استفتاء

میت کے ناخن یامونچھیں اگر بڑھ گئی ہوں۔زوجین کاایک دوسرےکوغسل دینا

1۔ ایک لمبا بیمارمرجاتاہے ، اس کی حجامت بنانے والی ہوتی ہے ، یونہی دیکھاجائے تو اس کی شکل اور ڈراؤنی لگتی ہے، اگر اس کے لب وغیرہ درست کردیئے جائیں تو کیا جائز ہے؟

2۔ خاوند یا بیوی میں سے کوئی مرجائے تو کیا وہ ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں، ایک صاحب اس کامذاق اڑاتے ہیں۔صحیح کیا ہے؟

الجواب:

میت کے ناخن وغیرہ: میت گو اب دنیا کے تکلفات اور ریت پریت سے دور چلی گئی ہے اور بہت دور تاہم ہمیں حکم ہے کہ اسے انسان سمجھیں اور اس کے ساتھ شائستہ، باوقار اور شایان شان معاملہ کریں، مثلاً یہ کہ اس کونہلا کر خوشبو لگائی جائے، کفن سفید اور ستھرا دیا جائے، اس کو اچھے نام سے یاد کیا جائے، اس کی قبر پر نہ بیٹھا جائے، اس کی آنکھیں بند کردی جائیں وغیرہ وغیرہ۔ ا ن باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اب بھی اس کی شکل و صورت اور صفائی کاخیال رکھا جائے تو کوئی مضائقہ کی بات نہیں ہے بلکہ بہتر ہے۔

حضرت زینب (حضور کی صاحبزادی) کا انتقال ہوا تو ان کے بالوں کو کنگھی کی گئی۔

أن أم عطیة قالت مشطنا ھا ثلثة قرون (بخاری :ص167؍1)

ولمسلم من روایةأیوب عن حفصة عن اُم عطیة۔ مشطنا ھا ثلثة قرون.... وفیه حجة للشافعي ومن وافقه علی استحباب تسریح الشعر (فتح الباری:ص133؍3) وفي روایة مشطتھا ثلثة قرون (ابن ابی شیبة:ص252؍3 ورواہ أیضاً ابن ماجه والنسائي وغیرهما)

حضرت حسن کا ارشاد ہے کہ میت کےناخن کاٹے جائیں۔

عن منصور عن الحسن قال تقلم أظفار المیت (مصنف ابن أبي شیبة: ص247؍3)

مصنف عبدالرزاق کےالفاظ یہ ہیں:

عن معمر عن الحسن في شعرعانةالمیت إن کان وافرا قال یؤخذمنه (محلی لابن حزم :ص182؍5)

ابوالملیح الہذلی نے وصیت کی تھی کہ جب ان کاانتقال ہو تو اس کے ناخن او ربال کاٹے جائیں۔

أوصاھم فقال إذامات أن یاخذوا من شعرہ و أظفارہ (مصنف: ص247؍3)

ابوالمليح ہذلی حضرت اسامہ بن عمیر (والد) حضرت انس او رحضرت عائشہ کے شاگرد ہیں۔ 98ھ میں وفات پائی ہے۔ (خلاصہ:ص396)

حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابن عمرؓ کے شاگرد حضرت بکر بن عبداللہ المزنی (احدالاعلام) کا یہ دستور تھاکہ جب کسی میت کےبال اور ناخن بڑھے ہوتے تو وہ انہیں کاٹ دیتے۔

عن حمید عن بکر أنه کان إذا رأی من المیت شیئا فاحشا من شعر و ظفر أخذہ و قلمه (مصنف ابن ابی شیبۃ:ص247؍3)

اگر میت کے زیرناف کے بال بھی بڑھے ہوتے تو حضرت سعد بن ابی وقاص استرا منگوا کر اسے مونڈ دیتے تھے۔

عن أبی قلابة أن سعد اغسل میتافدعا بموسی فحلقه (ایضاً)

مصنف عبدالرزاق میں اس کی تصریح ائی ہے کہ یہ سعد، حضرت سعد بن ابی وقاص ہیں۔ (ملاحظہ ہو محلی:ص182؍5)

حضرت حفصہؓ کنگھی کرنے کو فرماتی تھیں۔

إنھاقالت سرح شعرالمیت فإنه یجعل معه(مصنف :ص248؍3)

امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ اس کاتعلق فطرت سے ہے، اس لیےفطرت کی صورت میں اسےرب کے پاس بھیجا جائے۔

وصح بأن کل ذلك من الفطرة فلا یجوز أن یجھز إلی ربي تعالیٰ الأعلیٰ الفطرة التي مات علیها (محلی: ص181؍5)

