توحید ...... توحید ....... توحید
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
خدا کو یکتا کہنے اور
لا إله إلا الله کے اصول پر اسے ماننے کانام ''توحید'' ہے۔
اگرچہ بُت ہیں جماعت کے آستینوں میں
محھے ہے حکم اذاں لا إله إلا الله
نام کو تو ''توحید'' بڑی آسان سے تلمیح محسوس ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک ''عظیم امانت'' ہے جس کوبے داغ واپس کرنے کے لیے ، روشن فکر،عظیم کردار، اونچے ایمان، بڑے ثبات اور حوصلہ کی ضرورت ہے، مہیب آسمان و زمین اور پہاڑوں سے بھی بڑھ کر ، استقامت کی متقاضی ہے کیونکہ یہ دیوہیکل طاقتیں اس بار امانت کی گرانباری سے ڈر گئی تھیں۔
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا(پ22۔احزاب ع9)
''ہم نے (اس) امانت کو ، آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا (اور یہ بوجھ ان پر لادنا چاہا) تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے۔''
لیکن انسان نے ''لبیک '' کہی۔
وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا(ایضاً)
اور انسان نے اس (بارامانت ) کواٹھا لیا ، دراصل اپنےحق میں یہ بہت ہی ظالم اور انتہائی نادان نکلا ہے۔
اٹھایا اس لیے کہ ، اس کی اس میں صلاحیت ہے ، چونکہ یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے ، جو چین و آرام کی قربانی کی متقاصی ہے ، اور نہایت صبر آزما ڈیوٹی ہے ، اس لیے از راہ ترحم ، اسے ظلوما جھولا کے نام سے یاد فرمایا ہے یہ کتنا ہی بھولا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے ک ہاگر ''انسانیت بے داغ'' ہو تو یہ ذمہ داری اس کے لیے غذا بن جاتی ہے۔ جب یہ داغدار ہوجاتی ہے تو پھر رو دھو کر ہی گذرتی ہے۔ تکلیف کاوزن 'ّداغدار انسانیت ، محسوس کرتی ہے ، بے داغ انسانیت کے لیے 'ّشیر مادر'' سے بھی زیادہ خوشگوار چیز ثابت ہوتی ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان ،قدرت کی ایک عظیم دریافت ہے جس کی مثال سے ''مادر گیتی'' کی آغوش خالی ہے ، مگر وہ کتنے ہیں ، جو اپنے اس ''مقام رفیع'' کا احساس بھی کرتے ہیں۔؟
بہرحال جہاں یہ ایک ''عظیم بار امانت'' ہے ، وہاں یہ ایک عظیم کردار بھی ہے ، مگر کارے دارد!
اس لیے اقبال کو کہنا پڑا۔
چوں می گو یم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را
توحید
لا إله إلا الله کی وہ روح ہے جو نفی و اثبات کا حاصل ہے ، ایک طرف تو یہ اذعان اور اعلان ہے کہ:
اور کوئی نہیں !
دوسری طرف یہ نعرہ بھی ہے کہ :
صرف اللہ ہی اللہ ہے!
اس نعرہ کی لاج رکھنا ، مسجود ملائکہ کے لیے تو ممکن ہے ، ہما شما کے لیے تو یہ ایک مجذوب کی بڑ ہے۔ اگر ایک شخص ''اور کوئی نہیں ہے'' کے ساتھ ساتھ ''اللہ ہے'' کا قائل نہیں ہے۔ یا ''صرف اللہ ہی اللہ ہے'' کے ساتھ ''اور کوئی انہیں ہے'' پر یقین نہیں رکھتا ، تو ظاہر ہے ، وہ اور جو کچھ کہلانا چاہیے ، کہلا سکتا ہے ، لیکن موحد نہیں کہلا سکتا۔
توحید کے سمجھنے کے لیے ، اس کے تین پہلوؤں کا مطالعہ پہلے نہایت ضروری ہے۔
اللہ کی ذات والا صفات میں ''ترکیب اور دوئی'' کے تمام ''اعتبارات اور شائبے'' بالکلیہ معدوم ہیں۔ وہ تجزی اور تکثر کا کوئی محل اور مذکور نہیں ہے۔ زندگی کے جتنے شئون ، کیفیات ، واردات اور اعمال ہیں ، ان سب کا ماخذ اور مصدر ، صرف اور صرف اس کی ''مشیت'' ہے اور کوئی نہیں !
