عید الاضحیٰ پرقربانی کے ایام چار ہیں!
عید الاضحیٰ کے دنوں میں قربانی کرنا اسلام اور مسلمانوں کا شعار ہےاور ان دنوں کا سب سے بہترین عمل قربانی کرنا ہی ہے۔ 10ذو الحجہ، 11 اور 12 تاریخوں کو عام طورپر قربانی کا اہتما م کیا جاتا ہے، لیکن قرآن وسنت میں قربانی کے ایام' ایام تشریق' کو قرار دیا گیا ہے۔ اور ایام تشریق چوتھے روز 13 ذو الحجہ کےغروبِ آفتاب تک برقرار رہتے ہیں۔ گویا عید کے دن کوشامل کرکے چار دن قربانی کرنا اسلامی شریعت میں مشروع ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس پر نہ صرف عمل نہیں کیا جاتا بلکہ ایسا کرنے والے کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور بعض اوقات طنز وتمسخرکا نشانہ بھی بنایا جاتاہے۔ ذیل کے مضمون میں قرآنِ کریم،احادیثِ مبارکہ،اقوالِ صحابہ وتابعین، لغتِ عربی اور قیاسِ صحیح کے علاوہ اس ضمن میں ائمہ فقہا اور محدثین و محققین رحمہم اللّٰہ کے اقوال پیش کئے گئے ہیں کہ ان چاروں دنوں میں قربانی کرنا ہی مشروع ہے اور قربانی کو تین ایام میں منحصر ومقید کرنا درست موقف نہیں۔ ح م
قرآنِ کریم سے استدلال
سورۃ البقرۃ میں ذ تعالیٰ عرفات و مزدلفہ سے حجاجِ کرام کی واپسی کے بعد قیامِ منیٰ کے دوران، اُنہیں خصوصیت سے اپنے ذکر کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿وَاذكُرُوا اللَّهَ فى أَيّامٍ مَعدودٰتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فى يَومَينِ فَلا إِثمَ عَلَيهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلا إِثمَ عَلَيهِ ۚ لِمَنِ اتَّقىٰ...٢٠٣﴾... سورة البقرة
''یعنی تم گنتی کے چند دنوں میں اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کرو، پس جو کوئی دو دن گذار کر (منیٰ سے) جلدی روانہ ہونا چاہیے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور جو دیر میں نکلنا چاہے (یعنی تین دن گذار کر) تو اس پر بھی جو پرہیز گاری کرے، کوئی گناہ نہیں ہے۔''
اس آیتِ کریمہ میں باتفاقِ مفسرین 'ايام معدودات' سے ایامِ تشریق یعنی ذو الحجہ کی 11، 12، 13 تاریخ مراد ہے۔ چنانچہ علامہ قرطبیاپنی تفسیرمیں اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
''اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو گنتی کے چند دنوں میں اپنے ذکر کا حکم دیا ہے اور یہ (گنتی کے دن) یوم النحر(قربانی کا دن یعنی دس ذو الحجہ) کے بعد تین روز ہیں جن میں یوم النحر داخل نہیں ہے کیونکہ اس بات پر لوگوں کا اجماع ہے کہ قربانی کے دوسرے دن (یعنی گیارہ کو) کوئی حاجی منیٰ سے کوچ نہیں کر سکتا۔ اور اگر یوم النحر 'ايام معدودات' میں داخل ہوتا تو پھر (بموجبِ حکم قرآنی) عجلت باز کے لیے گیارہ کو منیٰ سے کوچ کرنا درست ہوتا، کیونکہ وہ گنتی کے (تین دنوں میں سے) دو روز گذار چکا ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ نے دو روز گذار چکنے کے بعد منیٰ سے کوچ كرنے کی اجازت دی ہے۔''1
اور امام طبری اس سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں:
''ايامِ معدودات،جمرات کو کنکری مارنے کے ایام ہیں جیسا کہ مفسرین کے اقوال سے واضح ہے چنانچہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ
''یہ گنتی کے ایام 'ایام تشریق' ہیں جو قربانی کے دن کے بعد تین روز ہیں۔ امام مالک، ضحاک ودیگر اہل علم سے بھی یہی منقول ہے۔''2
اور ابن العربی فرماتے ہیں کہ
''ايام معدودات سے مراد ایام منیٰ ہیں جو یوم النحر کے علاوہ تین دن ہیں کیونکہ یہ اقل جمع ہے، نیز نبی کریمﷺ نے اپنے عمل سے اسے بیان کر کے ہر طرح کے اشکال کو ختم کر دیا۔''3
یہی نہیں بلکہ امام رازی اورعلامہ شوکانی رحمہم اللّٰہ نے اور دیگر اہل علم نے 'ايام معدودات' کے ایام تشریق ہونے پر اُمت کا اجماع نقل کیا ہے۔4
مفسرین کے اقوالِ بالا سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ آیتِ کریمہ میں وارد ايام معدودات سے مراد باجماعِ امت ایامِ تشریق ہیں یعنی ذو الحجہ کی 11، 12، 13تواریخ تو اب یہ پتہ کرنا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان گنتی کے دنوں میں اپنے ذکر کا جو حکم دیا ہے، اس سے اس کی کیا مراد ہے؟ سو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس آیت میں اگرچہ 'ذکر' کا لفظ مطلق وارد ہوا ہے لیکن اسی سلسلے کی دوسری آیت جو سورۂ حج میں وارد ہوئی ہے، اس سے ذکر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ اس سے مراد ایام تشریق میں قربانیوں کو ذبح کرتے وقت اللّٰہ کا نام لینا ہے چنانچہ اس سلسلے میں علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ
''ايام معدودات میں اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے وقت اُن پر اللّٰہ کا نام لیا جائے۔ اور یہ بات پہلے گذر چکی ہے کہ اس سلسلے میں راجح امام شافعی کا مسلک ہے کہ قربانی کا وقت یوم النحر سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن تک (یعنی 13تک ) ہے۔''5
نیز امام رازینے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں واحدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
''ایام تشریق یوم النحر کے بعد تین دن ہیں۔ یوم النحر کے ساتھ یہ تینوں دن بھی قربانی کے ایام ہیں۔''6
دوسری آیت
اسی سلسلے میں ایک دوسری آیت سورۂ حج میں آتی ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ سیدنا ابراہیم کو حج کی منادی کا حکم دیتے ہوئے، نیز حج کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿وَأَذِّن فِى النّاسِ بِالحَجِّ يَأتوكَ رِجالًا وَعَلىٰ كُلِّ ضامِرٍ يَأتينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَميقٍ ﴿٢٧﴾ لِيَشهَدوا مَنـٰفِعَ لَهُم وَيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ ۖ فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا البائِسَ الفَقيرَ ﴿٢٨﴾... سورة الحج
''یعنی اے ابراہیم! تولوگوں میں حج کی منادی کر دے، وہ پیادہ اور دبلی پتلی اونٹنیوں پر سوارہوکر دور دراز راستوں سے تیرے پاس آئیں گے، تاکہ اپنے نفع کے کاموں کو دیکھیں اور جو چوپائے اللّٰہ نے اُن کو دیے ہیں خاص دنوں میں ان پر اللّٰہ کا نام ذکر کریں۔ پھر تم اس میں سے خود کھاؤ اور محتاج فقیروں کو بھی کھلاؤ۔''
اس آیتِ کریمہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے 'ايام معلومات' میں جانوروں پر اللّٰہ کا نام لینے کا حکم دیا ہے۔ ان ايام معلومات سے جمہور مفسرین کے نزدیک ایام تشریق مراد ہیں۔ چنانچہ امام رازی،امام ابن کثیرودیگر مفسرین وشارحین نے 'ايام معلومات' کے سلسلے میں حضرت ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں۔
امام رازی سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس کے اسی قول کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
''ابو مسلم نے بھی اسے اختیار کیا ہے اور یہی ابو یوسف ومحمد کی بھی رائے ہے اور ان دنوں کا 'ايام معلومات' کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دن عربوں کے نزدیک قربانی کے ایام کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔''7
نیز امام ابن کثیرکے بقول یہ امام احمد کا بھی ایک قول ہے اور علامہ شوکانی نے اپنی تفسیر میں ابن زید کی طرف بھی اس قول کی نسبت فرمائی ہے۔8 اور علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں،نامور حنفی عالم علامہ طحاوی کی طرف اس قول کی نسبت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
''امام طحاوی نے ايام معلومات سے یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن کو مراد لینا اس لیے راجح سمجھا ہے کہ یہ آیت بتاتی ہے کہ ايام معلومات قربانی کے دن ہیں۔ اور قربانی کے دن یہی چاروں دن ہیں:دسویں ذی الحجہ اور اس کے بعد کے تین دن۔''9
امام قرطبی اپنی تفسیر میں 'ايام معلومات' میں اللّٰہ کا ذکر کرنے کی تشریح وتوضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
''ان ایام میں اللّٰہ کا ذکر کرنے سے مراد یہ ہے کہ قربانی کو ذبح یا نحر کرتے وقت اللّٰہ کا نام لیا جائے مثلاً یہ دعا پڑھی جائے: باسم الله والله أكبر اللهم منك ولك
ساتھ ہی یہ آیت پڑھی جائے: ﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ...١٦٢﴾... سورة الانعام
کفار (جانوروں کو) اپنے بتوں کے نام ذبح کرتے تھے تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ ذبح کے وقت اللّٰہ کا نام لینا ضروری ہے۔''10
علامہ شوکانی نے بھی اپنی تفسیر میں اللّٰہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر کچھ اسی انداز پر کی ہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
''مطلب یہ ہے کہ بندے اپنی قربانیوں کو ذبح کرتے وقت اللّٰہ کا نام لیں، نیز اس سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی کہ 'ذکر' ذبح کرنے سے کنایہ ہے کیونکہ یہ اس سے جدا نہیں ہوتا ، اور اللّٰہ تعالیٰ کے قول ﴿ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ١ۚ ﴾ سے پتہ چلتا ہے کہ ﴿اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ﴾ ایام نحر ہیں۔''11
مولانا انعام اللّٰہ صاحب قاسمی ﷾ اپنےر سالہ 'ایام قربانی' میں اللّٰہ تعالیٰ کے اس قول کی مزید وضاحت کے لیے علامہ رازی وخطابی کے اقوال کو نقل کرنے کے بعد صفحہ 23پر لکھتے ہیں:
''اس حکمت کا یہ مفہوم ہوا کہ ایام منیٰ یوم النحر کے بعد تین دن دورِ جاہلیت ہی سے قربانی کے دن تھے جن کو شریعتِ اسلامیہ نے برقرار رکھا اور اُن کی تعداد میں کمی وبیشی نہیں کی۔ البتہ صرف اس میں تبدیلی کر دی کہ پہلے لوگ اپنی قر بانیاں بتوں کے نام کرتے تھے اور اسلام نے اللّٰہ کے لیے مخصوص کر دیا۔''
سورۂ حج کی آیت نمبر 28 پر نگاہِ غائر ڈالنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا امام خطابی کی بیان کردہ حکمت کی وضاحت کے لیے ہی اس آیت کا نزول ہوا تھا۔ 'ايام معلومات' پہلےسے معلوم دن وہی ہیں جن میں ایام جاہلیت کے لوگ بتوں کے ناموں پر قربانیاں کرتے تھے اور ان قربانیوں کا گوشت خود نہیں کھاتے تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قربانیاں تو تم اِنہی دنوں میں کرو جن دنوں میں پہلے کیا کرتے تھے مگر بتوں کے نام کے بجائے اللّٰہ کا نام لے کر کیا کرو۔ اور ان میں سے کھلاؤ بھی اور کھاؤ بھی۔ گویا اس آیت کا مقصد ِنزول، ایام تشریق کو ایام قربانی ثابت کرنا ہے اور بس، اور ایام تشریق باتفاقِ علماء وباجماعِ امت یوم النحر کے بعد تین دن گیارہ، بارہ، تیرہ ذؤ الحجہ ہے۔
نوٹ:مذکورہ بالا پوری بحث الفاظ سمیت اُستاذ محترم ڈاکٹر مفضل مدنی﷾ کے ایک فتویٰ سے منقول ہے۔12
چار دن قربانی کی مشروعیت پر احادیثِ صحیحہ
پہلی حدیث : حدیث رجل من اصحاب النبیﷺامام بیہقی (م 458ھ) نے کہا:
أن نافع بن جبير بن مطعم رضي الله عنه أخبره، عن رجل من أصحاب النبي ﷺ قد سماه نافع فنسيته، أن النبي ﷺ قال لرجل من غفار: «قُم فأذّن أنه لا يدخل الجنة إلا مؤمن، وأنها أيام أكل وشرب أيام مني» زاد سليمان بن موسى وذبح، يقول: أيام ذبح ابن جريج يقوله13''ایک صحابی سے مروی ہے کہ اللّٰہ کے نبی ﷺ نے ایک غفاری صحابی سے کہا کہ تم کھڑےہو اور اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مؤمن ہی جائیں گے اور ایام منیٰ (ایام تشریق) کھانے پینے کے دن ہیں۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ ان کے اُستاذ سلیمان بن موسیٰ نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے ذبح کے لفظ کا اضافہ کیا ہے، یعنی وہ یہ بھی روایت کرتے تھے کہ یہ ذبح کے دن ہیں۔''اس حدیث کی سند صحیح ہے، علام البانی نے اس کی سند کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔
14تاہم علامہ محمد ناصر الدین البانی اسی مقام پر مزید لکھتے ہیں کہ
وهذا إسناد صحيح رجاله كله ثقات، لكن ليس فيه قول: «وذبح» الذي هو موضع الشاهد وإنما فيه أن ابن جريج رواه عن سليمان بن موسٰي، يعني مرسلا لأنه لم يذكر إسناده. فهو شاهد قوي مرسل للطرق الموصولة السابقة''اس کی سند صحیح ہے، اس کے سارے رجال ثقہ ہیں لیکن اس میں ذبح کا لفظ نہیں ہے۔ جو کہ محل شاہد ہےبلکہ اس میں ہے کہ ابن جریج نے اسے سلیمان بن موسیٰ سے روایت کیا ہے یعنی مرسلاً۔ کیونکہ انہوں نے اس کی سند ذکر نہیں کی تو یہ مرسل گذشتہ موصول طرق کے لئے قوی شاہد ہے۔ ''
مذکورہ بالا روایت کی سندی بحث اور اس کے تمام راویوں کی عدالت وثقاہت جاننے کے لئے اس موضوع پر ہمارے تفصیلی کتابچے 'چار دن قربانی کی مشروعیت' کے صفحات 10 تا 19 ملاحظہ کریں، نیز علامہ ناصر الدین البانی کے اس آخری تبصرے کہ اس میں ذبح کا لفظ مرسل ہے، سے ہمیں اتفاق نہیں ۔ علامہ محمد رئیس ندوی نے اپنی کتاب 'غایۃ التحقیق فی تضحیۃ ایام التشریق' کے صفحہ 86،77 اور 89 پر اس کی تفصیلی وضاحت کردی ہے۔ (ملخصاً)
الغرض امام بیہقی کی روایت کردہ یہ حدیث بالکل صحیح ومتصل ہے، اس صحیح ومتصل سند کے سامنے آنے کے بعد ایام تشریق کے ایام ذبح ہونے والی حدیث کی تصحیح کے لیے کسی بھی اور سند کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے، علامہ محمد رئیس ندوی نے بھی کہا ہے:
''سلیمان سے ابن جریج کی روایت کردہ زیر بحث حدیث نے حدیث ِ مذکور کو مزید شواہد ومتابعات سے مستغنی کردیا ہے۔''
15دوسری حدیث: حدیث جبیر بن مطعمامام ابن حبان(م 354ھ) سیدنا جبیر بن مطعم سے روایت کرتے ہیں :
قال رسول الله ﷺ: «كل عرفات موقف، وارفعوا عن عرنة، وكل مزدلفة موقف، وارفعوا عن محسر، فكل فجاج من منحر، وفي كل أيام التشريق ذبح»16'' اللّٰہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادئ محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح کرنے کے دن ہیں۔''یہ حدیث مرفوع متصل صحیح ہے۔ امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے ۔سیدنا جبیر بن مطعم کی اس حدیث کے مزید چار طرق اور بھی ہیں: طریق نافع بن جبیر، طریق عمرو بن دینار، طریق سلیمان بن موسیٰ، اور طریق عبد الرحمٰن بن ابو حسین... ان طرق اور ان کی سندوں پر تفصیلی بحث کے لئے علامہ محمد رئیس ندوی کی کتابیں 'غایۃ التحقیق 'اور 'قصہ ایام قربانی کا' ملاحظہ کریں۔ ان متعدد طرق کی بنا پر بہت سے اہل علم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، جن میں علامہ ابن قیم، حافظ ابن حجر، علامہ البانی، شعیب ارناؤوط، شیخ احمد غماری اور علامہ عبید اللّٰہ مبارکپوری
