سود کی حرمت وحقیقت اور بعض شبہات کا اِزالہ

۱۴؍ نومبر ۱۹۹۱ء کو پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ نے ہر قسم کے سودی کاروبار کو حرام قرار دےکر ملکی معیشت کو اس سے جلد پاک کرنے کا تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا اور ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ءکو سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بنچ نے بھی اس کی توثیق کی تھی لیکن ۲۴ جون ۲۰۰۲ء کو سپریم کورٹ نےUBLکی نظر ثانی کی اپیل پر اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر اسے دوبارہ فیڈرل شریعت کورٹ میں بھیج دیا گیا جہاں اب اس کیس کا از سر نو جائزہ 1لیاجارہاہے۔یہ مضمون اسی تناظر میں لکھا گیا ہے ۔

حرمتِ سود

سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگ دلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اس لیے دین اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ قرآن حکیم نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللّٰہ اور اس کے رسول كے ساتھ جنگ قرار دیاہے:

﴿الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّ‌بو‌ٰا۟ لا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطـٰنُ مِنَ المَسِّ ۚ ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُم قالوا إِنَّمَا البَيعُ مِثلُ الرِّ‌بو‌ٰا۟ ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا۟ ۚ فَمَن جاءَهُ مَوعِظَةٌ مِن رَ‌بِّهِ فَانتَهىٰ فَلَهُ ما سَلَفَ وَأَمرُ‌هُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَن عادَ فَأُولـٰئِكَ أَصحـٰبُ النّارِ‌ ۖ هُم فيها خـٰلِدونَ ﴿٢٧٥﴾ يَمحَقُ اللَّهُ الرِّ‌بو‌ٰا۟ وَيُر‌بِى الصَّدَقـٰتِ ۗ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفّارٍ‌ أَثيمٍ ﴿٢٧٦﴾... سورة البقرة

''جولوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو ۔اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود کی طرح ہے، حالانکہ اللّٰہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام ،اب جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک جائے تو پہلے جو سود کھا چکا اس کا معاملہ اللّٰہ کے سپرد ہے مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ دوزخی ہیں ، جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کسی ناشکرے بندے کو پسند نہیں کرتا ۔''

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَر‌وا ما بَقِىَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰا۟ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَر‌بٍ مِنَ اللَّهِ وَرَ‌سولِهِ ۖ وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُ‌ءوسُ أَمو‌ٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩﴾... سورة البقرة

''اے ایمان والو! اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو اگر تم مؤمن ہو۔ اور اگر تم نے سود نہ چھوڑا تو اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ہاں اگر تو بہ کر لو توتمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ ظلم کرو ،نہ تم پر ظلم کیا جائے ۔ ''

دوسری جگہ فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلُوا الرِّ‌بو‌ٰا۟ أَضعـٰفًا مُضـٰعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿١٣٠﴾... سورة آل عمران

''اے ایمان والو! سود کو دگنا چوگنا کر کے مت کھاؤ اور اللّٰہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم آخرت میں نجات پاسکو۔''

سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہﷺنے فرمایا:

«اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْـمُوْبِقَاتِ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللهِ وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: الشِّرْكُ بِاللهِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبٰوا وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْـمُحْصَنَاتِ الْـمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ»2

''سات مہلک گناہوں سے بچو۔ صحابہ نے پوچھا :اللّٰہ کے نبیﷺ! وہ کون سے گناہ ہیں؟آپ ﷺنے فرمایا :اللّٰہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا ،جس نفس کو اللّٰہ نے حرام کیا ہے، اس کو ناحق قتل کرنا ،سود کھانا ،یتیم کا مال کھانا،جنگ کے دن پیٹھ دکھا کر بھاگنا ،پاک دامن اور بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا۔ ''

حضرت عبداللّٰہ بن حنظلہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺنے فرمایا:

«دِرْهَمٌ رِبًا یَأْکُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلَاثِیْنَ زنْیَةً»3

''ربا کا ایک درہم جو انسان علم ہونے کے باوجود کھاتا ہے۳۶(چھتیس) زناؤں سے زیادہ سخت ہے۔''

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:

«الربا ثلاثة وسبعون بابًا أیسرها مثل أن ینکح الرجل أمّه»4

''سود کے ستّر دروازے ہیں، سب سے کم تریہ ہے کہ انسان اپنی ماں کے ساتھ نکا ح کرے۔''

یہی وجہ ہے کہ نبیﷺنے اس میں ملوث تمام لوگوں کو لعنتی قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت جابر سے مروی ہے:

«لَعَنَ رَسُوْلُ الله اٰکِلَ الرِّبٰوا وَمُؤْکِلَهُ وَکَاتِبَهُ وَشَاهِدَیْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ»5

''نبی کریمﷺنے سود کھانے ،سود کھلانے ،لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا: یہ سب گنا ہ میں برابر کے شریک ہیں۔''

دیگر مذاہب میں بھی سودحرام ہے !