انسان کے ''تکلیفی امور'' کے لیے بھی اسی ذات واحد کی مرضی ، وحی اور منشا ہی ''واحد مرجع'' ہے اور کوئی نہیں !
کچھ کرنے اور سوچنے سے پہلے سب کو یہ سوچنا ہے کہ:
اس کی مرضی کیا ہے؟ پھر اس کی مرضی کے بعد اس میں کسی اور کی مرضی کا ٹانکانہ لگائے۔
رشتہ درگرد نم افگندہ دوست
می کشد ہر جکہ خاطر خواہ اوست
مشہور ادیب اور بلندپایہ مترجم قرآن ، شمس العلماء حضرت مولانا نژیر احمد بن مولانا سعادت علی (ف1331ھ؍1836ء) مرحوم نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے نویں سالانہ جلسہ میں''توحید'' کے عنوان پر ایک تقریر کی تھی جو بعد میں 1894ء میں مفیدعام پریس لاہور میں طبع ہوئی ، اس میں تقریر کرتے ہوئے جو کہا ، وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے ، اس میں وہ فرماتے ہیں:
''جب اس طرح اسباب ظاہر کو اور اسباب ظاہر کی تخصیص بھی کیوں کروں؟ بلکہ ''ماسوی اللہ'' کو انتظام دنیا سےبے دخل محض سمجھ لو گے ، تب تم کو
''هو الأول والآ خر والظاهر والباطن'' کے معنی معلوم ہوں گے۔''
اقبال مرحوم نے ''توحید'' کا جو راگ الاپا ہے ، دنیا نے اس کامطالعہ نہیں کیا۔ دراصل اقبال مرحوم کو اس لیے یہ شکوہ بھی تھا کہ لوگ ، اسے ایک غزل کواہ سمجھتے ہیں ، ان کے پیام کو نہیں سمجھتے ، واقعی بات وہی بن گئی ہے۔ اقبال کے نام پر جتنا کاروبار ہورہا ہے ، وہ اسی امر کی غمازی کرتا ہے کہ لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ، بس اس کا کاروبار ہی کرتے ہیں۔ انا للہ۔
اقبال کا پیام توحید یہ ہے:
اے پسر! ذوق نگاہ از من گیر .... سوختن در لا الہ از من بگیر
لا الہ گوئی؟ بگواز روئے جاں .... تاز اندام تو آید بوئے جاں
مہر و ماہ گرد و ز سوز لا الہ .... دیدہ ام ایں سوز رادر کوہ وکہ
ایں دو حرف لا الہ گفتار نیست .... لاالہ جز تیغ بے زنہار نیست
(اے بیٹا! ذوق نظر مجھ سے حاصل کر اور سوز لا الہ میں جلنا مجھ سے سیکھ۔ اگر تو لا الہ کہتا ہے تو دل سے کہہ تاکہ تیرے جسم سے روح کی خوشبو آئے۔ سورج اور چاند بھی سوز لا الہ سے گردش کررہے ہیں اور میں نے اس کی حرارت ہر چھوٹی بڑی چیز میں دیکھی ہے۔ یہ دو حرف لا الہ محض ورد کرنے کی چیز نہیں یہ تو باطل کے خلاف ایک بے پناہ تلوار ہے)
قوت سلطان و میر از لا الہ ... . ہیبت مرد فقیر از لا الہ
تا دو تیغ لاو الا داشتیم .... ماسی اللہ رانشان نگذاشتیم
دارم اندر سینہ نور لا الہ .... در شراب من سرور لا الہ
(بعض بادشاہ اور امیر کی قوت صرف توحید سے ہے اور ایک مرد فقیر کی سطوت بھی توحید سے ہے جب تک ہم نفی باطل اور اثبات حق کی دو تلواریں رکھتے تھے ہم نے دنیا میں غیر اللہ کا نام و نشان نہ رہنے دیا۔ میں اپنے سینے میں نو رالہٰ رکھتا ہوں اور میری شراب زیست سرور لا الہ سےمعمور ہے)
