نقوش اقبال مترجم : علامہ سید ابوالحسن علی ندوی
صفحات : 294
قیمت : 50؍13 روپے
طابع و ناشر : فضل ربی ندوی
مترجم : مولاناشمس تبریز خان
پتہ : مجلس نشریات اسلام۔ ناظم آباد۔کراچی
شاعری او رپھر اس کے ہمراہ ''حکمت'' کی چاشنی، اقبال کی ندرت و فکر کی جان اور طرہ امتیاز ہے۔ لیکن اس کو انہوں نے ''مئے شبانہ اور زُلف یار کے بجائے ''حجازی اسلام''کی خدمت کےلیے استعمال کیاہے۔ اقبال کی عظمت کا راز بھی دراصل یہی ہے کہ :رسوائے زمانہ دانشوروں کی طرح انہوں نے شاعری کو ''شیخ چلی''نہیں بنایا او رنہ ہی سفلی جذبات کے اظہار کا اسے ذریعہ گردانا ہے بلکہ اسے سنجیدہ مضامین اور حقائق دینیہ کی تشریح و توضیح اور تفسیر کے لیےکھپایا ہے۔ او رعصری تقاضوں کے مطابق زبان بیان کا ایک اچھوتا اسلوب ان کو مہیا کیا ہے۔
علامہ اقبال ملت اسلامیہ کے سوا د اعظم کی نگاہوں میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں اور کافی حد تک وہ اس کے مستحق بھی ہیں اور جس انداز سے انہوں نے اسلام کی خدمت کی ہے، وہ اس امر کی متقاضی تھی کہ شاعری کاذوق رکھنے والے حضرات اس کی تقلید کریں۔ اس کےعلاوہ انہوں نے داعیان حق کو بھی 'تعبیر نو'' کے تقاضوں سے آشنا کیا اور ''نوائے درد''کے لیے جس اسلوب او رطرز فغاں کی ضرورت تھی، اس کی طرف بھی ان کو توجہ دلائی۔
یہ وہ مکارم حیات تھے، جن کی نشرواشاعت کی زیادہ سے زیادہ ضرورت تھی، نتیجہ گو اس کا صفر رہا ہے تاہم اتمام حجت کی حد تک اندرون ملک اس پر کاخاصہ کام ہوا ہے، مگر بیرون دنیا میں خاص کر عالم عربی میں اقبال ، ان کے افکار اور طرز فغاں کے تعارف کا اتمام ہنوز باقی تھا اور یہ وہ خلا تھا جس کو عالم عرب کا پڑھا لکھا طبقہ بھی محسوس کرتا تھا۔چنانچہ عرب کے اسلامی ادیب علی طنطاوی نے اخوان المسلمون کے مشہور مجلہ ''المسلمون '' میں علی میاں کے نام ایک کھلا خط شائع کیا کہ آپ عالم عرب کو علامہ اقبال سے روشناس کرائیں۔ اس کے بعد آپ نے المسلمون میں اس سلسلے کے یکے بعد دیگرے مضامین شائع کیے جو بعد میں''ردائع اقبال'' نامی کتاب کے نام سے مشہور ہوئے۔
یہی وہ کتاب ہے جس کاعلامہ شمس تبریز نے ترجمہ کرکے ''نقوش اقبال'' کےنام سے اُردو خوان طبقہ کو پیش فرمایا ہے:ترجمہ کیا ہے، اس پر اصل کاگمان ہوتا ہے۔ جزاهم اللہ۔
علامہ اقبال ایک عظیم فلسفی شاعر او راسلام کے سلسلے میں (جہاں تک وہ سمجھ سکے ) ان کے جذبات نہایت مومنانہ او رمخلصانہ تھے۔ مگر اس کے باوجود ضرورت اس امر کی بھی تھی کہ اس سلسلے میں ان کی بعض کمزوریاں بھی تھیں جن کابرملا اعتراف کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ ان سے پوری طرح اتفاق کرنا مشکل ہے۔ تاکہ آنے والی نسل انہیں ''مجتہد اور سند''نہ بنالے او رجو امور محل نظر ہیں، وہ ان کو وحی آسمانی تصور نہ کرلے۔ مگر افسوس!اقبال پر جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، انہوں نے اس ضرورت او راحتیاط کااحساس نہیں کیا۔