چونکہ سود ہر دور میں بنی نوع انسان کے لیے ایک جاں گسل مسئلے کی حیثیت سے موجود رہا ہے، اسی لئے ہر دین و مذہب میں اسے حرام قرار دیاگیاہے ۔ قرآن نے یہودیوں کی بد اعمالیوں کا ذکرکرتے ہوئے سود خوری کا تذکرہ بھی کیا ہے باوجود اس کے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر سود پہلے سے حرام کردیاتھا مگر یہ اس ذلیل دھندے میں لگے رہتے تھے :

﴿فَبِظُلمٍ مِنَ الَّذينَ هادوا حَرَّ‌منا عَلَيهِم طَيِّبـٰتٍ أُحِلَّت لَهُم وَبِصَدِّهِم عَن سَبيلِ اللَّهِ كَثيرً‌ا ﴿١٦٠﴾ وَأَخذِهِمُ الرِّ‌بو‌ٰا۟ وَقَد نُهوا عَنهُ وَأَكلِهِم أَمو‌ٰلَ النّاسِ بِالبـٰطِلِ ۚ وَأَعتَدنا لِلكـٰفِر‌ينَ مِنهُم عَذابًا أَليمًا ﴿١٦١﴾... سورة النساء

''یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر کچھ پاک چیزیں حرام کردی تھیں جو ان کے لیے حلال تھیں اور ان کے اللّٰہ کے راستے سے بہت زیادہ روکنے اور اُن کے سود لینے کی وجہ سے حالانکہ اُنہیں اس سے منع کیا گیا تھا اور ان کا لوگوں کا ناجائز طریقے کے ساتھ مال کھانے کی وجہ سے اور ہم نے ان میں سے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔''

آج بھی تورات میں کئی جگہ سود کی ممانعت کے احکام موجود ہیں۔ چنانچہ تورات کی کتاب 'استثنا' میں ہے :

''تواپنے بھائی کوسود پرقرض نہ دینا خواہ وہ روپے کاسود ہویا اناج کا یاکسی ایسی چیز کاجو بیاج پر دی جایاکرتی ہو۔''6

کتابِ 'خروج' میں ہے :

''اگر تومیرے لوگوں میں سے کسی محتاج کوجوتیرے پاس رہتاہو کچھ قرض دے تو اس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا اور نہ اس سے سود لینا۔''7

کتاب 'احبار' میں ہے :

''اور اگر تیرا کوئی بھائی مفلس ہوجائے اور وہ تیرے سامنے تنگ دست ہو تو تواسے سنبھالنا ۔ وہ پردیسی اور مسافر کی طرح تیرے ساتھ رہے ۔تو اس سے سود یانفع مت لینا بلکہ اپنے خدا کاخوف رکھنا تاکہ تیرا بھائی تیرے ساتھ زندگی بسر کر سکے ۔تو اپنا روپیہ اسے سود پر مت دینا اور اپناکھانا بھی اسے نفع کے خیال سے نہ دینا ۔''8

صحیفہ 'حزقیل' میں ہے :

''سود پر لین دین کرے توکیاوہ زندہ رہے گا ؟اس نے یہ سب نفرتی کام کئے ہیں ۔وہ یقیناً مرے گا ۔اس کاخون اسی پر ہوگا ۔''9

حرمتِ سود کا یہی حکم عیسائیوں کے لیے بھی ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا :

''یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یانبیوں کی کتابوں کومنسوخ کرنے آیاہوں ۔منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیاہوں ۔''10

یہود ونصاریٰ کی طرح ہندؤں کے مذہب میں بھی سود حرام ہے جیساکہ مغل شہزادے داراشکوہ اور معروف ہندوپنڈت کے درمیان ہونے والے مکالمے سے واضح ہے ۔داراشکوہ نے پنڈت صاحب سے پوچھا:کیا مسلمان پر سود کا لیناحرام اور اہل ہنود پر حلال ہے ؟تو پنڈت صاحب نے جواب دیا: اہل ہنود پر سود لیناحرام سے بھی زیادہ برا ہے ۔اس پر دارا شکوہ نے سوال کیا کہ پھر سود لیتے کیوں ہیں ؟تو پنڈت جی نے کہا کہ یہ رواج پاگیا ہے اور اس کا رواج پانا اس کے نقصان سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ہے ۔ 11مگر الم ناک صوت حال یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں سمیت سب ہی اس ملعون دھندے میں لگے ہوئے ہیں ۔

سود کیا ہے ؟

سود کو عربی زبان میں رِبا کہتے ہیں جس کا لغوی معنیٰ ہے'اضافہ' جب کہ شریعت کی اصطلاح میں سود اس متعین اور طے شدہ اضافی رقم کوکہاجاتا ہے جو مقروض قرض دینے والے کو اصل سرمائے کے ساتھ واپس کرتا ہے یاوہ اضافی رقم جوبیع کے نتیجے میں واجب ہونے والی رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی بنا پر وصول کی جائے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

﴿وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُ‌ءوسُ أَمو‌ٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩﴾... سورة البقرة

''اور اگر تم تو بہ کر لو توتمہارے لیے تمہارا اصل مال ہی ہے۔ ''

سیدنا علی سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے فرمایا:

«کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفعَةً فَهُوَ رِبًا»12

''ہر وہ قرض جو فائدے کا باعث بنے، وہ سود ہے ۔''

یعنی قرض خواہ کا اپنے مقروض سے اصل سرمائے کے علاوہ کسی بھی نام سے زائدرقم وصول کرناسود ہے چاہے وہ سود کے نام سے وصول کی جائے یا نفع اور مارک اپ کے نام سے۔اس میں بنک انٹرسٹ ، انعامی بانڈز ، ڈیفنس سرٹیفکیٹس ، سیونگ سرٹیفکیٹس، پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز اور کمرشل انشورنس بھی شامل ہیں کیونکہ ان پریہ تعریف صادق آتی ہے ۔

رِبا البیوع

سود کی واضح ترین شکل تووہی ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے اور اسی کو سابقہ شریعتوں میں حرام قرار دیا گیا ہے لیکن اسلام کی نگاہ میں سود کی ایک اور قسم بھی ہے جو پہلی قسم کی طرح ہی حرام ہے ۔ وہ ہے ایک جنس کی دو چیزوں کا اس طرح تبادلہ کرنا کہ دونوں یا ایک طرف سے اُدھار ہوجیسے روپے کاڈالرکے ساتھ اُدھار تبادلہ یاایک قسم کی دوچیزوں کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا جیسے گندم کا گندم کے ساتھ کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ ۔اس کو' رباالبیوع' یا 'ربا الفضل' کہتے ہیں یعنی سود کی وہ قسم جس کاتعلق خرید وفروخت یا تبادلے کے سودوں سے ہے ۔

رباالبیوع کے متعلق احادیث

حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہﷺ سے سنا :

«یَنْهَی عَنْ بَیْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِیْرِ بِالشَّعِیْرِ وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ عَیْنًا بِعَیْنٍ فَمَنْ زَادَ أَوْ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَی فَرَدَّ النَّاسُ مَا أَخَذُوْا»13

''آپﷺسونے کی سونے کے ساتھ ،چاندی کی چاندی کے ساتھ گندم کی گندم کے ساتھ جو کی جو کے ساتھ کھجور کی کھجور کے ساتھ اور نمک کی نمک کے ساتھ بیع سے منع فرماتے تھے الایہ کہ برابربرابر اور نقد ہوں جو زیادہ لے یا زیادہ دے وہ ربا کا مرتکب ہوا تو لوگوں نے جولیا تھا وہ لوٹا دیا۔''

ظاہر ہے ایک جیسی دو چیزوں کے تبادلے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب ان کی جنس ایک ہونے کے باوجود کوالٹی میں فرق ہو۔ اس صورت میں اسلام نے ہمارے سامنے دو ہی راستے رکھے ہیں:

1. جو کم تر چیزکے بدلے اعلیٰ یا اعلیٰ کے بدلے کم تر لینا چاہتا ہے وہ پہلے اس چیز کو بازار میں فروخت کرے، اس کے بعد اپنی مطلوبہ چیز خریدے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے :

أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلَى خَیْبَرَ فَجَاءَهُ بِتَمْرٍ جَنِیْبٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِﷺ: «أَکُلُّ تَمْرِ خَیْبَرَ هٰکَذَا» قَالَ: لَا وَاللهِ یَا رَسُوْلَ اللهِ! إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَیْنِ وَالصَّاعَیْنِ بِالثَّلَاثَةِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ «لَا تَفْعَلْ، بِعْ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِیْبًا»14

''نبیﷺنے ایک آدمی کو خیبر میں عامل مقرر کیا۔ وہ آپ ﷺکے پاس بہترین کھجوریں لے کر آیا تو رسول اللّٰہ ﷺنے پوچھا:کیا خیبر کی تمام کھجوریں اس قسم کی ہیں؟ اس نے جواب دیا : اے اللّٰہ کے رسولﷺ! واللّٰہ ایسی نہیں ہیں، ہم دو صاع کے بدلے اس کا ایک صاع اور تین صاع کے بدلے اس کے دو صاع وصول کرتے ہیں۔ آپﷺنے فرمایا: ایسا نہ کرو، ان ہلکی کھجوروں کو نقد درہموں سے بیچو پھر ان درہموں سے اعلیٰ کھجوریں خریدو۔...اور یہی ہدایت وزن کی جانے والی اشیا کے متعلق فرمائی۔''

2.  اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں اشیا کے مابین خاصیت کے فرق (Quality) کو نظر انداز کر دیا جائے ۔

ربا البیوع کیوں حرام ہے؟

یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کوالٹی میں فرق کی بنیادپر کمی بیشی کے ساتھ تبادلے میں بظاہر کوئی خرابی نظر نہیں آتی کیونکہ اعلیٰ درجے اور کم تر درجے کی چیز برابر نہیں پھر شریعت نے اسے کیوں حرام قرار دیا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے انسان میں سود خوری کی ذہنیت پرورش پانے کا اندیشہ تھا۔ دین اسلام کایہ طرہ امتیازہے کہ جب وہ کسی چیز کو حرام قرا ر دیتاہے تو اس برائی تک پہنچنے کے تمام راستے اور ذرائع بھی بند کر دیتاہے، چنانچہ نبی ﷺ نے اس کی یہ حکمت خود ہی بیان فرما دی ہے۔