این کہن پیکر کہ عالم نام اوس .... ز امتزاج امہات اندام اوسف
(یہ فرسودہ پیکر جسے دنیا کہتے ہیں اس کا جسم ''عناصر اربعہ'' کی ترکیب سے پیدا ہوا ہے)
صد نیستاں کاشت یایک نالہ رست .... صد چمن خوں کرد تا یک لا لہ رست
(اس نے سینکڑوں نیستاں بوئے تب کہیں ایک نالہ پیدا ہوا اور سینکڑوں چمن خون کیے تب کہیں ایک گل پیدا ہوا)
نقشہا آورد و افگند و شکست .... تابہ لوح زندگی نقش تو بست
(دنیا بے شمار نقش لائی ، انہیں تشکیل دی اور پھر توڑ دیا حتیٰ کہ لوح زندگی پر تیرا نقش ثبت کیا)
نالہ ہاد رکشت ، جاں کاریدہ است .... تانوائے یک اذاں بالیدہ است
(اس نے نوع انسانی کی کشت روح میں بے شمار نالے بوئے اور ان سب سے ایک صدائے اذاں پیدا ہوئی)
مدت پیکار با احرار داشت .... باخداوندن باطل کار داشت
(دنیا عرصہ دراز تک مردان آزاد سے محو پیکار رہی اور اسی طرح پیروان باطل سے بھی مصروف جنگ رہی)
تخم ایماں آخر اندر گل نشاند .... باز بانت کلمہ توحید خواند
(اور آخر کار تیری خاک جسد میں ایمان کا بیج بویا اور تیری زبان سے کلمہ توحید کہلایا)
نقطہ ادوار عالم لا الہ .... انتہائے کار عالم لا الہ
(پرکار عالم کے تمام چکر لا الہ کے گرد گھومتے ہیں اور دنیا کے مکمل نظام کی انتہا لا الہٰ ہے)
نغمہ ہائش خفتہ درساز وجود .... جو مدت اے زخمہ درساز وجود
(توحید کے نغمے ہمارے ساز وجود میں سوئے پڑے ہیں ، اے مضراب! توحید تجھے ساز و جود ڈھونڈ رہی ہے)
صد نوا داری چوں خوں درتن رواں .... خیز و مضرابے بہ تار اورساں
(اے مسلم! تو اپنے جسم میں خون کی مانند سینکڑوں نغمے رواں رکھتا ہے۔ اُٹھ اور اپنے ساز وجود کے تاروں پر توحید لگا)
زانکہ در تکبیر راز بودتست .... حفظ و نشر لا الہٰ مقصود تست
(چونکہ تکبیر ہی میں تیری بقائے ہستی کا راز ہے۔لہٰذا لا الہٰ کی حفاظت و اشاعت ہی تیرا مقصد حیات ہے)
تانہ خیزد بانگ حق از عالمے .... گر مسلمانی! نیا سائی دمے
(جب تک لا الہٰ کی صدائے حق تمام دنیا سے بلند نہ ہو۔ اگر تو مسلمان ہے تو ایک دم کے لیے بھی دم نہ لے)
(جوہر اقبال)
یہ تو اس ''ذات یکتا'' کی وہ خصوصیات توحید ہیں کہ ان کو کوئی مانے یا نہ مانے ، اس کو کوئی فرض کرے یا نہ کرے ، اس کے لیے ثابت ہیں ، بلکہ یہ اس وقت بھی تھیں ، جب کوئی نہیں تھا ، اس وقت بھی رہیں ، جب ''کوئی آگیا'' اور اس وقت بھی بدستور رہیں گی ، جب کوئی نہیں رہے گا ، سدا سے ہے ، سدا رہے گا ، رہے نام اللہ کا ، بس! باقی ہوس!
