'صلاۃ حاجت' کی شر عی حیثیت

سوال: نمازِ حاجت بارہ ركعت پڑھى جاتى ہے اور ہر دو ركعت كے درمیان تشہد اور آخرى تشہد میں اللّٰہ كى حمد و ثنا اور نبى پر درود پڑھ كر پھر سجدہ كرتے ہیں۔ سجدہ میں سات بار سورۃ الفاتحہ اور سات بار آیۃ الكرسى اور دس بار لا إله إلا الله وحده لا شریك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدیر پڑھ کرپھر یہ كہتے ہیں: اللهم إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهٰى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة... پھر ہم اپنى ضرورت طلب كرتے اور سجده سے اپنا سر اٹھا كر دائیں بائیں سلام پھیر دیتے ہیں۔میرا سوال یہ ہے كہ

مجھے یہ بتایا گیا ہے كہ نبى كریم ﷺ نے سجدہ میں قرآن مجید پڑھنے سے منع كیا ہے، میں نے دورانِ تعلیم اس نمازِ حاجت كا تجربہ بھى كیا تھا تو اللّٰہ تعالىٰ نے میرى دعا قبول فرمائى۔ اب مجھے پھر ایك ضرورت پیش آئى ہے جو میں اللّٰہ سے طلب كرنا چاہتى ہوں، اس كے لیے نماز حاجت ادا كروں یا نہ كروں ، کیا اس کا کوئی خاص فائدہ ہے ؟آپ مجھے كیا نصیحت فرماتے ہیں ؟

جواب:الحمد للہ! نمازِ حاجت كا ذكر چار احادیث میں ملتا ہے، جن میں سے دو احادیث تو موضوع اور من گھڑت ہیں۔ اور ان دو حدیثوں میں سے ایك میں بارہ اور دوسرى حدیث میں دو ركعت كا ذكر ملتا ہے، اور تیسرى حدیث بھى بہت زیادہ ضعیف ہے، اور چوتھى حدیث بھى ضعیف ہے اور ان دونوں حدیثوں میں دو ركعت كا ذكر ہوا ہے۔

1. پہلى حدیث وہ ہے جس كا سوال میں ذكر كیا گیا ہے اور یہ حدیث عبد اللّٰہ بن مسعود سے روایت كى جاتى ہے كہ نبى كریم ﷺ كا فرمان ہے:

'' تم بارہ ركعتیں دن میں یا رات میں كسى وقت ادا كروا ور ہر دو ركعت میں تشہد پڑھو۔ جب تم اپنى نماز كا آخرى تشہد پڑھو تو اس میں اللّٰہ كى حمد و ثنا بیان كرو اور نبىﷺ پر درود پڑھو، اور سجدہ میں سات بار سورۃ الفاتحہ پڑھو اور دس بار لا إله إلا الله وحده لاشریك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدیر

پھر یہ كلمات كہو اللهم إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم وجدك الأعلىٰ وكلماتك التامة

اے اللّٰہ ! میں تجھ سے تیرے عرش کی عزت والی جگہوں ،تیری کتاب کی کامل رحمت ،تیرےبہت زیادہ عظمت والے نام ،تیری بلند و بالا بزرگی اور تیرے مکمل کلمات کے ساتھ سوال کرتا ہوں۔

''اور اس كے بعد اپنى حاجت طلب كروا ور سجدہ سے سر اٹھا كر دائیں بائیں سلام پھیر دو، اور یہ بےوقوفوں كو مت سكھاؤ كیونكہ وہ اس سے مانگیں گے تو ان كى دعا قبول كر لى جائےگی۔''

اسے علامہ ابن جوزى﷫ نے الموضوعات :2؍63 میں عامر بن خداش عن عمرو بن ہارون بلخى كے طریق سے روایت كیا ہے۔اور ابن جوزى ﷫ نے عمرو بلخى كى ابن معین سے تكذیب نقل كى ہے، اور كہا ہےکہ سجدہ میں تلاوتِ قرآن كى ممانعت صحیح ثابت ہے ۔1

اور اس دعا معاقد العز من عرش الله سے مقصود میں علماے كرام كے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے جو شرع میں وارد نہیں بلكہ بعض اہل علم ،جن میں امام ابو حنیفہ﷫ شامل ہیں، نے یہ دعا كرنے سے منع كیا ہے، كیونكہ یہ بدعتى وسیلہ میں سے ہے، اور كچھ دوسرے علما نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ ان كا اعتقاد ہے كہ اللّٰہ كى صفات میں سے كسى بھى صفت كا وسیلہ جائز ہے، اس لیے نہیں كہ ان كے ہاں مخلوق كا وسیلہ جائز ہے۔شیخ البانى ﷫كہتے ہیں:

''میں كہتا ہوں: لیكن جس اثر اور روایت كى طرف اشارہ كیا گیا ہے وہ باطل ہے صحیح نہیں۔ اسے ابن جوزى نے ' الموضوعات ' میں روایت كیا ہے اور كہا ہے: یہ حدیث بلاشك و شبہ موضوع ہے، اور حافظ زیلعی﷫ نے نصب الرایۃ (273) میں ان كے اس فیصلے كو برقرار ركھا ہے۔''

اس لیے اس سے دلیل پكڑنا صحیح نہیں، اگرچہ قائل كا قول ہى ہو کہ أسألك بمعاقد العز من عرشك جو اللّٰہ كى صفات میں سے ایك صفت كے ساتھ وسیلہ ہے، اور دوسرے دلائل كے ساتھ یہ توسل مشروع ہے جو اس موضوع احادیث سے غنى كر دیتى ہیں۔ابن اثیر ﷫ كہتے ہیں:

''أسألك بمعاقد العز من عرشك یعنی ان خصلتوں كے ساتھ جن كا عرشِ عزت مستحق ہے، یا ان كے منعقد ہونے كى جگہوں كے ساتھ، اور اس كے معنىٰ كى حقیقت یہ ہے كہ تیرے عرش كى عزت كے ساتھ، لیكن ابو حنیفہ﷫كے اصحاب اس لفظ كے ساتھ دعا كرنا مكروہ سمجھتے ہیں۔''

اگر تو اس جملہ سے وہ خصلتیں مراد لی جائیں جن كا عرشِ عزت مستحق ہے، تو یہ اللّٰہ كى صفات میں سے ایك صفت سے توسل ہوا، لہٰذا جائز ہو گا۔لیكن دوسرى وجہ كى بنا پر جو كہ عرش سے عزت كے حصول كى جگہوں والامعنىٰ ہے تو یہ مخلوق سے توسل ہے ،اس لیے جائز نہیں، بہر حال یہ حدیث كسى بحث و تمحیص كى مستحق نہیں اور نہ ہى تاویل كى، كیونكہ یہ حدیث ثابت ہى نہیں ،اس لیے اوپر جو بیان ہوا ہے اس پر اكتفا كرتے ہیں۔'' علامہ البانى ﷫ كا كلام ختم ہوا۔2

اور شیخ صالح فوزان ﷾ كہتے ہیں:

'' اس حدیث میں غرابت پائى جاتى ہے جیسا كہ سائل نے بیان كیا ہے كہ قیام كے علاوہ ركوع یا سجدہ میں سورۃ الفاتحہ مشروع ہے، اور یہ تكرار كے ساتھ ہے، اور پھر سوال میں یہ بھى ہے كہ أسألك بمعاقد العز من عرشك جیسے اور كلمات بھى ہیں اور یہ سب اُمور غریب ہیں، اس لیے سائل كو چاہیے كہ وہ اس حدیث پر عمل مت كرے۔اور پھر نبى كریمﷺ سے جو صحیح احادیث ثابت ہیں جن میں كوئى اشكال بھى نہیں جن میں نوافل اور عبادات و اطاعت كا بیان ملتا ہے ان احادیث میں ہى ان شاء اللّٰہ كفایت ہے۔''3

مزید برآں نبى كریم ﷺ سے صحیح حدیث میں ثابت ہے كہ آپ ﷺ نے ركوع اور سجدہ میں قرآنِ مجید كى تلاوت سے منع فرمایا ہے۔

حضرت على بن ابى طالب بیان كرتے ہیں:

'' مجھے رسول كریم ﷺ نے ركوع اور سجدہ میں قراءت كرنے سے منع فرمایا ۔''4

2. نمازِ حاجت كے متعلق دوسرى حدیث درج ذیل ہے:

حضرت ابن عباس بیان كرتے ہیں كہ رسولِ كریم ﷺ نے فرمایا:

''میرے پاس جبریل كچھ دعائیں لے كر آئے اور كہا: اگر آپ كو كوئى دنیاوى پریشانى ہو تو آپ یہ دعائیں پڑھ كر اپنى ضرورت مانگیں:

یا بدیع السموات والأرض، یا ذا الجلال والإكرام، یا صریخ المستصرخین، یا غیاث المستغیثین، یا كاشف السوء، یا أرحم الراحمین، یا مجیب دعوة المضطرین ، یا إله العالمین ، بك أنزل حاجتی وأنت أعلم بها فاقضها5

