پوری کررہے ہیں۔دوسری طرف تعلیم وتدریس کے میدان میں رحمانیہ کے نام سے ثانوی درجہ کی دینی درسگاہ سے آغاز کیا گیا جس میں متعدد کبار علما کے ساتھ تینوں شخصیات درس وتدریس کے فرائض انجام دیتی رہیں۔'محدث' اور 'رحمانیہ' کا نام اختیار کرنے کی وجہ اس مبارک تسلسل کا احیا بھی ہے جو قیامِ پاکستان سے قبل جماعت اہل حدیث کی مایہ ناز درسگاہ 'دار الحدیث رحمانیہ ،دہلی' کے ذریعے پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلا۔ اُس درسگاہ سے بھی 'محدث' کے نام سے ماہوار مجلّہ 1932 سے 1943ء تک شائع ہوتا رہا جس کے مدیروں میں 'مرعاۃ المفاتیح' کے نامور مؤلف مولانا عبید اللّٰہ رحمانی مبارکپوری اور نائب امیر جماعتِ اسلامی ، مولانا عبد الغفار حسن رحمہم اللّٰہ کے اسماے گرامی قابل ذکر ہیں۔دہلی میں یہ درسگاہ بڑے علمی جاہ وجلال سے سرگرمِ عمل تھی حتیٰ کہ قیام پاکستان کے ہنگاموں میں اس کی خدمات ماند پڑتے پڑتے آخر کار ختم ہوگئیں۔ حافظ عبد اللّٰہ محدث روپڑی اور اُن کے چھوٹے بھائی حافظ محمد حسین روپڑی، اس درسگاہ کے نصاب ساز اور ممتحن ہوا کرتے ۔ محدث کے مدیر اعلیٰ حافظ عبد الرحمٰن مدنی ، حافظ محمد حسین روپڑی کے فرزند اور اپنے والد وچچا حافظ عبد اللّٰہ محدث روپڑی کے شاگردِ خاص ہیں جنہوں نے مدینہ منورہ یونیورسٹی سے تعلیم پانے کے بعد روپڑی کی بجائے ، اس سے مبارک تر نسبت 'مدنی' اختیار کرلی۔

حضرت مولانا حافظ ثناء اللّٰہ مدنی﷾ جامعہ ہذا کے کم وبیش 30 برس سے شیخ الحدیث اور مفتی کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اور آج پاکستان بھر میں اُستاذ الاساتذہ اور 'مفتی اہل حدیث' کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ حافظ صاحب موصوف چند برسوں سے عرب دنیا : ریاض، کویت،امارات اور امریکہ وغیرہ میں عرب اساتذۂ حدیث کو حدیث کی ممتاز کتب کا دورۂ حدیث بھی کرواتے ہیں اور اس میں ہزاروں کی تعداد میں اہل علم شریک ہوتے ہیں۔ریاض شہر میں ہونے والی ایسی ایک مبارک محدثانہ مجلس کا تذکرہ دار السلام کے مینیجنگ ڈائریکٹر مولانا عبد المالک مجاہد نے اپنے زیر ادارت مجلّہ 'ضیاے حدیث' لاہورکے جولائی 2013ءکے شمارہ میں ادارتی صفحات پر بالتفصیل کیا ہے، جس میں اس مجلس کی علمی شان وشوکت اور شیخ الحدیث مدنی ﷾ کی عالمانہ تدریس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی، ایک نامور دینی خاندانِ روپڑیہ کے فرزند ہونے کی بنا پر، مدینہ منورہ یونیورسٹی سے واپسی پر، پاکستان میں ایسی ہی ایک یونیورسٹی کے قیام کے لئے یکسو ہوگئے جس میں اسی درجہ کی تعلیم اور وہی وسیع تر علمی وفکری منہج اختیار کیا جائے جو مسلکی تعصّبات سے بالاتر ، اسلام کی مکمل ترجمانی اور اس پر ہونے والے حملوں کا دفاع کرتا ہو۔اُن کے والدِ گرامی شیخ الحدیث حافظ محمد حسین روپڑی ﷫کی وفات پر 1959ء میں اُن کے چچا حافظ عبد اللّٰہ محدث روپڑی نے اُنہیں جامعہ اہل حدیث، لاہور کا منتظم مقرر کیا تھا۔ محدث روپڑی کی 1964ء میں وفات کے بعد آپ معروف مناظر اسلام اور اپنے تایا زاد بھائی حافظ عبد القادر روپڑی ﷫ کی معیت میں جامعہ اہل حدیث کا انتظام وانصرام کرتے رہے اور وہاں سے شائع ہونے والے 'تنظیم اہل حدیث ' کی ادارت کے فرائض بھی ساٹھ کی دہائی میں انجام دیتے رہے۔