اس کے علاوہ ''کامل توحید'' کا اعتراف اور تصور صرف اس ملنے میں نہیں ہے کہ : خدا کے حضور میں پرخلوص ، ''ہدیہ عقیدت'' پیش کیا جائے ، بلکہ اس کےساتھ ساتھ کائنات کے مصالح ، عواقب ، مدارج اور مآل کا انحصار بھی اسی ''یقین محکم'' پر ہے۔ خاص کر کائنات انسانی کی سلامتی ، اس کی عافیت اور آخرت کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کامل توحید کا پرخلوص اعتراف اور احترام ضروری ہے۔ انسان ، خدا کی ایک عظیم دریافت اور اس کی تخلیق کا ایک قابل احترام شاہکار ہے ، اس کی نوعی خصوصیات اور مقام و مرتبہ کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے خالق اور مالک کے سوا اور کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِمگر اس کو یہ مقام اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک وہ خدا کے اقتدار اعلیٰ کی غیر منقسم وحدت کا قائل نہ ہو اور یہ ایک واقعہ ہے کہ اس کے اقتدار اعلیٰ میں کوئی بھی اس کے شریک اور مزاحم نہیں ہے۔ ولم یکن لہ شریک فی الملک (بنی اسرائیل ع12)
إن الحكم إلا لله (انعام ع7) کیونکہ جس نے پیدا کیا ہے حکم بھی اسی کا چلے گا۔
ألاله الخلق والأمر (اعراف ع7) بنائے وہ اور حوالے کسی کے ہو، زیادتی ہے ، جو اس زیادتی کا ارتکاب کرتا ہے اس کا انجام خطرہ میں ہے۔
أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ (پ7 انعام ع8)
''سنئیے! حکم اسی کا ہے اور وہ سب سے زیادہ چیک کرنے والا ہے۔''
نوع انسان کی وحدت کا مسئلہ ، ایک اہم ضرورت ہے ، لیکن وہ ''تصورتوحید'' کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔مآخذ اور مراجع جدا جدا رہیں اور ''وحدت'' کی تلقین بھی جاری رہے ، ایک اَن ہونی آرزو ہے یا شیخ چلی کی ایک بڑ۔ اگر دنیا کو بچانا ہے ،اور یہ چاہتے ہو کہ ، انسان ، نوع انسان کاشکاری نہ رہے تو ''قرآنی توحید'' کی آغوش میں ہی پناہ ملے گا۔ ورنہ اس کا وہی حشر ہوگا جو ہورہا ہے۔
صرف نوعی یا ملّی شیرازہ بندی کے لیے ہی تصور توحید ضروری نہیں ہے بلکہ ہر فرد کے انفرادی عمل کی زرخیزی کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہر فرد اپنے کو ایک ہی ہائی کمان کی رہنمائی کے تابع رکھے ، ورنہ اس کی یہ زندگی بھی اختلاف اور تضاد کی بھینٹ چڑھ کر رسوا ہوجائے گی۔ منقسم توجہ اور اعمال حیات کے جداگانہ مرکز ثقل کے نتائج ہمیشہ تباہ کن ہی برآمد ہوئے ہیں اور ایسے ہی برآمد ہوتے رہیں گے۔
توحید کامل میں انسان جتنا راسخ ہوتا ہے ، اتنا ہی اسے ''حضور قلب'' کی دولت حاصل ہوتی ہے ، خدا سے اس کا رابطہ قائم رہتا ہے ، اور قرب و وصال کی منزلیں آسانی سے طے ہوتی رہتی ہیں۔ جو لوگ تصور توحید میں خام ہوتے ہیں وہ ''وساطتوں اور وسیلوں'' کے چکروں میں پڑ کر عموماً ضائع ہوجاتے ہیں ، جن کو خدا تک پہنچنے کاذریعہ سمجھ کر سینہ سے لگاتے ہیں۔ آخر پتہ چلا کہ جسے سجن جانا ، وہی دشمن جاں نکلے۔