نیز لکھتے ہیں کہ اس کے جومخالف ہیں، وہ ایسے صحابی کی مخالفت کو عظیم جرم تصور کرتے ہیں جن کاکوئی مخالف نہ ہو۔ یہاں بھی یہی بات ہے کہ حضرت سعد کا کوئی بھی مخالف نہیں ہے: گویا کہ یہ اجماع سکوتی ہے۔

وھم یعظمون مخالفة الصاحب الذي لا یعرف له مخالف من الصحابة رضی اللہ عنهم وھذا صاحب لایعرف له منھم مخالف (محلی:ص182؍5)

احناف کے نزدیک یہ کام جائز نہیں ہیں:

ولا یسرح شعر المیت ولا لحیته ولا یقص ظفرہ ولا شعرہ لقول عائشةعلام تنقصون میتکم ولان ھذہهالأشیاء للزنیة وقد استغنی المیت منھا (ھدایہ باب الجنائز: ص179؍1)

مگر حضرت عائشہ ؓ والی روایت منقطع ہے۔

وھو منقطع بین إبراهیم و عائشة (درایۃ باب مذکور)

باقی رہی زینت کی بات؟ سو مردہ بھی ایک حد تک اس کا مستحق ہے۔ آخر اس کونہلایا جاتا ہے اچھا کفن دیا جاتاہے، اس کوخوشبو بھی لگائی جاتی ہے۔بہرحال زینت نہ سہی، اس کو بھدی حالت میں خدا کے ہاں بھیجنا مناسب نہیں محسوس ہوتا۔ واللہ اعلم۔

خاوند بیوی کا ایک دوسرے کو غسل دینا: اس مسئلہ پر تو اجماع ہےکہ جب شوہر مرجائے تو عورت اس کو غسل دے سکتی ہے۔

نقل ابن المنذر وغیرہ الإجماع علی جواز غسل المرأة زوجھا (التعلیق الممجدہ :ص129)

قال الشاه ولی اللہ، واتفقوا علی جواز غسل المرأة زوجھا (مسوی شرح مؤطا: ص191؍1)

حضرت صدیق اکبرؓ جب فوت ہوئے تو آپ کی زوجہ محترمہ (حضرت اسماء بنت عمیس ) نے صحابہ کی موجودگی میں غسل دیا۔

أن أماء بنت عمیس امرأة أبي بکر الصدیق غسلت أبابکر الصدیق حین توفي ثم خرجت فسألت من حضرھا من المھاجرین فقالت إنی صائمةوإن ھذا یوم شدید البر وقالوا: لا (موطا مالک :ص191؍1 و موطا محمد: ص129)

اس کی بھی وصیت حضرت صدیق اکبرؓ نے کی تھی۔

عن ابن أبی ملیکة: أن أبابکر الصدیق حین حضره الوفاة أوصی أسماء بنت عمیس أن تغسله وکذا قال ابن شداد (مصنف: ص249؍3 ،ابن ابی شیبۃ باب في المرأۃ تغسل زوجھا)

حضرت جابر بن زید نے اپنی بیوی کو وصیت کی تھی کہ وہ ان کوغسل دے۔

أنه أوصیٰ أن تغسله امرأة (ابن ابی شیبۃ: ص249؍3)

حضرت ابوموسیٰ کو اس کی اہلیہ نے غسل دیا تھا۔ (ایضاً :ص250؍3)

عن إبراهیم بن مهاجرأن أبا موسیٰ غسلته امرأته(ایضاً ص250؍3)

حضرت عبدالرحمان بن عوف کے صاحبزادے حضرت ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ اگرعورتوں میں مرد مرجائے تو اس کی اہلیہ اس کو غسل دے۔

في الرجال یموت مع النساء قال تغسله امرأته(ایضاً)

حضرت عطافرماتے ہیں کہ اس کی بیوی اسے غسل دے۔

تغسل المرأة زوجھا (ایضاً)

ہاں اس امر میں اختلاف ہے کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دے یا نہ؟ احناف اس کو جائز نہیں سمجھتے۔مگر یہ بات محل نظر ہے کیونکہ یہ بات صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ حضور نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا کہ اگر آپ کا مجھ سے پہلے انتقال ہوگیا توآپ کو غسل بھی میں دوں گا اور کفن بھی میں پہناؤں گا۔

لو مت قبلي لغسلتك و کفنتك (أحمد و الدارمی و ابن ماجہ و ابن حبان والدارقطني والبیهقي۔ تلخیص الجیر : ص154)

امام بیہقی فرماتے ہیں، محمد بن اسحاق مدلس ہے، یہاں غعنہ ہے، امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس روایت میں محمد بن اسحاق منفرد نہیں ہے بلکہ صالح بن کیسان اس کا متابع ہے کما رواہ أحمد و النسائي (تلخیص : ص154) فرماتے ہیں لغسلتك غلط ہے فغسلتك صحیح ہے (ایضاً)

