طلوع ِ اسلام کاشمارہ نومبر 1975ء

ایک نظر میں

اس پرچہ کے مرقومات چار عنوانوں پر مشتمل ہیں۔

1۔ لمعات

2۔ قربانی کے بارے میں علمائے الجزائر کا فتویٰ

3۔ طلوع اسلام کنونشن میں پرویز صاحب کا استقبالیہ

4۔ مودودی صاحب کی تفسیر پر تبصرہ

پہلا مضمون محض تعلّی و تعریض پر مشتمل ہے۔

تعلّی یہ ہےکہ طلوع اسلام نے نہ کوئی الگ جماعت بنائی نہ کوئی فرقہ پیدا کیا نہ کہیں سے کوئی امداد حاصل کی، نہ قربانی کی کھالیں اکٹھی کیں، نہ صدقہ زکوٰۃ کے روپے بٹورے بلکہ اپنے محدود وسائل سے کام لےکر اپنی دُھن میں آگے بڑھتا گیا۔

اب یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ رسالہ طلوع اسلام نے واقعی قربانی کی کھالیں اور صدقہ و امداد وغیرہ وصول نہیں کیا۔ بھلا ایک رسالہ (مجموعہ اوراق)میں یہ عقل و شعور کہاں کہ وہ چندہ وصول کرے۔ ہاں اگر طلوع اسلام سے مراد اس کاادارتی اور انتظامی عملہ یا ان کے کرتا دھرتا ہیں تو انہیں جماعت ہی کہنا پڑے گا اس سے شرمسار ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ بلا شبہ اس جماعت کو کسی نے قربانی کی کھال یا اور کوئی امداد نہیں دی تو اس کاسبب یہ ہے کہ لوگ اتنے بیوقوف نہیں ہیں کہ وہ ایسی جماعت کو قربانی کی کھال یازکوٰۃ کی رقم دیں جو سرے سے قربانی یا زکوٰۃ کی قائل ہی نہیں ہے۔ رہا یہ کہ طلوع اسلام نے کوئی الگ جماعت نہیں بنائی او رنیا فرقہ نہیں پیدا کیا تو کیا دیانت داری سے کوئی بتاسکتا ہے کہ آخر ابتدائے اسلام سے آج تک مسلمانوں کی وہ کون سی جماعت یا خیر القرون کے مسلمانوں میں کون سا ایسا ہے جو طلوع اسلام کے علمبرداروں میں سے کسی کا ہمنوا ہو۔

آخر نیا فرقہ یا نئی جماعت کامفہوم اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ اس کے عقائد و خیالات سب سے نرالے اور جداگانہ ہوں۔ اسلام کے جس قدر فرقے ہیں ان سب کی بنیاد صرف قرآن و سنت کی من مانی تعبیر کے سوا او رکیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں بانی طلوع اسلام کو یدطولیٰ حاصل ہے۔ پھر طلوع اسلام کے کارناموں کامختصر سا اشارہ بھی اس تعلّی پر موجود ہے کہ وہ اپنے محدود وسائل سے کام لے کر اپنی دھن میں آگے بڑھتا گیا۔ ان محدود وسائل کی نشاندہی نہیں فرمائی گئی اور آگے بڑھتا گیا کامدعا بھی نہیں بتایا۔ آخر وہ محدود وسائل کیا تھے او روہ کس مقام سےآگے بڑھا او رکس مقام پر پہنچا۔ اگر اس کی تشریح کردی جائے تو طلوع اسلام کی جماعت کا سراغ او راس کے قواعد و ضوابط کی تعیین میں کوئی دشواری نہ رہے گی۔ یہ تو تھی تعلّی اب تعریض ملا حظہ ہو۔ اہل حدیث اور اہل سنت والجماعت دونوں پر لازم ہے کہ ''ان کے پاس اپنے مسلک کی تائید میں کچھ وصفی روایات ہوتی ہیں جنہیں وہ حضور نبی اکرمﷺ کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور کچھ اسلاف کے مقدس نام سے جن کی اندھی تقلید کو وہ عین دین قرار دے کرعوام کو اپنے پیچھے لگائے رکھتے ہیں۔'' کاش وہ یہ بھی بتا دیتے کہ وہ کون سے اصحاب ہیں جو محض موضوع احادیث کے پیرو ہیں اور یا وہ کون سے اسلاف ہیں جن کی اندھی تقلید دنیا کے تمام مسلمان کررہے ہیں جس میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے۔ جماعت اسلامی کے بارے میں (جو قدیم روایات کی حامی اور اسلاف کی پیرو ہے) لکھا ہے کہ ''طلوع اسلام نے (ظاہر ہے کہ اس سے مراد جماعت ہی ہوسکتی ہے)تقسیم ہند سے پہلے بھی ان کی مخالفت کی تھی (یعنی طلوع اسلام ان کا ازلی دشمن ہے)....چونکہ جھوٹ بولنا ان کے (یعنی جماعت اسلامی کے)مذہب میں جائز ہی نہیں بلکہ واجب قرار پاتا ہے او رعند الضرورت اصولوں کو پس پست ڈال دینا ان کے نزدیک معاذ اللہ اتباع سنت نبوی ہے اس لیے انہوں نے طلوع اسلام کے خلاف ہر قسم کے جھوٹے الزام تراشے۔