ادارہ جاتی اُمور اور 'تنظیم اہل حدیث' کی ادارت کے تجربوں نے 'رحمانیہ' کی تشکیل اور 'محدث 'کی تعمیر وترقی میں اُنہیں خوب فائدہ پہنچایا۔محدث کے قارئین اور جامعہ کے فضلا، اس چالیس سالہ جدوجہد سے گاہے بگاہے واقف ہوتے رہتے ہیں جس کو اپنی علمی زندگی میں جناب مدیر اعلیٰ 'محدث' نے نصبُ العین بنائے رکھا۔ آئندہ سالوں میں رحمانیہ کے نام سے یہ ادارہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نام سے ترقی پانے لگا اور رحمانیہ اُس کے ہائرسیکنڈری؍ثانوی مرحلہ کا نام برقرار رہا۔ اس ادارے میں 1978ء میں مدینہ یونیورسٹی کی طرز پر پاکستان کا سب سے پہلا 'کلیۃ الشریعہ' قائم ہوا جو قانون وشریعت کی مہارت اور عدل وانصاف کے اسلامی ماہرین کی تیاری کے لئے مختص ہے اور1992ء میں سب سے پہلا کلیۃ القرآن الکریم قائم ہوا جس کا مقصد علوم قرآن اور تفسیر وقراءات میں کلام الٰہی کو مرکزی حیثیت سے پڑھانا تھا۔ جامعہ لاہور الاسلامیہ جہاں برصغیر کی روایتی درسگاہوں سے مختلف اورعالم عرب کی جامعات کی طرز پر پاکستان میں پہلا پہلا تجربہ تھا، وہاں ان چالیس سالوں میں اس کے فضلا کو سعودی جامعات میں سب سے زیادہ سکالر شپ بھی حاصل ہوے جس کی تعداد سیکڑوں تک پہنچتی ہے۔

اس وقت جامعہ لاہور الاسلامیہ، لاہور میں تین بڑے مراکز میں جو مختلف مراحل تعلیم کے لئے مختص ہیں، پھیلا ہوا ہے۔ 'جامعہ لاہور الاسلامیہ ،البیت العتیق' کے نام سے واپڈا ٹاؤن کے قرب میں وسیع تر ادارہ حفظِ قرآن اور ثانوی درجہ یعنی ایف اے تک کی معیاری تعلیم کے لئے ڈاکٹر قاری حافظ حمزہ مدنی کی قیادت میں کام کررہا ہے۔ یہاں سیکڑوں کی تعداد میں رہائشی طلبہ علوم اسلامیہ کی تحصیل میں مشغول ہیں اور پچیس سے زائداساتذہ وعلماے کرام ، جامعہ میں ہمہ وقت موجود رہ کر مستقبل کے علما کی علمی وعملی تربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

'جامعہ لاہور الاسلامیہ ، رحمانیہ' کےنام سے گارڈن ٹاؤن میں قائم ادارہ راقم الحروف کی نگرانی میں کلیہ یعنی کالج لیول کی تعلیم کے لئے سرگرم ہے۔ جہاں علوم اسلامیہ میں عرب یونیورسٹیوں کی طرح چار سالہ کلیۃ الشریعہ اور ایم فل علوم اسلامیہ کی کلاسیں جاری ہیں۔ایم فل کی طرح ، اس چار سالہ تعلیمی پروگرام کو بھی پاکستان میں حال ہی میں متعارف ہونے والے چار سالہ بی ایس پروگرام کی شکل دے کر، اس کی تکمیل پر ایم اے کی سرکاری سند جاری کی جاتی ہےجس میں بی اے کی سند شامل ہوتی ہے ۔ اس ادارہ میں طلبہ کے علاوہ طالبات کی ایک کثیر تعداد بھی مستقل اور جداگانہ بنیادوں پر تعلیم حاصل کرتی ہے اور خواتین کے تعلیمی مراحل کی تمام تر نگرانی مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی کی اہلیہ محترمہ کرتی ہیں۔