17رحمہم اللّٰہ تعالیٰ قابل ذکر ہیں۔
حنفی عالم ابن الترکمانی اور بعض دیگر لوگوں نے گہرا جائزہ لیے بغیر یہ کہہ دیا کہ اس حدیث کی سند میں 'اضطراب 'ہے، یعنی سلیمان بن موسٰی نے الگ الگ اپنے اساتذہ سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ تو عرض ہے کہ سند میں اس طرح کے اختلاف کو 'اضطراب 'نہیں بلکہ 'تعددِ طرق 'کہتے ہیں¬۔ دریں صورت یہ چیز حدیثِ مذکور کے لئے تقویت کا باعث ہے۔یہ بڑی بھول ہے کہ جو چیز صحتِ حدیث پر دلالت کرتی ہو، اس کو تضعیف کی دلیل سمجھ لیا جائے۔
یہ بھی یاد رہے کہ یہ نظریہ درست نہیں کہ ہرجگہ ضعیف حدیث دوسری ضعیف حدیث سے مل کر حسن لغیرہٖ ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ موقف کہ ضعیف حدیث ضعیف سے مل کرکسی بھی صورت میں حسن لغیرہٖ یا مقبول وحجت نہیں ہوتی، باطل ومردود ہے بلکہ عصر حاضر کی بدعت ہے۔ چودہ سوسالہ دور میں کسی بھی عالم نے ایسا موقف اختیار نہیں کیا۔ بلکہ معاصرین میں بھی حافظ زبیر علی زئی کے علاوہ علم حدیث سے دلچسپی رکھنے والے کسی بھی عالم کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ اس نے علیٰ الاطلاق اس طرح کی بات کہی ہو۔ ڈاکٹر خالد ادریس، اور عمرو عبد المنعم سلیم وغیرہ نے اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں مگر اُنہوں نےبھی یہ موقف نہیں اپنایا کہ کسی بھی صورت ضعیف حدیث، دوسری ضعیف سے مل کر تقویت نہیں پاسکتی یا مقبول وحجت نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا حسن لغیرہٖ کو علیٰ الاطلاق ردّ کردینے والا نظریہ حافظ زبیر علی زئی کا تفرد ہے۔
تیسری اور چوتھی حدیث: حدیثِ ابو ہریرہ و ابو سعیدامام بیہقی (م 458ھ) نے کہا:
عن سعید بن المسیب ، مرة عن أبي سعيد ومرة عن أبي هريرة رضي الله عنهما عن النبي ﷺ «أيام التشريق كلها ذبح»18''دو صحابہ ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ اللّٰہ کے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تشریق کے سارے دن ذبح کے دن ہیں۔''یہ حدیث بھی بالکل صحیح اور اس کی سند بھی متصل ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں :
فقد غلا أبو حاتم حين قال كما رواه ابنه في العلل (2/38) هذا حديث موضوع عندي، والصواب عندي أنه لا ينزل عن درجة الحسن بالشواهد التي قبله ولا سيما وقد قال به جمع من الصحابة كما في شرح مسلم للنووي والمجموع له (8/390)19''ابو حاتم نے یہ کہہ کر غلو کیا ہے کہ جیسا کہ ان کے بیٹے نے العلل (2؍38) میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ یہ حدیث میرے نزدیک موضوع ہے۔ جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ حدیث ماقبل میں مذکور شواہد کے پیش نظر حسن درجہ سے کم نہیں ہے۔ بالخصوص جبکہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے اس کے مطابق فتویٰ دیا ہے جیسا کہ شرح مسلم از امام نووی اور المجموع از نووی (8؍390)میں ہے۔
اس حدیث کے تمام رواۃ کی ثقاہت کے لئے صفحہ نمبر30 تا 33 ملاحظہ کریں۔
چار دن قربانی کی مشروعیت پر اقوالِ صحابہؓ
صحابہ کرام میں متعدد صحابہ کرام سے چار دن قر بانی کے اقوال منقول ہیں، ہماری رسائی ان اقوال کے اصل مراجع تک نہیں ہو سکی لیکن متعدد اہل علم نے ان صحابہ کی طرف بالجزم چار دن قربانی کا قول منسوب کیا ہے۔ ممکن ہے کہ ان اقوال کی صحیح سندیں ایسی کتب میں ہوں جن تک ہماری رسائی نہ ہو یا جو مفقود ہو چکی ہوں۔ یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے صرف کتاب وسنت کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، نہ کہ اُمتیوں کے اقوال کی بھی۔ اس لیے اُمتیوں کے اقوال کی صحیح سندوں کا مفقود ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ علامہ البانی فرماتے ہیں:
لأن الله تعالى لم يتعهد لنا بحفظ أسماء كل من عمل بنص ما من كتاب أو سنة وإنما تعهد بحفظهما فقط كما قال:﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِيْلًاۚ﴾ فوجب العمل بالنص سواء علمنا من قال به أو لم نعلم20''اللّٰہ تعالیٰ نے اس بات کی ضمانت نہیں لی ہے کہ کتاب وسنت پر عمل کرنے والے جملہ حضرات کے اسما کی حفاظت کرے گا، بلکہ اس نے صرف کتاب وسنت کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے جیسا کہ فرمایا:''ذکر کو ہم نے ہی نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔'' پس کسی بھی ثابت شدہ نص پر عمل کرنا واجب ہو گا خواہ اس کے قائلین یا اس پر عمل کرنے والوں کے نام معلوم ہوں یا نہ ہوں۔''