جماعت طلوع اسلام کی صداقت شعاری ملاحظہ ہو کہ ''جماعت اسلامی کے نزدیک جھوٹ بولنا واجب بلکہ سنت ہے او رجماعت اسلامی کی یہ کذب بیانی دیکھئے کہ ''طلوع اسلام منکر حدیث ہے۔ منکر شان رسالت ہے۔ تین نمازوں اور نو روزوں کا قائل ہے وغیرہ'' اگر فی الواقع جماعت اسلامی نے یہی کہا تو شاید جھوٹ ہی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ طلوع اسلام صرف حدیث کی حجیت اسلام ہونے کامنکر ہے۔ حدیث کامنکر نہیں ہے۔شان رسالت کا قائل ہے۔ البتہ احادیث نبی کریمﷺکو قابل اتباع نہیں سمجھتا اورنہ اسے شارح قرآن تسلیم کرتا ہے۔ یہ بھی درست نہیں ہے کہ وہ صرف تین نمازوں او رنو روزوں کی فرضیت کا قائل ہے بلکہ وہ تو پورے نظام صلوٰۃ و زکوٰۃ و صوم کو مرکز ملت کے فیصلہ کا تابع تصور کرتا ہے۔

اب ان دونوں میں سے کون سچا او رکون جھوٹا ہے۔اس کا فیصلہ قارئین کرام خود کرلیں ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اس پر خدا کی لعنت ہو۔

اس رسالہ کے دوسرے مضمون کا عنوان ''حج پر قربانی کے بارے میں علمائے الجزائر کافتویٰ''ہے لیکن مضمون میں صرف علامہ الشیخ البشیر الابراہیمی کاذکر ہے۔

طلوع اسلام کی بدقسمتی سے یہ فتوے بھی باوجود تلاش بسیار کے دستیاب نہ ہوئے اور جب تک یہ فتوے ہی دستیاب نہ ہوں اس پر کوئی رائےزنی نہیں کی جاسکتی۔ قیاس یہ ہے کہ ممکن ہے علامہ موصوف نے ایسا کوئی فتویٰ ان عازمین حج کے لیے دیا ہو جو مکہ معظمہ یا اس کے انواع میں اقامت رکھتے ہوں ۔ ان پرقربانی فرض نہیں ہے۔ عجب نہیں کہ ایسے اشخاص کو قربانی کی بجائے نقد رقم غرباء مساکین میں تقسیم کرنے کی ہدایت فرمائی ہو او راس پر عمل رہا ہو۔چونکہ طلوع اسلام کی نو پید جماعت قربانی میں احراق دم کو واجب نہیں سمجھتی اس لیےاس حکم سےغلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔ والّا اس عاجز نے حال میں علامہ عبدالرحمٰن الجزیری کی صحیح کتاب الفقه علی المذاہب الأربعہ کاترجمہ کیا ہے جوشائع ہوچکی ہے اس میں کہیں ایسے فتوے کا سراغ نہیں ہے ۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر اگر الجزیرہ کا کوئی عالم ایسافتویٰ دے بھی دے تو طلوع اسلام والوں کو اس پر بغلیں بجانا حماقت ہے کیونکہ اس کو جمہور ملت اسلامیہ یاکتاب و سنت کا فیصلہ نہیں کیاجاسکتا۔

تیسرا مضمون پرویز صاحب کی تقریرپر مشتمل ہے۔ اس ا صرف وہ حصہ قابل قدر ہے جس میں انہوں نے سوشلزم یا اسلامی سوشلزم کے حامیوں پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔اس کے علاوہ جو کچھ بھی کہا ہے اس میں کچھ تو اشتراکی اصول کی حمایت او رکچھ حسبنا کتاب اللہ کی حمایت ہے جن کی تان آخر کار انکار حدیث ٹوٹتی ہے ۔ کیونکہ ان کے نزدیک احکام و ارشادات نبوت کی بجائے امت کے لیے عملی پروگرام مرتب اور محقق کرنے کا حق اسلامی مملکت کے لیےمخصوص ہے او راسلامی مملکت سے ان کی مراد ''وہی مرکز ملت'' کاناشد فی تصور ہے، جسے ہر گو نہ عبادات اسلامی تک میں ردوبدل کااختیار حاصل ہو۔