مولانا مدنی کی اہلیہ محترمہ، مولانا عبدالرحمٰن کیلانی کی بیٹی ہیں اور خودبھی عرصہ تیس برس سے'اسلامک انسٹیٹیوٹ' کے نام سے خواتین کے لاہور میں 6؍تعلیمی ادارے اور 25قرآن سنٹرز کی نگرانی کررہی ہیں۔ برسہا برس کی تدریسی سرگرمیوں میں اُن سے تیس ہزار سے زائد خواتین نے قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی کی براہِ راست تعلیم حاصل کی ہے۔ لاہور کے خواتین حلقوں میں اُن کے یومیہ درس باقاعدگی سے ہوتے ہیں ۔خواتین کے یہ مراکز مولانا مدنی کی اہلیہ محترمہ اور اُن کی بیٹیوں کی زیر نگرانی مصروفِ عمل ہیں۔ذلک فضل اللّٰه یوتیه من یشاء!

جامعہ کی تیسری مرکزی بلڈنگ ماڈل ٹاؤن میں واقع ہے۔یہ وہ مبارک عمارت ہے، جہاں قیام پاکستان کے بعد روپڑی بزرگان (حافظ عبد اللّٰہ روپڑی، حافظ محمد حسین روپڑی، حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی اور حافظ عبد القادر روپڑی رحمہم اللّٰہ) نے قیام کیا اور وہاں آج تک اُن کے جاری کردہ علمی فیوض اورتدریسی وتحقیقی سلسلے جاری وساری ہیں۔ اس عمارت میں مجلس التحقیق الاسلامی،محدث کے دفاتر اورلاہور کی عظیم الشان اسلامی لائبریری 'مکتبہ رحمانیہ 'موجود ہے۔ حالیہ دنوں میں اسی مرکز سے اُردو زبان کی سب سے بڑی ویب سائٹ 'کتاب وسنت.کام' اور اس سے ملحقہ ویب سائٹس کی تیاری ہوتی ہے۔ یہ ویب سائٹ اور مرکزڈاکٹر حافظ انس مدنی (فاضل مدینہ یونیورسٹی) کے زیر نگرانی کام کررہاہے۔ اس ویب سائٹ پر دنیا بھر سے اُردو لٹریچر بالکل مفت پڑھا اور ڈاؤن لوڈ کیا جاتا ہے۔حال ہی میں یہاں احادیثِ نبویؐہ کے مستند تراجم وشروح کی جدید ترین ویب سائٹ کا بھی آغازکیا گیا ہے جو جدید دنیا کی اہم ترین علمی ضرورت تھی۔ محدث فتاویٰ کی ویب سائٹ میں تقریباً 10 ہزار فتاویٰ دیے جاچکے ہیں اور باقاعدگی سے یہ سلسلہ جاری ہے، تحقیقی سرگرمیوں کےساتھ یہ مرکز پی ایچ ڈی مرحلہ کی تعلیم وتحقیق کے لئے مخصوص ہے۔ تینوں مراکز میں باقاعدہ مساجد بھی موجود ہیں۔مرد وخواتین کے لئے ان تمام تعلیمی مراکز کی سرپرستی اور نگرانی جناب مدیر اعلیٰ' محدث 'مولانا مدنی ﷾فرماتے ہیں۔