باب توحید میں رسوخ کا ایک فائدہ ، پاکیزگی اور طہارت بھی ہے ، کیونکہ جن کو خدا سے ایک گونہ تعلق کی دولت حاصل ہوجاتی ہے وہ جسم و روح اور فکر و عمل کی صفائی اور پاکیزگی کا بالالتزام ، التزام بھی کرتا ہے۔ کیونکہ جب کوئی اپنے کو اس کے حضور میں حاضر محسوس کرتا ہے ، وہ تمام آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک رکھنے کا بھی ضرور اہتمام کرتا ہے۔
دُکھ سُکھ اور بھوک ننگ میں ایک دوسرے کے کام آنے کے لیے اس ''وحدت'' کی نمود ضروری ہے ، جو ''توحید'' کے زیر سایہ تشکیل پاتی ہے ، کیونکہ اس وقت بات ایک ''گھروندا'' کی سی ہوجاتی ہے ، بتکلف نباہنے کی تہمت کا شائبہ باقی نہیں رہتا۔ بلکہ ایک دوسرے کی خاطر اپنے خون کی قربانی یوں پیش کرتے رہے جیسے جام مے ایک بادہ خوار دوسرے بادہ خوار کو۔ (غزوہ یرموک)
لیکن ذوق ایں بادہ ندانی بخدا تانچشی
تصور توحیدکا یہ اعجاز ہے کہ نسل ووطن ، رنگ اور زبان کے امتیازات یوں مٹ گئے کہ ، نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔
اس کا اقبال مرحوم نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔
آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز .... قبلہ رُو ہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز .... نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
یہ وہ اسلامی مساوات ہے ، جس کا ''مساوات محمدی'' کے نعرہ باز حلیہ بگاڑ رہےہیں۔
جو لوگ ''خدائے یکتا'' سے اپنا تعلق جوڑ لیتے ہیں ، وہ ''بیم و رجا'' کے ایک ایسے عالم میں داخل ہوجاتے ہیں ، جو خدا کے حضور شرف باریابی حاصل کرنے کے لیے شرط اوّل ہے ، اگر ہم یہ کہیں کہ ''عہدہ'' کا اصلی مقام یہی ''عالم ورجا'' ہے تو اس میں قطعاً مبالغہ نہیں ہوگا۔
''غیر کی غلامی'' بڑی لعنت اور ابن آدم کی حد درجہ کی تحقیر و تذلیل ہے۔ اگر اس مقام سے اپنے کو کوئی شخص کماحقہ اونچا رکھ سکتا ہے تو وہ صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو ''کامل توحید'' کا شناسائے راز ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ غیر کی غلامی کے چرکوں سے پاک اور محفوظ رہنے کی توفیق صرف ''سچے اور پکے موحد'' کو حاصل ہوتی ہے ، تو اس میں ذرہ بھر بھی جھوٹ کا شائبہ نہ ہوگا۔ دور حاضر میں ''غیر کی غلامی'' کے یہ معنی ہیں کہ ، دوسری قوم کی غلامی اختیار کی جائے مگر ایک موحد کے نزدیک یہ بھی غلامی ہے کہ کوئی اپنے ہم وطنوں کا غلام ، اپنی قوم کاغلام ، اپنی برادری اور مقتداؤں کا غلام یا نفس و طاغوت کا غلام ہو یہ سب غلامیاں ، انسانی شرف و مزیت کی منافی بلائیں ہیں ، جن سے صرف وہ ''بندہ حر'' آزاد رہ سکتاہے جو ان سب کاباغی اور اپنے رب کا''غلام بے دام'' ہوتا ہے۔
اللھم اجعلنا منهم ۔ آمین۔