چوتھامضمون مودودی صاحب کی تفسیر کی چند جھلکیاں ہیں، اس مضمون کے آغاز ہی میں صاحب مضمون نے یہ بتا دیا ہے کہ ''دنیا کو اسلام سے برگشتہ ہی نہیں بلکہ متنفر کرنے کے لیے دانستہ یا نادانستہ جو کوششیں ہوئی ہیں ان میں ہمارا کتب تفسیر نے بڑا اہم کردار ادا کرلیا ہے۔''

اس کامطلب یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے تمام مفسرین ومحدثین و علماء و فضلا نے جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ اپنی تمام عمر اس کوشش میں صرف کردی ہےکہ لوگوں کو اسلام سے برگشتہ اور متنفر کیا جائے۔ مولانامودودی کی تفسیر میں بھی اکثر و بیشتر انہیں عقائد و خیالات کا اظہار ہے جو اسلاف مفسرین نے تفہیمات رسول اکرمﷺاور صحابہ سے اخذ فرما کر اپنی تفاسیر میں درج فرمائے۔اس لیے طلوع اسلام کی جماعت یہی کہتی ہے کہ ان کی تفسیر نے بھی لوگوں کو اسلام سے برگشتہ اور متنفر کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔

مولانامودودی کی تفسیر پر پانچ اعتراضات ہیں جن کی وجہ یہ ہے کہ:

1۔ ہاروت و ماروت کا قصہ لغو ہے۔

2۔ حضر ت یوسف ؑ کا اپنے بھائی کے سامان میں پیمانہ رکھ کر انہیں روکنے کی تدبیر جو تفاسیر میں مذکور ہے وہ پیغمبر پر فریب دہی کا الزام ہے۔

3۔ ضعیف و ناتواں شخص کو جس کے شفا پانے کی امید نہ ہو سو دُرے مارنے کی بجائے سو تیلیوں کو ایک بارمارنے کا حکم مضحکہ خیز ہے۔

4۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک شخص کو یہ کہنا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ایک پیغمبر کی بداخلاقی اور بدکرداری کی دلیل ہے۔

5۔ رسول اللہ پر جادو (معاذ اللہ)

اس کا جواب یہ ہے کہ ہارون و ماروت کا قصہ لغو نہیں ہے۔ جس طرح سےمستند تفاسیر میں بتایا گیا ہے اس پر کوئی شرعی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اس سے بڑا اعتراض شیطان کی تخلیق پر وارد ہوسکتا ہےجس طرح شیطان کی تخلیق سے انسانوں کی آزمائش مقصود تھی اسی طرح ہاروت و ماروت کا دنیا میں آنا بھی آزمائش کے لیے تھا۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کے سامان میں کٹوار رکھنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا درآنحالیکہ یہ خود بھائی کے علم سے ہوا جیسا کہ مودودی صاحب نے تفسیر میں بتایا ہے۔

مریض یا ضعیف انسان جس کو سزا دینی مقصود ہو او روہ اس سزا کا تحمل نہ کرسکتا ہو تو اسے معاف ہی کرنا پڑے گا ۔ تنکوں سےمارنا محض ایک احترام قانون ہے اور ایسا کرنے کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو دیا تھا۔ مضمون نگار نے اس کامذاق اڑایا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ ایسی صورت میں کیاکرنا چاہیے تھا۔ خدا و رسول کا فیصلہ اس باب میں کیا ہے؟

حضرت داؤد علیہ السلام کا کسی شخص کو حکم دینا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ۔ممکن ہے لغزش سے تعبیر کیاجائے لیکن ایسا ممکن ہے۔انبیاء کی لغزش بدیں جہت کہ وہ پائیدار نہیں ہوتی او رفوراً اس کی تنبیہ ہوجاتی ہے ہماری لغزشوں سے بالکل مختلف ہے کہ ہم اس پر قائم رہتے ہیں۔معترض کا انبیاء کے حالات کو اپنے اوپر قیاس کرناغلطی ہے۔

رسول اللہ ﷺ پر جادو کیے جانے کی بھی یہی کیفیت ہے کہ وہ جادو و جسم پر تو موثر ہوسکتا ہے لیکن امور دینی میں اس کاکچھ اثر نہیں ہوتا۔ اس کی مثال امراض کی سی ہے کہ اگر انبیاء پر عوارض و اجرام کااثر ہونا ممکن ہے تو جادو کااثر کیوں ناممکن ہے۔ انبیاء کو قتل بھی کیا گیا ۔ وہ بیمار بھی ہوئے۔ انہیں زخم و اذیت بھی پہنچائی گئی۔ایذا رسانی کے طریقوں میں جادو بھی ہے۔غرض یہ تمام اعتراضات جماعت پرویزی کے دین ناآشنا ذہن کی تخلیق ہیں۔