جامعہ میں ائمہ مسجدِ نبویؐ کی آمد

گذشتہ ماہ 4؍اکتوبر 2103ء کا دن اس لحاظ سے بڑا مبارک ثابت ہوا کہ اس دن جامعہ کی البیت العتیق برانچ کو مسجدِ نبوی کے ائمہ کرام اور مدینہ یونیورسٹی کے تین اساتذہ کرام کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ 4؍اکتوبر کی نمازِ عشا کی امامت جامعہ کی مرکزی مسجد میں مسجدِ نبوی کے مشہور امام ڈاکٹر شیخ محمد ایوب مدنی ﷾نے فرمائی۔ ان کے ہمراہ مسجدِ نبوی کے معروفِ زمانہ امام شیخ ڈاکٹر علی عبد الرحمٰن حذیفی کے فرزندِ ارجمند ڈاکٹراحمد علی عبد الرحمن حذیفی بھی موجود تھے۔ شیخ محمد ایوب اپنے خوبصورت لہجہ میں برسہا برس مسجدِ نبوی میں تراویح کی امامت فرماتے رہے ہیں۔ جبکہ شیخ حذیفی کے فرزند ڈاکٹر احمد علی حذیفی ، مسجد قبلتین مدینہ منورہ کے باضابطہ امام ہونے کیساتھ گاہے مسجدِ نبوی میں بھی امامت کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ مدینۃ الرسولﷺ کی یہ دونوں مبارک شخصیات اور اُن کے ہمراہ شیخ عباس شکری ، جو مسجدِ نبوی کے مؤذن ہیں، تینوں مدینہ منورہ یونیورسٹی کے معزز اساتذہ کرام بھی ہیں اور اپنے علم وفضل کی بنا پر بھی اُن کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ البیت العتیق میں اس مبارک شب کو نمازِ عشا کی اذان شیخ عباس شکر ی نے دی اور ہزاروں انسانوں کا جم غفیر اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ نمازِ عشا کے دوران لوگوں کا جوش وجذبہ دیدنی تھا، بہت سوں کی آنکھوں سے خوشی ومسرت کے آنسو رواں تھے۔

امام مسجدِ نبوی ڈاکٹر شیخ محمد ایوب کی امامت میں نماز ادا کرنے والوں میں خواتین وحضرات کی بڑی تعداد کے علاوہ، لاہور کی ممتاز دینی شخصیات بھی شریک تھیں، جنہوں نے مدینہ منورہ کے ان مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا۔مولانا حافظ مسعود عالم، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، مولانا محمد رمضان سلفی، مولانا حافظ محمد شریف، قاری محمد ادریس العاصم ،ڈاکٹر محمد حماد لکھوی، قاری محمد ابراہیم میر محمدی، مولانا عبد الماجد سلفی، مولانا محمد شفیق مدنی ،ڈاکٹر عبد الغفور راشد،قاری صہیب احمدمیر محمدی وغیرہ کے علاوہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم مولانا فضل الرحیم اشرفی، دارالعلوم اسلامیہ کامران بلاک کے نائب مہتمم مولانا ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی، جماعت اسلامی کی علما کونسل کے چیئرمین مولانا عبد المالک، جناب امیر العظیم، تنظیم اساتذہ پاکستان کے صدر پروفیسر میاں محمد اکرم اور نامور صحافی جناب انور قدوائی، سجاد میر، رؤف طاہر، تاثیر مصطفیٰ اور بہت سی نمایاں اور قدآور سیاسی شخصیات موجود تھیں ۔

اس موقع پر راقم الحروف نے استقبالیہ کلمات میں مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ، اُنہیں ایسی جامعہ میں خوش آمدید کہا جو پاکستان میں مدینہ منورہ یونیورسٹی کے متعارف کردہ نظامِ تعلیم کی نمائندہ سمجھی جاتی ہے اور یہاں پاکستان بھر میں سب سے بڑی تعداد میں مدینہ یونیورسٹی کے فضلا تدریس وتحقیق میں مصروفِ عمل ہیں۔ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی ، ڈاکٹر حافظ انس مدنی اور جامعہ کے اساتذہ کرام نے پروگرام کے تمام انتظامات سنبھالے۔مدینہ یونیورسٹی سے آنے والے اساتذہ، یہاں اپنے بہت سے سابقہ شاگردوں کو دیکھ کر اُن میں گھل مل گئے۔اگلے روز روزنامہ 'جنگ' میں شائع ہونے والے کالم 'جمہورنامہ' میں جناب رؤف طاہر نے لکھا کہ