عام طور پر فقہا اس نوعیت کے اقوال سے حجت پکڑتے ہیں، اس لیے ہم ایسے اقوال کی فہرست پیش کرتے ہیں۔صحابہ کرام میں درج ذیل حضرات سے چار دن قربانی کے اقوال مروی ہیں، تفصیل ملاحظہ ہو:
مفسر قرآن عبد اللّٰہ بن عباسامام بیہقی (م 458ھ) نے کہا:
أخبرنا أبو حامد أحمد بن علي الحافظ أنبأ زاهر بن أحمد، ثنا أبو بكر بن زياد النيسابوري، ثنا محمد بن يحيى، ثنا أبوداود، عن طلحة بن عمرو الحضرمي، عن عطاء، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: الأضحى ثلاثة أيام بعد يوم النحر21''عبد اللّٰہ بن عباس نے کہا کہ قربانی یوم النحر (10 ذوالحجہ) کے بعد تین دن(11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (یعنی یوم النحر عید کے دن کو لے کر کل چار دن قربانی کے ہیں)''
اس کی سند ضعیف ہے لیکن اسی مفہوم کی بات ابن عباس سے متعدد سندوں سے منقول ہے جس سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ
حافظ ابن حجر (م 856ھ) نے کہا:
وقد روي بن أبي شيبة من وجه آخر عن ابن عباس أن المعلومات يوم النحر وثلاثة أيام بعده ورجح الطحاوي هٰذا لقوله تعالىٰ ﴿وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْۤ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ١ۚ﴾ فإنه مشعر بأن المراد أيام النحر انتهٰى22''امام ابن شیبہ نے ایک دوسری سند سے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ عبد اللّٰہ بن عباس فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے، ان) معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذو الحجہ) کے بعد تین دن (11، 12، 13) ذو الحجہ کے دن ہیں اور اسے امام طحاوی نے اس لیے راجح قرار دیا ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے: '' اور جو چوپائے اللّٰہ تعالیٰ نے دیے ہیں معلوم دنوں میں ان پر اللّٰہ کا نام ذکر کریں۔'' اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں قربانی کے دن مراد ہیں۔''
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ابن ابی شیبہ کی کتاب سے مذکورہ بالا روایت نقل کی ہے اور اس کی تضعیف نہیں کی ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ حافظ ابن حجر کی نظر میں اس کی سند صحیح ہے کیونکہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری کے مقدمہ میں صراحت کر دی ہے کہ وہ اس کتاب میں بطورِ شرح جو روایت درج کریں گے اور اُس پر کلام نہیں کریں گے، وہ ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہوں گی۔
امام سیوطی (م911ھ) نے کہا:
وأخرج عبد بن حميد وابن المنذر وابن أبي حاتم عن ابن عباس قال: الأيام المعلومات: يوم النحر وثلاثة أيام بعده23''عبد بن حمید، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ عبد اللّٰہ بن عباس فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے،ان) معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذو الحجہ )کے دن ہیں۔''
لیکن ان تینوں سندوں تک ہماری رسائی نہیں ہو سکی کیونکہ عبد بن حمید، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم کی دستیاب کتب میں یہ روایات موجود ہیں۔تاہم اس کثرتِ طرق کی بنیاد پر یہی ظن غالب آتا ہے کہ چار دن قربانی کی کوئی نہ کوئی اصل عبد اللّٰہ بن عباس سے ضرور ہے۔ اسی لیے اہل علم نے بالجزم عبد اللّٰہ بن عباس کو چار دن قربانی کا قائل بتلایا ہے، کما سیأتی۔
بعض لوگ تنویر المقباسکو عبد اللّٰہ بن عباس ہی کی تفسیر مانتے ہیں اور اس سے حجت پکڑتے ہیں (جو درست نہیں) اس میں بھی ہے کہ
﴿فِيْۤ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ﴾ معروفات أيام التشريق ﴿عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ١ۚ ﴾ علىٰ ذبيحة الأنعام24''عبد اللّٰہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ( اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد ایام التشریق (11، 12، 13 ذی الحجہ کے دن) ہیں، ان دنوں میں اللّٰہ کے عطا کردہ چوپایوں یعنی قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے وقت ان پر اللّٰہ کا نام لو۔''
خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالبصاحب کنز العمال نے کہا:
عن علي قال: الأيام المعلومات يوم النحر وثلاثة أيام بعده (ابن المنذر)25''امام ابن المنذر نے علی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (اسے ابن المنذر نے روایت کیا ہے)
نیز دیکھیے (زاد المعاد: 2؍ 291)۔ مزید دیکھیں اسی کتاب کا صفحہ : 44
صحابی رسول جبیر بن مطعمامام نووی (م 676ھ) نے کہا:
وأما آخر وقت التضحية فقال الشافعي تجوز في يوم النحر وأيام التشريق الثلاثة بعده وممن قال بهذا علي بن ابي طالب وجبير بن مطعم وابن عباس26''امام نووی فرماتے ہیں کہ جہاں تک قربانی کے آخری وقت کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ یوم الاضحیٰ اور اس کے بعد تشریق کے تینوں دنوں میں قربانی جائز ہے اور یہی بات علی بن ابی طالب ، جبیر بن مطعم اور عبد اللّٰہ بن عباس نے بھی کہی ہے۔''
واضح رہے کہ جبیر بن مطعم سے مروی کئی احادیث میں ہے کہ 'ایام تشریق قربانی کے دن ہیں' اسی بنا پر بعید نہیں کہ جبیر بن مطعم اپنی روایت کردہ احادیث کے مطابق چار دن قربانی کے قائل ہوں۔
صحابی رسول اللّٰہ عبد اللّٰہ بن عمرامام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ
قال الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس: الأيام المعلومات: يوم النحر وثلاثة أيام بعده ويروي هذا عن ابن عمر، وإبراهيم النخعي، وإليه ذهب أحمد بن حنبل في رواية عنه27''عبد اللّٰہ بن عباس سے مروی ہے کہ ایام معلومات (قربانی کے معلوم دن) یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں اور یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر اور ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق یہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی ہے۔
چار دن قربانی پر قیاسِ صحیح
استاذ محترم ڈاکٹر محمد مفضل مدنی ﷾ لکھتے ہیں:
''قرآن وسنت کے علاوہ قیاس بھی پورے 'ایام تشریق' کے ایام قربانی ہونے پر دلالت کرتا ہے، چنانچہ علامہ ابن قیم زاد المعاد(2؍ 319) میں اس امر کی عقلی توجیہ بایں الفاظ میں فرماتے ہیں:
ولأن الثلاثة تختص بكونها أيام منى، وأيام الرمي وأيام التشريق، ويحرم صيامها، فهي إخوة في هذه الأحكام فكيف تفترق في جواز الذبح بغير نص ولا إجماع... وروي من وجهين مختلفين يشد أحدهما الآخر عن النبي ﷺ أنه قال: «كل منى منحر، وكل أيام التشريق ذبح»28'' بے شک ایام تشریق قربانی کے دن ہیں کیونکہ یہ مخصوص ہیں منیٰ کے دن ہونے میں، رمی کے دن ہونے میں اور ان دنوں کا روزہ حرام ہے، پس جب یہ تینوں دن ان تمام احکام میں برابر ہیں تو پھر قربانی کے حکم میں کیسے الگ ہو جائیں گے۔ (کہ کسی دن قربانی جائز ہو اور کسی دن ناجائز) جبکہ الگ ہونے پر نہ کوئی نص شرعی پایا جاتا ہے اور نہ ہی اجماعِ امت، بلکہ اس کے برعکس نبی کریم ﷺ سے متعدد روایات آئی ہیں جن سے پورے ایام تشریق میں قربانی کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔''
چار دن قربانی کے مشروعیت پر دلالتِ لغت
محترم ڈاکٹر محمد مفضل مدنی ﷾ لکھتے ہیں
''مذکورہ دلائل کےعلاوہ 'ایام تشریق' کی وجہ تسمیہ بھی 13 ذو الحجہ کے جواز پر دلالت کرتی ہے چنانچہ علامہ ابن حجر فتح الباری(4؍242) میں اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
وسميت أيام التشريق لأ لحوم الاضاحى تشرق فيها أي تنشر فى الشمس وقيل لأن الهدى لاينحر حتى تشرق الشمس29''ان تینوں دنوں (11،12،13)کو ایام تشریق اس لیے کہا جاتاہے کہ ان دنوں میں قربانی کے گوشت کودھوپ میں سوکھنے کےلیے پھیلایا جاتا ہے نیز اس سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ چونکہ قربانی کے جانور سورج چمکنے سےپہلے ذبح نہیں کئے جاتے۔''
مولانا انعام اللّٰہ صاحب قاسمی لکھتے ہیں:
''اس قول 'یعنی وجہ تسمیہ' کے بموجب ایامِ تشریق کا اطلاق جتنے دنوں پر بھی ہو گا اس کا تعلق ذبیحہ اور قربانی سے ہو گا۔ کیونکہ کوئی ایسا دن جس میں قربانی جائز نہ ہو تشریق کا دن نہیں کہا جا سکتا لہٰذا جب یوم النحر کے بعد تین دنوں کو باجماعِ اُمت تشریق کہا گیا ہے تو قربانی بھی یوم النحر کے بعد تین دنوں تک جائز ہو گی۔''
30
چار دن قربانی سے متعلق اقوال تابعین
تابعین میں سے درج ذیل جلیل القدر تابعین چار دن قربانی کے قائل تھے:
امام اہل مکہ عطا بن رباح امام طحاوی فرماتے ہیں:
وكما قد حدثنا محمد بن خزيمة، قال: حدثنا حجاج، قال: حدثنا حماد، عن مطر الوراق أن الحسن وعطاء قالا: يضحي إلى آخر أيام التشريق31''امام حسن اور امام عطا نے کہا ہے کہ قربانی ایام تشرق کے آخری دن تک یعنی عیدسے لے کر چار دن تک ہے۔''
امام اہل بصرہ حسن بصریامام ابو عبد اللّٰہ المحاملی(م 330ھ) نے کہا:
حدثنا محمود، حدثنا هشيم، حدثنا يونس، عن الحسن أنه كان يقول: يضحي أيام التشريق كلها32''حسن بصری کہتے تھے کہ تشریق کے تمام دنوں میں یعنی عید الاضحیٰ سمیت چار دنوں: 10، 11،، 12، 13 میں قربانی کی جائے۔''
امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیزامام بیہقی (م 458ھ) فرماتے ہیں:
أخبرنا أبو حامد أحمد بن علي الحافظ، أنبا زاهر بن أحمد، ثنا أبو بكر بن زياد النيسابوري، حدثنا محمد بن إسحاق، ثنا هيثم بن خارجة، ثنا إسماعيل بن عياش، عن عمرو بن مهاجر، أن عمر بن عبد العزيز قال: الأضحى يوم النحر وثلاثة أيام بعده33''خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے کہا ہے کہ قربانی عید کے دن اور اس کے بعد تین دن ہے (یعنی کل چار دن قربانی ہے)۔''