علامہ سندھی لکھتے ہیں: مجمع الزوائد والے فرماتے ہیں کہ اس کے راوی سب ثقہ ہیں۔

وفي الزوائد إسناد رجاله ثقات (حاشیہ سندھی علی ابن ماجہ : ص447؍1)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اگر وہ بات مجھے پہلے معلوم ہوجاتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو حضورﷺ کو ان کی بیویاں ہی غسل دیتیں:

لو کنت استقبلت من أمری ما استدبرت ما غسل النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غير نسائه(ابن ماجہ: ص446؍1)

سندھی فرماتے ہیں کہ :محمد بن اسحاق کی تدلیس کا اندیشہ بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ حاکم وغیرہ کی روایت میں سماع کی تصریح آگئی ہے۔

ومع ذلك ذکرہ صاحب الزوائد أیضاً فقال إسنادہ صحیح و رجاله ثقات لأن محمد بن إسحاق دون کان مدلسا لکن قد جاء عنه التصریح بالتحدیث في روایة الحاکم وغیرہ (حاشیہ علی ابن ماجہ: ص447؍1)

حضرت علیؓ نے حضرت فاطمۃ الزہراؓ کو غسل دیا تھا۔

أن علیا غسل فاطمة رواہ الشافعي والدارقطني و أبونعیم في الحلیة والبیهقي(تلخیص الجیر :ص170 وقال و إسنادہ حسن)

اور اس سلسلے میں جو اعتراض کیے گئے ہیں، اس کا بھی جواب دیا (تلخیص ص170) درمختار میں اس پر بعض صحابہ کا انکار لکھا ہے۔مگر وہ کون ہیں اور کس کتاب میں ہے؟ اس کاکچھ پتہ نہیں!

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دینے کازیادہ حق رکھتا ہے۔

عن ابن عباس قال: الرجل أحق بغسل امرأته (ابن ابی شیبۃ: ص250؍3)

عبدالرحمٰن بن الاسود فرماتے ہیں کہ اپنی بیوی کو میں نے غسل دیا تھا۔

أبت أم امرأتي و أختھا أن تغسلھا فولیت غسلھا بنفسي (ص250؍3 ،ایضاً)

حضرت عبدالرحمٰن حضرت عائشہؓ کے شاگرد ہیں، اسّی (80)حج اور اسّی (80) عمرے کئے ہیں۔( خلاصۃ تذہیب الکمال :ص190)

حضرت سلیمان بن یسارفرماتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کو غسل دےسکتا ہے۔

یغسل الرجال امرأته(مصنف ابن ابی شیبۃ : ص250؍3)

حضرت عون بن ابی جمیلہ (تبع تابعین میں سے) فرماتے ہیں کہ میں حضرت قسامۃ او ران شیوخ کے پاس موجود تھا جنہوں نے حضرت عمرؓ کو پایا تھا، فرماتے ہیں ایک شخص نے اپنی بیوی کو غسل دینے کا ان سے ذکر کیا تو کسی نے ان پراعتراض نہ کیا۔

شھد قسامةبن زھیر و أشیا خا أدرکوا عمر بن الخطاب وقد أتاھم رجل فأخبرھم أن امرأته ماتت فأمرته أن لا یغسلھا غیرہ فغسلھا فما منھم أحداأنکرذلك (محلی ابن حزم : ص180؍5 و ابن ابی شیبۃ طویلا: ص251؍3)

حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دینے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔

الرجل أحق أن یغسل امرأته من أخیھا (محلی :ص179؍5)

حضرت جابر، حضرت ابن عباس، حضرت معاویہ اور حضرت ابن عمر جیسے جلیل القدر صحابہ کے شاگرد ہیں، حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے وہ علماء میں سے ہیں۔

ھو من العلماء (خلاصہ تذھیب الکمال: ص50)

عبدالرحمان بن الاسود فرماتے ہیں کہ:

اپنی بیویوں کو میں نے خود غسل دیا کرتا ہوں، ان کی ماؤں اور بہنوں کو روک دیتا ہوں۔

إني لأ غسل نسائي و أحول بینھن و بین أمھاتین و بناتھن وأخواتھن (محلی: ص179؍5)

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں، میاں بیوی ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں۔

یغسل کل واحد صاحبه(محلی: ص179؍5 و ابن ابی شیبۃ :ص250؍3)

حضرت حسن بصری تمام شیوخ صوفیہ کی آخری کڑی ہیں، ان کے بعد حضرت علی کاسلسلہ چلتا ہے۔ آپ حضرت جندب، حضرت انس، حضرت عبدالرحمٰن بن سمرۃ، حضرت معقل بن یسار، حضرت ابوبکرہ اور حضرت سمرۃ جیسے عظیم صحابہ کے شاگرد ہیں۔ (خلاصہ:ص66)