''اخبار میں کوئی اشتہار، نہ خبر، نہ ٹی وی پر کوئی ٹِکر... صرف چار پانچ گھنٹوں میں یہ خبر سینہ بہ سینہ یا پھر ایس ایم ایس اور فون کالز کے ذریعے پھیلی اور شوکت خانم ہسپتال سے دو کلومیٹر دور جامعہ لاہور الاسلامیہ، البیت العتیق کی وسیع مسجد کے ہال، صحن اور گیلریوں میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ یہ آقائے دوعالم ﷺ کے شہر سے آنے والے مہمانوں کا خیرمقدم بھی تھا، اور امامِ مسجدِ نبویؐ کی اقتدا میں نمازِ عشاپڑھنے کی سعادت بھی۔ امامِ کعبہ تو وقتاً فوقتاً پاکستان آتے رہتے ہیں،ہمیں یاد ہے کہ لاہور اور کراچی میں لاکھوں فرزندانِ اسلام نے ان کی اقتدا میں نمازیں ادا کیں۔ کچھ عرصہ قبل مشرف دور میں بھی آئے تھے، لیکن جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے ، اہل پاکستان کو مسجدِ نبویؐ کے امام کی میزبانی کا شرف کم کم ہی حاصل ہوا ۔'' (5؍اکتوبر 2013ء)

جامعہ لاہور الاسلامیہ میں اعلیٰ اور سرکاری سطح پر معتبر ومستند تعلیمی مراحل کا آغاز محض ایک اسلامی ادارہ کا ارتقا ہی نہیں ہے،بلکہ دراصل یہ اس خلیج کو پاٹنے کی اہم ترین کوشش بھی ہے جس کی بنیاد انگریز استعمار نے دو صدیوں قبل رکھی تھی، جب اس نے اپنے سیکولر نظریات کے مطابق دینی تعلیم کو معاشرے سے دیس نکالا دیتے ہوئے اس کو حجروں اور مساجد تک محدود کرنے کی سعئ بد کی تھی۔ جامعہ میں دینی اہداف ومقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی مراحل کا آغاز،مسٹر اور ملا کے نام سے رائج کی جانے والے مسلم معاشرے کی تقسیم کے خلاف ایک ٹھوس عملی قدم ہے۔ یہ امتزاج اس امر کا بھی عکاس ہے کہ دینی اور سرکاری نظام ہائے تعلیم بہت سے مراحل پر متحد ویکجا بھی ہوسکتے ہیں۔ اس امر کی کوئی مجبوری نہیں ہے کہ دینی تعلیم کو سرکاری اعتراف ومنظوری سے دور رکھا جائے۔تعلیم کی دو متوازی دائروں میں تقسیم دراصل اس ثنویت کا شاخسانہ ہے، جسے سیکولرزم نے ہماری پوری زندگی میں پھیلا کر، اسے مسموم کررکھا ہے۔

جامعہ ہذا میں صرف ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم ہی سرکاری تقاضوں کے مطابق نہیں ہورہی بلکہ اس سے قبل ایف اے کے بعد کے کلیہ وکالج کے مراحل بھی سرکاری تقاضوں کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ماضی میں وفاقوں کے تحت ، دینی تعلیم کو ایک متوازی نظام تعلیم مانتے ہوئے، ان کے مساوی ومعادل ہونے کے نظریے کے تحت اُن کی اسناد کو منظوری دی گئی تھی، جو اکثر وبیشتر کامل سند کے تقاضے پورے نہیں کرتی، کبھی علما کو میدانِ سیاست میں اور کبھی سائنس ومینجمنٹ کے علوم میں وفاق کی سند کی بنا پر آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔جبکہ جامعہ ہذا کا موجودہ اقدام، طالب علم کو عین انہی سرکاری اسناد کا حق دار بنادیتا ہے، جو پاکستان کی اعلیٰ ترین اور ہر مقام پر معتبر ومستند شہادات ہیں۔ اس طریقے میں حکومت اور ایچ ای سی کے پیش کردہ نظام میں مہیا گنجائشوں سے استفادہ کیا گیا ہے، تاکہ مستقبل میں یہ طلبہ ایک متوازی نظام تعلیم کے بجائے مرکزی قومی نظام تعلیم کے دھارے میں شامل ہوجائیں۔