«لاَ تَبِیْعُوا الدِّیْنَارَ بِالدِّیْنَارَیْنِ وَلاَ الدِّرْهَمَ بِالدِّرْهَمَیْنِ وَلاَ الصَّاعَ بِالصَّاعَیْنِ فَإِنِّيْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ الرَّمَاءَ وَالرَّمَاءُ هُوَ الرِّبَا»15

''ایک درہم کو دو درہم اور ایک صاع کو دو صاع کے عوض نہ بیچو کیو نکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں تم سود خوری میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔''

یہ حقیقت ہے کہ ایک قسم کی دو چیزوں کے درمیان تبادلہ ادنیٰ اور اعلیٰ یعنی کوالٹی کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے کہ ایک طرف عمدہ گندم ہو تی ہے اور دوسری طرف کم تر ۔چونکہ کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ سود کا سبب بن سکتا ہے، اس لئے شریعتِ اسلامیہ نے یہ اُصول طے کر دیا ہے کہ یا تو کوالٹی کا فرق نظر اندازکر کے لین دین کیاجائے یاپھر اپنی چیز بیچ کر مطلوبہ چیز خرید ی جائے جیساکہ حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں :

جَاءَ بِلاَلٌ إِلَى النَّبِیِّ ﷺ بِتَمْرٍ بَرْنِیٍّ فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ ﷺ: «مِنْ أَیْنَ هَذَا؟» قَالَ بِلاَلٌ: کَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِیٌّ ، فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَیْنِ بِصَاعٍ، لِنُطْعِمَ النَّبِیَّ ﷺ. فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ عِنْدَ ذَلِكَ «أَوَّهْ أَوَّهْ عَیْنُ الرِّبَا عَیْنُ الرِّبَا، لاَ تَفْعَلْ وَلَکِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِیَ فَبِعِ التَّمْرَ بِبَیْعٍ آخَرَ ثُمَّ اشْتَرِه»16

''ایک دفعہ حضرت بلالؓ نبی ﷺکے پاس عمدہ قسم کی کھجوریں لائے ۔آپ نے پوچھا یہ کہاں سے لائے ہو؟انہوں نے عرض کیا: ہمارے پاس گھٹیا قسم کی کھجور تھی، میں نے وہ دو صاع دے کر ایک صاع خرید لی تاکہ ہم نبیﷺکو عمدہ کھجوریں کھلائیں۔ نبیﷺنے فرمایا: ہائے یہ توقطعی سود ہے یہ قطعی سودہے، ایسا ہرگز نہ کرو۔جب تم عمدہ کھجوریں خریدنا چاہو تو اپنی کھجوریں کسی دوسری چیز کے عوض بیچ دو پھر اس سے عمدہ کھجوریں خریدو۔''

اسی طرح اگر کسی چیز میں سونا اور دوسری اشیا ملی جلی ہوں تو جب تک سونے کو علیحدہ نہ کر لیا جائے اس کواسی حالت میں متعین سونے کے عوض بیچناجائز نہیں ہے ۔ چنانچہ سیدنا فضالہ بن عبیدانصاری بیان کرتے ہیں:

أُتِيَ رَسُولُ اللهِﷺ وَهُوَ بِخَیْبَرَ بِقِلاَدَةٍ فِیهَا خَرَزٌ وَذَهَبٌ وَهِیَ مِنَ الْـمَغَانِمِ تُبَاعُ فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِالذَّهَبِ الَّذِی فِي الْقِلاَدَةِ فَنُزِعَ وَحْدَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ ﷺ «الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَزْنًا بِوَزْنٍ»17

''خیبر میں رسول اللّٰہ ﷺکے پاس ایک ہار لایا گیا جس میں کَڑیاں اور سونا تھا۔ وہ مالِ غنیمت میں سے تھااورفروخت کیا جارہاتھا۔آپﷺنے ہار میں موجود سونے کے بارے میں فرمایا تو اسے الگ کر دیاگیا۔پھر آپ نے ان سے کہا: سونا سونے کے ساتھ وزن کر کے فروخت کیا جائے ۔''

دوسری روایت میں فضالہ بن عبید فرماتے ہیں :

''میں نے خیبر کے روز بارہ دینار کے عوض ایک ہار خریدا جس میں سونا اور کَڑیاں تھیں۔میں نے اس کو الگ الگ کیا تو اس میں بارہ دینار سے زائد سوناپایا ۔میں نے اس بات کا تذکرہ آنحضور ﷺسے کیا تو آپ نے فرمایا: جب تک جدا جدا نہ کر لیا جائے اسے بیچانہ جائے ۔''18