''اے آسمان و زمین كے پیدا كرنے والے، یا ذا الجلال و الاكرام، اے لوگوں كى پكار سننے والے، اے مدد طلب كرنے والوں كى مدد كرنے والے، اے تکلیف كو دور كرنے والے، اے ارحم الراحمین، اے مجبور و لاچار كى دعا قبول كرنے والے، یا الٰہ العالمین، مجھے ضرورت اور حاجت ہے اور تو اسے زیادہ جانتا ہے میرى اس حاجت كو پورا فرما۔''

3. تیسرى حدیث درج ذیل ہے:

حضرت عبد اللّٰہ بن ابواوفى بیان كرتے ہیں كہ رسولِ كریم ﷺ نے فرمایا:

''جس كسى كو بھى اللّٰہ سبحانہ و تعالىٰ كى جانب یا پھر كسى بنى آدم كى طرف كوئى حاجت ہو تو وہ اچھى طرح وضوكرے اور دو ركعت ادا كر كے اللّٰہ كى حمد و ثنا بیان كر كے نبى ﷺ پر درود پڑھے اور پھر یہ كلمات كہے: لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله الْحَلِیمُ الْكَرِیمُ سُبْحَانَ الله رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِینَ أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِیمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلاَمَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ لاَ تَدَعْ لِى ذَنْبًا إِلاَّ غَفَرْتَهُ وَلاَ هَمًّا إِلاَّ فَرَّجْتَهُ وَلاَ حَاجَةً هِىَ لَكَ رِضًا إِلاَّ قَضَیتَهَا یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ6

''اللّٰہ حلیم و كریم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، اللّٰہ پاک ہےجوعرش عظیم كا پروردگارہے، سب تعریفات و حمد اللّٰہ رب العالمین كے لیے ہیں، اے اللّٰہ میں تجھ سے تیرى رحمت واجب کرنے والے اُمور طلب كرتا ہوں، اور تیری بخشش كا طلبگار ہوں، اور ہر نیكى كى غنیمت چاہتا ہوں، اور ہر گناہ سے سلامتى طلب كرتا ہوں، میرے سب گناہ معاف كر دے، اور میرے سارے غم و پریشانیاں دور فرما، اور تیرى رضا وخوشنودى كا ،جو بھى حاجت و ضرورت ہے ،وہ پورى فرما اے ارحم الراحمین!''

امام ترمذى ﷫اس حدیث كے متعلق كہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اور اس كى سند پر كلام كیا گیا ہے۔اور علامہ البانى ﷫ نے اسے ضعیف الترغیب : 416 میں ذكر كیا اور اسے ضعیف جدّاً قرار دیا ہے۔

4. چوتھى حدیث یہ ہےکہ حضرت انس بیان كرتے ہیں كہ نبى كریم ﷺ نے فرمایا:

''اے على! كیا میں تجھے ایك دعا نہ سكھاؤں جب تجھے كوئى غم و پریشانى ہو تو اپنے ربّ سے دعا كرو تو اللّٰہ كے حكم سے یہ دعا قبول ہو اور تیرى پریشانى و غم دور ہو جائے ؟

وضو كر كے دو ركعت ادا كرو اور اللّٰہ كى حمد و ثنا بیان كرنے كے بعد اپنے نبى ﷺ پر درود پڑھو اور اپنے لیے اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں كے لیے بخشش كى دعا كر كے یہ كلمات ادا كرو:

اللهم أنت تحكم بین عبادك فیما كانوا فیه یختلفون لا إله إلا الله العلي العظیم لا إله إلا الله الحلیم الكریم سبحان الله ربّ السماوات السبع وربّ العرش العظیم الحمد لله رب العالمین اللهم كاشف الغم مفرج الهمّ مجیب دعوة المضطرین إذا دعوك رحمن الدنیا والآخرة ورحیمهما فارحمنی في حاجتی هذه بقضائها ونجاحها رحمة تغنینی بها عن رحمة من سواك7

''اے اللّٰہ تو اپنے بندوں كے مابین فیصلہ كرنے والا ہے جس میں وہ اختلاف كرتے ہیں، اللّٰہ على وعظیم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، اللّٰہ حلیم و كریم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، آسمان و زمین اور عرش عظیم كا مالك اللّٰہ سبحانہ و تعالىٰ پاك ہے، سب تعریفات اللّٰہ رب العالمین كے لیے ہیں، اے غموں كو دور كرنے والے، اور پریشانیوں كو دور كرنے والے، مجبور و لاچار كى دعا كو قبول كرنے والے، دنیا و آخرت كے رحمن اور دونوں كے رحیم، میرى اس حاجت و ضرورت میں مجھ پر رحم فرما كر اس ضرورت كو پورا كر اور مجھ پر ایسى رحمت فرما جو مجھے تیرى رحمت كے علاوہ باقى سب سے مستغنى كر دے۔''