اس مقصد کے لئے برصغیر کے روایتی مدارس اور اُن کے موجودہ مسائل سے بالاتر ہوکر، عالم عرب میں موجود اسلامی جامعات میں موجود علوم اسلامیہ کی تدریس کے نظام سے ہمیں استفادہ کرنا ہوگا۔توجہ طلب امر ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس کے فضلا مدینہ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، گویا وہاں سرکاری تعلیم حاصل کرکے ، اُن کے علم وفضل پر کوئی حرف آنے کی بجائے، اس میں مزید وقار اور اعتبار واعتماد پیدا ہوتا ہے۔ یہی وہ نکتہ مشترکہ ہے ، کہ پاکستانی مدارس عرب کی اسلامی جامعات کے نظام ونصاب کا اپنے مروّجہ نظام سے تجزیہ وتقابل کریں، اور مستقبل کے لئے مضبوط لائحۂ عمل تشکیل دیں۔ تاہم ان عظیم تر اعلیٰ مقاصد کےلئے انتہائی محنت، باریک بینی، جدوجہداور اخلاصِ نیت ضروری ہیں ۔ جامعہ ہذا نے چالیس برس کی مسلسل جدوجہد کے بعد ان مقاصد کو حاصل کیا ہے ۔ جامعہ ہذا میں گذشتہ سالوں میں تجربہ کار اساتذہ کرام کی دانش وبصیرت کو مسلسل اور طویل مشاورتوں میں بروے کار لاتے ہوئے نصاب ونظام میں ایسی مفید اور بامقصد اصلاحات کی گئی ہیں جن کی ایک طرف مستند علما نے تائید کی ہے اور دوسری طرف اُن کے ذریعے دینی مدرسہ کے اصل مقاصد کی بہتر پاسداری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ چار برسوں قبل آنے والی اس تبدیلی کوطلبہ کا اعتماد حاصل ہے اور اس سے آخری کلاسوں میں جامعہ کا داخلہ میں اضافہ ہوا ہے۔جامعہ کے فضلا جس جس ادارے میں موجود ہیں، وہاں اُن کے علم وفضل کے ساتھ ساتھ ، ان میں فرقہ وارانہ رجحانات کی کمی، اور اس کے مقابلے میں ملت اور اسلام کو درپیش مسائل کے بارے میں فکر مندی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ قدامت پرستی سے گریز اور جدید صالح تجربات سے استفادہ، ایک بلند علمی معیار اور غیرمعمولی جہد وکاوش کا متقاضی ہے۔

مدارس کا موجودہ نظام مسجد ومدرسہ کے ماہرین تو ہمیں میسر کرتا اور امامت وخطابت کی صلاحیت تو پیدا کرتا ہے ، لیکن اگر ہم اسی پر اکتفا کریں تو یہ استعمار کا تشکیل کردہ ہمارے لئے وہ سیکولر دائرہ عمل ہے کہ ہمارا دین بس ہماری انہی پرائیویٹ ضروریات تک محدود رہے، اور اسلامی تعلیمات سے مزین یہ لوگ معاشرے کی امامت وسیادت اور ان کو راہِ راست پر لانے کا خیال ترک کردیں۔ اسلامی معاشرہ اللّٰہ کی تعلیمات سے غافل اورمغربی افکار کی گمراہی میں لتھڑا رہے اور وہاں اہل دنیا کو دین کے تقاضوں سے بےپروا ہوکر اپنی خواہشات کی تکمیل میں پورے معاشرے کو کھپا تے رہنے کی پوری آزادی حاصل رہے۔ ہمارا دین 'اسلام' مسجد ومدرسہ یعنی عبادت وتعلیم سے تقویت پاکر پورے معاشرے میں اپنا مؤثر پیغام پھیلاتا ہے اور ایک کامل نظامِ حیات کی طرف مسلمانوں کو لے جاتا ہے۔ اس لئے کسی مدرسہ میں تعلیم کو دینی اور دنیاوی کے دو دائروں میں تقسیم کرکے پڑھنا، دراصل سیکولرذہنیت کا شاخسانہ ہے۔ مسلمان کی تعلیم اور پوری زندگی سب کی سب اللّٰہ کے لئے ہی ہوتی ہے ، دینی علوم کے ساتھ ساتھ وہ اُمورِ دنیا کو بھی اللّٰہ کے احکام کی تعمیل میں سیکھتا اور الٰہی مقاصد کے لئے ہی بروے کار لاتا ہے۔ اس بنا پر تعلیمی ثنویت کا خاتمہ اشد ضروری ہے جو ہمارے پورے معاشرے کو دین دار اور بے دین کی تقسیم میں بانٹتی جارہی ہے۔