حتیٰ کہ اگر ہم سونے یا چاندی کی بنی ہوئی کوئی چیز خریدیں تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے کہ اس کی قیمت میں اس کے وزن سے زائد سونا یا چاندی دینا جائز نہیں کیونکہ اس کی آڑ میں سود ی مرض کو در آنے کاموقع مل سکتا ہے ۔ چنانچہ حضرت مجاہد کہتے ہیں :

'' میں حضرت عبداللّٰہ بن عمر کے ساتھ تھاکہ ان کے پاس ایک سنار آیا۔ اس نے کہا: اے ابو عبدالرحمٰن (عبداللّٰہ بن عمر ؓکی کنیت)میں سونے کو ڈھالتا ہوں ،پھر زیادہ وزن پر فروخت کر دیتا ہوں اور اپنے ہاتھ کی محنت کے بقدر بچا لیتا ہوں۔ حضرت عبداللّٰہ بن عمر ؓ نے ان کو منع کر دیا، تاہم وہ سنار بار بار مسئلہ پیش کرنے لگااور عبداللّٰہ بن عمر ؓاسے منع کر رہے تھے۔ یہاں تک مسجد کے دروازے تک یا جس سواری پر سوار ہونا چاہتے تھے اس تک پہنچ گئے۔پھر حضرت عبداللّٰہ بن عمر ؓنے کہا: دینار دینار اور درہم درہم کے بدلے اُن میں تفاضل (کمی بیشی) جائز نہیں ہے ۔ یہ ہمارے نبی کا ہم سے عہد ہے اور ہمارا تمہارے ساتھ عہد ہے۔''19

اس طرح کا ایک واقعہ حضرت عطا بن یسار سے بھی مروی ہے ۔وہ کہتے ہیں :

أَنَّ مُعَاوِیَةَ بَاعَ سِقَایَةً مِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ بِأَکْثَرَ مِنْ وَزْنِهَا فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاء ِسَمِعْتُ رَسُولَ الله ِﷺ یَنْهَی عَنْ مِثْلِ هَذَا إِلَّا مِثْلاً بِمِثْلٍ20

'' ایک مرتبہ سیدنا معاویہ نے سونے یا چاندی کی بنی ہوئی ایک مشک اس کے وزن سے زائد سونا یا چاندی وصول کر کے فروخت کی توحضرت ابو دردا نے کہا کہ میں نے رسول اللّٰہ ﷺسے سنا کہ آپ اس طرح کے سودے سے منع کرتے تھے، سوائے اس کے کہ برابر برابر ہو ۔''

کمی بیشی کے ساتھ تبادلے کی جائز وناجائز صورتیں

صحیح مسلم میں حضرت عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہﷺنے فرمایا:

«فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الأَصْنَافُ فَبِیعُوا کَیْفَ شِئْتُمْ إِذَا کَانَ یَدًا بِیَدٍ»21

''جب یہ اشیا مختلف ہوں تو جس طرح چاہوفروخت کرو بشرطیکہ تبادلہ نقد ونقد ہو۔''

اہل علم نے آسانی کے لیے ان اشیا کو دو گروپوں میں تقسیم کیا ہے :

1 ۔ سونا، چاندی 2۔ گندم، جَو ، کھجور اور نمک

اور ان کے باہمی تبادلے کی جائز وناجائز صورتیں یوں بیان کی ہیں:

1. ایک گروپ کی دو ایک جیسی چیزوں جیسے سونے کا سونے یا چاندی کا چاندی یا گندم کا گندم کے ساتھ تبادلہ، اس میں کمی بیشی اور اُدھار دونوں منع ہے۔ اُدھار ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دو ایک جیسی چیزوں میں حقیقی برابری تب ممکن ہے جب دونوں کی ادائیگی کا وقت بھی ایک ہو۔

2.  ایک گروپ کی دو مختلف چیزوں کا تبادلہ جیسے سونے کا چاندی یا گندم کا چاول کے ساتھ تبادلہ ۔ اس میں کمی بیشی جائز ہے مگر ادھار جائز نہیں کیونکہ ادھار کمی بیشی سودی مزاج پر دلالت کرتی ہے ۔ وہ اس طرح جو شخص آج دس من گندم دے کر یہ طے کرتا ہے کہ وہ ایک مہینہ بعد پانچ من چاول لے گا تو اس کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ایک ماہ بعد پانچ من چاول دس من گندم کے برابر ہوں گے۔ اس نے دونوں کے درمیان تبادلے کی جو نسبت پیشگی طے کر لی ہے، یہ سودی ذہنیت کا ہی نتیجہ ہے جبکہ اس کے برعکس نقد تبادلہ ہمیشہ بازاری نرخ پر ہی ہوتا ہے۔ اس لیے شریعت نے نقد تبادلے کو تو جائز قرار دیا ہے لیکن اُدھار کی اجازت نہیں دی۔

3.  ایک گروپ کی کسی چیز کا دوسرے گروپ کی کسی چیز سے تبادلہ جیسے سونے کا گندم یا چاندی کا جوکے ساتھ لین دین، اس میں کمی بیشی بھی جائز ہے اور اُدھار بھی۔