حضرت علی میاں کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے، یہ فریضہ بھی بالآخر ان کو ہی ادا کرنا پڑا ہے اور اس سلسلے میں اب تک جو کمی چلی آرہی تھی، اس کو بھی پورا کردیا ہے۔ جزاهم اللہ خیراً
چنانچہ موصوف علامہ اقبال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں اقبال کو معصوم و مقدس ہستی او رکوئی دینی پیشوا اور امام مجتہد نہیں سمجھتا اور نہ میں ان کے کلام سے استناد او رمدح سرائی میں حد افراط کو پہنچا ہوا ہوں جیساکہ ان کےغالی معتقدین کا شیوہ ہے..... اقبال کے یہاں اسلامی عقیدہ و فلسفہ کی ایسی تعبیریں بھی ملتی ہیں جن سے اتفاق کرنا مشکل ہے، بعض پرجوش نوجوانوں کی طرح اس کا بھی قائل نہیں کہ اسلام کو ان سے بہتر کسی نے سمجھا ہی نہیں او راس کے علوم و حقائق تک ان کے سوا کوئی پہنچا ہی نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں اپنی زندگی کے ہر دور میں اس کا قائل رہا کہ وہ اسلامیات کے ایک مخلص طالب علم رہے اور اپنے مقتدر معاصرین سے برابر استفادہ ہی کرتے رہے۔'' (نقوش اقبال:ص29)
اگر حضرت علی میاں اس مرحلے پر اس کا اظہار نہ کرتے تو یقیناً خلاف توقع بات ہوتی او روہ عالم عرب کو ایک عجیب غلط فہمی میں ڈالنے کاموجب بنتی۔ ہم اقبال کے پاکستانی او رہندی قصیدہ پڑھنے والوں سے بھی یہ درخواست کریں گے کہ وہ بھی مندرجہ بالا سطور کا بالخصوص مطالعہ فرمائیں۔
اقبالیات کے شیدائیوں کا سلسلہ نہایت طویل ہے مگر مقلدانہ انداز کے زیادہ ہیں، جو قدر دان ان کے افکار کو تول بھی سکتے ہیں، وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ چنانچہ جس بھی غلط بات کے لیے ان کو اقبالیات میں سے کوئی صریح یا موہوم سہارا مل جاتا ہے وہ اسے بھی صحیح اور حق مان لیتے ہیں، اس لیےحضرت علی میاں ان مقامات کابھی علمی محاسبہ او رایک جائزہ پیش فرماسکیں تو پوری ملت اسلامیہ پر احسان ہوگا۔ ورنہ اس کا امکان قوی ہے کہ اقبال کے نام لیواؤں کی غلط حمایت کی وجہ سے کل ان امور کو بھی حق او ردین بنا لیا جائے گاجوآج مولانا کی نگاہ میں بھی محل نظر ہیں۔ او ریہ وہ فریضہ ہے جس سے صر ف ایک عالم دین ہی عہدہ برآ ہوسکتا ہے۔
ہمارے نزدیک اس کتاب کامطالعہ اس لیے بھی مفید رہے گا کہ اقبالیات کی ترجمانی کے سلسلے میں ایک ذمہ دار فاضل اور مقتدر عالم دین نے جو کچھ لکھا ہے ، کافی محتاط لکھا ہے اور وہ بصیرت افروز بھی ہے۔
۔۔۔:::::۔۔۔۔
(2)
مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق اور علامہ اقبال : سیدنذیر نیازی
صفحات : 14
قیمت : درج نہیں
پیشکش : مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور
پتہ : 12۔ افغانی روڈ، سمن آباد لاہور