حضر ت امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ جس صحابی کامخالف کوئی صحابی نہ ہو، حنفی اس سے خلاف کرنے کو عظیم جرم تصور کرتے ہیں، حضرت ابن عباس کی یہ روایت ہے، کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی مگر یہ خود اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

والحنفیون یعظمون خلاف الصاحب الذین لا یعرف له منھم فخالف وھذه روایةعن ابن عباس لا یعرف له من الصحابة مخالف وقد خالفوہ (محلی: ص180؍5)

حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ کسی مرد کا عورت کو اور عورت کامرد کو ہاتھ نہ لگے۔ اس کا تعلق زندوں سے ہے، مردوں سے نہیں ہے۔ اگر اس کاتعلق اس سے بھی کرنا ہے تو دلیل چاہیے۔ اذ لیس فلیس۔ اگر مردہ زندہ پر قیاس کرنا ہے تو یہ قیاس، قیاس من الفارق ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کو حضرت ابوطلحہ نے قبر میں اتارا تھا او راس میں بدن کا چھونا ہوتا ہے۔ حضرت اسماء نے حضرت ابوبکر کو غسل دیا تھا او رحضرت رسول کریمﷺ نے حضرت عائشہ سے فرمایا تھا کہ اگر آپ کا پہلے انتقال ہوا تو میں آپ کو غسل بھی دوں گا اور کفن بھی پہناؤں گا۔

''وآنکہ زن مرد مردہ را نہ بیندو نہ غسل دہد اگرچہ خوف فتنہ نباشد مستندی نہ دارد بلکہ وجوب سر بہ نسبت احیاء است ۔ بہ نسبت اموات دلیلے می طلبد ولیس فلیس، واگر قیاس کنند بر احیاء، قیاس مع الفارق است و ابوطلحہ بنت آنحضرت ﷺ رادر قبر نرود آوردہ و زود آوردن ناچار بمس میکنند و اسماء بنت عمیس غسل داد ابوبکر صدیق راد آنحضرت ﷺ فرمودند حضرت عائشہ را:

تنبیہ: جہاں صرف عورتیں ہوں او رمرد مرجائے یا صرف مرد ہوں او رایک عورت فوت ہوجائے، ان میں بیوی یا شوہر نہ ہو، تو پھر کیا ہونا چاہیے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک جماعت کاکہنا ہے کہ کپڑوں میں سے اسےنہلا دیں، دوسری جماعت کا نظریہ ہے کہ اگر عورت ہے تو اس کے صرف چہرہ یا ہاتھوں کاتیمم کرائیں، اگر مرد ہو تو چہرہ کے ساتھ کہنیوں تک اس کا تیمم کرائیں، بعض بزرگوں کا ارشاد ہے، تیمم نہ غسل ، بس انہیں یونہی دفن کردیں۔

فقال قوم: یغسل کل واحدمنھما صاحبه من فوق الثیاب وقال قوم تیمم کل واحد منھما صاحبه و به قال الشافعي و أبوحنیفة و جمهور العلماء قال قوم: لا یغسل واحد منھما صاحبه ولا تیممه و به قال اللیث بن سعد بریدفن من غیر عسل .... ولذلك دای مالک أن تیمم الرجل المرأة في یدیھا ووجھما فقط ... وان تیمم المرأة الرجل إلی الرفقین (بدایة المجتہد: ص227؍1)

شاہ ولی اللہ نے امام شافعی کامذہب پیرہن میں غسل دینا بتایا ہے (مصفی : ص192؍1) امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ کپڑوں میں اسے غسل دینے میں کوئی مخطور لازم نہیں آتا: ولا کراھۃ فی ھب الماء اھلا (محلی:ص180؍5) کیونکہ تیمم کے لیےشرط عدم الماء ہے (ایضاً : ص181؍5) مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ بیمار بھی کرسکتا ہے۔زہری اور قتادہ بھی پیرہن میں غسل دینے کو کہتے ہیں۔ تغسل و علیھا ثیاب (محلی:ص 181؍5) فرماتے ہیں کہ یہ بھی عجیب بات ہے کہ کپڑے سے اوپر چھونے سے بھاگے مگر تیمم میں چھو ہی لیا: والعجب أن القائلین أنھا تیمم، فروامن المباشرة خلف ثوب وأبا حوها علی البشرة وهذا جهل شدید و بالله التوفیق (محلی: ص181؍5)

ہمارے نزدیک یہی مذہب اقرب الی الصوب ہے، حضور کو کپڑوں میں غسل دیا گیا تھا۔ (ابوداؤد)

حضرت ابن عمر او رحضرت عطاء بھی کپڑوں میں غسل دینے کو فرماتے ہیں۔ (ابن ابی شیبہ:ص249؍3)