یہی حکم ان اشیا کے باہمی تبادلے کا ہے جو حرمت کی علت میں ان چھ اشیا کے ساتھ شریک ہیں۔ اب ان اشیا کی حرمت کی علت کیا ہے اس میں فقہاے کرام کا اختلاف ہے ۔ صحیح موقف یہ ہے کہ سونے اور چاندی میں حُرمت کی وجہ ان کا ثمن( زر) ہونا ہے ، لہٰذا موجودہ دور کی کرنسیوں کو اِن پر قیاس کیا جائے گا اور ایک ملک کی کرنسی کا اُسی ملک کی کرنسی سے کمی بیشی کے ساتھ اور اُدھار تبادلہ حرام ہو گا جبکہ باقی چار اجناس میں حرمت کی وجہ قابل غذا وقابل ذخیرہ ہوتا ہے، اس لیے وہ تمام غذائی اشیا جنہیں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے،ان کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ ممنوع ہے۔

سود کے بارے میں بعض غلط فہمیاں

قرآن حکیم میں چونکہ انتہائی سخت الفاظ اور بڑی شدّ ومد کے ساتھ سود کی مذمت کی گئی ہے اس لئے مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر اس کی حرمت پر متفق ہیں تاہم بعض مسلمانوں میں اس حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کو دور کرنا ضروری ہے ۔

پہلی غلط فہمی: کاروباری سود یا کمرشل انٹرسٹ

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن نے صرف اس سود کو حرام قرار دیا ہے جو غریب اور پریشان حال لوگوں سے لیا جائے لیکن اگر کاروباری قرض پر سود لیا جائے تو اس کو قرآن حرام قرار نہیں دیتا کیونکہ نزولِ قرآن کے وقت کاروباری قرضوں کا رواج ہی نہیں تھا ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں ذاتی اور کاروباری قرضوں کی کوئی تفریق موجود نہیں ہے۔قرآن کہتا ہے کہ تم صرف اپنا اصل سرمایہ اور رأس المال لینے کے مجاز ہو۔اس حکم کا اطلاق کاروباری قرضوں پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اصل سرمایہ اور رأس المال کے الفاظ کاروباری سیاق و سباق میں ہی بولے جاتے ہیں ۔

اگر اُمرا سے سود لینا جائز ہوتا تو پھر 'رباالبیوع' حرام نہ ہوتاکیونکہ اس میں کسی غریب سے سود نہیں لیاجاتابلکہ یہ دو فریقوں کے درمیان برابری کے بنیاد پر تبادلہ ہوتا ہے مگر اس کے باوجود اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے ۔

اور پھر یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ نزولِ قرآن کے وقت کاروباری قرضوں کا رواج نہیں تھا۔ کاروباری قرضوں کارواج تو زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ :

'' نبیﷺنے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا واقعہ بیان فرمایا کہ اس نے ایک شخص سے اللّٰہ کو ضامن بنا کر ایک ہزار دینار قرض لیا اور سمندری سفر پرروانہ ہوگیا ۔''22

دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے اس قرض سے کاروبار کیا تھا۔23

علاوہ ازیں قرض کی مقدار سے بھی یہ واضح ہے کہ یہ قرضہ ذاتی ضرورت کے لیے نہیں بلکہ کاروبار کے لیے لیا گیا تھا۔ موطا امام مالک میں ہے :

''حضرت عمر کے صاحبزادے عبداللّٰہ اور عبیداللّٰہ ایک لشکر کے ساتھ عراق گئے۔ جب وہ واپس آرہے تھے تو ان کی ملاقات بصرہ کے گورنر ابوموسٰی اشعری سے ہوئی ،تواُنہوں نے کہا میری یہ خواہش ہے کہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکوں ۔میرے پاس بیت المال کا کچھ مال ہے جو میں مدینہ منورہ امیر المؤمنین کی خدمت میں بھیجنا چاہتا ہوں، میں وہ مال تمہیں بطورِ قرض دے دیتا ہوں، تم یہاں سے کچھ سامان خرید لو اور مدینہ منورہ میں وہ سامان بیچ کر اصل سرمایہ بیت المال میں جمع کرا دینا اور نفع خود رکھ لینا ۔ چنانچہ اُنہوں نے ایسا ہی کیالیکن حضرت عمر اس پر راضی نہ ہوئے کیونکہ یہ ان کے صاحبزادوں کے ساتھ امتیازی سلوک تھا۔ اس لیے اُنہوں نے اسے 'مضاربہ' قرار دے کر اصل سرمائے کے علاوہ ان سے آدھا نفع بھی وصول کیا۔''24

یہ قرض بھی کاروبار کے لیے ہی دیا گیا تھااس لیے یہ کہنا کہ نزولِ قرآن کے وقت کاروباری قرضوں کا رواج نہیں تھا درست نہیں ہے۔

دوسری غلط فہمی: سود مرکب یا سود دَرسود

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے صرف مرکّب سود (Compound Interest) کو حرام قرار دیا ہے۔مفرد سود (Simple Interest) کو حرام قرار نہیں دیا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے سود کی مد میں واجب الوصول ہر قسم کی رقم سے دستبردار ہونے کاحکم دیا ہے جس میں مفرد سود بھی شامل ہے ۔ بعض اوقات قرآن کسی جرم کی قباحت بیان کرنے کے لئے ایسی باتیں بھی ذکر کردیتاہے جو اس جرم کالازمی عنصر نہیں ہوتا ،مثلاً قرآن کہتا ہے : ﴿ وَلا تَقتُلوا أَولـٰدَكُم مِن إِملـٰقٍ﴾

''فقر وفاقہ کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ۔''

اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ فقر وفاقہ کے خوف کے بغیر اُنہیں قتل کیاجا سکتا ہے ۔

تیسری غلط فہمی: سود کی مکمل وضاحت نہیں ہوئی!