اس کے علاوہ درج ذیل تابعین سے بھی اہل علم نے چار دن قربانی کا قول نقل کیا ہے:
امام زہری، ابراہیم نخعی، مکحول، اوزاعی اور سلیمان بن موسیٰ
34ایک اہم نکتہتابعین میں ہمیں کوئی ایک بھی ایسی علمی شخصیت نہیں ملی جس سے تین دن قربانی کا قول باسند صحیح ثابت ہو، اس کے برخلاف متعدد تابعین سے باسندِ صحیح چار دن قربانی کا قول منقول ہے۔اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صحابہ بھی چار دن قربانی ہی کے قائل تھے اور ان میں بعض کی طرف جو یہ منسوب ہے کہ وہ تین دن قربانی کے قائل تھے تو یہ نسبت غلط ہے یا پھر اُنہوں نے تین دن والے قول سے رجوع فرما کر حدیثِ رسول ﷺ کے موافق چار دن قربانی والا موقف اپنا لیا تھا۔
چار دن قربانی اور ائمہ اربعہ
امام ابو حنیفہبعض نے امام ابو حنیفہ کی طرف تین دن قربانی کا قول منسوب کیا ہے۔ مگر واقعۃً امام ابو حنیفہ کے نزدیک قربانی کتنے دن تھی، اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ سے صحیح سند سے کوئی قول ہمیں نہیں ملا۔
امام شافعیامام شافعی (م 204ھ) نے اپنی کتاب میں فرمایا:
فإذا غابت الشمس من آخر أيام التشريق، ثم ضحى أحد، فلا ضحية له35''جب تشریق کے آخری دن یعنی 13؍ ذو الحجہ کو سورج غروب ہونے کے بعد کوئی قربانی کرے تو اس کی قربانی نہیں ہو گی۔''
یعنی 13؍ذو الحجہ کو سورج غروب ہونے کے بعد سے قبل کوئی قربانی کرے تو امام شافعی کے نزدیک وہ قربانی جائز ہو گی۔ معلوم ہوا کہ امام شافعی کے نزدیک قربانی کے چار دن 10، 11، 12، 13 ذو الحجہ ہیں۔
امام احمد بن حنبلآپ کی طرف تین دن اور چار دن دونوں طرح کے اقوال منسوب ہیں۔
امام ابن کثیر (م 774ھ) نے کہا:
عن ابن عباس: الأيام المعلومات: يوم النحر وثلاثة أيام بعده، ويروي هذا عن ابن عمر، وإبراهيم النخعي، وإليه ذهب أحمد بن حنبل في رواية عنه36''عبد اللّٰہ بن عباس فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13 ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر ، ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی یہی مذہب ہے۔''
امام مالک آپ نے تین دن قربانی والا موقف اپنایا ہے لیکن اس سلسلے میں آپ نے کوئی حدیث پیش نہیں کی ہے، غالباً موطا میں آپ نے ابن عمر کے قول کی بنیاد پر یہ موقف اپنایا ہے۔لیکن خود ابن عمر کی طرف چار دن قربانی والا قول بھی منسوب ہے جیسا کہ ماقبل میں ابن کثیر کے حوالہ سے گذر چکا۔
چار دن قربانی سے متعلق اقوالِ محدثین ومحققین
1. امام ابن المنذر (م 319ھ) نے کہا:
ووقت الأضحى يوم النحر، وثلاثة أيام بعده أيام التشريق37''قربانی کا وقت عید کا دن اور اس کے بعد تشریق کے تین دن ہیں۔''
2. امام بیہقی (م 458ھ) نے کہا:
وحديث سليمان بن موسى أولاهما أن يقال به، والله أعلم38''سلیمان بن موسیٰ (چار دن قربانی) والی حدیث زیادہ مناسب ہے کہ اس کے مطابق موقف اپنایا جائے۔''
3. امام ابو الحسن الواحدی (م 468ھ)
وأول وقت الذبح إذا مضى صدر يوم النحر إلى أن تغرب الشمس من آخر أيام التشريق39''قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔''
4. امام نووی (م676ھ) نے کہا
ويخرج وقت التضيحة بغروب الشمس في اليوم الثالث من أيام التشريق40''قربانی کا وقت تشریق کے آخر دن سورج غروب ہوتے ہی ختم ہو گا۔''
5. شیخ الاسلام ابن تیمیہ(م 728ھ) نے کہا:
وآخر وقت ذبح الأضحية آخر أيام التشريق41''قربانی کا آخری وقت تشریق کا آخری دن ہے۔''
6. امام ابن قیم (م751ھ) نے کہا:
وقدقال علي بن أبي طالب رضي الله عنه : أيام النحر : يوم الأضحيٰ ، وثلاثة أيام بعده ، وهو مذهب إمام أهل البصرة الحسن ، وإمام أهل مكة عطاء بن أبي رباح ، وإمام أهل الشام الأوزاعي ، وإمام فقهاء الحديث الشافعي رحمه الله ، واختاره ابن المنذر ، ولأن الثلاثة تختص بكونها أيام منى، وأيام الرمي ، وأيام التشريق ، ويحرم صيامها، فهي إخوة في هذه الأحكام ، فكيف تفترق في جواز الذبح بغير نص ولا إجماع ، وروي من وجهين مختلفين يشد أحدهما الآخر عن النبي ﷺ أنه قال :«كل منى منحر، وكل أيام التشريق ذبح»42''اور سیدنا علی نے کہا: قربانی کے دن: عید کا دن اور اس کے بعد تین دن ہیں اور اہل بصرہ کے امام حسن بصری اور اہل مکہ کے امام عطا بن ابی رباح اور اہل شام کے امام اوزاعی کا یہی موقف ہے اور یہی فقہائے اہل الحدیث کے امام شافعی کا موقف ہے اور اسے ہی امام ابن المنذر نے اختیار کیا ہے اور پورے ایام تشریق یہ مخصوص ہیں منیٰ کے دن ہونے میں، رمی کے دن ہونے میں اور ان دنوں کا روزہ حرام ہے، پس جب یہ تینوں دن ان تمام احکام میں برابر ہیں تو پھر قربانی کے حکم میں کیسے الگ ہو جائیں گے (کہ کسی دن قربانی جائز ہو اور کسی دن ناجائز)۔ جبکہ الگ ہونے پر نہ کوئی نص شرعی پائی جاتی ہے اور نہ ہی اجماعِ اُمت، بلکہ اس کے برعکس نبی ﷺ سے متعدد روایات آئی ہیں جن سے پورے ایام تشریق میں قربانی کا ثبوت ملتا ہے۔''