علامہ البانى ﷫ نے اسے الترغیب : 417 میں ضعیف قرار دیا اور كہا ہےکہ اس كى سند مُظلم یعنی اندھیرى ہے، نیز اس میں ایسے رُواۃ ہیں جو معروف نہیں ۔

خلاصہ یہ ہوا كہ اس نماز كے متعلق كوئى حدیث صحیح نہیں، اس لیے مسلمان شخص كے لیے یہ نماز ادا كرنا مشروع نہیں، بلكہ اس كے مقابلہ میں جو صحیح احادیث میں نمازیں اور دعائیں اور اذكار ثابت ہیں وہى كافى ہیں۔

دوم:سوال كرنے والى محترمہ كا یہ كہنا كہ میں نے اس كا تجربہ كیا ہے اور اسے فائدہ مند پایا ہے۔ اس كے علاوہ بھى كئى لوگ ایسى بات كر چكے ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اس طرح كے اقوال اور تجربات سے شریعت ثابت نہیں ہوتى اور كوئى امر مشروع نہیں ہو جاتا۔

علامہ شوكانى ﷫ كہتے ہیں:

''صرف تجربہ كى بنا پر ہى سنت ثابت نہیں ہو جاتى اور نہ ہى دعا كى قبولیت اس پر دلالت كرتى ہے كہ قبولیّت كا سبب رسولِ كریم ﷺسے ثابت ہے۔ بعض اوقات اللّٰہ تعالىٰ تو سنّت كے علاوہ كسى اور چیز كے توسّل سے بھى دعا قبول فر لیتا ہے، كیونكہ اللّٰہ ارحم الراحمین ہے، اور بعض اوقات دعا كى قبولیت بتدریج ہوتى ہے ۔''8

اور شیخ صالح الفوزان ﷾ كہتے ہیں:

'' اور جو یہ ذكر كیا گیا ہے كہ فلان شخص نے اس كا تجربہ كیا تو اسے صحیح پایا، اور فلان نے بھى تجربہ كیا تو اسے صحیح پایا، یہ سب اس حدیث كے صحیح ہونے پر دلالت نہیں كرتا، بعض اوقات انسان كوئى تجربہ كرتا ہے اور اسے اس كا مقصود حاصل ہو جاتا ہے تو یہ اس كے متعلق جو كچھ كہا گیا یا جو وارد ہوا ہے اس كے صحیح ہونے پر دلالت نہیں كرتا، كیونكہ ہو سكتا ہے اس كا حصول قضا و قدر سے ہوا ہو، یا پھر فاعل كے لیے ابتلا و امتحان ہو، تو كسى چیز كا ہو جانا اس كے صحیح ہونے پر دلالت نہیں كرتا۔''9

نمازِ حاجت کے متعلق ایک اور فتویٰ

سوال: میرا سوال نماز حاجت كے متعلق ہے۔ یہ كتنى بار ادا كرنى چاہیے، اور اس كى ادائیگی كب ممكن ہے؟ كیا نمازِ حاجت اس وقت ادا كى جائے جس میں دعا كى قبولیت متوقع ہو ؟

جواب: مسلمان كے لیے مشروع یہ ہے كہ وہ اللّٰہ تعالى كى عبادت اس طرح كرے جو اللّٰہ تعالى نے كتاب اللّٰہ میں مشروع كى ہے، اور نبى كریم ﷺ سے ثابت ہے، اور اس لیے بھى كہ عبادت توقیفی ہوتى ہے، جس میں كوئى كمى و بیشى نہیں ہو سكتى۔ اور اس لیے كسى بھى عبادت كے متعلق نہیں كہا جا سكتا كہ یہ عبادت مشروع ہے، لیكن جب صحیح دلیل ہو تو مشروع كہا جا سكتا ہے۔جسے نماز حاجت كے نام سے موسوم كیا جاتا ہے، ہمارے علم كے مطابق یہ ضعیف اور منكر قسم كى احادیث میں وارد ہے، جن احادیث سے كوئى حجت اور دلیل نہیں لى جا سكتى، اور نہ ہى عمل كرنے كے لیے ان احادیث كو دلیل بنایا جا سكتا ہے۔10