بعض لوگ سود کے حق میں یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق نے فرمایا تھا کہ سود کی آیت قرآنِ مجید کی آخری آیات میں سے ہے اور نبی کریمﷺاس کی وضاحت کئے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوگئے لہٰذا سود کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں یہاں تک کہ صحابہ کرام کو بھی معلوم نہ تھا کہ سود کیا ہے ۔

لیکن ان کا یہ استدلال واضح طور پر باطل ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے سود لینے والوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔ کیا یہ تصور کیاجاسکتا کہ اللّٰہ تعالیٰ ایک ایسے عمل پر اعلانِ جنگ فرما دیا ہو جس کی حقیقت ہی کسی کومعلوم نہ ہو جب کہ اللّٰہ عزوجل کا اُصول ہے:

﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...٢٨٦﴾... سورة البقرة

''اللّٰہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔''

حضرت عمر فاروق کے فرمان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سود کی حرمت آپ کی زندگی کے بالکل آخری ایام میں نازل ہوئی تھی کیونکہ اس کی حرمت تو غزوۂ اُحد کے فوراً بعد نازل ہوچکی تھی۔ چنانچہ سورۂآل عمران میں فرمایا :

﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلُوا الرِّ‌بو‌ٰا۟ أَضعـٰفًا مُضـٰعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿١٣٠﴾... سورة آل عمران

''اے ایمان والو! سود کو دگنا چوگنا کر کے مت کھاؤ اور اللّٰہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم آخرت میں نجات پاسکو۔''

اور یہ بات طے ہے کہ یہ آیت غزوہ اُحد کے فوراً بعد نازل ہوئی تھی۔ بعض روایات سے تو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سود غزوہ اُحد سے پہلے ہی ممنوع قرار دیا جاچکا تھاجیساکہ حضرت برّا بن عازب فرماتے ہیں :

قَدِمَ النَّبِیُّ ﷺ وَنَحْنُ نَتَبَایَعُ هَذَا الْبَیْعَ فَقَالَ مَا کَانَ یَدًا بِیَدٍ فَلَیْسَ بِهِ بَأْسٌ وَمَا کَانَ نَسِیئَةً فَلاَ یَصْلُحُ25

'' نبیﷺمدینہ منورہ تشریف لائے اور ہم یہ بیع کرتے تھے (ایک مخصوص بیع کی طرف اشارہ ہے) تو آپ ﷺنے فرمایا :جو نقد بہ نقد ہو، اس میں کوئی حرج نہیں اور جو اُدھار ہو، وہ درست نہیں ہے۔''

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ أُقَیْشٍ کَانَ لَهُ رِبًا فِي الْجَاهِلِیَّةِ فَکَرِهَ أَنْ یُسْلِمَ حَتَّی یَأْخُذَهُ فَجَاءَ یَوْمَ أُحُدٍ. فَقَالَ: أَیْنَ بَنُو عَمِّی؟ قَالُوا بِأُحُدٍ. قَالَ: أَیْنَ فُلاَنٌ؟ قَالُوا: بِأُحُدٍ. قَالَ: أَیْنَ فُلاَنٌ؟ قَالُوا: بِأُحُدٍ فَلَبِسَ لأْمَتَهُ وَرَکِبَ فَرَسَهُ ثُمَّ تَوَجَّهَ قِبَلَهُمْ فَلَمَّا رَاٰہُ الْـمُسْلِمُونَ قَالُوا إِلَیْكَ عَنَّا یَا عَمْرُو! قَالَ: إِنِّي قَدْ اٰمَنْتُ26

''حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ عمرو بن اقیش کا زمانۂ جاہلیت میں کسی کے ذمہ سود تھا، اُنہوں نے اس کے وصول کرنے تک اسلام قبول کرنے کو نا مناسب سمجھا، وہ جنگِ اُحد کے دن آئے اور پوچھا: میرے چچا زاد کہاں ہیں ؟ جواب ملا: جنگِ اُحد میں ،پوچھا: فلاں کہا ہے؟جواب دیا گیا: اُحد میں ،اُنہوں نے پوچھا: فلاں کہاں ہے؟ کہاں گیا: اُحد میں۔ اُنہوں نے اسلحہ پہنا اور گھوڑے پر سوار ہو کر اُحد کی طرف روانہ ہو گئے ۔جب مسلمانوں نے اُنہیں دیکھا تو کہنے لگے :اے عمرو !دور ہو جاؤ ،اس پر اُنہوں نے کہا:میں اسلام لا چکا ہوں۔''