تعلیمی ونظریاتی تقاضوں کے علاوہ، مدارس میں پڑھنے والے طلبہ پر معاشرتی دباؤ اس قدر بڑھتا جارہا ہے کہ وہ مدارس میں دورانِ تعلیم سرکاری اسناد (میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے ) کے حصول میں بہت سا قیمتی وقت صرف کردیتے ہیں۔ یا تو دورانِ تعلیم ، دینی تعلیم سے بے اعتنائی کرکے یا فراغت کے بعد، کئی ایک سال اسناد کے حصول کی جدوجہد میں گزار کر... یہ مسائل اس قابل ہیں کہ اِن کے حل کی کوئی تدبیر نکالی جائے اور طلبہ پر آنے والے تعلیمی اور معاشرتی دباؤ کو قابل برداشت بنایا جائے۔

جامعہ لاہور اسلامیہ میں متعارف کرائے جانے والے نظام میں بہت سی مشکلات موجود ہیں، ابھی بہت سے عملی مسائل باقی ہیں، لیکن ایک خاندان کی سطح پر پروان چڑھنےوالا تعلیمی ادارہ ، ایک طویل محنت کے بعد ، کم ازکم ایک قابل عمل سوچ اور نمونہ ہی دے دے تو یہ بھی غنیمت ہے۔ الحمد للہ ہمارا یہ یقین ہے کہ فکری اورنظریاتی طورپر ہمارا راستہ بالکل درست ہے، اس کے امکانات بہت روشن ہیں اور مدارسِ دینیہ کا جو مقصد ہےیعنی اسلام کے ماہرین ، داعی، مدرس، مفتی ومحقق پیدا کرنا، اس میں ہم آج بھی کامیاب ہیں اور مستقبل میں بھی ... تاہم عملی دنیا میں بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں جو اللّٰہ کی خاص توفیق اور مدد کے ساتھ ان شاء اللّٰہ ضرور حاصل ہوکر رہیں گے ۔ والَّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سُبلنا !!


حاشیہ

1.خادم الحرمين يوافق على مذكرة التعاون بين جامعة الإمام وجامعة لاهور: وافق خادم الحرمين الشريفين الملك عبدالله بن عبدالعزيز رئيس مجلس الوزراء رئيس مجلس التعليم العالي - يحفظه الله - على إجازة مذكرة التعاون بين جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية وجامعة لاهور الإسلامية في باكستان. وبيَّن مدير جامعة الإمام الدكتور سليمان أبا الخيل أن جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية وجامعة لاهور الإسلامية في باكستان وقعَتَا مذكرة تعاون بينهما في مجال التعليم العالي وفقاً لما تنص عليه الأنظمة والقوانين في المملكة العربية السعودية وجمهورية باكستان الإسلامية، وذلك في إطار الرغبة في توسيع التعاون المثمر بين مؤسسات التعليم العالي بالمملكة العربية السعودية ومؤسسات التعليم العالي في جمهورية باكستان الإسلامية.

وأوضح الدكتور أبا الخيل أن المذكرة تدعم قنوات الاتصال بين الجامعتين من خلال: تبادل الوثائق والمواد الأكاديمية والعلمية والمطبوعات وجميع المصادر ذات العلاقة بالتعليم الجامعي مع عدم الإخلال بحقوق النشر، وتبادل وفود أعضاء هيئة التدريس والمتخصصين والموظفين الآخرين في مجال التعليم العالي، وتبادل الخبرات والبيانات والمراجع ذات العلاقة بالدراسات العربية والإسلامية وغيرها من المجالات في المملكةالعربيةالسعودية وجمهورية باكستان. (جريدة الرياض: 12/5/2012م)