نماز حاجت كے متعلق حدیث یہ ہے جوعبد اللّٰہ بن ابى اوفى اسلمى بیان كرتے ہیں:

''ہمارے پاس رسول ﷺ آئے اور فرمانے لگے:جس كسى كو اللّٰہ تعالىٰ یا كسى مخلوق كے سامنے ضرورت اور حاجت ہو تو وہ شخص وضو كر كے دو ركعت ادا كرے اور پھر یہ كہے: لا إِلَهَ إِلا الله الْحَلِیمُ الْكَرِیمُ سُبْحَانَ الله رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِینَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِیمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ أَسْأَلُكَ أَلا تَدَعَ لِي ذَنْبًا إِلا غَفَرْتَهُ وَلا هَمًّا إِلا فَرَّجْتَهُ وَلا حَاجَةً هِی لَكَ رِضًا إِلا قَضَیتَهَا لِي11

''اللّٰہ تعالىٰ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، وہ حلیم و كریم ہے، اللّٰہ تعالىٰ پاك ہے، جو عرشِ عظیم كا رب ہے۔ سب تعریفات اللّٰہ ربّ العالمین كے لیے ہیں، اے اللّٰہ میں تیرى رحمت كو واجب کرنے والى اشیا كا طالب ہوں اور تیرى مغفرت كا، اور ہر نیكى كى غنیمت چاہتا ہوں، اور ہر گناہ سے سلامتى۔ اے اللّٰہ میں تجھ سے سوال كرتا ہوں كہ میرے سارے گناہ معاف كر دے، اور سارے غم اور پریشانیاں دور كر دے، اور جس حاجت میں تیرى رضا ہے وہ میرے لیے پورى كر دے۔پھر دنیاوى اور آخرت كے معاملات سے جو چاہے سوال كرے، اسے دیا جائے گا۔''

امام ترمذى ﷫ كہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اس كى سند میں كلام ہے کیونکہ فائد بن عبد الرحمٰن کی حدیث میں ضعف بیان كیا جاتا ہے اور علامہ البانى ﷫ كہتے ہیں کہ یہ ضعیف جدا ہے۔امام حاكم كہتے ہیں: فائد بن عبد الرحمٰن نے ابو اَوفى سے موضوع احادیث روایت كى ہیں۔12

صاحب 'السنن و المبتدعات' نے فائد بن عبد الرحمٰن كے متعلق امام ترمذى ﷫ كا كلام نقل كرنے كے بعد كہا ہے:

''اور امام احمد﷫ كا كہنا ہے كہ یہ متروك ہے اور ابن العربى نے اسے ضعیف كہا ہے۔اور اُن كا كہنا ہے:آپ كو اس حدیث میں جو گفتگوہے ،اس كا علم ہو چكا ہے، اس لیے آپ كے لیے افضل ، بہتر اور سلیم یہى ہے كہ آپ رات كے آخرى پہر اور اذان اور اقامت كے درمیان اور نمازوں میں سلام سے قبل اور جمعہ كے روز دعا كریں كیونكہ یہ دعا كى قبولیت كے اوقات ہیں، اور اسى طرح روزہ افطار كرنے كے وقت۔اور پھر آپ كے پروردگار جل شانہ كا فرمان ہے:''تم مجھ سے دعا كرو میں تمہارى دعا قبول كروں گا۔'' اور ایك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالىٰ ہے:

''اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال كریں تو اُنہیں كہہ دیں یقیناً میں قریب ہوں، دعا كرنے والے كى دعا كو قبول كرتا ہوں جب وہ مجھے پكارتا ہے۔''

اور ایك مقام پر اس طرح فرمایا:

''اور اللّٰہ كے لیے اچھے اچھے نام ہیں، تم اسے ان ناموں سے پكارو۔''13


حوالہ جات

1. الموضوعات :2؍63 اور ترتیب الموضوعات از امام ذہبى:167

2. التوسل: انواعہ و احكامہ :48۔ 49

3. المنتقى من فتاوى شیخ فوزان :1؍46

4. صحیح مسلم :480

5. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ :5298

6. جامع ترمذى :479قال الالبانی: ضعیف جدا ؛ سنن ابن ماجہ :1384

7. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : 5287

8. تحفۃ الذاكرین :140

9. المنتقى من فتاوى شیخ فوزان :1؍46

10. فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء :8؍162

11. سنن ابن ماجہ :1384

12. مشكوٰۃ المصابیح :1؍417

13. كتاب السنن والمبتدعات ازشقیرى :124