مزید یہ کہ حضرت عمر کے اس فرمان سے سود کا جوازثابت کرنا ان کے مقصد کے صریح خلاف ہے کیونکہ ان کا مقصد تو یہ ہے کہ صرف صریح سود سے ہی نہ بچو بلکہ ہر اس معاملے سے بھی بچو جس میں سود کا شائبہ بھی پایا جائے ۔

صحیح بخاری ومسلم،سنن ابو داؤد ،نسائی ،ترمذی اور موطا امام مالک میں حضرت عمر سے حرمتِ سود کے بارے میں جو روایات مروی ہیں، ان سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کو سودکی حرمت اور اس کی حقیقت کے متعلق کوئی اشکال نہ تھا۔ ان کو اصل اشکال یہ تھاکہ آیا اس کا دائرہ صرف انہی چیزوں تک محدود ہے جن کا حدیث میں ذکر ہے یا ان کے علاوہ دوسری چیزیں بھی اس میں شامل ہیں ؟

چوتھی غلط فہمی: اِفراطِ زرکا مسئلہ

بعض لوگوں کے نزدیک سود درحقیقت افراطِ زر(Inflation) کی وجہ سے روپے کی قوتِ خرید میں آنے والی کمی کی تلافی کا ذریعہ ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ معاشی ماہرین کے نزدیک افراطِ زر بہت سے عوامل کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ اس کی ذمہ داری کسی ایک شخص پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا کرنسی کی قوتِ خرید میں کمی کا ذمہ دار مقروض کوٹھہرانا درست نہیں ہے۔

مزید برآں حدیثِ مبارکہ میں قرض دینے کو صدقہ اور نیکی قرار دیا گیا ہے ۔ اگر روپے قوتِ خرید کم ہونے کی صورت میں قرض دہندہ کو نقصان ہوتا ہے تو اس کو آخرت میں اس کا اجر وثواب بھی ملے گا۔
مذکورہ بالا شبہات کے مزید تفصیلی جوابات کے لئے مدیر اعلیٰ 'محدث' مولانا
حافظ عبد الرحمٰن مدنی﷾ کا تفصیلی مضمون ملاحظہ کریں جو محدث کے سود نمبر
مجریہ اکتوبر 1999ء میں شائع شدہ ہے ۔ یہ مضمون دراصل شریعت اپلیٹ بنچ میں
جون 1999ء میں دورانِ مقدمہ چار روز تک ہونے والے اُن کے تفصیلی بیان پر مشتمل ہے۔
'سود نمبر' محدث کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے: www.mohaddis.com

حوالہ جات

1. نظرثانی کی اس درخواست پر سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے، از سرنو کیس کا جائزہ لینے کی ہدایت کی گئی ۔ 11 برس یونہی گزر گئے اور اب 21؍اکتوبر 2013ء کو اس کیس کی سماعت کا آغاز وفاقی شرعی عدالت میں کردیا گیا ہے، گویا معاملہ پھر سے وہیں آپہنچا ہے جہاں سے 22برس قبل وفاقی شرعی عدالت میں شروع ہوا تھا۔ شرعی عدالت نے14 سوالات پر مشتمل سوالنامہ جاری کردیا ہے جس کا جواب 5 نومبر سے پہلے پہلے طلب کیا گیا ہے۔ ان میں سے بیشتر سوالات وہی ہیں، جن کاجواب اس سے پہلے بھی دیا جا چکا ہے، محدث کے خصوصی شمارہ سود نمبر مجریہ اکتوبر1999ء میں ان سوالات کے تفصیلی جوابات ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔اس سارے منظر نامے سے حکومتِ پاکستان کی نفاذِ اسلام کے لئے 'مخلصانہ خدمات'اور رجحانات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ح م

2. صحیح بخاری:2726

3. مسند احمد: 20951

4. مستدرك حاكم:کتاب البیوع2؍37

5. صحيح مسلم:4092،4093

6. استثنا 23: 19

7. خروج، باب 22: 26

8. احبار: باب 25: 53 تا 37

9. حزقیل 18: 5 ،13

10. انجیل متی، 5: 17

11. اسرارِ معرفت: 21

12. جامع الصغیر: 9728 ... سود کی جامع ترتعریف کیلئے محدث کے سود نمبر کا صفحہ 46،83،42 ملاحظہ کریں۔ ح م

13. صحيح مسلم:کتاب المساقات:4061

14. صحیح بخاری:2201،2202

15. مسند احمد:6095

16. صحیح بخاری:2312؛ صحیح مسلم:4083

17. صحیح مسلم:4075

18. ایضاً

19. موطا امام مالک، باب بیع الذہب بالفضۃ تبراو عینا

20. سنن نسائی، باب بیع الذہب بالذہب:4576

21. صحیح مسلم،باب بیع الصرف وبیع الذہب4063

22.صحیح بخاری: 2291

23. فتح الباری: 4؍594

24. موطا امام مالک:کتاب القراض ،باب ماجاء فی القراض:687

25. صحیح بخاری:3940-3939

26. سنن ابو داؤد:2537