جناب ڈاکٹر اسرار احمد نے مرکزی انجمن خدام القرآن کی داغ بیل ڈالی ہے۔یہ مقالہ اسی انجمن کی طرف سے 15 دسمبر 1973ء کو پہلی سالانہ قرآن کانفرنس کے تیسرے اجلاس میں ٹاؤن ہال لاہور میں پڑھا گیا۔ اس میں ایمان و تنظیم ، تلاوت و ترتیل، تذکیر و تدبر، حکم و اقامت اور تبلیغ و تبیین کی تشریح کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں علامہ اقبال کے معمولات اور قرآن حکیم سے ان کی وابستگی کے نمونے بھی پیش کیے گئے ہیں اورخاصے دلچسپ انداز میں۔ ہاں یہ یاد رہے کہ قرآن سے ان کی وابستگی ویسےنہیں تھی جیسے منکرین حدیث کی ہے۔موصوف قرآن کا مطالعہ حامل قرآن کی سیرت طیبہ کے آئینے میں کیاکرتے تھے۔
انجمن خدام القرآن نے خدمت قرآن کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ،مبارک ہے، دعا ہے کہ :وہ حامل قرآن کی جلائی ہوئی مشعلوں کی روشنی کو سمجھنے میں سدا کامیاب رہیں۔
۔۔۔۔۔:::::۔۔۔۔۔
(3)
راہ نجات (سورہ العصر کی روشنی میں) : جناب ڈاکٹر اسرار احمد
صفحات : 36
قیمت : درج نہیں
شائع کردہ : ایچی سن کالج، لاہور
سورہ العصر قرآن مجید کی مختصر ترین سورتوں میں سے ایک ہے ، مگر دریا درکوزہ کے مصداق۔۔۔ڈاکٹر موصوف نے اسی سورہ کے ''علمی اورروحانی حقائق''کوایک چھوٹے سے رسالہ میں مرتب کیا ہے۔
پہلے مختصر سی تمہید بیان فرمائی ہے، پھر سورہ کا اجمالی مفہوم ذکر کیا ہے۔اس کے بعد سورہ کے ایک ایک لفظ کی تفسیر او رتوضیح کی ہے۔ جو خاصی دلنشین ہے۔مثلاً والعصر کے کیا معنی ہیں، خسران کسے کہتے ہیں، ایمان کا مفہوم کیا ہے۔عمل صالح کی حقیقت کیا ہے، ایمان اور عمل صالح کاباہمی تعلق کیا ہے۔ تواصی، حق، صبر او ران کے مابین باہمی ربط کیا ہے، ایک ایک کو کھول کر بیان کیا ہے جونہایت ہی بصیرت افروز ہے۔
موصوف فرماتے ہیں کہ اس سورت میں نجات کی کم از کم شرائط بیان ہورہی ہیں او راس کے ناگزیر لوازم کاذکر ہے نہ کہ کامیابی کی بلند ترین منازل یا فوزوفلاح کے اعلیٰ مراتب کا۔(ص:11)
موصوف کا یہ نقطہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں، ہمارےنزدیک یہ چاروں شرائط ہر قسم کی نجات کی ضامن ہیں۔ شاید موصوف کو مغالطہ ''إلا'' کے استثناء سے لگا ہے۔ اگر آپ مزید غور فرمائیں گے تو یہ اغلاق خود بخود دور ہوجائے گا۔
آگے چل کر اپنے ایمان او رعمل پر روشنی ڈالی ہے،جس سے یہ واہمہ محسوس ہوتا ہے کہ عمل کے بغیر ایمان نہیں رہتا، لیکن اس حد تک تو ہم ان سے اتفاق کرسکتے ہیں کہ ایمان کی کمی بیشی میں عمل کو بڑا دخل ہے، لیکن عمل سے ایمان نہ رہے یا ایمان اور کفر کے مابین کوئی تیسری بات ہوجائے، اہل السنۃ والجماعۃ کا یہ مسلک نہیں ہے بلکہ معتزلہ اور خوارج کانظریہ ہے۔ اس اندیشے کو ہم نے ''واہمہ''سے تعبیر کیا ہے کیونکہ مضمون کی عبارت کچھ زیادہ صاف نہیں ہے، ورنہ جہاں تک صحیح نظریہ ہے اس سلسلے میں ہمیں موصوف سے حسن ظن ہے۔ رسالے میں جہاں کہیں حدیث نقل فرمائی ہے،اس کا حوالہ نہیں دیا۔