7. امام ابن کثیر (م 774ھ) نے کہا:
وأن الراجح في ذلك مذهب الشافعي رحمه الله، وهو أن وقت الأضحية من يوم النحر إلى آخر أيام التشريق43''اور اس سلسلے میں راجح امام شافعی کا مذہب ہے اور وہ یہ کہ قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔''
8. امام شوکانی (1250ھ) نے کہا:
أرجحها المذهب الأوّل للأحاديث المذكورة في الباب وهي يقوي بعضها بعضًا44''چار دن قربانی والا موقف راجح ہے کیونکہ اس سلسلے میں وارد احادیث ایک دوسرے سے مل کر قوی ہو جاتی ہیں۔''
خلاصۂ بحثقرآنی آ یات، احادیثِ صحیحہ اور جمہور سلف صالحین سے اسی بات کا ثبوت ملتا ہے کہ قربانی کے کل چار دن ہیں۔ جماعت اہل حدیث کا یہی متفقہ موقف ہے۔ علماے ہند کے علاوہ پاکستان وعرب کے معاصر کبار اہل علم نے بھی اسی موقف کی صراحت کی ہے مثلاً
علامہ البانی، شیخ ابن باز ، شیخ عثیمین،حافظ عبد المنان نورپوری رحمہم اللّٰہ تعالیٰ،اور مفتی محمد عبید اللّٰہ خان عفیف ،حافظ عبد الستار حمادحفظہم اللّٰہ وغیرہم
45مجلس کبار علما ، سعودی عرب کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
46ربّ تعالیٰ ہمیں حق کہنے، سننے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین!
نوٹ: پیش نظر مضمون کو ادارہ محدث نے مقالہ نگار کی 'چار دن قربانی کی مشروعیت' نامی کتاب
سے اَخذ کیا ہے، تاہم احادیث کی فنی بحث کے لئے اصل کتاب کے متعلقہ صفحات کی طرف
نشاندہی کر دی گئی ہے ۔مضمون کی آخری سطور بھی ادارہ محدث کی طرف سے اضافہ ہیں۔
حوالہ جات
1. تفسیر قرطبی:3؍1
2. تفسیر طبری: 2؍ 176
3. احکام القرآن: 1؍ 141
4. تفسیر کبیر: 5؍ 208؛فتح القدیر:1؍205
5. مختصر تفسیر ابن کثیر: 1؍ 183
6. تفسیر کبیر :5؍ 208
7. تفسیر الکبیر:23؍30 ؛ مختصر تفسیر ابن کثیر:2؍ 540
8. فتح القدیر:1؍ 205
9. فتح الباری:2؍458
10. تفسیر قرطبی12؍ 41
11. تفسیر فتح القدير3؍448
12. مجلہ 'التوعیہ' نئی دہلی، ستمبر 1991ء: ص 36
13. السنن الکبرٰی للبیہقی: 9؍296
14. سلسلہ احادیث الصحیحہ: 5؍ 621، رقم: 2476
15. غایة التحقیق في تضحیة أيام التشريق:ص89
16. صحیح ابن حبان: 9؍ 166، رقم 3854
17. سنن دار قطنی:4؍284؛مسند احمد(طبع میمنیہ):4؍82؛زاد المعاد:2؍291؛سلسلہ احادیث الصحیحہ:2476؛ مسند احمد:1657؛ مرعاۃ المفاتیح:5؍108
18. السنن الکبری للبیہقی: 9؍ 296
19. سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ: 5؍621
20. آداب الزفاف فی السنۃ المطہرۃ: ص 167
21. السنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296
22. فتح الباری:2؍458
23. الدر المنثور: 6؍ 37
24. تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس:ص 279
25. کنز العمال: 4528
26. شرح مسلم: 13؍ 111
27. تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،: دار طیبہ
28. زاد المعاد:2؍319؛مجلہ 'التوعیہ' نئی دہلی، ستمبر 1991ء ص 36
29. مجلہ 'التوعیہ' نئی دہلی1991ء،ص36
30. ایام قربانی: ص 22
31. احکام القرآن للطحاوی: 2؍ 206؛ سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 299
32. امالی المحاملی روایۃ ابن یحییٰ البیع: ص 89؛ سنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296من طریق حماد واسنادہ صحیح
33. سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 297 اسنادہ صحیح
34. التمہید لابن عبد البر: 23؍ 196؛ شرح النووی علی مسلم: 13؍ 111؛ زاد المعاد لابن القیم: 2؍ 319؛ المحلیٰ لابن حزم: 7؍ 378؛ تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،دارِ طیبہ
35. الام للشافعی: 2؍ 244
36. تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416؛ الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف للمرداوی: 4؍ 87
37. الاقناع لابن المنذر: ص 376
38. سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 298
39. تفسیر الوسیط للواحدی: 3؍ 268
40. روضۃ الطالبین للنووی: 2؍468
41. فتاویٰ الکبیر لابن تیمیہ: 5؍ 384
42. زاد المعاد: 2؍ 319
43. تفسیر ابن کثیر:1؍ 561
44. نیل الاوطار:5؍149
45. السلسلۃ الصحیحہ: رقم 2476؛ مجموع فتاویٰ ابن باز:16؍ 78؛ مجموع فتاویٰ ورسائل العثیمین: 25؍93،94،احکام مسائل:1؍432،433؛فتاوی ٰ محمدیہ :1؍620،627؛فتاوی ٰ اصحاب الحدیث:3؍407،408
46. ابحاث ہیئۃ کبار العلماء: 2؍ 308؛ مجلۃ البحوث الاسلامیہ، ریاض:4؍ 213